الأربعاء، 25 جمادى الأولى 1446| 2024/11/27
Saat: (M.M.T)
Menu
القائمة الرئيسية
القائمة الرئيسية

شامی قومی اتحاد کے وفد کا دورہ واشنگٹن اور اسے شامی عوام کا نمائندہ ظاہر کرنا جھوٹ اور فریب ہے اس دورے کا مقصد سابق مجرم ایجنٹ کی جگہ لینے کے لیے "الجربا" کو بطور متبادل ایجنٹ تیار کرنا ہے

5 مئی 2014 الجربا نے شامی قومی اتحاد کے وفد کے طویل دورہ واشنگٹن کی سربراہی کی جو کہ کل 14 مئی کو اختتام پزیر ہوا۔ اس دورے کے دوران امریکی انتظامیہ، محکمہ دفاع، وزارت خارجہ، نیشنل سیکورٹی کونسل کے اہم اہلکاروں، کانگرس کے ارکان اور موجودہ و سابقہ حکومتی اہلکاروں سے ملاقاتیں کی گئی۔ اس دورےکا اختتام آخری وقت میں امریکی صدر بارک اوباما کے ساتھ ایک "ہنگامی ملاقات" پر ہوا جو کہ اس دورے میں شامل نہیں تھی۔ واشنگٹن نے بيک وقت بشار کی حکومت کا سفارت خانہ اور بہت سے قونصل خانوں کو بند کرتے ہوے واشنگٹن میں موجود اتحاد کے آفس کو "فارن مشن" کا درجہ دے دیا۔ شام کے لیے امریکی سفیر ڈینیل روبنسٹن، جس نے فورڈ کی جگہ لی ہے، نے کہا کہ الجربا کے وفد کا دورہ جس میں فری سیرین آرمی کے عبداللہ البشیر اور کئی اہم سیاسی رہنما شامل تھے، بہت اہم ہے۔ مزيد کہا کہ یہ دورہ ایک ایسے وقت میں ہواہے جب امریکی انتظامیہ شام کے بارے میں اپنی پالیسی پر "نظر ثانی" مکمل کرنے والی ہے۔ اس سے ظاہر ہے یہ دورہ امریکی انتظامیہ کے اشارے پر کیا گیا جس کا مقصد اتحاد کو فیصلہ کن انداز میں جانچنا تھا کہ کیا یہ امریکی مفاد کو پورا کرنے میں بشار کی طرح موزوں ہے یا نہیں؟یہ مفاد امریکہ اور "نئے شام" کے درمیان اسٹریٹیجک تعلقات کو پیدا کرنا، انتہا پسند گروہوں کے خلاف انسداد دہشتگردی کی کوششوں، امداد کی وصولی اور شام میں امن اور سلامتی کے لیے روڈ میپ پر ایک ڈرافٹ پیش کرنا ہے۔ اس میں سکیورٹی تعاون، فری سيرين آرمی کی صلاحیتوں اور امریکی امداد کو "ذمہ داری" سے استعمال کرنا بھی شامل ہے۔
امریکہ جانتا ہے کہ اس کا ایجنٹ بشار مکمل طور پر چلا ہوا کارتوس ہے اسی لیے اوباما اوراتحاد کے وفد کی ملاقات کے بعد وائٹ ہاؤس سے جاری ہونے والے بیان میں کئی بار یہ ذکر کیا گیاکہ "بشار الاسد شام پر حکومت کرنے کے تمام قانونی جواز کھو چکا ہے اور ملک کے مستقبل میں اس کا کوئی کردار نہیں"۔ یہ امریکہ ہی ہے جو بشار کی حکومت کو سہارا دے رہا ہے اور اس کے جنگی جرائم اور شیطانیت پر پردہ ڈال رہا ہے لیکن ایسا وہ اس وقت تک کرے گا جب تک وہ اس کا ایک متبادل تیار نہ کرلے اور عبورى مرحلے کی قیادت میں اپنا اثرو رسوخ مضبوط نہ کرلے۔یہ بیان بڑے واضح اشاروں پر مشتمل ہے..... جیسا کہ "صدر اوباما نے اتحاد کے رہنماؤں اور بات چیت کرنے کے لیے تعمیری نقطہ نظر کو خوش آمدید کہا" اور "ایک جامع معاہدہ جو تمام شامی عوام کی نمائندگی کرے" کے نقطہ نظر کو فروغ دینے میں اتحاد كے كردار کی حوصلہ افزائی کی۔ یہ بہت واضح ہے کہ یہ الفاظ اتحاد کو ایک مخصوص کام کے لیے بطور ایجنٹ سند عطا کرتے ہیں جو کہ "ایک جامع معاہدہ جو تمام شامی عوام کی نمائندگی کرے" کے نقطہ نظر کو فروغ دینا ہے۔ اسی طرح بیان میں تمام شامی عوام کی نمائندہ حکومت تشکیل دینے کا مطالبہ کیا گیا اور یہ وہی مطالبہ ہے جو کہ "جنيوا کانفرنس" میں بھی کيا گیا تھا۔ جیسا کہ امریکہ جنيوا کانفرنس کے مطابق اور خاص کر ابراہیمی کے استعفیٰ کے بعد عبوری مرحلے کی قیادت پر اکيلا قبضہ کرنا چاہتا ہے۔ اس رجحان کی تصديق بیان میں ذکر کردہ اس بات سے بھی ہوتی ہے کہ "ہر فريق میں موجود دہشتگرد گروہوں کے مقابلے کی ضرورت ہے" یعنی مسلمانوں کے گروہ جو نظام کے خلاف اسلامی نظام کے منصوبے کو لے کر کھڑے ہوئے، جن کو یہ دہشتگرد اور تکفیری گروہ کے طور پر بیان کرتا ہے اور حکومتی گروہ جن کے ہاتھ خون سے رنگے ہیں جبکہ حکومت مخالف تمام ہی گروہوں کے ہاتھ خون سے رنگے ہیں۔ اسی وجہ سے الجربا کویہ کہنا پڑا کہ وہ" تیسری درمیانی راہ" کی نمائندگی کرتا ہے، جو امریکی حل کی معاونت کرتی ہے۔ جہاں تک ہتھیاروں کا تعلق ہے، امریکہ کے اپنے اندازے ہیں اوریہ کام سی آئی اے براہ راست کرتی ہے اور اس نے کئی ایسے گروہ بنا لیے ہیں جن کی وفاداری یقینی ہے اور یہ ہتھیاروں کے استعمال کی اجازت اس وقت تک نہیں دے گا جب تک یہ یقین نہ کر لے کہ اتحاد اس کے منصوبے پر عمل پیرا ہے اور دہشتگردوں کا مسئلہ ختم کردیا ہے۔جس طرح امریکہ حافظ اور بشار کو حکومت میں لایا تو ان مذاکرات کی کامیابی کے بعد اس کو نکال باہر کرے گا اور پھر عبوری حکومت قائم کرے گا جس طرح جنيوا کانفرنس کی شرائط میں طے کیا گیا تھا۔
یہ دورہ درج ذيل امور کی تصديق کرتا ہے:
اول امریکہ شام کی موجودہ حالت میں اکیلا فیصلہ ساز بننے کے لیے کام کر رہا ہے۔اس نے دوسروں سے ہٹ کر عبوری مرحلے کی طرف اکيلے پیش قدمی کرنا شروع کر دی ہے۔ جنيوا کانفرنس اپنی تمام سفارشات کے ساتھ ابھی بھی زندہ ہے۔ "اتحاد" امریکہ کو اپنى وفاداری ثابت کرنے کے لیے شدید جدوجہد کررہا ہے حتٰى کہ یہ امریکی منصوبے پر عمل کرتے ہوے اسے "نيا شام" دینے پر تیار ہے۔الجربا کے بیانات اوراتحاد کا موقف مکمل امریکی ہے۔ واشنگٹن میں الجربا نے کثرت رائے سے بننے والی "سول جمہوری حکومت" کے قیام کا مطالبہ کیا اور امریکی لب و لہجہ استعمال کرتے ہوے "تکفیری دہشتگردوں" سے لڑنے کی ضرورت کو بیان کیااور اس "تیسری درمیانی راہ" کی حمایت کی جو امریکی انتظامیہ کو قبول ہے، حتٰى کہ اس نے فری سيرين آرمی کو "خواہ کم مقدار ہی میں ہو" معیاری ہتھیار فراہم کرنے کا مطالبہ بھی کیا تا کہ توازن قائم کر کے بشار کو بات چیت کے لیے راضی کیا جا سکے۔اس طرح وہ امریکی حل نکل سکے جو امریکہ تیار کر چکا ہے اور نافذ کرنے کی تیاریوں میں مصروف ہے..... اگر یہ اس طرح کرنے کے قابل ہوا۔
اے شام کے مسلمانوں! تم نے امریکہ کی شام میں حکمرانی میں رہنے کے تمام منصوبے ناکام بناتے ہوئے اسے تھکا دیا ہے، اب اس کے نوکر "الجربا اوراتحاد میں موجود اس کے ساتھیوں" کو اجازت مت دو کہ یہ شام میں قدم جما سکیں۔ تم نے قابل تعريف قربانیاں اس لیے نہیں ديں کہ ہماری سرزمین پر طاغوت کی حکمرانی قائم رہے۔ جان رکھو کہ تم امریکہ اور اس کا اثر و رسوخ ختم کرنے کے قابل نہ ہو گے سوائے خلافت کی صورت میں اسلامی نظام قائم کر کےجو کہ اس خطے سے امریکہ کی جڑیں کاٹ دے گی اور اسے ذلیل کرتے ہوے نکال باہر کرے گی۔اللہ سبحانہ و تعالٰی فرماتے ہیں، ﴿وَلَيَنْصُرَنَّ اللَّهُ مَنْ يَنْصُرُهُ إِنَّ اللَّهَ لَقَوِيٌّ عَزِيزٌ﴾ "اور جو الله كى مدد کریں الله ضرور ان كى مدد كرتا ہے، يقينا الله بہت زبردست طاقت والا ہے" (الحج: 40)۔
ہم حزب التحریر صرف ریاست خلافت کا قیام چاہتے ہیں جو کہ ہمارے تمام معاملات کو درست کرے گی۔ یہ وہ منصوبہ ہے جو الله نے ہم پر فرض کیا اور اس پر عمل کرنا الله کو راضی کرتا ہے اور وہی ہمیں فتح نصيب فرمائے گا۔ رسول اللهﷺ نے فرمایا: «وما تقرَّبَ إليَّ عبدي بشيءٍ أحبَّ إليَّ مما افترضتُه عليه» " جس چیز کے ذریعے میرا بندہ میرا قرب حاصل کرتا ہے اس میں سے کوئی چیز مجھے ان فرائض سے زیادہ محبوب نہیں جو کہ میں نے اس پر عائد کیے ہیں" (البخاری)
الله سبحانہ و تعالٰی فرماتے ہیں:
﴿وَعَدَ اللَّهُ الَّذِينَ آمَنُوا مِنْكُمْ وَعَمِلُوا الصَّالِحَاتِ لَيَسْتَخْلِفَنَّهُمْ فِي الْأَرْضِ كَمَا اسْتَخْلَفَ الَّذِينَ مِنْ قَبْلِهِمْ وَلَيُمَكِّنَنَّ لَهُمْ دِينَهُمُ الَّذِي ارْتَضَى لَهُمْ وَلَيُبَدِّلَنَّهُمْ مِنْ بَعْدِ خَوْفِهِمْ أَمْنًا يَعْبُدُونَنِي لَا يُشْرِكُونَ بِي شَيْئًا وَمَنْ كَفَرَ بَعْدَ ذَلِكَ فَأُولَئِكَ هُمُ الْفَاسِقُونَ﴾
"تم میں سے ان لوگوں سے جو ایمان لائے ہیں اور نیک اعمال کیے ہیں اللہ تعالٰی وعدہ فرما چکے ہیں کہ انہیں ضرور زمین میں خلیفہ بنائے گا جیسے کہ ان لوگوں کو خلیفہ بنایا تھا جو ان سے پہلے تھے اور یقیناً ان کے لیے ان کے اس دین کو مضبوطی کے ساتھ محکم کر کے جما دے گا جسے ان کے لیے وہ پسند فرما چکا ہے اور ان کے اس خوف و خطر کو وہ امن سے بدل دے گا، وہ میری عبادت کریں گے اور میرے ساتھ کسی کو شریک نہ ٹہرائیں گے، اس کے بعد بھی جو لوگ نہ شکری اور کفر کریں وہ یقیناً فاسق ہیں" (النور: 55)۔

Read more...

