الأربعاء، 23 جمادى الثانية 1446| 2024/12/25
Saat: (M.M.T)
Menu
القائمة الرئيسية
القائمة الرئيسية

بسم الله الرحمن الرحيم

 

سوال و جواب: عوامی آگہی سے جنم لیتی ہوئی راۓ عامہ

 

(محمد علی بوعزیزی کیلئے)

 

 

سوال :  

 

السلام وعلیکم

 

بسم اللہ الرحمان الرحیم

 

حال ہی میں، میں نے ایک بہترین شاب کا لکھا ہوا ایک مضمون پڑھا، جن کے بارے میں میرا خیال ہے کہ وہ حزب کے کلیدی اراکین میں سے ایک ہیں، مضمون میں وہ کہتے ہیں: " جب ہم اسلامی ریاست سے جُڑے ایک اسلامی سیاسی منصوبے کے بارے میں معقول راۓ عامہ قائم کرنے کے قابل ہوجائیں اور اسلام کے منفرد سیاسی نظام کے لئے کم ازکم کسی ایک ملک میں اہلِ قوت کی طرف سے تحفظ اور نصرۃ حاصل ہو جائے جو کہ غاصبوں اور ایجنٹوں سے اقتدار چھین لیں، تو تب اسلامی ریاست تاریخ کا رُخ موڑنے کے لئے اپنے پاؤں پر کھڑی ہوجائے گی"۔  

 

 

جب میں نے اس مضمون کے حوالے سے ان سے پوچھا،تو   اُن کا جواب تھا : "راۓ عامہ نے ہمیں ابھی تک اپنی قیادت نہیں دی ہے، حالانکہ کچھ ممالک میں ہمارے لئے کافی ساکھ اور احترام پایا جاتا ہے۔ نیز، اکثر اہلِ نصرۃ اپنی قیادت کسی ایسے کو نہیں دیتے جن کی معاشرے میں مضبوط  مقبولیت نہ ہو۔

 

 

میں اور میرے حلقۂ احباب کے دوسرے شباب اس رائے سے کافی مایوس ہوئے کیونکہ ہم اس خیال میں تھے کہ رائے عامہ تو موجود ہے۔ اور اُس ماحول کی وجہ سے جس میں میں رہتاہوں، اور میرے رابطے کے لوگ، اور میرے اردگرد کا حلقۂ احباب  جس میں کچھ وکلأ بھی شامل ہیں ، میں مکمل اطمینان اور اعتماد سے کہہ سکتا ہوں کہ امت میں اسلام کی بنیاد پر حتمی تبدیلی کے بارے میں رائے عامہ پائی جاتی ہے۔

 

 

ہمیں، بطورِ حزب، اسلام ( جسےہم پیش بھی  کررہے ہوتے ہیں)کے بارے میں عوامی آگہی  سے جُڑی ایک رائے عامہ چاہئے اور ہم امت کو ایک ممکنہ اعلیٰ ترین مقام پر لانا چاہتے ہیں۔  تاہم، میری رائے میں ہمارے لئے نصرۃ کی طلب کے عمل کو شروع کرنے کے لئے یہ کوئی شرط نہیں ہے۔  چونکہ امت نے ہمیشہ ہی جذباتی وابستگی سے اسلام کا ہی انتخاب کیا ہے نہ کہ حزب النور، تیونس کی النہدۃ، اخوان یا اردگان کو منتخب کرتے ہوئے اُن کے تجویز کردہ اسلام پر بحث کی ہے۔ اور اگر امت نے عالمی نظام کے منظر نامے پر ہمیں پہلے  پا لیا ہوتا تو یقیناً وہ اِن سے پہلے ہمارا چُناؤ کرتی کیونکہ وہ ہم پر اعتماد کرتے ہیں اور حتیٰ کہ ہم سے چاہتے ہیں کہ ہم الیکشن میں حصہ لیں تاکہ وہ ہمیں منتخب کرسکیں۔ اسلام ویسے ہی اجنبی کے  طور پر واپس آئے گا جیسا کہ یہ اپنے آغاز میں تھا۔ اور یہ کہنا کہ، اگر ہم امت کی اسلام کی آگہی ،  جو کہ ہم تجویز کررہے ہیں، سے پہلے حکمرانی لے آئیں، تو وہ ہم سے بھی دُور ہو جائے گی یا یہ کہے گی : یہ وہ اسلام نہیں ہے جو ہمیں چاہیے، جو اگرچہ ایک غلط بیانیہ ہے اور ایسا نہیں ہو گا ، کیونکہ امت نے عثمانی سلطنت کے آخری دور میں اُن نظریات کو ، جو اسلام سے نہ تھے، محض اس بنا پر قبول کرلیا تھا کہ علمأ یا شیخ الاسلام نے ایسا کہا تھا اور امت نے اس کے معتبر ہونے کے جواز پر بحث نہیں کی تھی اور آج تک وہ  اُنہی باتوں کو قبول کرتے ہیں جو ٹی وی   پر معزز علمأ بیان کردیتے  ہیں ۔ جب رسول اللہ ﷺ نے مدینہ کی طرف ہجرت کی اور اقتدار سنبھالا، تو رائے عامہ اسلام کے ساتھ تھی، حتیٰ کہ ابھی تک  قوانین مکمل  بھی نہ ہوئے تھے۔

