بسم الله الرحمن الرحيم
اے پاکستان کے معزز علمائے کرام! غزہ جل رہا ہے اور پاکستان کے حکمران خاموش تماشائی بنے اسے جلتا دیکھ رہے ہیں ، آپ پر لازم ہو چکا ہے کہ غزہ کے مسلمانوں کی مدد اور فلسطین کی آزادی کے لیے، افواجِ پاکستان کو جہاد کے لیے واشگاف پکاریں
اے پاکستان کے معزز علمائے کرام!
یہودی وجود، فلسطین کی مبارک سرزمین کے آسمانوں کو آگ اور دھوئیں سے بھر رہا ہے، جبکہ اس کی مٹی مسلمانوں کے خون اور آنسوؤں سے تربہ ترہے۔ دو ماہ گزر نے کو ہیں قابض یہودی وجود پاک دامن عورتوں، بچوں ،بوڑھوں ،بیماروں کو بے دریغ نشانہ بنا رہا ہے مگر مسلمانوں کی کوئی ایک فوج بھی حملہ آور دشمن کی فوج کو پسپا کرنے کے لیے آگے نہیں بڑھی ۔ اس صورتِ حال میں ہم آپ کو ایسےمخاطب کررہے ہیں جیسا کہ اللہ اور اس کے رسول ﷺنے بتایا کہ آپ کو لازمی طور پرایسا ہی ہونا چاہیے، ارشاد باری تعالیٰ ہے:
اِنَّمَا يَخۡشَى اللّٰهَ مِنۡ عِبَادِهِ الۡعُلَمٰٓؤُاؕ
"اللہ سے اس کے بندوں میں وہی ڈرتے ہیں جو علم والے ہیں"(فاطر، 35:28)،
اور ابودرداءؓ نے رسول اللہ ﷺ کا یہ ارشاد روایت کیا :
إنَّ العلماءَ ورثةُ الأنبياءِ
"بے شک علماء انبیاء کے وارث ہیں"(ابو داؤد، ترمذی)۔
لہٰذاآپ کا طرزعمل انبیاء علیہم السلام کی طرح ہونا چاہیے، کہ آپ صرف اور صرف اللہ سبحانہ وتعالیٰ کے نازل کردہ احکامات کے مطابق، زندگی کے تمام امور میں لوگوں کے معاملات کی دیکھ بھال کرنے والے ہوں ۔
اے انبیاءؑ کے ورثاء!
غزہ کی موجودہ صورتِ حال کے پسِ پردہ، بائیڈن کے ایجنٹ عرب اور عجم کے مسلمان حکمران ،'دوریاستی حل' کے ذریعے فلسطین کی بابرکت اسلامی سرزمین کو ،غاصب حملہ آور یہودی وجود کے حق میں چھوڑدینے کے لیے آپ کا تعاون چاہتے ہیں ۔ وہ آپ کے سامنے 'دو ریاستی حل' کوموجودہ صورتِ حال کے حل کے طور پر پیش کر رہے ہیں جبکہ یہ نام نہاد حل محض ایک دھوکہ ہے، جس کے نتیجے میں یہودی وجود مزید مضبوط ہو گا جبکہ فلسطین کے مسلمان زندہ رہنے کی ضروریات کے لیے یہودی وجود کے رحم و کرم پر ہوں گے، ان کا تحفظ یہودی وجود کے ہاتھ میں ہو گا؛ اور خطے میں اور اس سے باہر یہودی وجود کی فتنے کی آگ بھڑکانے کی صلاحیت میں مزید اضافہ ہو جائے گا۔
'دوریاستی حل' ایک امریکی حل ہے جس کی حمایت کرنا اللہ سبحانہ و تعالیٰ، اس کے رسولﷺ اور ایمان والوں سے غداری ہے، کیونکہ مسلمانوں کی سرزمین ایک ایسی حرمت ہے جس سے دستبرداری جائز نہیں۔ اللہ تعالیٰ نے مسلمانوں پر کفار کی کسی بھی قسم کی بالادستی قبول کرنے کو حرام قرار دیا ہے،اللہ نے ارشاد فرمایا:
وَلَن يَجْعَلَ اللَّهُ لِلْكَافِرِينَ عَلَى الْمُؤْمِنِينَ سَبِيلًا
"اور اللہ نے کافروں کو مسلمانوں پر ہرگزکوئی اختیار وغلبہ نہیں دیا"(النساء 141)۔
اور اللہ تعالیٰ نے کفار کی طرف سے مسلمانوں کی سرزمین کے غصب کے خاتمے کو فرض قرار دیا ہے ،اللہ نے قرآن میں ارشاد فرمایا:
وَأَخْرِجُوهُم مِّنْ حَيْثُ أَخْرَجُوكُمْ
"اور نکال دو اُنہیں وہاں سے جہاں سے انہوں نے تمہیں نکالا ہے"(البقرۃ: 191)۔
اللہ کا یہ حکم کسی بھی اسلامی سرزمین کے متعلق ہے جبکہ فلسطین کی سرزمین تو مسلمانوں کے حرم اورقبلۂ اول، مسجد الاقصیٰ اور نبی کریم ﷺ کے اسراء و معراج کی سرزمین ہے کہ جس میں اللہ سبحانہ و تعالیٰ نے قیامت کے دن تک کے لیے برکت رکھ دی ہے!
