بسم الله الرحمن الرحيم
تورات سے یہودی توسیع پسندانہ عزائم اور خواب
)ترجمہ)
باهر صالح
اردن کی وزارت خارجہ اور فلسطینی اتھارٹی کے ایوان صدارت نے یہودی وجود سے وابستہ سرکاری اکاؤنٹس کے ذریعے خطے کے نقشوں کی اشاعت کی مذمت کی جس میں مقبوضہ فلسطینی علاقوں، اردن، لبنان اور شام کے حصے یہودی وجود میں شامل دیکھائے گئے ہیں، اور یہ دعویٰ کیا گیاکہ یہ علاقے "تاریخی طور پر اسرائیلی" ہیں، اور دونوں فریقوں(اردن ارو فلسطینی اتھارٹی) نے مغربی کنارے کا الحاق کرنے اور غزہ میں بستیاں قائم کرنے کے مطالبات کی مذمت کی۔
سعودی وزارت خارجہ نے اس بیان کی پیروی کرتے ہوئے اسے "اسرائیلی خلاف ورزی" قرار دیتے ہوئے مسترد کر دیا اور "عالمی برادری سے مطالبہ کیا کہ وہ خطے کے ممالک اور عوام کے خلاف "اسرائیلی" خلاف ورزیوں کو روکنے میں اپنا کردار ادا کرے، اور ریاستوں اور ان کی سرحدوں کی خودمختاری کا احترام کرنے ، خطے کے بحرانوں کی شدت کو محدود کرنے پر زور دے اور ایک منصفانہ اور جامع امن کے حصول کے لیے کی جانے والی کوششوں کو نقصان پہنچانے والوں کو روکے۔" متحدہ عرب امارات کی وزارت خارجہ نے بھی اس بات پر زور دیا کہ "متحدہ عرب امارات تمام اشتعال انگیز طریقوں کو دوٹوک طور پر مسترد کرتی ہے جن کا مقصد مقبوضہ فلسطینی علاقوں کی قانونی حیثیت کو تبدیل کرنا ہے" اور "دو ریاستی حل کے لیے خطرہ بننے والے غیر قانونی طریقوں کو ختم کرنے اور ایک آزاد فلسطینی ریاست کے قیام کے لیے خطرہ بننے والے غیر قانونی اعمال کے خاتمے کی ضرورت پر زور دیا۔" عرب لیگ نے بھی نقشوں کی اشاعت کی مذمت کی اورانتہا پسندی اور انسداد انتہا پسندی کے خلاف خبردار کیا۔
یہودی وجود کے اس قدم، اور اس کے خلاف جوابات، تین زاویوں سے دیکھے جانے کے مستحق ہیں۔
پہلا زاویہ: اس کے اثرات اور اس کے اندر یہودی وجود کی سنجیدگی ہے۔ یہ بات اب کسی کے لیے ڈھکی چھپی نہیں رہی کہ موجودہ یہودی لیڈروں نے تورات سے اپنے خوابوں کو زندہ کیا ہے اور خطے میں ان کے توسیع پسندانہ منصوبوں کی تجدید کی گئی ہے۔ یہ دو امور کی وجہ سے ہے؛ غزہ کی جنگ اور اس کی وجہ سے پیدا ہونے والے حالات اور اس سے پیدا ہونے والی نئی سیاسی صورتحال، اور ٹرمپ کا دوبارہ انتخاب، اور وہ وعدے جو اس نے اپنی انتخابی مہم کے دوران یہودیوں سے کیے، اور پھر امریکی صدارتی انتخابات میں اپنی فتح کے فوراًبعد تنازعہ کے حل کے لیے اپنے وژن کے بارے میں اس کی گفتگو۔
7 اکتوبر 2023 کو الاقصیٰ فلڈ آپریشن کا واقعہ، اور پھر جنگ کا ماحول، اور غزہ کے لوگوں کی طرف سے یہودیوں کی مجرمانہ جنگی مشین کے سامنے ثابت قدمی نے، جسے بین الاقوامی اتحاد کی مکمل حمایت حاصل رہی، یہودی لیڈروں کو چونکا دیا اور ان کی موجودہ سرحدوں کے اندر خطے میں سلامتی اور تحفظ کے ساتھ رہنے کی اُن کی صلاحیت پر انہیں شک و شبہ میں مبتلا کر دیا۔ انہوں نے یہ دیکھنا شروع کیا کہ ابلتے ہوئے جذبات سے بھر پور مسلم ممالک کے درمیان ان کے وجود کی بقا کا انحصار اس بات پر ہے کہ وہ اپنی موجود کی سرحدوں کو تبدیل کر سکیں، اور انہیں اس طرف بڑھا سکیں کہ جس کےبعد ان کے وجود کو ایک جغرافیائی جہت مل جائے ، اورجو ان کی دفاعی صلاحیتوں کو کئی گنا آگے بڑھادے۔ لہٰذا، دائیں اور انتہایہ دائیں بازو کےیہودیوں کے رہنما، ان منصوبوں کو پایہ تکمیل تک پہنچانے کے لیے سنجیدہ ہو گئے ہیں جو تورات میں ان کی مبینہ بادشاہت کے خوابوں کے مطابق ہیں۔ ان کے لیے، مسئلہ صرف اپنےخوابوں کی دھمکیاں دینا نہیں ہے، جبکہ وہ ڈراؤنے خوابوں میں گھیرے ہوئے ہیں، بلکہ ایک خواہش اور مقصد بن گیا ہے جسے وہ حاصل کرنا چاہتے ہیں۔
ان عزائم اور منصوبوں کو حاصل کرنے کی صلاحیت کے احساس کو جس چیز نے تقویت بخشی وہ ڈونلڈ ٹرمپ کا اگلے چار سال کے لیے امریکی صدر کے طور پر دوبارہ انتخاب تھا۔ یہودیوں کا ٹرمپ کے ساتھ سابقہ تجربہ ہے، اور اُس نے انہیں یاد دلایا کہ اُس نے اپنے پہلے دور اقتدار کے دوران انہیں کیا پیشکش کی تھی، تاکہ انہیں اپنی سنجیدگی اور قابلیت کا ثبوت دے سکے، تا کہ وہ خطے میں جرات مندانہ قدم اٹھا سکے۔ اس نے قبل ازیں مقبوضہ گولان کی پہاڑیوں پر یہودیوں کی حاکمیت کو تسلیم کیا، امریکی سفارت خانے کو القدس (یروشلم) میں منتقل کیا اور یروشلم کو ان کے وجود کا ابدی دارالحکومت تسلیم کیا، فلسطینیوں سے صدی کی ڈیل کو قبول کرنے مطالبہ کیا، اور مسلم ممالک سے یہودی وجود کے ساتھ تعلقات کو معمول پر لانے کا مطالبہ کیا۔ پھر اس نے اپنی انتخابی مہم کے دوران یہودیوں کو اپنے وجود کو بڑھانے کی اجازت دینے کے امکان کی طرف اشارہ کرتے ہوئے مزید آگے بڑھا، جیسا کہ اس نے 15 اگست 2024 کو صدارتی انتخابات میں اس کی حمایت کے لیے اتحاد بنانے والے یہودی گروپوں کے ساتھ اپنی ملاقات کے دوران کہا تھا، " جب آپ نقشے کو دیکھتے ہیں ، مشرق وسطیٰ کا نقشہ ،'اسرائیل؛ ان دیوہیکل زمینی علاقوں(مسلم ممالک) کے مقابلے میں ایک چھوٹا سا نقطہ ہے۔ میں نے اصل میں کہا: 'کیا مزید حاصل کرنے کا کوئی طریقہ ہے؟'"
پھر جب وہ منتخب ہوا، تو وہ واپس آیا اور اپنی حمایت کو مزیدتقویت دی، اور تنازعہ کے دو ریاستی حل کے لیے اپنی عدم د دلچسپی کا اظہار کیا۔ اس کے بجائے، اس نے اظہار کیا کہ اس کے پاس ایک ڈیل ہے جو اس بات سے قطع نظر کہ حل کی کیا شکل ہے، امن کی طرف لے جاتا ہے۔
آخر میں، یہودی رہنما خطے میں اپنے وجود کےپھیلاؤ اور تورات سے اپنے خوابوں کی تعبیر میں سنجیدہ ہیں۔ وہ ان سازگار حالات کا انتظار کر رہے ہیں جو ٹرمپ کی اقتدار میں واپسی سے پیدا ہو سکتے ہیں، اور وہ اپنی طرف سے، ان سازگار حالات کی تخلیق میں تیزی لانے کی کوشش کر رہے ہیں۔
جہاں تک واقعہ کے دوسرے زاویے کا تعلق ہے: تو اس واقعے پر ہمارے حکمرانوں کا ردعمل اور ان کا شرمناک موقف ہے۔ یہ واضح ہو گیا کہ اردن، سعودی عرب، امارات، فلسطینی اتھارٹی اور عرب لیگ کے حکمرانوں کے ردعمل کمزور اور شرمناک ردعمل تھے، جو ان کے تخت اور کرسیوں کے لیے ان کے پریشانی کی عکاسی کرتے ہیں، نہ کہ فلسطین اور مسلمانوں کے حقوق کے لیےاُن کی پریشانی کی عکاسی کرتے ہیں۔
