السبت، 14 محرّم 1446| 2024/07/20
Saat: (M.M.T)
Menu
القائمة الرئيسية
القائمة الرئيسية

بسم الله الرحمن الرحيم

اسلام کے مطابق، جمہوری انتخابات میں حصہ لینا، یا ووٹ دینا جائز نہیں ہے

 

دی گارڈین اخبار نے 2 جولائی 2024 کو آسٹریلیا کے حوالے سے رپورٹ کیا کہ "مسلم ووٹ کے نام سے ایک نئی گراس روٹ کی سیاسی تحریک کا کہنا ہے کہ وہ اگلے وفاقی انتخابات میں مغربی سڈنی میں لیبر وزراء اور حکومتی وہپ کو گرانے کے لیے کم از کم تین آزاد امیدواروں کی حمایت کرے گی۔ ایک ترجمان نے منگل کو کہا کہ، مسلم ووٹ- غزہ میں جنگ سے نمٹنے کے حوالے سے لیبر پارٹی کے موقف اور حکمت عملی پر کمیونٹی کے غصے کے جواب میں قائم کی گئی ہے- واٹسن، بلیکس لینڈ اور ویریوا میں امیدواروں کی حمایت کا ارادہ رکھتی ہے۔"

 

https://www.theguardian.com/australia-news/article/2024/jul/02/muslim-vote-political-movement-candidates-labor-federal-election

 

درحقیقت جمہوریت میں مسلمانوں کی شرکت حکمرانوں، سیاست دانوں، دانشوروں اور پالیسی سازوں کے لیے باعث تشویش ہے، چاہے وہ مسلمان مسلم دنیا میں ہیں، یا مغرب میں تارکین وطن کی طرح زندگی گزار رہے ہیں۔ اس طرح آسٹریلیا، برطانیہ اور امریکہ میں جمہوریت میں مسلمانوں کی شرکت کے بارے میں ویسے ہی بحث جاری ہے جس طرح ترکی، پاکستان اور مصر میں مسلمانوں کے انتخابات میں حصہ لینے کے بارے میں بحث جاری ہے۔ غزہ کے بارے میں مسلمانوں کے ردعمل کی روشنی میں، حالیہ مہینوں میں مسلمانوں کی انتخابی شرکت کا مسئلہ ایک بڑا مسئلہ بن گیا ہے۔ مسلمان غزہ کے مسئلے کے حوالے سے ناانصافی کی وجہ سے موجودہ حکومتوں اور حکمرانی کے نظام سے ناراض ہیں۔

 

ایک مسلمان زندگی کے دیگر مسائل کی طرح اس مسئلے میں بھی اسلام سے رجوع کرتا ہے کہ کیا وہ جمہوری نظام میں نمائندہ بننے کے لیے کھڑا ہوسکتا ہے یا وہ جمہوری نظام میں نمائندہ منتخب کرنے کے لیے ووٹ ڈال سکتا ہے۔ شرعی حکم جاننے کے لیے سب سے پہلے اُس حقیقت کو سمجھنا ضروری ہے جس کے لیے حکم جاننا ہے۔ اس عمل کو "تحقیق المنات" کہا جاتا ہے۔ یہاں حقیقت، یا منات، جمہوری ریاست میں پارلیمنٹ یا قانون ساز اسمبلی ہے، اس کے ساتھ ساتھ اس اسمبلی کےاراکین کی نوعیت، کام اور اختیارات ہوتے ہیں۔

 

