الإثنين، 23 جمادى الأولى 1446| 2024/11/25
Saat: (M.M.T)
Menu
القائمة الرئيسية
القائمة الرئيسية

بسم الله الرحمن الرحيم

 

پاکستان نیوز ہیڈ لائنز 30مارچ 2018 

 

۔ اسلام نے بجلی کو عوامی ملکیت قرار دیا ہے لہٰذا اس کی نجکاری حرام ہے

- اللہ سبحانہ و تعالیٰ کا قانون  سب سے برتر ہے اور اس بات کا حق رکھتا ہے کہ اسے نصرۃ (حمایت) فراہم کی جائے

- انتخابات دوبارہ جیتنے کے لیے حکمران اپنے  ہی لگائے گئے کرپٹ ٹیکسوں کو واپس لینے کی بات کررہے ہیں

تفصیلات: 

 

اسلام نے بجلی کو عوامی ملکیت قرار دیا ہے لہٰذا اس کی نجکاری حرام ہے 

26 مارچ 2018 کو غیر ملکی کمپنی شنگھائی الیکٹرک پاورلمیٹڈ کے وفد نے اپنے چیرمین وینگ یانڈان کی قیادت میں اسلام آباد میں وزیر اعظم شاہد خاقان عباسی سے ملاقات کی اور کراچی الیکٹرک لمیٹڈ میں اکثریتی شئیرز کی خریداری کے عمل آگاہ گیا۔ وزیر اعظم نے وفد کو یقین دہانی کرائی کی حکومت شنگھائی الیکٹرک پاور لمیٹڈ کی حمایت کرتی رہے گی تا کہ بجلی کی پیداوار اور تقسیم کے شعبے کومزید لبرل لائز کیا جائے۔ عباسی نے وفد کو بتایا کہ، "حکومت اس عمل (کراچی الیکٹرک کی فروخت)کو پورا کرنے پر عمل پیرا ہے اور ریگولیٹری فریم ورک مکمل کرکے  اسے آگے بڑھانا چاہتی ہے"۔ 

سرمایہ داریت  نجکاری کی بہت حوصلہ افزائی کرتی ہے خصوصاً توانائی، تیل و گیس اور معدنیات کے شعبوںمیں قائم حکومتی اداروں  کی نجکاری  کی بہت زیادہ حوصلہ افزائی کرتی ہے۔  سرمایہ داریت اس بات کی ترویج کرتی ہے کہ  حکومت  کاروبار چلانے میں محدود کردار  ہونا چاہیے۔ اس کے ساتھ فری مارکیٹ اکانومی کے داعی یہ بات بھی کہتے ہیں کہ بڑے بڑے سرکاری ادارے موثر طریقے سے کام نہیں کرتے جس کہ وجہ سے قومی خزانے کو شدید خسارے کا سامنا کرنا پڑتا ہے  اور وہ سفید ہاتھی میں تبدیل ہوجاتے ہیں۔ لہٰذا ان کا یہ ماننا ہے کہ سرکاری اداروں  کی نجکاری ان کی اہلیت میں اضافہ کرتے ہیں اور اس طرح معیشت کو فائدہ پہنچتا ہے۔

