الإثنين، 02 جمادى الأولى 1446| 2024/11/04
Saat: (M.M.T)
Menu
القائمة الرئيسية
القائمة الرئيسية

بسم الله الرحمن الرحيم

Cmo en PR 26 02 2021

پریس ریلیز

"خلافت کے خاتمے کو ایک صدی ہجری مکمل ہونے پر۔۔۔ اے مسلمانو، اسے قائم کرو!"

(ترجمہ)

 

اللہ کے نام سے جو بہت ہی رحمدل ، مہربان اور قابل ستائش ہے ، دنیاوں کا مالک ، کائنات کا مالک ، آسمانوں و زمین اور انسانیت کا خالق ہے۔وہی ہے جس نے پیغمبروں اور رسولوں کو بھیجا ، اپنی کتابوں کے ذریعے قوموں کو خبردار کرنے والا ، حساب کتاب  کے دن ، جنت اور جہنم کا مالک ، جو تمام مخلوقات پر حاوی ہے۔امت مسلمہ کی شفاعت کرنے والے اور اس امت کی گواہی دینے والے کہ اس نے انسانیت کو ہدایت سے روشناس کرایا،  اللہ سبحانہ و تعالیٰ کی سب سے عظیم تخلیق محمدﷺ، ان کے گھر والوں اور ان کے صحابہ ؓ پر درود و سلام ۔

 

آج خلافت کے انہدام کی برسی ایک بار پھر ہمارے سامنے ہے ، لیکن اس بار یہ اپنا سوواں سال پورا کر رہا ہے ، اسی لیے ہم پر لازم ہے کہ اس صدی کا دوبارہ جائزہ لیں اور دیکھیں کہ خلافت کی عدم موجودگی کے بعد کیا ہوا ہے۔

 

اس 100 سال کے دو پہلو ہیں۔ایک تاریک افسردہ پہلو ، اور ایک روشن اور پُرجوش پہلو جو حوصلہ دلاتا ہے کہ جدوجہد  اور کام کرتے رہیں۔

 

اس کے تاریک پہلو کے دو اہم ترین معاملات ہیں۔

 

پہلا تاریک پہلو یہ ہے کہ اسلام کے حکمرانی خاتمہ ہوگیا، اسلامی امت اور اس کے علاقوں پر کبھی ایسا وقت نہیں آیا تھا کہ ان پر ایک ساتھ اسلام کی حکمرانی کا خاتمہ ہوا ہو، جیسا کہ اس موجودہ دور میں ہورہا ہے۔  آج دنیا میں کوئی علاقہ ایسا نہیں ہے جہاں اسلام کی حکمرانی قائم ہو جبکہ امت کی آبادی تقریباً دو ارب ہے!بلکہ ، مسلمان اس دور میں  خود پر کافر مغرب کی سخت گرفت کی وجہ سے ،کفر حکمرانی کے  خود پر تجربات کررہے ہیں اور یہ بھول گئے ہیں کہ یہ مغرب وہی کافر استعمار تھا جس نے ان کے خلاف اتحاد کیااور ان کی زمینوں پر قبضہ کیا۔ اور اللہ کے دین سے دور رہنے کی وجہ سے صورتحال اس قدر خراب ہوگئی کہ خلافت کے خاتمے کے چالیس سال بعد   معاشرہ اسلامی احکامات سے اس قدر دور ہو گیا  کہ گویا   اسلامی احکامات  اور  ان کی فہم ناپید ہونے کے قریب پہنچ گئ ہے۔

 

دوسرا تاریک پہلو وہ سانحات ہیں جن کا سامنا امت خلافت کی عدم موجودگی کی وجہ سے کررہی ہے۔  اگرچہ امت نے خلافت کے تقریباً تیرہ سو سال کے دور میں بھی کئی سانحات کا سامنا کیا تھا لیکن پچھلے سو سال کے دوران خلافت کی عدم موجودگی کی وجہ سے اس امت نے پہلے کے دور سے کہیں زیادہ سانحات دیکھے ہیں۔ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا، 