سیکولر ریاست کی حقیقت یہ ہے کہ اس کی بنیاد جمہوریت پر ہوتی ہے۔ یہ عوام کے نمائندوں کے ذریعے ان کی خودمختاری کے تصور پر مبنی ہے۔ عوام فیصلہ کرتے ہیں کہ کیا جائز ہے اور کیا حرام ہے۔ اگر عوام دو مردوں کے درمیان نکاح کی اجازت دے دیں تو قانون کے مطابق اس کی اجازت ہے۔ اگر عوام حجاب پہننے سے منع کرتے ہیں تو قانون کی رو سے حجاب پہننا حرام ہوجائے گا۔ پارلیمنٹ کی حقیقت قانون سازی کی اتھارٹی ہے۔ یہ ملک میں نافذ آئین کی منظوری دیتا ہے۔ یہ ان قوانین کو نافذ کرتا ہے، جن پر عمل پیرا ہونا انتظامیہ (Executive) اور عدالتی حکام پر لازم ہوتا ہے ۔ اس کے علاوہ پارلیمنٹ حکومت کو اعتماد یا عدم اعتماد کا ووٹ دینے کا حق، اور ایگزیکٹو اتھارٹی کی نگرانی کرنے اور اسے کسی بھی کارروائی کے لیے جوابدہ ٹھہرانے کا حق بھی رکھتی ہے۔

 

جمہوریت کی حقیقت یہ ہے کہ وہ اسلام سے متصادم ہے۔ اسلام میں صرف اللہ ہی حاکم ہے۔ اللہ سبحانہ و تعالیٰ لوگوں کے ساتھ خودمختاری میں اشتراک نہیں کرتے، بلکہ وہ اکیلے اس کا حق رکھتے ہیں اور وہی اللہ سبحانہ و تعالیٰ اس بات کا فیصلہ کرتے ہیں کہ کیا حلال ہے یا حرام ہے۔ اگر اللہ سبحانہ و تعالیٰ نے دو آدمیوں کے درمیان نکاح کو حرام کر دیا ہے تو عوام اسے حلال نہیں کر سکتے۔ اگر اللہ سبحانہ و تعالیٰ نے حجاب کو لازم کیا ہے تو عوام اس کی لازمی پابندی کو ختم نہیں کر سکتے۔ اللہ سبحانہ و تعالیٰ نے جو کچھ بھی نازل کیا ہے، اس کو نافذ کرنے کی فرضیت کی دلیل وہ شرعی نصوص ہیں، جو قطعی ہیں۔ مثال کے طور پر اللہ تعالیٰ نے فرمایا:

 

وَمَنۡ لَّمۡ يَحۡكُمۡ بِمَاۤ اَنۡزَلَ اللّٰهُ فَاُولٰٓٮِٕكَ هُمُ الۡكٰفِرُوۡنَ

" اور جو اللہ کے نازل فرمائے ہوئے احکام کے مطابق فیصلہ نہ کریں، تو ایسے ہی لوگ کافر ہیں۔"(المائدہ، 5:44)۔

 

عبد اللہ ابن عباسؓ نے تبصرہ کیا کہ، من جحد ما أنزل الله فقد كفر ومن أقر به ولم يحكم فهو ظالم فاسق "جس نے اللہ کی نازل کردہ چیزوں کو جھٹلایا، اس نے کفر کا ارتکاب کیا اور جس نے اللہ کی نازل کردہ چیزوں کو قبول کیا، لیکن اس پر حکم نہ دیا، تو وہ ظالم، فاسق اور گناہگار ہے۔"(ابن جریر نے روایت کیا)

 

اس کے دلائل کثرت سے ہیں، جن کا متن اور معنی دونوں ہی قطعی ہیں، جن میں شامل ہیں:

 

وَاَنِ احۡكُمۡ بَيۡنَهُمۡ بِمَاۤ اَنۡزَلَ اللّٰهُ وَلَا تَتَّبِعۡ اَهۡوَآءَهُمۡ وَاحۡذَرۡهُمۡ اَنۡ يَّفۡتِنُوۡكَ عَنۡۢ بَعۡضِ مَاۤ اَنۡزَلَ اللّٰهُ اِلَيۡكَ‌ؕ

" اور (ہم پھر تاکید کرتے ہیں کہ) جو (حکم) اللہ نے نازل فرمایا ہے اسی کے مطابق ان میں فیصلہ کرنا اور ان کی خواہشوں کی پیروی نہ کرنا اور ان سے بچتے رہنا کہ کسی حکم سے ، جو اللہ نے تم پر نازل فرمایا ہے یہ کہیں تم کو بہکانہ دیں۔"(المائدہ، 5:49)،

