السبت، 21 جمادى الأولى 1446| 2024/11/23
Saat: (M.M.T)
Menu
القائمة الرئيسية
القائمة الرئيسية

شہداء کے سردار

بسم الله الرحمن الرحيم

اللہ سبحانہ وتعالیٰ اور رسول اللہﷺپر ایمان لانے والو!
رسول اللہﷺنے فرمایا
«سيد الشهداء حمزة ورجل قام إلى إمام جائر فنصحه فقتله»

''شہداء کے سردار حمزہ ہیں، اور وہ شخص جس نے جابر حکمران کے سامنے کھڑے ہو کر اُسے صحیح نصیحت کی اور اُسے قتل کر دیا گیا'' (الحاکم)
آج کے جابر حکمرانوں کا محاسبہ کرنے والو!
ہمارے آقا، رسول اللہﷺنے جابر حکمران کا محاسبہ کرنے والے کو شہداء کے سردار، اللہ سبحانہ وتعالیٰ کے شیر، محمدﷺکے پیارے چچا حضرت حمزہ سے متشابہہ بیان کیا۔ تو آخر یہ حمزہ کون ہیں جن کی صف میں ہم کھڑے ہونا چاہتے ہیں؟ یہ وہ حمزہ ہیں جنہوں نے قریش میں اپنی ممتاز حیثیت کی وجہ سے، مشکل ترین وقت میں مسلمانوں کے لیے ڈھال کا کام کیا۔ یہ وہ حمزہ ہیں جو اپنے رتبے کی وجہ سے، مختلف قبائل کے لوگوں کے لیے اسلام کی طرف متوجہ ہونے کا سبب بنے۔ یہ وہ حمزہ ہیں جو اسلام قبول کرنے کے بعد اُس پر اس مضبوطی سے جم گئے کہ کفار نے غزوہ احد میں ایک غلام وحشی کو آزادی کے بدلے اس ہدف پر معمور کیاکہ وہ حمزہ کوقتل کرے گا۔ یہ وہی حمزہ ہیں کہ جب اُحد کے دن رسول اللہﷺنے اُن کے جسدِخاکی کو دیکھا تو فرمایا ''میں نے اپنی زندگی میں اتنا شدید نقصان نہیں اُٹھایا جتنا آج اور مجھے کبھی اتنا غصہ نہیں آیا جتنا آج ۔۔اگر اللہ سبحانہ وتعالیٰ نے مجھے قریش پر غلبہ عطا کیا تو میں اُن کے 30لوگوں کا مثلہ کروں گا''۔اور رسول اللہﷺکی طرف سے شہداء کے سردار حمزہ کے بارے میں انہی الفاظ پر اللہ سبحانہ وتعالیٰ نے یہ آیات نازل فرمائی:
ادْعُ إِلَى سَبِيلِ رَبِّكَ بِالْحِكْمَةِ وَالْمَوْعِظَةِ الْحَسَنَةِ وَجَادِلْهُمْ بِالَّتِي هِيَ أَحْسَنُ إِنَّ رَبَّكَ هُوَ أَعْلَمُ بِمَنْ ضَلَّ عَنْ سَبِيلِهِ وَهُوَ أَعْلَمُ بِالْمُهْتَدِينَ (•) وَإِنْ عَاقَبْتُمْ فَعَاقِبُوا بِمِثْلِ مَا عُوقِبْتُمْ بِهِ وَلَئِنْ صَبَرْتُمْ لَهُوَ خَيْرٌ لِلصَّابِرِينَ (•) وَاصْبِرْ وَمَا صَبْرُكَ إِلاَّ بِاللَّهِ وَلاَ تَحْزَنْ عَلَيْهِمْ وَلاَ تَكُ فِي ضَيْقٍ مِمَّا يَمْكُرُونَ (•)
ترجمہ: ''اپنے رب کی راہ کی طرف لوگوں کو حکمت اور بہترین نصیحت کے ساتھ بلائیے اور ان سے بہترین طریقے سے گفتگو کیجئے۔ یقینا آپﷺ کا رب اپنی راہ سے بہکنے والوں کو بھی بخوبی جانتا ہے اور وہ راہ یافتہ لوگوں سے بھی واقف ہے۔اوراگر بدلہ لو بھی تو بالکل اتنا ہی جتنا صدمہ تمہیں پہنچایا گیا ہواور اگر صبر کر لو تو بیشک صابروں کے لیے یہی بہتر ہے۔ آپ صبر کریں، بغیر توفیق الہٰی کے آپ صبر کر ہی نہیں سکتے اور ان کے حال پر رنجیدہ نہ ہوں اور جو مکروفریب یہ کرتے رہتے ہیں ان سے تنگ دل نہ ہوں '' (النحل: 125 - 127)۔
