الجمعة، 25 صَفر 1446| 2024/08/30
Saat: (M.M.T)
Menu
القائمة الرئيسية
القائمة الرئيسية

شامی انقلاب کاراستہ روکنے کے لئے اوبامہ کےآپشنز

پریس ریلیز

امریکی سیکریٹری خارجہ جان کیری نے جمعہ کے دن 14 فروری 2014 کو یہ کہا کہ "صدرباراک اوبامہ نے ایک دفعہ پھرشام کے حوالے سے امریکی پالیسی پر مختلف آپشنز کو پیش کرنے کا مطالبہ کیاہے ، لیکن اب تک کسی آپشن کو ان کے سامنے پیش نہیں کیا گیا۔ "کیری نے صحافیوں سے گفتگوکرتے ہوئے کہا "اوبامہ شام میں بگڑتی انسانی صورتحال پر تشویش زدہ ہیں ، اور اس لئے بھی کہ وہ دیکھتے ہیں کہ حکومت اور اپوزیشن کے درمیان امن مذاکرات، منصوبے کے مطابق عبوری حکومت کی تشکیل پر غور و فکر کے حوالے سے اب تک کسی نتیجے پر نہیں پہنچ سکے"۔ کیری نے مزید کہا کہ "اس لئے اوبامہ نے ہم سب سے مطالبہ کیا ہے کہ ہم متعدد آپشنز پر غور کریں ، جو موجود ہوں یا نہ ہوں "۔
لگتا ایسا ہے کہ کیری اور اس کا صدر دونوں ہی شامی انقلاب کو سرنگوں کرنے کے لئے میسر آپشنز کے حوالے سے شش و پنج کی کیفیت میں مبتلاء ہیں ۔ سیاسی حل پر کام جنیوا میں ہوا ، جہاں امریکہ اور اس کے چیلوں مجرم بشار حکومت اور الجربا کی قیادت میں قومی اتحاد کی نمائندگی کرنے والے نام نہاد سیاسی مخالفین کے درمیان مذاکرات ہوئے۔ ہرشخص یقینی طور پر یہ جانتا ہے کہ بشارامریکہ کے کسی بھی حکم سے روگردانی نہیں کرتا، خواہ وہ کیمیائی اسلحے کی سپرد گی ہو، یا شام کی مشتعل اورنالاں قوم کاقتل عام ہو۔ اسی طرح سب یہ جانتے ہیں کہ اس اتحاد کا کرتادھرتا روبرٹ فورڈ ہی ہےجسےاس نے اپنے ہاتھوں سے تشکیل دیاہے ۔ سواس اتحادکے پاس اگرکوئی اختیارہے تو صرف اتناکہ ہائی کمشنرصاحب کی خواہشات کی اطاعت بجالانے میں لگارہے کیونکہ اسد کے جانے کے بعد اس نے یہ امیدیں لگائی ہیں کہ وہ ان کوبھی کسی حقیرسی خدمت کاشرف بخش دے گا، جیساکہ برطانیہ نے شریف حسین اوراس کے بیٹے فیصل کے ساتھ کیاتھا، جب خلافت کے انہدام کے بعد غنائم کی تقسیم پربحث کی جارہی تھی۔
جہاں تک حقیقی مذاکرات کاتعلق ہے تویہ شام کے میدانوں میں ہورہے ہیں ، جہاں اوبامہ شام کے اس سرپھرے اورناقابل تسخیر انقلاب پراپنے حل کومسلط کرنے کیلئے موجود آپشنز کوکام میں لانے کے حوالے سے تذبذب کاشکارہے، کہ کیاسکڈ میزائل چلانے کا سلسلہ پھر شروع کیا جائے ؟ یا بارود سے بھرے ڈرم گرانے کا سلسہ جاری رکھےیاپھر کیمیائی اسلحہ ایک بار پھر استعمال کیا جائے؟ کیاایران اور اس کے پیرو کار ، جوظلم اورظالموں کے خلاف کربلاء انقلاب کے نعرے لگاتے نہیں تھکتے تھے، اس قابل ہیں کہ شامی انقلابیوں کوانکل سام کے آگے جھکادیں گے ( انکل سام جس نے ایرانی حکومت کے ساتھ ایٹمی معاملہ طے کرکے اس کی زندگی کوطول دی اورایرانی خزانے میں کئی ملین ڈالرکی ترسیل کی تاکہ شام میں اپنی جنگ کی مالی ضرورتوں کوپوراکرسکے) اوراس مقصد کے حصول کیلئے وہ تکفیری دہشت گردی کامقابلہ کرنے کے نعروں کواستعمال کرتے ہیں۔
مگراس کاجواب شام کے علاقے درعا سے آیاکہ مذکورہ بالاآپشنز کے ساتھ امریکہ نے نمازِجمعہ کی ادائیگی کرکے مسجد سے نکلنے والوں کے ہجوم میں بارود سے بھری گاڑیوں کے دھماکے کروائے۔جیساکہ کل درعاکے شہر الیادودۃ میں ہوا، جہاں حکومت کے ایجنٹوں نے بارودسے بھری گاڑی گھسادی جو جمعہ کی نماز کےبعدپھٹ گئی ،جس کے نتیجے میں 32 نمازی جاں بحق اوردسیوں لوگ زخمی ہوئے جن کی حالت نازک بتائی جاتی ہے۔
ہمارے نزدیک یہ بعید نہیں کہ ان آپشنز کے ساتھ ساتھ بعض "مشائخ" کی طرف سے فتوی ٰ صادرکیاجائے کہ ولی الامرکے خلاف خروج حرام ہے۔ جب واشنگٹن کے پاس سیاسی حل تیار ہوجائے گا تو پھر جس چیز کی ضرورت ہو گی وہ صرف سعودی انٹیلی جنس کی سرپرستی میں نکلنے والے فتوئے کی ضرورت ہو گی جس کےلئے بس ولی الامر کی طرف سے ادنی ٰاشارے کی دیرہے۔ جہاں تک ایک ایسےخلیفہ کی بیعت کی طرف دعوت کی بات ہے جواللہ کی شریعت کے مطابق فیصلے کرے اورشام کی مبارک سرزمین میں خونریزی کی روک تھام کرے ، توعرض ہے کہ سلطان کے مشائخ اس سے پہلوتہی کرتے ہیں ،کیونکہ ایساکرکے وہ ولی الامر کی ناراضگی مول لیں گے ،جبکہ اگر کائنات کے مالک کی معصیت ہوجاتی ہے تواس میں ان کااپناایک نقطہ نظرہے، یہ لوگ زندگی سے پیارکرتے ہیں، چاہے اس کے لئےکتنی ہی ذلت و رسوائی اورجبارذات کی طرف سے غصے کے حقدارٹھہرتےہوں۔
اس میں خیرہی خیرہے ، کیونکہ شام کے انقلاب نے مسلمانوں کے ساتھ امریکی دشمنی کی حقیقت کھول کررکھ دی ،اتحاد کے اندراس کے بنائے ہوئےآدمیوں کی حقیقت کوبے نقاب کیااورشیطان ِاکبرکانعرہ لگانے والی ایرانی حکومت کی منافقت کا پردہ چاک کیا۔ اسی طرح مینڈکوں کی طرح ٹرٹر کرنے والےان خلیجی مشائخ کے دجل کوبے نقاب کیاجواپنے "ولی امر " کی مرضی کے فتوے صادرکرتے ہیں ۔ ان کایہ عمل ان کودنیاوآخرت میں ہلاکت کی طرف لے جائے گا۔
جہاں تک امت کےواحد آپشن کا تعلق ہے تووہ یہ ہے کہ تمام اسباب کے پیدا کرنے والے سے نصرت کے اسباب مانگے اوررب العالمین کے سامنے مخلص بن کر اپنی بندگی پیش کرکے گڑگڑائے، پھرمنہج نبوی کے مطابق خلافت راشدہ ثانیہ کے لئے مخلصین کے ساتھ سنجیدہ اوران تھک عمل کرے ۔ اللہ رب العزت کاارشاد ہے۔
﴿وَمَا النَّصْرُ إِلاَّ مِنْ عِندِ اللّهِ الْعَزِيزِ الْحَكِيمِ﴾
"اورفتح توکسی اورکی طرف سے نہیں ، صرف اللہ کے پاس سے آتی ہے جومکمل اقتدارکابھی مالک ہے،تمام تر حکمت کابھی مالک " (آل عمران: 126)۔
اوراللہ کاوعدہ حق ہے،
﴿وَلَقَدْ كَتَبْنَا فِي الزَّبُورِ مِن بَعْدِ الذِّكْرِ أَنَّ الْأَرْضَ يَرِثُهَا عِبَادِيَ الصَّالِحُونَ﴾
"اورہم نے زبورمیں نصیحت کے بعد یہ لکھ دیاتھاکہ زمین کے وارث میرے نیک بندے ہوں گے" (الانبياء: 105)۔
عثمان بخاش
ڈائریکٹرمرکزی میڈیاآفس
حزب التحریر

 

 

Read more...

سوال کا جواب: مجددکی پہچان

 

