بسم الله الرحمن الرحيم
حزب التحریر کے امیر، ممتاز عالم عطا بن خلیل ابو الرشتہ
کا شام کی بابرکت سرزمین میں حق پر ثابت قدم داعیوں کے نام پیغام
پیارے بھائیو، السلام علیکم ورحمتہ اللہ
تہمت لگانے والوں کی تہمت سے بے پرواہ ہو کر مجھے آپ کے روشن موقف اور حق پر ثابت قدمی پرخوشی ہوئی ۔ اس حقیقت کے باوجود کہ آپ مشکلات، کمزورافراد اورایسےلوگوں میں گھرےہوئے ہیں جن کے دلوں میں کھوٹ ہے۔ اس کے باوجود آپ ایسے ہی تھے جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا،
﴿الَّذِينَ قَالَ لَهُمُ النَّاسُ إِنَّ النَّاسَ قَدْ جَمَعُوا لَكُمْ فَاخْشَوْهُمْ فَزَادَهُمْ إِيمَاناً وَقَالُوا حَسْبُنَا اللهُ وَنِعْمَ الْوَكِيلُ * فَانْقَلَبُوا بِنِعْمَةٍ مِنَ اللهِ وَفَضْلٍ لَمْ يَمْسَسْهُمْ سُوءٌ وَاتَّبَعُوا رِضْوَانَ اللهِ وَاللهُ ذُو فَضْلٍ عَظِيمٍ * إِنَّمَا ذَلِكُمُ الشَّيْطَانُ يُخَوِّفُ أَوْلِيَاءَهُ فَلَا تَخَافُوهُمْ وَخَافُونِ إِنْ كُنْتُمْ مُؤْمِنِينَ﴾
"اور وہ جن سے لوگوں نے کہا کہ، 'تمہارے خلاف بڑی فوجیں جمع ہوئی ہیں، اُن سے ڈرو'، تو یہ سن کر ان کا ایمان اور بڑھ گیا اور اُنہوں نے جواب دیا کہ ہمارے لیے اللہ کافی ہے اور وہی بہترین کارسا ز ہے۔آخر کار وہ اللہ تعالیٰ کی نعمت اور فضل کے ساتھ پلٹ آئے، ان کو کسی قسم کا ضرر بھی نہ پہنچا اور اللہ کی رضا پر چلنے کا شرف بھی انہیں حاصل ہو گیا، اللہ بڑا فضل فرمانے والا ہے۔اب تمہیں معلوم ہو گیا کہ وہ دراصل شیطان تھا جو اپنے دوستوں سے خواہ مخواہ ڈرا رہا تھا لہٰذا آئندہ تم انسانوں سے نہ ڈرنا، مجھ سے ڈرنا اگر تم حقیقت میں صاحب ایمان ہو" [ سورۃ آل عمران: 173-175]
پیارے بھائیو،
ہم دعوت کےتینوں مراحل میں رسول اللہ ﷺ کی سنت پر عمل کرتے ہیں۔ جس طرح مشرکین پوری قوت کے ساتھ آپ ﷺ کے خلاف کھڑے ہوئے، اسی طرح ظالم حکمران ہمارے خلاف کھڑے ہوئے ہیں۔ ظالموں کی حمایت منافقین اور ان لوگوں نے بھی کی جن کے دلوں میں بیماری ہے۔اسلام کامحض لبادہ اوڑھے ہوئے یہ لوگ سوچتے ہیں کہ شاید اب ان کی قسمت بدل جائے گی۔ مگر پھر بھی ان کے بس کی بات نہیں کہ وہ ظالموں سے دنیاوی فائدہ یا مال غنیمت حاصل کرسکیں۔ اللہ سبحانہ وتعالیٰ کاارشادہے،
﴿فَتَرَى الَّذِينَ فِي قُلُوبِهِمْ مَرَضٌ يُسَارِعُونَ فِيهِمْ يَقُولُونَ نَخْشَى أَنْ تُصِيبَنَا دَائِرَةٌ فَعَسَى اللهُ أَنْ يَأْتِيَ بِالْفَتْحِ أَوْ أَمْرٍ مِنْ عِنْدِهِ فَيُصْبِحُوا عَلَى مَا أَسَرُّوا فِي أَنْفُسِهِمْ نَادِمِينَ * وَيَقُولُ الَّذِينَ آمَنُوا أَهَؤُلَاءِ الَّذِينَ أَقْسَمُوا بِاللهِ جَهْدَ أَيْمَانِهِمْ إِنَّهُمْ لَمَعَكُمْ حَبِطَتْ أَعْمَالُهُمْ فَأَصْبَحُوا خَاسِرِينَ﴾