 

اِنِ الۡحُكۡمُ اِلَّا لِلّٰهِ‌ؕ

"(سن رکھو کہ) اللہ کے سوا کسی کی حاکمیت نہیں ہے۔"(یوسف، 12:40)،

 

فَلَا وَرَبِّكَ لَا يُؤۡمِنُوۡنَ حَتّٰى يُحَكِّمُوۡكَ فِيۡمَا شَجَرَ بَيۡنَهُمۡ ثُمَّ لَا يَجِدُوۡا فِىۡۤ اَنۡفُسِهِمۡ حَرَجًا مِّمَّا قَضَيۡتَ وَيُسَلِّمُوۡا تَسۡلِيۡمًا

" تمہارے پروردگار کی قسم یہ لوگ تب تک مومن نہیں ہو سکتے ، جب تک اپنے تنازعات میں تمہیں منصف نہ بنائیں اور جو فیصلہ تم کردو اس سے اپنے دل میں تنگی محسوس نہ کریں۔" (النساء، 4:65)،

 

اَفَحُكۡمَ الۡجَـاهِلِيَّةِ يَـبۡغُوۡنَ‌ؕ وَمَنۡ اَحۡسَنُ مِنَ اللّٰهِ حُكۡمًا لِّـقَوۡمٍ يُّوۡقِنُوۡنَ

" کیا یہ زمانہٴ جاہلیت کے حکم کے خواہش مند ہیں؟ اور جو یقین رکھتے ہیں ان کے لیے خدا سے اچھا حکم کس کا ہے؟"(المائدہ، 5:50)۔

 

جہاں تک سنت مبارکہ ﷺ کا تعلق ہے تو ہم دیکھتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے اُس نظام میں حصہ نہیں لیا جہاں اللہ تعالیٰ کی حاکمیت کو تسلیم نہیں کیا جاتا۔ کفارِ قریش نے رسول اللہ ﷺ کو پیشکش کی تھی کہ وہ اُن پر کفار کے قوانین سے حکومت کر لیں، لیکن اسلام سے نہیں۔ آپ ﷺ نے اس پیشکش کو مسترد کر دیا۔ سیرت ابن اسحاق 'السیر و المغازی' کے مطابق، "عکرمہ نے ابن عباس سے روایت کیا کہ عتبہ اور شیبہ بن ربیعہ اور ابو سفیان بن حرب اور بنی عبد الدار کے بھائی نضر بن حارث اور بنی اسد کے بھائی ابا البختوری اور دوسرے… کعبہ کے پیچھے غروب آفتاب کے بعد وہ ملے، یا ان میں سے کچھ تھے وہ ملے، بعض نے ایک دوسرے سے کہا: محمد کو بلاؤ اور ان سے بات کرو، ان سے گفتگو کرو … انہوں نے اسے(محمد ﷺ کو) بلایا اور کہا: اے محمد ﷺ! اے محمد ﷺ، ہمیں آپ کے ساتھ بات کرنے کے لیے بھیجا گیا ہے… اگر آپ یہ بات (اسلام کا پیغام) کے ذریعے دولت جمع کرنے آئے ہیں، تو ہم آپ کے لیے اپنے دولت میں سے جمع کریں گے، تاکہ آپ ہم میں سے سب سے زیادہ امیر ہو جائیں، اگر یہ سب کچھ آپ عزت و مقام حاصل کرنے کیلئے کر رہے ہیں تو ہم آپ کو یہ دیں گے، اگر آپ قیادت کیلئے یہ کر رہے ہیں ، تو ہم آپ کو اقتدار دیں گے۔۔۔

 

رسول اللہ ﷺ نے فرمایا،

 

ما أدري ما تقولون، ما جئتكم بما جئتكم به لطلب أموالكم، ولا الشرف فيكم، ولا الملك عليكم، ولكن الله بعثني إليكم رسولاً وأنزل علي كتابا، وأمرني أن أكون لكم بشيراً ونذيراً فبلغتكم رسالة ربي، ونصحت لكم فإن تقبلوا مني ما جئتكم به فهو حظكم في الدنيا والآخرة، وإن تردوا علي أصبر لأمر الله حتى يحكم الله بيني وبينكم

