
بسم الله الرحمن الرحيم
نظامِ اسلام سے مقاصد کے حصول
(حلقه 2 )
26 ذو الحجہ 1445ہجری
منگل، 2 جولائی 2024 عیسوی
کتاب "نظامِ اسلام" سے
تمام تعریفیں اللہ کے لیے ہیں جو عظیم فضل اور برکتوں کا مالک ہے، جو عزت اور شرف عطا فرماتا ہے، وہی وہ بنیاد ہےجسے کوئی نقصان نہیں پہنچا سکتا، وہ عظمت ہےجسے کوئی حاصل نہیں کر سکتا۔ اور درود و سلام ہو ہمارے نبی محمد ﷺ پر، جو تمام انسانوں میں بہترین فرد ہیں، عظیم رسولوں کی مُہر ہیں، اور ان کے خاندان (رضی اللہ عنہم) اور صحابہ کرام (رضی اللہ عنہم) پر، اور اُن کے ان عظیم پیروکاروں پرجو اسلام کے نظام پر عمل پیرا ہوئے اور اس کے احکام پر پوری پابندی سے عمل کرتے رہے۔ اے اللہ! ہمیں بھی ان میں شامل فرما، ہمیں ان کی صحبت میں جمع فرما، اور ہمیں طاقت عطا فرما یہاں تک کہ ہم اس دن آپ سے ملاقات کریں جب قدم پھسل جائیں گے، اور وہ دن بڑا ہولناک ہو گا۔
اے مسلمانو:
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
ہم آپ کے ساتھ کئی نشستوں میں رہیں گے، جتنا اللہ ہمیں توفیق دے گا، اس کتاب "نظامِ اسلام سے اصل اہداف کا حصول " کے موضوع میں ہم کتاب "نظامِ اسلام" پر غور کریں گے جس کے مصنف ہیں، حزب التحریر کے محترم بانی، معروف عالم دین اور متاثر کن سیاسی مفکر، شیخ تقی الدین النبہانیؒ ، جن کا علم افق پر چھاگیاہے اور جن کا اثر دنیا کے ہر کونے تک پہنچاہے ۔ اللہ ان پر رحم کرے اور ہمیں ان کے ساتھ اپنی رحمت کی جگہ میں جمع کرے، انبیاء، صدیقین، شہداء اور صالحین کے ساتھ۔ یہ کتنے اچھے ساتھی ہیں!
آغاز کرتے ہوئے، ہم ان لوگوں سے مخاطب ہیں جو ہماری کتاب "بلوغ المرام من کتاب نظام الاسلام" کے عنوان کے مفہوم کے بارے میں پوچھ رہے ہیں۔ لفظ 'بلوغ' فعل بَلَغَ، يَبلُغُ، بُلُوغًا، وَبَلاغًا سے ماخوذ ہے۔ اس کا مطلب ہے بلوغت کو پہنچنا۔ مثال کے طور پر، ہم کہتے ہیں بَلَغَ الغُلامُ "لڑکا بلوغت کو پہنچ گیا ہے" یعنی وہ تمیز کی عمر کو پہنچ گیا ہے۔ ہم یہ بھی کہتے ہیں بَلَغَ الغُلَامُ أَوْلَ شُدَّهُ "لڑکا اپنی جوانی کو پہنچ گیا ہے" یعنی وہ مردانگی اور کمال کی عمر کو پہنچ گیا ہے"۔ ہم یہ بھی کہہ سکتے ہیں بَلَغَ عَدَدُ الحَاضِرِينَ المِائَة "حاضرین کی تعداد ایک سو تک پہنچ گئی ہے،" یعنی وہ اس تعداد تک پہنچ گئی ہے۔ مزید یہ کہ ہم کہتے ہیں يَحتَاجُ بُلُوغُ المَرَامِ إلَى جُهدٍ وَصَبرٍ "مقصد تک پہنچنے کے لیے کوشش اور صبر کی ضرورت ہے" ،یعنی ہدف کے حصول اور حقیقت کو پانے کے لیے کوشش اور صبر کی ضرورت ہوتی ہے۔ یہ استعمال اللہ تعالیٰ کے الفاظ میں منعکس ہوتا ہے: "فَلَمَّا بَلَغَ مَعَهُ السَّعْيَ" "جب وہ اس کے ساتھ دوڑ دھوپ کرنے کی عمر کو پہنچا" (ترجمہ: سورۃ الصافات 37:102)۔ اور "حَتَّىٰ إِذَا بَلَغَ أَشُدَّهُ وَبَلَغَ أَرْبَعِينَ سَنَةً" "یہاں تک کہ جب وہ اپنی پوری طاقت کی عمر کو پہنچا اور چالیس سال کا ہو گیا" (ترجمہ: سورۃ الاحقاف 46:15)۔ اور اس کا فرمان: "حَتَّىٰ إِذَا بَلَغَ مَطْلِعَ الشَّمْسِ" "یہاں تک کہ وہ سورج کے طلوع ہونے کی جگہ تک پہنچ گیا" (ترجمہ: سورۃ الکہف 18:90)۔ اور کئی دوسرے مقامات پر بھی اسی طرح کے الفاظ استعمال ہوئے ہیں۔ لہٰذا، لفظ "بلوغ" کا مطلب ہے "پہنچنا"۔ لفظ "المرام" کا مطلب ہے "مقصد"، اور یہاں اس سے مراد عظیم اور بلند مقصد ہے۔ ہم اللہ تعالی سے امید رکھتے ہیں ٰ، جو بلند و بالا اور عظیم ہے، کہ وہ ہمیں اس کتاب کے ذریعے یہ تصورات آپ تک پہنچانے کی توفیق عطا فرمائے۔آمین
ہمارا طریقہ کار، ان شاء اللہ، یہ ہوگا کہ ہم شیخ تقی الدین النبہانی کی کتاب 'نظام الاسلام' سے ایک اقتباس پیش کریں گے، پھر اس پر اپنے خیالات اور تجزیے دیں گے۔ اس کے بعد ہم اس میں موجود اہم نکات کو مزید واضح اور نمایاں کریں گے۔ ہم وضاحتی تصاویر، خاکے اور جدول بھی پیش کریں گے تاکہ موضوعات کو بہتر طریقے سے سمجھنے میں مدد ملے اور وہ ذہنوں میں مضبوطی سے بیٹھ جائیں۔بإذن اللہ
کتاب 'نظام الاسلام' حزب کی دوسری کتابوں کی طرح امت کو اسلامی ثقافت سے روشناس کرانے کے لیے لکھی گئی ہے۔ لیکن شیخ تقی الدین النبہانی، اللہ ان پر رحم کرے، نے اسے ایک خاص انداز میں ترتیب دیا تاکہ یہ عام کتابوں جیسی نہ لگے۔ ان کا مقصد تھا کہ اسے فکری طور پر سمجھا جائے۔ اس لیے انہوں نے احادیث کی اسناد، فقہاء کے اقوال، یا حاشیے اور وضاحتی نوٹس شامل نہیں کیے۔ اس کے بجائے، انہوں نے اسے خیالات کا ایسا ذخیرہ بنایا جسے پڑھنے والے کے خیالات منتشر نہ ہوں اور وہ مقصد پر مرکوز رہیں۔ اس طرح پڑھنے والا پوری توجہ کے ساتھ ہر فکرپر غور کرتا ہے، جب تک کہ وہ اس کا ایک پختہ تصور (concept) نہ بن جائے جو اس کے عمل پر مثبت اثر ڈالے اور اسے اسلامی تعلیمات پر مضبوطی سے عمل کرنے کی طرف مائل کرے۔
حزب التحریر کے دوسرے امیر، شیخ عبد القیوم زلوم، اللہ ان پر رحم فرمائے، نے علما کی ممکنہ تنقید سے بچنے کے لیے ان کتابوں کو بہتر بنایا اور دوبارہ شائع کیا، جس کے نتیجے میں ایک نئی اشاعت وجود میں آئی جس میں احادیث کی اسناد بھی شامل کی گئی ہیں۔
اے مومنو!