 

 

اور آج بھی جب طالبان اقتدار میں آئے، طالبان کے بارے میں الواقعۃ ٹی وی چینل پر بہت سے موضوع زیرِ بحث آئے، جیسا کہ کیا ہمیں اُن سے یہ کہنا چاہئے کہ وہ خلافت کا اعلان کردیں اور انہیں نصیحت کریں کہ اُن کا ماخذ صرف اسلام ہونا چاہئے اور یہ کہ وہ کسی عالمی نظام میں شمولیت  نہ کریں وغیرہ وغیرہ۔۔۔ اُنہی شاب نے، جن کی رائے عامہ کے حوالے سے رائے کا میں اوپر حوالہ دے چکا ہوں ،کہا کہ :   طالبان کو اسلام کو ہی ماخذ کے طور پر لینا چاہئے اور ان کی حمایت امت سے ہو نی چاہئے  اور   اُنہیں  اپنے  گردونواح پر  گہری نظر رکھنی  چاہئے   اور یہ کہ اسے مسلمان ممالک کے مابین سرحدوں کو خاطر میں نہیں لانا چاہئے۔ یہ ایک درست   اور  اچھا بیان ہے، لیکن انہوں نےاپنی سمجھ کے مطابق  رائے عامہ کا ذکر نہیں کیا ۔

 

 

اگر حزب حکمرانی میں آتی ہے تو کیا کسی  خاص رائے عامہ کی ضرورت ہو گی اور اگر کوئی اور خلافت کا اعلان کردے تو کیا اس کی ضرورت نہ ہو گی؟

 

براہِ مہربانی ہماری رہنمائی فرما دیں۔ اللہ سبحانہ وتعالی  آپ پر رحم کرے۔

 

 

جواب :    

 

وعلیکم السلام ورحمۃ اللہ وبرکاتہ

 

آپ کی نیک خواہشات کے  بدلے میں اللہ سبحانہ وتعالی آپ پر کرم کرے اور اللہ آپ کو جزائے خیر عطا فرمائے۔

 

جہاں تک آپ کے سوال کے جواب کا تعلق ہے، تو عوامی بیداری سے جنم لیتی ہوئی رائے عامہ نصرۃ  (مادی مدد) کی طلب کے لئے ایک شرط ہے۔چنانچہ کسی بھی ملک میں جہاں یہ شرط پوری ہوتی ہو، تو اس ملک میں نصرۃ کی طلب کا عمل کیا جاتا ہے بشرطیکہ وہ ملک ریاست ہونے کے ضروری عناصر رکھتا ہو۔ لہٰذا  اگر مجال (جہاں عملی طور پر دعوت کا کام ہو رہا ہو)  میں سے کسی ملک میں رائے عامہ قائم ہو جائے تو اس میں نصرۃ  کی طلب کی جاتی ہے اور ان دوسرے ممالک میں بھی  جو ریاست بننے کے عناصر رکھتے ہوں یعنی کہ اگر  مجال کے کسی  بھی ملک میں رائے عامہ قائم ہو جائے جیسا کہ ذکر ہُو ا ہے  تو پھر ہر اُس ملک میں طلبِ نصرۃ فرض ہو جاتی ہے جو ریاست بننے  کے ضروری اجزاء رکھتا ہو  چاہے   اُس ملک کو نقطۂ ارتکاز بنانا ہو یا  دوسرے ملک سے ضم کرنا ہو۔

