الخميس، 24 صَفر 1446| 2024/08/29
Saat: (M.M.T)
Menu
القائمة الرئيسية
القائمة الرئيسية

بلوچستان کی مخدوش صورتحال کو بدلنے کے لیے پالیسی ربیع الاول 1434،بمطابق جنوری 2013

 

حزب التحریر ولایہ پاکستان نے مندرجہ ذیل پالیسی دستاویز "Publicized Policy Position" بلوچستان کی پر تشدد بے چینی پر جاری کی ہے جس میں سینکڑوں مسلمان مارے جاچکے ہیں۔

 

ا)مقدمہ:بلوچستان اور اس کے لوگ امت مسلمہ اور پاکستان کا ایسا تاج ہیں جن کا خیال نہیں رکھا گیا

بلوچستان اور اس کے لوگ امت مسلمہ کا تاج ہیں۔اس کے لوگوں نے اس طرح اسلام قبول کیا کہ پورا صوبہ خلافت راشدہ کا حصہ بن گیا۔اس کے لوگ اسلام پر بہت مضبوطی سے قائم اور اس سے مخلص ہیں۔انھوں نے برطانوی استعمار کے حملے کی زبردست مزاحمت کی تھی۔یہ عزت دار اور شاندارلوگ ہیں جو آج بھی اسلام سے محبت کرتے ہیں۔ بلوچستان کی سرزمین پاکستان کے کل رقبے کا چالیس فیصد سے بھی زیادہ ہے لیکن اس کی آبادی تقریباًسات فیصد ہے۔یہ افغانستان کی سرحد پر واقع ہے جس کی وجہ سے افغانستان،وسطی ایشیأ اور اس سے بھی آگے تک کے علاقوں میں استحکام کے لیے اس کی بہت زیادہ اہمیت ہے۔بلوچستان میں گوادار کی بندر گاہ ہے جس کی وجہ سے ہماری بحری قوت اور استعداد میں بہت اضافہ ہوا ہے۔بلوچستان میں اس قدر گیس موجود ہے کہ وہ پاکستان کی ضرورت کا ایک تہائی گیس فراہم کرتا ہے۔سیندک کی کانوں سے یومیہ پندرہ ہزار ٹن تانبہ کچی دھات حاصل ہوتی ہے اور اگر ریکوڈک کی کانوں کو بھی بہتر طریقے سے سنبھالا جائے تو پاکستان دنیا کا صف اول کا تانبے کی پیداوار دینے والاملک بن جائے ۔اسی طرح دنیا کے صف اول کا سونے کی پیداوار دینے والا ملک بھی بن جائے کیونکہ ایک محتاط اندازے کے مطابق پاکستان میں 21ملین اونس سونے کے ذخائر موجود ہیں۔لیکن اس کے باوجود بلوچستان ان تمام چیزوں سے محروم رہا ہے جس کو اسلام نے بنیادی ضرورت قرار دیا ہے یعنی خوراک،لباس اور رہائش۔بلوچستان ان چیزوں سے بھی محروم رہا ہے جن کو فراہم کرنا ریاست کی ذمہ داری ہوتی ہے جیسے سڑکوں ،صحت اور تعلیم کی سہولت۔ان تمام باتوں سے بڑھ کر بلوچستان کے باشندے بہت پریشانیوں کا شکار رہے ہیں چاہے ان کا تعلق کسی بھی مسلک،نسل یا زبان سے ہو۔انھیں تسلسل سے قتل کیا جارہا ہے۔اس لاپرواہی کا سلسلہ برطانوی راج کے حملے کے وقت سے جاری ہے۔ برطانیہ نے صرف اپنے اقتدار کے مرکز میں ترقیاتی کام کیے لیکن باقی پورے صوبے کو نظر انداز کردیا تا کہ وہ محروم،مفلوق الحال لوگوں کو اپنی طاقت کے بل بوتے پرقابو میں رکھ سکے۔

 

ب)سیاسی ا ہمیت: بلوچستان کی بدحالی کی وجہ استعماری طاقتوں کا منصوبہ ہے

امریکہ کا بلوچستان کے لیے منصوبہ بالکل وہی ہے جو برطانیہ کا تھا یعنی طاقت کے ذریعے ریاست کی رٹ کو قائم کرنا،وسائل کو لوٹنا اور مقامی آبادی کو محروم اور بد حال رکھنا۔امریکہ اپنے اس منصوبے کو پاکستان کی فوجی و سیاسی قیادت میں موجود غداروں کے ذریعے کئی دہائیوں سے نافذ کررہا ہے۔

ب1۔امریکہ پاکستان میں جمہوری نظام کی حمائت کرتا ہے جبکہ یہ نظام ریاست میں موجود چھوٹے گروہوں سے لاپرواہی برتتا ہے۔جمہوریت کا تصور ہی اکثریت کی بات کرتا ہے لہذا چھوٹے گروہ چاہے وہ زبان کی بنیاد پر ہوں یا رنگ،نسل اور مذہب،ان سے متعلق لاپرواہی ہی برتی جاتی ہے۔جمہوریت اس بات کی حوصلہ افزائی کرتی ہے کہ چھوٹے گروہ قومیت اور فرقے کی بنیاد پر اکٹھے ہوںتا کہ وہ اپنے حقوق کے لیے آواز بلند کرسکیں ۔اور پھر امریکہ استعمار کی ''تقسیم کرو اور حکومت کرو'' کی پالیسی کے تحت قوم پرستی اور فرقہ واریت کو سیاسی اور مالی مدد فراہم کر کے ہوا دیتا ہے ۔

ب2۔امریکہ کے بلوچستان میں معاشی مفادات بھی ہیں۔مشرف کی حکومت کے دوران امریکی صدر نے اس امریکی خواہش کا اظہار کیا تھا کہ غیر ملکی کمپنیاں بلوچستان کے وسیع خزانوں کو نکالیں۔اور ان کمپنیوں نے کیانی زرداری کے دور میں اپنی سرگرمیوں کو مزید تیز کردیا ہے۔