   لیکن حقیقت ایسی نہیں ہے جس طرح سرمایہ داریت کے داعی اسے پیش کرتے ہیں۔ درحقیقت نجکاری ہمیشہ صورتحال کو مثبت طور پر تبدیل کرنے کا باعث نہیں بنتی۔ سابق منصوبہ بندی کے سیکریٹری ڈاکٹر اختر حسن خان نے اپنی کتاب"پاکستان میں نجکاری کے اثرات" میں لکھا ہے کہ، "سرکاری اداروں کی نجکاری  کے نتیجے میں زیادہ اہل مینجمنٹ نہیں آئی؛ صرف 20 فیصد یونٹس میں کارکردگی بہتر ہوئی، 44 فیصد کی کارکردگی میں کوئی بہتری نہیں ہوئی، جبکہ 35 فیصد کا حال مزید برا ہوگیا۔ نجکاری کے بعد خراب کارکردگی دینے والے سابق سرکاری اداروں کی شرح میں 42 فیصد تک اضافہ ہوگیا"۔  لہٰذا یہ تاثر درست نہیں ہے کہ خسارے کے شکار  سرکاری اداروں کی نجکاری ہی وہ واحد حل ہے جس کے ذریعے ان کی صورتحال کو تبدیل کیا جاسکتا ہے۔  بجائے اس کے کہ کرپشن کو ختم کیا جائے ریاست توانائی اور معدنیات کی کمپنیوں کو نجی شعبے کو فروخت کردیتی ہے۔  اس طریقہ کار کے ذریعے کرپشن کو ختم کرنے کی کوشش کامیاب نہیں ہے کیونکہ  نجی کمپنیوں میں بھی تو کرپشن ہوتی ہے۔

لیکن اس معاملے کا سب سے اہم پہلو یہ ہے کہ اسلام نے توانائی  کو عوامی ملکیت قرار دیا ہے۔  رسول اللہ ﷺ نے فرمایا، 

«الْمُسْلِمُونَ شُرَكَاءُ فِي ثَلاَثٍ:الْمَاءِ وَالْكَلإِ وَالنَّارِ»

"مسلمان تین چیزوں میں برابر کے شریک ہیں: پانی، چراہگاہیں اور آگ(توانائی)"(احمد)۔ 

اسلام نے عوامی اثاثوں کی دیکھ بھال کی ذمہ داری ریاست پر ڈالی ہے تا کہ ہر شہری ان سے حاصل ہونے والے فوائد سے مستفید ہوسکے۔ حزب التحریر نے آنے والی خلافت کے آئین،مقدمہ دستور، کی شق 140میں لکھا ہے کہ، "امت کے افراد میں سے ہر فرد کو اسی چیز سے فائدہ اٹھانے کا حق ہے جو عوامی ملکیت میں داخل ہے۔ ریاست کے لئے جائز نہیں کہ وہ کسی خاص شخص کو عوامی ملکیت سے فائدہ اٹھانے یا اس کا مالک بننے کی اجازت دے اور باقی رعایا کو اس سے محروم رکھے"۔        

 

اللہ سبحانہ و تعالیٰ کا قانون سب سے برتر ہے اور اس بات کا حق رکھتا ہے کہ

اسے نصرۃ (حمایت) فراہم کی جائے

27 مارچ 2018 کو پاکستان تحریک انصاف  کے سربراہ عمران خان نے پہلی بار "باجوہ ڈاکٹرائن " کے حوالے سے اپنے "فہم" کو سامنے رکھا۔ آج نیوز کو انٹرویو دیتے ہوئے عمران خان نے کہا، "آپ دیکھ رہے ہیں کہ نواز شریف جانتے بوجھتے کھلم کھلا عدلیہ پر حملہ کررہے ہیں۔۔۔۔اس صورتحال میں،میں سمجھتا ہوں کہ باجوہ ڈاکٹرائن نے قانون کی بالادستی کے لیے عدلیہ کے پیچھے کھڑے ہونے کا اعلان کیا ہے"۔ 