یقینا یہ اُمت اپنے شہداء پر غمگین نہیں ہوتی، اور نہ ہی اُن کی گنتی کرتی ہے۔ اُن کے لیے تو اللہ سبحانہ وتعالیٰ نے جنت کا وعدہ کر رکھا ہے اور اُن کے چہرے اُس دن خوشی سے روشن ہونگے جس دن تمام انسان شدید خوف کی حالت میں اپنے فیصلے کا انتظار کر رہے ہونگے۔ یہ ہے اللہ سبحانہ وتعالیٰ کے ہاں شہداء کا مقام۔ تو پھر سیدالشہداء کی تو کیا ہی شان ہوگی؟
سیدالشہداء کی صف میں شامل ہونے کی خواہش رکھنے والو!
جابر حکمرانوں کا محاسبہ کرنے کا رستہ رسول اللہﷺکا رستہ ہے۔یہ وہ افضل ترین عبادت ہے کہ جس میں نہ جسم تھکتے ہیں اورنہ ذہن اور قلوب اُس اجر عظیم کی تمنارکھتے ہیں جس کا اللہ سبحانہ وتعالیٰ نے وعدہ کر رکھا ہے۔حکمران کا محاسبہ کرنا فرض ہے اور یقینا حکمران ہی المعروف کی بنیاد ہے اگر وہ عادل ہو، اور وہی منکر کی جڑ ہے اگر وہ ظالم ہو۔ امرباالمعروف ونہی عن المنکر کرنا اور ظالم کے ہاتھ کو روکنا، یہ وہ عمل ہے کہ جس کی شریعت میں بہت تعریف کی گئی ہے اور اس کے ترک کرنے پر سخت وعید بھی سنائی گئی ہے۔
رسول اللہﷺنے ارشاد فرمایا ''اُس ذات کی قسم جس کے قبضے میں میری جان ہے، تم ضرورامرباالمعروف ونہی عن المنکر کرو ورنہ اللہ سبحانہ وتعالیٰ تمہیں عذاب میں مبتلا کرے گا ،پھر تم اُس سے دعائیں کرو گے اور وہ اُنہیں قبول نہیں کرے گا'' (جامع الترمذی)
اور رسول اللہﷺنے فرمایا ''نہیں !اللہ کی قسم !تم ضرور ظالم کے ہاتھ کو پکڑو اور اسے حق کی طرف موڑو اور اسے حق پر قائم رکھو۔ورنہ اللہ سبحانہ وتعالیٰ تمہارے قلوب کو آپس میں ٹکرائے گا اور تم پر اسی طرح لعنت کرے گا جیسے بنی اسرائیل پر کی''
سیدالشہداء کے راستے پر چلنے والو!
جابر حکمرانوں کے محاسبے کے راستے پر چلتے ہوئے، مسلمان کسی قسم کے نقصان پر خوفزدہ نہیں ہوتا، جو ظالموں کی طرف سے تنگ کرنے،قیدوبند کرنے،تشدد کرنے اور کبھی شہید کر دینے کی حد تک بھی ہوتا ہے جیسا کہ آج ہم پوری مسلم دنیا میں دیکھ رہے ہیں۔مسلمانوں میں نہ تو اپنے پیاروں کا ساتھ چھُٹ جانے کا خوف ہوتا ہے، نہ ہی اُن کا نفقہ ختم ہو جانے کا اور نہ ہی جان چلے جانے کا (جو اہل وعیال کے ساتھ اور اُن کے نفقے کی بنیاد ہے)۔کیونکہ وہ شخص جو سیدالشہداء کی صف میں شامل ہونا چاہتاہے، وہ اللہ کے اس فرمان کو یاد رکھتا ہے :
فَلاَ تَخْشَوْهُمْ وَاخْشَوْنِي
۔ '' پس، اُن سے مت ڈرو،صرف مجھ سے ڈرو '' (البقرہ: 150)
اور وہ قریش کی جارحیت پر رسول اللہﷺکے اس جواب کو بھی یاد رکھتا ہے ''اللہ کی قسم !میں اپنی اس جدوجہد کو جاری رکھوں گا جس کے لیے اُس نے مجھے مبعوث فرمایا ہے۔تاوقتیکہ یہ دین غالب آجائے یا میری گردن اُڑا دی جائے''