سوال کا جواب: چین کامقابلہ کرنے کی بھارتی پالیسی پر امریکی اثرات

سوال: 7 اپریل 2014 کو انڈیا میں عام انتخابات کا آغاز ہوا، جو 12 مئی 2014 تک جاری رہیں گےاوراس کے نتائج کا اعلان 16 مئی 2014 کو کیا جائے گا۔ ان انتخابات میں دو بڑی سیاسی جماعتیں حصہ لے رہی ہیں، ایک بی جے پی (بھارتیہ جنتا پارٹی) جن کے امریکہ کے ساتھ روابط ہیں اور یہ اس کی اتحادی ہے جبکہ دوسری کانگریس ہے جو انگریز نواز ہے اورجس نے 2004 کے انتخابات میں کامیابی حاصل کرکے برسر اقتدار آنے کے بعدسے امریکہ کے ساتھ روابط میں سرد مہری کامظاہرہ شروع کیاتھا، کیونکہ اس کے تعلقات برطانیہ کے ساتھ تھے، نیز چین کا سامنا کرنے میں بھی خوف کا مظاہرہ کیا.....سوال یہ ہے کہ چین کا مقابلہ کرنے کی بھارتی پالیسی پر امریکہ کس حد تک اثر انداز ہوگا؟ اور ایشیا پیسفک کیلئے امریکی حکمت عملی اور اس تصادم میں جاپان اور آسٹریلیا کو بھی داخل ہونے پر آمادہ کرنے کے ساتھ اس کا کیا تعلق ہے؟ کیا بھارت میں برسر اقتدار آنے والی پارٹی کی نوعیت اس امریکی پالیسی پر بہت زیادہ اثر انداز ہو گی؟ مثلاً کانگرس یا بی جے پی میں سے کسی ایک پارٹی کو کامیابی حاصل ہوجائےتو اس پالیسی پر کیا اثرات مرتب ہوں گے؟ کیا بھارت چین سے ٹکر لینے کے قابل ہے؟ اور چین وبھارت کے درمیان طاقت کے توازن کی صورتحال کیاہے؟
جواب: ان سوالات کا جواب مندرجہ ذیل امور کو مد نظر رکھنے سے واضح ہوگا:
1۔ امریکہ نے ایشیا پیسفک بالخصوص مشرقی وجنوبی بحر چین میں اورگردوپیش کے ممالک کے ذریعے چین کامحاصرہ کرنے پر کام کیا۔ چنانچہ اس مقصد کیلئے اس نے معاہدے، شراکت داریاں اور علاقائی ممالک کے ساتھ تعلقا ت مستحکم کیے۔ ایک دہائی کے عرصے پر مشتمل اس حکمت عملی میں مزید سنجیدگی اُس وقت آئی جب امریکہ نے دیکھا کہ چین کا دائرہ تنگ کرنے کی پالیسی اب انتہاء کو پہنچ چکی ہے یعنی اس کیلئے اب مزید چین کا گھیرا تنگ کرنا ممکن نہیں رہا تو امریکہ اس کے قریب آنے لگا۔ امریکہ نے چین کو عالمی تجارتی تنظیم (WTO)میں شامل کیااور اس کے ساتھ تجارتی تعلقات بڑھائے اوراب چین کے ساتھ امریکہ کا اسٹرٹیجک مذاکرات ماضی کی طرح حساس نہیں رہا.....لیکن اس کے باوجود چین امریکی مدار میں آیا اورنہ ہی امریکی حکمت عملی کے مطابق اس کااتحادی بنا اور نہ ہی امریکہ اس قابل ہوسکا کہ مشرقی وجنوبی بحر چین کے خطے پرچین کے تسلط حاصل کرنے کی خواہشات کو محدود کرسکے۔ یہ علاقہ چین کا اہم اور ناگزیر علاقہ سمجھا جاتا ہے اور اپنی بقاء،یکجہتی اور آزادی کی حفاظت کرنے والی علاقائی بڑی ریاست کی حیثیت سے چین اب بھی اپنی عسکری و اقتصادی طاقت کو مستحکم کرنے کیلئے کوشاں ہے، اس لئے وہ اپنی اقتصادی قوت کو نہ صرف منافع حاصل کرنے بلکہ بعض خطوں میں سیاسی اثرات کو بڑھانے کیلئے بھی استعمال کرنے لگا ہے اور اپنے خطے میں اپنے اثر ونفوذ کو بڑھانے پر وہ اس انداز سے کام کررہاہےجو امریکی حکمت عملی سے متصادم ہے یا جس کی وجہ سے امریکی نفوذ خطرے میں پڑ سکتا ہے۔ بلاشبہ چین کی کچھ علاقائی خواہشات ہیں اور وہ یہ کہ اس خطے پر جسے وہ ناگزیر سمجھتا ہے، کنٹرول حاصل کرے اورچین صرف خشکی والے علاقے پر قناعت نہیں کرتا، ورنہ اس صورت میں وہ ایک بڑی اقتصادی ریاست ہوتے ہوئےبھی ان ہی زمینوں میں محصور ہوکر رہ جائے گا۔ امریکہ بھی چین کے سمندری علاقے کو اپنے لئے ناگزیر علاقے کی نظر سے دیکھتا ہے۔ لہذا امریکی غرور اس پر بس نہیں کرے گا کہ اس کی حدود میں کوئی دوسری بڑی علاقائی ریاست موجود ہو بلکہ وہ پوری دنیا کو اپنا ہی خطہ سمجھتا ہے، اس لئے وہ عالمی امریکی بالا دستی کی توسیع کیلئے چینی علاقے میں اس کے خلاف مزاحمت کرتا ہے .....لیکن تجارتی تعلقات اور اسٹرٹیجک مذاکرات میں چین کے ساتھ قریبی تعلقات کے ذریعے چین کے گردگھیرا تنگ کرنے کی پالیسی نہ تو چین کو امریکی مدار میں لا نے میں کامیاب رہی اور نہ ہی معروف معنوں میں چین اس کا اتحادی بنا بلکہ چین کی علاقائی پالیسی امریکہ کیلئے پریشانی کا باعث بنی ہے۔ اس لئے اب صرف گھیراؤ کی پالیسی کار گر نہیں رہی۔ پس امریکہ نے ایشیا پیسفک کے متعلق نئی پالیسی وضع کرلی جس کے نفاذ کیلئےاسےاپنے 60فیصد بحری اثاثوں کو اس خطے میں تعینات کرنا پڑے گا۔ اس کے ساتھ ساتھ چین کو علاقائی مسائل میں اُلجھا نے کے ذریعے اس کا گھیراؤ کرنے کی پالیسی کو بھی امریکہ نے اپنایا ہوا ہے۔ امریکہ نے گھیراؤ کی اس پالیسی پر خطے کے ممالک کو اکسانے کی کوششوں پر توجہ مرکوز کررکھی ہے۔ وہ ممالک جو اس پالیسی پر اثر انداز ہوسکتے ہیں ان میں تین ممالک سرفہرست ہیں: بھارت، جاپان اور آسٹریلیا۔
2۔ جہاں تک بھارت کی بات ہے تو اس کی چین کے ساتھ 3488 کلومیٹر طویل سرحد ہے اور ان دونوں ممالک کےدرمیان سرحد سے متعلق کچھ حل طلب مسائل موجود ہیں۔ ربع صدی سے ان مسائل پر بات چیت کے ادوار منعقد کئے جاتے رہےہیں جس میں سب سے حالیہ 14واں دور دونوں ممالک کے درمیان سرحد کی شناخت کے لئے منعقد کیا گیا۔ پھر با ت چیت میں تعطل واقع ہوا اوراس کا 15واں دوراب تک منعقد نہیں ہو سکا کیونکہ 15 اپریل 2013 کو چینی فوجی بھارت کی سرحدپار کر کے لداخ کے علاقے میں گھس آئے۔ انھوں نے وہاں کیمپ لگائےپھر تین ہفتے بعد وہاں سے واپس چلے گئے۔ یہ ایک ایسا عملی مظاہرہ تھا جس کا مطلب بھارت کو یہ پیغام دینا تھا کہ چین سرحد پار کرنے اور جنگ میں کودنے کی قابلیت رکھتا ہے، جیسا کہ اکتوبر 1962 میں ہوا تھا جب چینی فوج نے اروناچل پردیش پر یلغار کرکے بھارتی فوجیوں کو بھگا دیاتھا۔ پھر اس آپریشن کے ایک مہینہ بعدچینی فوج نے دوسری باربھارتی زمینوں پر حملہ کرکے لگ بھگ 2000 بھارتیوں کو قتل کرڈالا۔سرحدوں کی واضح نشاندہی کا معاملہ اب تک حل طلب ہے اور اس وقت جو سرحد ہے اسے "حقیقی لائن آف کنٹرول" کہا جاتا ہے۔ دونوں ممالک کے درمیان یہی وہ گرم نقطہ ہے جو مسلسل کشیدگی کا باعث ہے۔ تبت کے مسئلے سے پیدا شدہ کشیدگی اس کے علاوہ ہے جس پر چین نے 1950 میں قبضہ کیا تھا۔ یہ علاقہ بھارتی سرحد سےمتصل ہے۔ لہٰذا بھارت نےاس مسئلے کو بھڑکانے کیلئے امریکہ کو شریک کیا اور یہ دونوں اس خطے کے بدھ مذہب کے پیروکاروں اور ان کے رہنما دلائی لاما کی حمایت کرتے ہیں۔ بھارت نے ایک جلاوطن حکومت کی حیثیت سے تبت کی مرکزی انتظامیہ کی بنیاد رکھ کر دلائی لامہ کے سپرد کردیا۔ یہ تمام وہ عوامل ہیں جو بھارت اور چین کے درمیان کشیدگی کو برابر قائم رکھے ہوئے ہیں۔
3۔ امریکہ چین وبھارت کے درمیان موجوداس کشیدگی کا فائدہ اٹھا کر بھارت کو چین کے سامنے کھڑا کرنا یا ان دونوں کے درمیان مسائل کھڑے کرکے چین کو اس مسئلے کے اندر اُلجھانا چاہتا ہے مگر بھارت چین کا سامنا کرنے سے خائف ہے۔ بھارت کے نواح میں چین کی طرف سے جاری کئے جانے والے جارحانہ پیغامات اس بات کے شواہد ہیں۔ اس بنا پر امریکہ کو اس بات کی ضرورت تھی کہ بھارت کو ورغلائے اور چین کو بے چین رکھنے اور اس کو سرحد کے مسائل میں مسلسل مصروف رکھنے کیلئے اس کی حوصلہ افزائی کرے۔ چنانچہ امریکہ نے بھارت کے ساتھ اسٹرٹیجک پارٹنر شپ کا معاہدہ کیااور سا تھ ہی دونوں ممالک نے ایٹمی تعاون کا معاہدہ بھی کیا..... اس طرح امریکہ نے بھارت کے ساتھ کئی اقتصادی اور سیکورٹی معاہدات پر دستخط کئے، جن میں سے 2005 میں ہونے والے دفاعی معاہدے کو حتمی شکل دی جا چکی ہے اور2008 میں سول ایٹمی تعاون کا معاہدہ ہوچکا ہے۔ ان تمام امور نےدونوں ممالک کے درمیان سکیورٹی تعاون کو وسیع کردیا ہے۔ نتیجتاً آج یہ دونوں ممالک ایسی متعدد مشترکہ فوجی مشقیں کررہے ہیں جس کی مثال ماضی میں نہیں ملتی۔ دوسری طرف بھارت کے ساتھ امریکی اسلحے کے بڑے بڑے سودے بڑھتے جارہے ہیں..... جب بھارتی آرمی چیف دیپک کپور نے دسمبر 2009 کے اواخر میں یہ کہتے ہوئےبیان دیا کہ : "انڈین آرمی کو دو محاذوں پر جنگ کیلئے تیار رہنا چا ہئے" (اکانومسٹ 15 فروری 2010) تو امریکہ نے پاکستان پر مشرقی سرحد پر سے اپنی افواج میں تخفیف کرکے مغربی سرحد پرتعینات کرنے کیلئے دباؤ ڈالنا شروع کیا تاکہ وہ ان قبائلی مجاہدین سے لڑیں جو افغانستان میں امریکہ کے خلاف لڑرہے ہیں۔ یہ سب اس لئے کیا گیا تاکہ بھارت چین کے ساتھ اپنے شمالی محاذ پر یکسو ئی کے ساتھ توجہ مرکوز کر سکے..... اس کے ساتھ امریکہ نے بھارت کے ساتھ تجارت کو بڑھانے پر کام کیا، چنانچہ بھارت کی امریکی منڈیوں کو برآمدات کے حجم میں ان پانچ سالوں میں کسی بھی دوسری ریاست کے مقابلے میں تیزی کے ساتھ اضافہ ہوا ہے۔ بھارتی انڈسٹریل یونین کے اندازوں کے مطابق سروسز کے حوالے سے دو طرفہ تجارت کے بارے میں یہ توقع کی جاسکتی ہے کہ آنے والے چھ سالوں میں ساٹھ بلین ڈالر سے بڑھ کر 150 بلین ڈالر تک پہنچ جائے گی.....اس کے باوجود بھارت چین کے ساتھ زمینی جنگ سے ڈرتا ہے اور یہ بھی ہے کہ کانگریس پارٹی کے بھارتی حکام امریکہ کے اتنے وفادار نہیں جتنا کہ برطانیہ کے ہیں،ایسے میں وہ امریکی مفاد کیلئے چین کے ساتھ ناکام قسم کا تصادم مول لینے کیلئے تیار نہیں ہیں۔
4۔ تب امریکہ نے دیکھا کہ بھارت کی نظریں بحر الکاہل کے مشرقی خطے بالخصوص جنوبی بحر چین کی طرف پھیر دے اور اس کو اس خطے میں موجود تیل اور گیس کے وسائل کیلئے چین کا مقابلہ کرنے پر اُ کسائے اور اسے ایشیا پیسفک حکمت عملی کے تحت چین کا مقابلہ کرنے پر تیار کرے۔ اور پھر ایسا ہی ہوا کہ بھارت نے چین کے ساتھ متنازعہ جزائر سپراٹلی کے ساحل کے سامنے تیل وگیس کی جستجو کیلئے ویتنام کے ساتھ معاہدہ کیا۔ اس معاہدے کے بعد چینی وزارت خارجہ کے ترجمان لی ویمین نے یہ بیان دیا کہ "ہم یہ امید نہیں کرتے کہ ہم متنازعہ جنوبی بحر چین میں غیر ملکی قوتوں کو ملوث ہوتے ہوئے دیکھیں اور نہ ہی ہم چاہتے ہیں کہ غیر ملکی کمپنیاں ایسے کام کریں جن سے چین کی بالادستی، اس کے حقوق اور مفادات پر زد پڑے" (شرق اوسط 28 نومبر 2011)۔ اس سے قبل کیمونسٹ پارٹی کے ترجمان اخبار "پیپلز ڈیلی" نے بھارت اور ویتنام پرچین کے مقابلے میں غیر ذمہ دارانہ کوششیں کرنے کا الزام لگایا۔ امریکہ بھی مسلسل بھارت کو اس خطے کی طرف متوجہ کرنے کیلئے اس کی حوصلہ افزائی کرتا رہا۔ چنانچہ22 جولائی 2013کو نائب امریکی صدر جوزف بائیڈن نے بھارت کا دورہ کیا اور اس دورے سے قبل واشنگٹن میں پیشگی بیانات دئے اور بھارت کو مشرقی بحرالکاہل کی طرف متوجہ ہونے پر اُکساتے ہوئے کہاکہ "بے شک بھارت کی نظریں ایک سکیورٹی اور بڑھتی ہوئی طاقت کی حیثیت سے مشرق پر لگی ہوئی ہیں۔ ہمارے لئے یہ ایک خوش کن خبر ہے"۔ اس نے مزید کہا کہ "ہم خطے میں بھارت کی مداخلت کو خوش آمدید کہتے ہیں اور خطے میں زمینی اور سمندری نقل وحمل کے نئے روابط کی تشکیل کی کوششوں کو سراہتے ہیں" (آئی آئی پی ڈیجیٹل23 جولائی 2013)۔ اس سے ایک مہینہ قبل 24 جون 2013 کو امریکی سیکریٹری خارجہ کیری نے اپنے بھارتی ہم منصب سلمان خورشید کے ساتھ نئی دہلی میں ملاقات کی اورامریکہ و بھارت کے درمیان اسٹرٹیجک مذاکرات کے چوتھے دور کی دونوں نے سربراہی کی۔ ان دونوں نے ایشیا اور بحر ہند وبحر الکاہل میں استحکام اور سلامتی کے بارے میں مشترکہ نقطہ نظر پر زور دیا۔ دونوں رہنماؤں نے علاقائی روابط کو مضبوط کرنے کیلئے مسلسل تعاون اور سمندری امن کی اہمیت پر زور دیا (آئی آئی پی ڈیجیٹل 24 جون 2013)۔ یہ تمام چیزیں اس بات پر واضح دلیل ہیں کہ امریکہ بحرالکاہل کےمشرقی خطے بالخصوص جنوبی بحر چین پر توجہ دینے پربھارت کو ابھارنے کیلئے تگ ودو کررہا ہے۔ ا س کے باوجود ایشیا اور بحرالکاہل کیلئے امریکہ کی اس جدید حکمت عملی کو وضع کرنے کے دوسال گزرنے کے بعد بھی بھارت امریکہ کی توقعات پر پورا نہیں اترا۔ اس کے کچھ ایسے اسباب ہیں جن کا تعلق برطانیہ کی وفادار کانگریس پارٹی کی پالیسی کے ساتھ ہے جبکہ دوسری طرف بھارت چین کا مقابلہ کرنے سے ڈرتا بھی ہے۔