 

 

یہ رائے عامہ تو 1960 کی دہائی کے وسط میں ہی قائم ہو گئی تھی اور پھر حزب نے پورے مجال میں اُن ممالک کے حالات کے مطابق  اور حزب کی قیادت کے لائحہ عمل کو دیکھتے ہوئے طلبِ نصرۃ کا عمل شروع کیا۔ اور ذیل میں  آپ کی معلومات کے لئے کچھ متعلقہ معاملات کا ذکر کروں گا  :

 

1۔ ہم نے 5 ربیع الثانی 1389 ہجری بمطابق 20جون 1969 کو ایک سوال کے جواب میں کہا تھا :    

 

]... 1964 کے آغاز میں ہی ، حزب کی ایک ولایہ ، اردن   میں حزب کو امت کا جواب مل گیا تھا  ،"اورایک ہمسایہ ملک  سے ضم ہو نے کی تصدیق  مل  چکی تھی یعنی عوامی بیداری سے پیدا ہونے والی رائے عامہ کے ساتھ ساتھ ریاست کے اجزاء بھی حاصل  ہو چکےتھے"۔ اور اس طرح  مجموعی طور پر حزب کا یہی ردِ عمل تھا کہ یہ تمام مجال کیلئے تھا، اسی لئے حزب نے نصرة کے  دو موضوعات (پہلا دعوت کے عمل کو ممکن بنانا اور دوسرا حکمرانی تک پہنچنا )میں سے ایک   موضوع پر توجہ دی،یعنی  حزب نے اپنے آپ کو  حکمرانی /اقتدار تک پہنچنے کے لئے طلبِ نصرۃ تک محدود کرلیا اور  اُس وقت  سے ہی حزب طلبِ نصرۃ کا کام کررہی ہے تا کہ حکمرانی تک پہنچا جا سکے۔  اقتدار کے لئے طلبِ نصرۃ ایک طریقہ ہے نہ کہ  اسلوب ،  یعنی یہ ایک شرعی حکم ہے جس کی پابندی ضروری ہے اور یہ حالات وحقیقت کی مطابقت  کا کوئی عمل نہیں ہے لہٰذا حزب ، طلبِ نصرۃ میں ہی مصروف رہی ہے ۔ تاہم طلبِ نصرۃ کے بہت سے عوامل ہیں اور پُرخطر بھی ہیں ، ہر شاب ان کو ادا کرنے کے قابل نہیں اور حزب کے لئے یہ  صحیح نہ ہو گا کہ ان کاموں کے لئے کسی بھی شاب کو مقرر کردے  لہٰذا یہ کام  تمام شباب کے سپرد کرنا ممکن نہ تھا۔ رسول اللہ ﷺ نے قبائلی سرداروں یا ریاستوں کے سربراہوں سے  اور ان  وفود سے جو مکہ آتے تھے، اور ان اہلِ قوت سے جو بیت اللہ کی عبادت  کے لئے آیا کرتے تھے، نصرۃ طلب کی ، یعنی آپ اہلِ قوت کے گروہ سے نصرۃ طلب کرتے رہے، وہ جن سے نصرۃ طلب کرنا قابل قدر تھا؛  مصعب بن عمیرؓ نے مدینہ کے سرداروں سے نصرۃ  طلب کی اور انہوں نے یہ بات ان کے اہلِ قوت سے ہی  کی۔ پھر انہوں نے انہیں ایک ایک کرکے   اکٹھا کیا اور انہیں  ایک گروہ کی صورت میں رسول اللہﷺ کے پاس لائے تا کہ وہ آپ کی حمایت کریں اور آپ کو  مدینہ کی اتھارٹی  دے دیں ، اس  دعوت کے پیغام کی حفاظت کریں اور اس کی حفاظت میں جان دینا بھی  قبول کرلیں۔

