بسم الله الرحمن الرحيم
تفسیر سورۃ البقرۃ: آیت 200-202
فقیہ اور مدبر سیاست دان ،امیر حزب التحریر، شیخ عطا بن خلیل ابوالرَشتہ کی کتاب تیسیر فی اصول التفسیرسے اقتباس
فَإِذَا قَضَيْتُمْ مَنَاسِكَكُمْ فَاذْكُرُوا اللَّهَ كَذِكْرِكُمْ آبَاءَكُمْ أَوْ أَشَدَّ ذِكْرًا فَمِنْ النَّاسِ مَنْ يَقُولُ رَبَّنَا آتِنَا فِي الدُّنْيَا وَمَا لَهُ فِي الآخِرَةِ مِنْ خَلاَقٍ ( 200). وَمِنْهُمْ مَنْ يَقُولُ رَبَّنَا آتِنَا فِي الدُّنْيَا حَسَنَةً وَفِي الآخِرَةِ حَسَنَةً وَقِنَا عَذَابَ النَّارِ ( 201). أُوْلَئِكَ لَهُمْ نَصِيبٌ مِمَّا كَسَبُوا وَاللَّهُ سَرِيعُ الْحِسَابِ ( 202).
"پھر جب تم اپنے حج کے کام پورے کرچکو تو اللہ کا اس طرح ذکر کرو جیسے تم اپنے باپ دادوں کا ذکر کیا کرتے ہو، بلکہ اس سے بھی زیادہ کرو۔ اب بعض لوگ تو وہ ہیں جو (دعا میں بس) یہ کہتے ہیں کہ: " اے ہمارے پروردگار ! ہمیں دُنیا میں بھلائی عطا فرما" اور آخرت میں ان کا کوئی حصہ نہیں ہوتا۔ اور انہیں میں سے وہ بھی ہیں جو یہ کہتے ہیں کہ " اے ہمارے پروردگار! ہمیں دُنیا میں بھی بھلائی عطا فرما اور آخرت میں بھی بھلائی،اور ہمیں دوزخ کے عذاب سے بچالے۔" یہ وہ لوگ ہیں جنہیں اپنے اعمال کی کمائی کا حصہ (ثواب کی صورت میں) ملے گا، اور اللہ بہت جلد حساب لینے والا ہے"۔
ان آیات کریمہ میں اللہ تعالیٰ نے مندرجہ ذیل باتیں ارشاد فرمائی ہیں:
1 – حاجی مناسکِ حج سے فارغ ہوجائیں تو انہیں اللہ کا ذکر کرنا چاہیے، جیسے وہ اپنے آبا ؤ اجداد کا تذکر ہ کرتے ہیں ، بلکہ اس سے بھی زیادہ اللہ کا ذکر کریں۔
اس آیت میں کلمہ (اَوْ) بمعنی ( بَلْ )ہے، یعنی وہ اللہ تعالیٰ کو یاد کریں، یاد کرنا بھی محض ایسے نہیں جیسے اپنے باپ دادوں کو یاد کرتے ہیں، بلکہ اس سے بھی زیادہ یاد کریں،حاجیوں کی یہ عادت تھی کہ جب حج کے اعمال سے فارغ ہوجاتے تھے، تو وہ منیٰ میں موجود عبادت گاہ اور جبلِ رحمت کے درمیان کھڑے ہوکر اپنے آباؤ اجداد کی تعریفیں کرنے اور ان کے کارنامے اور سوانح گنوا گنوا کر سنانے میں ایک پورا دن گذارا کرتے تھے،ان آیات میں اس رسم کی طرف اشارہ ہے اور ان کے ذریعے انہیں اللہ تعالیٰ نے ان کو مذکورہ روِش ترک کرنے کا حکم دیا ،ساتھ یہ بھی حکم دیا کہ اس سے پہلے جیسے وہ اپنے آبا ؤ اجداد کی یادیں سناتے اور تذکرےکرتے تھے،اس کی جگہ اللہ تعالیٰ کو یاد کریں،بلکہ اللہ تعالیٰ کا ذکر اس سے زیادہ کریں جتنا وہ اپنے آباؤو اجداد کو یاد کرتے تھے۔
ابنِ عباس رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں: جاہلیت والے حج کے تہوار میں حجاج عرفات پر وقوف کرتے تھے، ایک آدمی کہتا : میرا باپ لوگوں کوکھانا کھلاتا تھا،لوگوں کے بوجھ اُٹھاتا ،اور دیتیں اپنے ذمہ لیتا تھا،اپنے آبا ءکے کارنامے بیان کرنے کےسوا ان کا کوئی دھندا نہیں ہوتا تھا، چنانچہ اللہ تعالیٰ نے اپنے رسول ﷺ پر آیات اتاریں۔ (فَاذْكُرُوا اللَّهَ كَذِكْرِكُمْ آبَاءَكُمْ أَوْ أَشَدَّ ذِكْرًا)" پس اللہ کا اس طرح ذکر کرو جیسے تم اپنے باپ دادؤں کا ذکر کیا کرتے ہو، بلکہ اس سے بھی زیادہ کرو۔"
2 - اس کے بعد اللہ تعالیٰ بیان فرماتے ہیں کہ حاجیوں کے دو فریق ہیں:
ا۔ ایک فریق تو وہ ہے جو صرف دنیاوی زندگی کی کامیابیوں میں دلچسپی رکھتے ہیں،چنانچہ ان کی دعا صرف دنیا کی بہتری تک محدود ہوتی تھی، دعا مانگتے بھی تو یہی کہ اللہ ہمیں معاشی بے فکری اور دنیاوی ساز و سامان اور آرائش عطا کردے،آخرت کے ساتھ ان کا کوئی سر وکار نہیں ہوتا ،کہ اللہ تعالیٰ سے اخروی کامیابی کی بابت مانگیں،ان جیسے لوگوں کا آخرت میں کوئی حصہ نہیں، کیونکہ انہیں فقط دنیا کی فکر لگی ہوئی ہے۔
ب۔ دوسرا فریق وہ ہے جو اللہ تعالیٰ سے دنیا میں فضل ونعمت اور آخرت میں اجر کی دعائیں مانگتے ہیں۔ یعنی دنیا میں بھی اچھی اور عمدہ ترین زندگی اور آخرت میں بھی عمدہ اور بہترین زندگی کی دعائیں مانگتے ہیں۔ ایسے لوگ ہی اللہ تعالیٰ کی خوشنودی پالیتے ہیں اور عذاب جہنم سے بھی نجات حاصل کر لیتے ہیں۔
اور اللہ سبحانہ و تعالیٰ ہر ایک کو اپنے عمل کے مطابق جزا دیں گے، اللہ تعالیٰ بہت جلد حساب لینے والے ہیں، ان لوگوں کی تعدادچاہے کتنی ہی زیادہ کیوں نہ ہو، اور ان کے اعمال بہت زیادہ کیوں نہ ہوں،ان کے حساب سے اللہ عاجز و بے بس نہیں،بلکہ بہت جلد ان کا حساب چکا دے گا۔ اس لیے فرمایا(أُوْلَئِكَ لَهُمْ نَصِيبٌ مِمَّا كَسَبُوا وَاللَّهُ سَرِيعُ الْحِسَابِ) " یہ وہ لوگ ہیں جنہیں اپنے اعمال کی کمائی کا حصہ (ثواب کی صورت میں) ملے گا، اور اللہ بہت جلد حساب لینے والا ہے۔"