5۔ جہاں تک آسٹریلیا کی بات ہے، تو امریکہ نے آسٹریلیا کے کردار کو جو امریکی مدار میں گھومتا ہے، فعال بنانے اور اقتصادی وسکیورٹی میدان میں اس کے ساتھ تعاون کو تیز تر کرنے پر کام کیا تاکہ وہ ایشیا پیسفک سے متعلق امریکی حکمت عملی کے تحت چین کا مقابلہ کرنے کیلئے کمر بستہ ہو جائے۔ اس مقصد کیلئے اعلیٰ سطحی امریکی ذمہ دارا ن بالخصوص سابق امریکی سیکریٹری خارجہ ہیلری کلنٹن، سابق امریکی وزیر دفاع لیون پنیٹا اورسابق چیف آف آرمی سٹاف مارٹن ڈیمپسی نے آسٹریلیا کے شہر پرتھ کا سفر کیا تاکہ اپنے آسٹریلوی ہم منصب شخصیات سے ملاقاتیں کریں۔ اس دن کلنٹن نے پرتھ میں یونیورسٹی آف ویسٹرن آسٹریلیا میں امریکن ایشین سینٹر کے افتتاح کے دوران کہاکہ "آسٹریلیا متحرک تجارت کیلئے ایک دروازہ ہےاورتوانائی کےوسائل کی گزرگاہوں کیلئے ایک چوراہے کی حیثیت رکھتا ہے۔یہ راستے بحر ہند کو بحرالکاہل کے ساتھ ملاتے ہیں اورانہی راستوں کے ذریعے پوری دنیا تک توانائی کے وسائل پہنچائے جاتے ہیں۔ اس تناظر میں آسٹریلیا بحر ہند اور بحر الکاہل کے درمیان ایک اسٹرٹیجک(تزویراتی) کراس پوائنٹ تشکیل دیتا ہے"۔ اس نے مزید کہا کہ "یہ کوئی اتفاقیہ بات نہیں تھی کہ آسٹریلیا میں بیرونی سرمایہ کاری بڑھے، جس میں امریکہ کی سرمایہ کاری 100 بلین ڈالر سے زائد ہے کیونکہ عالمی اقتصاد کے دل میں ان پانیوں کی اہمیت بڑھ گئی ہے اور یہ خطے میں امریکی توسیع کے حوالے سے مرکزی نقطہ ارتکاز تشکیل دیتے ہیں۔ ہم ان پانیوں کو بسا اوقات 'ہمارا ایشیائی محور' کا نام دیتے ہیں"۔ اس نے مزید کہاکہ "امریکہ نے ایشیائی اور پیسفک خطے کو بالکل نہیں چھوڑا اور امریکہ بحرالکاہل میں ایک قوت کے طور پرہمیشہ رہے گا "۔ اس نے مزید کہاکہ "امریکہ کی ایشیا اور بحرالکاہل کے خطے اور ان کے درمیان واقع خطوں کے حوالے سے نقطہ نظر، آسٹریلیا اور امریکہ کے مستقبل کیلئے فیصلہ کن ہوگا" (آئی آئی پی ڈیجیٹل 15نومبر2012 )۔ اس سینٹر میں کلنٹن نے بھارت سے متعلق امریکی نقطہ نظر کا ذکر کیا اور یہ کہ امریکہ بھارت سے کیا چاہتا ہے۔ اس نے کہا کہ"امریکہ کی اسٹرٹیجک ترجیحات میں سے ہے کہ بھارت کی مشرق کی جانب دیکھنے کی پالیسی کی حمایت کرے اور ایشیائی اداروں اور امور میں بڑا کردارادا کرنے پرنئی دہلی کی حوصلہ افزائی کرے"۔ اس نے مزید کہا کہ "امریکہ مستقبل میں بھارت اور آسٹریلیا کی مشترکہ بحری مشقوں کا خیر مقدم کرتا ہےاور امریکہ بحر ہند کے بالمقابل ممالک کی یونین برائے علاقائی تعاون کے ساتھ کام کرنے کیلئے پُرعزم ہے، اس یونین کی قیادت 2013 میں آسٹریلیا سنبھالنے والا ہےجس میں امریکہ بات چیت کے شریک کار کی حیثیت سے حصہ لے گا" (آئی آئی پی ڈیجیٹل 15نومبر2012)۔ یہ نظریہ اس خطے سے متعلق امریکی طرزِ فکر کی نشاندہی کرتا ہے کیونکہ امریکہ آسٹریلیا کو ایک سرگرم عنصر کے طور پر تسخیر کرنا چاہتا ہے تاکہ وہ خطے میں چینی نقل وحرکت کا سامنا کرے۔ یہ اس بات کی جانب بھی اشارہ ہے کہ امریکہ بھارت کے ذریعے اپنے اہداف حاصل نہیں کرپایا ہے جس کی زمینی حدود چین کے ساتھ لگتی ہیں، اس لئے وہ آسٹریلیا کو جنوبی بحر چین کے پانیوں میں بھارت کے ساتھ شریک کرنا چاہتا ہے۔ تو آسٹریلیابھارت کی بہ نسبت امریکی حکمت عملی کے نفاذ کے زیاد ہ قریب ہے۔ آسٹریلیا سرمایہ داریت کو اختیار کرنے والی ایک مغربی ریاست سمجھی جاتی ہے اور یہ بھی دیگر مغربی استعماری ممالک کی طرح استعماریت کا دلدادہ ہے۔ اس لئے آسٹریلیا تمام استعماری لڑائیوں میں امریکہ کے ساتھ کام کرتااور اس کے ساتھ تعاون کرتا ہے، جیساکہ ماضی میں برطانیہ کے ساتھ کام کرچکا ہے۔ چونکہ آسٹریلیا ان دونوں ریاستوں کے مدار میں چکرکاٹتا رہتا ہے، لہذا مسلسل ان کے ساتھ شریک رہے گا۔
6۔ جہاں تک جاپان کا تعلق ہے تو امریکہ جاپان میں اپنی قو ت کو مستحکم اور چین سے خطے کے دفاع میں جاپان کوبڑا کردار دینا چاہتا ہے۔ امریکہ نے 6 اپریل 2014 کو میزائل ڈیفنس کے مزید بحری جہاز جاپا ن کی طرف بھیجنے کا اعلان کیا۔ یہ اعلان امریکی سیکریٹری دفاع چک ہیگل نے یہ کہتے ہوئے کیا کہ "امریکہ2017 کے آغاز میں جاپان کی طر ف دو اضافی تباہ کن بحری جہاز (AEGIS ballistic missile defence ships) روانہ کرے گا۔ یہ اقدامات شمالی کوریا کی طرف سے اشتعال انگیزکاروائیوں کے جواب میں کئے جارہے ہیں جس نے ہمیں نئے جدید ایٹمی تجربات کی دھمکیا ں دی ہیں"۔ اس نے چین کو بھی اپنی عظیم طاقت کے غلط استعمال پر یہ کہتے ہوئے خبردار کیا کہ " بڑی ریاستوں کے لئے ضروری ہے کہ جبر اور دہشت سے کام نہ لیں کیونکہ اس سے کشمکش جنم لیتی ہیں"۔ اس نے یہ بھی کہا کہ "امریکہ چین کے ساتھ اس کی عسکری طاقت کے استعمال اور شفافیت کی حوصلہ افزائی کے حوالے سے بات چیت کرنا چاہتا ہے" (رائٹرز 6 اپریل 2014)۔ اس نے کریمیا میں روسی اقدامات کی طرف اشارہ کیا تاکہ چین کو جاپان کے ساتھ متنازعہ جزیروں کے حوالے سے اس قسم کی کاروائیوں سے متنبہ کردے۔ اس نے کہا کہ"آپ کے لئے طاقت، جبر اور دہشت کے ذریعے سرحدوں کے نقشے ترتیب دینا، زمینی امن اور ریاستوں کی بالادستی کوپامال کرنا ممکن نہیں رہا خواہ بحرالکاہل کے چھوٹے جزیرے ہوں یا یورپ کے بڑے ممالک"۔ امریکی سیکریٹری خارجہ نے گزشتہ ہفتے جنوب مشرقی ایشیا ئی ممالک کے وزرا ئے دفاع کے ساتھ ایک ملاقات کی اور جنوبی بحر چین میں بڑھتی ہوئی امریکی پریشانی پر انہیں متنبہ کیا (رائٹرز 6 اپریل 2014)۔ جاپانی کیوڈو ایجنسی نے 5 اپریل 2014 کو بتایا کہ"اس بات کی توقع کی جاتی ہے کہ امریکی سیکریٹری دفاع اور جاپانی وزیر دفاع اٹسونوری اونوڈورا (Itsunori Onodera) جاپانی دستور میں ترمیم کرکے جاپان کو اس بات کی اجازت دینے کے موضوع پر بات چیت کریں گے کہ وہ ذاتی دفاع کے حق کو استعمال کرے۔ اس کے ساتھ ساتھ امریکی سیکریٹری دفاع کے ساتھ اپنی میٹنگ میں اونوڈورا اسلحہ اور دفاعی سازوسامان کی منتقلی بارے میں گفتگو کریں گے اور ممکن ہے کہ طرفین دفاعی ساز وسامان کے میدان میں تعاون بڑھانے پر کسی معاہدے پر یکجا ہوجائیں"۔ یعنی امریکہ چاہتا ہے کہ چین کے مقابلے میں خطے کا دفاع کرنے کیلئے جاپان کو کردار دیدے اوریوں اپنے کندھے ہلکے کردے اور جاپانیوں کے قومی جذبات کو ابھارے جن کی خواہش ہے کہ امریکی اثر ورسوخ سے آزاد ان کے اپنے نام سے کوئی ذاتی طاقت ہو جس کے ذریعے اپنی حفاظت کرسکیں۔
7۔ جہاں تک کانگرس یا بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی) کی کامیابی کی صورت میں ایشیا پیسفک سے متعلق امریکی پالیسی کے متاثر ہونے یا نہ ہونے کی بات ہےتو یقینا یہ متاثر ہوگی کیونکہ کانگرس کی انگریز نوازی پشت درپشت چلی آرہی ہے اوروہ ایک حدتک سیاسی سمجھ بوجھ کی مالک بھی ہے جو اس نے اپنی بوڑھی مادام برطانیہ سے ہی لی ہوئی ہے۔ اس لئے کانگرس امریکہ کیلئے پریشان کن ہے جبکہ بیک وقت وہ برطانیہ کی طرح اس کے ساتھ کشتی بھی لڑتا ہے۔ چنانچہ یہ دیکھا گیا ہے کہ کانگرس نے امریکہ کے ساتھ بعض عسکری معاہدات اور تجارتی تعلقات تو قائم کئے مگر سیاسی تعلقات اور اسٹرٹیجک مسائل میں اس کے لئے تشویش پیدا کرتا رہاہے۔ مثال کے طور پر کانگرس نے 2004 کی اپنی انتخابی مہم، جس میں اسے کامیابی ملی، کے دوران ایک بیان تیار کیا ۔ اس بیان میں اس نے امریکہ سے متعلق اپنا نقطہ نظر واضح کیا اور اس سے پہلے برسر اقتداررہنے والی جنتا پارٹی کی پالیسیوں کو تنقید کا نشانہ بنایا۔ اس بیان میں کہا گیا تھا کہ "یہ بات افسوسناک ہے کہ بھارت جیسا بڑا ملک یونائیٹڈ سٹیٹس آف امریکہ کی ماتحت ریاست کی سطح پر آگئی ہے اور یونائیٹڈ سٹیٹس آف امریکہ اس بات کو ایک مسلمہ حقیقت سمجھتی ہیں کہ بھارت اس کی ماتحت ریاست ہے۔ اس صورتحال نے بی جے پی کی حکومت کو یونائیٹڈ اسٹیٹس کی ترجیحات اور پالیسیوں کے رنگ میں رنگنے پر تیار کردیا ہے۔ بھارتی حکومت کو بھارت کی اپنی خارجہ اور ناگزیر پالیسیوں اور اپنی قومی سلامتی کے مفاد سے دلچسپی نہیں "۔ اس سے واضح ہوتا ہے کہ کانگرس امریکہ کیلئے کس حد تک پریشان کن ہے مگر اس کے باوجود امریکہ نے اسٹرٹیجک مذاکرات بند نہیں کیے بلکہ جون 2010 میں اس کو دوبارہ شروع کیا جو 2004 میں صدر بش کے زمانے میں شروع ہوا تھا۔ امریکی سیکریٹری خارجہ کلنٹن ، جو سمینار برائے مذاکرات میں امریکی وفد کی قیاد ت کر رہی تھی، نے بھارت کے بارے میں کہا کہ "یہ ہمار ا وہ ساتھی ہے جس کی ہمیں ضرورت ہے اور یہ وہ ساتھی ہے جس پر ہم بھروسہ کرتے ہیں"۔ اس لئے امریکہ کی وفادار بی جے پی کی حکومت کے خاتمے کے بعد جب سے کانگرس کو اقتدار ملا ہے تب سے بھارت کا امریکی پالیسی کے نفاذ کی سمت میں چلنا مشکل ہوگیا ہے۔ ہاں یہ اس وقت ہی ممکن ہے جب امریکہ اس کو بہت زیادہ اکسائے جیسا کہ ہم نے اس سے قبل ذکر کیا۔ اس کے باوجود بھارت دیرینہ وجوہات کی بنیاد پر کترارہا ہے۔ یہ وجوہات بی جے پی کی حکومت کے دوران بھی موجود تھیں، اس کے باوجود یہ پارٹی امریکی پالیسیوں کو نافذ کرتے وقت ان وجوہات کو خاطر میں نہیں لاتی تھی۔ یہ جانتے ہوئے کہ برطانیہ نے کانگرس پارٹی کو ایسا وفادار بنایا ہوا ہے جو مکمل طور پر اس کی تقلید کررہی ہے اور برطانیہ نے بھارت چھوڑ جانے کے بعد سے اسی کو حکومت سپرد کی تھی، یہ ہمیشہ حکومت میں رہی، ما سوائے 1998 تا 2004 کے عرصے میں، اُس وقت امریکی وفادار بی جے پی کو کا میابی ملی تھی، پھر 2004-2009 کے انتخابات میں اسے دوبارہ کامیابی ملی تھی۔