ب3۔امریکہ کے بلوچستان اور ہمسائیہ افغانستان میںسٹریٹیجک مفادات ہیں۔امریکہ ہر صورت افغانستان میں 2015کے بعد بھی اپنی فوجوں کی موجودگی کا خواہش مند ہے اگرچہ وہ اس وقت اس کے برخلاف بات کہتا ہے۔امریکہ نے بلوچستان کے دارلحکومت ،کوئٹہ،سے افغانستان کے لیے کٹھ پتلی صدر،کرزئی کو ،ملازمت کے لیے چنا تھا ۔ اس نے چمن کی سرحد پر امریکی میرینز کو بٹھایا ہوا ہے۔اس کی اس خطے میں انٹیلی جنس موجود ہے اور اس کی افواج نے بلوچستان میں موجود فوجی اڈوں کو اپنی ائر فورس اور ڈرونز کے لیے استعمال کیا ہے۔اس کا ریمنڈ ڈیوس نیٹ ورک بھی اس خطے میں موجود ہے جوکیانی اور زرداری حکومت کی اعانت سے اس خطے میں قاتلانہ حملوں اور بم دھماکوں کی نگرانی کرتا ہے۔

ب4۔بلوچستان میں اپنی موجودگی کو برقرار رکھنے کے لیے امریکہ کو افواج پاکستان کی مدد و اعانت درکار ہے۔اس نے صوبے میں فتنے کا ماحول پیدا کیا ہے تا کہ افواج کو مجبوراً اس علاقے میں جانا پڑے۔نتیجتاً، ہماری افواج وہاں پھنس جائیں اور ہمارے لوگ اس فتنے کی آگ میں جلتے رہیں تا کہ امریکہ بغیر کسی پریشانی کے اپنے مفادات کی تکمیل کرسکے۔

 

د)قانونی ممانعت: بلوچستان کے تحفظ اور خوشحالی سے متعلق

د1۔اسلام جمہوری طرز حکمرانی کا خاتمہ کرے گا جس کے نتیجے میں بلوچستان کی یہ صورتحال ہوئی ہے۔خلافت کوئی پولیس سٹیٹ نہیں ہوتی جو طاقت کی بنیاد پر اپنے شہریوں پر حکمرانی کرے اور انھیںظلم و ستم،اغوا اور تشدد کا نشانہ بنائے۔ ریاست کے شہریوں کے اللہ سبحانہ و تعالی کی جانب سے متعین کردہ حقوق ہیں۔ خلافت بلا امتیاز نسل یا مسلک کے اپنے شہریوں کی وفاداری اس لیے  حاصل کرپاتی ہے کیونکہ جو چیز لوگوں کو سب سے زیادہ عزیز ہے خلافت اس کی بنیاد پر حکمرانی کرتی ہے یعنی اسلام اور خلافت جو کچھ نافذ کرتی ہے اس کا ثبوت قرآن و سنت سے ثابت کرتی ہے جو اس کے شہریوں کو مزید مطمئن کردیتا ہے۔اس کے علاوہ خلافت کا نظام وحدت پر مبنی اسلام کا نظام ہے جو اپنے تمام شہریوں پر صرف اور صرف اسلام کی بنیاد پر حکومت کرتا ہے چاہے ان کا تعلق اکثریتی گروہ سے ہو یا اقلیتی گروہ سے۔ اسلام مختلف رنگ، نسل اور زبان کے لوگوں کو محبت اور رحم دلی کے ایسے جذبے میں جوڑ دیتا ہے کہ انھیں ایک امت میں تبدیل کردیتا ہے جیسا کہ اس سے قبل خلافت کے دور میں ہوچکا ہے۔یہاں تک کہ امن اور حقوق کے تحفظ کی وجہ سے خلافت کے غیر مسلم شہری بھی اس کے زبردست وفادار ہوتے ہیں ۔

حزب التحریر نے ریاست خلافت کے دستور کی دفعہ 6میں اعلان کیا ہے کہ''ریاست کے لئے یہ جائز نہیں کہ وہ اپنے شہریوں کے مابین حکومتی معاملات عدالتی فیصلوں ، لوگوں کے معاملات کی دیکھ بھال اور دیگر امور میں امتیازی سلوک کرے ،بلکہ اس پر فرض ہے کہ وہ تمام افراد کو رنگ نسل اور دین سے قطع نظر ایک ہی نظر سے دیکھے'' ۔اور دستور کی دفعہ 13میں لکھا ہے کہ ''بر ی الذمہ ہونا اصل ہے عدالتی حکم کے بغیر کسی شخص کو سزا نہیں دی جا سکتی ، کسی بھی شخص پر کسی بھی قسم کا تشدد جا ئز نہیں ، جو اس کا ارتکا ب کر ے گا اس کو سزادی جا ئے گی''۔

د2۔  خلافت وفاقی نظام نہیں ہے بلکہ یہ وحدت پر مبنی نظام ہے۔ لہذا کسی ایک خطے میں سرمایہ کاری صرف اس خطے کی آبادی،غربت اوررقبے کو دیکھتے ہوئے نہیں کی جاتی بلکہ اس کا فیصلہ لوگوں کی ضرورت کو مد نظر رکھ کر کیا جاتا ہے جس میں خوراک،لباس،رہائش،تعلیم،صحت،ذرائع آمدورفت اورمواصلات شامل ہیں۔عوامی اثاثے جیسے گیس،تانبہ اور سونا وہ ذخائر ہیں جن کو تمام شہریوں کے فائدے کے لیے استعمال کیا جاتا ہے چاہے وہ مسلمان ہوں یا غیر مسلم۔ ان اثاثوں کو عوام سے چھین کر ملکی اورغیر ملکی نجی کمپنیوں کو اپنی دولت بڑھانے کے لیے نہیں دیا جاتا۔

 

حزب التحریر نے ریاست خلافت کے دستور کی دفعہ 16میں اعلان کیا ہے کہ''نظا م حکو مت وحدت کا نظا م ہے اتحا د کا نہیں''۔نے اپنی کتاب ''ریاست خلافت کے انتظامی امور'' میں لکھا ہے کہ ''تمام انتظامی یونٹس(ولایہ) کے محاصل اور ان کے بجٹ بھی ایک جیسے ہوں گے۔ اگر ایک ولایہ (صوبہ) کے محاصل سے حاصل ہونے والی رقم اس کے اخراجات سے دوگنا بھی ہوںتب بھی اس ولایہ میں خرچ اس کی ضرورت کے مطابق ہو گا نہ کہ اس کے محاصل کے مطابق۔ اسی طرح کسی ولایہ (صوبہ)کی اخراجات اس کے محاصل سے سے زیادہ ہوں تو اس کے اخراجات کے مطابق خرچ کرنے کے لیے عمومی بجٹ سے رقم لے کر خرچ کی جائے گی''۔

