بسم الله الرحمن الرحيم
الفاتح، محمد بن قاسم الثقفی سے ملنے والا سبق
711 عیسوی میں مسلم تاجر جب بحر ہند میں سیلون (موجودہ سری لنکا) سے ہوتے ہوئے سند ھ کے ساحل کے پاس پہنچےتو ان کو لوٹ لیا گیا اور قیدی بنا لیا گیا۔یہ خبر خلافت کے دارالحکومت پہنچی، جب ولید بن عبدالملک خلیفہ تھے۔ اس نے عراق کے والی حجاج بن یوسف کو خط لکھا، جس میں کہا کہ سندھ کے حکمران سے کہا جائے کہ وہ اس حرکت پر معافی مانگے اور یہ کہ ان مسلمانوں کو چھڑانے کے لیے فوج روانہ کی جائے۔ لہٰذا حجاج نے اس امت کے روشن ترین سپوتوں میں سے ایک کی قیادت میں فوج روانہ کی۔ اس کا نام مسلمانوں، خصوصاً برِصغیر کے مسلمانوں کے دلوں میں ایک خاص جگہ رکھتا ہے ۔ اس نے ایک غیر علاقے میں اسلامی خلافت کے فوجوں کی قیادت کرنے کی ذمہ داری لی۔ وہ محمد بن قاسم الثقفی تھے۔
یہ تھا مسلم قیادت کا معاملات کودیکھنے کا زاویہ اور طریقہ کار اور یہ کہ کس طرح سے ان معاملات پر جواب دیا جاتا ہے ۔ خلیفہ عبدالملک نے مسلمانوں پر ہونے والے ظلم کے خلاف محض احتجاج نہیں کیا۔ بے شک خلیفہ عبدالملک اور پاکستان کے حکمرانوں کے رویوں کے درمیان ایک واضح فرق ہے۔ جب پاکستان میں یا پاکستان کے باہر، امریکہ یا ہندو ریاست جو مسلمانوں کی ازلی دشمن ہے، کے ہاتھوں مسلمانوں کی حرمت پامال کی جاتی ہے تو یہ حکمران اقوام متحدہ کی سیکورٹی کونسل، یورپی یونین اور امریکہ سے رابطے کرتے ہیں، جو درحقیقت ایسے حملوں کی عالمی سطح پر پشت پناہی کرنے والے بدمست کھلاڑی ہیں۔ امریکہ اور ہندو ریاست نے سینکڑوں بار یہ ثابت کیا ہےکہ یہ اسلام اور مسلمانوں کے دشمن ہیں۔ یہ رات کو مسلمانوںسے جھوٹ بولتے ہیں اور دن میں ان پر چڑھائی کرتے ہیں۔ یہ سب ایک ہی نسل کے ہیں اور یورپی یونین، سکیورٹی کونسل، امریکہ اور روس میں کوئی فرق نہیں۔ اللہ سبحانہ تعالیٰ نے فرمایا،
﴿وَالَّذِينَ كَفَرُوا بَعْضُهُمْ أَوْلِيَآءُ بَعْضٍ إِلاَّ تَفْعَلُوهُ تَكُن فِتْنَةٌ فِي الاَرْضِ وَفَسَادٌ كَبِيرٌ﴾
"کافر آپس میں ایک دوسرے کے رفیق ہیں۔ اگر تم مسلمانوں نے بھی ایک دوسرے کا ساتھ اختیار نہ کیا تو زمین میں فتنہ ہو گا اور زبردست فساد ہو جائے گا" (سورۃ الانفال:73)۔
ایک مخلص فوجی اور سیاسی لیڈر جو اسلامی عقیدہ پر کھڑا ہو، مسلمانوں کے حقوق پر کوئی سمجھوتہ نہیں کرتا۔ جب خلافت کی فوج کراچی کے قریب دیبل پہنچی،تو محمد بن قاسم نے اپنے مطالبات وہاں کے حکمران راجہ داہر کو پیش کیے، جس نے انہیں مسترد کر دیا۔ لہٰذا مسلمانوں نے اس سے جنگ کی، یہاں تک کہ دشمن کو شکست ہوئی اور دیبل اسلام کے لیے کھل گیا۔ محمد بن قاسم نے اس پر ہی اکتفا نہ کیا بلکہ علاقوں کو فتح کرتا چلا گیاکیونکہ مسلمانوں کی ذمہ داری یہ ہے کہ وہ اللہ کا نام سربلند کریں، اور اس طرح اسلامی عقیدہ کی بنیاد پر اسلامی فوج نے فتوحات جاری رکھیں یہاں تک کہ وہ ملتان تک پہنچ گئی۔ 