"میں آپ کی بات نہیں مانتا۔ میں جو کچھ آپ کے پاس لایا ہوں وہ پیسے یا آپ کے درمیان عزت یا آپ کی قیادت حاصل کرنے کے لئے نہیں ہے۔ اللہ نے مجھے تمہاری طرف رسول بنا کر بھیجا ہے۔ اس نے مجھ پر کتاب نازل کی۔ اس نے مجھے حکم دیا کہ میں تمہیں بشارت دینے والا بنوں اور تمہارا رہنما بنوں۔ پس میں نے تمہیں اپنے رب کا پیغام پہنچایا اور تمہیں نصیحت کی کہ اگر تم اس کو قبول کرو جو میں تمہارے پاس لایا ہوں تو اس میں تمہیں دنیا اور آخرت میں بھلائی ملے گی۔ پھر بھی اگر تم انکار کرتے ہو تو میں اللہ کے فیصلے کا انتظار کروں گا جو میرے اور تمہارے درمیان فیصلہ کرے گا"۔"دلائل النبوة لأبي نعيم الأصبهاني اور "السيرة النبوية لابن كثير اور دوسری سیرت کی کتابوں میں بھی اسی واقع کا ذکر ہے۔

 

قریش نے رسول اللہ ﷺ کو اقتدار میں شریک ہونے کی پیشکش بھی کی، یعنی حکمرانی میں کچھ لوگ ان کی جانب سے اور کچھ آپ ﷺ کی جانب سے شریک ہوں۔ چنانچہ انہوں نے یہ تجویز پیش کی کہ وہ ایک سال تک آپ ﷺ کے رب کی عبادت کریں گے اور ایک سال تک وہ (محمد ﷺ) کے معبودوں کی عبادت کریں گے۔ آپ ﷺ نے انکار کر دیا اور صرف اسلام کی حکمرانی کا ہی تقاضا کیا۔ سورۃ الکافرون کی تفسیر القرطبی میں ہے: قُلْ يَا أَيُّهَا الْكافِرُونَ "کہہ دو: اے کافرو۔"، انہوں نے کہا،

 

ذَكَرَ ابْنُ إِسْحَاقَ وَغَيْرُهُ عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ: أَنَّ سَبَبَ نُزُولِهَا أَنَّ الْوَلِيدَ بْنَ الْمُغِيرَةِ، وَالْعَاصَ ابن وَائِلٍ، وَالْأَسْوَدَ بْنَ عَبْدِ الْمُطَّلِبِ، وَأُمَيَّةَ بْنَ خَلَفٍ، لَقُوا رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَقَالُوا: يَا مُحَمَّدُ، هَلُمَّ فَلْنَعْبُدْ مَا تَعْبُدُ، وَتَعْبُدُ مَا نَعْبُدُ، وَنَشْتَرِكُ نَحْنُ وَأَنْتَ فِي أَمْرِنَا كُلِّهِ، فَإِنْ كَانَ الَّذِي جِئْتَ بِهِ خَيْرًا مِمَّا بِأَيْدِينَا، كُنَّا قَدْ شَارَكْنَاكَ فِيهِ، وَأَخَذْنَا بِحَظِّنَا مِنْهُ. وَإِنْ كَانَ الَّذِي بِأَيْدِينَا خَيْرًا مِمَّا بِيَدِكَ، كُنْتَ قَدْ شَرِكْتَنَا فِي أَمْرِنَا، وَأَخَذْتَ بِحَظِّكَ مِنْهُ، فَأَنْزَلَ اللَّهُ عَزَّ وَجَلَّ قُلْ يَا أَيُّهَا الْكافِرُونَ...