سوال: اللہ آپ کے ہاتھوں مسلمانوں کو فتح یاب کرے اور آپ کے علم سے ہمیں استفادہ کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔
مشہور صحیح احادیث میں سے ایک حدیث وہ ہے جسے جلیل القدر صحابی ابو ہریرہ رضی اللہ تعالی عنہ نے رسول اللہﷺ سے روایت کیا ہے کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا کہ ((إِنَّ اللَّهَ يَبْعَثُ لِهَذِهِ الْأُمَّةِ عَلَى رَأْسِ كُلِّ مِائَةِ سَنَةٍ مَنْ يُجَدِّدُ لَهَا دِينَهَا)) "بے شک اللہ ہر سو سالوں میں اس امت میں ایسا شخص بھیجتا ہے جو اس دین کو امت کے لیے زندہ کرتا ہے" (ابوداود 4291 نےروایت کی اور اسخَوی نے المقاصد الحسنة 149 میں اور اللبانی نے السلسلة الصحيحة 599 میں اسے صحیح قرار دیا ہے)۔ سوال یہ ہے کہ حدیث میں مجدد کا جو ذکر ہے یہ ایک فرد کے لیے ہے یا جماعت کے لیے؟ اور کیا یہ ممکن ہے کہ آپ ماضی میں گزرے ہوئے مجددین کی فہرست بیان کردیں؟ (ازطرف ابو مومن حماد)
جواب: وعليكم السلام ورحمۃ الله وبركاتہ
جی ہاں یہ حدیث صحیح ہے اور اس سے منسلک پانچ معاملات ہیں:
1۔ سو سال کا آغاز کس تاریخ سے ہوتا ہے؟ کیا یہ اللہ کے نبیﷺ کی پیدائش سے شروع ہوتا ہے؟ یا نبیﷺ کی بعثت سے ؟ یا ہجرت کے وقت سے یا پھر ان کی وفات سے؟
2۔ کیا ہر سو سال کے آغاز کا مطلب ہر سو سال کا آغازہے یا سو سالوں کے دوران یا سو سالوں کے آخر میں؟
3۔ کیا لفظ 'مَن' کا مطلب ایک فرد کا ہے یا لوگوں میں سے ایک گروہ جو لوگوں کے لیے دین کو زندہ کرے۔
4۔ کیا کسی صحیح ذریعے سے ایسی کوئی خبر ملتی ہے جو پچھلے کئی سو سالوں میں مجددین کی تعداد بتاتی ہو؟
5۔ کیا یہ جاننا ممکن ہے کہ چودھویں صدی ہجری میں جو 30 ذی الحجہ 1399 کو ختم ہوئی کون مجدد تھا جس نے لوگوں کے لیے دین کو زندہ کیا۔
میں مقدور بھر کوشش کرو ں گا کہ ان ممکنات کے متعلق جو مضبوط ترین رائے (راجع قول) ہے بغیر کسی اختلافی نکات میں پڑے بیان کردوں۔ اور میں کہتا ہوں کہ توفیق اللہ کے پاس ہے اور وہی سیدھے راستے کی طرف ہدایت دینے والا ہے ۔
1۔ کس تاریخ سے سو سالوں کا آغاز ہوتا ہے؟
المناوی نے فتح القدیر میں کہا ہے کہ "اور انھوں نے سال کے آغاز کے معاملے میں اختلاف کیا ہے۔کیا یہ آغاز پیدائش نبوی سے ہے یا بعثت سے یا ہجرت سے یا پھر آپ ﷺ کی وفات سے؟ اور میری رائے میں راجع قول یعنی قوی بات یہ ہے کہ اس کو ہجرت سے لینا چاہیے کیونکہ یہ وہ دن ہے جس دن مسلمانوں اور اسلام کو ریاست کے قیام سے عزت اور طاقت عطا کی گئی۔ اور یہی وجہ ہے کہ جب حضرت عمر رضی اللہ تعالی عنہ نے صحابہ کو سال کےآغاز کے بارے میں جاننے کے لیے اکٹھا کیا تو انھوں نے ہجرت پر ہی انحصار کیا"۔ الطبری نے اپنی طریق میں کہا ہے کہ "عبد الرحمن ابن عبد اللہ بن عبدل الحکم نے مجھ سے کہا ، نعیم بن حماد نے ہم سے کہا کہ الدراوردی نے ہمیں عثمان بن عبید اللہ بن ابی رافع سے بتایا، جس نے کہا کہ میں نے سعید ابن مصعب کو کہتے سنا کہ ، 'عمر بن خطاب نے لوگوں کو اکٹھا کیا اور ان سے پوچھا ، کس دن سے ہم تاریخ لکھیں تو علی رضی اللہ تعالی عنہ نے کہا کہ اس دن سے جس دن اللہ کے نبی ﷺ نے ہجرت کی اور شرک کی زمین کو چھوڑا"۔ اور ابو جعفر نے کہا "ہجرت کے پہلے سال کا تعین اس سال کے محرم سے ہونا چاہیے جس سال محمد ﷺ نے ہجرت کی یعنی نبی ﷺ کی مدینہ آمد سے دو ماہ اور چند دن قبل سے کیونکہ محمدﷺ 12 ربیع الاول کو مدینہ پہنچے تھے"۔ اس بنیاد پر یہ زیادہ بہتر ہے کہ سو سال کی گنتی ہجرت کی تاریخ سے کی جائے جس کی تبنی صحابہ کرام نے کی۔
2۔ جہاں تک صدی کی شروعات کا تعلق ہے تو راجع قول اختتام ِصدی کا ہے یعنی کہ مجدد ایک ایسا متقی و مشہور عالم ہے جوسو سال کے آخر میں ہو گا اور اس کا انتقال بھی سو سال کے آخر میں ہو گا نہ کہ صدی کے شروع یا وسط میں۔ جہاں تک میرا اس رائےپر بھروسہ کرنے کا تعلق ہے تو اس کی وجہ یہ ہے:
ا) صحیح روایت سے یہ بات ثابت ہوتی ہے کہ "عمر بن عبدلعزیز (راس) پہلے سو سالوں کے آغاز میں آئے اور 101 ہجری میں ان کا انتقال ہوا جب ان کی عمر 40 سال تھی۔ جبکہ امام شافعی دوسری صدی ہجری کے آغاز میں آئے اور ان کا انتقال 204 ہجری میں 54 سال کی عمر میں ہوا۔
اب اگر ہم دوسری رائے کو سو سالوں کے آغاز کے بارے میں دیکھیں جو صدی کے آغاز کو ان سو سالوں کے لیے بنیاد بناتی ہے تو پھر عمر بن عبدالعزیز پہلی صدی کے مجدد نہیں ہوں گے کیونکہ آپ کی پیدائش 61 ہجری میں ہوئی۔ اور امام شافعی بھی دوسری صدی ہجری کے مجدد نہیں ہوں گے کیونکہ ان کی پیدائش 150 ہجری میں ہوئی۔ اس کا مطلب ہوا حدیث میں ہر سو سال پر مجدد کی آمد سو سال کے آخر کے بارے میں ہے نہ کہ آغاز کے بارے میں یعنی مجدد صدی کے وسط میں پیدا ہو ، پھر صدی کے آخر کی طرف وہ مشہور عالم ہو اور صدی کے اختتام پر اس کا انتقال ہو۔
ب) جہاں تک اس دلیل کا تعلق ہے جو یہ بتاتی ہے کہ عمر بن عبد العزیز پہلی صدی کے مجدد تھے اور امام شافعی دوسری صدی کے مجدد تھے، جو اس امت کے علما اور اماموں میں مشہور ہے تو ازہری اور امام احمد بن حنبل اورشروع اور بعد کے علما اس بات پر متفق ہیں کہ پہلی صدی ہجری کے مجدد عمر بن عبدالعزیز اور دوسری صدی ہجری کے مجدد امام شافعی ہیں۔ عمر بن عبد العزیز کا انتقال 101 ہجری میں ہوا جب ان کی عمر 40 برس تھی اور ان کی خلافت کی مدت ڈھائی سال تھی جبکہ امام شافعی کا انتقال 204 ہجری میں ہوا جب ان کی عمر 54 برس تھی۔ حافظ ابن حجر نے 'توالی التاسیس' میں بیان کیا ہے کہ "ابو بکر البزار نے کہا کہ میں نے عبد المالک بن عبد الحمید المامونی کو کہتے سنا کہ میں امام احمد بن حنبل کے ساتھ تھا جب امام شافعی کا ذکر ہوا تو میں نے دیکھا کہ امام احمد نے اپنے ہاتھ اٹھائے اور رسول اللہ سے منقول کیا کہ اللہ تعالی ہر سو سال کے شروع میں ایک ایسے شخص کو چنتا ہے جو ان کو دین سِکھاتا ہے ۔اور انھوں نے کہا کہ عمر بن عبد العزیز پہلی صدی ہجری کے آخر میں تھے اور میں یہ امید کرتا ہو ں کہ دوسری صدی ہجری کے آخر میں وہ امام شافعی تھے"۔
اور ابو سعید الفربابی نے کہا کہ امام احمد نے کہا "بے شک اللہ لوگوں کے لیے ہر سو سال میں ایسے شخص کو چنتا ہے جو ان کو سنت سِکھاتا ہے اور نبیﷺ کی سنت سے جڑے ہوئے جھوٹ کو رد کرتا ہے، تو ہم نے اس کو سمجھا اور جانا کہ پہلی صدی ہجری کے مجدد عمر بن عبدالعزیز تھے جبکہ دوسری صدی ہجری میں امام شافعی تھے۔اور خاتم نے اپنی مستدرک میں ابو الوحید سے روایت کیا کہ "میں ابو العباس بن شریح کی مجلس میں تھا جب ایک شیخ ان کے پاس آئے اور ان کی تعریف کی۔ پھر میں نے ان کو کہتے سنا کہ ابو طاہر الخولانی نے ہم سے کہا اور دوسرا عبد اللہ بن وحب کہ سعید ابن ایوب نے مجھے شوراحیل بن یزید سے بتایا، انھوں نے ابو القامہ سے اور انھوں نے ابو ہریرہ سے بتایا کہ نبی ﷺ نے فرمایا کہ ((إِنَّ اللَّهَ يَبْعَثُ لِهَذِهِ الْأُمَّةِ عَلَى رَأْسِ كُلِّ مِائَةِ سَنَةٍ مَنْ يُجَدِّدُ لَهَا دِينَهَا)) " بے شک اللہ اس امت میں ہر سو سال کے آخر میں ایک ایسا بندہ( مجدد) بھیجتا ہے جو ان کے لیے دین کو زندہ کرتا ہے"۔ تو اے قاضی خوشخبری ہو کہ بے شک اللہ تعالی نے پہلی صدی ہجری کے آخر میں عمر بن عبد العزیز کو بھیجا اور دوسری صدی ہجری کے آخر میں اللہ نے محمد ابن ادریس الشافعی کو بھیجا۔حافظ ابن حجر نے کہا کہ یہ ظاہر کرتا ہے کہ یہ حدیث اس دور میں مشہور تھی۔
د) یہ کہا جاسکتا ہے کہ کسی چیز کے آغاز کا مطلب لغوی طور پر اس کی ابتدا ہوتی ہے تو پھر ہم یہ کیسے کہہ سکتے ہیں کہ قوی رائے میں ہر سو سال کے آغاز سے مطلب سو سال کے آخر ہوتے ہیں، ابتدا نہیں ہوتا؟
اس کا جواب یہ ہے کہ جس طرح 'راس' کا مطلب عربی میں کسی چیز کی ابتدا ہوتی ہے اسی طرح 'راس' کے معنی آخر کے بھی ہیں۔ تاج العروس لغت میں کہا گیا ہے کہ کسی چیز کے راس کا مطلب ہے راس کی انتہا یعنی اس کا آخری حصہ۔ اور لسان العربی لغت میں کہا گیا ہے چھپکلی اپنے راس کے ساتھ بل سے باہر آئی جس کا مطلب یہ ہے کہ سر پہلے باہر آیا یا دُم، یعنی آخری حصےکا پہلا حصہ۔ اس لیے کسی چیز کے راس کا مطلب عربی زبان میں ابتدا ہوسکتا ہے اور اس کا مطلب انتہا بھی ہوسکتاہے چاہے وہ آغاز ہو یا آخر ۔ لہذا ہمیں قرینہ کی ضرورت ہے جو ظاہر کرے کہ یہاں کون سے معنی مطلوب ہیں۔ کیا "سو سال کے راس" کا مطلب آغاز ہے یا آخر؟ اور یہ قرینہ پچھلی روایت میں موجود تھا جس کے مطابق عمر بن عبد العزیز پہلی صدی کے مجدد تھے اور ان کا انتقال 101 ہجری میں ہوا اور امام شافعی دوسری صدی ہجری کے مجدد تھے اور ان کا انتقال 204 ہجری میں ہوا۔ یہ تمام دلائل واضع کرتے ہیں کہ قوی معنی حدیث میں راس کے سو سال کے آخر میں مجدد کے ہیں نہ کہ شروع میں۔لہذا ان دلائل کی بنیاد پر میرے نزدیک مضبوط رائے یہ ہے کہ 'راس' کے معنی ہیں"ہر سو سال میں راس" کا مطلب صدی کے آخری حصے کے ہیں۔
3۔ جہاں تک لفظ 'مَن' کا تعلق ہے کہ یہ ایک فرد کے لیے ہے یا ایک گروہ کے لیے تو حدیث کہتی ہے ((يبعث لهذه الأمة... من يجدد لها دينها)) "اللہ امت میں ایسا شخص بھیجتا ہے جو اس امت کے لیے دین کو زندہ کرتا ہے"۔ اب اگر 'مَن' سے مرادگروہ ہوتا تو فعل جمع کی شکل میں ہوتا جیسے 'یجدونا'، لیکن یہاں فعل واحد کی شکل میں ہے۔ قطع نظر اس کے کہ 'مَن' جمع کے معنی بھی ظاہر کرتا ہے چاہے فعل واحد کی شکل میں ہی کیوں نہ ہو۔ میرے نزدیک یہاں قوی رائے فرد کے معنی ظاہر کرتی ہے کیونکہ قرینہ 'یجدو' واحد کی شکل میں موجود ہے۔ اور میں قوی رائے بیان کر رہا ہوں کیونکہ جو لفظ یہاں استعمال ہوا ہے اس کے معنی قطعی طور پر فرد کے نہیں ہیں چہ جائکہ فعل واحد کی شکل میں ہی کیوں نہ ہو۔ اس وجہ سے کچھ فقہا نے یہاں 'مَن' کے معنی سے گروہ مراد لی ہے اور انھوں نے وہ قول لیے ہیں جو ہر صدی میں علما کے گروہوں کے بارے میں ہے ۔ لیکن یہ رائے پہلی بیان کردہ رائے سے کمزور ہوجاتی ہے جیسا کہ اوپر بتایا گیا ہے۔
آخر میں قوی رائے یہ ہے کہ 'مَن' سے مراد فرد کے ہیں یعنی مجدد، جس کا حدیث میں ذکر ہے یعنی ایک فرد جو متقی اور مشہور عالم ہیں۔
4۔ جہاں تک گزری ہوئی صدیوں میں مجددین کے ناموں کی فہرست کا تعلق ہے تو روایات بتاتی ہیں کہ سب سے مشہور فہرست منظم انداز میں السیوطی کی ہے جو نویں صدی ہجری تک بیان کرتی ہے اور وہ اللہ سے دعاگو ہیں کہ وہ خود نویں صدی ہجری کے مجدد ہوں۔ اب میں ان کا کچھ حصہ بیان کرتا ہوں۔
۔ پہلی صدی ہجری میں عمر تھے، عادل خلیفہ جس پر سب متفق ہیں۔
۔ اور امام شافعی دوسری صدی میں اپنے اونچے علم کی بنیاد پر۔
۔ پانچویں امام غزالی اپنے بحث اور دلائل کی بنیاد پر ۔
۔ ساتویں جو اونچائی تک اونچے ہوئے ابن دقیق العید جس پر سب متفق ہیں۔
۔ اور یہ نویں صدی ہے اور جو ہدایت دیتا ہے وہ وعدہ خلافی نہیں کرتا اور میں امید کرتا ہوں کہ نویں صدی کا مجدد میں ہوں کیونکہ اللہ کا کرم کبھی ختم نہیں ہوتا۔
5۔ اور کیا ہم یہ جان سکتے ہیں کہ کون تھا چودھویں صدی ہجری کا مجدد جو 30 ذی الحجہ 1399 کو اختتام پذیر ہوئی جس نے لوگوں کے لیے دین کو زندہ کیا۔
یہ بات میری توجہ میں آئی جو مشہور اور قابل احترام علما ء کے درمیان موجود ہے جس کے مطابق 'راس' صدی کے آخر میں ہے۔ عمر بن عبدالعزیز 61 ہجری میں پیدا ہوئے اور پہلی صدی ہجری کے آخر میں 101 ہجری میں ان کا انتقال ہوا اور امام شافعی سن 150 ہجری میں پیدا ہوئے اور صدی کے آخر میں 204 ہجری میں ان کا انتقال ہوا۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ ان میں ہر مجدد صدی کے وسط میں پیدا ہوا اور صدی کے آخری دور میں مشہور ہوا۔ اور جیسا کہ میں نے کہا کہ میرے نزدیک مضبوط ترین رائے جو قابل احترام علما ءکے نزدیک مشہور ہے کہ عمر بن عبد العزیز پہلی صدی کے مجدد تھے اور امام شافعی دوسری صدی ہجری کے۔ تو اس بنیاد پر میرے نزدیک قوی رائے یہ ہے کہ عظیم عالم ِدین تقی الدین النبہانی چودھویں صدی کے مجدد تھے۔ ان کی پیدائش 1332 ہجری میں ہوئی اور وہ صدی کے آخر میں مشہور ہوئے خاص کر جب انھوں نے جمادی الثانی 1372 ہجری میں حزب التحریر کی بنیاد رکھی اور ان کا انتقال 1398 ہجری میں ہوا۔ ان کی دعوت مسلمانوں کے اہم ترین مسئلے یعنی خلافت کے قیام کی طرف تھی، اسلامی زندگی کے ازسرنو آغاز کی طرف اور اس دعوت نے مسلمانوں کی زندگیوں پر گہرا اثر ڈالا ۔ اور ان کی دعوت اور اجتہاد کےذریعےخلافت آج مسلمانوں کی آواز بن چکی ہے۔ تو اللہ کا رحم اور مہربانی ہو ابو ابراہیم پر اور اللہ کی مہربانی ہو ان کے بھائی ابو یوسف پر جو ان کے بعد آئے اور اللہ ان کو جنت میں انبیاء، صدیقین، شہدا ءاور صالحین میں اکٹھا کرے اور یہ کیا ہی عظیم صحبت ہے۔
میرے بھائی ابو مومن! یہ وہ ہے جو میں سب سے قوی سمجھتا ہوں اور اللہ سب سے زیادہ با خبر ہے کہ کیا صحیح ہے اور اسی کا ہے جو سب سے بہتر ٹھکانہ ہے۔
آپ کا بھائی،
عطا بن خلیل ابو الرشتہ

Read more...