3 سالوں میں یعنی 714 عیسوی تک پورا سندھ اور جنوبی پنجاب اسلامی خلافت کی حکومت کے لیے کھل چکا تھا۔ ان علاقوں کا فتح ہونا ظلم نہیں تھا جس کی عالمی برادری یا کسی باشعور انسان نے مذمت کی ہو۔ برِصغیر ہند کے شمال مغربی حصے کا اسلام کے لیے کھل جانے سے اسلامی افواج بت پرستوں کو اندھیروں سے نکال کر اسلام کی روشنی کی طرف لے آئیں۔ محمد بن قاسم نے اسلامی خلافت کی انتظامیہ کو لوگوں کے معاملات سچائی اور اسلام کے عدل سے چلانے کی ہدایت کی۔ انھوں نے بغیر کسی پر بوجھ ڈالے زکوٰۃ اور جزیہ اکٹھا کیا اور لوگوں کو ایک عزت دار زندگی مہیا کی۔
ہمارے زمانے میں برصغیر ہند پر اسلام کے غلبے کی واپسی غیر منصفانہ اور زورزبردستی نہیں ہوگی۔ یہ اس لالچی سرمایہ داریت کی تاریکی مٹانے سے ہو گی، جس نے لوگوں کو غریب اور بے عزت کر دیا ہے۔ اور یہ اسلام کے نور اور عدل کی واپسی سے ہو گا، جہاں لوگ اپنے مال سے فائدہ اٹھا سکیں گے اور اسے قبضہ کرنے والے کرپٹ سرمایہ داروں اور جاگیردار حکمرانوں سے واپس لے سکیں گے۔
وہ حل جس کو آنے والے خلافت کے سائےتلے ہم نافذ کرنے کی کوشش کر رہے ہیں مغل ریاست کے وقت جیسا ہے جو اسلام کے ذریعے حکومت کرتی تھی۔ اگرچہ مغل ریاست بغداد میں موجود عباسی خلافت کے مرکز سے بہت دور تھی۔ بابر، جو 1526 عیسوی میں وسطی ایشیاء سے دہلی آیا، پہلا مغل حکمران تھا۔ اس کے بیٹے ہمایوں نے اس کی وفات کے بعد اقتدار سنبھالا( 1530 – 1556)۔ بھوپال میں موجود ایک سرکاری لائبریری میں موجود ایک مسودے کے مطابق بابر نے مندرجہ ذیل احکام ورثے میں ہمایوں کے لیے چھوڑے، جو اپنی کمزوریوں کے باوجود اسلام کے درست نفاذ کا خواہاں تھا۔ "اے میرے بیٹے! میں تمھیں مندرجہ ذیل کام کرنے کا مشورہ دیتا ہوں: عدل قائم رکھنا اور لوگوں کے مذہبی جذبات کا خیال رکھنا، حتیٰ کہ وہ گائے جنھیں کچھ شہری پوجتے ہیں، انھیں ردِعمل میں اور ٹکراؤ لینے کے لیے ذبح نہ کرنا بلکہ علیحدہ جگہوں پر ذبح کرنا۔ یہ تمھیں لوگوں کے قریب کرے گا، ان کے بھی جو لوگوں کے ذمہ دار ہیں۔ کسی عقیدے کی عبادت گاہ کو تباہ نہ کرنا اور عدل قائم رکھنا یہاں تک کہ ہر جگہ امن ہو جائے۔ اسلام کو محبت اور شفقت کی تلوار سے آسانی سے پھیلایا جا سکتا ہے بجائے ظلم اور جبر کی تلوار کے۔ شیعہ اور سنی کے درمیان جھگڑوں سے پرہیز کرنا۔ اپنے لوگوں کی مختلف خصوصیات کو ایسے دیکھنا جیسے وہ سال کے موسموں کی خصوصیات ہیں"۔