اے معززعلمائے کرام!
پاکستان کے حکمران خلیجی ریاستوں کے خائن حکمرانوں سے ملنے والی امداد کے بدلے میں یہودی وجود کو قبول کرنے کی طرف قدم بڑھا رہے ہیں، اورآپ سے مطالبہ کررہے ہیں کہ آپ امریکہ کے دو ریاستی منصوبے پر مُہر قبولیت ثَبت کر دیں۔ اور یوں یہ حکمران امت میں آپ کے دینی مقام و حیثیت کو محض اپنے اقتدار کو مضبوط بنانے کے لیے استعمال کرلیں۔ ان حکمرانوں کی چالوں کے متعلق خبردار کرتے ہوئے ہم آپ کو عمر ؓ کے اس قول کی یاددہانی کراتے ہیں :
هَلْ تَعْرِفُ مَا يَهْدِمُ الإِسْلاَمَ؟ قَالَ قُلْتُ، لاَ. قَالَ يَهْدِمُهُ زَلَّةُ الْعَالِمِ وَجِدَالُ الْمُنَافِقِ بِالْكِتَابِ وَحُكْمُ الأَئِمَّةِ الْمُضِلِّينَ
"عمؓرنے زیاد بن حدیر سے پوچھا کیا تم جانتے ہوکہ کیا چیز اسلام کو ڈھا دیتی ہے، تو میں (زیاد) نے جواب دیا: میں نہیں جانتا۔ عمرؓ نے جواب دیا: عالم کا پھسلنا، منافق کا قرآن کے ذریعے جھگڑا کرنا اورگمراہ کرنے والے حاکموں کا حکم کرنا "(دارمی)۔
بے شک ایک عالم کی لغزش ایک عام شخص کے پھسل جانے سے کہیں سنگین ہے۔ پس آپ پر لازم ہے کہ آپ حکمرانوں کی دین اور امت کے ساتھ خیانت میں کسی بھی قسم کی معاونت سے صاف انکار کردیں اور ان کا کڑا محاسبہ کریں کہ وہ طاقت و صلاحیت رکھنے کے باوجود کیوں پاکستان کی بہادرافواج کو حرکت میں نہیں لاتے ۔ آپ کو چاہئے کہ غزہ کے مظلوم مسلمانوں کی حفاظت اور فلسطین کی آزادی کے لیےافواجِ پاکستان پر جہاد کے فرض ہونے کا فتویٰ جاری کریں ۔ بے شک یہ افواج کا حرکت میں نہ آنا ہی ہے کہ جس نے فلسطین کے مسئلے کو حل ہونے سے روک رکھا ہے تاکہ یہ خائن حکمران امریکہ کے طے کردہدو ریاستی حل کو مسلط کر سکیں۔ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا:
))وَالَّذِي نَفْسِي بِيَدِهِ لَتَأْمُرُنَّ بِالْمَعْرُوفِ وَلَتَنْهَوُنَّ عَنْ الْمُنْكَرِ أَوْ لَيُوشِكَنَّ اللَّهُ أَنْ يَبْعَثَ عَلَيْكُمْ عِقَابًا مِنْهُ ثُمَّ تَدْعُونَهُ فَلَا يُسْتَجَابُ لَكُمْ))
"اس ذات کی قسم! جس کے قبضہ میں میری جان ہے !تم ضرور بالضرور نیکی کا حکم دوگےاوربرائی سے منع کروگے، وگرنہ بعیدنہیں کہ اللہ تعالیٰ تم پر اپنی طرف سے عذاب نازل فرمائے،پھرتم اس سے دعائیں کیاکرو تووہ قبول نہ فرمائے"(ترمذی)۔
اے علمائے کرام !