"تم دیکھتے ہو کہ جن کے دلوں میں نفاق کی بیماری ہے وہ اُنھیں میں دوڑ دھوپ کرتے پھرتے ہیں کہتے ہیں 'ہمیں ڈر لگتا ہے کہ کہیں ہم کسی مصیبت کے چکر میں نہ پھنس جائیں' مگر بعید نہیں کہ اللہ جب تمہیں فیصلہ کن فتح بخشے گا یا اپنی طرف سے کوئی اور بات ظاہر کرے گا تو یہ لوگ اپنے اِس نفاق پر جسے یہ دلوں میں چھپائے ہوئے ہیں نادم ہوں گے۔ اور اُس وقت اہل ایمان کہیں گے 'کیا یہ وہی لوگ ہیں جو اللہ کے نام سے کڑی کڑی قسمیں کھا کر یقین دلاتے تھے کہ ہم تمہارے ساتھ ہیں؟' ان کے سب اعمال ضائع ہوگئے اور آخر کار یہ ناکام و نامراد ہو کر رہے۔" [سورۃ المائدہ: 52-53]
پیارے بھائیو،
آپ کی سچائی پر ثابت قدمی نے اسلام اور مسلمانوں کے دشمنوں کو حیران کر دیاہے۔ آپ نہ کسی قسم کا ہتھیار اٹھاتےہیں اور نہ کسی فوج کی قیادت کرتےہیں، پھر بھی آپ نے ان کی سازش کوانہیں پر پلٹا دیا۔آپ نے ان کے معاملات کو گھاٹے میں بدلا تو لوگوں نے ان کو نکال دیا۔ پھر بھی ان لوگوں کو یہ احساس نہیں ہوا کہ اہل باطل خواہ کتنے ہی طاقتور کیوں نہ ہوں، اپنی ہی بنائی ہوئی دلدل میں گریں گے۔اسی طرح انہیں یہ بھی معلوم نہیں تھا کہ اگر آگہی اور بصیرت ساتھ نہ ہو تو صرف تلوار کام نہیں کرتی۔اگر حیات التحریر الشام کے ذمہ دار دانش مند ہوتے تو اپنے اردگرد کے ممالک میں شام کی جابر حکومت کے بارے میں جو کچھ ہو رہا ہے، اس کا مشاہدہ کرنے کے بعد وہ سمجھ جاتے کہ اس کا نتیجہ صرف ان پر دوتلخ صورتوں میں نکلے گاکہ یا تو ظالم شام کے سامنے سر تسلیم خم کردیاجائے یاپھر حکومت تشدداورسختی کے ساتھ ان کا تعاقب کرتی رہے۔ اسی طرح اگر وہ عقلمند ہوتے تو اپنے اردگرد کے لوگوں کے ساتھ اچھا برتاؤ کرتے، تاکہ وہ حکومت کے ظلم کے ان دنوں میں ان کا ساتھ دیتے اور ان کی مدد کرتے۔ یہ ان کاکام نہیں تھاکہ وہ دعوت کے علمبرداروں کے تعاقب میں حکومت کی تقلیدایسے کرتے جیسا کہ ظالم کرتےہیں۔ پھر وہ اپنی ہی بنائی ہوئی دلدل میں پھنس جائیں گےتو ان کی حالت آخرت سے پہلے دنیا میں اور بھی خراب ہو جاتی ہے۔اور پھر وہ پچھتائیں گے اورمحض چندلمحوں بعد پھر پچھتائیں گے۔
پیارے بھائیو،
بلاشبہ آپ جانتے ہیں کہ کافر استعماری ریاستیں اورمسلمان ممالک میں ان کے ایجنٹ ہمارے شباب کو گرفتارکرتےہیں اور تشدد کا نشانہ بناتے ہیں۔ ان میں سے کچھ شباب ان ریاستوں کی جیلوں میں شہید بھی ہو جاتے ہیں۔اس کے باوجود یہ مظالم اللہ سبحانہ وتعالیٰ کے لیے ہمارے عزم کو کمزور نہیں کرتے۔ مزید یہ کہ یہ ریاستیں طاقت اور استحکام میں حیات التحریر الشام سے زیادہ مضبوط ہیں... اس کی وجہ یہ ہے کہ ہم اللہ سبحانہ وتعالیٰ کے بندے ہیں۔ ہم سچ بولتے ہیں اور اللہ سبحانہ و تعالیٰ کے لیے ملامت کرنے والے کی ملامت سے نہیں ڈرتے۔ ہمارا عقیدہ ہے کہ مصیبت کو دور کرنے والا اللہ ہے جو زبردست اور غالب ہے۔ وہی ہماری شان و شوکت کا سرچشمہ اور ہمارے دشمن کی سازش کو کمزور کرنے والا ہے۔ اللہ سبحانہ وتعالیٰ کاارشادہے،
﴿وَمَنْ يَتَّقِ اللهَ يَجْعَلْ لَهُ مَخْرَجاً * وَيَرْزُقْهُ مِنْ حَيْثُ لَا يَحْتَسِبُ وَمَنْ يَتَوَكَّلْ عَلَى اللهِ فَهُوَ حَسْبُهُ إِنَّ اللهَ بَالِغُ أَمْرِهِ قَدْ جَعَلَ اللهُ لِكُلِّ شَيْءٍ قَدْراً﴾