د3۔اسلام بلوچستان میں استعماری مداخلت کا خاتمہ کردے گا جو فساد اور انتشار کی بنیاد ہے۔بلوچستان میں غیر ملکی مداخلت کے مسئلے کو خلافت میں فیصلہ کن طریقے سے ہمیشہ کے لیے ختم کردیا جائے گا۔ اس مقصد کو حاصل کرنے کے لیے تمام امریکی قونصلیٹس اورسفارت خانوں کو بند اور اس کے تمام اہلکاروں کو ملک بدر کردیا جائے گا۔خلافت میں تمام غیر ملکی حربی طاقتوں کے اہلکاروں سے ہر قسم کے تعلق کو ختم کر دیا جائے گا تاکہ ان کے اثرو رسوخ کا خاتمہ ہوجائے۔

 

حزب التحریر نے ریاست خلافت کے دستور کی دفعہ189کی شق 3میں اعلان کیا ہے کہ''وہ ریاستیں جن کے ساتھ ہمارے کوئی معاملات نہیں یا ستعماری ممالک جیسے برطانیہ ،امریکا، اور فرانس یا وہ ممالک جو ہمارے علاقوں پر نظریںجمائے ہوئے ہیں،جیسے روس ۔  یہ ر یاستیں  ہمارے ساتھ حکماً متحارب (جنگی حالت میں)ہیں ۔  ان کے حوالے سے ہر طرح کی احتیاط برتی جائے گی۔  ان کے ساتھ کسی بھی قسم کے سفارتی تعلقات استوار کرنا صحیح نہیں ہوگا۔  ان ریاستوں کے شہری ہمارے علاقوں میں پاسپورٹ اور خصوصی اجازت اور ہر شخص کے لیے الگ ویزے کے ساتھ داخل ہو سکتے ہیں ماسوائے کہ ان سے عملاً جنگ شروع ہو جائے''۔

 

نوٹ: خلافت کے قیام کے فوراً بعد اس پالیسی کو نافذ کیا جائے گا ۔ اس پالیسی کے قرآن و سنت سے تفصیلی دلائل جاننے کے لیے حزب التحریر کی جانب سے جاری کیے گئے ریاستِ خلافت کے دستور کی دفعات 189,16,13,6سے رجوع کریں۔

 

ج)پالیسی :بلوچستان کو اس کا اصل مقام دلانا

ج1۔  اس خطے میں بسنے والے مسلمانوں کی وفاداری کو یقینی بنانے کے لیے اسلام کو نافذ کیا جائے گا جو انھیں سب سے زیادہ عزیز ہے۔ غیر مسلموں کی وفاداری کو یقینی بنانے کے لیے انھیں وہ تمام حقوق دیے جائیں گے جو اسلام نے ان کے لیے لازمی قرار دیے ہیں۔

ج2۔ریاست کو لاحق اصل اندرونی خطرے یعنی امریکہ کی موجودگی کا مکمل خاتمہ کردیا جائے گا۔

ج3۔ پاکستان کے وسیع قدرتی وسائل کی نجکاری نہیں کی جائے گی بلکہ انھیں عوامی اثاثجات قرار دے کر بہت بڑی رقم حاصل ہو گی جس کو تمام خطوں کی ترقی کے لیے استعمال کیا جائے گا۔

 

نوٹ: اس پالیسی دستاویز کی پریس رلیز کو دیکھنے کے لیے اس ویب سائٹ لنک کو دیکھیں۔

حزب التحریر ولایہ پاکستان نے بلوچستان کی پر تشدد بے چینی کے خاتمے کے لیے پالیسی دستاویز جاری کر دی

خلافت بلوچستان کو امن، خوشحالی اور عزت دار مقام فراہم کرے گی

 

Read more...

حزب التحریر ولایہ پاکستان کی خواتین کی جانب سے کتاب کا اجرأ "حکمران اور شہریوں کی ذمہ داری"

حزب التحریر ولایہ پاکستان کی خواتین کی جانب کتاب "حکمران اور شہریوں کی ذمہ داری" جاری کر دی گئی ہے۔ یہ کتاب اللہ کے حکم سے جلد قائم ہونے والی خلافت کو مضبوط و مستحکم رکھنے کے لیے حکمران اور شہریوں کی درمیان تعلق کی اہمیت کی وضاحت کرتی ہے۔ اس کتاب میں اس بنیادی تصور پر بحث کی گئی ہے کہ مسلمان کی خصوصاً حکمران کی اپنے شہریوں اور شہریوں کی اپنے حکمران کے حوالے سے کیا ذمہ داریاں ہیں۔ جب خلافت دوبارہ قائم ہو گی تو امت کے لیے لازمی ہو گا کہ وہ اس تصور کو مضبوطی سے تھامے رکھے تاکہ امت دوبارہ ذلت و رسوائی کی اس دلدل میں دنھس نہ جائے جو اسلام کی حکمرانی میں غیر موجودگی کی بنا پر مسلط ہوئی تھی۔

کتاب میں اس بات کی بھی وضاحت کی گئی ہے کہ کیوں موجودہ حکمران، جو امت سے اپنی اطاعت کا مطالبہ کرتے ہیں، اسلام کی روشنی میں غیر قانونی یعنی شرعی حکمران ہیں۔ یہ اقتدار پر امت کی مرضی اور اسلام کو نافذ کرنے کی بیعت دینے کے نتیجے میں فائز نہیں ہوئے ہیں۔ انھوں نے مسلمانوں پر اقتدار غیر شرعی طریقے سے حاصل کیا ہے۔ یہ ظالم ہیں کیونکہ یہ غیر اسلامی کفریہ نظام، جس کو انسانوں نے بنایا ہے کو نافذ کرتے ہیں نہ کہ اللہ سبحانہ وتعالی کے قانون کو اور یہ استعماری طاقتوں کو کھلے مواقع فراہم کرتے ہیں کہ وہ مسلمانوں اور ان کے وسائل کا استحصال کریں۔ ان کا احتساب کرنا اور انھیں اقتدار سے ہٹانا ضروری ہے۔

حزب التحریر ولایہ پاکستان کی خواتین، بلا امتیاز رنگ و نسل اور مسلک تمام خواتین کو اس بات کی دعوت دیتی ہیں کہ وہ مراکش سے لے کر انڈونیشیا تک پوری دنیا کی اپنی مسلمان بہنوں کے ساتھ شامل ہو جائیں جو اسلام کو ایک نظام زندگی کے طور پر نافذ کرنے کی جدوجہد کر رہیں ہیں۔ حزب التحریر کی مرد اور خواتین کی شاخیں اسلام کے اصولوں کے عین مطابق الگ الگ کام کرتی ہیں جس طرح کہ ایک اسلامی معاشرے میں ہونا چاہیے۔

نوٹ : اس کتاب کو دیکھنے اور ڈاون لوڈ کرنے کے لیے اس ویب سائٹ لنک کو دیکھیں۔

https://docs.google.com/document/d/1d-oW2AWOD3IuoZDCHVu2S4KSNxvZJJLRxz8Rr9NvcIQ/edit

http://pk.tl/16nY

میڈیا آفس حزب التحریر ولایہ پاکستان

Read more...