حزب التحریر نے خلافت کی صحت پالیسی کا اعلان کردیا خلافت صحت کی سہولیات کی دستیابی کو تمام شہریوں کا حق قرار دے گی

حزب التحریر ولایہ پاکستان نےخلافت کے شہریوں کی صحت کو یقینی بنانے کے حوالے سے پالیسی دستاویزجاری کی ہے۔یہ پالیسی اس بات کو یقینی بنائے گی کہ صحت کی سہولیات کی دستیابی معاشرے کی ایک بنیادی ضرورت اورحق ہے اور آنے والی خلافت میں بلا امتیازِ رنگ، نسل، جنس اور مذہب ،یہ حق تمام شہریوں کو حاصل ہوگا۔
پاکستان کی صحت عامہ کی صورتحال انتہائی پریشان کن ہے ۔ قابل علاج مگر خطرناک بیماریاں عام ہیں، مریضوں کی صحت کے حوالے سے تعلیم کی کمی، ناقص طریقہ علاج جو صحت کے اصولوں سے متصادم ہے، صحت عامہ کا کوئی جامع نظام نہ ہونا، ناقص بنیادی کلینیکل تربیت اور بنیادی طبی تحقیق کی غیر موجودگی جو مقامی بیماریوں اور صحت کی ضروریات کی بنیاد پر کی جارہی ہو۔ اس وقت نجی شعبہ 80فیصد بیرونی مریضوں(outpatient) کی دیکھ بحال کرتا ہے۔ صحتِ عامہ کی سہولیات کی فراہمی میں نجی شعبہ کے غلبے نے اِن سہولیات کی فراہمی کوخدمت کی جگہ کاروبار اور بنیادی حق کی بجائے آسائش بنا دیا ہے۔ مسلسل بڑھتی ہوئی نجی ڈاکٹر وںکی فیس، ادوایات اور میڈیکل ٹیسٹ کی قیمتوں نے پاکستان کے عوام کی اکثریت کے لیے ایک آسان اور سستا علاج انتہائی مشکل بنا دیا ہے۔
یہ افسوسناک صورتحال جمہوریت کے سب سے بڑے دعویدار ، اور ہمارے حکمرانوں کے آئیڈل ماڈل ، امریکہ کے نطام سے منسوب ہے۔ امریکہ میں جمہوریت نے مریضوں کو گاہک اور صحت کی سہولت کو ایک آسائش بنا دیا ہے۔ جمہوریت نے صحت عامہ کے شعبے اور ادویات میں تحقیق کو ایک چھوٹے سے اشرافیہ کے طبقے کو فائدہ پہنچانے کے لیے نجی شعبے کے حوالے کردیا ہےاور یوں یہ اقلیتی طبقہ کروڑوں لوگوں کی پریشانیوں سے فائدہ اٹھاتا ہے۔ نجکاری کی بدولت طبی ادویات اور صحت کی سہولیات نہ صرف دنیا کے بیشتر لوگوں کے لئے بلکہ مغربی دنیاکے کئی لوگوں کے لیے بھی ایک ناقابل حصول شے بن چکی ہیں۔
یہ تکلیف دہ صورتحال خلافت کے دور سے کوسوں دور ہے۔ خلافت میں ریاست رسول اللہ ﷺ کے احکامات کی بنیاد پر ایک مضبوط صحت عامہ کے شعبے کو چلاتی تھی۔ رنگ ،نسل، جنس یا مذہب سے قطع نظر ریاست کے تمام شہریوں کو صحت کی سہولیات کی فراہمی ریاست خلافت پر فرض ہے۔ رعایاکے لیے صحت اور علاج معالجے کی ضروریات کو فراہم کرنا بھی ریاست کے فرائض میں شامل ہے۔ ڈسپنسریاںاورہسپتال وہ سہولیات ہیں جن سے مسلمان ادویات اور علاج معالجے کے سلسلے میں فائدہ اُٹھاتے ہیں ۔
ریاست اپنے عام شہریوں کو ہر قسم کی طبی سہولتیں مفت فراہم کرے گی۔ تاہم ڈاکٹروں کو فیس پر بلوانے یا ادویات کی خرید و فروخت پر پابندی نہیں لگائے گی۔
صحت عامہ کی اس قدر عظیم ذمہ داریوں کو پورا کرنے کے لیے درکار مالیاتی وسائل کو حاصل کرنے کے لیے ریاست خلافت محاصل کے نظام میں شریعت کے مطابق تبدیلیاں لائے گی اور تعلیمی ترقی کی رفتار کو بھی بڑھائے گی۔ خلافت عوامی اثاثوں جیسے توانائی کے وسائل اور ریاستی اداروں جیسا کہ تعمیراتی کمپنیوں اور بھاری صنعتوں سے وسیع مالیاتی وسائل حاصل کرے گی۔ خلافت صنعتوں پر زکوٰۃ اور زراعت پر خراج نافذ کرے گی اور ظالمانہ انکم ٹیکس اور جنرل سیلز ٹیکس کا خاتمہ کرے گی جنھوں نے معاشی سرگرمیوں کو مفلوج کر کے رکھ دیا ہے۔
نوٹ :اس پالیسی اوراس سے متعلق ریاست خلافت کے دستور کی دفعات کے تفصیلی دلائل جاننے کے لیے اس ویب سائٹ لنک کو دیکھیے۔
http://htmediapak.page.tl/policy-matters.htm

Read more...

سوال کا جواب: ترکی میں اردگان اور فتح اللہ پارٹی کی باہمی مخاصمت اور امریکی سفیر کے بارے اردگان کا بیان

 

سوال: ترک وزیر اعظم اردگان نے 25 دسمبر 2013 کو نئی حکومت کی تشکیل کااعلان کردیا، جس میں دس وزراء کوتبدیل کیا ہے، جبکہ تین وزراء نے استعفے دیدئے ہیں، ان میں وزیر ماحولیات بھی شامل ہیں جنھوں نے اردگان سے مستعفی ہونے کا مطالبہ بھی کیا تھا۔ یہ سب کچھ ترک حکومت کی مالی اور سیاسی کرپشن کے سکینڈل کے پس منظر میں پیش آیا جس نے پچھلے دس دنوں سے حکومت کو ہلا کر رکھ دیا ہے۔ اس سے پہلے 20 دسمبر 2013 کو ان 49 لوگوں میں سے 24 کو گرفتار کر لیا گیا تھا، جو حکومت اور اس کی پارٹی کے قریبی ساتھیوں میں سے تھے، جن کو 17 دسمبر 2013 کو کرپشن کے الزام میں تفتیشی اداروں نے طلب کیا تھا.....اس کے بعد وزیراعظم نے ان لوگوں کے خلاف سخت ایکشن لیا جو ان کی گرفتاری اور ان کی کرپشن کو بے نقاب کرنے کا باعث بنے تھے۔ وزیراعظم نے دسیوں سکیورٹی افسران کو بھی معطل کیا جن پر فتح اللہ گولن تحریک میں سے ہونے کاشبہ تھا اوراس پارٹی پر خوب غصہ نکالا گیا اور اس کے ساتھ ساتھ ترک وزیراعظم نے ترکی میں امریکی سفیر کوبھی تنقید کانشانہ بنایا۔ سوال یہ ہے کہ کن حالات کی بنا پر اردگان اور فتح اللہ پارٹی کے درمیان تعاون اور حمایت کے تعلقات باہمی مخاصمت میں تبدیل ہوئے؟ امید ہے کہ حتی الامکان اس کی تفصیل سے آگاہ کردیں گے، کیونکہ مذکورہ پارٹی کے ساتھ اردگان کے حالیہ برتاؤ کے بعد اس حوالے سے ہمارے اندر اُلجھن پیداہوئی ہے۔ نیز یہ کہ امریکی سفیر کے بارے میں اردگان کے بیان کا کیا مطلب ہے؟ باوجودیکہ امریکہ کے ساتھ اردگان کے اس حد تک مضبوط تعلقات رہے ہیں کہ اسے ترکی میں امریکہ کا آدمی کہا جاتا ہے۔

 