 

 

یہ حقیقت ویسی ہی ہے جیسی حزب اپنی دعوت کے کام میں طلبِ نصرۃ کے لئے کررہی ہے، حزب اُسی طرح اسے طلب کررہی ہے جیسا کہ رسول اللہ ﷺ نے کیا، اور جیسے مصعب بن عمیرؓ کر رہے تھے، چاہے  وہ رسول اللہ   کی طرح  کسی ایک گروہ سے  طلبِ نصرہ ہو یا  مصعبؓ کی طرح ، جسے بہرحال رسول اللہ ﷺ کی منظوری حاصل تھی، جو کہ اہلِ قوت افراد سے ایک ایک کرکے  نصرة طلب کرنا اور پھر انہیں  ایک گروہ کی صورت میں اکٹھا  جمع کرنا، تا کہ وہ  حقیقتاً نصرۃ  فراہم کرنے کا کام کرسکیں۔۔[

 

2۔  ہم نے   12محرم 1390 ہجری بمطابق 20 مارچ 1970 کو ایک سوال کے جواب میں یہ کہا تھا  :

 

] نقطۂ ارتکاز وہ جگہ ہے جہاں سے ریاست قائم ہوتی ہے، یعنی  وہ جگہ جہاں سے حزب اقتدار سنبھال لے ... لیکن اگر وہ ریاست ہونے کے تمام عناصر نہ رکھتی ہوتو وہ نقطۂ ارتکاز کے لئے مناسب نہیں ہو گی، تاآنکہ کوئی اور جگہ ہو، یعنی کوئی اور ملک جو  اس کا ساتھ دینے کیلئے تیار ہو، اگراِس میں  ریاست قائم ہوجاتی ہے اور یہ ممکن ہے کہ ریاست ہونے کے تمام اجزاء دونوں میں  مل کر پائے جاتے ہوں یا ان میں سے کسی ایک میں ...       

 

... اردن نے حزب کی کسی کوشش کے بغیر خود سے ہی حمایت کا اعلان کیا تھا، اس لئے حزب کو اقتدار کے لئے اردن میں کام کرنا ہی تھا۔ پس حزب نے اردن میں کام شروع کردیا اور اردن کے علاوہ  بھی تاکہ نصرۃ کی طلب کرتے ہوئے طاقت حاصل کرنے کے لئے کافی مادی قوت مل سکے، خصوصاً اس وقت جب ایک دوسری جگہ سے حمایت کا جواب مل چکا تھا۔  لہٰذا  اردن ایک نقطۂ ارتکاز ہو سکتا ہے اور عین ممکن ہے کہ اس میں اقتدار حاصل کر لیا جائے، کیونکہ نقطۂ ارتکاز کی شرائط پوری ہوچکی ہیں۔  

 

 

... مدینہ نقطۂ ارتکاز کے لئے ایک موزوں جگہ تھی کیونکہ اس میں جزائر ممالک کے لئے ریاست ہونے کے عناصر موجود تھے اور حتیٰ کہ طائف بھی نقطۂ ارتکاز کے لئے موزوں جگہ تھی کیونکہ اس میں بھی جزائر ممالک کے لئے ریاست ہونے کے اجزاء موجود تھے...