حزب التحریر ولایہ پاکستان نے بجلی بحران کے حل کے لیے پالیسی جاری کر دی سستی اورقابل حصول بجلی کی فراہمی

حزب التحریر ولایہ پاکستان نے بجلی کے بدترین بحران سے نمٹنے کے لیے ایک پالیسی دستاویز "Publicized Policy Position"جاری کی ہے۔ اس پالیسی میں اس بات کی وضاحت کی گئی ہے کہ کس طرح یہ بحران براہ راست نجکاری کی پالیسی کا نتیجہ ہے جس کے نتیجے میں منافع خوری، پیداواری گنجائش سے کم پیداوار، بجلی کی مسلسل بڑھتی قیمتیں اور ایک بہت بڑے "گردشی قرضے" نے جنم لیا ہے۔ اس دستاویز میں اس مسئلے کا حل پیش کیا گیا ہے جس کے تحت بجلی کے کارخانوں، اس کی ترسیل کے اداروں، تیل، گیس اور کوئلہ سے بجلی پیدا کرنے کے کارخانوں کو عوامی ملکیت قرار دیا جائے۔ اسلام میں عوامی ملکیت کی چیز کو نا تو ریاست اپنی ملکیت میں لے سکتی ہے اور نا ہی وہ نجی ملکیت قرار دی جا سکتی ہے بلکہ یہ ایسا اثاثہ ہوتا ہے جس کے فوائد سے ریاست کے تمام شہری بلا امتیاز رنگ، نسل، زبان اور مذہب فائدہ اٹھاتے ہیں۔

یہ دستاویز پالیسی بنانے کے ماہرین، سیاست دانوں، صحافیوں، وکلأ، بیوروکریٹز اور علمأ کے لیے اس مسئلہ پر ایک اہم زاویہ پیش کرتی ہے۔ اس پالیسی دستاویز کے ساتھ وہ ضمیمہ بھی منسلک کیا گیا ہے جس میں حزب التحریر کے تیار کردہ ریاست خلافت کے آئین سے اس پالیسی سے متعلقہ دفعات اور قرآن و سنت سے ان کے تفصیلی دلائل بھی شامل ہیں۔ ریاست خلافت کی یہ آئینی دفعات اپنی اصل عربی زبان اور اس کے اردو ترجمے کے ساتھ منسلک ہیں۔

نوٹ: اس پالیسی دستاویز اور اس سے متعلقہ ریاست خلافت کی آئینی دفعات کو دیکھنے کے لیے اس ویب سائٹ لنک کو دیکھیں۔  بجلی کے بحران کے حوالے سے پالیسی

میڈیا آفس حزب التحریر ولایہ پاکستان

 

Read more...

بجلی کے بحران کے حوالے سے پالیسی ربیع الاول 1434،بمطابق جنوری 2013

 

حزب التحریر ولایہ پاکستان نے ملک میں جاری بد ترین بجلی کے بحران کے حوالے سے ایک پالیسی دستاویز "Publicized Policy Position"جاری کی ہے ۔اس بحران نے جہاں ملک کی صنعت اور زراعت کے شعبے کو مفلوج کر کے رکھ دیا ہے وہیں روز مرہ کی زندگی کو بھی شدید متائثر کیا ہے۔


ا)مقدمہ:جمہوریت سرمایہ دارانہ نظام میں نجکاری کے تصور کی حفاظت کرتی ہے جس کی بنا پر بجلی ناپید اور مہنگی ہو گئی ہے۔
پاکستان میں حکومت بجلی کے بحران کی ذمہ دار ہے کیونکہ وہ جمہوریت کے ذریعے سرمایہ دارانہ نظام کو نافذ کر رہی ہے۔موجودہ سرمایہ دارانہ نظام نجکاری کے ذریعے اس بات کو یقینی بناتا ہے کہ بجلی پیدا کرنے کے وسائل سے صرف چند مقامی اور غیر ملکی لوگ فائدہ اٹھائیں جبکہ عوام اس سے محروم رہیں۔ نجکاری کے نتیجے میں بجلی کی قیمت بڑھا دی جاتی ہے تا کہ نجی مالکان اپنے منافع میں بے تحاشا اضافہ کرسکیں۔مثال کے طور پر ورلڈ بنک نے بجلی کی قیمتوں میں سال 2000سے 2004تک اپنی نگرانی میں اضافہ کروایااور جس میں آج کے دن تک مسلسل اضافہ ہورہا ہے جس کے نتیجے میں لوگ اب سردیوں کے دنوں میں بجلی کاجتنا بل دیتے ہیں اتنا بل بڑے پیمانے پر بجلی کے کارخانوں کی نجکاری سے پہلیگرمیوں کے اُن دنوں میں جمع کرایا کرتے تھے جن دنوں میں بجلی کا استعمال سب سے زیادہ ہوتا ہے۔ لہذا ایک طرف نجی کمپنیاں بجلی کے پیداواری یونٹس کی مالک ہونے کی بنا پر اپنی دولت میں بے تحاشا اضافہ کرتی ہیں وہیں باقی معاشرہ مسلسل مہنگی ہوتی بجلی کی بنا پر اقتصادی بد حالی کا شکار ہو جاتا ہے۔ اس کے علاوہ جہاں تک بجلی کی کمی کا تعلق ہے تو حکومت خود چند لوگوں کے فائدے کے لیے اربوں روپے کے قرضوں کی دلدل میں جا گری ہے۔اس لیے نجی کمپنیاں اپنے منافع کی شرح کو برقرار رکھنے کے لیے بجلی کی پیداوار میں کمی کردیتی ہیں کیونکہ انھیں اتنی رقم نہیں دی جاتی جتنا کہ انھیں دینے کے معاہدے کیے گئے ہیں ۔''گردشی قرضے‘‘ (circular debt) کی وجہ سے بجلی کی پیداوار دس ہزار میگاواٹ یا اس سے بھی کم رہ جاتی ہے جبکہ بجلی کی پیداوارکی گنجائش تقریباً بیس ہزار میگاواٹ ہے جو پانی کی کمی کی صورت میں تقریباً پندرہ ہزار میگاواٹ ہو جاتی ہے۔یہ پیداواری صلاحیت ہماری طلب کو پورا کرنے کے لیے کافی ہے کیونکہ سردیوں میں بجلی کی طلب تقریباً ساڑھے گیارہ ہزار جبکہ گرمیوں میں ساڑھے سترہ ہزار میگاواٹ ہوتی ہے۔اس سے یہ بات واضح ہوجاتی ہے کہ گرمیوں میں آٹھ سے بارہ گھنٹوں جبکہ سردیوں میں چھ گھنٹوں کی لوڈ شیڈنگ کی اصل وجہ استعداد سے کم بجلی پیدا کرنا ہے۔یہ تمام صورتحال صرف اس وجہ سے ہے کہ بجلی کو عوام کا حق قرار نہیں دیا گیا بلکہ اس کو کاروبار کرنے کا ذریعہ بنا دیا گیا ہے۔

