الثلاثاء، 22 جمادى الثانية 1446| 2024/12/24
Saat: (M.M.T)
Menu
القائمة الرئيسية
القائمة الرئيسية

بسم الله الرحمن الرحيم

 

سوال و جواب

 

یورپی یونین کے ساتھ برطانیہ کے تعلقات

 

سوال:

برطانیہ میں  23 جون 2016 کو یورپی یونین میں رہنے کے حوالے سے ریفرنڈم ہوگا۔ یہ ریفرنڈم  یورپی یونین کے لیےایک نازک موقع پر ہو رہا ہے جو کہ بدستور 2008 میں رونما ہونے والے معاشی بحران سے دوچار ہے۔  برطانیہ کے اس سے الگ ہونے پر  یورپی یونین کی بقاء کے بارے میں سوالات جنم لیں گے۔ ریفرنڈم کے نتائج سے قطع نظر  اس کا مستقبل کیا ہے  اور خود برطانیہ میں بھی  دنیا میں برطانیہ کے کردار کے حوالے سے سوالات اٹھیں گے،  کیونکہ ریفرنڈم کے متعدد اثرات ہو سکتے ہیں۔ اس ریفرنڈم سے کیا متوقع ہے؟ اللہ آپ کو بہترین جزا دے۔

 

جواب:

کیا متوقع ہے اس کو واضح کرنے کے لئےیہ ضروری ہے کہ یہ جانا جائے کہ یہ یونین کیسے بنی اور برطانیہ کا اس یونین کے متعلق  کیا کردار رہا ہے:

1۔ یورپی یونین کی تشکیل کی شروعات  دوسری عالمی جنگ کے بعد 1945 میں ہوئی جب  یورپ  اس خوف سے دوچا ر تھا کہ براعظم میں  مزید کوئی جنگ نہ ہو۔ براعظم یورپ کی جنگوں کی بڑی طویل تاریخ ہے۔ اس وقت کے برطانوی وزیر اعظم ونسٹن چرچل نے اس سوچ کی  حمایت کی کہ یورپ کے لیے" ایسا کوئی  ڈھانچہ ہونا چاہیے جس میں یہ امن، حفاظت اور آزادی سے رہے۔۔۔جیسے  یورپی یونائٹڈ اسٹیٹس"۔ اس وقت دوسری عالمی جنگ کی تباہ کاریوں کے بعد یورپی یونین کی اس سوچ کو برطانیہ نے  سنجیدہ نہیں لیا،  بلکہ اس کے ممکن ہونے کا تصور بھی نہ کر سکا۔ جب 1951 میں کوئلے اور اسٹیل کا ادارہ قائم کیا گیا اور 1957 میں روم کے معاہدے پر دستخط کیے گئے ، تو اس وقت برطانیہ  نےاس میں شمولیت اختیار نہیں کی تھی۔ وہ ڈرتا تھا کہ متحدہ یورپ  برطانوی اقتدار کے لیے خطرہ ہو سکتا ہے،  اسی لیے دیکھو اور انتظار کرو کی پالیسی پر کار بند رہا  تاکہ یہ معلوم ہو سکے کہ  یہ اتحاد باقی رہتا ہے یا نہیں۔ یہ تو ایک پہلو سے ہے جبکہ دوسرے پہلو سے   یونین میں شامل نہ ہوکر برطانیہ نے  یو نین کو شروع سے ہی کمزور کیا،  کیونکہ یورپ کاایک بڑا ملک  اس یورپی یونین کا حصہ نہیں تھا۔ یونین کے ایک اصلی بانی  فرانس سے تعلق رکھنے والے جان مونیہ نے کہا: " میں کبھی یہ سمجھ نہ سکا کہ برطانوی کیوں یونین میں شامل نہیں ہوئے،  میں اس نتیجے پر پہنچا ہوں کہ  ضرور اس کا سبب  کامیابی کی قیمت تھی- یہ وہم کہ بغیر تبدیلی کے تم اس چیز کی حفاظت کرسکتے ہو جو تمہارے پاس ہے "(بی بی سی 1/4/2014 )۔