«يُوشِكُ الْأُمَمُ أَنْ تَدَاعَى عَلَيْكُمْ كَمَا تَدَاعَى الْأَكَلَةُ إِلَى قَصْعَتِهَا»

"قریب ہے کہ دیگر قومیں تم پر ایسے ہی ٹوٹ پڑیں جیسے کھانے والے پیالوں پر ٹوٹ پڑتے ہیں۔"

 

اور سانحات کا سلسلہ رکا نہیں ہے بلکہ جاری و ساری ہے جیسا کہ مقدس الاقصیٰ کی یہودیوں کے ہاتھوں بے حرمتی، عراق کے معزز لوگوں کا خون کئی دہائیوں سے بہہ رہا ہے، شام کے شہر برباد کردیے گئے اور اس کے لوگ بے گھر بلکہ ہجرت پر مجبور ہوگئے، یمن تباہ کردیا گیا اور لوگ بیماریوں اور شدید بھوک کا سامنا کررہے ہیں، مصر میں مسجدیں گرادی گئیں  اور اس کے لوگ    جبر اور غربت کی زندگی گزار رہے ہیں، لیبیا ایجنٹوں اور غداروں کے لڑائی میں ٹکڑے ہورہا ہے،قدرتی وسائل کے باوجود سوڈان غربت کا شکار ہے، برما دنیا کے سامنے کھلم کھلا مسلمانوں کو عذاب دے رہا ہے، روس اور  روس کے ہاتھوں بٹھائے گئےوسطی ایشیا کے حکمران اسلام کے خلاف لڑ رہے ہیں اور مسلمانوں پر مظالم دھا رہے ہیں، کشمیر پر ہندووں نے قبضہ کیا ہوا ہے اور مسلمانوں پر بدترین مظالم ہورہے ہیں، بھارت اپنے اندر موجود مسلمانوں کے بدترین تذلیل کررہا ہے جو کہ اسی ملک کے شہری ہیں، اور کمیونسٹ چین ایغور مسلمانوں کے دل و ماغ سے اسلام کا نام و نشان مٹانے کی کوشش کررہا ہے اور انہیں حرام اعمال انجام دینے پر مجبور کرتا ہے۔ افغانستان پر مذکرات کی ذلت مسلط کردی گئی ہے۔ مالی کو فرانس نے برباد کردیا۔  اور اس کے علاوہ جب سے خلافت تباہ ہوئی ہے فلپائین، الجزائر، بوسنیا، چیچنیا، فلسطین، لبنان، ایریٹیریا، صومالیہ، ازبکستان، پاکستان، آزربائیجان، وسطی افریقہ ، سری لنکا، بنگلادیش، انڈونیشیا، بھارت، لائبیریا، تھائی لینڈ، ایتھوپیا اور دیگر کئی علاقوں میں مسلمان سانحات کا سامنا کررہے ہیں۔  مسلمانوں کی افواج کی جانب سے اپنی امت کو بےیارومددگار چھوڑ دینے کی وجہ سے بھی امت پر ان سانحات کے بوجھ میں مزید اضافہ ہوگیا۔  ترکی، پاکستان، مصر، الجزائر، عراق، انڈونیشیا، حجاز، شام اور دیگر اسلامی افواج نے امت مسلمہ کو ناکام کردیا۔ ان سب نے مشکل ترین صورتحال میں امت کو  ناکام کیا ، بلکہ اپنے ہتھیاروں ، سازوسامان اور تربیت صرف مسلمانوں پر ظلم کرنے کے لئے استعمال کیے۔

 