 

ب)سیاسی اہمیت: سرمایہ دارانہ نظام کا بجلی کے پیداواری یونٹس پر کنٹرول کا فائدہ صرف استعماری طاقتوں اور موجودہ حکمرانوں کو حاصل ہوتا ہے جبکہ عوام اس سے محروم رہتے ہیں
ب1۔پاکستان میں بجلی 65فیصد تھرمل ذرائع یعنی فرنس آئل اور گیس سے ،33فیصد ہائیڈل یعنی پانی کے ڈیموں کے ذریعے اور 2فیصد نیوکلیئر یعنی ایٹمی ری ایکٹروں کے ذریعے پیدا ہوتی ہے۔ پاکستان کی بجلی کی پیداواری صلاحیت اتنی ہے کہ پورا سال بجلی کی موجودہ طلب کو پورا کیا جاسکتا ہے۔
ب2۔جہاں تک تھرمل ذرائع سے بجلی پیدا کرنے کا تعلق ہے تو مسلم امہ دنیا کے50فیصدسے زائد تیل اور 45فیصد گیس کے ذخائر کی مالک ہے۔پاکستان میں دنیا کے چندبڑے کوئلے کے ذخائر میں سے ایک ذخیرہ ،تھر میں واقع ہے۔
ب3۔جہاں تک مستقبل کی ضروریات کو پورا کرنے کے لیے دوسرے ذرائع سے بجلی پیدا کرنے کا تعلق ہے جیسا کہ سورج کی روشنی،ہوا اورپانی کی لہریں،تو امت میں ایسے بے شمار بیٹے اور بیٹیاں ہیں جو ان وسائل کو استعمال میں لا کر امت کی ضروریات کو پورا کرنے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔
ب4۔ان عظیم ذخائر کی نجکاری کے ذریعے مقامی اور غیر ملکی استعماری کمپنیاں بھر پور فائدہ اٹھاتیں ہیں ۔یہ کمپنیاں یا تو حکمرانوں کی حمائت سے کام کرتی ہیں یا براہ راست حکمرانوں کے لیے کام کرتیں ہیں۔
ب5۔ لوگوں کا معاشی بد حالی میں مبتلا ہو جانا موجودہ حکمرانوں اور ان کے استعماری آقاوٗں کے لیے فائدہ مند ہوتا ہے کیونکہ اس کے نتیجے میں لوگوں میں کرپٹ حکمرانوں کے ظلم کے خلاف اٹھ کھڑے ہونے اور انھیں اکھاڑ پھینکنے کی صلاحیت میں کمی ہوجاتی ہے۔

 

د)قانونی ممانعت:عوام کے مفاد میں توانائی کے ذخائر سے حاصل ہونے والے فوائدکا تحفظ
خلافت سرمایہ دارانہ معاشی نظام کا خاتمہ کرے گی اور اسلام کے معاشی نظام کو نافذ کرے گی۔اسلام کا نظام دولت کی تقسیم کو یقینی بناتا ہے اور اس مقصد کو حاصل کرنے کا ایک طریقہ بجلی کے پیداواری یونٹس کے ساتھ ساتھ کوئلہ ،تیل اور گیس کو عوامی اثاثہ قرار دینا ہے۔یہ اثاثے نہ تو نجی ملکیت میں جاسکتے ہیں اور نہ ہی ریاستی ملکیت میں۔ ان اثاثوں کا انتظام ریاست سنبھالتی ہے تا کہ اس بات کو یقینی بنائے کہ ان کے فوائد، بلا امتیاز رنگ،نسل،مسلک اور مذہب کے، ریاست کے تمام شہریوں تک پہنچیں۔خلافت توانائی اور پیٹرول،ڈیزل،فرنس آئل وغیرہ پر عائد ٹیکسس کا خاتمہ کردے گی جس سے ان کی قیمت میں مزید کمی واقع ہوگی۔ ان چیزوں کی صرف اس قدر قیمت لی جائے گی جس کے ذریعے ان کی پیداوار اورانھیں عوام تک پہنچانے پر اٹھنے والی لاگت آئی ہو گی۔ غیر مسلم غیر حربی ممالک کو ان وسائل کی فروخت سے حاصل ہونے والی آمدن کو لوگوں کی فلاح و بہبود پر خرچ کیا جائے گا۔ اسلام کی بجلی کی پالیسی خلافت کے زیر سایہ پاکستان میں زبردست صنعتی ترقی کا باعث بنے گی۔


حزب التحریرنے ریاست خلافت کے دستور کی دفعہ 137میں اعلان کیا ہے کہ''تین طرح کی اشیاء عوام کی ملکیت ہوتی ہیں:۱)ہر وہ چیز جو اجتماعی ضرورت ہو جیسے شہر کے میدان۔ب)ختم نہ ہونے والی معدنیات جیسے تیل کے کنوئیں۔ج)وہ اشیاء جو طبعی طور پر افراد کے قبضے میں نہیں ہوتی جیسے نہریں‘‘۔دستور کی دفعہ 138میں لکھا ہے کہ '' کار خانہ بحیثیت کارخانہ فرد کی ملکیت ہے ،تاہم کارخانے کا وہی حکم ہے جو اس میں بننے والے مواد(پیداوار) کا ہے۔ اگر یہ مواد فردکی املاک میں سے ہو تو کارخانہ بھی انفرادی ملکیت میں داخل ہو گا۔ جیسے کپڑے کے کارخانے (گارمنٹس فیکٹری) اوراگر کارخانے میں تیار ہونے والا مواد عوامی ملکیت کی اشیاء میں سے ہوگا تو کارخانہ بھی عوامی ملکیت سمجھا جائے گا جیسے لوہے کے کارخانے (Steel Mill)‘‘۔اسی طرح دستور کی دفعہ 139میں لکھا ہے کہ '' ریاست کے لئے یہ جائز نہیں کہ وہ انفرادی ملکیت کی چیز کو عوامی ملکیت کی طرف منتقل کرے کیو نکہ عوامی ملکیت میں ہونا مال کی طبیعت اور فطرت اور اسکی صفت میں پائیدار طور پر ہوتا ہے، ریاست کی رائے سے نہیں‘‘۔ اور دستور کی دفعہ 140میں لکھا ہے کہ '' امت کے افراد میں سے ہر فرد کو اسی چیز سے فائدہ اٹھانے کا حق ہے جو عوامی ملکیت میں داخل ہے ۔ ریاست کے لئے جائز نہیں کہ وہ کسی خاص شخص کو عوامی ملکیت سے فائدہ اٹھانے یا اس کا مالک بننے کی اجازت دے ۔اور باقی رعایا کو اس سے محروم رکھے‘‘۔