جواب : موجودہ صورتحال کی تمہید بننے والے عوامل اور اس پرمرتب ہونے والے نتائج کو سامنے لایا جائے تو مذکورہ بالا سوال کا جواب واضح ہو جاتا ہے۔
1۔ تفتیش کے اعلان اورگرفتاریوں نے حکومت، اس کی پارٹی اورپارٹی صدر اردگان کو اس لئےاشتعال دلایا کہ یہ صرف حکومتی ارکان اوراس کی برسر اقتدار پارٹی کے خلاف تھا۔ ان میں حکومتی وزیروں کے چار بیٹے، استنبول کے علاقے الفاتح کا میئر اور سٹیٹ بینک کا CEO بھی شامل تھے۔ اسی طرح ان میں حکومت کے قریبی بزنس مین بھی شامل تھے۔ دوسری طرف ترکی میں تین مہینے بعد 30 مارچ 2014 کو انتخابات بھی ہونے والے ہیں، جس میں اردگان دوبارہ صدر بننے کے لئے اپنی عوامی مقبولیت میں اضافے کا خواہشمند ہے۔ صدارتی انتخابات مقامی انتخابات کے چند مہینوں بعد 26 اگست 2014 کو منعقد ہونے والے ہیں۔ صدارتی انتخابات میں عوام بلاواسطہ ووٹ استعمال کریں گے جبکہ اس سے پہلے ایسا نہیں ہوتا تھا کیونکہ صدر کا انتخاب پارلیمنٹ کیا کرتی تھی۔ یہی وجہ ہے کہ اردگان نے نہایت سخت رد عمل دکھایا چنانچہ اس نے فتح اللہ گولن تحریک کے پیروکار سکیورٹی افسران کو تبدیل کیا اور انھیں عدلیہ کی مدد سے سبق سکھانے کی دھمکی دی جیسا کہ اخبار ملیات میں 18 دسمبر 2013 کو یہ رپورٹ شائع کی گئی کہ ".....لیکن عدلیہ کے میدان میں کام کرنے والوں کو حقوق اور قانون کا احترام کرنا ضروری ہے، انھیں کسی مخصوص گروہ کی ہدایت کے مطابق کام نہیں کرنا چاہیے کیونکہ عدلیہ میں کام کرنے والے کسی شخص کو یہ حق نہیں کہ وہ انتظامیہ پر دباؤ ڈالے یا ایسی ہدایات و احکامات دے جو وہ نہیں دے سکتا۔ اگر تم عدلیہ کو لوگوں پر دباؤ ڈالنے کیلئے استعمال کرو گے تو ہم بھی اپنی ذمہ داری پورا کر کے رہیں گے اورہم نے کر کے دکھایا"، اس کااشارہ سکیورٹی افسران کی معطلی کی طرف تھا۔ گولن تحریک کے مقابلے میں اپنے مؤقف کے حق میں ہمدردی حاصل کرنے کے پیش نظر اس نے کھل کر بیرونی مداخلت کا اشارہ دیا، اس نے کہا "آخری دنوں میں جو کچھ ہوا وہ ایک بین الاقوامی مداخلت ہے اور یہ بیرونی احکامات پر اندرونی کارندوں کی ایک کاروائی تھی " جیسا کہ اسی اخبار میں آیا.....پھر اس کے بعد ہی 20 دسمبر 2013 کو جب کہ وہ اپنے حق میں رائے عامہ کے حصول کے سلسلے میں اپنے دورے پر تھا اور سامسون میں قیام کر رہا تھا تو اس نے کہا کہ "سفیربعض سازشی سرگرمیوں میں ملوث ہے، میں اس سے کہتا ہوں کہ اپنا کام کرو، اگر تم اپنے دائرے سے باہر قدم رکھو گے تو ہماری حکومت اس حد تک جائے گی جتنی کہ اس کے پاس صلاحیت ہوگی".....(ملیات 17 دسمبر 2013)، اس کا اشارہ امریکی سفیر ریچارڈونی کی طرف تھا۔ اردگان بعض ترک اخبارات The Star, The New Twilight ,The Evening میں شائع ہونے والی خبر پرتبصرہ کر رہا تھا جبکہ انقرہ میں امریکی سفیر نے 17 دسمبر 2013 کو بعض یورپی نمائندوں کے ساتھ ملاقات بھی کی.....اور یہ رپورٹ اس بات کا اشارہ دے رہی تھی کہ ان واقعات میں امریکی سفیر ملوث ہے، اس لئے اردگان گولن پارٹی کے بارے میں غیظ و غضب سے بھر پور بیانات دیتا رہا اور امریکی سفیر کو نہایت محتاط رہنے کے لئے متنبہ کرتا رہا۔
2۔ جہاں تک گولن تحریک کاتعلق ہے تو مشہور یہ ہے کہ جب سے اردگان اور اس کی پارٹی نے 2002 سے اقتدار سنبھالا ہے، گولن نے ان کی پشت پناہی کی۔ حکومت نے کئی اداروں میں اس کو سرائیت کرنے کی اجازت دی، اس پر مستزاد یہ کہ یہ پارٹی بڑی تعدادمیں پرائیویٹ ٹیوشن مراکز کی دیکھ بھال کرتی تھی جن کے ذریعے طالب علموں کی ٹیوشن سے پارٹی کیلئے فنڈ اکٹھے کئے جاتے تھے، ساتھ ہی پارٹی کے ساتھ کام کرنے کیلئے انہی طالبعلموں کو تیار کیا جاتا تھا اور یہ سب کچھ اعلانیہ ہوا کرتا تھا اور اردگان کو ان سے کسی قسم کا خطرہ نہیں تھا، بالخصوص جبکہ یہ پارٹی اپنی سرشت میں پیری ومریدی کی ایک شکل ہے۔ بالفاظ دیگر یہ کوئی سیاسی تنظیم نہیں جس کا کوئی سیاسی ایجنڈا ہو جس کو نافذ کرنے کیلئے وہ حکومت کے ساتھ مزاحمت کرے۔ اس لئے اردگان ان کو کوئی خاص توجہ نہیں دیتا تھا اور خاص کر یہ پارٹی اردگان کے مثل امریکہ کا دست و بازو ہے۔ فرق صرف اتنا ہے کہ ان دونوں کے کردار اور اسالیب مختلف ہیں.....ان دونوں نے اداروں پر تسلط اور برطانیہ کے وفادار قومی ڈھانچے کو توڑنے میں کردار ادا کیا۔ اسی تحریک کے ذریعے امریکہ کو اداروں پر اثر انداز ہونے کا موقع ملا۔ اسی طرح امریکہ کو اردگان اور اس کی پارٹی کے واسطے فوج اور سیاست کے مراکز میں سرائیت کا موقع ملا، یوں یہ دونوں گروپ اور پارٹی ترکی میں امریکہ کے دو بازو ہیں اور ان کی آپس میں دوستی اور تعاون اور ایک ہی مرکز کے ساتھ وفاشعاری کا تعلق رہاہے۔ یہاں یہ بات بھی مد نظر رہے، کہ امریکہ اردگان حکومت کے اوائل میں ترکی میں اپنے آدمیوں کی ایک متحد اور مضبوط پارٹی بنانے کا خواہش مندتھا کیونکہ ان دنوں برطانوی قوتوں کی عدلیہ اور فوج کے اندر مؤثر قوت موجود تھی جو امریکہ کے لئے تشویش کا باعث تھی.....ان عوامل کی بنا پر امریکہ کو یہ خواہش ہوئی کہ اردگان اور اس کی پارٹی اور فتح اللہ گولن تحریک کے درمیان بغیر کسی کشیدگی کے صاف ستھرے تعلقات قائم ہوں۔ یہ حالات 2010 کے اوائل تک برابر جاری رہے۔ اس سال کچھ ایسے حوادث پیش آئے جس میں اردگان اور فتح اللہ گولن کے درمیان اختلافات کے بیج بوئے گئے۔ سب سے پہلے فتح اللہ گولن نے مرمرہ کشتی (Marmara Flotilla) کے بارے میں خط بھیجا، جس پر یہودیوں نے 31 مئی 2010 کو جارحیت کی تھی، گولن نے اپنے خط میں واضح کیا: "کشتی کو اسرائیلی پانیوں میں روانہ کرنا زبردست غلطی تھی، سب سے پہلے تل ابیب سے اس کی اجازت حاصل کرنا ضروری تھا"۔ اس خط میں اس نے کشتی بھیجنے کے فیصلے کو غلط قرار دیا اور یہودی وجود کے عمل اور ان کی جانب سے کشتی میں سوار ترکوں کو قتل کرنے میں اسرائیل کو حق بجانب قرار دیا، جبکہ اردگان کشتی اور اس میں سفر کرنے والوں کے ساتھ کھڑا تھا لہٰذا اردگان نے فتح اللہ کے خط کو شخصی تنقید سمجھا۔ اس سب کے باوجود دونوں نے معاملے کو رفع دفع کر دیا اور ان کے درمیان تعلقات دوستانہ نہج پر آگئے۔ 12 ستمبر 2010 کو اردگان نے دستوری ترامیم پر ریفرنڈم کی دعوت دی جس کی فتح اللہ نے حمایت کی۔ اس ریفرنڈم (استصواب رائے) میں "ہاں" کے پلڑے میں وزن ڈالنے میں فتح اللہ کا اثر تھا۔ گولن نے ریفرنڈم سے چند ہفتے قبل امریکہ میں اپنے ہیڈ کوارٹر سے ترک قوم کو دستوری ترامیم پر اتفاق رائے کی دعوت دیتے ہوئے کھل کر کہا: "یہ ترامیم اگرچہ محدود ہیں مگر ان پر بعد میں اثرات مرتب ہوں گے اوریہ مزید آزادیوں اور جمہوری مشق کیلئے ایک تحریک ہوں گی"۔ اردگان اس ریفرنڈم میں کامیاب ہوا، جہاں ان ترامیم پر 58٪کی نسبت سےاتفاق رائے حاصل ہوا اور برسر اقتدار پارٹی نے اپنے ہیڈ کوارٹر کے سامنے ایک بڑے جلسے کاانتظام کیا۔
اس اتفاق رائے پر اداروں میں بڑی تبدیلی مرتب ہوئی، جس کی وجہ سے ان آسامیوں پر بحالی عمل میں لائی گئی جن کو قوم پرستوں سے خالی کر کے پارٹی کے لوگوں کو ان پر مقرر کیا گیا۔ اس طرح عدلیہ کی سپریم کونسل اور پبلک پراسیکیوٹرز میں بھی تبدیلیاں ہوئیں اور روزگار کے نئے مواقع پیداکئے گئے۔ یہ سب کچھ گولن تحریک کے مفاد میں کیا گیا جس کی وجہ سے اس کو ان با اثر اداروں میں اثر و رسوخ حاصل ہوا، یوں تحریک نے سپریم جوڈیشل کونسل اور پبلک پراسیکیوٹر کے ماتحت اہم اور سپیشل عدالتوں پر تسلط حاصل کرلیا۔
3۔ اس کے بعد 2011 کے شروع ہوتے ہی ان کے درمیان دوبارہ بحران پیدا ہوا، جب اردگان نے دیکھا کہ سکیورٹی اور عدلیہ کے اندر تحریک کااثر و نفوذ اس کیلئے پریشانی اور تکلیف کاباعث ہو رہا ہے، اور تحریک غلبہ و تسلط حاصل کرنے کی کوشش کر رہی ہے.....اب پہلے کی طرح تحریک کا رویہ تعاون کا نہیں رہا تھا اور اردگان اور گولن تحریک کے درمیان اب عمل اور رد عمل کا تبادلہ ہونے لگا۔
ا۔ 2011 کے آغاز سے اردگان نے اس تحریک کا اثر ختم کرنے پر کام شروع کیا، چنانچہ 2011 کے الیکشن میں پارلیمنٹ کی ممبرشپ کیلئے امیدواروں کی فہرست سے اس تحریک سے وابستہ لوگوں کی چھانٹی کی، پھر سکیورٹی اور بعض عدالتوں سے اس تحریک سے وابستہ اشخاص کو معزول کردیا۔
ب۔ اس عمل کے ردعمل میں اس تحریک کے ذرائع ابلاغ نے اردگان پر یورش کر دی۔ نہ صرف یہ بلکہ تحریک نے نیشنل انٹیلی جنس اداروں کے سربراہ خاقان فیدان کی گفتگو کا پروپیگنڈا شروع کیا جو اس نے کردستان کی لیبرپارٹی Öcalan's PKK کی قیادتوں کے ساتھ 2009-2010 میں اوسلو میں کی تھی اور جس کی کیسٹ ستمبر 2011 میں نشر کی گئی تھی۔ گفتگو کا موضوع کرد مسئلے کا تصفیہ تھا۔ اس زمانے میں اس بات چیت کو خفیہ رکھا گیا تاکہ اس کا اعلان ہونے سے پہلے فضا کو ساز گار بنایا جا سکے .....اس تحریک کی طرف اعتراض کی انگلیاں اٹھائی جانے لگیں کہ اس کیسٹ کو نشر کرنے میں اسی کا ہاتھ ہے۔ 7 فروری 2012 کو تحریک کے وفادار چیف پراسیکیوٹر کو انٹیلی جنس سربراہ کے ساتھ تفتیش کیلئے طلب کیاگیا۔
ج۔ اردگان نے اس کو اپنے لئے زندگی اور موت کا مسئلہ سمجھا کیونکہ یہ وزیراعظم پر اثر انداز ہو کر رہے گا اور ان رازوں سے پردہ اٹھائے گا جو کرد لیبر پارٹی کے ساتھ ریاست کے اپنی انٹیلی جنس کے ذریعے رابطوں سے متعلق ہیں۔ اس لئے اردگان اپنے انٹیلی جنس سربراہ کو کسی بھی قسم کی قانونی گرفت سے بچانے کیلئے سرگرم ِ عمل ہوا اور اس کیلئے اس نے پارلیمنٹ سے ایک قانون پاس کروایا کہ: "انٹیلی جنس اسٹیبلشمنٹ کے ملازمین اور وہ لوگ جن کو وزیراعظم کی طرف سے خصوصی کام سپرد کئے گئے ہوں، سے تفتیش نہیں کی جائے گی، سوائے اس کہ وزیراعظم اس کی اجازت دیدیں"۔ اس کے بعد اردگان نے انقرہ، استنبول اور ازمیر میں انٹیلی جنس حلقوں کی صفائی کیلئے آپریشن کیا۔ ایساہی اس نے تعلیمی نیٹ ورک اورعدلیہ میں سے ان اشخاص کی صفائی پر کام کیا جو گولن تحریک سے وابستہ تھے۔
د۔ پھروہ مرحلہ آیا جو اس تحریک پر زور دار طریقے سے اثر انداز ہوا۔ اس سے مراد اردگان کاوہ منصوبہ ہے جو کہ وہ پرائیویٹ ٹیوشن مراکز کے خاتمے اور ان کو حکومتی نصاب کی تعلیم دینے والے پبلک سکولوں یا سیکنڈری سکولوں میں تبدیل کرنے کیلئے عمل میں لایا۔ لگ بھگ ایک ہزار مراکز تحریک سے وابستہ تھے۔ یہ مراکز طالبعلموں کے سرپرستوں سے مہنگی فیسوں کا مطالبہ کرتے تھے۔ طالب علم حکومتی سکولوں میں اپنی کمزور تعلیمی سطح کو مضبوط کرنے کیلئے ان مراکز کی طرف رجوع کرتے تھے تاکہ وہ ملک کی بڑی یونیورسٹیوں میں داخلہ لینے کے قابل بن سکیں۔ تحریک اس کے درپردہ دو بنیادی اہداف کیلئے کوشاں تھی: مال کمانا اور تحریک کیلئے طالبعلموں کو حاصل کرنا۔ اس لئے اردگان حکومت نے تعلیمی نظام میں یہ تبدیلیاں کرنی چاہیں اور ان مراکز کو ایسے پبلک سکولوں میں تبدیل کیا جو حکومتی نصاب کی تعلیم دیتے اور ان کو حکومت کی نگرانی میں لایا گیا۔ اس نے یونیورسٹیوں میں داخلہ لینے کا نظام تبدیل کیا۔ پرانے نظام میں داخلے کیلئے سیکنڈری کی تعلیم کے بعد داخلے کیلئے تیاری کا سال نصاب سے خارج کیا گیا تھا، جس کی وجہ سے سرپرستوں کی بڑی تعداد اپنے بچوں کوان مراکز میں بھیجنے پرمجبور ہوتی تھی تاکہ وہ یونیورسٹیوں میں داخلہ لینے کے قابل بنیں، اوراپنے پسندیدہ شعبہ میں داخلے کیلئے اعلیٰ نمبرحاصل کرسکیں۔ ان مراکز کو ختم کرنے یا بند کرنے کا نتیجہ یہ ہوگا کہ تحریک، مال کمانے اور افراد سازی، دونوں میدانوں میں نقصان اٹھائے گی۔ اس لئے جب اردگان نے ان مراکز کو معطل کرنے اور ان کو حکومتی تحویل میں دینے کا اعلان کیا تو تحریک غصے سے بپھر گئی.....تحریک نے اردگان کی اس کاروائی پر رد عمل کے بارے سوچنا شروع کیا، تاکہ تین مہینوں بعد 30 مارچ 2014 کو منعقد ہونے والے انتخابات میں اس کی کامیابی پر اثر انداز ہوا جاسکے۔
ھ۔ اس کے بعد کرپشن کا سکینڈل سامنے آیا جس میں اردگان کی حکومت اور اس کی پارٹی کے لوگوں اور اس کے مقربین کو گرفتار کیا گیا.....اس کا الزام فتح اللہ گولن تحریک پر لگایا گیا کیونکہ تحریک ان پر الزام لگاتی رہی اور اس نے ان گرفتاریوں اور تحقیقات پر خوشی کا اظہار کیا تھا اور اس کو اپنے ذرائع ابلاغ میں اچھالا۔ مگر اردگان کی طرف سے تبادلوں کی جو تیز تر کاروائیاں کی گئیں، یعنی کئی سکیورٹی آفیسرز کو معزول کیا جن کے تحریک کے ساتھ روابط تھے۔ ان تبدیلیوں نے تحریک کی خوشیوں پر پانی پھیر دیا اور ان کو خاصی پریشانی ہوئی۔ اب تحریک نے ان تبدیلیوں کیلئے رکاوٹیں پیدا کرنے یا خلل ڈالنے کی کوششیں شروع کر دیں کہ یہ تبدیلیاں غیر قانونی یا غیر لازم ہیں۔ اس کے ہمنوا میڈیا نے یہ خبر شائع کی کہ جولائی 2013 سے اب تک حکومت کی طرف سے سکیورٹی افسران کی تبدیلیوں کو صدر نے مسترد کیا ہے اور وہ اس سے متفق نہیں ہیں.....پھر صدارتی دفتر نے 20 دسمبر 2013 کو فی الفور صدر عبداللہ گل کا بیان شائع کیا اور گولن تحریک کی طرف سے شائع کی گئی خبر کو جھٹلایا .....اس طرح پارٹی کی طرف سے یہ تاثردینےکی کوشش ناکام ہوگئی کہ اردگان اور عبداللہ گل کے درمیان اختلافات ہیں۔ اس کے بعد تحریک یہ محسوس کرتے ہوئے اردگان پر برسنے لگی کہ ان تبدیلیوں نے ان کے دلوں پر گھاؤ لگایا ہے، چنانچہ تحریک کے صدر فتح اللہ گولن نے پنسلوانیا، امریکہ میں اپنے ہیڈ کوارٹر سے غصے سے بھرا ایک ریکارڈ شدہ آڈیو بیان نشر کیا جسے 21 دسمبر 2013 کو اس کے ذرائع ابلاغ نے شائع کیا۔ اس میں دعا کی گئی اور دعا کچھ یوں تھی "اے اللہ جنہوں نے چوروں کو چھوٹ دی اور چوروں کا پیچھا کرنے والوں کا پیچھا کیا، تو ان کو زمین میں دھنسا دے، اے اللہ جن لوگوں نے مجرموں سے چشم پوشی کی اور مجرموں کا پیچھا کرنے والوں کو بد نام کیا اے اللہ تو ان کو زمین میں دھنسا دے، اے اللہ ان کے گھروں کو جلا دے ان کے مکانوں کو مسمار کر دے ان کا شیرازہ بکھیر دے ان کی نسل کاٹ دے، ان میں پھوٹ ڈال دے، ہمیں ان پرفتح دلا دے"۔ معلوم ہوتا ہے کہ تحریک پر کیا گیا حملہ زور دار تھا، تاہم وہ ٹوٹنے اور ختم ہونے سے بچ گئی۔
4۔ یوں 2010 سے اردگان اور فتح اللہ گولن کے درمیان حالات نے پلٹا کھایا اور اس کے بعد مسلسل تین سالوں تک حالات میں مزید گرمی آتی رہی جو آج تک جاری ہے۔ تحریک اور پنسلوانیا میں مقیم اس کے صدر نے امریکہ کی خدمت گزاری میں جو کچھ پیش کیا گیا ان میں، اللہ کے دین کے خلاف جسارت، نظام خلافت کے ساتھ دشمنی اور پارٹی کی طرف سے آخری سانس تک امریکی مفادات کی حمایت کرنا شامل ہے۔ ان تمام کی بنا پر گولن نے یہ گمان کیا کہ اردگان کے ساتھ روز افزوں مقابلہ اور مزاحمت کرکے امریکی خوشنودی سمیٹ لے گا۔ یوں امریکہ اس کو اردگان کا متبادل ٹھہرا دے گا اور اردگان کے ساتھ مقابلے میں اس کی حمایت کر دے گا.....چنانچہ، جیسا کہ ہم نے پہلے ذکر کیا، وہ اردگان کیلئے پریشانیاں پیدا کرنے پر اتر آیا۔ جہاں تک امریکہ کیلئے پارٹی کی خدمات کا تعلق ہے جن بنیادوں پر گولن کا خیال تھا کہ امریکہ اس کی حمایت کرکے اسے اردگان کامتبادل ٹھہرا دے گا، تو ان میں سے کچھ یہ ہیں:
ا۔ معتدل اسلام کی طرف اس کی دعوت یا بالفاظ دیگر سیکولر جمہوری افکار سے آلودہ ترمیم شدہ اسلام کی دعوت، وہ ان افکار کا شدت کے ساتھ دفاع بھی کرتا تھا اور اسی طرف لوگوں کی رہنمائی کرتا تھا، اس کیلئے وہ اپنی تحریک کے ذرائع کو کام میں لاتا تھا۔
ب۔ بین المذاہب، بالخصوص یہود ونصاریٰ کے ساتھ، مکالمہ میں اس کی پارٹی کی متحرک سرگرمیاں، تاکہ ان سب کو مسلمان سمجھ کر ان کو مسلمانوں کے برابر کیا جائے، یہ پارٹی دعوت دیتی تھی کہ ان کیلئے مساجد کے ساتھ عبادت خانے تعمیر کئے جائیں۔ نیز علوی نصیریوں کیلئے بھی عبادت خانوں کی تعمیر کی بات کی۔
ج۔ اسلامی ریاست ِخلافت کے قیام کی دعوت دینے والی تمام تحریکوں پر حملے، پارٹی نے ان سب پر علیحدگی پسندی اوردہشت گردی کا الزام لگایا۔ اپنے اس میڈیا جو اس کی ملکیت ہے، کے ذریعے ان کے خلاف منفی پروپیگنڈا کیا اور سکیورٹی اور عدالتی اداروں کو ان کے بارے میں معلومات فراہم کیں۔
د۔ اس کے صدر نے امریکہ کو 1990 سے اپنا ہیڈکوارٹر بنایا ہوا ہے۔ امریکی حکام اور انٹیلی جنس ایجنسیوں کے ساتھ اس کی ملاقاتوں کا دائرہ وسیع ہوا۔ پھر اس نے امریکہ میں ایسے لیکچر دیے جو امریکی مفادات کے معاون افکار و نظریات پر مشتمل تھے۔ اس نے پہلے بھی امریکہ کی عراق و افغانستان جنگ کو برا نہیں سمجھا اور آج بھی اس کے متعدد ذرائع ابلاغ شام کی اسلامی انقلابی تحریکوں پرتنقید کرتے ہیں اور ان کو دہشت گرد تصور کرتے ہیں، ان کو بدنام کرنے میں لگے ہیں اور اس کے خلاف امریکی موقف کی تائید کرتے ہیں۔
ھ۔ یہودی وجود کی حمایت کرنا۔ اس نے مئی 2010 کے اواخر میں اہل غزہ کی مدد کیلئے روانہ کی جانے والی مرمرہ کشتی بھیجنے پر ناپسندیدگی کا اظہار کیا اور یہود کو اس پر حملہ کرنے کا حق دیا۔ اس نے ترک لوگوں کی قربانیوں پر کوئی تعزیت کی نہ ہی ان کو شہداء کہا۔ اس سے پہلے اس نے 1991 میں یہود پر صدام حسین کے حملہ کو بھی ناپسند کیا تھا اور اس حملے کی زد میں آنے والے یہودیوں کے قتل پر افسوس کا اعلان کیا تھا۔ انٹرنیٹ پر اس کی ویب سائٹ نے فتح اللہ گولن کی ایک تصویر شائع کی جس میں وہ مشرقی یہودیوں کے ایک ربی (پادری) الیاہودورون کے ساتھ 1998 میں ملاقات کرتے ہوئے دکھایا گیا ۔
مذکورہ خدمات محض چند مثالیں ہیں.....پارٹی نے یہ گمان کیا کہ اس طرح وہ امریکی حمایت حاصل کرلے گی اوراس کو اردگان پر برتری دلا دے گی۔ غالب خیال یہی ہے کہ اس کا یہ گمان اس کے لئے تباہ کن ثابت ہوگا کیونکہ امریکہ اردگان کو، جو ایک سیاسی تحریک کا لیڈر ہے ، اپنے مفادات کے حصول میں گولن اور اس کے مریدوں کی تحریک سے بڑھ کر باصلاحیت سمجھتا ہے۔ امریکہ نے ترکی کے اندر اگر کچھ حاصل کیا ہے اور اپنا اثر و نفوذ وہاں مستحکم کیا ہے تو یہ صرف اس سیاسی پارٹی کے بل بوتے پر جس کی قیادت اردگان کر رہا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ امریکہ اپنے سیاسی منصوبوں بالخصوص کرد مسئلے سے متعلق امریکی پلان کے نفاذ، یا اندرون اور بیرون ملک اس کے دوسرے منصوبوں بشمول شام کے مسئلے میں کامیابی کیلئے امریکہ اس کے ساتھ تعاون کرتا ہے۔ اگر اردگان پر دباؤ بڑھ جائے اور وہ استعفی ٰ دیدے تو غالب گمان یہ ہے کہ امریکہ جسٹس پارٹی میں سے کسی دوسرے مضبوط شخص کو ڈھونڈے گا، نہ کہ فتح اللہ گولن کو۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ فتح اللہ گولن کی تحریک حقیقت میں ایک غیرسیاسی تحریک ہے جو "جیتنے والے کے ساتھ ہے " کی مصداق ہمیشہ سے سیاسی پارٹیوں کے سائے تلے رہی ہے۔ یہ گزشتہ صدی کی آٹھویں دہائی میں تورگت اوزال کی ANAP کے ساتھ رہی، اس کے بعد رفاہ پارٹی کی حمایت کی، پھر نجم الدین اربکان کی زیرقیادت رفاہ پارٹی کے زوال کے بعد 1998 میں اجاوید کی قیادت تلے سوشلسٹ جمہوری پارٹی کی حمایت کی۔ جب جسٹس اینڈ ڈویلپنمٹ پارٹی کی بنیاد رکھی گئی تو اس کے سائے تلے آئی، اس لئے اس کوایک موقع پرست تحریک کی نظرسے دیکھا جاتا ہے جو اقتدار حاصل کر لینے والی ہر سیاسی پارٹی کی حمایت کرتی ہے تاکہ ذاتی مفادات کے حصول کو ممکن بنائے۔ اس بنا پر متوقع یہ ہے کہ وہ اردگان کے ساتھ صلح کرنے کیلئے کام کرے گی کیونکہ ایسا کئے بغیر وہ نقصان اٹھائے گی .....اور اس کی شروعات اس تحریک اور اس کے پیروکاروں کی کار گزاری سے ظاہر ہو رہی ہے۔ چنانچہ گولن نے اردگان پر درپردہ وار کرنے سے کنارہ کشی اختیار کی، جبکہ مہینہ پہلے اس کو فرعون اور نمرود تک کہا تھا۔ اس نے اپنی آواز میں اپنی تحریک کے لوگوں کو ایک آڈیو پیغام دیا تھا کہ "جب فرعون اور نمرود تمہارے مقابل ہوں تو تم حق پر ہو گے"۔ پھر مزید سکڑتا گیا یہاں تک کہ حال ہی میں یہ تجویز دی کہ اس کے پرائیویٹ ٹیوشن مراکز کو باقی رکھا جائے بھلے ان کو حکومت کی نگرانی میں ہی دے دیا جائے۔ مگر اردگان اپنے فیصلے پرمصر رہا.....حتی کہ عدلیہ اور سکیورٹی اداروں میں بھی فتح اللہ کے آدمیوں میں اب مزید بوجھ اٹھانے کی سکت نہیں رہی۔ چنانچہ کئی لوگوں کو گرفتار کیا گیا اور جو اپنے اداروں میں کام کرتے رہے وہ اپنے فیصلوں میں گومگو کی کیفیت سے دو چار ہیں۔ چنانچہ بعض عدالتوں نے اردگان کے فیصلے سے اتفاق کیا کہ وہ سکیورٹی منتظمین کی طرف سے افسران بالا کی موافقت کے بغیر براہ راست فیصلے قبول نہیں کریں گی، جبکہ قلیل تعداد ایسے لوگوں کی ہے جنہوں نے اس فیصلے سے جی چھڑانے کی کوشش کی۔ 27 دسمبر 2013 کو پرائیویٹ این ٹی وی نیوز نے کہا "ایک ترک عدالتِ عالیہ نے حکومت کے اس فیصلے کو کالعدم قرار دیا کہ تحقیقات کرنے والے پولیس افسر، افسران بالا کو مطلع کر دیا کریں"، لیکن اس کے ساتھ عربی سکائی نیوز نے 26 دسمبر 2013 کو بتایا کہ ترک حکومت کے وزراء پر لگائے گئے کرپشن الزامات کی تحقیقات کی قیادت کرنے والے اٹارنی جنرل معمر اکاش نے کہا "اسے اس مسئلے میں مشکلات کاسامناہے" وہ اس طرف اشارہ کر رہا تھا کہ "تحقیقات میں رکاوٹ آ چکی ہے".....
اردگان سکیورٹی اور عدلیہ میں موجود اس تحریک کے معاونین کو برابر دھمکا رہا تھا۔ اس نے صوبہ اوردو میں فاتصا کی عدلیہ کے دورے کے دوران کہا "میں عدلیہ سے یہ کہتا ہوں! تم انتظامیہ سے کہتے ہو کہ وہ اپنے اندر موجود میل کچیل کو صاف کریں مگر تم خود مکمل طور پر صاف نہیں ہو، اورہم اپنے اختیارات کوجانتے ہیں" (حریت 21 دسمبر 2013)۔ اس طرح مستقبل کی توقعات کے حوالے سے اردگان کا موقف فتح اللہ کے موقف سے زیادہ قوی ہے، خاص کر جب کہ اردگان کا فوج کے اندر اثر و رسوخ مؤثر ہوا ہے، چنانچہ ترک ذرائع نے بتایا کہ ترک مسلح افواج نے ایک بیان صادر کیا جس میں کہا گیا ہے کہ "وہ کسی بھی قسم کی سیاسی آراء اور سیاسی تانے بانوں سے اپنے آپ کو دور رکھتی ہے وہ ترک قوم کی وفادار ہے" یہ بیان 27 دسمبر 2013 کو یونائیٹڈ پریس انٹرنیشنل اور الحیات ویب سائٹ پرجاری کیا گیا۔
5۔ جہاں تک اردگان کے اپنے بیان میں امریکی سفیر کی طرف اشارے کی بات کا تعلق ہے جسے اخبار ملیات نے 21 دسمبر 2013 کو شائع کیا تو معاملہ یہ ہے کہ:
ا۔ مذکورہ کرپشن کے فیصلوں میں گرفتاری مہم کے دوران تین اخبارات "The Star, The New Twilight, The Evening" نے ایک خبرشائع کی، خبر میں بتایا گیا کہ 17 دسمبر 2013کو امریکی سفیر ریچرڈونی نے انقرہ میں یورپی یونین کے بعض نمائندوں سے ملاقات کی۔ رپورٹ اس بات کا اشارہ دے رہی تھی کہ ان واقعات میں امریکی سفیر ملوث ہے۔ ان اخبارات نے دعوی ٰکیا کہ وزیرخارجہ داؤد اوگلو جلد ہی امریکی وزیرخارجہ جان کیری کے ساتھ رابطہ کرکے اسے سفیر کے طور طریقوں سے متعلق وزارت خارجہ اور سفارتی عملے کی بے چینی کے بارے میں آگاہ کرے گا.....
اس کے باوجود امریکی سفیر رچرڈونی نے اس خبر کوجھٹلایاہے اورکرپشن کیس سے متعلق گرفتاریوں کے ساتھ امریکہ کے کسی بھی قسم کے تعلق کی نفی کی ہے اور یہ اس کے ٹویٹر پیغام کے ذریعے معلوم ہوا ہے، اس نے کہا "امریکہ کا، رشوت ستانی یا غیر قانونی اسالیب کے کرپشن کیسوں کے حوالے سے ، گرفتاریوں کوئی تعلق نہیں۔ یہ خبریں محض جھوٹ اور بہتان ہیں۔ کوئی بھی شخص ترکی امریکہ تعلقات کو ان جیسے بے بنیاد دعوؤں کے ذریعے خطرات سے دوچار نہیں کر سکتا اور دونوں ممالک کے درمیان دوستی و تعاون کا رشتہ دونوں ممالک کیلئے ناگزیر اہمیت کا حامل ہے" (اخبار ملیات 21 دسمبر 2013)۔ مگر اردگان نے اس سے فائدہ اٹھایا، ایسا محسوس ہوتا ہے گویا اس کو اس خبر کی اشاعت کے وقت کا علم تھا، جس کی وجہ سے بعض تجزیہ نگاروں کو یہ کہنا پڑا کہ یہ خبر اردگان کیلئے تیار کی گئی تھی تاکہ موجودہ واقعات کا استحصال کرتے ہوئے وہ کہہ سکے کہ یہ واقعات بین الاقوامی دراندازی کی وجہ سے ہیں، تاکہ اس کو بیرونی سازش باور کرا کر لوگوں کے جذبات اپنے ساتھ ملاسکے! اور جب وہ اپنے حق میں رائے عامہ کے حصول کے سلسلے میں دورے پرتھا، اس نے 20 دسمبر 2013 سامسون میں قیام کے دوران کہاکہ "سفیربعض سازشی سرگرمیوں میں ملوث ہے، میں اس سے کہتا ہوں کہ اپنا کام کرو، اگر تم اپنے دائرے سے باہر قدم رکھو گے تو ہماری حکومت اس حد تک جائے گی جتنی کہ اس کے پاس صلاحیت ہوگی".....(ملیات 17 دسمبر 2013)۔ مگر بعد میں جو کچھ ہوا وہ یہ کہ نہ تو داؤد اوگلو کیری سے ملا، اور نہ ہی اردگان کا یہ بیان زیادہ دیر منظر نامے پر رہا، بلکہ جسٹس اینڈ ڈویلپمنٹ پارٹی کے جنرل نائب صدر حسین چلیک نے یہ بیان دیا "یقیناً امریکی سفیر فرنک ریچرڈونی نے اپنے ٹویٹر کے ذریعے اس کے بیان سے متعلق خبروں کی تردید کی ہے، جو ہمارے ہاں کےبعض معتبر اخبارات میں شائع ہوئیں" (حریت21 دسمبر 2013)۔
ب۔ باوجود یکہ ایک ملک جب بیرونی مداخلت پر احتجاج کرتا ہے تو مروجہ طریقے کے مطابق اپنا احتجاج ریکارڈ کروانے کے لئے اس کی طرف اپنا وزیر خارجہ بھیجتاہے یا سفیر کو طلب کرتا ہے.....اسی طرح اگر کسی ملک کے اندر تعینات سفیر کسی خبر کی تردید کرتا ہے جو اس ملک کی طرف سے اس کے بارے میں شائع کی گئی ہو، تو معمول کے مطابق وہ اس ملک کی وزارت خارجہ کو پیغام دیتا ہے جس میں وہ اس خبر کی تردید کرے.....لیکن یہاں صرف اتنا ہوا کہ صدر نے زبانی بیان دیا اور سفیر نے ٹویٹر پر اس کی تردید کی، یہ اس بات پر دلالت کرتا ہے کہ اردگان اور سفیر کے درمیان الفاظ کا یہ تبادلہ ایک ڈرامے کے سوا کچھ نہیں جس میں ناکام قسم کے کردار اداکاری کر رہے ہیں۔ یہ بات کہ امریکی سفیر کے بارے میں اردگان کا بیان باتیں ہی باتیں ہیں اس کی دلیل یہ ہے کہ جس تاریخ کو ملیات اخبار نے اردگان کا بیان شائع کیا اسی دن یعنی 21 دسمبر 2013 کو اخبار نے ایک خبر شائع کی جو کچھ اس طرح تھی"یہ بات قابل توجہ ہے کہ جب بین الاقوامی دراندازی سے کی جانے والی کرپشن کی تحقیقات کی پیروی کی جار ہی تھی، اسی دوران امریکی مشیر ڈیوڈ کوہن استنبول پہنچ جاتا ہے جو دہشت گردی اور مالیات سے متعلق امریکی وزارت خزانہ کے ماتحت کام کرنے والے انٹیلی جنس محکمہ کا انچارج ہے اوراسرائیل کے ساتھ قریبی تعلقات کی وجہ سےمشہور ہے۔ پھر وہ ترکی میں بینکوں کے منیجرز سے ملتا ہے اور ان کے ساتھ مالی امور اور ایران پر پابندیوں کے بارے میں بات چیت کرتاہے.....مشیر حکومتی اتھارٹی میں سے کسی کے ساتھ نہیں ملا"۔ یہ خبر اس بات کی طرف اشارہ کررہی ہے کہ اردگان کے الفاظ خالی بندوق کی طرح ہے جوپٹاخے تو مارتی ہے لیکن نقصان نہیں پہنچاتی۔ تو امریکی ذمہ داران آجاتے ہیں اورجس سے چاہیں ملاقات کرتے ہیں، جبکہ حکومتی ذمہ داروں کے ساتھ ملاقات کئے بغیر چلے جاتے ہیں۔
ج۔ اردگان کے بارے میں یہ مشہور ہے کہ اس کے امریکہ کے ساتھ روابط ہیں۔ وہ ترکی کے اندر اور باہر اس کے منصوبوں کو نافذ کرتا ہے۔ یہ منصوبے بالخصوص اندرونی منصوبے تکمیل کے متقاضی ہیں۔ اگر اردگان چلا جائے تو یہ سارے منصوبے معطل ہوجائیں گے.....امریکہ اردگان کواپنے طاقتور آدمیوں میں سے گردانتا ہے جنہوں نے اقتدار سنبھالنے کے بعد سے ترکی کے اندر اس کے اثر و رسوخ کو قائم کرنے کے مواقع فراہم کئے ہیں۔ اس سے قبل کی دہائیوں میں مصطفیٰ کمال کے عہد سے ترکی پر فوج کے ذریعے برطانوی اثر و رسوخ کا تسلط تھا جس نے اسلام اور مسلمانوں کے سخت ترین دشمن برطانیہ کے مطالبے کو پورا کرتے ہوئے لوزان کانفرنس میں خلافت کے خاتمے کا اعلان کردیا جس کے بدلے برطانیہ اس کو جمہوریہ ترکی کا صدر بنائے گا۔ اسی زمانے سے ترکی کی حکومتوں پر برطانوی اثر و نفوذ مسلط رہا ہے، جسے ختم کرنا امریکہ کیلئے ممکن نہیں تھا، بالخصوص فوج میں۔ مگرجب اردگان نے اقتدار سنبھالا برطانوی اثر و نفوذ کمزور پڑ گیا اور سیاسی منظر سے اوجھل ہو گیا اور برطانیہ نواز سیاسی پارٹیاں جن میں نمایاں پیپلز پارٹی ہے نہایت کمزورہوگئیں.....اس طرح اروگان کی حکومت میں اب امریکی اثر و نفوذ کا تسلط ہے جس کی نمائندگی صدر اور وزیراعظم کرتے ہیں۔ اس لئے اردگان کی طرف سے سفیر کے بارے میں یہ ایک لفظی بیان جس کی کوئی عملی حقیقت نہیں۔ ایسے بیانات کو امریکہ جانتا ہے اور اس بیان دینے والے کو بھی جانتا ہے کہ اس کا کوئی اثر نہیں ہوتا.....
6۔ خلاصہ یہ ہے کہ :
ا۔ ترکی کے موجودہ بحران کے قطبین امریکی ایجنٹ اردوگان اورفتح اللہ گولن ہیں۔
ب۔ برطانیہ جب تک ترکی پر اپنا اثر و رسوخ رکھتا تھا اس وقت تک امریکہ اردگان اور فتح اللہ کو ایک قوت اور باہم شیر و شکر دیکھنا چاہتا تھا، جب برطانیہ کا اثر کم ہوا تو امریکہ نے جسٹس پارٹی اور فتح اللہ کے تنازع پر خاموشی اختیار کی اور ان کو کھلا چھوڑ دیا تاکہ وہ اس کی وفاداری اور اس کے مفادات کی خدمت گزاری میں ایک دوسرے کے سے مقابلہ کریں۔
ج۔ غالب گمان یہ ہے کہ ممکنہ پیش بینی سے کم از کم اردگان کی حکومت رہے گی، وہ اپنی مقبولیت کو برابر اپنے قبضے میں رکھے ہوئے ہے، حتی کہ اگر اس پر دباؤ بڑھ جائے تو امریکہ گولن کی بجائے جسٹس پارٹی میں سے کسی دوسرے شخص کو ترجیح دے گا کیونکہ امریکہ کو یہ پتہ ہے کہ فتح اللہ کی تحریک شیخ اور مریدوں کی تحریک جیسی ہے، جسے اپنا وجود باقی رکھنے کیلئے کسی بااقتدار پارٹی کے سائے تلے رہنا پڑتا ہے، اسے حکومت نہیں مل سکتی۔
د۔ یہ امریکہ اور اس کے ایجنٹوں کے اندازے ہیں، امت جس چیز کیلئے عمل کر رہی ہے وہ یہ ہے کہ برطانوی اور امریکی اثر و نفوذ اور اس کے ایجنٹوں اور پیروکاروں کو اکھاڑ پھینکیں، ان شاء اللہ، اور خلافت کو دوبارہ قائم کریں جیسا کہ اللہ کے رسولﷺ نے فرمایا ((ثُمَّ تَكُونُ خِلَافَةٌ عَلَى مِنْهَاجِ النُّبُوَّةِ)) "پھرنبوت کے نقش قدم پر خلافت ہوگی" (احمد اور داؤد اطیالسی نے روایت کی)۔ اورجس نے بھی خلافت اور اس کیلئے کام کرنے والوں کے ساتھ مقابلہ کیا اور استعماری کفار کا ساتھ دیا چاہے برطانوی ہوں یا امریکی، روسی اور فرانسیسی وغیرہ، ایسے لوگ دنیا و آخرت میں مسلمانوں کے ہاتھوں ذلت و رسوائی اٹھائیں گے۔
﴿وَيَوْمَئِذٍ يَفْرَحُ الْمُؤْمِنُونَ * بِنَصْرِ اللَّهِ يَنْصُرُ مَنْ يَشَاءُ وَهُوَ الْعَزِيزُ الرَّحِيمُ﴾.
"اوراس روز مؤمن خوش ہوجائیں گے - اللہ کی مدد سے، وہ جسے چاہتا ہے مدد دیتا ہے اور وہ غالب اور مہربان ہے" (الروم : 4-5)