جہاں تک اخلاقی سانحات کا تعلق ہے، تو ابھی کافر استعماریوں کا ایک حربہ پوری طرح استعمال نہیں ہوتا کہ وہ دوسرا حربہ لے آتے ہیں اور ایک نیا سانحہ ڈھا دیتے ہیں۔ اورینٹل ازم کے دھوکہ دہی سے لے کر  اسلامی قانون کی توہین تک ، دہشت گردی کا الزام لگانے سے لے کر لبرل اسلام کا تصور پیش کرنے تک، جمہوری اسلام کے منصوبے سے اسلامو فوبیا کے مظہر تک، کافر استعماریوں کے حربے ہیں۔  اسلام اور مسلمانوں کے عقائد، ان کے قوانین اور ان کے رسولﷺ پر اتنے حملے کیے گئے کہ یہ عمل مشرق سے لے کر مغرب تک سیکولر معاشروں میں مقبول عام بات بن گئی۔ نیوزی لینڈ  جہاں قتل عام کے بعد بھی مسلمانوں کو ہراساں کیا جاتا ہے، اور خلیج عرب کے ممالک جہاں مسلمانوں پر مغربی تہذیب کی اقدار کو مسلط کیا جاتا ہے اور یہودی وجود کے ساتھ تعلقات کو معمول پر لانے کا عمل کوئی آخری عمل نہیں ہے۔ مدینہ اور مکّہ جنرل انٹرٹینمنٹ اتھارٹی  کے غیر اخلاقی مواد کے حصار میں ہے جس کا سلسلہ کافر استعماری مغربی ممالک تک چلا جاتا ہے جہاں اسلام اور رسول اللہﷺ کی توہین پر مبنی مہم کی فرانس قیادت کرتا ہے اور وہ مسلمانوں کو اپنے روزگار کے حوالے سے پریشان کرنے کے لیے پالیسیاں بناتا ہے۔  اور عالمی انٹرنیٹ  کی جگہ کو نہیں بھولنا چاہیے جس کو سرمایہ دار کمپنیاں کنٹرول کرتی ہیں ، جو خود اپنی مرضی سے یا مغربی کافر استعماری حکومتوں کے کہنے پر ہر اس اکاؤنٹ کو بند کردیتی ہیں جن کے ذریعے اسلامی فکری قیادت امت کے سامنے پیش کی جاتی ہے۔ اسی طرح جب اسلامی امت کو اپنے علماء کی ضرورت ہوتی ہے ، جو ان کے لیے اس حق و سچ کی راہ کو اس وقت  روشن کر کے واضح کرنے کی صلاحیت رکھتے ہیں جب مغرب اپنے زہر  اور دھوکے کو پھیلا رہا ہے، تو ان مشکل لمحات میں ، سرکاری درباری علماء، خصوصاً وہ جو میڈیا کے پلیٹ فارم پر متحرک ہیں یا علماء کے گروہوں کے سربراہ ہیں، انہوں نے امت کو مایوس کیا۔ ایسے علماء نے سود، کفار کی فوج کے ہمراہ لڑنے، سکارف اتارنے، مغربی تہذیب میں جذب ہوجانےاور کفر کی حکومت کا حصہ بننے کو جائز قرار دیا۔  اور ان میں سے کچھ علماء نے  تو ان لوگوں کے خلاف لڑائی لڑی جو اسلام کی حکمرانی کی بحالی کے لیے کام کرتے ہیں ، لہٰذا درباری علماء کے اس کردار نے اخلاقی سانحہ کی شدت میں اضافہ کردیا۔

 