اس تحقیق کو لکھنے کےدو بنیادی محرکات ہیں: پہلی یہ کہ میں اللہ تعالیٰ کے سامنے اپنی ذمہ داری کو محسوس کرتا ہوں۔ دوسری یہ کہ مجھے موجودہ نسل کے بارے میں سونپی گئی امانت کے وزن کا اندازہ ہے، جس کے ساتھ میں نے دہائیوں گزارے ہیں، اور ان مستقبل کی نسلوں کا بھی خیال ہے جو میرے بعد خلافت راشدہ کے زیر سایہ زندگی گزاریں گی۔ میں نے اپنی زندگی کا نصف حصہ اس خلافت کے قیام کے لیے کام کرنے میں گزارا ہے۔ میں یہ فرض سمجھتا ہوں کہ ان کے لیے اس طرح لکھوں کہ اسلام کےمفاہیم اور تصورات کی سمجھ ان کے ذہنوں اور دلوں میں باآسانی اور سہولت کے ساتھ منتقل ہوسکے۔ اوریہ یقینی ہوسکےکہ وہ صالح اور پرہیزگار نسلیں بنیں، اللہ کی اطاعت کریں، اپنے محبوب نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی پیروی کریں، اور رسولﷺکے بعد آنے والے خلفاء راشدین کے طریقوں پر عمل کریں، تاکہ وہ اس راستے کو عزم و ارادے کے ساتھ تھامے رکھیں، مسلمانوں کے خلیفہ کے احکامات کی اطاعت کریں، اور اپنی ریاست کے ساتھ مکمل وفادار رہیں۔ وہ اس کی خاطر اپنی جانیں اور روحیں قربان کرنے کے لیے تیار رہیں گے اور اس کے وفادار اور مخلص سپاہیوں میں شامل ہوں گے۔
میں نے اپنی کتاب "بلوغ المرام من کتاب نظام الاسلام" میں جو کچھ لکھا ہے یا لکھنے کا ارادہ رکھتا ہوں، اس میں کچھ تعلیمی مواقع کا ذکر شامل ہے جو میرے اور میرے طلبہ کے درمیان پیش آئے ہیں، اور سیکھنے والوں کی مدد کے لیے وضاحتیں، تفصیلات، تصاویر، خاکے، جدولیں، اور آسانیوں کا شامل کرنا، میری ذاتی کوشش ہے جو ایک استاد کی حیثیت سے سامنے آئی ہے جس نے اپنی زندگی نوجوانوں کی تعلیم اور نسلوں کی تشکیل میں گزاری ہے۔ یہ احساس میری اللہ تعالیٰ کے سامنے گہری ذمہ داری سے بھی پیدا ہوتا ہے، خاص طور پر موجودہ اور آنے والی نسلوں کے لیے، کیونکہ میں ساٹھ سال کی عمر عبور کر چکا ہوں۔اپنے محدود وقت میں، میں یہ چاہتا ہوں کہ کچھ ایسا چھوڑ جاؤں جو صدقہ جار یہ اور مفید علم ہو۔ میں نے اپنی کتابیں لکھی ہیں، اور حزب کی کتابیں تو اپنی جگہ اہم ہیں ہی اور اپنے مقصد کو پورا کرتی ہیں۔ میری کوشش ہے کہ میری کتابیں ، تھوڑا سا ہی سہی ، نسلوں کے لیے اسلامی تصورات کو سمجھنے اور ان کی طرف رہنمائی کرنے میں مددگار ثابت ہوں۔ اگر میں نے کچھ کامیابی حاصل کی ہے تو یہ اللہ کی مہربانی ہے ، اسی کا فضل ہے ، اور وہی حمد کے لائق ہے۔ اور اگر میں نے کوئی غلطی کی ہے تو یہ میری اپنی کمزوری یا شیطان کی وسوسے کی وجہ سے ہے۔ میں اللہ تعالیٰ سے اس کی معافی، مغفرت، رضا، اور جنت کی دعا کرتا ہوں۔
آپ سے الوداعی کلمات کہنے سے پہلے، ہم چاہیں گے کہ آپ کو آج کے موضوع میں شامل اہم نکات کی یاد دہانی کرائیں۔ ہماری کتاب 'بلوغ المرام من کتاب نظام الاسلام' میں ہمارےطریقہ کار کادرج ذیل نکات میں خلاصہ کیا جا سکتا ہے:
1۔ہم شیخ تقی الدین النبہانی ، اللہ ان پر رحم فرمائے ،کی کتاب 'نظام الاسلام' سے ایک متن پیش کرتے ہیں۔
2۔ اس کے بعد، ہم اس متن پر اپنے خیالات کا اظہار کرتے ہیں۔
3۔ پھر، اگر ممکن ہو تو، دعوت کے کام میں پیش آنے والے کچھ ذاتی تجربات بھی شامل کرتے ہیں۔
4۔اس کے بعد ہم اس میں موجود بعض خیالات کی وضاحت کرتے ہیں۔
5۔آخر میں، ہم وضاحتی تصاویر، خاکے، اور جدولیں پیش کرتے ہیں۔
اے مومنو!
ہم اس قسط کو یہاں ختم کرتے ہیں۔ آپ سے ہماری اگلی ملاقات ان شاء اللہ اگلی قسط میں ہوگی۔ تب تک، اور جب تک ہم آپ سے دوبارہ ملیں، اللہ کی حفاظت، سلامتی اور امان میں رہیں۔ ہم اللہ سبحانہ و تعالی سے دعا کرتے ہیں کہ وہ ہمیں اسلام کے ذریعے عزت بخشے، اسلام کو ہمارے ذریعے عزت عطا کرے، ہمیں اپنی مدد عطا کرے، ہمیں مستقبل قریب میں ریاست ِ خلافت کے قیام کا مشاہدہ کرنے کی خوشی عطا کرے، اور ہمیں اس کے سپاہیوں، گواہوں اور شہداء میں شامل کرے۔ بے شک وہی محافظ اور اس پر قادر ہے۔ ہم آپ کے شکر گزار ہیں۔
والسلام علیکم و رحمۃ اللہ۔