Read more...

وضاحتی خط حزب التحریر پر جھوٹے الزامات خلافت کے قیام کو روک نہیں سکتے خلافت کے قیام کو قریب دیکھ کر امریکہ اپنے جھوٹے ایجنٹوں کو حرکت میں لے آیا ہے

10 فروری 2014 بروز پیر، پاکستان کے مختلف ٹی وی چینلز پر یہ خبر نشر ہوتی رہی کہ وزارت داخلہ نے کراچی پولیس اور رینجرز کو ایک رپورٹ بھیجی ہے کہ کراچی یونیورسٹی میں القائدہ کی ذیلی تنظیم حزب التحریر قائم ہوچکی ہے جس نے وہاں پر لیفلٹ بھی تقسیم کیے ہیں۔ امریکی ایجنٹ حکمرانوں کی جانب سے اس قدر مزحکہ خیز جھوٹ واشنگٹن کے فکری دیوالیہ پن اور پاگل پن کا واضح ثبوت ہے۔ حزب التحریر ایک اسلامی سیاسی جماعت ہے جو خلافت کے قیام کے لیے رسول اللہﷺ کے منہج پر چلتے ہوئے صرف اور صرف فکری و سیاسی جدوجہد کرتی ہے۔ حزب خلافت کے قیام کے لئے عسکری جدوجہد کی راہ کو اسلام کی رو سے حرام تصور کرتی ہے۔ یہ بات ہر باخبر انسان جانتا ہے کہ 1952 میں حزب التحریر بیت المقدس میں قائم ہوئی تھی اور اپنے قیام کے وقت سے ، طریقہ کار کے اختلاف کے باوجود وہ تمام اسلامی جماعتوں کو دینی بھائی سمجھتی ہے۔ حزب نے کبھی بھی کسی جماعت کے پروگرام میں شرکت نہیں کی سوائے اس صورت کے کہ وہ سیاسی و فکری پروگرام ہو۔
ایجنٹ حکمرانوں کی جانب سے حزب التحریر کے خلاف جھوٹے پروپیگنڈے میں آنے والی تیزی کی وجہ یہ ہے کہ ان کے پاس حزب کی سیاسی و فکری جدوجہد کے خلاف سچ اور حقیقت پر مبنی بات کرنے کے لئے کوئی مواد سرے سے ہے ہی نہیں۔ وہ اور ان کے کافر استعماری آقا عوام اور افواج میں اسلام ، خلافت اور حزب التحریر کی بڑھتی ہوئی محبت سے ششدر ہوگئے ہیں۔ حزب التحریر سیاسی و فوجی قیادت میں موجود غداروں کو یہ بتا دینا چاہتی ہے کہ وہ حزب التحریر کے خلاف جتنا بھی جھوٹا پروپیگنڈہ کر لیں ، اللہ سبحانہ و تعالٰی کے حکم سے اسلام ایک ریاست کی صورت میں قائم ہو کر ہی رہے گا۔ وہ اپنی اس کوشش میں ویسے ہی بُری طرح سے ناکام و نامرادہوں گے جیسا کہ اس سے پہلے قریش کے کفار ناکام اور ذلیل ہوگئے تھے جب انھوں نے رسول اللہﷺ کو جادوگر، شاعر اور کاہن قرار دینے کے لئے زبردست مہم چلائی تھی۔
حزب التحریر پاکستان میں موجود میڈیا کے تمام اداروں کو بھی یاد دہانی کراتی ہے کہ جھوٹی خبر کو شائع کرنا بھی گناہ ہے۔ پاکستان کا میڈیا اس بات سے پوری طرح باخبر ہے کہ حزب التحریر ایک سیاسی جماعت ہے دنیا بھر میں اپنے شباب کی گرفتاریوں، ان پر تشدد یہاں تک کہ ان کی شہادتوں کے باوجود اپنے قیام کے دن سے لے کر آج تک، اس نے کبھی عسکری جدوجہد کہ راہ کو اختیار نہیں کیا کیونکہ وہ اس طریقہ کا ر کو حرام تصور کرتی ہے۔ لہٰذا ہم پاکستان کے میڈیا کو یہ نصیحت کرتے ہیں کہ حزب التحریر میں موجود اپنے بھائیوں اور بیٹوں کے خلاف حکومتی سازشوں اور جھوٹ کا حصہ نہ بنیں۔ رسول اللہﷺ نے فرمایا ، ومن كان يؤمن بالله واليوم الآخر فليقل خيراً أو ليصمت "وہ جو اللہ اور قیامت کے دن پر ایمان رکھتا ہے۔۔۔اسے سچ بولنا چاہیے یا پھر وہ خاموش رہے" (بخاری و مسلم)۔

شہزاد شیخ
ولایہ پاکستان میں حزب التحریر کے ڈپٹی ترجمان

Read more...

روس تاتارستان کے مسلمانوں پر مظالم کے پہاڑ توڑ رہا ہے حزب التحریر ولایہ پاکستان نے روسی قونصل خانے کے باہر مظاہرہ کیا

حزب التحریر ولایہ پاکستان نے دو کروڑ کی آبادی پر مشتمل پاکستان کے سب سے بڑے شہر کراچی میں روسی قونصل خانے کے باہر مسجد عمر پر مظاہرہ کیا۔ حزب التحریر ولایہ پاکستان تاتارستان میں روسی سکیورٹی ایجنسیوں کےہاتھوں مسلمانوں پر ڈھائے جانے والے شدیدمظالم کی پر زور مذمت کرتی ہے۔ ان روسی غنڈوں نے مسلمانوں کو مارا پیٹا ، ان کی ہڈیاں توڑ ڈالیں اور انھیں بجلی کے ذریعے اذیت کا نشانہ بنایا۔ مظاہرین نے بینرز اور کتبے اٹھا رکھے تھے جن پر تحریر تھا: "اے تاتارستان کے مسلمانو! خلافت کا قیام قریب ہے جوتمہیں روس کے مظالم سے نجات دلائے گی"۔
روس کو یہ جان لینا چاہیے کہ اس قسم کا جبر و تشدد اسلام کو اپنی منزل پر پہنچنے سے روک نہیں سکتا۔ تاریخ ان جابروں کی ذلت آمیز شکستوں سے بھری پڑی ہے جنھوں نے مسلمانوں کو اپنے ظلم و ستم کا نشانہ بنانے کی ہمت کی تھی۔ روس کو یہ بھی جان لینا چاہیے کہ وہ آج شام میں جس خلافت کے قیام سے شدید خوفزدہ ہے وہ اللہ کے حکم سے جلد ہی قائم ہو گی۔ اور چاہے پاکستان کو خلافت کا نقطہ آغاز بننے کا شرف حاصل ہوتا ہے یا نہیں ، لیکن مسلمانوں کی وسیع و عریض زمینیں اور طاقتور وسائل ایک بار پھر خلیفہ راشد کی قیادت میں ایک ہو جائیں گے۔
اے اللہ، الجبار، العزیز، مسلمانوں کو ان کی ڈھال خلافت اب ایک بار پھر لوٹا دیجئے! پھر ظالم و جابر افسوس سے اپنے سر پکڑے بیٹھے ہوں گے اور ان کے دل اس بات سے خوفزدہ ہوں گے کہ اب ان کے جرائم کا پورا پورا حساب لیا جائے گا! وہ مسلمانوں کی تمام افواج کو ایک فوج کی صورت میں دیکھیں گے جو جابروں کو ان کے انجام تک پہنچائے گی اور ایمان والوں کے دل اس سے سکون حاصل کریں گے۔ اللہ سبحانہ و تعالٰی فرماتے ہیں،
قَاتِلُوهُمْ يُعَذِّبْهُمُ اللَّهُ بِأَيْدِيكُمْ وَيُخْزِهِمْ وَيَنْصُرْكُمْ عَلَيْهِمْ وَيَشْفِ صُدُورَ قَوْمٍ مُؤْمِنِينَ
"ان سے تم جنگ کرو، اللہ تعالٰی انہیں تمھارے ہاتھوں عذاب دے گا، انہیں ذلیل و رسوا کرے گا، تمھیں ان پر مدد دے گا اور مسلمانوں کے کلیجے ٹھنڈے کرے گا"(التوبۃ:14)
اے افواج پاکستان! ہر جگہ شیطان کی کی دوست مسلمانوں کے خلاف اکٹھا ہو چکیں ہیں ۔ یہی وقت ہے کہ آپ صرف اللہ سے ڈریں اور ذلت و رسوائی کی لہر کا رخ موڑ دیں اور خلافت کے قیام کے لیے حزب التحریر کو نصرۃ فراہم کر کے ایک عظیم و شان فتح سے امت کو ہمکنار کریں۔
إِنَّمَا ذَلِكُمْ الشَّيْطَانُ يُخَوِّفُ أَوْلِيَاءَهُ فَلاَ تَخَافُوهُمْ وَخَافُونِي إِنْ كُنْتُمْ مُؤْمِنِينَ
"یہ خبر دینے والا شیطان ہی ہےجو اپنے دوستوں سے ڈراتا ہے۔ تم ان کافروں سے نہ ڈرو اور میرا خوف رکھو، اگر تم مؤمن ہو"(آل عمران:175)

Read more...