نوٹ: خلافت کے قیام کے فوراً بعد اس پالیسی کو نافذ کیا جائے گا ۔ اس پالیسی کے قرآن و سنت سے تفصیلی دلائل جاننے کے لیے حزب التحریرکی جانب سے جاری کیے گئے ریاستِ خلافت کے دستور کی دفعات140,139,138,137سے رجوع کریں۔


ج)پالیسی :دنیا کی صف اول کی ریاست، خلافت کو قائم کرنے کی جدوجہد
ج1۔تیل،گیس،کوئلہ اور بجلی کے یونٹس کو عوامی اثاثہ قرار دے دیا جائے گا جس کے نتیجے میں سستی بجلی میسرہوگی۔
ج2۔سستی بجلی کی فراہمی مضبوط بنیادوں پر صنعتی شعبے کو قائم کرنے کے لیے ضروری ہے بلکہ ایک ریاست کو دنیا کی صف اول کی ریاست بنانے کے لیے بھی انتہائی اہم ہے۔
ج3۔توانائی کے حوالے سے اسلام کی منفرد پالیسی سرمایہ دارانہ نظام سے تنگ آئی ہوئی دنیا کے لیے ایک روشن مثال ہوگی۔

 

نوٹ: اس پالیسی دستاویز  کی پریس رلیز کو دیکھنے کے لیے اس ویب سائٹ لنک کو دیکھیں۔

حزب التحریر ولایہ پاکستان نے بجلی بحران کے حل کے لیے پالیسی جاری کر دی

سستی اورقابل حصول بجلی کی فراہمی

 

Read more...

بھارتی جارحیت سے متعلق پالیسی ربیع الاول 1434 ہجری، بمطابق جنوری 2013

 

حالیہ دنوں میں لائن آف کنٹرول پر بھارتی جارحیت کی بنا پر پیدا ہونے والی کشیدگی نے سب کی توجہ حاصل کی۔ لائن آف کنٹرول پربھارتی جارحیت کے حوالے سے حزب التحریرولایہ پاکستان نے ایک پالیسی دستاویز "Publicized Policy Position"جاری کی ہے۔ اس دستاویز کو عوام الناس،میڈیا،وکلأ،سیاست دانوں اور دانشوروں میں تقسیم کیا گیا ہے۔ ساتھ ہی اس دستاویز میں اہل قوت لوگوں سے حزب التحریرکوخلافت کے قیام کے لیے نصرۃ(مادی مدد)دینے کا مطالبہ بھی کیا گیا ہے تا کہ عملی طور پر مسلمانوں کے معاملات کی دیکھ بھال فوری طور پر شروع کی جاسکے۔


ا)مقدمہ:ہندو جارحیت امریکی دہشت گردی کے خلاف جنگ میں ہماری حمائت کا نتیجہ ہے
یہ کیانی اور زرداری حکومت کی پالیسیوں کا نتیجہ ہے کہ بھارت پاکستان کے خلاف جارحیت کا ارتکاب کرنے کی جرأت کرتا ہے چاہے وہ حالیہ دنوں میں لائن آف کنٹرول پر پاکستان کی چیک پوسٹ پر حملہ ہو یااس سے قبل ہونے والے حملے ہوں۔سابق امریکی صدر بل کلنٹن کے دور سے کیانی کا آقا امریکہ بھارت کو اپنے حلقہ اثر میں لانے کے لیے پاکستان کواستعمال کرتا آرہا ہے ۔ اس مقصد کو حاصل کرنے کے لیے امریکہ بھارت کومسئلہ کشمیر کو دفن کرنے، افغانستان میں بھارتی اثرو رسوخ کو بڑھانے، بھارتی معیشت کو طاقتور بنانے کے لیے پاکستان کی مارکیٹ تک اس کو رسائی فراہم کرانے اور پاکستان کی فوجی خصوصاً ایٹمی صلاحیت میں کمی کروانے کی یقین دہانی کراتا ہے ۔جنرل مشرف کی دست راست ہونے کے ناطے ،جنرل کیانی نے پاکستان میں امریکہ کی فوجی اور انٹیلی جنس موجودگی کو بے تہاشا بڑھانے اور افغانستان میں امریکی قبضے کو مستحکم کرنے میں جنرل مشرف کی زبردست اعانت کی۔اس مشرف کیانی اتحاد کا امریکہ نے بھر پورفائدہ اٹھایا اور بھارت کو اپنے حلقہ اثر میں لانے کے لیے اس نے اپنے دروازے کھول دیے اور اب بھارت نہ صرف افغانستان میں زبردست اثرورسوخ حاصل کرچکا ہے بلکہ اسے پاکستان کے اندر افراتفری پیدا کرنے کا موقع مل گیا ہے۔اس کے علاوہ کشمیر سے دستبرداری اور ہماری افواج کاقبائلی علاقوں میں امریکی فتنے کی جنگ میں ملوث ہو جانے کے بعد بھارت نے سکون کا سانس لیا ہے اوررہی سہی قصرچند دن قبل ہی امریکہ کی خواہش پر افواج پاکستان کی جنگی ڈاکٹرائن میں جنرل کیانی نے اہم تبدیلی کرتے ہوئے ''اندرونی خطرے‘‘ کو پاکستان کی سلامتی کودرپیش سب سے بڑا خطرہ قرار دے کر پوری کردی ہے۔یہ وہ وجوہات ہیں جس کی بنا پر بھارت کو اس قدر جرأت ہوئی کہ وہ ہماری افواج کی جانب میلی آنکھ سے دیکھ سکے۔