نواز شریف، اس کی پاکستان مسلم لیگ-ن، پاکستان پیپلز پارٹی ، عمران خان اور باجوہ ڈاکٹرائن سمیت کوئی بھی پاکستان کی قسمت کو تبدیل نہیں کرسکتا کیونکہ یہ سب جمہوریت میں بنے انسانوں کے قوانین کی بالادستی کا مطالبہ کرتے ہیں۔ جو لوگ جمہوریت کے ذریعے حکمرانی کرتے ہیں یا اس کے ذریعے حکمرانی کرنا چاہتے ہیں، ان میں سے کسی سے بھی مسلمانوں کو نہ  کوئی فائدہ ہوا ہے اور نہ ہی کبھی ہوگا کیونکہ  جمہوریت اللہ سبحانہ وتعالیٰ  کے احکامات کو پس پشت ڈال کر زمین کو کرپشن سے بھر دیتی ہے۔  جب  جمہوریت کے بنائے آئین و قوانین کے تحت حکمرانی  کی جاتی ہے تو حکمران کھلم کھلا اللہ سبحانہ و تعالیٰ کے احکامات کو نظر انداز  اور ان چیزوں  کو گلے لگاتے ہیں جنہیں اللہ سبحانہ وتعالیٰ نے ممنوع قرار دیا ہے۔ اللہ سبحانہ و تعالیٰ نے خبردار کیا کہ، 

وَإِذَا قِيلَ لَهُمْ لَا تُفْسِدُوا فِي الْأَرْضِ قَالُوا إِنَّمَا نَحْنُ مُصْلِحُونَ

"اور جب ان سے کہا جاتا ہے کہ زمین میں فساد نہ ڈالو تو کہتے ہیں، ہم تو اصلاح کرنے والے ہیں“(البقرۃ:11)۔

جمہوریت میں پارلیمنٹ  میں بیٹھے مرد و خواتین کی خواہشات اور ضروریات کے مطابق قوانین بنائے جاتے ہیں جبکہ خلافت میں ہر قانون صرف اور صرف قرآن و سنت سے لیا جاتا ہے ۔

جمہوریت کی حقیقت اس کی کرپشن اور ظلم کی وجہ سے ہم سب پر واضح ہے۔ جمہوریت نے اسلامی امت کو بدحال اور ہمارے دشمنوں کو مضبوط اور ہم پر بالادستی فراہم کی ہے۔ ہماری افواج کو جمہوریت کے تعفن زدہ جسم کی حمایت کی جگہ نبوت کے طریقے پر خلافت کے قیام کے لیے نصرۃ فراہم کرنی چاہیے۔ یہ وقت ہے حقیقی تبدیلی کا ،لہٰذا ہم افواج میں موجود اپنے بھائیوں سے مطالبہ کرتے ہیں  کہ وہ اللہ سبحانہ و تعالیٰ، اس کے دین اور ایمان والوں کا ساتھ دیں  تا کہ یہ امت ایک بار پھر عزت و وقار کے مرتبے پر فائز ہو جیسا کہ صدیوں تک وہ اس مقام پر فائز رہی تھی۔  اللہ سبحانہ و تعالیٰ نے فرمایا،

إِنَّمَا وَلِيُّكُمُ اللَّهُ وَرَسُولُهُ وَالَّذِينَ آَمَنُوا الَّذِينَ يُقِيمُونَ الصَّلَاةَ وَيُؤْتُونَ الزَّكَاةَ وَهُمْ رَاكِعُونَ* وَمَنْ يَتَوَلَّ اللَّهَ وَرَسُولَهُ وَالَّذِينَ آَمَنُوا فَإِنَّ حِزْبَ اللَّهِ هُمُ الْغَالِبُونَ

 "تمہارے دوست تو اللہ اور اس کے پیغمبر اور مومن لوگ ہی ہیں جو نماز پڑھتے اور زکوٰة دیتے اور (اللہ کے آگے) جھکتے ہیں۔ اور جو شخص اللہ اور اس کے پیغمبر اور مومنوں سے دوستی کرے گا تو (وہ اللہ کی جماعت میں داخل ہوگا اور) اللہ کی جماعت ہی غلبہ پانے والی ہے "(المائدہ:56-55) 

 

انتخابات دوبارہ جیتنے کے لیے حکمران اپنے ہی لگائے گئے کرپٹ ٹیکسوں کو واپس لینے کی بات کررہے ہیں 