"ابن اسحاق اور ابن عباس سے دوسروں نے کہا: سورت کے نزول کا سبب (سبب نزول) یہ تھا کہ ولید بن المغیرہ، العاص بن وائل، اور اسود بن عبدالمطلب، اور امیہ بن خلف نے رسول اللہ ﷺ سے ملاقات کی اور کہا: اے محمد ﷺ، چلو ہم اس کی عبادت کرتے ہیں جس کی آپ عبادت کرتے ہیں۔ تم عبادت کرو جس کی ہم عبادت کرتے ہیں۔ ہم آپ کے ساتھ اپنے تمام معاملات شیئر کرتے ہیں۔ اگر آپ جو کچھ لے کر آئے ہیں اس سے بہتر ہے جو ہمارے پاس ہے تو ہم اسے آپ کے ساتھ شیئر کریں گے اور ہم اس میں سے اپنا حصہ لیں گے۔ البتہ جو ہمارے ہاتھ میں ہے اگر اس سے بہتر ہے جو آپ کے ہاتھ میں ہے تو آپ ہمارے معاملے میں شریک ہوں گے اور اس میں سے اپنا حصہ لیں گے۔ اللہ تعالیٰ نے نازل فرمایا: قُلْ يَا أَيُّهَا الْكافِرُونَ " کہہ دو: اے کافرو۔۔۔۔" (سورۃ الکافرون:1)"۔

 

غیر اسلامی قانون سازی کے نظام میں رسول اللہ ﷺ کی جانب سے شرکت کو مسترد کرنے کو کلاسک مفسر الطبری نے بھی واضح کیا ہے۔ تفسیر طبری، جامع البیان سورۃ کے مطابق، قُلْ يَا أَيُّهَا الْكافِرُونَ "کہہ دو: اے کافرو۔۔۔"(الکافرون: 1)،

 

حدثني محمد بن موسى الحَرشي، قال: ثنا أبو خلف، قال: ثنا داود، عن عكرِمة، عن ابن عباس: أن قريشا وعدوا رسول الله صلى الله عليه وسلم... فإنا نعرض عليك خصلة واحدة، فهي لك ولنا فيها صلاح. قال: "ما هي؟" قالوا: تعبد آلهتنا سنة: اللات والعزي، ونعبد إلهك سنة، قال: "حتى أنْظُرَ ما يأْتي مِنْ عِنْدِ رَبّي"، فجاء الوحي من اللوح المحفوظ: (قُلْ يَا أَيُّهَا الْكَافِرُونَ) "محمد بن موسیٰ الحراشی نے ذکر کیا، انہوں نے کہا: ابو خلف نے کہا، داؤد نے عکرمہ سے، ابن عباس سے کہا: کہ قریش نے رسول اللہ ﷺ سے وعدہ کیا ۔۔۔ ہم آپ کو ایک چیز پیش کرتے ہیں، وہ آپ کا ہو جائے گا، اور یہ ہمارے لیے اچھا ہے۔ اس (محمد ﷺ)نے کہا، ما هي؟ 'وہ کیا ہے؟' انہوں نے کہا، ایک سال تک ہمارے معبودوں کی عبادت کرو: لات اور عزی، اور ہم ایک سال تمہارے رب کی عبادت کرتے ہیں۔ آپ ﷺ نے فرمایا، حتى أنْظُرَ ما يأْتِي مِنْ عِنْدِ رَبّي 'میں انتظار کروں گا اور دیکھوں گا کہ میرا رب کیا حکم دیتا ہے،' اور لوح محفوط سے وحی نازل ہوئی، قُلْ يَا أَيُّهَا الْكَافِرُونَ 'کہہ دو: اے کافرو'(الکافرون:1)"۔

 

نامور عالم، الشوکانی نے بھی غیر اسلامی قانون سازی کے نظام میں رسول اللہ ﷺ کی جانب سے شرکت کو مسترد کرنے پر زور دیا۔ شوکانی کی "فتح القدیر فتح القدیر کی تفسیر میں قُلْ يَا أَيُّهَا الْكَافِرُونَ "کہہ دو کہ؛اے کافرو"،

 