جہاں تک حالیہ انتخابات کی بات ہے جو7اپریل2014 کو شروع ہوئے، تو اس کے نتائج کا اعلان 16 مئی 2014 کو کیا جائے گا۔ بعض سروے اداروں نے کہا ہے کہ ان کے نتائج اس طرف اشارہ دے رہے ہیں کہ حالیہ انتخابات میں بی جے پی اور اس کے اتحادیوں کی کامیابی متوقع ہے۔ تو اگر رائے عامہ اور بھارت کے انتخابا ت کے نگران اداروں کی توقعات سچ ثابت ہوتی ہیں اور بی جے پی کو کامیابی ملتی ہے خواہ اکثریت حاصل کرکے اپنی مستقل حکومت بنائے جو کہ ایک حد تک بعید نظر آتاہے یا پھر نتائج اس قسم کے ہوں کہ وہ تشکیل پانے والی کسی بھی حکومت سے اپنی شرائط منواسکتی ہو دونوں صورتوں میں امریکی پالیسی یعنی بھارت کے ذریعے چین کو تنگ کرنے کی پالیسی، کانگرس کے زمانے کی بہ نسبت زیادہ قابل عمل ہوگی، بلکہ زیادہ آسان ہوگی جیساکہ اس سے پہلے جنتا پارٹی کے دور اقتدار میں تھا۔ اس وقت کانگرس کے کئی دہائیوں تک اقتدار میں رہنے کے بعدلوگوں نے سکھ کا سانس لیا تھا اور جب 2004 میں کانگرس کو دوبارہ حکومت ملی تو امریکاکی بھارتی حکمت عملی کے خلاف الجھن اور گڑبڑپیدا کرنے کی پالیسی دوبارہ شروع ہوئی مگر اس سے قبل کہ کانگرس امریکی حکمت عملی میں معاونت کیلئےامریکہ کی طرف قدم بڑھائے، امریکہ سے کشتی لڑ کر اس سے اپنے مفاد کے معاہدات کروانا چاہتی ہے۔
8۔ جہاں تک چین اور بھارت کے درمیان تقابل کی بات ہے، تو کئی وجوہات سے چین کا پلڑا واضح طور پر بھار ی نظر آتا ہے:
پس چین اگر چہ اپنی آئیڈیالوجی کا حامل نہیں اور خارجہ پالیسی اور معاشی واقتصادی پالیسی میں اس سے دستبردار ہوچکا ہے، اسی طرح زندگی کے متعدد میدانوں میں اس کو خیرباد کہہ دیا ہے، مگر کیمونسٹ پارٹی کے نام سے حکومت کی حد تک اس کی حفاظت اس لئے کرتا ہےتاکہ پارٹی اور اس کے پیروکاروں کے مفادات اور ریاست کی آزادی واستحکام کاتحفظ کیا جائے۔ یہی وجہ ہے کہ وہ آزادی سےنقل وحرکت کرسکتا ہے اوراسی وجہ سے ایک ماتحت یا مدار میں چکر کاٹنے والی ریاست بننے سے بچا ہوا ہے بلکہ وہ عالمی سطح کی بڑی ریاست بننے کے خواب دیکھ رہا ہے۔ قومی دفاعی یونیورسٹی کے استاد کی حیثیت سے فرائض سرانجام دینے والے چینی کرنل لیو مینگو، جو نوجوان افسروں کو تربیت دیتا ہے، نے اپنی کتاب "چینی خواب " میں اس کو بیان کیا ہے اور چینی قوم کو دعوت دی ہےکہ وہ دنیا کی طاقتور ترین فوج تیار کرے اور یہ کہ عالمی ہیرو امریکہ پر چڑھائی کرنے کیلئے جلد متحرک ہوجائے۔ اس نے اپنے ملک کو نمبر ون بننے کیلئے عالمی اہداف ومقاصد کے حصول سے متعلق نرمی وعاجزی کو دور پھینکنے بلکہ ان اہداف کی طرف چھلانگ لگانے کی دعوت دی ہے۔ اس نے مزید کہا ہے کہ اگرچین اکیسویں صدی میں عالمی نمبر ون ریاست اور سپر طاقت نہیں بن پاتا تو چین کو حتمی طور پر کنارے لگایا جائے گا۔ مطلب یہ ہے کہ چین کو اپنی قوت اور چیلنج کی صلاحیت کا بھر پور احساس ہے اور اگر صرف اپنی عملداری کی حفاظت تک اپنے آپ کو محدود نہ کرتا اور اس بات کو قبول نہ کرتا کہ وہ امریکہ کےساتھ مقابلہ صرف چین کے خلاف امریکی نقل وحرکت کے جوابی عمل کی حد تک کرےگا اور چین امریکی اثر ونفوذ والے خطوں میں اس کیلئے خطرہ نہیں بنے گا اور اگر چین کئی میدانوں بالخصوص معیشت واقتصاد میں سرمایہ داریت کی راہ پر نہ چلتا تو عالمی طور پر اس کا چرچا ہوتا اورامریکی مفاد ات پر قو ت کے ساتھ اثر انداز ہوتا۔ بہر حال چین کو اپنی قوت کا احساس ہے اور بھلے صرف اپنے علاقے کی حد تک ہی کیوں نہ ہو وہ اپنی خود مختاری کی بقاء کی جد وجہد کرتا رہتاہے۔
اور جہاں تک بھارت کا تعلق ہے تو اس کا نہ توکوئی مبداء (آئیڈیا لوجی ) ہے اورنہ ہی کسی آئیڈیا لوجی سے نکلنے والے افکار اس کے پاس موجودہیں۔ البتہ وہاں سرمایہ داریت کو اس لئے نافذ کیا جاتاہے تاکہ وہ مغرب بالخصوص برطانیہ کی ماتحتی کی ضمانت فراہم کرسکے اوراس چیزکا اس کی ترقی یا اس کو ایک آزاد ریاست بنانے کے ساتھ کوئی تعلق نہیں۔ یہ بھی خطے کی باقی ماتحت ریاستوں کی طرح ایک ریاست ہے کیونکہ اس پر سرمایہ دارانہ نظام استعماری قوت کے ذریعے مسلط کیا گیا اور جسے اب تک مسلط رکھا گیا ہے۔ اس وجہ سے یہ نہ توایک خود مختار ریاست ہے اور نہ ہی اس کے پاس قوت وسرعت کے ساتھ کام کرنے، شعور اور ذاتی منصوبہ بندی کی کوئی اُمنگ موجود ہے۔ یہ اب بھی ایک ماتحت ریاست ہے اوراس کی پالیسیاں آزاد نہیں ہوا کرتیں۔ یہ دیکھا گیا ہے کہ یہ سیاسی میدان میں سست رفتاری کے ساتھ حرکت کناں ہے اور ہمیشہ سے بیرونی اثرات قبول کرتا ہے، بجائے اس کے کہ خود کسی پر اثر انداز ہو، نہ ہی کسی کا روائی میں پہل کرتا ہے۔ تو یہ ہمیشہ سے اثر پذیر ی کی کیفیت سے دوچار رہتا ہے، خواہ برطانیہ کی طرف سے ہو جو اس کا پرانا آقا ہے یا امریکہ کی طرف سے جو اس کے ارد گرد ہاتھ مارتا رہتا ہے جہاں اس نےاپنے پیروکاروں کی ایک مضبوط سیاسی قوت تشکیل دی ہے۔ اس لئے اس پہلوسے یہ چین سے مختلف ہے۔ فکری طور پر بھارت ایک پسماندہ مملکت ہے۔ اس کے کوئی متعین فکری اصول نہیں ہیں۔ اس کے سیاسی بساط پر کام کرنے والے بھی کسی اصول و ضوابط کے پابند نہیں۔ اس لئے اس میں مالیاتی وسیاسی کرپشن عام ہے اس حد تک کہ تقریباً تمام کے تمام سیاست دانوں کی یہی حالت ہے۔ اس لئے اس کا علاقائی یا عالمی سطح پر ایک بڑی ریاست بننا مشکل ہے زیادہ سے زیادہ جو کچھ ممکن ہےوہ یہ کہ بھارت مستقبل میں مدار والی ریاست بن جائے اور کسی دوسری بڑی ریاست کے مدار میں چکر کاٹنے لگے، خواہ یہ مدار امریکہ کا ہو یا برطانیہ کایا دونوں کا۔
یہ تو تھا سیاسی پہلو سے، جہاں تک اقتصادی پہلو کا تعلق ہے تو چینی معیشت بھارت کی معیشت سے چار گنا تک بڑی ہے۔ اس کے ساتھ چین غربت کی سطح کو کم کرنے کے قابل ہوا ہے جبکہ دنیاکے 66فیصد غریب لوگ بھارت میں رہتے ہیں اور بھارت چین کے ساتھ معاشی مقابلہ نہیں کرسکتا۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ چین نے ایک بڑا وسیع صنعتی شعبہ قائم کر لیا ہے جس کے باعث اس کے پاس کرنسی کے ریزرو اثاثوں کی ایک بڑی مقدار موجود ہوئی ہے، جو اس کو عالمی معیشت پر اثر انداز ہونے کے قابل بناتا ہے۔ جہاں تک بھارت میں صنعت سازی کا تعلق ہے تو پیداوار اور صنعتی فروغ کے حوالے سے بھارت چین کی سطح سے ابھی کوسوں دور ہے، بالخصوص بھاری مشینری اور جدید ٹیکنالوجی کے حوالے سے۔ اس کایہ مطلب نہیں کہ بھارت کے اندرسرے سے اس طرح کے کام ہوتے ہی نہیں بلکہ یہ ہے کہ چین کی بہ نسبت اس کو پسماندہ کہا جاسکتا ہے۔
جہاں تک عسکری پہلو کا تعلق ہے تو چین کا سرکاری فوجی بجٹ 119 بلین ڈالر ہے، یہ 38 بلین ڈالر کے بھارتی دفاعی بجٹ سے تین گنا زیادہ ہے۔ چین نے اپنی مسلح افواج کی جدید تربیت کے حوالے سے اہم پیش رفت کی ہے۔ چین اب اپنے پلیٹ فارم بنارہاہے (یہ پلیٹ فارم بحری جہاز، ٹینک اور لڑاکا طیاروں جیسے بھاری فوجی سامان کی تیاری کیلئے ہے)۔ چین اپنے بیڑے کی توسیع کررہا ہے اور اپنے خطے پر تسلط حاصل کرنے کیلئے سرگرم اقدامات کررہا ہے۔ لیکن بھارت جس نے حال ہی میں اپنے فوجی پروگرام کی تشکیل جدید کے لئے سرمایہ کی فراہمی کے لئے اپنے وسائل کو ترقی یافتہ بنانا شروع کیا ہے، اب تک گوناگوں مسائل سے دوچار ہے۔ دوسری طرف بھارت فوجی سامان درآمد کرنے والے بڑے ممالک میں سے ایک ہے۔ باوجودیکہ اس کے اپنے داخلی عسکری وسائل کی تجدید ی کوششوں پر دودہائیاں گزرچکی ہیں مگر یہ اب تک قابل ذکر پلیٹ فارم کو جدید شکل دینے میں ناکام ہوا ہے۔ پیٹر ڈی ویز مین، جو سٹاک ہولم میں انسٹیٹوٹ فار انٹرنیشنل پیس ریسرچ کا ایک سینئر تحقیق کار ہے، کہتا ہےکہ "میں نہیں سمجھتا کہ بھارت کے علاوہ دنیا کا کوئی دوسرا ملک جس نے اسلحہ بنانے میں سنجیدہ ہوکرکام کیا ہو اور وہ کلی طور پر ناکام ہوا ہو"۔ (اسلحہ درآمد کرنے والادنیا کا بڑا ملک، انڈیا علاقائی سطح پر اسلحہ فروخت کرنا چاہتا ہے، نیویورک ٹائمز، مارچ 2014)۔
اس طرح چین اوربھارت کے درمیان تقابل کریں تو چین کا پلڑا بھارت کے مقابلے میں کئی گنا بھاری ہے۔
9۔ اس پوری بحث کاخلاصہ یہ ہے کہ امریکہ نے اپنے وفادار پاکستانی حکمرانوں کے ذریعے پاکستان کے ساتھ بھارت کی مغربی سرحد کو محفوظ بناکر چین کے ساتھ کشمکش کیلئےبھارت کو شمالی محاذ کی طرف لگایا۔ اس کی خاطرامریکی پٹھو پاکستانی حکمرانوں نے امریکہ نواز بی جے پی کے دور حکومت میں بھارت کو بڑی بڑی مراعات دیں۔ اور جب کانگرس کو اقتدار ملا تو کانگرس نے حقیقی لائن آف کنٹرول کہلائے جانے والے اس محاذ پر کاروائی کے حوالے سے پسپائی اختیار کی کیونکہ بھارت چین کا سامنا کرنے سے خائف ہے۔ ایک وجہ یہ بھی ہے کہ یہ پارٹی انگریزوں کی وفادار ہے جو امریکی منصوبوں کے مطابق چال چلن پر بھارت کی حوصلہ افزائی نہیں کرتے۔ تب امریکہ نے بھارت کو مشرق پر توجہ مرکوز کرنے کی ہدایات دیں یعنی بحر الکاہل کے خطے بالخصوص جنوبی بحر چین کی طرف اور اس کو اس بات پر اکسایا کہ بھارت وہاں پر موجود تیل و گیس کے ذخائر سے اپنا حصہ وصول کرنے کاحق رکھتا ہے۔ امریکہ کے کہنے پر اس نے ویتنام کے ساتھ تعاون کرنا شروع کیا جو ان ذخائر پر اپنے حق کا دعویدار ہے اور چین کےساتھ جزائرسپراٹلی پر اس کے تنازعات چل رہے ہیں.....اس طرح امریکہ نے آسٹریلیا کوبھی اس جانب متوجہ کیا تاکہ چین کے مقابلے کیلئے کئی ممالک پر مشتمل بلاک کی تشکیل کی کوششوں میں اس کوشریک کرسکے.....امریکہ اب جاپان کو زیادہ فعال کردار دینے پر کام کررہا ہے تاکہ دفاع کی ذمہ داریوں میں کمی کرسکے۔ اور اگر بی جے پی حالیہ انتخابات میں کامیاب ہوجاتی ہے اور دوبارہ اقتدار حاصل کرلیتی ہے تو اس امر کا امکان ہے کہ مشرقی خطے یعنی جنوبی بحر چین میں امریکہ کی ہمرکابی میں بھارت کی سرگرمی بڑھ جائے۔ جہاں تک چین اور بھارت کی طاقت کا تعلق ہے تو ان کے درمیان بڑا فرق ہے اور اگرچین صرف اپنی عملداری کی حفاظت تک اپنے آپ کو محدود نہ کرتا اور اس بات کو قبول نہ کرتا کہ وہ صرف چین کے حوالے سے امریکی نقل وحرکت کے جوابی عمل کے طورپر امریکہ کا مقابلہ کرےگا اور چین امریکی اثر ونفوذ والے خطوں میں اس کیلئے خطرہ نہیں بنے گا اوراگر چین کئی میدانوں بالخصوص معیشت واقتصاد میں سرمایہ داریت کی راہ پر نہ چلتا تو عالمی طور پر اس کا چرچا ہوتا اورامریکی مفاد ات پر مضبوط انداز سے اثر انداز ہوسکتاتھا۔