آپ کو حکمرانوں کی طرف اپنے طرزِ عمل میں اُن اسلاف کی پیروی کرنی چاہئے کہ جنہوں نے ہر طرح کی مصیبتوں اور ایذارسانی کو برداشت کیا مگر اپنے دین پر حرف نہیں آنے دیا۔ امام ابو حنیفہ، امام احمد بن حنبل اور عزالدین عبدالسلام جیسے امت کے روشن ستارے کہ جو حکمرانوں کا محاسبہ کرتے تھے، اوراس راہ میں آنے والی تمام مشکلات برداشت کرتے تھے۔ امام ابو حنیفہؒ کی والدہ نے انہیں ایک دن کہا ،جب وہ جیل میں تھے، يا نعمان، إن هذه المعرفة لم تنفعك إلا لضربك وسجنك، وهذا يكفي لأن تتخلى عنها "اے نعمان !تجھے اس علم نے سوائے مار کھانے اور قید کے کچھ فائدہ نہیں پہنچایا اور تیرے لیے اس (علم)کو چھوڑنے کے لیے یہی کافی ہے"۔ اس پر امام ابو حنیفہ نے انہیں جواب دیا، يا أماه، إذا رغبت العالم لكنت حققت ذلك، ولكني أردت أن يعلم الله سبحانه وتعالى أنني أحافظ على العلم الذي أعطاني، ولم أسلم نفسي معها للجحيم"اے والدہ! اگر میں دنیا چاہتا تو وہ حاصل کر لیتا۔ تاہم، میں چاہتا تھا کہ اللہ تعالیٰ یہ جان لے کہ مجھے جو علم دیا گیا تھا،میں نے اس کی حفاظت کی اور اس کے ساتھ اپنے آپ کو جہنم کی آگ کے سپرد نہیں کیا"۔
اے علمائے کرام!
کیا آپ اس بات کی تمنا نہیں کرتے کہ آپ کو وہ سعادت حاصل ہو جوآپ کےاسلاف میں سے قاضی محی الدین زکی کو حاصل ہوئی کہ جب صلاح الدین ایوبی نے بیت المقدس کو آزاد کرایا، تو محی الدین زکی نے مسجد الاقصیٰ کے پہلے خطبۂ جمعہ میں فاتح افواج اور مسلمانوں کے سامنے قرآن کی یہ آیات تلاوت کیں:
((فَقُطِعَ دَابِرُ الْقَوْمِ الَّذِينَ ظَلَمُوا وَالْحَمْدُ لِلَّهِ رَبِّ الْعَالَمِينَ))
"تو جڑ کاٹ دی گئی ظالموں کی اور تمام تعریفیں تمام جہانوں کے رب ہی کے لیے ہیں"
(الانعام: 45) ۔
یہ اعزاز اسی کو حاصل ہو گا جو خلافت کے قیام کی جدوجہد کے ہراول دستے میں شامل ہو گا۔ کیونکہ یہ حضرت عمر فاروق ؓ کی خلافتِ راشدہ تھی جس نے فلسطین کی بابرکت سرزمین کو اسلام کے لیے کھول دیا تھا، عباسی خلافت میں صلاح الدین ایوبی ہی تھا کہ جس نے صلیبیوں کی نجاست سے فلسطین کی سرزمین کو پاک کیا تھااور یہ خلافتِ راشدہ الثانی ہی ہوگی جو اسے دوبارہ آزاد کرائے گی۔
کیا ہم نے پیغام نہیں پہنچادیا؟ ، اے اللہ !گواہ رہنا کہ ہم نے پیغام پہنچا دیا!
اِنَّ فِىۡ هٰذَا لَبَلٰغًا لّـِقَوۡمٍ عٰبِدِيۡنَؕ
"بے شک، عبادت کرنے والوں کے لئے اس (قرآن)میں (اللہ کے احکام کی) تبلیغ ہے"(الانبیاء، 21:106)
#ArmiesToAqsa
ہجری تاریخ :21 من جمادى الأولى 1445هـ
عیسوی تاریخ : منگل, 05 دسمبر 2023م
حزب التحرير
ولایہ پاکستان