"جو کوئی اللہ سے ڈرتے ہوئے کام کرے گا،اللہ اُس کے لیے مشکلات سے نکلنے کا کوئی راستہ پیدا کر دے گا، اور اسے ایسے راستے سے رزق دے گا جدھر اُس کا گمان بھی نہ جاتا ہو۔ جو اللہ پر بھروسا کرے، اس کے لیے وہ (اللہ)کافی ہے۔ اللہ اپنا کام پورا کر کے رہتا ہے۔ اللہ نے ہر چیز کے لیے ایک تقدیر مقرر کر رکھی ہے۔"
[سورۃ الطلاق: 2-3]
بھائیو،
بحران کی شدت اس کے خاتمے کا اعلان کرتی ہے... ہم اللہ سبحانہ و تعالیٰ سے ان پے در پے بحرانوں اور ان میں سے کچھ کوکچھ دوسروں کےذریعہ گلے سے پکڑ کر نےکےبعد کامیابی کے لیے دعا گو ہیں۔ ہم خلافت راشدہ کے قیام کے ذریعے اللہ سبحانہ وتعالیٰ سے کامیابی اور آنے والی مدد (نصر) کے لیے دعا گو ہیں، کیونکہ کسی ایک مشکل کے بعد ایک نہیں، ہمیشہ دو آسانیاں ہوتی ہیں۔
اس حدیث کوامام حاکم نے مستدرک میں ایک صحیح روایت کے ساتھ بیان کیا ہے، جس کے بارے میں امام حاکم کاکہناہے کہ یہ امام مسلم کی شرائط پر صحیح ہے، جبکہ الذہبی نے تلخیص میں عمر بن الخطاب ؓ کے بارے میں اتفاق کیا ہے۔
أنه بلغه أن أبا عبيدة حضر بالشام، وقد تألب عليه القوم، فكتب إليه عمر سلام عليك، أما بعد فإنه ما ينزل بعبد مؤمن من منزلة شدة إلا يجعل الله له بعدها فرجا، ولن يغلب عسر يسرين
"انہیں اطلاع ملی کہ ابو عبیدہ شام میں موجود تھے، جب لوگوں نے ان کے خلاف بغاوت کر دی تو عمر ؓ نے انہیں لکھا کہ آپ پر سلامتی ہو۔ جہاں تک اس کے بعد کی بات ہے تو مؤمن بندے پر کوئی مشکل نہیں آتی سوائے اس کے کہ اللہ تعالیٰ اس کے بعد اس کے لیے راحت کا سامان کر دیتا ہے۔ اور کوئی مشکل نہیں مگر یہ کہ دو آسانیوں سے اس پر قابو پا لیا جائے گا۔
"
ابن قیم ؒ نے اپنی کتاب بدائع الفوائد کے باب "آزمائشوں کی جامع تشخیص" میں کہا ہےکہ "اللہ سبحانہ وتعالیٰ فرماتے ہیں،
﴿فَإِنَّ مَعَ الْعُسْرِ يُسْراً * إِنَّ مَعَ الْعُسْرِ يُسْراً﴾
"پس حقیقت یہ ہے کہ مشکل کے ساتھ آسانی بھی ہے، بے شک مشکل کے ساتھ آسانی بھی ہے۔" [سورۃ الشرح: 5-6]
مشکل کا لفظ اگرچہ دو بار دہرایا گیاہے، مگرقطعی صورت کے ساتھ دہرایا گیاہے، اس لیے اسےایک ہی شمارکیاجائےگا۔ آسانی کا لفظ غیر معین صورت کے ساتھ دہرایا گیا ہے، تو یہ دو آسانیاں ہیں۔ سختی دو آسانیوں سے گھری ہوئی ہے ایک آسانی اس سے پہلے اور ایک آسانی اس کے بعد۔ پس کوئی مشکل انہیں مگر یہ کہ اس پر دو آسانیوں سے قابو پا لیا جائے گا۔"
والسلام عليكم ورحمتہ الله وبركاتہ
آپ کا بھائی، عطاء بن خليل ابو الرشتہ
امير حزب التحرير
17 ذی القعد 1444ھ
6جون، 2023
Latest from
- امریکی منصوبے کے جال میں پھنسنے سے خبردار رہو
- مسلم دنیا میں انقلابات حقیقی تبدیلی پر تب منتج ہونگے جب اہل قوت اپنی ذمہ داری ادا کرتے ہوئے جابروں کو ہٹا کر امت کا ساتھ دینگے
- حقیقی تبدیلی صرف اُس منصوبے سے آ سکتی ہے جو امت کے عقیدہ سے جڑا ہو۔ ...
- حزب التحریر کا مسلمانوں کی سرزمینوں کو استعمار سے آزاد کرانے کا مطالبہ
- مسلمانوں کے حکمران امریکی ڈکٹیشن پر شام کے انقلاب کو اپنے مہروں کے ذریعے ہائی جیک کر کے...