2 ۔ سن 1960 تک یورپی یونین مستحکم ہو گئی تھی،  برطانوی سیاست دان یہ سمجھ چکے تھے کہ  یورپی یونین سے باہر رہ کر وہ اس پر اثر انداز نہیں ہو سکتے۔ اس لیے برطانوی قیادت سمجھ گئی کہ اس پر اثر انداز ہو نے کے لیے یورپ کی قیادت کے ساتھ  میز پر اکھٹا ہونا پڑے گا۔برطانیہ نے اس بات کو یقینی بنایا  کہ وہ یونین کے ساتھ اس طرح نہیں جڑے گا کہ جس سے برطانیہ کمزور اور غیر اہم بن جائے۔ یوں 1961 میں برطانیہ نے یونین میں شامل ہو نے کا مطالبہ کیا مگر فرانس کے صدر شارل ڈیگال کی جانب سے دو بار اس کی درخواست مسترد کی گئی۔ انہوں نے برطانیہ کو یورپی یونین سے دور رکھنے کی کوشش کی  کیونکہ وہ سمجھ چکا تھا کہ برطانیہ کی پالیسی  یورپ کو متحد ہو نے سے روکنا تھی۔  انہوں نے برطانیہ کو یورپی وجود کے لیے " گہرا دشمن" قرار دیا۔  لیکن 1969 میں ڈیگال فرانس کی صدارت سے مستعفی ہوا اور اس کے ایک سال بعد ہی مرگیا۔ اس کے بعد  جورج بو مبیڈو نے 1971 میں برطانوی وزیر اعظم اڈورڈ ھیتھ سے ملاقات کی اور طویل مذاکرات کے بعد  برطانیہ کو یورپی یونین میں شامل ہونے کی اجازت دی گئی۔

3 ۔ اس کے بعد کنزرویٹوز  کی حکومت آنے کے فوراً بعد  برطانیہ نے یورپی یونین میں شمولیت کی شرائط پر مذاکرات شروع کیے، جو کہ یونین میں دراڑیں ڈالنے کی کوشش تھی۔۔۔پھر جب 1974 میں لیبر پارٹی برسر اقتدار آئی تو اس کی قیادت نے یورپی یونین کے زعماء کو دھمکانے کے لیے مذاکرات کو دوبارہ شروع کر نے کا طریقہ اپنا یا،  کیونکہ انہوں  نے  مذاکرات کی بحالی کے لیے عوامی ریفرنڈم کی شقیں پیش کیں۔ اس کے بعدمغربی جرمنی کے سربراہ  ھیلموٹ شمیدت  اور برطانوی وزیر  اعظم ھارولڈ ویلسن ایک سودے بازی تک پہنچ گئے جس کی رو سے برطانیہ یونین میں شامل ہو ا۔  شمیت نے یہ ظاہر کرنے کے لیے کچھ پسپائی اختیار کی کہ  برطانوی حکومت نے  مذاکرات کو دوبارہ شروع کرنے  کی شرائط پوری کر لی ہے۔ برطانیہ کی تینوں بڑی  جماعتوں نے  برطانیہ کے یونین میں رہنے کی مہم چلائی۔  1975 میں ریفرنڈم کے بعد جس میں 67 فیصدلوگوں نے یونین میں شامل رہنے کے حق میں ووٹ دیا  جو کہ اس وقت صرف آزاد تجارت کا خطہ تھا۔ 1980 کے آخرتک  یونین کے قائدین کی توجہ اس بات پر تھی کہ یورپ زیادہ متحد ہو اور ان کی ایک ہی کرنسی ہو،  اوریورپی یونین  سیاسی اتحاد اور مشترکہ منڈی کی طرف بڑھ رہی تھی،  جس سے برطانیہ بھی  بیلجیم کی طرح یورپ میں موجود ایک ملک بن جاتا! اس کا یہ مطلب تھا کہ برطانیہ کو  اپنی بعض بالادستی اور اقتدار   برسلز میں  موجود یورپی پارلیمنٹ کے حق میں اپنے پارلیمانی قوانین سے دستبردار ہو نا پڑتا۔ ابتداء میں مار گریٹ تھیچر کی جانب سے  یورپ کی حمایت کرنے کے باوجود  اس نے 1988 میں  بریجز ،بیلجیم میں ایک تقریر کی  اوراس میں برطانوی موقف واضح کیا۔  چنانچہ اس نے"اس بڑی یورپی ریاست کو مسترد کیا  جس کو نئے سرے سے برسلز سےکنٹرول کیا جا رہا ہو"۔ اس کے نتیجے میں کنزرویٹو پارٹی میں پھوٹ پڑھ گئی، جو کہ آج تک موجود ہے،  جو بلا آخر اس کے انہدام کا باعث بنا۔  یوں برطانیہ  یورپی یونین کو منقسم رکھنے میں ناکام رہا،  اورپھر آخر کار 1992 میں ماسٹریگٹ کے معاہدے پر دستخط کیے،  جس کے نتیجے میں کافی زیادہ اختیارات نئی یورپی اتحاد  کو منتقل ہو گئے،  مگر برطانیہ نے مشترکہ کرنسی کو اختیار کرنے کی شرط سے باہر نکلنے کی ضمانت لی۔