Read more...

مجرم حکمران ایک طرف تو بجلی پر ہمارے حق سے ہمیں محروم کررہے ہیں اور دوسری طرف ہمیں قرضوں اور ناامیدی کی دلدل میں دھکیل رہے ہیں

2 مئی 2014 کو ہمارے وزیر خزانہ نے فخر سے یہ اعلان کیا کہ عالمی بینک نےپاکستان کے لیے 12 ارب ڈالر کا سودی قرضہ منظور کرلیا ہے جس میں وہ ایک ارب ڈالر بھی شامل ہے جو مئی کے دوسرے ہفتے میں دیا جائے گا۔ ایشیائی ترقیاتی بینک، آئی۔ایم۔ایف اور جاپان انٹرنیشنل کریڈٹ ایجنسی کی جانب سے فراہم کیے گئے قرضوں کی طرح اس قرضے میں بھی یہ شرط شامل ہے کہ پاکستان توانائی کے شعبے میں جاری اہم اصلاحات کو جاری رکھے گا۔ جمعہ 2 مئی کو پاکستان میں عالمی بینک کے ڈائریکٹر رِچرڈ بین میسوئڈ نے صحافیوں سے بذریعہ وڈیو کانفرنس خطاب کرتے ہوئے اس بات پر زور دیا کہ پاکستان توانائی کے شعبے میں "قیمتوں کو بہتر بنانے کی پالیسی" اختیار کرے اور "(توانائی کی) مارکیٹ کو نجی شعبے کے لیے کھولا" جائے۔ جبکہ اس سے قبل7 اپریل 2014 کو آئی.ایم.ایف نے "پاکستان کے لیے اپنے پروگرام نوٹ" میں توانائی کی پالیسی کے متعلق "نجی و حکومتی شعبے کی شراکت داری " اور "کاروبار ی فضا کو بہتر کرنے کے لیے درکار اقدامات" کی اہمیت کو اجاگر کیا ۔
لیکن توانائی کے شعبے میں"نجی و حکومتی شعبے کی شراکت داری" اور "نجی شعبے کے لیے (توانائی کی)مارکیٹ کو کھولنے" کامطلب یہ ہے کہ توانائی کے شعبے کو نجی ملکیت میں دے دیا جائے،جو درحقیقت ایک جرم ہے کیونکہ اس کے نتیجے میں عوام محاصل (revenue)کے بہت بڑےذریعے سے محروم ہوجاتے ہیں کہ جس سے وہ اپنے امور کی دیکھ بھال کر سکتے ہیں ۔ اس کا مطلب یہ بھی ہے کہ توانائی کے نجی مالکان اسی وقت بجلی فراہم کریں گے جب ایسا کرنا ان کے لیے منافع بخش ہوگا۔ محدود وسائل کا حامل ہونے کی وجہ سے نجی مالکان ریاست کے تمام شہریوں کو بجلی اس طور پر مہیا نہیں کر سکتے کہ یہ ایک ایسی سہولت ہے جو کہ ہر شہری کا حق ہے،کیونکہ یہ کام دراصل ایک ذمہ دار اور خیال رکھنے والی ریاست ہی کر سکتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ نج کاری (privatization) بجلی کی قلت اور لوڈ شیڈنگ کی براہِ راست وجہ بنتی ہے،کیونکہ نجی مالکان بجلی کی پیداوار میں کمی کردیتے ہیں تاکہ حکومت کی طرف سے پیسے نہ دینے کی صورت میں وہ خسارے سے دوچار نہ ہوں، یا وہ صرف ان کارخانوں کو چالو رکھتے ہیں جن کی پیداواری صلاحیت زیادہ بہتر ہے جبکہ اُن بجلی کے کارخانوں کو بند کردیتے ہیں جن کی پیداواری صلاحیت اچھی نہیں ہے، کیونکہ ایسا کرنا ان کے لیے زیادہ منافع بخش ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اگرچہ پاکستان کے پاس 20 ہزار میگاواٹ بجلی پیدا کرنے کی صلاحیت ہے جبکہ ہماری زیادہ سے زیادہ ضرورت صرف 17500 میگاواٹ ہے، لیکن اس ضرورت کے نصف سے بھی کم بجلی پیدا کی جاتی ہے جس کے نتیجے میں بجلی کی شدید کمی واقع ہو جاتی ہے، ہر روزدس سے بارہ گھنٹوں کی لوڈ شیڈنگ ہوتی ہے اور لوگ شدید گرمی کے مہینوں میں پنکھے کی ہواکی نعمت سے بھی محروم ہوجاتے ہیں۔ جبکہ بجلی کی قلت کے نتیجے میں مقامی صنعت کی تباہی اس کے علاوہ ہے۔
جہاں تک توانائی کی"قیمتوں کو بہتر بنانے کی پالیسی" اور" کاروباری فضاکو بہتر کرنے کے لیے درکار اقدامات" کا تعلق ہے تو اس کی اصل حقیقت یہ ہے کہ بجلی کی قیمتوں میں اضافہ کیا جائے تا کہ اس کے نتیجے میں توانائی کے شعبے سے منسلک نجی کمپنیوں کے مالکان کے منافع میں اضافہ ہو۔ بجلی کی قیمتوں میں کئی گنا اضافہ کر کے حکومت پہلے ہی نجی شعبے کے لیے اس کی سرمایہ کاری پر یقینی منافع کا بندوبست کر چکی ہے۔ حکومت نے بجلی پیدا کرنے والی نجی کمپنیوں کے منافع کو اس حد تک یقینی بنایا ہے کہ ان کمپنیوں کو اس صورت میں بھی حکومت کی طرف سے پیسے کی ادائیگی کی جاتی ہے جب وہ تیل کی کمی کی بنا پر بجلی پیدا نہیں کررہے ہوتے۔ یوں بجلی اس قدر مہنگی ہوچکی ہے کہ ایک بہت بڑا "گردشی قرضہ" وجود میں آچکا ہے جو حکومت نے بجلی کے کارخانوں کے مالکان کو ادا کرنا ہے۔ پچھلی گرمیوں یعنی جولائی 2013 میں حکومت نے 270 ارب روپے بجلی پیدا کرنے والی نجی کمپنیوں(IPPs) کو ادا کیےتھے۔ اتنی بڑی رقم کا سُن کر لوگ بھی چونک اٹھے کہ توانائی کے شعبے میں کس قدر دولت ہے، لیکن اس عوامی اثاثے سے حاصل ہونے والی دولت کے ایک روپے پربھی عوام کو کوئی حق حاصل نہیں ہے۔ اور اس سال یہ "گردشی قرضہ" ایک بار پھر جمع ہو چکا ہے ، حکومت اتنی مہنگی بجلی کی ادائیگیاں نہیں کر پارہی ،پس29 اپریل 2014 کو کئی حکومتی محکموں کی بجلی کاٹ دی گئی جس میں پانی و بجلی کی وزارت بھی شامل تھی!!!
حکمران امت کے توانائی کے وسائل کو پرائیویٹ ہاتھوں میں دے رہے ہیں جبکہ اسلام نے توانائی کو عوامی ملکیت قرار دیا ہے جس کے مالک تمام مسلمان ہیں۔ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : المسلمون شرکاء فی ثلاث الماء والکلاء والنار "مسلمان تین چیزوں میں شراکت دار ہیں: پانی، چراگاہیں اور آگ(توانائی)" (مسنداحمد)۔ لہٰذا خلافت میں اسلامی آئین کے زیرِ سایہ بجلی کا فائدہ تمام لوگوں کے لیے ہوگا جبکہ ریاست اس بات کو یقینی بنانے کے لیے اس شعبے کی سرپرستی و نگرانی کرے گی۔
اس کے علاوہ ،حکومت کی طرف سے حاصل کیے جانے والے یہ تمام قرضےسود پر مبنی ہیں جس کو اللہ اور اس کے رسول ﷺ نے واضح اور قطعی طور پر حرام قرار دیا ہے۔ انہی سودی قرضوں نے پاکستان کو اس کے قیام کے بعد سے ہی قرضوں کی دلدل میں دھکیل رکھا ہے ،حالانکہ پاکستان ان قرضوں کی اصل رقم سے کئی گنا زیادہ رقم سودی قسطوں کی شکل میں ادا کر چکا ہے۔
اے پاکستان کے مسلمانو! کیا آپ کےلیے کافی نہیں کہ آپ ایسی کئی حکومتوں کا مشاہدہ کر چکے ہیں جوکھلم کھلااستعماری ممالک کے ساتھ گٹھ جوڑ بناتی ہیں، ان کے اہلکاروں سے دنیا کے ہر کونے میں دن رات ملاقاتیں کرتی ہیں تا کہ آپ کو آپ ہی کی دولت سے محروم کرنےاور آپ کی بدحالی میں مزید اضافہ کرنے کی منصوبہ بندی کی جائے؟ یہی وقت ہے کہ آپ اس حکومت کے خاتمے اور اس عمدہ سرزمین پر خلافت کے قیام کے لیے حزب التحریر کے شباب کے ساتھ کھڑے ہو جائیں اور اس مقصد کے حصول کے لیے دن رات ایک کردیں۔ صرف ہماری اپنی ریاستِ خلافت ہی عوامی اثاثوں سے بہت بڑی مقدار میں محاصل (revenue) پیدا کرے گی جس میں پاکستان کے توانائی اور معدنیات کے وسیع وسائل شامل ہیں ۔ اس کے ساتھ ساتھ ان شعبوں سے بھی بھاری محاصل حاصل کرے گی جو بنیادی طور پر ریاست ہی کے پاس ہوتے ہیں اگرچہ نجی شعبہ بھی اس میں کام کرسکتا ہے جیسا کہ بھاری مشینری، ہتھیاروں کی تیاری، ٹیلی مواصلات، تعمیرات اور ٹرانسپورٹ کے ادارے ۔ اس کے علاوہ زراعت کے شعبے سے خراج کی صورت میں محاصل اکٹھے کئے جائیں گے۔ یہ سب غیر ملکی سودی قرضوں پر انحصار کا ہمیشہ کے لیے خاتمہ کر دے گا ، وہ قرضے کہ جو کفر اور گمراہی پر مبنی شرائط کے ساتھ منسلک ہوتے ہیں۔
یہ جان لیں کہ پاکستان اور مسلم دنیا میں بدترین معاشی بدحالی کا اصل اور بنیادی سبب یہ ہے کہ28رجب 1342ہجری بمطابق 23مارچ 1924ءکو خلافت کے خاتمے کے بعد سے اسلام،ریاستی دستور اورآئین کی صورت میں نافذ نہیں ہے۔ اسلام ہمیں یہ حکم دیتا ہے اور ہم اس امر میں اللہ کے سامنے جوابدہ ہیں کہ ہم ایک خلیفہ کی بیعت کریں جو تمام مسلمانوں کا خلیفہ ہوگا اور صرف اور صرف اسلام کو ہی مکمل طور پر نافذ کرے گا۔ رسول اللہ ﷺ نے مسلمانوں کو ایک وقت میں ایک ہی خلیفہ کو بیعت دینے کا حکم دیا ہے۔ رسول اللہ ﷺ کا فرمان ہے لَا نَبِيَّ بَعْدِي وَسَيَكُونُ خُلَفَاءُ فَيَكْثُرُونَ قَالُوا فَمَا تَأْمُرُنَا قَالَ فُوا بِبَيْعَةِ الْأَوَّلِ فَالْأَوَّلِ أَعْطُوهُمْ حَقَّهُمْ فَإِنَّ اللَّهَ سَائِلُهُمْ عَمَّا اسْتَرْعَاهُمْ "میرے بعد کوئی نبی نہیں لیکن کثرت سے خلفاء ہوں گے۔ صحابہ نے پوچھا کہ آپ ہمیں کیا حکم دیتے ہیں؟ رسول اللہﷺ نے جواب دیا :ایک کے بعد دوسرے کو بیعت دو کہ اللہ اُن سے اُس کے متعلق پوچھے گا جس پر انہیں ذمہ دار بنایا گیا" (بخاری)۔ حزب التحریر اسلام کی بنیاد پر حکمرانی کرنے کے لیے تیار ہے۔ اس کے پاس پوری مسلم دنیا میں پھیلے ہوئے قابل سیاست دانوں کی ایک پوری فوج موجود ہے اور 191 دفعات پر مشتمل آئین نفاذ کے لیےتیارموجود ہے جس کی تمام دفعات صرف اور صرف قرآن و سنت سے اخذ کی گئی ہیں۔ تو اب یہ ہم پر منحصر ہے کہ ہم حزب التحریر کے ساتھ مل کر کام کریں اور خلافت کی واپسی کو یقینی بنائیں۔
اے افواج پاکستان کے افسران! کفر کے زیرِ سایہ تمھاری قوم کی کوئی زندگی نہیں ہے۔ ان کی حالت کو دیکھوکہ وہ کس قدر مصائب اور مشکلات کا شکار ہیں۔ جبکہ تم وہ ہو کہ جنہوں نے اپنے لوگوں کی خاطر اپنی جانیں دینے کی قسم کھائی ہے۔ یہی وقت ہے کہ تم اپنے عہد ،اپنی قسم کو پورا کرو۔ اس کفر کی حکمرانی اور جمہوریت کے آئین کی مددو نصرت سے ہاتھ کھینچ لو اور اسے تاریخ کے کوڑے دان کی نذر ہوجانے دو۔ راحیل-نواز حکومت کا خاتمہ کردواورحزب التحریرکو نُصرۃ فراہم کر وجوقابل فقیہ اور مدبر سیاست دان شیخ عطا بن خلیل ابو الرَشتہ کی قیادت میں سرگرمِ عمل ہے، تاکہ اس مسلم سرزمین پر، جس کو اللہ سبحانہ و تعالیٰ نے بیش بہا وسائل اور قابل بیٹوں اور بیٹیوں سے نوازا ہے،خلافت کا قیام عمل میں آ جائے۔
يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا اسْتَجِيبُوا لِلَّهِ وَلِلرَّسُولِ إِذَا دَعَاكُمْ لِمَا يُحْيِيكُمْ
" اے لوگو جو ایمان لائے ہو! اللہ اور اس کے رسولﷺکی پکار پر لبیک کہو ، وہ تمہیں اس چیز کی جانب بلاتے ہیں جس میں تمھارے لیے زندگی ہے" (الانفال: 24)