پاکستان میں حزب التحریر کی مرکزی رابطہ کمیٹی کے سربراہ کی پریس کانفرنس خطے میں امریکہ کی موجودگی بم دھماکوں اور انتشار کی بنیادی وجہ ہے شمالی وزیرستان کے لیے راحیل-نواز حکومت کی پالیسی امریکی سازشوں کوکامیاب بنانے کا ذریعہ بنے گی

حزب التحریر پاکستان کی مرکزی رابطہ کمیٹی کے سربراہ سعد جگرانوی نے لاہور میں ایک پریس کانفرنس سے خطاب کیا۔ یہ پریس کانفرنس شمالی وزیرستان کے حوالے سے راحیل-نواز حکومت کی پُر نقص اور پُر فریب پالیسی کو بے نقاب کرنے کے لیےمنعقد گئی تھی۔
مرکزی رابطہ کمیٹی کے سربراہ سعد جگرانوی نے کہا کہ پاکستان میں بم دھماکوں اور انتشار کوپیدا کرنے کے پیچھے امریکہ کا ہاتھ ہے۔ پاکستان میں اس قسم کی افراتفری صرف اور صرف امریکہ کے لیے فائدہ مند ہے۔ امریکہ یہ چاہتا ہے کہ پاکستان کی فوج اُن قبائلی جنگجوؤں کو نشانہ بنائے جو پاک افغان سرحد پار کر کے افغانستان پر قابض امریکہ کے خلاف لڑ رہے ہیں۔
سعد جگرانوی نے کہا کہ اگر حکومت نے شمالی وزیرستان میں بھر پور اور مکمل فوجی آپریشن شروع کیا تو اس کا مقصد افغانستان پر امریکی کنٹرول کو مستحکم کرنا اور اس کی موجودگی یقینی بنانا ہوگا۔ امریکہ یہ چاہتا ہے کہ پاکستان کے قبائلی علاقوں میں آگ بھڑکے تا کہ ان جنگجوؤں پر دباؤ ڈالے جو افغانستان میں امریکہ کے خلاف لڑتے ہیں۔ اس طرح امریکہ یہ مقصد حاصل کرنا چاہتا ہے کہ وہ افغان طالبان کی صلاحیت کو کمزور کردے تاکہ وہ امریکہ کے ساتھ ایک معاہدہ کرنے پر مجبور جائیں جس کے تحت طالبان افغانستان میں مستقل فوجی اڈوں اور نجی سیکورٹی کانٹریکٹرز کی صورت میں امریکہ کی موجودگی کو تسلیم کرلیں۔انھوں نے کہا کہ جہاں تک وزیرستان میں فوجی آپریشن کا تعلق ہے تو امریکہ کو اس کی جتنی اشد ضرورت اب ہے اس سے پہلے کبھی نہ تھی۔ معاشی لحاظ سے تباہ ہوتا ہوا امریکہ اور اس کی بزدل افواج کا گرتا ہوا حوصلہ امریکہ کو اس بات پر مجبور کررہا ہے کہ وہ محدود انخلاء کے بعد افغانستان میں اپنی موجودگی کو برقرار رکھنے کے لیے مذاکرات کا سہارا لے۔ یہی وجہ ہے کہ اس نے پاکستان کی قیادت میں موجود غداروں کو متحرک کیا ہے کہ وہ مذاکرات اور آپریشن کے متعلق خوب شور مچائیں۔ اس طرح امریکہ افغانستان میں فتح کا خواہش مند ہے، ایک ایسی فتح جو وہ خود اپنے بل بوتے پر کسی صورت حاصل نہیں کرسکتا تھا۔ لیکن امریکہ کو تحفظ فراہم کرنے کی صورت میں مسلمان مزید نقصان اٹھائیں گے جیسا کہ وہ اس سے قبل ماضی کے فوجی آپریشنز میں اٹھاچکے ہیں۔
مرکزی رابطہ کمیٹی کے سربراہ سعد جگرانوی نے مزید کہا کہ جب تک امریکہ ہمارے درمیان موجود ہے، امن کا قیام تو دور کی بات ہم امن کا تصور بھی نہیں کرسکیں گے۔ ہماری قیادت میں موجود غدار اس صورتحال کی ذمہ داری کبھی کسی پر ڈالتےہیں تو کبھی کسی اور پر، تاکہ اپنے آقا امریکہ کی خواہش پر ہمیں دھوکہ دے سکیں لیکن یہ کبھی اس بنیادی وجہ کی نشان دہی نہیں کریں گے جو کہ خطے میں امریکہ کی موجودگی ہے۔انھوں نے کہا کہ اسلام، دشمن امریکہ کے ساتھ کسی بھی قسم کے معاہدے کی اجازت نہیں دیتا اور پاکستان سے امریکہ کی موجودگی، اس کے اڈوں ، سفارت خانے اور قونصل خانوں کا خاتمہ اور اہلکاروں کو ملک بدر کرنا لازمی ہے کیو نکہ خطے سے امریکہ کی موجودگی کا خاتمہ کیے بغیر امن کا تصور بھی محال ہے۔
نوٹ: اس تقریر کا مکمل متن اس پریس ریلیز کے ساتھ جاری کیا گیا ہے جس کو اس لنک http://pk.tl/1ewZ پر دیکھا اور ڈاون لوڈ کیا جاسکتا ہے۔

برائے ویڈیو : http://pk.tl/1eA4

Read more...

بم دھماکوں اور انتشار کی بنیادی وجہ خطے میں امریکہ کی موجودگی ہے راحیل-نواز حکومت مذاکرات کی حمائت خطے میں امریکی موجودگی کو یقینی بنانے کے لیے کررہی ہے

امریکہ کی اندھی تقلید میں فوجی آپریشن کے ساتھ ساتھ راحیل-نواز حکومت اب مذاکرات کے چارے کو خطے میں امریکہ کی موجودگی کو یقینی بنانے کے لیے استعمال کررہے ہیں۔ خطے میں اپنی موجودگی کو برقرار رکھنے کے امریکی منصوبے میں افغانستان میں نو امریکی اڈوں کا قیام ، اسلام آباد میں سفارت خانے کی عمارت کی آڑ میں ایک بہت بڑے قلعے کا قیام، اس کے "ریمنڈ ڈیوس نیٹ ورک" کا تسلسل ہے جو ملک بھر میں ہونے والے بم دھماکوں اور قتل و غارت گری کی منصوبہ بندی کرتا ہے اور اس نیٹ ورک سے ہٹ کر افغانستان اور پاکستان میں نجی سکیورٹی کنٹریکٹرز کے پردے میں ایک لاکھ امریکیوں کی تعیناتی شامل ہے۔ اور اس سلسلے کے تحت اسلام آباد میں ہونے والی راحیل-نواز حکومت کی پہلی باضابطہ ملاقات کا مقصد اس کے سوا کچھ نہیں کہ یہ ہمارے وجود کے اس غیر ملکی کینسر کو قانونی حیثیت دینے کے لیے پہلا قدم ہے۔
اگر راحیل-نواز حکومت مسلمانوں کے بہتے خون کے سلسلے کو روکنے میں مخلص ہوتی تو وہ اسلام آباد میں موجود امریکی سفارت خانے اور اس کے ساتھ ساتھ کراچی، لاہور اور پشاور میں موجود قونصل خانوں کو بند کرنے کے لیے فوری آپریشن کرتی۔ وہ تمام امریکی انٹیلی جنس اور نجی امریکی عسکری تنظیموں سے وابستہ افراد کو گرفتار کرتی اور ان پر مقدمہ چلاتی۔ لیکن حکومت نے اس کی بجائے مسلمانوں کے خون کو بہنے اور اربوں ڈالر کی امت کی دولت کو تباہ کرنےکی اجازت دی تا کہ امریکہ کی جنگ کو جاری رکھا جائے۔ اور اب جب معاشی لحاظ سے مفلوج اور فوجی لحاظ سے ذلت کا شکار ہونے کے باوجود امریکہ ہر صورت خطے میں اپنی اس موجودگی کو مستقل بنانا چاہتا ہے جو وہ خود اپنے بل بوتے پر کسی صورت حاصل نہیں کرسکتا، تو راحیل-نواز حکومت اس امریکی مقصد کے حصول کے لیے رات دن ایک کیے ہوئے ہے۔
حزب التحریر ولایہ پاکستان عوام کو خبردار کرتی ہے جب تک امریکہ ہمارے درمیان موجود ہے، امن کا قیام تو دور کی بات ہم امن کا تصور بھی نہیں کرسکیں گے۔ ہماری قیادت میں موجود غدار اس صورتحال کی ذمہ داری کبھی کسی پر ڈالتےہیں تو کبھی کسی پر، تاکہ اپنے آقا امریکہ کی خواہش پر ہمیں دھوکہ دے سکیں لیکن یہ کبھی اس بنیادی وجہ کی نشان دہی نہیں کریں گے جو کہ خطے میں امریکہ کی موجودگی ہے۔ مزیدبرآں یہ غدار اس بات کو جاننے کے باوجود امریکہ کی خواہشات کی تکمیل میں لگے ہوئے ہیں کہ امریکہ اپنے آپ یہاں سے نہیں جائے گا کیونکہ وہ ہماری سر زمین اور اس میں موجود وسائل کو اپنی جاگیر سمجھتا ہے۔ اسے لازمی طور قوت اور صلاحیت کے بل بوتے پر نکال باہر کیاجانا چاہیے اور یہی وہ کام ہے جو خلافت کرے گی بہت جلد انشاء اللہ ۔ جب بھی امریکہ کو ہم پر بالادستی حاصل ہو گی، چاہے وہ ایک فوجی اڈہ، قونصل خانہ یا انٹیلی جنس آفس ہی کیوں نہ ہو، وہ اپنی شیطانی سے باز نہیں آئے گا۔ اللہ سبحانہ و تعالٰی فرماتے ہیں،
(يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا لاَ تَتَّخِذُوا عَدُوِّي وَعَدُوَّكُمْ أَوْلِيَاءَ - إِنْ يَثْقَفُوكُمْ يَكُونُوا لَكُمْ أَعْدَاءً وَيَبْسُطُوا إِلَيْكُمْ أَيْدِيَهُمْ وَأَلْسِنَتَهُمْ بِالسُّوءِ وَوَدُّوا لَوْ تَكْفُرُونَ)
"اے لوگو جو ایمان لائے ہو! میرے اور خود اپنے دشمنوں کو اپنا دوست نہ بناؤ۔ اگر یہ کافر تم پر قدرت پالیں تو تمھارے دشمن ہو جائیں اور ایذا کے لیے تم پر ہاتھ پاؤں چلائیں اور زبانیں بھی اور چاہتے ہیں کہ تم کسی طرح کافر ہو جاؤ" (الممتحنہ: 1-2)

Read more...