أَخْرَجَ ابْنُ جَرِيرٍ وَابْنُ أَبِي حَاتِمٍ وَالطَّبَرَانِيُّ عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ: «أَنَّ قُرَيْشًا دَعَتْ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ... فَإِنْ لَمْ تَفْعَلْ فَإِنَّا نَعْرِضُ عَلَيْكَ خَصْلَةً وَاحِدَةً وَلَكَ فِيهَا صَلَاحٌ، قَالَ: مَا هِيَ؟ قَالُوا: تَعْبُدُ آلِهَتَنَا سَنَةً وَنَعْبُدُ إِلَهَكَ سَنَةً، قَالَ: حَتَّى أَنْظُرَ مَا يَأْتِينِي مِنْ رَبِّي، فَجَاءَ الْوَحْيُ مِنْ عند الله قُلْ يَا أَيُّهَا الْكافِرُونَ * لَا أَعْبُدُ مَا تَعْبُدُونَ إِلَى آخِرِ السُّورَةِ، وَأَنْزَلَ اللَّهُ: قُلْ أَفَغَيْرَ اللَّهِ تَأْمُرُونِّي أَعْبُدُ أَيُّهَا الْجاهِلُونَ إِلَى قَوْلِهِ: بَلِ اللَّهَ فَاعْبُدْ وَكُنْ مِنَ الشَّاكِرِينَ...) "ابن جریر، ابن ابی حاتم اور طبرانی نے ابن عباس سے روایت کی ہے کہ: "قریش نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو بلایا… اگر آپ ایسا نہیں کرتے تو ہم آپ کو ایک اچھی بات پیش کرتے ہیں۔ آپ ﷺ نے پوچھا، مَا هِيَ؟ 'وہ کیا ہے؟' انہوں نے کہا: ایک سال ہمارے معبودوں کی عبادت کریں اور ہم ایک سال آپ کے معبود کی عبادت کریں۔ آپ ﷺنے کہا، حَتَّى أَنْظُرَ مَا يَأْتِينِي مِنْ رَبِّي 'مجھے دیکھنے دو کہ میرے رب کی طرف سے میرے پاس کیا آتا ہے۔' اللہ کی طرف سے وحی نازل ہوئی: قُلْ يَا أَيُّهَا الْكافِرُونَ * لَا أَعْبُدُ مَا تَعْبُدُونَ "کہہ دو کہ: اے کافرو۔ میں اس کی عبادت نہیں کرتا جس کی تم عبادت کرتے ہو۔" (سورۃالکافرون: 1-2) اللہ سبحانہ و تعالیٰ نے وحی فرمائی: قُلْ أَفَغَيْرَ اللَّهِ تَأْمُرُونِّي أَعْبُدُ أَيُّهَا الْجاهِلُونَ"کہو کہ اے جاہلوں، کیا تم مجھے اللہ کے سوا کسی اور کی عبادت کا حکم دیتے ہو؟ (سورۃ الزمر:64)" یہاں تک کہ آیت: بَلِ اللَّهَ فَاعْبُدْ وَكُنْ مِنَ الشَّاكِرِينَ "بلکہ صرف اللہ کی عبادت کرو اور شکر گزاروں میں شامل ہو جاؤ۔"(سورۃ الزمر:66)"۔

 

قرآن مجید اور سنت نبوی ﷺ سے واضح دلائل یقینی طور پر اللہ سبحانہ و تعالیٰ کی طرف سے نازل کردہ تمام چیزوں کے علاوہ کسی اور کی حاکمیت کو ممنوع کرتے ہیں۔ یہ دلائل ایسے ہر حکومت میں ہر طرح کی شرکت سے منع کرتے ہیں۔ کوئی بھی ایسی واضح دلیل کے خلاف کھڑا نہیں ہوسکتا، سوائے ان لوگوں کے جنہوں نے اللہ اور اس کے رسول ﷺ کی کھلی نافرمانی کی۔ وہ جو بھی دلیل لاتے ہیں وہ قابلِ تردید ہے۔ یہ نافرمانی انہیں اس دنیا میں رسوا کر دے گی، جبکہ اللہ کا عذاب سب سے سخت ہے۔