Read more...

گجرات کے قصائی مودی کو مبارک باد اور دورہ پاکستان کی دعوت راحیل-نواز حکومت کا مودی کی کامیابی پر گرمجوشی، مسلمانوں کے خون سے غداری ہے

راحیل -نواز حکومت نے مودی کو وزیر اعظم کا منصب سنبھالنے سے قبل ہی دورہ پاکستان کی دعوت دے ڈالی ہے۔ کل دوپہر نواز شریف نے گجرات کے قصائی مودی کو فون کر کے انتخابات میں کامیابی پر مبارک باد دی اور نیک تمناؤں کا اظہار کیا۔ حزب التحریر راحیل-نواز حکومت سے پوچھتی ہے کہ جس شخص کے حکم سے گجرات میں ہزاروں مسلمانوں کا قتل عام اور خواتین کی عصمت دری کی گئی تھی ، اس کو وہ مبارک باد کس طرح دے سکتے ہیں؟ کیا راحیل-نواز حکومت انتہا پسند ہندوں کی نمائندہ ہے کہ جسے مودی کی جیت کی اس قدر خوشی ہوئی ہے کہ تمام تر مصروفیات کو ترک کر کے اس کو فون کیا جاتا ہے؟ راحیل-نواز حکومت کا مودی کی کامیابی پر اس قدر خوشی کا اظہار یہ ثابت کرتا ہے کہ موجودہ حکمرانوں کو بھی امت کے دکھ، درد، تکلیف سے کوئی سروکار نہیں بلکہ اپنے آقا امریکہ کی خوشنودی کے لیے اس شخص کو بھی گلے لگانے کے لیے تیار ہیں جس کے ہاتھ ہی نہیں بلکہ پورے کا پورا وجود مسلمانوں کے مقدس اور مظلوم خون سے تر بتر ہے۔
راحیل-نواز حکومت کا یہ کہنا کہ مودی کے آنے سے خطے میں امن اور استحکام آئے گا ، دیوانے کا خواب ہے۔ بی۔جے۔پی کی کامیابی کے نتیجے میں وہ امریکی منصوبہ ایک بار پھر زندہ ہوجائے گا ، جو کانگریس کے دور حکومت میں تقریباً منجمد ہی ہوگیا تھا ، جس کے تحت امریکہ بھارت کو خطے میں طاقتور کر کے اپنے مد مقابل چین کے خلاف کھڑا کرنا چاہتا ہے۔ اکھنڈ بھارت کے حق میں رائے عامہ پیدا کرنے کے لیے مودی پہلے ہی اس صدی کو "بھارت کی صدی" قرار دے چکا ہے ۔
بی-جے-پی کی پچھلی حکومت میں بھی امریکہ نے اپنے ایجنٹ نواز شریف اور پھر مشرف کے ذریعے بھارت کو، کارگل سے پسپائی، کشمیری مجاہد تنظیموں پر پابندی، کشمیر پر پاکستان کے تاریخی مؤقف سے دستبرداری، بھارتی سرحد سے افواج کو افغانستان کی سرحد پر منتقلی اور پاکستان کو بھارتی مصنوعات کی منڈی بنانے جیسی مراعات فراہم کیں تاکہ بھارت کو خطے میں ایک اہم ، بڑی اور طاقتور ریاست بنایا جاسکے۔ اور اب جبکہ بی-جے-پی پھراقتدار میں آگئی ہے تو راحیل-نواز حکومت ایک بار پھر خطے میں امریکی مفادات کی تکمیل کے لیے پاکستان کی سلامتی اور معاشی مفادات کو بھارت کے سامنے قربان کرنے کے لیے تیار ہے۔
پاکستان کے مسلمانوں کو اس امریکی منصوبے کو مسترد کرکے اس کے خلاف حرکت میں آجانا چاہیےاور حکمرانوں کو اس سے دست بردار ہونے پر مجبور کر دیں۔ خطے میں بھارت کی بالادستی پاکستان کو کمزور اور بھارت کا محتاج کردے گا۔ پاکستان کے مسلمان اس صورتحال کو کسی صورت قبول نہیں کرسکتے کیونکہ ان کے آباؤ اجداد نے اس ملک کے قیام کے لیے لاکھوں شہداء اور ہجرت کی قربانی بھارت کی بالادستی کو قبول کرنے کے لیے نہیں دی تھی۔ حزب التحریر پاکستان کے مسلمانوں اور افواج پاکستان کو اس بات کی دعوت دیتی ہے کہ پاکستان کو خلافت کے قیام کا مرکز بنائیں اور پوری مسلم دنیا کو ایک خلیفہ کے سائے تلے متحد کر کے دنیا کی عظیم ترین ریاست بنائیں اور اس پورے خطے کو ظالم ہندو مشرکین کے ظلم وجبر سے نجات دلائیں۔اللہ سبحانہ و تعالیٰ فرماتے ہیں،
مَا يَوَدُّ الَّذِينَ كَفَرُوا مِنْ أَهْلِ الْكِتَابِ وَلاَ الْمُشْرِكِينَ أَنْ يُنَزَّلَ عَلَيْكُمْ مِنْ خَيْرٍ مِنْ رَبِّكُمْ وَاللَّهُ يَخْتَصُّ بِرَحْمَتِهِ مَنْ يَشَاءُ وَاللَّهُ ذُو الْفَضْلِ الْعَظِيمِ
"اہل کتاب میں سے کافر نہیں چاہتے اور نہ ہی مشرک کہ تم پر تمھارے رب کی طرف سے کوئی بھلائی نازل ہو ،مگر اللہ اپنی رحمت کے لیے جسے چاہتا ہے خاص کرلیتا ہے، اور اللہ بڑے فضل والا ہے" (البقرۃ: 105)
شہزاد شیخ
ولایہ پاکستان میں حزب التحریر کے ڈپٹی ترجمان

 

Read more...

راحیل-نواز حکومت کو کراچی میں امن سے کوئی دلچسپی نہیں ہے کراچی میں امن کے قیام کے لیے امریکی انٹیلی جنس اور ریمنڈ دیوس نیٹ ورک کا خاتمہ ضروری ہے