ب)سیاسی قدرو اہمیت:جنوبی اور وسطی ایشیأ میں مسلمانوں کے غلبہ حاصل کرنے کی امید افزا وجوہات
ب1۔امریکہ اور بھارت کا افغانستان پر اثرو رسوخ مکمل طور پر پاکستان کی جانب سے فراہم کی جانے والی فضائی اور زمینی راہداری، انٹیلی جنس اور اس کی پیشہ وارانہ اور قابل فوج کی مدد کی وجہ سے ہے۔
ب2۔ہندو ریاست ایک کمزور ریاست ہے جس کی وجہ سے وہ ٹوٹ کر بکھر سکتی ہے۔ اس کی بنیادمیں عصبیت اس حد تک موجود ہے کہ کئی علیحدگی پسند تحریکیں برسرِ پیکار ہیں جو بھارت کی تقسیم چاہتی ہیں۔ بھارت میں یہ صلاحیت ہی نہیں ہے کہ وہ اپنے غیر ہندوں شہریوں ،یہاں تک کہ چھوٹی ذات سے تعلق رکھنے والے ہندوں کو بھی ،تحفظ اور خوشحالی فراہم کرسکے۔
ب3۔ہندو ریاست تیل و گیس کے لیے مسلم علاقوں پر انحصار کرتی ہے جن تک پہنچنے کے لیے پاکستان کی اجازت ضروری ہے۔
ب4۔اسلام جنوبی اور وسطی ایشیأ کے مسلمانوں کو جوڑنے والی قوت ہے ۔ اس خطے میں مسلمانوں کی تعداد پچاس کروڑ سے زیادہ ہے جس میں سے تقریباً بیس کروڑ ہندو ریاست میں بستے ہیں۔مسلمانوں کی مجموعی فوج کی تعداد تقریباًساٹھ لاکھ ہے جبکہ ہندوستان کی فوج کی تعداد دس لاکھ ہے۔ خلافت کی دعوت جنوبی اور وسطی ایشیأ میں پھیل چکی ہے لہذااس خطے میں مسلمانوں کی سرزمینوں کو ملا کر ایک اسلامی ریاست کو قائم کرنے کے لئے درکار تمام عوامل موجود ہیں۔
ب5۔خطے میں ایسے کئی غیر مسلم ممالک ہیں جو مسلمانوں کے خلاف جارحانہ عزائم نہیں رکھتے ،جو اپنے ملکوں میں امریکہ اور بھارت کی مداخلت کو قطعاً پسند نہیں کرتے۔ یہ ممالک بھی مسلمانوں کے ساتھ شامل ہو کر ہماری طاقت میں تقویت کا باعث ہوں گے۔

د)قانونی ممانعت:غیر مسلم حربی،غیر مسلم غیر حربی اور موجودہ مسلم ممالک سے تعلقات
د1۔غیر مسلم حربی ریاستوں سے جنگی قوانین کے مطابق نمٹا جائے گا۔یہ وہ ممالک ہیں جنھوں نے مسلم علاقوں پر قبضہ کر رکھا ہے اور ان کے خلاف جارحیت کا ارتکاب کرتے ہیں۔
حزب التحریرنے ریاست خلافت کے دستور کی دفعہ189کی شق 3میں اعلان کیا ہے کہ''وہ ریاستیں جن کے ساتھ ہمارے کوئی معاملات نہیں یا ستعماری ممالک جیسے برطانیہ ،امریکا، اور فرانس یا وہ ممالک جو ہمارے علاقوں پر نظریں جمائے ہوئے ہیں،جیسے روس ۔ یہ ر یاستیں ہمارے ساتھ حکماً متحارب (جنگی حالت میں)ہیں ۔ ان کے حوالے سے ہر طرح کی احتیاط برتی جائے گی۔ ان کے ساتھ کسی بھی قسم کے سفارتی تعلقات استوار کرنا صحیح نہیں ہوگا۔ ان ریاستوں کے شہری ہمارے علاقوں میں پاسپورٹ اور خصوصی اجازت اور ہر شخص کے لیے الگ ویزے کے ساتھ داخل ہو سکتے ہیں ماسوائے کہ ان سے عملاً جنگ شروع ہو جائے‘‘۔اسی دفعہ کی شق 4میں لکھا ہے کہ ''وہ ریاستیں جو ہمارے ساتھ عملاً حالت جنگ میں ہوں، جیسے اسرائیل۔ ان کے ساتھ ہر حوالے سے حالتِ جنگ کاہی معاملہ کیاجائے گا۔ ان کے ساتھ ایسا برتاؤ کیا جائے گا گویا ہماری اورا ن کی جنگ ہو رہی ہے اگر چہ ہمارے اور ان کے درمیان سیز فائر جنگ بندی ہو ان کا کوئی شہری ہمارے علاقے میں داخل نہیں ہو سکتا‘‘۔
د2۔جہاں تک موجودہ مسلم ممالک کا تعلق ہے تو انھیں ریاست کے اندر ضم کرنے کے زمرے میں رکھا جائے گا کیونکہ خلافت تمام مسلمانوں کی واحد ریاست ہوتی ہے اور امت کے لیے لازمی ہے کہ وہ اسلام کے نفاذ کے لیے خلیفہ کا ساتھ دے۔
جیسا کہ حزب التحریرنے ریاست خلافت کے دستور کی دفعہ181میں اعلان کیا ہے کہ''سیا ست امت کی داخلی اورخارجی معاملات کی نگرانی (دیکھ بھال) کو کہتے ہیں۔ سیاست ریاست اور امت دونوں کی جانب سے ہوتی ہے۔ ریاست خود براہ راست عملی طور پر یہ نگرانی (نگہبانی) کرتی ہے جبکہ امت اس ذمہ داری کی انجام دہی کے حوالے سے ریاست کا احتساب کرتی ہے‘‘۔اور دستور کی دفعہ189کی شق 1میں لکھاہے کہ''وہ ریاستیں جو عا لمِ اسلام میں قائم ہیں،ان سب کو یہ حیثیت دی جائے گی کہ گویا یہ ایک ہی ریاست کے اندر ہیں۔ اس لیے یہ خارجہ سیاست کے ذمرے میں نہیں آتیں۔ نہ ہی ان سے تعلقات خارجہ سیاست کے اعتبار سے قائم کئے جائیں گے، بلکہ ان سب کو ایک ریاست میں یکجا کرنا فرض ہے‘‘۔
د3۔پوری دنیا تک اسلام کی دعوت پہنچانے کے لیے غیر مسلم غیر حربی ممالک سے تعلقات قائم کرنا۔ اس کے لیے عالمی سطح پر سیاسی عمل کیے جائیں جس کے نتیجے میں دشمن ریاستوں کو تنہا اور کمزور کیاجائے۔
جیسا کہ حزب التحریرنے ریاست خلافت کے دستور کی دفعہ184میں اعلان کیا ہے کہ''خارجہ سیاست میں سیاسی چال چلنا ضروری ہے۔ سیاسی چال کی اصل طاقت اہداف کو خفیہ رکھنا جبکہ اعمال ( کاروائیوں) کا اعلان کرنا ہے‘‘۔اور دستور کی دفعہ 187میں لکھا ہے کہ '' امت کا سیاسی مسئلہ یہ ہے کہ اسلام اس امت کی ریاست کی قوت ہے، اور یہ کہ اسلامی احکامات کابہترین طریقے سے نفاذ کیا جائے اور دنیا کے سامنے اسلامی دعوت کو پیہم طریقے سے پہنچایا جائے‘‘۔ اس طرح دستور کی دفعہ 189کی شق 2میں لکھا ہے کہ '' وہ ریاستیں جن سے ہمارے اقتصادی ،تجارتی ، اچھے ہمسائیگی یا ثقافتی معاہدات ہیں ،ان کے ساتھ ان معاہدات کے مطابق سلوک کیا جائے گا۔ ۔۔۔۔۔ان کے ساتھ اقتصادی اور تجارتی تعلقات کچھ متعین اشیاء تک محدود ہو ں گے اور ان اشیاء کی صفات معلوم ہوں۔ اور یہ ایسی اشیاء نہ ہوں کہ جس سے اس ریاست کو تقویت پہنچتی ہو‘‘۔
نوٹ:خلافت کے قیام کے فوراً بعد خارجہ پالیسی سے متعلق دفعات کو نافذ کیا جائے گا ۔ ان دفعات کے قرآن و سنت سے تفصیلی دلائل جاننے کے لیے حزب التحریرکی جانب سے جاری کیے گئے ریاستِ خلافت کے دستور کی دفعات 189,187,185,184,181سے رجوع کریں۔