لیکن اللہ اپنے نور کو مکمل کرے گا

جہاں تک روشن پہلو کی بات ہے تو گذشتہ 100 سال میں اسلام کو زندہ ہونے سے روکنے کے لئے کافر مغرب نے اسلام اور مسلمانوں کے خلاف تمام طاقت جمع کی، لیکن اس کے باوجوداللہ سبحانہ وتعالیٰ نے ان کو رسوا کیا اور امت میں مخلص لوگوں کو کھڑا کیا اور ان مخلس لوگوں اس بات کی جانب رہنمائی کی جو اسے (سبحانہ و تعالیٰ)  راضی کرتی ہے۔اسلام کے داعی استعماری ممالک کے ظلم سے زیادہ عزم رکھتے ہیں ، ان کا ایمان اسلام کے دشمنوں اور ظالموں سے زیادہ مضبوط ہے، اور ان لوگوں سے زیادہ استقامت کے ساتھ کھڑے ہیں جن کے دل بیمار ہیں۔ ان داعیوں نے امت کو اپنے ہاتھوں سے نہیں نکلنے دیا اور وہ اس کی ہدایت اور رہنمائی کرتے رہے اور اس مقصد کے حصول کے لیے انہوں نےبے شمار قربانیاں دیں۔ ان داعیوں میں سے کئی شہید ہوئے تو کئی کو بدترین تشدد کا نشانہ بنایا گیا، اور کئی داعیوں کو ویسے ہی اپنے گھروں سے نکال دیا گیا جیسا کہ پہلے دور کے مسلمانوں کو ان کے گھروں سے نکالا گیا تھا۔ اور چونکہ اللہ کی رضا کا حصول ان کا ہدف تھا اور امت کا شاندار جواب ان کی حوصلہ افزائی اور سکون کا باعث تھا، تو وہ خود بھی ڈٹے رہے اور اپنے ساتھ امت کو استقامت کے ساتھ کھڑا رکھا۔ اور آج ہم ایک ایسی امت کے سامنے کھڑے ہیں جو زندگی سے بھر پور ہے اور جس میں مخلص نوجوان موجود ہیں جو اپنے دین کو حق سمجھتے ہیں اور اس امت کو یکجا کرنے کے لیے کام کررہے ہیں۔ قرآن اور سنت نے یقین دہانی کرائی ہے کہ اللہ سبحانہ و تعالیٰ اس امت کے عزت و وقار کو بحال کرے گا، اس کے لیے نئے علاقے کھول دے گا اور اس کی تہذیب کو وسعت دے گا۔   

  

مغربی تہذیب کا زوال شروع ہوچکا ہے

جہاں تک استعماری کافر مغرب کا تعلق ہے تو اس کا زوال شروع ہوچکا ہے بالکل ویسے ہی جیسا کہ اس سے پہلے مشرق میں سوشل ازم کا زوال ہوا تھا۔  فرانس نے اپنے دماغ کا مردہ ہونا تسلیم کرلیا جب اس نے اسلام کے خلاف قوانین بنانے کے لیے اپنے ہی سیاسی آیڈیالوجی سے انحراف کیا۔  یورپی یونین کا گروہ اس وقت بے نقاب ہوگیا جب اس نے یورپی پارلیمنٹ میں  برطانیہ کی یورپی یونین کی علیحدگی پر خوشی کے شادیانے بجائے۔  امریکا نے مغربی ممالک کے درمیان موجود اختلافات کو مزید بھڑکایا جب اس نے اپنے چہرے سے نقاب ہٹا دیا اور اپنا حقیقی چہرہ دنیا کے سامنے لے آیا، اور اس نے اپنے لیے ایک ایسا صدر منتخب کیا جو بغیر کسی ہچکچاہٹ کے امریکا کے ذاتی مفادات کا اعلان کرتا تھا اور اپنے ہی اتحادیوں کے خلاف انتہائی برا رویہ اپناتا تھا۔ اس طرح مغرب کے سب سے بڑے ملک نے اخلاقی رہنما کے کردار سے دستبرداری اختیار کر لی بلکہ امریکا معاشی تنازعات کو جنم دینے والا ملک بن گیا۔

 