 

طلبِ نصرۃ ایک بہت ہی مشکل اور انتہائی پُرخطر معاملہ ہے، کیونکہ اس کے لئے زبردست دلیری و جواں مردی، مستقل مزاجی اور غیرمعمولی اسالیب ،ان کے ساتھ صبر، برداشت اور بہترین بصیرت کی  بھی ضرورت ہے ... [

 

 

جہاں تک اصل قیادت  کا تعلق ہے، موجودہ حالات میں ریاست کے قیام سے پہلے اسے حاصل کرنا بہت مشکل ہے کیونکہ رائے عامہ سے ایک فکری قیادت تو حاصل ہوجاتی ہے مگر اصل قیادت تب تک  حاصل نہیں ہوتی جب تک  امت اپنے معاملات خود اپنی نگرانی میں نہ لے لے جیسا کہ رسول اللہﷺ کے دور میں تھا۔ جہاں تک آج کے دور کی بات ہے، تو مسلمان ممالک بالواسطہ یا بلاواسطہ کسی نہ کسی حال میں استعماری کفار کے زیرِ حکمرانی ہیں۔ اسی لئے، رائے عامہ جو عوامی آگہی سے پُھوٹتی ہے، یعنی   ایک فکری قیادت، اگر کسی بھی مجال علاقے میں حاصل ہو جاتی ہے اور اس میں ریاست کے عناصر پائے  جاتے ہوں  توپھر نصرۃ طلب کرنا ایک فرض ہو جاتا ہے اور جہاں تک اصل قیادت کا تعلق ہے  ،یہ تب حاصل ہو گی جب ریاست قائم ہو گی جیسا کہ ہمارے حالات میں ہے جن میں ہم رہ رہے ہیں۔

 

 

4۔ آپ کے سوال سے ملتے جلتے  ایک سوال کے جواب میں ان معاملات کی وضاحت ہم شائع کرچکے ہیں اور وہ جواب 20 ستمبر 2011 کو شائع ہوا تھا، اس میں ہے کہ :     

 

]ــعوامی بیداری :

 

٭  لفظ "الواعی"( آگہی) لفظ "وعی" سے اخذ کیا گیا ہے جس کے بارے میں  لسان العرب میں ذکر ہے : (دل سے کسی چیز کا سیکھنا۔ مثال کے طور پر، اس نے وہ چیز اور تقریراچھے طریقے سے سمجھ لی یعنی یاد کر لی، سمجھ لی اور قبول کر لی اور اس لیے وہ ایک آگاہ اور ہوشیار  شخص ہے۔  اسی طرح، یہ شخص اس کی نسبت زیادہ  باخبر ہے یعنی معاملات کو یاد رکھنے اور سمجھنے کا  زیادہ فہم رکھتا ہے، اور یہ ایک حدیث میں بھی  مروی ہے : «نَضَّر اللَّهُ امْرَأً سَمِعَ مَقالَتي فوَعاها، فرُبَّ مُبَلَّغٍ أَوْعى مِنْ سامِعٍ »" اللہ تعالیٰ اس کو مزید خیر عطا کرے جس نے میری حدیث کو سُنا اور اسے یاد رکھا۔ بہت سے ایسے  پیغام بردار ہیں جو سننے والوں سے زیادہ باشعور ہیں")۔

 

 

٭ "العام"، یہ شعور مجموعی طور پرمعاملے کے تمام نمایاں پہلوؤں کے حوالے سے ہے۔   خلافت کے حوالے سے عوامی شعور کا مطلب صرف لفظ خلافت کا جزوی علم نہیں بلکہ اس کا مطلب یہ ہے کہ  اس کے ساتھ کچھ نمایاں احکامات بھی معلوم ہوں جیسے یہ کہ خلافت فرض ہے، خلیفہ ایک ہی ہوتا ہے اور بیعت مرضی اور انتخاب سے ہی ہوتی ہے  …علاوہ ازیں کچھ قابلِ ذکر اختیارات جو  خلیفہ کو حاصل ہوتے ہیں جیسا کہ اسلامی ریاست کے اندرونی وبیرونی معاملات کی دیکھ بھال کرنا   …ہم یہاں "کچھ" احکامات کے معلوم ہونے کا ذکر کررہے ہیں کیونکہ عوامی آگہی کایہ مطلب نہیں کہ تمام تفصیلات معلوم ہوں بلکہ کچھ علم ہی کافی ہے تا کہ وہ شخص خلافت کے بارے میں شعور حاصل کرسکے  … اور اسی طرح کے دوسرے اور معاملات۔

 

 