پاکستان سے امریکی وجود کا خاتمہ کرو جو بم دھماکوں اور عدم تحفظ کی بنیادی وجہ ہے


پاکستان کے حکمرانوں اور ان کے امریکی آقاؤں کے درمیان جنوری 2014 کے آخری ہفتے میں واشنگٹن میں ہونے والے مذاکرات سے قبل پورا پاکستان بم دھماکوں اور قتل وغارت گری کے پے درپے واقعات سے لرز اٹھا جن کا نشانہ، عام شہری اور افواج، دونوں ہی تھے۔ راحیل -نواز حکومت نے وزیرستان میں فوجی آپریشن کے لیے رائے عامہ ہموار کرنے اور اس کے لیے حمائت حاصل کرنے کے لیےاِن خونی اور وحشیانہ کاروائیوں کو جواز کے طور پراستعمال کیا۔ وزیرستان وہ علاقہ ہے جو افغانستان پر قابض امریکی افواج کے خلاف ہونے والے حملوں کا مرکز ہے،جس نے امریکیوں کی کمر توڑ ڈالی ہے اور ان کے دلوں کو خوف میں جکڑ رکھا ہے۔
جہاں تک پاکستان میں ہونے والے شیطانی بم دھماکوں کی مہم کا تعلق ہے تو وہ لوگ جو معاملات سے پوری طرح با خبر ہیں اس بات سے آگاہ ہیں کہ امریکی انٹیلی جنس کئی سال قبل ڈھیلے ڈھالے قبائلی نیٹ ورک میں داخل ہوچکی ہے۔ یہ افراتفری پھیلانے کی مہم امریکہ کی خارجہ پالیسی کا براہ راست نتیجہ ہے،خصوصاًکم شدت کی عسکری لڑائیوں کوفروغ دینےاورخفیہ"بلیک آپریشن"کرنےکی امریکی پالیسی۔یہ وہ کم شدت کی عسکری لڑائیاں ہیں جو ملک کے اندرونی استحکام کوتباہ وبربادکررہی ہیں،ہماری صلاحیتوں کومحدودکررہی ہیں،ہماری استعدادکونقصان پہنچا رہی ہیں،اورامریکہ کواس بات کا جوازفراہم کرتی ہیں کہ وہ ہم سےڈومورکامطالبہ کرے۔ یہی وہ خفیہ آپریشن اور False Flagحملے ہیں جنھیں امریکی انٹیلی جنس ایجنسیاں اپنےمکروہ چہرےکوچھپانےاورکسی اورکودشمن کےطورپرپیش کرنےکےلیے کرتی ہیں ۔یہ ہتھکنڈے امریکہ کی انٹیلی جنس ایجنسیاں لاطینی امریکہ سےلےکرجنوب مشرقی ایشیا تک دنیابھر میں استعمال کرتی ہیں تاکہ اس بات کویقینی بنایاجائےکہ جنگ کی آگ سلگتی رہےاور ملک عدم تحفظ کی آگ میں جلتا رہے۔ یکم دسمبر 2009 کو امریکی صدر اوبامہ نے اسی طرف اشارہ کرتے ہوئے یہ اعلان کیا تھا کہ "ماضی میں پاکستان میں ایسے لوگ رہے ہیں جو یہ کہتے تھے کہ انتہاپسندوں کے خلاف جدوجہد ان کی جنگ نہیں ...لیکن جب معصوم لوگ کراچی سے اسلام آباد تک قتل ہوئے تو یہ واضح ہوگیا کہ یہ پاکستان کے عوام ہیں جن کو انتہاپسندی سے سب سے زیادہ خطرہ ہے"۔
پاکستان میں اس قسم کی افراتفری صرف اور صرف امریکہ کے لیے فائدہ مند ہے۔ امریکہ یہ چاہتا ہے کہ پاکستان کی فوج ان قبائلی جنگجوؤں کو نشانہ بنائے جو پاک افغان سرحد پار کر کے افغانستان پرقابض امریکہ کے خلاف لڑ رہے ہیں ۔امریکہ ہی اس قسم کی ابتری اور افراتفری پیدا کرتا ہے کیونکہ وہ افواج پاکستان میں ان مضبوط اسلامی جذبات اور احساسات سے بخوبی واقف ہے جس نے انھیں اپنے وقت کی سپر پاور سوویت یونین کو ختم کرنے کی طرف ابھارا جب انھوں نے افغانستان پر سوویت یونین کے قبضے کے خلاف قبائلی مسلمانوں کی حمائت کی اور انھیں بھر پور معاونت فراہم کی ۔ لیکن اب چونکہ امریکہ خود افغانستان پر قابض ہے لہٰذا امریکہ افواج پاکستان میں موجود اس خیر کو افغانستان پر اپنے قبضے کے خلاف انتہائی تشویش ناک اور خطرناک تصور کرتا ہے۔ اور اس سے بھی بڑھ کر امریکہ اس بات سے شدید خوفزدہ ہے کہ یہ افواج اس مسلم علاقے میں خلافت کے دوبارہ قیام کے لیے اپنی ذمہ داری کو پورا کریں اورنصرۃ فراہم کریں اور یہ وہ معاملہ ہے جس نے امریکیوں کی نیندیں حرام کر رکھیں ہیں کیونکہ خلافت کا قیام اس خطے سے امریکی بالادستی کا خاتمہ کردے گا۔16 نومبر 2009 کو New Yorker میں شائع ہونے والے ایک مضمون: ''ہتھیاروں کی حفاظت۔ کیا غیر مستحکم پاکستان میں ایٹمی ہتھیار محفوظ رکھے جا سکتے ہیں؟'' میں بیان کیا گیاکہ ''بنیادی خطرہ بغاوت کا ہے کہ پاکستانی فوج میں موجود انتہاء پسند کہیں حکومت کا تختہ نہ الٹ دیں...اوباما انتظامیہ کے ایک سینئر عہدیدار نے حزب التحریر کا تذکرہ کیا ...جس کا ہدف خلافت کا قیام ہے۔ یہ لوگ پاکستان کی فوج میں جڑیں بنا چکے ہیں اور فوج میں ان کے خلیے موجود ہیں"۔
اور جہاں تک وزیرستان میں فوجی آپریشن کا تعلق ہے تو امریکہ کو اس کی جتنی اشد ضرورت اب ہے اس سے پہلے کبھی نہ تھی۔ معاشی لحاظ سے تباہ ہوتا ہوا امریکہ اور اس کی بزدل افواج کا گرتا ہوا حوصلہ ، امریکہ کو اس بات پر مجبور کررہا ہے کہ وہ محدود انخلاء کے بعد افغانستان میں اپنی موجودگی کو برقرار رکھنے کے لیے مذاکرات کا سہارا لے۔یہی وجہ ہے کہ اس نے پاکستان کی قیادت میں موجود غداروں کو متحرک کیا ہے کہ وہ مذاکرات اور آپریشن کے متعلق خوب شور مچائیں۔ اس طرح امریکہ افغانستان میں فتح کا خواہش مند ہے، ایک ایسی فتح جو وہ خود اپنے بل بوتے پر کسی صورت حاصل نہیں کرسکتا تھا۔لیکن امریکہ کو تحفظ فراہم کرنے کی صورت میں مسلمان مزید نقصان اٹھائیں گے جیسا کہ وہ اس سے قبل ماضی کے فوجی آپریشنز میں اٹھاچکے ہیں۔ قبائلی مسلمان اپنے گھروں سے بے دخل ہوجائیں گے، ملک عدم تحفظ کا شکار ہوجائے گا اور مسلمانوں کی سب سے بڑی فوج جس میں لاکھوں بہادر جوان موجود ہیں جو شہادت یا کامیابی کے لیے ہمہ وقت تیار رہتے ہیں ، وہ ایک کرائے کی فوج کی شکل اختیار کرلیں گے جس کا مقصد بزدل امریکی افواج کی حفاظت کرنا ہوگا تا کہ انھیں ایک ذلت آمیز شکست سے بچا سکیں ۔ دونوں جانب سے مسلمان ہی مسلمان کو قتل کرے گا جس سے ایک طرف تو کفار کے مفادات کو تحفظ حاصل ہوگا تو دوسری جانب ہم اللہ سبحانہ و تعالٰی کے غضب کے حق دار بھی بن جائیں گے، اللہ سبحانہ و تعالٰی فرماتے ہیں (وَمَنْ يَقْتُلْ مُؤْمِنًا مُتَعَمِّدًا فَجَزَاؤُهُ جَهَنَّمُ خَالِدًا فِيهَا وَغَضِبَ اللَّهُ عَلَيْهِ وَلَعَنَهُ وَأَعَدَّ لَهُ عَذَابًا عَظِيمً) "اور جو کوئی کسی مؤمن کو قصداً قتل کر ڈالے، اس کی سزا دوزخ ہے جس میں وہ ہمیشہ رہے گا، اس پر اللہ تعالٰی کا غضب ہے، اسے اللہ تعالٰی نے لعنت کی ہے اور اس کے لیے بڑا دردناک عذاب تیار کر رکھا ہے"(النساء: 93)۔ اور رسول اللہﷺ نے فرمایا: ((إذا التقى المسلمان بسيفيهما فالقاتل والمقتول في النار، قلنا يا رسول الله هذا القاتل فما بال المقتول قال انه كان حريصا على قتل صاحبه)) "جب دو مسلمان لڑائی میں ایک دوسرے کا سامنا کرتے ہیں اور ایک دوسرے کو قتل کردیتا ہے، تو قاتل اور مقتول دونوں ہی جہنم کی آگ میں جائیں گے، صحابہ نے پوچھا ، اے اللہ کے پیغمبر ایک تو قاتل ہے لیکن جس کو قتل کیا گیا اس کے متعلق بھی یہی فیصلہ ہے؟ رسول اللہﷺ نے فرمایا کیونکہ اس کا بھی اپنے ساتھی کو قتل کرنے کا ارادہ تھا"۔
اے پاکستان کے مسلمانو! جب تک پاکستان کے وجود کو ہر قسم کی امریکی موجودگی سے پاک نہیں کردیا جاتا ہماری افواج اور قبائلی مسلمان اس فتنے کی جنگ کی آگ میں جلتے رہیں گے۔ ہماری افواج پر لازم ہے کہ وہ امریکی سفارت خانے کو بند کرنے اور امریکی سفارت کاروں بشمول اس کے سفیر ، فوجیوں اور انٹیلی جنس کے افراد کو ملک بدر کرنے کے لیے حرکت میں آئیں۔ اسی طرح ہمارے قبائلی لوگوں پر بھی یہ لازم ہےکہ وہ اپنے درمیان موجود فتنہ پروروں کو نکال باہر کریں جو بجائے اس کے کہ وہ افواج پاکستان سے خلافت کے قیام کے لیے مدد حاصل کرنے کی کوشش کریں، اُن پر حملوں کی دعوت دیتے ہیں۔ یہ اب ہماری ذمہ داری ہے کہ ہم اس بات کو یقینی بنائیں کہ ہماری افواج اور قبائلی جنگجو، دونوں اپنی بندوقوں کا رخ امریکہ کی جانب موڑ دیں تا کہ خطے سے امریکی راج کا خاتمہ کیا جاسکے جو ہماری شہری اور فوجی تنصیبات کو نشانہ بنانے کے لیے درکار پیچیدہ منصوبہ بندی، جدید ترین ہتھیاروں اور مالی وسائل کی فراہمی کا اصل ذمہ دار ہے۔ جب تک ہماری سرزمین پر امریکہ موجود رہے گا ہم کبھی بھی اس تباہ کن جنگ کا خاتمہ ہوتے ہوئے نہیں دیکھ سکیں گے چاہے ہم اب تک اٹھائے گئے جانی و مالی نقصان سے زیادہ نقصان ہی کیوں نہ برداشت کرلیں۔ اور یہ یقین رکھیں کہ خلافت کی واپسی کے بعد، جو انشاء اللہ عنقریب ہے، ہماری افواج اور قبائلی جنگجوؤں کو بغیر کسی تاخیر کے خطے میں موجود امریکی افواج اور اس کی موجودگی کے خاتمے کے لیے اس طرح متحرک کیا جائے گا جو ان کے دلوں کو خوف سے دہلا دے گا، ان کے شیطانوں کو شیطانی چھوڑنے پر مجبور کردے گا اور اس امت کے خلاف ان کے عزائم اور منصوبوں کو پاش پاش کردےگا۔
لہٰذا آپ خلافت کے قیام کے لیے دن رات ایک کردیں جیسا کہ حزب التحریر کے شباب کررہے ہیں۔ حزب کے شباب کےساتھ کندھے سے کندھا ملا کر کھڑے ہوجائیں اور پاکستان کے مسلمانوں کو ایک طاقتور متحرک قوت میں تبدیل کردیں تاکہ حقیقی تبدیلی کی منزل کو پایا جاسکے۔ کوئی مسجد، اسکول، یونیورسٹی، بازار اور دفتر خلافت کی پکار کی گونج سے خالی نہ رہ جائے۔اس دعوت کی تشہیر اور وضاحت کے لیے آپ اپنی صلاحیتوں کو استعمال کریں، لوگوں سے بات چیت کریں، مساجد اور بازاروں میں بیانات دیں، اپنے گھروں اورگلی محلوں میں درسوں کا اہتمام کریں، ایس.ایم.ایس، ای میل، ریڈیو، ٹیلی وژن، فیس بک یعنی ان تمام وسائل اور اسالیب کو استعمال کریں جن سے اللہ سبحانہ و تعالٰی نے آپ کو نوازا ہےاوراس طرح خطے میں موجود ہر مسلمان خلافت کا مطالبہ کرنے لگے اوریہ پورا خطہ خلافت کی پکار سے گونج اٹھے۔ آپ افواج پاکستان میں موجوداپنے والد، بھائیوں اور بیٹوں سے یہ مطالبہ کریں کہ وہ خلافت کے قیام کے لیے حزب التحریر کو نصرۃ فراہم کریں تا کہ اس خطے میں امریکہ کو یقینی موت کا شکار بنایا جا سکے۔یہ وہ خلافت ہو گی جو مسلمانوں پر مسلط ذلت و رسوائی کے دور کا خاتمہ کرے گی اوران کے لیے عزت، طاقت اور عروج کے نئے دور کا آغاز کرے گی۔
وَلِلَّهِ الْعِزَّةُ وَلِرَسُولِهِ وَلِلْمُؤْمِنِينَ وَلَكِنَّ الْمُنَافِقِينَ لَا يَعْلَمُونَ
"عزت تو صرف اللہ تعالٰی کے لیے اور اس کے رسولﷺ کے لیے اور ایمان والوں کے لیے ہے ، لیکن یہ منافق نہیں جانتے" (المنافقون: 8)۔

Read more...

جھوٹے الزامات خلافت کے قیام کی جدوجہد کو روک نہیں سکتے حزب التحریر نے جیو نیوز چینل کو جھوٹی خبر چلانے پر قانونی نوٹس جاری کر دیا


حزب التحریر نے جیو نیوز چینل کو اس کے خلاف جھوٹی خبر نشر کرنے پر قانونی نوٹس بھیج دیا ہے۔ یہ قانونی نوٹس اس جھوٹی خبر کے حوالے سے جیو نیوز چینل کو بھیجا گیا ہے جو انھوں نے 18 دسمبر 2013 کی رات پروگرام "آج کامران خان کے ساتھ" میں نشر کی تھی۔ اس پروگرام میں یہ کہا گیا کہ حزب التحریر نے ہنگو میں ہونے والے خودکش دھماکے کی ذمہ داری قبول کرلی ہے جس میں افواج پاکستان کے پانچ فوجی مارے گئے ہیں۔
اس خبر کے نشر ہونے کے بعد حزب التحریر ولایہ پاکستان نے 23 دسمبر 2013 کو جیو نیوز چینل کے نام ایک وضاحتی خط جاری کیا تھا جس میں اس خبر کی تردید کی گئی تھی اور یہ بتایا گیا تھا کہ حزب التحریر خلافت کے قیام کے لیے رسول اللہ ﷺ کے طریقے کی پیروی کرتے ہوئے سیاسی و فکری جدو جہد کرتی ہے اور اس مقصد کے حصول کے لیے عسکری جدو جہد کو حرام سمجھتی ہے۔ لہٰذا جیو نیوز چینل سے کہا گیا تھا کہ وہ اس حوالے سے ویسے ہی حزب التحریر کے موقف کوپیش کریں جس طرح انھوں نے اس کے حوالے سے ایک جھوٹی خبر کو نشر کیا تھا۔یہ خط نہ صرف ہماری ویب سائٹ پر جاری ہوا بلکہ کراچی میں جیو کے مرکزی آفس میں بھی بھیجوایا گیا تھا۔
تقریباً ایک ماہ گزر جانے کے باوجود جیو نیوز چینل کی انتظامیہ نے صحافتی اصولوں اور غیر جانبدارانہ رپورٹنگ کو بالائے طاق رکھتے ہوئے حزب التحریر کی تردید کو نشر نہیں کیا۔ لہٰذا اب حزب التحریر نے جیو نیوز چینل کو ایک قانونی نوٹس ارسال کیا ہے ۔ اس نوٹس میں یہ کہا گیا ہے کہ حزب التحریر کسی مسلمان کی جان لینے کا سوچ بھی نہیں سکتی کیونکہ ایسا کرنا اسلام کی رو سے حرام ہے ۔ اس کے علاوہ جس فوج سے حزب نصرۃ طلب کرتی ہے اسے نقصان پہنچانے کا الزام انتہائی مذحکہ خیز اور بچکانہ ہے۔ نوٹس میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ اس نوٹس کے ملنے کے دس دن کے اندر اگر جیو نیوز چینل نے اس خبر کی تردید اور حزب التحریر کی جانب سے 23 دسمبر 2013 کو جاری کیے گئے ضاحتی خط کو اپنے نشریاتی اداروں کے ذریعے عوام کے سامنے پیش نہ کیا توحزب التحریر اپنے وکیل کے توسط سے ان کے خلاف قانونی چارہ جوئی شروع کرے گی۔

Read more...
Subscribe to this RSS feed

دیگر ویب سائٹس

مغرب

سائٹ سیکشنز

مسلم ممالک

مسلم ممالک