ان کی مذمت اس خوف پر مبنی تھی کہ کہیں خطے کا نقشہ نہ بدل جائے اور ان کی ریاستوں کی خودمختاری ختم نہ ہوجائے۔ انہیں یہ اندیشہ ہے کہ یہودیوں کے ہاتھ ان کی سلطنتوں اور تختوں تک پہنچ جائیں گے اور انہیں گرا دیں گے۔ جس چیز نے انہیں پریشان کیا وہ ان کے اپنے وجود کےلیے خوف تھا، اور ان کے بوسیدہ تختوں کے گرنے کا خوف تھا ، نہ کہ فلسطین یا دیگر مسلم ممالک کے لیے کوئی پریشانی۔
انہوں نے ان منصوبوں کے جواب میں دو ریاستی حل اور ایک کمزور فلسطینی ریاست کے قیام کا مطالبہ کرتے ہوئے اپنی بدقسمتی کو مزید بڑھا دیا۔ یعنی انہوں نے غدار معاہدوں کو مسترد کرنے اور ان سے دستبردار ہونے کے بجائے غفلت اور خیانت کی ریاست کو مضبوط کرنے پر زور دیا۔ ہمیشہ کی طرح، انہوں نے بین الاقوامی نظام سے مطالبہ کیا کہ وہ یہودیوں کے غرور اور ان کے توسیع پسندانہ خوابوں کو ختم کرے ، جبکہ انہیں امت کی فوجوں اور افواج کو متحرک کرنا چاہیے جو یہودیوں کے غرور کو ختم کرنے ، اور فلسطین کی مبارک سرزمین سےا ن کے وجود کو جڑ سے اکھاڑ پھینکنے کی صلاحیت رکھتی ہیں۔
واقعہ کا تیسرا زاویہ: ان ایجنٹ حکمرانوں نے کیا اظہار کیا، جسے انہوں نے خطے میں انتہا پسندی اور انسداد انتہا پسندی کے جذبات کا نام دیا۔ مسلمانوں کے حکمرانوں کو احساس ہے کہ امت اسلامیہ ایک زندہ امت ہے اور یہ روز بروز اُبل رہی ہے اور حکمرانوں کے قابو سے باہر ہو چکی ہے۔ وہ جانتے ہیں کہ امریکہ اور یہودیوں کو بھی اسی بات کا خوف ہے کہ ایسا ہو گا کیونکہ اس سے استعمار کا خاتمہ ہو جائے گا، اور اس لیے مسلم دنیا کے حکمران انہیں خوفزدہ کرتے ہیں اور انہیں ایسے کسی بھی اقدام سے خبردار کرتے ہیں جو خطے کو بھڑکانے کا باعث بنیں۔ اس سے خطے میں ماحول کی گرمی کی شدت اور کسی بھی لمحے قابو سے باہر ہونے کے امکانات کا پتہ چلتا ہے اور امت کا غصہ اور ابال، راکھ کے نیچے جلتی ہوئی آگ کی مانند ہے جس کو چلنے کے لیے صرف ہوا کی ضرورت ہے تا کہ اسے بے نقاب کر کے سامنے لایا جائے۔
آج امت اسلامیہ کو پہلے سے زیادہ اس بات کی ضرورت ہے کہ جس چیز سے مسلم دنیا کےحکمران، مغرب اور یہودی خوفزدہ ہیں، وہ اس کو لانے میں تیزی لائے اور اُن کےخوف کو حقیقت میں بدل دے۔ یہودیوں، امریکہ اور ان کے استعماری منصوبوں کا مقابلہ کرنے کا کوئی راستہ نہیں ہے سوائے اس کے کہ ایجنٹ حکمرانوں کو تختوں سے ہٹا کر ایک صالح خلیفہ مقرر کیا جائے جو امت کو یکجا کر کے وحدت بخشے اور فلسطین اور تمام مقبوضہ مسلم علاقوں کو آزاد کرائے۔ ورنہ یہودی، جبکہ امریکہ ان کی بشت پر کھڑا ہو ، توسیع، بدعنوانی، ظلم اور تکبر کو جاری رکھیں گے۔
Latest from
- نبوت کے طریقے پر خلافت راشدہ : دنیا اور انسانیت کو بچانا
- آخر کار غزہ میں یہودیوں کی ہولناک قتل و غارت اور بھیانک تباہی کے بعد...
- خلافت کانفرنس کو منسوخ کرنے کے لئے امریکہ اور کینیڈا کا گٹھ جوڑ!
- پاکستان اور تحریک طالبان پاکستان (ٹی ٹی پی) کے درمیان جھڑپوں کے جغرافیائی سیاسی اثرات
- شام میں سیکولرازم کی دعوت