یہ استعمار کی مسلسل سازشوں کا ہی نتیجہ تھا کہ برِصغیر ان کے ماتحت آ گیا، اور یہ اس وجہ سے بھی ہوگیا کہ برصغیر استنبول سے دور تھا جو کہ خلافت کا دارالحکومت تھا ۔ یہ مسلمانوں پر حاوی ہوجانے والی عمومی کمزوریوں کے علاوہ تھا۔ لہٰذا کفار نے ان سب باتوں کو دیکھتے ہوئے یہ جانا کہ وہ برصغیر پر قبضہ کرسکتے ہیں ۔ برطانیہ نے1757 میں برصغیر پر بڑاحملہ کیا جس کے خلاف مسلمانوں نے شدید مدافعت دکھائی۔ یہ جنگ برصغیر پر مسلمانوں کی اسلامی حکمرانی کی جیت کو برطانیہ کے غاصبانہ قبضے سے بدل دینے تک جاری رہی، جس میں کچھ کفر طاقتوں نے اس کی مدد کی ،ان میں ہندو، سکھ اور بدھ مت کے لوگ شامل تھے۔ برطانیہ کئی دھائیوں کی مسلمانوں سے جنگ کے بعد ہی اس علاقے میں کنٹرول اور اپنی برتری کو استحکام دے سکا۔
اس وقت سے استعمار اسلامی علاقوں پر قبضہ کرنے سے نہیں رکا، چاہے براہِ راست فوجی استعماریت کے ذریعےہو ، یا حکومتوں اور فوجی قیادتوں کے ذریعے جو استعمار کے ایجنٹوں کا کام کرتی ہیں، اور ان غداروں کے ذریعے استعمار نے وہ سب حاصل کیا جو وہ براہ راست فوج کشی کر کے حاصل نہیں کر سکتا تھا۔ لہٰذا ان علاقوں میں جاہلیت دوبارہ لوٹ آئی کیونکہ اللہ کے نازل کردہ قوانین کی بنیاد پر حکمرانی ختم ہوگئی اور اس کی جگہ عالمی قوانین، برطانوی قوانین اور پھر امریکی قوانین نے لے لی ۔
جب سلطان حکومت کرتے تھے اور اب جب آج کل حکمران حکومت کررہے ہیں تو اس علاقے کے مسلمانوں کے رویوں میں ایک واضح فرق ہے۔ برطانیہ کے حملہ آورہونے کے زمانے میں جب مغل حکومت ہندوستان کے بیشتر علاقوں پر کمزور تھی، تو کچھ حکمرانوں نے استنبول میں موجود خلافت سے مدد مانگی۔ انھوں نے آج کے حکمرانوں کی طرح کفار سے مدد نہیں مانگی، جیسے موجودہ حکمران ہم پر حملہ ہوتے ہی یورپی یونین اور اقوام متحدہ سے رجوع کرتے ہیں۔ مثال کے طور پر کَنوز(موجودہ بھارتی صوبہ کیرالہ) کے حکمران نے1779 عیسوی میں سلطان عبدالحمید اول کو پیغام بھیجا، "میں خلیفہ سے انگریز ایسٹ انڈیا کمپنی کی جارحیت سے حفاظت کی التجاء کرتا ہوں"۔ ہم نے دیکھا کہ میسور کے حکمران ٹیپو سلطان نے خلیفہ سے اس کی حکومت تسلیم کرنے کا مطالبہ کیا، لیکن خلیفہ اس وقت طاقت کے مراکز پر براہ راست حاوی نہیں تھا ، لہٰذا وہ برصغیر کی طرف افواج نہیں بھیج سکا، لیکن اس نے ایک پیغام میں ٹیپو کو میسور کا گورنر تسلیم کیا۔ لہٰذا ٹیپو نے اپنی اسناد کسی کافر حکمران کو نہیں بھیجی، جیسے صدر ٹرمپ بار بار ہمارا مذاق اڑاتا ہے۔ شاعر کے الفاظ میں:
إني تذكرت والذكرى مؤرقة مجداً تليداً بأيدينا أضعناه
أنّى اتجهت إلى الإسلام في بلد تجده آكالطير مقصوصاً جناحاه
كم صرّفتنا يدٌ كنا نُصرّفها وبات يحكمنا شعب ملكناه
ورحب الناس بالإسلام حين رأوا أن الإخاء وأن العدل مغزاه
يا من رأى عمر تكسوه بردته والزيت أدم له والكوخ مأواه
يهتز كسرى على كرسيه فرقاً من بأسه وملوك الروم تخشاه
استرشد الغرب بالماضي فأرشده ونحن كان لنا ماض نسيناه
إنّا مشينا وراء الغرب نقتبس من ضيائه فأصابتنا شظاياه
"بے شک مجھے یاد ہے اور دہراتا ہوں وہ یادداشت، ہمارے ہاتھوں حاصل ہونے والی شان و شوکت کی یادداشت