4۔ مارگریٹ تھیچر کے دور حکومت میں 1979 – 1990 تک  کنزرویٹو پارٹی کے سیاست دانوں اور سیاسی طبقے کے درمیان اختلافات شدت اختیار کر گئے۔کئی وزراء نے استعفی دیا، جن میں نائب وزیر اعظم جیفری ھاو بھی تھے۔۔۔جس وقت 1971 میں یورپی یونین کی کوئی مخالفت نہیں تھی  اس وقت  بعض سیاست دانوں کے نقطہ نظر کی مخالفت بڑھ گئی تھی کہ برطانیہ  نے یورپ کے حق میں بہت سارے اختیارات سے دست بردار ہو گیا۔  کنگز کولڈگ – لندن  میں برطانوی تاریخ  کے ماہر استاد بوجدانور کہتا ہے کہ " برطانوی سیاست میں  یورپ زہریلا/ اذیتناک مسئلہ تھا،  صرف اس وجہ سے نہیں کہ یہ  فریقین کو تقسیم کرنے کا سبب تھا،  بلکہ یہ برطانوی پارٹیوں میں اندرونی طور پر گہری تقسیم کا سبب تھا۔ بعض سمجھتے ہیں کہ عالمی جنگ کے بعد  برطانیہ کی سیاست میں  بنیادی رسہ کشی  دائیں بازو اور بائیں بازو سے زیادہ ان لوگوں کے درمیان ہے  جو یہ سمجھتے ہیں کہ برطانیہ کا مستقبل یورپ کے ساتھ ہے اور جو یہ نہیں سمجھتے " (بی بی سی 1/4/2014 )۔

5۔ دو مسئلے تھے  جن کی وجہ سے برطانیہ کے عوام اور سیاست دانوں میں  تفرقہ پیدا ہوا؛  ایک حاکمیت کا مسئلہ دوسرا قومیت کا مسئلہ تھا۔یورپی یونین میں شمولیت کا مطلب کئی ایک اختیارات کو یورپی یونین کے ادارے کو منتقل کرنا تھا۔ جس میں یہ بھی ہے کہ برطانوی پارلیمنٹ کی بجائے برسلز میں بننے والے کئی قوانین کو اختیار کرنا پڑے گا۔  یہ کسی بھی  ریاست کے قومی ہونے کے منافی ہے، اس کی وجہ یہ ہے کہ  لبرل ملکوں کی قانون سازی اور مخصوص پالیسی ان کی خود مختاری کی علامت ہوتی ہے۔۔۔یوں  یورپی یونین کی تکمیل کے ساتھ برطانیہ  اپنے مزید اختیارات سے محروم ہوا،اور یہ  سیاسی طبقے کی صفوں میں مزید تقسیم کا سبب بن گیا۔ چونکہ یورپی یونین  قومی سرحدوں  سے بالاتر تنظیم ہے اس لیے یہ  برطانیہ کے بطور ایک الگ انگریز ریاست ہونے کی حیثیت سے اس کے تشخص اور تاریخ کے لیے چیلنج ہے۔ ان مسائل نے بڑی دراڑیں پیدا کر دی۔ ہر آنے والی حکومت کے لیے بڑا مسئلہ  یہ ہو تا تھا کہ  کسی طرح یورپی یونین کو اپنے مخصوص مفادات کے لیے استعمال کیا جائے۔  یورپ کی مخالفت کی بنیاد پر برطانیہ میں  خود مختار  پارٹی کے قیام   کی وجہ سے ہی اس پارٹی کو  برطانوی عوام   کی بھر پور حمایت حاصل ہوئی،  جس سے کنزرویٹو پارٹی کے اندر مزید  تقسیم آگئی  اور   رائے عامہ مزید یورپی یونین کے خلاف  ہوئی۔  فریڈم پارٹی نے  یورپی پارلیمنٹ میں نشستیں حاصل کیں اور  وہاں  اپنے منصب کویونین کو نقصان پہنچانے اور کھوکلا کرنے کے لیے استعمال کیا۔  اس پارٹی کی عوامی مقبولیت  2015 کے انتخابات میں نمایاں ہوئی جب اس نے عام انتخابات میں تیسری پوزیشن حاصل کی،  مگر برطانیہ کا انتخابی نظام یہ ہےکہ پہلے نمبر پر آنے والی پارٹی ہی حکومت بنائے گی، اور اس قانون نے اس کو آخر کار اقتدار سے دور رکھا۔