26 مارچ 2018 کو  وزیر اعظم کے خصوصی مشیر اور وزیر مملکت برائے ریوینیو ہارون اختر  نے کہا کہ حکومت ٹیکس کے نظام کا جائزہ لینے کا ارادہ رکھتی ہے۔پاکستان بزنس اینڈ اینٹالیکچول فورم (پی بی آئی ایف) کے جانب سے منعقد کیے جانے والےپری بجٹ  سیمینار  سےخطاب کرتے ہوئے ہارون اختر نے اس بات کو تسلیم کیا کہ کچھ ٹیکس غیر منصفانہ ہیں اور وہ وزیر اعظم کو لیویزکا جائزہ لینے پر قائل کرنے کی کوشش کریں گے جیسا  کہ سپر ٹیکس اور شئیر منافع پر لگنے والے ٹیکس وغیرہ۔

یہ بات قابل ذکر ہے کہ وزیر موصوف ان ٹیکسوں کو غیر منصفانہ کہہ رہے ہیں جنہیں ان ہی کی حکومت نے  ٹیکس سے جی ڈی پی کی شرح بہتر بنانے کے لیے لگائے تھے۔  اس وقت کے وزیر خزانہ اسحاق ڈار نے 2013میں اپنی پہلی بجٹ تقریر کے دوران کہا تھا کہ، "ٹیکس سے جی ڈی پی کی شرح مسلسل گررہی ہے اور اس وقت 9 فیصد پر ہے۔ بجٹ 14-2013 کا ہدف ٹیکس سے جی ڈی پی کی شرح کو بہتر  بنانا ہے یہاں تک کہ 2018 میں یہ 15 فیصد پر پہنچ جائے"۔  اس وقت 2018 میں یہ شرح 12.5 فیصد ہے اور حکمران جماعت  ٹیکسوں کا اس نقطہ نظر سے جائزہ لے رہی ہے کہ ان میں سے  کچھ کو واپس لے لیا جائے۔ درحقیقت حکمران جماعت  کی خواہش غیرمنصفانہ ٹیکسوں کو ہٹا کر لوگوں پر سے بوجھ کو کم کرنا نہیں ہے بلکہ انتخابات دوبارہ جیتنا  ہدف ہے۔ 

اسی طرح پچھلے سالوں میں ترقیاتی کاموں کے لیے مختص وسائل کو استعمال نہیں کیا جارہا تھا  لیکن جیسے ہی ملک انتخابات کے سال میں داخل ہوا تو اچانک ملک میں تعمیراتی کاموں میں تیزی آگئی۔ لاہور اور پشاور  جیسے شہروں میں سڑکوں اور پلوں کی تعمیر میں زبردست تیزی آگئی ہے تا کہ لوگوں کویہ دیکھایا جائےکہ حکمران کام کرتے ہیں۔ لہٰذا چار سال تک غیرمنصفانہ ٹیکس کا نظام نافذ کرنے کے بعد حکمران انتخابات سے قبل کاروباری طبقے کی حمایت جیتنے کے لیے  اپنے ہی ٹیکس نظام میں تبدیلی لانے کا ارادہ ظاہر  کررہے ہیں۔ جمہوریت میں اس قسم کے انتخابی ہتھکنڈے عام ہیں۔ اس سے قبل پاکستان پیپلز پارٹی کی حکومت  نے انتخابی سال میں اپنا آخری بجٹ  پیش کرتے ہوئے کمر توڑ سیلز اور انکم ٹیکس میں کمی کی تھی تا کہ انتخابات سے قبل عوام کی حمایت حاصل کی جائے۔  لہٰذا  کئی سال تک لوگوں کے مال پر ڈاکہ ڈالنے کے بعد تعمیراتی کاموں اور ٹیکس میں کمی جیسے اقدامات کے ذریعے ایک بار پھر انتخابات جیت کر آنے والے مزید کئی سال ان کے مال پر ڈاکہ ڈالنے کی تیاری کی جاتی ہے۔ 