وہ اس بات پر ایمان رکھتا ہے کہ بہترین رزق وہ ہے جو اللہ سبحانہ وتعالیٰ نے جنت میں مؤمنین کے لیے عطا کر رکھا ہے۔ اور بہترین صحبت اُن لوگوں کی ہے جو اس جنت کے سب سے اُونچے درجے میں ہیں۔وہ اس بات پر بھی ایمان رکھتا ہے کہ جن لوگوں سے وہ اس دنیا میں محبت رکھتا ہے، قیامت کے دن اللہ سبحانہ وتعالیٰ اُس کے درجے کو اُن لوگوں تک بلند کر دے گا تاکہ اُسے اپنے محبوب لوگوں کا ساتھ نصیب ہو۔ یہ ایمان اُس میں تحریک پیدا کرتا ہے کہ وہ زیادہ جدوجہد کرے، زیادہ قربانی دے، جنت الفردوس کی تمنا رکھے، ہمیشہ ہمیشہ کی زندگی میں بہترین رزق اور بہترین صحبت حاصل کرے اور اُس کا حشر اُن لوگوں کے ساتھ ہوجن سے وہ محبت رکھتا ہے۔ انشاء اللہ۔
تو پھر آخر کیوں ایک مسلمان کے دل میں اس عارضی دنیا میں مال اور اہل وعیال کے نقصان کا خوف ہو؟ یہ ہے وہ عزم جو ہمارے گھر والوں کو بھی متاثر کرتا ہے اور پریشانی کے وقت اُنہیں مضبوط رکھتا ہے۔ یہ ہے وہ عزم جو اُس تحریک کی آنکھوں میں نظر آتا ہے اور جوش وولولے میں محسوس کیا جاتا ہے جو کفروباطل کو مٹا ڈالنے کے لیے اُٹھی ہے۔ یہ ہے وہ عزم کہ جسے دیکھ کر داعی کے گھر والے اُسے کہتے ہیں ''اگر تم ظالموں کے آگے کانپ گئے یا کمزور پڑے،تو تمہیں واپسی پر خیرمقدم نہیں کیا جائے گا۔ شہادت تک ثابت قدم رہنا اور ہم مل کر جنت میں خوشیاں منائیں گے''
سیدالشہداء کے راستے پر دوڑنے کی تمنا رکھنے والو!
آئیں اس راستے پر مضبوطی سے قدم رکھیں۔ آئیں کہ ایک قدم بھی ہم کمزور مت پڑیں، نہ ہی ظالموں کے خوف کی وجہ سے اور نہ ہی اپنے پیاروں کی محبت کی وجہ سے۔ آئیں آگے بڑھیں، اُس اجر پر یقین رکھتے ہوئے جو ہم اپنے لیے اور اپنے پیاروں کے لیے اکھٹا کریں گے۔ آئیں آگے بڑھیں، اِس بات پر یقین رکھتے ہوئے کہ اُمت کی پُر عزم جدوجہد کے سامنے جابر حکمران کمزور پڑ رہے ہیں اور ختم ہو رہے ہیں۔ آئیں آگے بڑھیں، اِس دعا کے ساتھ کہ بہت جلد ہم کفر کے خاتمے اور اسلامی حکومت کے آغاز پر خوشیاں منائیں۔ ہماری زندگی سرداروں کی طرح گزرے اور ہماری موت شہداء کی طرح ہو۔ آمین۔
وَلَا تَحْسَبَنَّ الَّذِينَ قُتِلُوا فِي سَبِيلِ اللَّهِ أَمْوَاتًا بَلْ أَحْيَاءٌ عِنْدَ رَبِّهِمْ يُرْزَقُونَ (•) فَرِحِينَ بِمَا آَتَاهُمُ اللَّهُ مِنْ فَضْلِهِ وَيَسْتَبْشِرُونَ بِالَّذِينَ لَمْ يَلْحَقُوا بِهِمْ مِنْ خَلْفِهِمْ أَلَّا خَوْفٌ عَلَيْهِمْ وَلَا هُمْ يَحْزَنُونَ (•)
''جو لوگ اللہ سبحانہ وتعالیٰ کی راہ میں شہید کیے گئے ہیں ان کو ہر گزمردہ نہ سمجھو، بلکہ وہ زندہ ہیں اور اپنے رب کے پاس روزیاں دیے جاتے ہیں۔اللہ سبحانہ وتعالیٰ نے اپنا فضل جو انہیں دے رکھا ہے اس سے بہت خوش ہیں اور خوشیاں منا رہے ہیں ان لوگوں کی بابت جو اب تک ان سے نہیں ملے اور ان کے پیچھے ہیں، اس پر کہ انہیں نہ تو کوئی خوف ہے اور نہ ہی وہ غمگین ہوں گے '' (آلِ عمران: 169 - 170)۔

Leave a comment

Make sure you enter the (*) required information where indicated. HTML code is not allowed.

اوپر کی طرف جائیں

دیگر ویب سائٹس

مغرب

سائٹ سیکشنز

مسلم ممالک

مسلم ممالک