ــ   عوامی آگہی ، حقیقتاً دعوت کے مجال کے بیشتر علاقوں میں حاصل ہو چکی ہے، اور یہ بات بخوبی معلوم  ہے، اگر یہ کسی ایک علاقے میں بھی محسوس کی جاتی ،   دعوت کے  مراحل دوسرے علاقوں میں بھی ساتھ ہی آگے بڑھتے تا کہ ان علاقوں کے ساتھ ملا جائے جہاں یہ شعور حاصل ہوچکا ہے  … یہاں تک کہ یہ اللہ کے حکم سے امت کے تمام پہلوؤں میں نہ اُجاگر ہو جائے۔

 

ــ  عوامی شعور کا اُجاگر ہونا طلبِ نصرۃ شروع کرنے کے لئے ایک شرط ہے  ... لیکن یہ شرط نہیں کہ یہ مجال  کے تمام ممالک میں حاصل ہو۔ یہ عوامی شعور 1960 کے اوائل سے ہی مجال کے ایک سے زیادہ علاقوں میں حاصل ہو چکا تھا، چنانچہ حزب نے نصرۃ کی طلب شروع کر دی اور ہر اس ملک میں جہاں اس نے طلبِ نصرۃ کا فیصلہ کیا، حزب نے عوامی شعور سے جُڑی رائے عامہ کے حوالے سے اپنی دعوت میں کوششیں تیز کردیں تا کہ دونوں امور کو ایک ساتھ حاصل کیا جا سکے ۔

 

کسی جگہ پر رائے عامہ کے حاصل ہو جانے کا یہ مطلب نہیں کہ علاقائی یا عالمی طاقتیں اسے متزلزل یا مضطرب نہیں کر سکتیں اور نہ ہی یہ مطلب ہے کہ وہ طاقتیں  کوئی غلط افکار یا باطل خیالات نہ پھیلا سکیں گی ...

 

ہم نے بہت سے مواقع پر ذکر کیا ہے، " عوامی شعور سے پُھوٹتی ہوئی رائے عامہ" ... اور جب ہم صرف "رائے عامہ " کا ذکر کرتے ہیں یا صرف " عوامی آگہی" کا ذکر ہوتا ہے تویہ بھی اس حقیقت کے تناظر میں صحیح ہےکہ رائے عامہ عوامی آگہی سے ہی جنم لیتی ہے۔یہ  دونوں  ایک ہی  سلسے کی کڑی ہیں اور  سلسلے کے ایک جزؤ کا ذکر کیے بغیر دوسرے جزؤ کا ذکر کرنا  درست ہے۔

 

ــ حزب نے ایک سے زیادہ علاقوں میں امت کی فکری قیادت سنبھال لی ہے، ... لیکن چونکہ امت اپنے معاملات پر خودنگران  نہیں ، نہ ہی یہ اپنے فیصلے خود کرتی ہے بلکہ احکامات و فیصلے ان کے حکمرانوں کے آقاؤں کی طرف سے آتے ہیں اور یہ حکمران تو ان کے ایجنٹ ہیں ... یہ ضروری نہیں کہ فکری قیادت اصل قیادت کے ساتھ  ہی  حاصل ہو۔اگر امت اپنے امور پر خود نگہبان ہوتی اور اس کے حکمران انہی  میں سے ان کی پسند کے ہوتے  تو اصل قیادت ، فکری قیادت سے مطابقت رکھتی، اور اگر امت فکری طور پر آپ  کو ہی قیادت دیتی ہے تو پھر اس کی اصل قیادت بھی   آپ ہی ہوں گے ...

 

آج کے حالات میں ، کچھ حد تک  تو ممکن ہے کہ اصل قیادت حاصل ہوجائے لیکن زیادہ امکان یہی ہے کہ عوام میں اصل قیادت اللہ کے اذن سے  حقیقی طور پر حکمرانی تک پہنچنے سے ہی حاصل ہوگی۔[  اقتباس ختم ہوا۔

 

 

جیسا کہ آپ گزشتہ جواب میں دیکھ سکتے ہیں ، کہ جو  آپ نے ذکر کیا اور جو اس "بہترین" شاب  نے بھی بیان کیا، وہ دونوں درست ہیں اور ان دونوں میں کوئی تضاد نہیں، کیونکہ :