6۔ مگر 2008 کے مالیاتی بحران کی ابتداء سے ہی برطانیہ یورپی یونین کے ساتھ کئی مسائل میں الجھ گیا۔  برطانوی وزیر اعظم ڈیوڈ کیمرون نے   بینکوں پر ٹیکس لگانے اورلندن میں  مالیاتی سیکٹر کو پابند کر نے کے اقدامات کے حوالے سے یورپ سے اختلاف کیا۔۔۔ مارچ 2015 کو برطانیہ  یورپی سنٹرل بینک  کے خلاف  یورپی  محکمہ انصاف میں دائرمقدمہ جیت گیا،  جہاں یورپی سنٹرل بینک  نے یوروزون کے بعض مالیاتی لین دین کی نو کریوں کو  یونین منتقل کرنے کی کوشش کی تھی۔  اس اقدام سے لندن  پیچھے رہ جاتا اور  پیرس اور فرانکفورٹ  تجارتی مراکز کے طور پر زیادہ جاذب بن جاتے اور اس کے نتیجے میں  برطانوی معاشی پوزیشن کمزور ہو سکتی تھی۔  ڈیوڈ کیمرون نے بہتر سے بہتر شرائط پر یورپی یونین سے  مذاکرات کے لیے  یورپی یونین کو خیرباد کہنے  کی دھمکی کو استعمال کیا،  اور اس دھمکی کے کارگر نہ ہونے پر اس نے یونین سے نکلنے کے لیے ریفرنڈم کی دھمکی دی۔

7۔ برطانیہ کے نقطہ نظر سے  متحد یورپی یونین اس کی قوت کے لیے خطرہ ہے، اس لیے  اس کو منقسم رکھنا ایک دائمی ہدف ہے۔ برطانیہ ایک طرف  یورپی یونین کو منقسم دیکھنا چاہتا ہے اور دوسری طرف  اس کو بین الاقوامی مسائل میں اپنے مفادات کے لیے استعمال کرنا چاہتا ہے۔ برطانیہ نے  یورپی یونین میں شامل ہونے  اور اس کے فوراً  بعد مذاکرات کی دعوت دے کر، جس کے لیے ریفرنڈم کرانا پڑا،   ہر موقع پر یورپی یونین میں دراڑیں ڈالنے کی کوشش کی ہے: یورپی یونین کے لیے مشترکہ منڈی  کی دعوت دی پھر اس کے خلاف کھڑا ہو گیا۔۔۔بڑی یورپی ریاست کے قیام  پر تنقید کی،  کیونکہ یہ اس کی بالادستی کو کمزور کرتی ہے۔۔۔برطانیہ نے پہلے  یورپ کی وحدت کی دعوت دی پھر  یوروزون سے الگ ہو گیا۔۔۔ اس طرح برطانیہ نے ہر موقع پر  یورپی اتحاد کو کمزور کرنے اور کمزور رکھنے کی کوشش کی، مگر اس کو پہلے ہی دن سے معلوم ہے کہ اس کو یورپی یونین میں  اس پر اثر انداز ہونے کے لیے موجود ہو نا چاہیے،  اس لیے سیاسی طور پر اس کو یورپی یونین میں شامل رہنے کی ضرورت ہے۔  یوں وہ اسی ہدف کے حصول کے لیے یونین میں شامل ہوا کیونکہ اس نے دیکھ لیا کہ اس سے باہر رہ کر اس کا حصول ممکن نہیں۔  ڈیگال برطانیہ کا مذکورہ ہدف سمجھ گیا تھا اس لیے اس کو اتحاد سے باہر رکھا، مگر بلا آخر برطانیہ کو اتحاد میں شمولیت کی اجازت دی گئی!