پھر اللہ نے اس دنیا میں کورو  نا وائرس بھیجا اور مغربی تہذیب جس چیز کو سب سے زیادہ مقدم رکھتی ہے، معیشت، اس وائرس نے ٹھیک اسے ہی نشانہ بنایا ۔  کورونا  وباء نے انسانی جسم سے زیادہ  سرمایہ دارانہ نظام کی معیشت کو اپنے حملے کا  نشانہ بنایا۔   وائرس نے گلوبلائزیشن کو اپنے قابو میں کرلیا۔ وہ لالچی معاشی مشین جس کو سرمایہ دارانہ حکومتوں نے عالمی مارکیٹوں کو تسخیر کرنے کے لیے تعمیر کیا تھا۔ گلوبلائزیشن کی مشین نے وائرس کو قابو کرنے  کی کوشش کو مشکل کردیا۔  کئی مہینوں تک ممالک اپنی سرحدوں کو بند کرنے سے ہچکچاتے رہے  یہاں تک کہ جب انہوں نے سرحدیں بند کیں تو بہت دیر ہوچکی تھی۔ اور جب انہوں نے اس وباء سے نمٹنا شروع کیا ، تو اللہ نے  درست راہ کی جانب ان کی رہنمائی نہیں کی، اور وہ خود اپنے قدموں پر چلتے ہوئے اپنی منزل کی جانب بڑھتے گئے۔ لہٰذا، کورونا وباء مغرب کے زوال اور تقسیم کی ایک اور وجہ بن گئی۔  اس وباء کی وجہ سے یورپی یونین کے ممالک نے کچھ تجارتی قافلوں کی سمت تبدیل کردی تا کہ طبی مواد و آلات پر قبضہ کرلیا جائے۔ اور اسی وباء کی وجہ سے ہی امریکا کے سرمایہ دار کمپنیوں کے درمیان معیشت کو بند کرنے یا کھلا رکھنے کے حوالے سے زبردست تنازع پیدا ہوا ، اور یہ تنازع صدارتی انتخابات تک پہنچ گیا جس نے معاشرے میں شدید نفرت انگیز تقسیم پیدا کردی اور صورتحال اس سطح پر پہنچ گئی کہ ٹرمپ کے حمایتیوں نے دارالحکومت میں کیپیٹل ہل ، دنیا میں جمہوریت کے سب سے مضبوط گڑھ، پر حملہ کردیا۔ اللہ سبحانہ و تعالیٰ نے فرمایا،

﴿تَحْسَبُهُمْ جَمِيعًا وَقُلُوبُهُمْ شَتَّى

"تم شاید خیال کرتے ہو کہ یہ (کفار) اکھٹے (اور ایک جان) ہیں مگر ان کے دل (ایک دوسرے سے) جدا جدا ہیں"(الحشر، 59:14)۔

 

اور اللہ سبحانہ و تعالیٰ نے فرمایا،

﴿لَوْ أَنفَقْتَ مَا فِي الأَرْضِ جَمِيعاً مَّا أَلَّفَتْ بَيْنَ قُلُوبِهِمْ وَلَـكِنَّ اللّهَ أَلَّفَ بَيْنَهُمْ

"اور اگر تم دنیا بھر کی دولت خرچ کرتے تب بھی ان کے دلوں میں الفت نہ پیدا کرسکتے"(الانفال،8:63)۔  

  

100ویں برسی کی اہمیت

اس بار خلافت کے خاتمے کی برسی کی دو وجوہات کی وجہ سے اہمیت ہے، پہلی وجہ تشویشناک اور پریشان کن ہے کیونکہ اگر خلافت کے خاتمے کو سو سال مکمل ہوگئے ہیں تو اس کا مطلب یہ ہے کہ پوری ایک صدی اسلام کی حکمرانی کے بغیر گزر گئی، لہٰذا ہم پریشان ہیں کہ اسلامی امت کی موجودہ نسل  کی نسبت سابق ان نسلوں سے ہوجاتی ہے جن کی اللہ سبحانہ و تعالیٰ نے اس وجہ سے مذمت کی کہ وہ کئی صدیوں تک اللہ کے حکم کو نافذ نہیں کرسکے۔ اللہ سبحانہ و تعالیٰ نے فرمایا،

﴿فَلَوْلاَ كَانَ مِنَ الْقُرُونِ مِن قَبْلِكُمْ أُوْلُواْ بَقِيَّةٍ يَنْهَوْنَ عَنِ الْفَسَادِ فِي الأَرْضِ إِلاَّ قَلِيلاً مِّمَّنْ أَنجَيْنَا مِنْهُمْ وَاتَّبَعَ الَّذِينَ ظَلَمُواْ مَا أُتْرِفُواْ فِيهِ وَكَانُواْ مُجْرِمِينَ

"توجو اُمتیں تم سے پہلے گزر چکی ہیں، ان میں ایسے ہوش مند کیوں نہ ہوئے جوملک میں خرابی کرنے سے روکتے ہاں (ایسے) تھوڑے سے (تھے) جن کو ہم نے نجات دی ۔ اور جو ظالم تھے وہ ان ہی باتوں کے پیچھے لگے رہے جس میںعیش وآرام تھا اور وہ گناہوں میں ڈوبے ہوئے تھے"(ہود:11:116)۔ 

 