ج)پالیسی :برصغیر پاک و ہند پر اسلام کے غلبے کی واپسی
ج1۔افغانستان میں موجود نیٹو افواج کی سپلائی کی بندش جو افغانستان میں بھارتی سٹریٹیجک اثرو رسوخ کے بڑھنے کی بنیاد ہے۔ افغانستان سے تمام امریکی اور بھارتی اہلکاروں اور سفارت کاروں کی بے دخلی۔ امریکہ اور بھارت سے توانائی اور تجارت کے حوالے سے تمام تعلقات کا مکمل خاتمہ۔
ج2۔پوری مسلم دنیا کو ایک اسلامی ریاست میں ضم ہونے کی دعوت دینا خصوصاً ان کی افواج کو ،کہ وہ ایجنٹ حکمرانوں ، جن میں بنگلادیش ،افغانستان ، ایران ،ازبکستان بھی شامل ہیں،کو اتارنے کے لیے عوام کی مدد کریں ۔تمام مسلم افواج کو یہ پیغام جاری کرنا کہ کشمیر اور افغانستان کے مسئلہ کا حل ان کی آزادی اور ریاست خلافت میں ان کو ضم کرنا ہے۔
ج3۔خطے کی تمام غیر حربی ریاستوں کو اس بات کی دعوت دینا کہ وہ امریکہ و بھارت کی سازشوں میں ان کی مددو معاونت سے دستبردار ہو جائیں اور اس کے بدلے انھیں مسلمانوں سے بہتر تعلقات اور دیگر فوائد کی پیشکش کرنا۔ ایک علاقائی میڈیا مہم شروع کرناجس کے ذریعے خطے کے لوگوں کو اس بات سے آگاہ کیا جائے کہ ریاست خلافت کے شہریوں کو بلا امتیازِ رنگ،نسل،مذہب کس قدر زبردست حقوق اور سہولیات حاصل ہیں۔

نوٹ: اس پالیسی دستاویز  کی پریس رلیز کو دیکھنے کے لیے اس ویب سائٹ لنک کو دیکھیں۔

حزب التحریرولایہ پاکستان نے بھارتی جارحیت کے حوالے سے پالیسی دستاویز جاری کر دی

ہندو ریاست کی جارحیت کا ہمیشہ کے لیے خاتمہ

 

Read more...

حزب التحریرولایہ پاکستان نے بھارتی جارحیت کے حوالے سے پالیسی دستاویز جاری کر دی ہندو ریاست کی جارحیت کا ہمیشہ کے لیے خاتمہ

حزب التحریر ولایہ پاکستان نے ہندو ریاست کی جارحیت سے نمٹنے کے لیے ایک پالیسی دستاویز "Publicized Policy Position" جاری کی ہے۔ یہ دستاویز پالیسی بنانے کے ماہرین، سیاست دانوں، صحافیوں، وکلأ، بیوروکریٹز اور علمأ کے لیے اس مسئلہ پر ایک اہم زاویہ پیش کرتی ہے۔ یہ دستاویز اس بات پر روشنی ڈالتی ہے کہ کس طرح خلافت جنوبی ایشیأ میں اسلام کی بالادستی کو قائم کرے گی۔ اس پالیسی دستاویز کے ساتھ وہ ضمیمہ بھی منسلک کیا گیا ہے جس میں حزب التحریر کے تیار کردہ ریاست خلافت کے آئین سے اس پالیسی سے متعلقہ دفعات اور قرآن و سنت سے ان کے تفصیلی دلائل بھی شامل ہیں۔ ریاست خلافت کی یہ آئینی دفعات اپنی اصل عربی زبان اور اس کے اردو ترجمے کے ساتھ منسلک ہیں۔

اس پالیسی میں کافر حربی (عملاً حالت جنگ) ریاستوں اور کافر غیر حربی (حالت امن) ریاستوں کے درمیان امتیاز کو واضع کیا گیا ہے۔ اس دستاویز میں اس بات کی بھی وضاحت کی گئی ہے کہ موجودہ مسلم ممالک کے حوالے سے یہ پالیسی ہو گی کہ انھیں ریاست خلافت میں ضم کر کے مسلمانوں کی ایک واحد ریاست میں ڈھال دیا جائے۔

نوٹ: اس پالیسی دستاویز اور اس سے متعلقہ ریاست خلافت کی آئینی دفعات کو دیکھنے کے لیے اس ویب سائٹ لنک کو دیکھیں۔ بھارتی جارحیت سے متعلق پالیسی

 

میڈیا آفس حزب التحریر ولایہ پاکستان

 

Read more...
Subscribe to this RSS feed

دیگر ویب سائٹس

مغرب

سائٹ سیکشنز

مسلم ممالک

مسلم ممالک