جمہوریت میں اقتدار کو جاری و ساری رکھنے کے لیے حکمران کو ہر کچھ عرصے بعد انتخابات کے میدان میں اترنا پڑتا ہے۔  حکمران یہ بات جانتا ہے  کہ ایک بار پھر اقتدار میں آنے کے لیے اسے لوگوں کی حمایت درکار ہے۔ لہٰذا وہ قوانین کو تبدیل کرتا ہے تاکہ وہ اپنے اس مقصد کو حاصل کرسکے۔ وہ اپنے ووٹروں کو خوش رکھنے کے لیے اس بات پر مجبور ہوتا ہے  چاہے اس کے لیے اسے کچھ لوگوں کےحقوق اور بنیادی ضروریات سے ہی کیوں نہ سرف نظر کرنا پڑے۔  لیکن خلافت  کے نظام حکمرانی میں خلیفہ ایک بار منتخب کیا جاتا ہے  اور اسے اسلام کو نافذ کرنے کے لیے بیعت دی جاتی ہے۔ دوبارہ انتخابات میں جانے کے خوف سے نکل کر  خلیفہ یہ جانتا ہے کہ جب تک وہ اسلام کو نافذ کررہا ہے وہ اس مقصد کو حاصل کررہا ہے جس کے لیے اسے منتخب کیا گیا تھا اور اسے اپنے اقتدار کے خاتمے کا خوف نہیں ہوتا۔  لہٰذ ا وہ ووٹروں کی بے جا  مطالبات کے سامنے ڈھیر نہیں ہو جائے گا  اور نہ ہی لوگوں کے ردعمل کے خوف سے اس کام کو چھوڑے گا  جس کا کرنا ضروری ہے۔ اس کے علاوہ  اور جو بات سب سے بنیادی ہے وہ یہ کہ  خلیفہ صرف اپنے رب اللہ سبحانہ و تعالیٰ کی خوشنودی کے لیے اسلام کو نافذ کرتا ہے اور اس کے پاس اس چیز کا اختیار نہیں ہوتا کہ وہ حلال کو حرام یا حرام کو حلال قرار دے۔  وہ اس کے مطابق حکمرانی کرتا ہے جو وحی کیا گیا اور اس طرح مسلسل اخلاص کے ساتھ مسلمانوں کی نگہبانی کرتا ہے۔ اللہ سبحانہ و تعالیٰ نے فرمایا،

 وَأَنِ احْكُمْ بَيْنَهُمْ بِمَا أَنْزَلَ اللَّهُ وَلَا تَتَّبِعْ أَهْوَاءَهُمْ وَاحْذَرْهُمْ أَنْ يَفْتِنُوكَ عَنْ بَعْضِ مَا أَنْزَلَ اللَّهُ إِلَيْكَ

"اور(ہم پھر تاکید کرتے ہیں کہ) جو (حکم) اللہ نے نازل فرمایا ہے اسی کے مطابق ان میں فیصلہ کرنا اور ان کی خواہشوں کی پیروی نہ کرنا اور ان سے بچتے رہنا کہ کسی حکم سے جو اللہ نے تم پر نازل فرمایا ہے یہ کہیں تم کو بہکانہ دیں”(المائدہ:49)۔

          تو آپ یہ نہیں دیکھیں گے کہ خلیفہ غیر منصفانہ ٹیکسوں کے ذریعے لوگوں کے حق پر ڈاکہ ڈال رہا ہے اور نہ ہی آپ یہ دیکھیں گے کہ وہ مسلمانوں کے حقوق سے غافل ہے جن کی فراہمی کہ ذمہ داری  شرعیہ نے اس پر ڈالی ہے اور پھر اچانک  وہ انہیں ادا کرنا شروع کردے جب اس لوگوں کی جانب سے ردعمل کا ڈر ہو۔ 

Leave a comment

Make sure you enter the (*) required information where indicated. HTML code is not allowed.

اوپر کی طرف جائیں

دیگر ویب سائٹس

مغرب

سائٹ سیکشنز

مسلم ممالک

مسلم ممالک