8۔ برطانیہ یورپی یونین سے اقتصادی فوائد بھی حاصل کرتا ہے،  جس سے اس کی کمپنیاں اور سرمایہ دار طبقہ فائدہ اٹھاتا ہے۔  برطانیہ کی معیشت  زیادہ تر خدمات پر مشتمل ہے؛  پھر برطانیہ میں اہم خدمت  مالی خدمت ہے۔ برطانیہ بہت تھوڑی اشیاء بر آمد کرتا ہے مگر  وہ آمدن کے لیے مالی خدمات،  سرمائے اور غیر ملکی کرنسیوں  پر اعتماد کرتا ہے۔ اسی طرح یورپی یونین کی مشترکہ  مارکیٹ کا مطلب  یہ ہے کہ برطانیہ بغیر  کسی تجارتی پابندی کے پورے یورپ کو برآمد کر سکتا ہے،  جس سے بڑی کمپنیوں اور سرمایہ دار طبقے کو فائدہ ہو تا ہے۔ اس لیے یورپی یونین سے الگ ہونے سے  یہ موقع اس کے ہاتھ سے نکل جائے گا  اور ملک میں سیاسی مسائل پیدا ہوں گے۔ اسی طرح یورپی یونین سے الگ ہونے کا مطلب یہ ہے کہ برطانیہ  یورپی یونین  کےقوانین اور فیصلوں کو اخذ کرنے سے باز رہے گا،  جبکہ یورپی یونین برطانیہ کا بنیادی تجارتی  شراکت دار ہے،  اگر وہ یورپی ملک ہوتے ہوئے بھی یونین سے الگ ہو تا ہے تو یورپ میں اس کی پوزیشن  کمزور ہو گی۔۔۔ساتھ ہی اس حالت میں اس کو باہر سے ہی یورپی یونین کے چیلنج سے نمٹنا ہو گا  اور اس سے  یونین  پر اس کا اثر کمزور ہو گا۔  اس کے اندر رہتے ہوئے اس پر زیادہ قوت اور شدت سے اثر انداز ہو سکتا ہے۔

9۔  جو کچھ کہا گیا اس کی بنیاد پر برطانیہ کے یونین سے تعلقات اور ریفرنڈم سے وابستہ توقعات کا خلاصہ یہ ہے:

ا۔ برطانیہ نے ہمیشہ یورپی اتحاد کو کمزور دیکھنا چاہا،  اس کے حصول کے لیے یورپی یونین کے اندر سے کام کیا۔

ب۔ساتھ ہی برطانیہ یورپی یونین  کو  اپنے مخصوص مفادات کے زاوئیے سے دیکھتا ہے اور اس کو اپنے مفادات کو پورا کرنے کے لیے استعمال کرنے کی کوشش کرتا ہے،  جس سے فرانس اور جرمنی کو غصہ آتا ہے۔

ج۔ یورپی یونین میں رہنے سے برطانیہ کو کچھ نقصانات کا بھی سامنا ہوتا ہے،  جیسے بالادستی اور اختیار سے محرومی؛  مگر وہ اس کو بھی  اس قیمت کی نظر سے دیکھتا ہے جو کہ وہ اس میں رہتے ہوئے اس پر اثر انداز ہونے کے لیے ادا کرتا ہے۔ یہی سیاست دانوں  ،نمایا طبقے اور برطانوی عوام کی تقسیم کا سبب ہے جس  کی وجہ سے برطانوی حکومت  یورپی یونین  سے الگ ہونے کے لیے ریفرنڈم کی دھمکی  کے ذریعے  بعض اختیارات کو بچانے کی کوشش کرتا ہے۔

د۔ ان اسباب کی بنا پر  اس بات کی توقع نہیں کہ برطانیہ یورپی یونین سے الگ ہو گا،  بلکہ زیادہ امکان اس بات کا ہے کہ موجود صورت حال کی حمایت میں ہی ووٹ ڈالے جائیں گے۔۔۔

یہ تو اس مسئلے کے حوالے سے غالب گمان ہے،  مگر اس کے باوجود برطانیہ  بلیک میلنگ  اور اشتعال دلانے کے فن میں ماہر ہے اس لیے یہ بھی بعید از امکان نہیں کہ   بوقت ضرورت ریفرنڈم   کی تاریخ کو موخر کرے، یا نتائج کو فیصلہ کن ظاہر نہ کرے،  جس سے مزید بلیک ملینگ کے ذریعے  یورپی یونین کے ساتھ  کچھ دو اور کچھ لو کی گنجائش پیدا کرے گا۔۔۔توقع اس بات کی ہے کہ برطانیہ یورپی یونین کو دھوکہ دینے کے سلسلے کو ہی جاری رکھے گا یہاں تک کہ  یونین میں کوئی اس کی حقیقت کو سمجھ جائے اور  ریفرنڈم کی تاریخوں کے ذریعے بلیک میل ہونے کی بجائے اس کو یونین سے بھگا دے!

 

25 رجب 1437 ہجری

2 مئی 2016

Last modified onاتوار, 04 دسمبر 2016 11:22

Leave a comment

Make sure you enter the (*) required information where indicated. HTML code is not allowed.

اوپر کی طرف جائیں

دیگر ویب سائٹس

مغرب

سائٹ سیکشنز

مسلم ممالک

مسلم ممالک