بدھ 14 مئی 2014 کووزیر اعظم پاکستان نے کراچی آپریشن کے حوالے سے کراچی میں ایک اعلٰی سطح کا اجلاس منعقد کیا۔ اس اجلاس میں وفاق اور صوبے کی اعلٰی سیاسی قیادت کے ساتھ افواج پاکستان کے سربراہ، کور کمانڈر کراچی اور ڈی جی آئی۔ایس۔آئی نے بھی شرکت کی۔اس اجلاس میں کراچی آپریشن اور اس کے نتائج پر غور کیا گیا اور یہ فیصلہ کیا گیا کہ کراچی آپریشن کو جاری و ساری رکھا جائے ۔
اس انتہائی اعلیٰ سطح کے اجلاس کے ذریعے راحیل-نواز حکومت نے عوام کو ایک طرف تو یہ تاثر دیا ہے کہ کراچی میں دہشت گرد اس قدر طاقتور ہیں کہ یہ کراچی پولیس اور صوبہ سندھ کی حکومت کے بس کی بات نہیں بلکہ پورے ملک کی سیاسی و فوجی قیادت کو مل کر ان کے خاتمے کی کوشش کرنی ہوگی، جبکہ دوسری جانب عوام کو یہ تاثر بھی دینے کی کوشش کی گئی کہ جیسے راحیل-نواز حکومت عوام کے جان ومال کے تحفظ میں انتہائی سنجیدہ ہے۔ درحقیقت راحیل-نواز حکومت کراچی میں دہشت گردی کے خاتمے اور امن کے قیام میں ناکام ہوجائے گی کیونکہ وہ اس ناکامی کی ذمہ داری غیر قانی موبائل سیموں، چھوٹے جرائم پیشہ عناصراور دوسرے چھوٹے مسائل پر ڈالنے کی کوشش کررہی ہے۔ کراچی آپریشن میں ناکامی کی اصل وجہ امریکی انٹیلی جنس اور ریمنڈ ڈیوس نیٹ ورک کو کراچی سمیت پورے ملک میں دہشت گردی کے وارداتوں کی منصوبہ بندی کرنےاور انہیں انجام تک پہنچانے کے لیے فراہم کی جانے والی آزادی ہے۔ اس کا ایک ثبوت یہ ہے کہ ایک طرف کراچی میں فوجی افسران سے لے کر ، ڈاکٹر، وکیل، علماء اور عام شہری تک دہشت گردوں کی کاروائیوں سے محفوط نہیں لیکن امریکی اہلکار بغیر کسی خوف کے پورے شہر میں گھومتے پھرتے ہیں اور کسی دہشت گردی کی کاروائی کا نشانہ بھی نہیں بنتے۔ اسی طرح چند ہفتے قبل کراچی ائرپورٹ سے امریکی ایف۔بی۔آئی ایجنٹ اسلحے اور جاسوسی کی آلات سمیت گرفتار ہوتا ہے اور راحیل-نواز حکومت امریکی ایجنٹ کو ضمانت کی فراہمی میں تعاون فراہم کرکے امریکہ کی خدمت انجام دیتی ہے۔ یہ اس بات کا ایک اور ثبوت ہے کہ کراچی میں بدامنی کی وجہ امریکی انٹیلی جنس اور ریمنڈ ڈیوس نیٹورک ہے۔
اگر راحیل-نواز حکومت پاکستان کے سیکورٹی اداروں کو امریکی انٹیلی جنس اور ریمنڈ ڈیوس نیٹ ورک کے خاتمے کا حکم دے دیں ، جو دراصل کراچی کے سب سےبڑے مجرموں کے گروہ ہیں، تو چند ہفتوں میں کراچی میں امن بحال ہوسکتا ہے اور اس کاروائی کے نتیجے میں مقامی چھوٹے چھوٹے مجرموں کے گروہ اپنی جانیں پچانے کے لیے بھاگنے پر مجبور ہوجائیں گے۔
لیکن راحیل-نواز حکومت یہ قدم کبھی نہیں اٹھائے گی کیونکہ انہیں اپنے عوام کی جان و مال سے زیادہ امریکی مفادات عزیز ہیں۔ آمریت ہو یا جمہوریت دونوں نے ہی کراچی کو امریکی مفاد کے تحت بدامنی کے آگ میں دھکیلا ہے۔کراچی، پاکستان اور خطے میں بدامنی کی بنیادی وجہ امریکہ کی موجودگی ہے۔ پاکستان کے عوام اور افواج پاکستان کو یہ جان لینا چاہیے کہ پاکستان سے امریکی انٹیلی جنس اور ریمنڈ ڈیوس نیٹ ورک کے خاتمے کا حکم جمہوری و آمر حکمران کبھی بھی جاری نہیں کریں گے۔ یہ کام صرف ریاست خلافت ہی سرانجام دے سکتی ہے کیو نکہ اس کا اسلامی آئین امریکہ کو دشمن ملک قرار دیتا ہے جبکہ موجودہ آئین امریکہ کو ایک دوست ملک قرار دیتا ہے۔ لہٰذا افواج پاکستان میں موجود مخلص افسران آگے بڑھیں اور پاکستان میں خلافت کے قیام کے لیے حزب التحریر کو نصرۃ فراہم کرےجو کراچی، پاکستان اور اس پورے خطے سے امریکی وجود کی ہر شکل کا خاتمہ اور اس پورے مسلم خطے کو امن کے دور سے روشناس کردے گی۔
شہزاد شیخ
ولایہ پاکستان میں حزب التحریر کے ڈپٹی ترجمان

Read more...

خلافت نصرۃ کے ذریعے رابطہ مہم پاکستان کے سب سے بڑے صوبے کے دارلحکومت لاہورمیں سیمینار

حزب التحریر ولایہ پاکستان کی جانب سےاللہ سبحانہ و تعالی کے حکم سےپاکستان میں جلد از جلدخلافت کے قیام کے لیے ملک کے بڑے شہروں میں جاری "خلافت نصرۃ کے ذریعے " کی رابطہ مہم میں تیزی آتی جارہی ہے ۔ اس مہم کے دوران آبادی کے لحاظ سے پاکستان کے سب سے بڑے صوبے پنجاب کے دارلحکومت لاہور میں ایک بڑا سیمینار منعقد کیا گیا۔
رکن حزب التحریر ڈاکٹر افتخار نے خلافت کے قیام کے لیے رسول اللہ ﷺ کے طریقہ کار کے مطابق کام کرنے کی اہمیت سے سیمینار میں شریک لوگوں کو آگاہ کیا۔اس پُر اثر تقریرنے لوگوں پر یہ ثابت کیا کہ رسول اللہﷺکفریہ نظام کو تبدیل کرنے کے لیے اسی کفریہ نظام کا حصہ نہیں بنے،اگرچہ انھیں اس نظام کا سربراہ بننے کی دعوت دی گئی تھی۔ اور رسول اللہﷺ نے ایسےاقتدار کو بھی قبول نہیں کیا جس کے بدلے میں آپ ﷺ سےاسلام کے کسی ایک معاملے پر بھی سمجھوتے کا مطالبہ کیا گیاتھا۔ اس کی جگہ رسول اللہ ﷺ نے کفر کی حکومت کے خاتمے کے لیے پورےمعاشرے سے اس کفریہ حکومت کی حمایت اور قوت کو ختم کرنے کی کوشش کی۔ رسول اللہﷺ نےلوگوں کی طرف سے کفرکی حمایت کو ختم کیا اور اس کے لیے آپﷺنے کفر کے نظام کو کھلم کھلاچیلنج کیا ،اس کی حقیقت کو بے نقاب کیااور لوگوں کو اسلام کی طرف بلایا۔ اس کے ساتھ ساتھ رسول اللہﷺ نے کفر کی حکمرانی کو اس مادّی سہارے سے محروم کیاجواسے تحفظ فراہم کیے ہوئے تھا۔ رسول اللہ ﷺ نے ذاتی طور پر ان لوگوں سے ملاقاتیں کیں جو جنگی طاقت رکھتے تھے اور ان سے مطالبہ کیاکہ وہ ایمان قبول کرنے کے ساتھ ساتھ دینِ اسلام کو نُصرَۃ(مادّی مدد)فراہم کریں۔ اس مقصد کے حصول کے لیے رسول اللہ ﷺ نے طویل سفر کیے، مشکلات اٹھائیں تا کہ اسلام کو ایک ریاست کی شکل میں قائم کرنے کے لیے نُصرۃ کے حصول کو یقینی بنایا جائے۔
رسول اللہ ﷺجن لوگوں سے نصرۃ کا مطالبہ کرتے تھے، ان کی مادّی قوت کو بھی معلوم کرتے تھے۔آپ ﷺ ان سے سوال کرتے تھے:((و هل عند قومك منعة؟)) "کیا تمھارے لوگ طاقت و اسلحہ رکھتے ہیں؟" اور آپﷺنےان لوگوں کی پیش کش کو قبول نہ کیاجن میں اسلام کے دشمنوں سے اسلام کا دفاع کرنے کی طاقت موجود نہیں تھی۔ رسول اللہ ﷺ نے کئی قبائل سے ملاقاتیں کیں جن میں بَنُو كلب،بنوحَنِيفَةُ، بنو عامر بن صَعْصَعَة، بنو كنْدةُ اور بنوشيبان شامل تھے۔ اوررسول اللہ ﷺاسی طریقہ کار پر صبر و استقامت کے ساتھ کاربند رہے یہاں تک کے اللہ تعالی نے نصرۃ کے حصول میں کامیابی عطا فرمادی جب انصار کے ایک چھوٹے مگر مخلص اور اہلِ قوت گروہ نے اسلامی ریاست کے قیام کے لیے نبی کریم ﷺ کو نُصرۃ فراہم کر دی۔ لہٰذا اسلام کی حکمرانی کے لیے نصرۃ کا حصول رسول اللہ ﷺ کی سنت اور طریقہ ہے، اس طریقے پر چل کر نبی ﷺ نے یثرب کے تقسیم شدہ معاشرے کو اسلام کے قلعے،مدینۃالمنورہ میں تبدیل کردیا۔
نوٹ: اس سیمینار کی تصاویر اور ویڈیوhizb-pakistan.comسے ڈاؤن لوڈ کی جاسکتی ہیں۔

Read more...

ویلیم برنز کا دورہ پاکستان اور شمالی وزیرستان میں فوجی آپریشن کا مطالبہ افواج پاکستان شمالی وزیرستان میں فوجی آپریشن کے امریکی مطالبے کو مسترد کردیں

پاکستان کے دورے پر آئے امریکی نائب وزیر خارجہ ویلیم برنز نے سیاسی و فوجی قیادت میں موجود غداروں سے شمالی وزیرستان میں موجود اُن مجاہدین کے خلاف فوری فوجی آپریشن کا مطالبہ کیا ہے جو افغانستان میں قابض امریکی افواج کے خلاف لڑ رہے ہیں۔ ویلیم برنز کا یہ مطالبہ ثابت کرتا ہے کہ یہ جنگ دہشت گردی کے خلاف نہیں بلکہ امریکی قبضے کے خلاف برسرپیکار مجاہدین کے خلاف جنگ ہے۔ پاکستان کے عوام اور افواج پر یہ بات پہلے دن سے واضح ہے کہ امریکی قبضے کے خلاف لڑنے والے مجاہدین ہیں اور وہ جہاد کر کے ایک دینی فریضا انجام دے رہے ہیں۔ امریکہ کی بزدل افواج اپنی تمام تر فوجی قوت کے باوجود فرسودہ ہتھیاروں سے لیس مٹھی بھر مجاہدین کا مقابلہ نہیں کرسکتیں، اسی لیے امریکہ ہمیشہ پاکستان کی سیاسی و فوجی قیادت میں موجود غداروں کو پاکستان کے قبائلی علاقوں میں موجود افغانستان پر امریکی قبضے کی مزاحمت کرنے والے مجاہدین کے خلاف فوجی آپریشن کرنے کے لیے متحرک کرتا ہے۔ لیکن چونکہ پاکستان کے عوام اور افواج اس بات کو قطعاً پسند نہیں کرتے کہ قابض امریکی افواج سے برسر پیکار مجاہدین کو نشانہ بنایا جائے تو امریکی ہدایت پر پاکستان کی سیاسی و فوجی قیادت میں موجود غداروں نے ریمنڈ ڈیوس نیٹ ورک کو پاکستان میں داخلے اور آزادانہ فوجی و شہری تنصیبات کو نشانہ بنانے کی اجازت دی اور دہشت گردی کے ہر واقع کے بعد اس کی ذمہ داری قبائلی مسلمانوں پر ڈال کر پاکستان کے عوام اور افواج کو یہ یقین دلانے کی کوشش کی کہ یہ امریکی نہیں بلکہ پاکستان کی جنگ ہے۔ اور پھر اس جواز کو استعمال کرتے ہوئے افغانستان میں موجود بزدل امریکی افواج کو تحفظ فراہم کرنے کے لیے افواج پاکستان کو قبائلی علاقوں میں فوجی آپریشن کرنے پر مجبور کیا گیا۔
کیا یہ محض اتفاق ہے کہ جب بھی کوئی امریکی سیاسی و فوجی عہدیدار قبائلی علاقوں میں فوجی آپریشن کا مطالبہ لے کر پاکستان آنے والا ہوتا ہے تو قبائلی علاقوں میں افواج پاکستان پر حملے تیز ہوجاتے ہیں اور اس بار بھی ویلیم برنز کے دورے سے ٹھیک ایک دن قبل شمالی وزیرستان میں افواج پاکستان پر حملے ہوتے ہیں جس میں دس فوجی جاں بحق ہو جاتے ہیں۔ چند دن قبل کراچی ائرپورٹ سے گرفتار ہونے والے امریکی ایف۔بی۔آئی کے ایجنٹ اور اس سے برآمد ہونے والے آلات نے ایک بار پھر اس حقیقت کو ثابت کیا ہے کہ پاکستان میں ہونے والی ہر دہشت گردی کے واقع کے پیچھے امریکی ایجنسیوں اور ریمنڈ ڈیوس نیٹ ورک کا ہی ہاتھ ہوتا ہے۔
حزب التحریر افواج پاکستان پر یہ واضح کردینا چاہتی ہے کہ جب تک سیاسی و فوجی قیادت میں موجود غداروں کے ہاتھ میں ملک کی باگ دوڑ رہے گی وہ امریکی ایجنسیوں اور ریمنڈ ڈیوس نیٹ ورک کو ملک میں آزادانہ دہشت گردی کی کاروائیاں کرنے کی اجازت دیتے رہیں گےاور آپ کا مقدس خون افغانستان میں قابض بزدل امریکیوں کو تحفظ فراہم کرنے کے لیے دہشت گردی کے خلاف جنگ کے نام پر بے دریغ بہاتے رہیں گے۔ لہٰذا آگے بڑھیں اور معاملات کی باگ دوڑ اپنے ہاتھوں میں لیں اور شیخ عطا بن خلیل ابو الرَشتہ کی قیادت میں حزب التحریر کو نصرۃ فراہم کر کے خلافت کا قیام عمل میں لائیں۔ خلافت کا اسلامی آئین پاکستان کے موجودہ آئین کے بر خلاف امریکہ کو دوست نہیں بلکہ دشمن ملک قرار دے گا اورخلافت خطے کو امریکہ کے ناپاک وجود سے پاک کرنے کے لیے دنیا کی بہترین فوج کو حرکت میں لائے گی جو خطے میں مستقل امن قائم کرنے کا باعث بنے گا۔اللہ سبحانہ و تعالٰی فرماتے ہیں،
لاَ يَتَّخِذْ الْمُؤْمِنُونَ الْكَافِرِينَ أَوْلِيَاءَ مِنْ دُونِ الْمُؤْمِنِينَ وَمَنْ يَفْعَلْ ذَلِكَ فَلَيْسَ مِنْ اللَّهِ فِي شَيْءٍ إ
"مؤمنوں کو چاہیے کہ ایمان والوں کو چھوڑ کر کافروں کو اپنا دوست نہ بنائیں اور جو ایسا کرے گا وہ اللہ تعالٰی کی کسی حمائت میں نہیں " (آل عمران: 28)۔
شہزاد شیخ
ولایہ پاکستان میں حزب التحریر کے ڈپٹی ترجمان

Read more...