 

منتخب نمائندہ، قانون سازی کے عمل کا حصہ ہے اور اس طرح ایک ممنوعہ فعل انجام دیتا ہے۔ نمائندہ قانون سازی کے بارے میں اپنی رائے کے اظہار میں لوگوں کی نمائندگی کرتا ہے۔ اس سلسلے میں وہ ان کا نمائندہ (وکیل) ہے۔ اگر کوئی مسلمان اس غیر اسلامی نظام کی منظوری دے کر پارلیمنٹ میں داخل ہوتا ہے، جو عوام کو خودمختار قرار دیتا ہے، نہ کہ شرعی قانون کو، تو بلاشبہ وہ گناہ گار ہے۔ قانون سازی میں اللہ عزوجل کے ساتھ شریک ہونے کا حق کسی کو نہیں ہے۔ اگر نمائندہ صوم و صلوٰۃ کا پابند ہو تب بھی اس کی اجازت نہیں ہوتی۔ مثال کے طور پر کسی متقی شخص کے ذریعے شراب لے جانے سے اس کی نقل و حمل کی ممانعت میں کوئی کمی نہیں آتی، کیونکہ جو شخص اسے لے جاتا ہے وہ اسلام کے احکام کا پابند ہے۔ مزید یہ کہ جو شخص یہ جانتے ہوئے کہ یہ حرام ہے، یہ عمل انجام دیتا ہے، اس کا گناہ اللہ عزوجل کے نزدیک اور بڑا ہے۔ اللہ سبحانہ وتعالیٰ کا ارشاد ہے،

 

﴿كَبُرَ مَقْتاً عِندَ اللَّهِ أَن تَقُولُوا مَا لَا تَفْعَلُونَ﴾

"اللہ کے نزدیک بہت بڑی بات ہے کہ تم وہ بات کہو جو تم کرتے نہیں ہو۔"(الصف:3)۔

 

نمائندے کا انتخاب کرنے کے لیے ووٹ دینا بھی حرام فعل ہے۔ ووٹر ممنوعہ کاموں کو انجام دینے کے لیے اپنی طرف سے فرد کو منتخب کرے گا۔ اگر ہم ان اعمال کو دیکھیں تو ہم یہ سب حرام (ممنوع) پاتے ہیں کیونکہ یہ جھوٹ پر مبنی ہیں، جو کہ اللہ سبحانہ و تعالیٰ کے بجائے لوگوں کو قانون سازی کا اختیار دینا ہے۔ اگر ووٹ دینے والا مسلمان جانتا ہے کہ اس کا نمائندہ قانون سازی یا انسان کے بنائے ہوئے قانون کا انتخاب کرے گا یا اس کے حق میں ووٹ دے گا تو وہ گناہ گار ہے۔ یہ اس حقیقت کے علاوہ ہے کہ شرعی طور پر کسی ایسے کام کے لیے جو شرعاً حرام ہے، اپنا نمائندہ بنانا جائز نہیں ہے۔ صرف اس وجہ سے کہ ایک نیک آدمی اپنی طرف سے شراب لے جانے کے لیے کسی کو نامزد کرتا ہے یا اس کے سپرد کرتا ہے، اس لیے اس کی نقل و حمل جائز نہیں ہوتی، چہ جائکہ اس گناہ کے لئے کسی کو منتخب کرنا۔ پارلیمنٹ کے ارکان کے اعمال سختی سے منع ہیں۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ ان انتخابات میں نمائندوں کو ووٹ دینا بھی حرام ہے۔ یہ افراد اور جماعتوں کو حرام کرنے کے لیے ایک تفویض شدہ مینڈیٹ فراہم کرتا ہے۔

 

اے مسلمانو بالعموم اور علمائے کرام اور خطیب بالخصوص:

قرآن اور سنت نبوی سے واضح شواہد کی بنیاد پر، مسلمانوں کو جمہوریت میں حصہ لینے کی اجازت نہیں ہے، چاہے وہ خود نمائندے کے طور پر کھڑے ہوں، یا نمائندوں کو ووٹ دیں۔ اس سے اختلاف کرنا حق کے خلاف تکبر کرنا ہے۔ تکبر کرنے والے قیامت کے دن رسول اللہ ﷺ سے سب سے زیادہ دور بیٹھیں گے، جیسا کہ ترمذی نے حسن حدیث میں بیان کیا ہے کہ رسول اللہ ﷺنے فرمایا:

 

وإِنَّ أَبْغَضَكُم إِليَّ وَأَبْعَدَكُمِ مِنِيْمِ الْمِنَّةِ : الثَّرْثَارُونَ، والمُتَشَدِّقُونَ، وَالمُتَفَيْهِقُونَ»، قالوا: يَا رسول اللَّه، قَدْ عَلِمْنَا الثَّرْثَارُونَ، وَالمُتَشَدِّقَمَفَکُونَ؟ قال: «المُتَكَبِّرونَ» "اور درحقیقت تم میں سب سے زیادہ میرے نزدیک ناپسندیدہ اور قیامت کے دن مجھ سے سب سے زیادہ دور بیٹھنے والے الثَّرْثَارُونَ، والمُتَشَدِّقُونَ، وَالمُتَفَيْهِقُونَ ہیں۔ "انہوں نے کہا: "اے اللہ کے رسول! ہم الثَّرْثَارُونَ، والمُتَشَدِّقُونَ کے بارے میں جانتے ہیں، لیکن وَالمُتَفَيْهِقُونَ کیا ہے؟" آپ ﷺ نے فرمایا: "متکبر۔"

 

ہمیں جمہوری انتخابات کو مسترد کرنے کا اعلان کرنا چاہیے جو ہمارے رب کے قانون سے متصادم ہیں، پوری انسانیت پر اس (سبحانہ و تعالیٰ) کی حاکمیت کو مسترد کرتے ہیں۔ ہمیں امیدواروں سے یہ کہنا چاہیے کہ وہ اس جمہوری نظام اور اس کے قوانین کو مسترد کرنے کا اعلان کریں جو اسلام سے متصادم ہیں۔ ووٹر ٹرن آؤٹ میں کسی بھی کمی کے اہم مثبت سیاسی مضمرات ہوتے ہیں، جن میں سب سے اہم ان لوگوں کی کمزور نمائندگی کو ظاہر کرنا ہے جنہوں نے اقتدار سنبھالا ہے۔ ووٹر ٹرن آؤٹ میں کمی کرپٹ جمہوریت اور اس کی کرپٹ حکمران اشرافیہ کو کمزور کرتی ہے۔ یہ عمل دنیا کو اس بات کی تصدیق کرے گا کہ مسلمان انسانوں کے بنائے ہوئے قانون کی بدعنوانی اور گناہ کے خلاف کھڑے ہیں۔

 

مسلمانوں کی طاقت پارلیمنٹ میں کسی نمائندے کی آمد سے یا حرام قوانین کے نفاذ سے پیدا نہیں ہوتی۔ مسلمانوں کی طاقت کی جانب واپسی کا راستہ، اسلام پر عمل پیرا ہو کر، اور اسلامی ریاست، دوسری خلافت راشدہ کا قیام ہے جو شریعت کے طریقہ کار کے مطابق نبوت کے طریقے پر ہو۔ تو آئیے جمہوریت میں حصہ لے کر گناہ اور وقت ضائع نہ کریں۔ آئیے اللہ سبحانہ و تعالیٰ کی طرف سے نازل کردہ تمام چیزوں کے ذریعے حکمرانی کو دوبارہ قائم کرنے کے لیے نیک کام میں حصہ لیں۔

 

مصعب عمیر، ولایہ پاکستان

Last modified onمنگل, 09 جولائی 2024 20:24

Leave a comment

Make sure you enter the (*) required information where indicated. HTML code is not allowed.

اوپر کی طرف جائیں

دیگر ویب سائٹس

مغرب

سائٹ سیکشنز

مسلم ممالک

مسلم ممالک