اور اللہ سبحانہ و تعالیٰ نے فرمایا،

﴿وَلَقَدْ أَهْلَكْنَا الْقُرُونَ مِن قَبْلِكُمْ لَمَّا ظَلَمُواْ وَجَاءَتْهُمْ رُسُلُهُم بِالْبَيِّنَاتِ وَمَا كَانُواْ لِيُؤْمِنُواْ كَذَلِكَ نَجْزِي الْقَوْمَ الْمُجْرِمِينَ

"اورتم سے پہلے ہم کئی امتوں کو جب انہوں نے ظلم کا راستہ اختیار کیا ہلاککرچکے ہیں۔ اور ان کے پاس پیغمبر کھلی نشانیاں لے کر آئے مگر وہ ایسے نہتھے کہ ایمان لاتے۔ ہم گنہگار لوگوں کو اسی طرح بدلہ دیا کرتے ہیں"(یونس،10:13)۔

 

جہاں تک دوسری وجہ کی بات ہے وہ یہ ہے کہ اسلامی امت نے پچھلے سو سال کے دوران ہر قسم کی طرز حکمرانی کا تجربہ کرلیا ہے۔ امت نے سوشل ازم، بادشاہت، آمریت، قوم پرستی، بعث ازم، وطن پرستی،پارلیمانی و صدارتی  جمہوریت، وفاقی نظام اور فرقہ واریت کو آزما کر دیکھ لیا ہے۔ امت نے ان تمام طرز حکمرانی کوخالص سیکولر ازم اور اسلام کے لبادے دونوں صورتوں میں آزما یا۔ ان تمام طرز حکمرانی کو آزمانے کے بعد یہ سب ایک کے بعد ایک ناکام ثابت ہوتے گئے۔  عرب بہار وہ سب سے بڑا موقع تھا جب اسلامی امت نے ان نظاموں کو سڑک پر اٹھا کر پھینک دیا تھا یہاں تک کہ لوگوں کا یہ نعرہ، "لوگ حکومت کا خاتمہ چاہتے ہیں"، کئی حکومتوں اور ریاستوں کے لیے ایک ڈرونا خواب بن گیا۔

 

جی ہاں، امت نے ہر طرح کے طرز حکمرانی کو آزما کر دیکھ لیا سوائے ایک اُس نظام کے جوکہ رسول اللہ ﷺ لائے اور جو خالص اسلام کا طرز حکمرانی ہے اور جسے رسول اللہ ﷺ کے معززصحابہ کرام ؓ نے بغیر کسی کمی بیشی کے نافذ کیا۔

 

ان  دونوں وجوہات اور خلافت کے خاتمے کے سو سال پورے ہونے  کی وجہ سے، ہم اسلامی امت کے تمام گروہوں،  جماعتوں، شخصیات، اہل قوت کو دعوت دیتے ہیں۔ اس سال، ہم آپ کو دعوت دیتے ہیں کہ   بغیر کسی تاخیر کےحزب التحریر، جس کے امیر عطا بن خلیل ابو الرشتہ ہیں ، کی قیادت میں امت پر گرنے والی قیامتوں کی روک تھام اور نبوت کے نقش قدم پر دوسری خلافت راشدہ کے قیام کی جدوجہد میں شامل ہوجائیں۔  رسول اللہ ﷺ نے فرمایا،

 

«ثُمَّ تَكُونُ خِلَافَةٌ عَلَى مِنْهَاجِ النُّبُوَّةِ»

"اور پھر نبوت کے نقش قدم پر خلافت قائم ہوگی"۔

 

#خلافت_کو_قائم_کرو       #أقيموا_الخلافة
#ReturnTheKhilafah     #YenidenHilafet
#TurudisheniKhilafah

 

انجینئر صالح الدین عضاضہ

ڈائریکٹرمرکزی میڈیا آفس حزب التحریر

 

Last modified onمنگل, 02 مارچ 2021 22:48

Leave a comment

Make sure you enter the (*) required information where indicated. HTML code is not allowed.

اوپر کی طرف جائیں

دیگر ویب سائٹس

مغرب

سائٹ سیکشنز

مسلم ممالک

مسلم ممالک