مگر آج جب میں اس زمین پر اسلام کی طرف مڑا، تو اسے ایسے پرندے کی مانند پایا جس کے پر کٹے ہوں
کتنی ہی بالشت زمین ہم نے کھو دی، اور کیسے ہم پر جارحانہ لوگوں نے حکمرانی کی
جبکہ پہلے لوگ اسلام کو دیکھ کر استقبال کرتے تھے، جب بھائی چارہ اور عدل کا واقعی کوئی مطلب تھا
وہ جس نے عمر کو دیکھا ،اس کی سردی و جمودختم ہو جاتا تھا، جیسے گرم تیل گرمائش دیتا ہے
عمر سےفارس کا خسرو اپنے تخت پر لرز اٹھا، اور ملوک الروم ان سے ڈرتا تھا
مغرب نے ماضی سے رہنمائی حاصل کی اور پائی، جبکہ ہم نے اپنے ماضی کو بھلا دیا
ہم مغرب کے پیچھے چلتے اس کی روشنی اپناتے ہیں جبکہ وہ اپنے خنجر سے ہم پر وار کرتا ہے"
بے شک وہ خیر، نور اور عدل جو محمد بن قاسم الفاتح کی قیادت میں افواج کے ساتھ آیا، واپس آ سکتا ہے۔ یہ صرف تب ممکن ہے جب پاکستان کی افواج کی فوجی قیادت میں سے کوئی قائد جو غیرت اور بلند اصولوں کا احساس رکھتا ہو، استعمار اور اس کے ایجنٹوں کو اکھاڑ پھینکے اور ان کی جگہ ایسا حکمران لائے جو خلیفہ عبدالملک بن مروان بلکہ عمر الفاروقؓ جیسا ہو، اور نبوت کے نقشِ قدم پر دوسری خلافت راشدہ کو قائم کرے۔
یہ وہ طریقہ ہے جس سے ہم اپنی کھوئی ہوئی شان کو واپس لا سکتے ہیں، جو ہمارے حکمران واپس نہیں لانا چاہتے، ورنہ ہم کبھی اپنا مقام واپس نہیں بنا سکیں گے۔ کیا ماؤں نے ایسے کمانڈر پیدا کرنا چھوڑ دیے ہیں یا یہ کہ وہ بہت زیادہ ہیں لیکن انھیں جھنجوڑنے کی ضرورت ہے! ہمیں یقین ہے کہ پاکستان میں محمد بن قاسم کے بیٹے بہت سے ہیں اور یہ صرف کچھ وقت کی بات ہےکہ وہ جاگ اٹھیں گے۔ اوریہ ان لوگوں کا معاملہ ہے جو اچھائی میں سب سے آگے ہیں، کیونکہ یہی جنت میں سب سے آگے ہوں گے اور دنیا میں عزت حاصل کریں گے۔ اللہ سبحانہ وتعالیٰ نے فرمایا:
﴿سَابِقُوا إِلَى مَغْفِرَةٍ مِنْ رَبِّكُمْ وَجَنَّةٍ عَرْضُهَا كَعَرْضِ السَّمَاءِ وَالْأَرْضِ أُعِدَّتْ لِلَّذِينَ آمَنُوا بِاللَّهِ وَرُسُلِهِ ذَلِكَ فَضْلُ اللَّهِ يُؤْتِيهِ مَنْ يَشَاءُ وَاللَّهُ ذُو الْفَضْلِ الْعَظِيمِ﴾
"(آؤ) دوڑو اپنے رب کی مغفرت کی طرف اور اس جنت کی طرف جس کی وسعت آسمان اور زمین کی وسعت کے برابر ہے۔ یہ ان کے لیے بنائی گئی ہے جو اللہ پر، اس کے رسولوں پر ایمان رکھتے ہیں۔ یہ اللہ کا فضل ہے جسے چاہے دے اور اللہ بڑے فضل والا ہے"(سورۃ الحدید:21)۔
حزب التحریر کے مرکزی میڈیا دفتر کے لیے تحریر کیا گیا
منجانب: بلال مہاجر – پاکستان
Latest from
- عالمی قانون کا انہدام ...اور ان دنیا والوں کی ناامیدی...
- بچوں کو اغوا کرنے اور ان پر تجربات کرنے کی”اسرائیلی“ قبضے کی ایک لمبی داستان موجود ہے
- امریکی قیادت اور نگرانی میں: ایران کی صفوی حکومت اور یہودی وجود...
- شنگھائی تعاون تنظیم امریکن ورلڈ آرڈر کا حصہ ہے
- استعماری طاقتوں کی تنظیمیں ہماری سلامتی اور خوشحالی کی ضامن نہیں ہو سکتیں