نوید بٹ کے خاندان نے پریس کانفرنس منعقد کی نوید بٹ کا اغوا: دو سال، حد ہوگئی! نوید بٹ کو فوری رہا کیا جائے

آج نوید بٹ کی اہلیہ محترمہ سعدیہ راحت ایڈووکیٹ اور ان کے خاندان کے دیگر افرادنے اسلام آباد پریس کلب میں پریس کانفرنس سے خطاب کیا۔ محترمہ سعدیہ راحت ایڈووکیٹ نے میڈیا کو نوید بٹ کے اغوا اور اب تک کی عدالتی کاروائی سے آگاہ کیا۔

محترمہ سعدیہ راحت ایڈووکیٹ نے کہا کہ نوید بٹ کو دو سال قبل حکومتی ایجنسیوں نے اغوا کیا تھا اور اب تک وہ لاپتہ ہیں۔ انہیں اس لیے اغوا کیا گیا کیونکہ وہ ایک عالمی اسلامی سیاسی جماعت حزب التحریر کے ولایہ پاکستان میں ترجمان ہیں۔ اغوا کے دن سے آج تک ان کے خاندان کو انہیں دیکھنے تک کا موقع فراہم نہیں کیا گیا۔میرے بچے جن کی آنکھوں کے سامنے ان کے والد کو اغوا کیا گیا تھا ، اکثر رات کو روتے ہوئے اٹھ جاتے ہیں اور سوال کرتے ہیں کہ ان کے ابو کب آئیں گے؟ یہ ظلم اور ناانصافی اُس ملک میں ہورہی ہے جس کی تخلیق "لا إله إلا الله" کی بنیاد پر ہوئی تھی۔
محترمہ سعدیہ راحت ایڈووکیٹ نے نوید بٹ کے اغوا سے لے کر آج کے دن تک ہونے والی عدالتی کاروائی سے میڈیا کو آگاہ کیا۔ انہوں نے کہا کہ 11 مئی 2012 کو ان کے اغوا کے فوراً بعد اسلام آباد ہائی کورٹ میں ایک آئینی پٹیشن داخل کی گئی۔ چیف جسٹس اسلام آباد ہائی کورٹ نے مسؤل علیہان کے نام نوٹس جاری کیے جن میں ڈائریکٹر جنرل آئی۔ایس۔آئی اور ڈائریکٹر جنرل ایم۔آئی بھی شامل تھے اور ساتھ ہی یہ حکم بھی دیا کہ نوید بٹ کو اگلی پیشی پر حاضر کیا جائے۔ اس کے علاوہ لاہور کے لیاقت آباد پولیس اسٹیشن میں ایف۔آئی۔آر نمبر 12/566 درج کی گئی جس میں ڈائریکٹر جنرل آئی۔ایس۔آئی اور ڈائریکٹر جنرل ایم۔آئی کو ملزمان نامزد کیا گیا تھا۔ پاکستان کی تاریخ میں یہ پہلا موقع تھا جب ڈائریکٹر جنرل آئی۔ایس۔آئی اور ڈائریکٹر جنرل ایم۔آئی کو ایک سول عدالت میں ملزمان کے طور پر نامزد کیا گیا ۔ لیکن چند پیشیوں کے بعد اسلام آباد ہائی کورٹ نے اچانک اس مقدمے کو یہ کہہ کر سننے سے انکار کردیا کہ یہ واقع کیونکہ لاہور میں پیش آیا ہے اور اس کی ایف۔آئی۔آر بھی لاہور میں ہی درج ہوئی ہے لہٰذا یہ مقدمہ اس کے دائرہ اختیار میں نہیں آتا اور لاہور ہائی کورٹ میں یہ مقدمہ سنا جانا چاہیے۔ ہم نے اس فیصلے کو سپریم کورٹ میں چیلنج کیا لیکن انہوں نے اسلام آباد ہائی کورٹ کے فیصلے کو برقرار رکھا۔
جون 2013 سے یہ مقدمہ لاہور ہائی کورٹ میں زیر سماعت ہے لیکن اب تک کوئی خاص پیش رفت نہیں ہوسکی۔ ایسا معلوم ہوتا ہے کہ اسلام آباد ہائی کورٹ کو دباؤ میں لانے کےبعد ایجنسیاں اپنے اس مقصد میں کامیاب ہو جائیں گی کہ یہ مقدمہ عدالتی قبرستان میں دفن ہوجائے جبکہ یہ مقدمہ ایک تاریخی روایت قائم کرسکتا تھا۔ حکومت ایسا اس لیے کررہی ہے کہ حکومت کے پاس اپنے حق میں کہنے کو ایک بھی لفظ سچائی کا نہیں ہے اور وہ اس بات سے خوفزدہ ہے کہ اگر اسے عدالت میں اس ناانصافی کا جواب دینا پڑا تو نوید بٹ جس دعوت کا داعی ہیں اسے مزید مقبولیت حاصل ہوگی۔
محترمہ سعدیہ راحت ایڈووکیٹ اور نوید بٹ کے خاندان کے دیگر افراد نے حکومت سے نوید بٹ کی فوری بازیابی کا مطالبہ کیا کیونکہ نہ تو اس نے کوئی جرم کیا ہے اور نہ ہی وہ کسی مجرمانہ مقدمے میں مطلوب ہے بلکہ وہ ایک معزز اور انتہائی قابل انجینئر ہے جو پاکستان اور اس کے لوگوں کو امریکی غلامی کی قید سے نکلانے کی جدوجہد کررہا ہے اور انہیں یہ موقع فراہم کرنا چاہتا ہے کہ وہ اسلام کے زیر سایہ اپنی زندگی بسر کرسکیں، لہٰذا نوید بٹ کو فوری رہا کیا جائے۔
حزب التحریر ولایہ پاکستان مسلمانوں کو یہ یقین دلانا چاہتی ہے کہ وہ جابروں کے ظلم سے خوفزدہ ہو کر خلافت کے قیام کی جدوجہد سے دست بردار نہیں ہو گی اور نہ ہی اپنی رفتار میں کوئی کمی لائے گی اور حزب یہ یقین رکھتی ہے کہ انشاء اللہ وہ دن اب دور نہیں جب خلافت پاکستان کی سرزمین پر قائم ہو گی اور لوگ نوید بٹ کو اپنے کندھوں پر اٹھائے خلافت کا استقبال کریں گے۔ اللہ سبحانہ و تعالٰی فرماتے ہیں، أَتَخْشَوْنَهُمْ فَاللَّهُ أَحَقُّ أَنْ تَخْشَوْهُ إِنْ كُنتُمْ مُؤْمِنِينَ "کیا تم ان سے ڈرتے ہو؟ اللہ ہی زیادہ مستحق ہے کہ تم اس کا ڈر رکھو، اگر تم ایمان والے ہو" (التوبۃ:13)

Read more...

نوید بٹ کا اغوا: دو سال، حد ہوگئی! حزب التحریر نے ملک بھر میں نوید بٹ کے اغوا کے خلاف مظاہرے کیے

حزب التحریر ولایہ پاکستان نے ملک بھر میں نوید بٹ، ولایہ پاکستان میں حزب التحریر کے ترجمان، کے اغوا کے دو سال مکمل ہونےپر مظاہرے کیے۔ مظاہرین نے بینرز اور کتبے اٹھا رکھے تھے جن پر تحریر تھا : "دو سال، حد ہوگئی! خلافت کے داعی نوید بٹ کورہا کرو"،"ریمنڈ ڈیوس نیٹ ورک ختم کرو،حزب التحریر پر ریاستی ظلم بند کرو"۔
مظاہرین کا یہ کہنا تھا کہ اغوا کو دو سال مکمل ہونے کے باوجود سیاسی و فوجی قیادت میں موجود غداروں کے پاس نوید بٹ کے خلاف کچھ ثابت کرنے کے لیے ایک بھی سچا الزام موجود نہیں ہے، لہٰذا وہ انہیں کسی عدالت میں پیش کرنے یا سیدھے طریقے سے چھوڑ دینے سے خوفزدہ ہیں۔ مظاہرین یہ رائے رکھتے تھے کہ یہ انتہائی بدقسمتی کی بات ہے کہ پاکستان میں ،جو اسلام کے نام پر وجود میں آیا تھا، نوید بٹ جیسے افراد کو تو اغوا کرلیا جاتا ہے جبکہ امریکی نجی فوجی تنظیموں اور انٹیلی جنس ، جیسا کہ ریمنڈ ڈیوس نیٹ ورک کو مکمل آزادی فراہم کی جاتی ہے کہ وہ پاکستان بھر میں فوجی و شہری تنصیبات پر حملے کروائیں ۔
مظاہرین نے نوید بٹ کی فوری بازیابی کا مطالبہ کیا۔ سیاسی و فوجی قیادت میں موجود غدار یہ جان چکے ہوں گے کہ نوید بٹ یا حزب التحریر کے کسی بھی شاب کا اغوا خلافت کے قیام کی راہ پر حزب التحریر کی پیشقدمی کی رفتار کو سُست نہیں کرسکا بلکہ ان واقعات نے حزب اور اس کے شباب کے ایمان اور استقامت کو مزید مضبوط اور اور منزل کی جانب ان کی رفتار کو بڑھا دیا ہے۔ مظاہرین نے افواج میں موجود مخلص افسران سے پاکستان کی مقدس سرزمین پر خلافت کے قیام کے لیے نصرۃ کا مطالبہ بھی کیا۔

2014_05_08_Pakistan_Pic

2014_05_08_Pakistan_Pic

2014_05_08_Pakistan_Pic

2014_05_08_Pakistan_Pic

Read more...

حزب التحریر نے کتاب "اسلام کا نظام اقتصاد" کا اردو ترجمہ جاری کردیا صرف اسلام کا اقتصادی نظام ہی دنیا کو استحصال اور بھوک سے بچا سکتا ہے

زب التحریر مسرت سے اس بات کا اعلان کرتی ہے کہ کتاب "اسلام کا نظام اقتصاد" کا اردو ترجمہ جاری کردیا گیا ہے۔ حزب التحریر نے یہ کتاب سب سے پہلے اسلام کی زبان عربی میں شائع کی تھی اور اس کا چھٹا ایڈیشن 1425 ہجری بمطابق 2004 عیسوی اور ساتواں پرنٹ 1428 ہجری بمطابق 2008 عیسوی میں شائع ہوا تھا۔ الحمد للہ اب یہ کتاب اردو زبان میں بھی میسر ہے، وہ زبان جو 500 ملین مسلمانوں کی زبان ہے۔
یہ کتاب اردو زبان میں اس وقت جاری کی جا رہی ہے جب سرمایہ دارانہ نظریات اور احکامات مسلمانوں پر عالمی سطح پرنافذ ہیں اگرچہ اب یہ نظریات اور احکامات خود اپنے ہی گھر یعنی مغرب میں بُری طرح سے زوال پزیر ہیں۔ آج کی مشکل صورتحال میں مسلم اور غیر مسلم دانشور حضرات مغربی آزاد منڈی کے نمونے (Free Market Model) سے نجات کی تلاش میں ہیں۔ لہٰذا اس وقت اس بات کی شدید ضرورت ہے کہ اسلام کے اقتصادی نظام کو مکمل شفافیت اور جامعیت کے ساتھ پیش کیا جائے۔ یہ منفرد کتاب اس موضوع پر ایک فکری خزانہ ہے جو اسلام کے اقتصادی نظام کو مکمل وضاحت سے ساتھ پیش کرتی ہے۔
یہ کتاب معیشت اور اس کے اہداف کے متعلق اسلام کے نقطہ نظر، زمینوں سے متعلق قوانین، توانائی کے وسائل کے متعلق عوامی ملکیت کے تصور، سونے اور چاندی کو کرنسی کی بنیاد، اندرونی و بیرونی تجارت، محصولات جن کے ذریعے غریب ٹیکس سے محفوظ رہتے ہیں، اسلامی اور سرمایہ دارانہ کمپنیوں کے درمیان فرق، انشورنس اور اسٹاک مارکیٹ کے حرام ہونے، لوگوں کے درمیان دولت کی تقسیم، ریاست کا بجٹ اور دوسرے کئی امور کو بیان کرتی ہے۔
اس کتاب کی انفرادیت یہ ہے کہ معیشت سے متعلق اسلام کے احکامات کو اخذ کرنے کے لیے صرف اور صرف قرآن و سنت سے رجوع کیا گیا ہے۔ یہ کتاب تفصیل کے ساتھ سرمایہ دارانہ اور سوشلسٹ معاشی نظام کی نفی کرتی ہے اور ان میں موجود نقائص اور تضاد کو اسلام اور زمینی حقائق سے واضح کرتی ہے۔
نوٹ: یہ کتاب درج ذیل ویب لنک سے ڈاون لوڈ کی جاسکتی ہے:
http://pk.tl/1fLq

Read more...
Subscribe to this RSS feed

دیگر ویب سائٹس

مغرب

سائٹ سیکشنز

مسلم ممالک

مسلم ممالک