 

ــ بظاہر وہ بھائی عوام کی اصل قیادت لینے کے حوالے سے بات کررہے تھے جیسا کہ آپ نے حوالہ دیا ہے، کیونکہ اُن بھائی نے کہا :  (رائے عامہ نے ابھی ہمیں اپنی قیادت نہیں دی ہے )، ان کا مطلب اس حد تک رائے عامہ لینا ہے کہ لوگ اپنی اصل قیادت ہمیں دے دیں  ... اور یہ بہرحال ابھی حاصل نہیں ہوا ... اصل قیادت  کا حصول طلب ِ نصرۃ کے لئے شرط نہیں ہے بلکہ اس کے لئے عوامی شعور سے پیدا ہونے والی رائے عامہ  ہی کافی ہے، اس کا  مطلب یہ ہے  کہ  کم از کم کسی ایک ولایہ (ملک)  میں کثیر عوام کی طرف سے  ہمارے افکار کا احترام کیا جائے ، جیسا کہ اوپر بیان ہو چکا ہے۔ 

 

ــ  آپ ایسی رائے عامہ کی بات کررہے ہیں جو عوامی شعور سے اُجاگر ہوتی ہے اور جس کے حاصل ہونے پر حزب اہلِ نصرۃ و اہلِ قوت سے مدد مانگتی ہے، جو کہ بلا شک و شبہ درست معاملہ ہے ...

 

میں اُمید کرتا ہوں کہ اتنی وضاحت کافی ہوگی۔

 

 

آپ کا بھائی

 

عطا بن خلیل ابؤالرشتہ

 

29 صفر،1443 ھ

 

6 اکتوبر 2021 ء                             

 

 

 

بسم الله الرحمن الرحيم

سوال و جواب: عوامی آگہی سے جنم لیتی ہوئی راۓ عامہ

(محمد علی بوعزیزی کیلئے)

سوال :  

السلام وعلیکم

بسم اللہ الرحمان الرحیم

حال ہی میں، میں نے ایک بہترین شاب کا لکھا ہوا ایک مضمون پڑھا، جن کے بارے میں میرا خیال ہے کہ وہ حزب کے کلیدی اراکین میں سے ایک ہیں، مضمون میں وہ کہتے ہیں: " جب ہم اسلامی ریاست سے جُڑے ایک اسلامی سیاسی منصوبے کے بارے میں معقول راۓ عامہ قائم کرنے کے قابل ہوجائیں اور اسلام کے منفرد سیاسی نظام کے لئے کم ازکم کسی ایک ملک میں اہلِ قوت کی طرف سے تحفظ اور نصرۃ حاصل ہو جائے جو کہ غاصبوں اور ایجنٹوں سے اقتدار چھین لیں، تو تب اسلامی ریاست تاریخ کا رُخ موڑنے کے لئے اپنے پاؤں پر کھڑی ہوجائے گی"۔  

جب میں نے اس مضمون کے حوالے سے ان سے پوچھا،تو   اُن کا جواب تھا : "راۓ عامہ نے ہمیں ابھی تک اپنی قیادت نہیں دی ہے، حالانکہ کچھ ممالک میں ہمارے لئے کافی ساکھ اور احترام پایا جاتا ہے۔ نیز، اکثر اہلِ نصرۃ اپنی قیادت کسی ایسے کو نہیں دیتے جن کی معاشرے میں مضبوط  مقبولیت نہ ہو۔

میں اور میرے حلقۂ احباب کے دوسرے شباب اس رائے سے کافی مایوس ہوئے کیونکہ ہم اس خیال میں تھے کہ رائے عامہ تو موجود ہے۔ اور اُس ماحول کی وجہ سے جس میں میں رہتاہوں، اور میرے رابطے کے لوگ، اور میرے اردگرد کا حلقۂ احباب  جس میں کچھ وکلأ بھی شامل ہیں ، میں مکمل اطمینان اور اعتماد سے کہہ سکتا ہوں کہ امت میں اسلام کی بنیاد پر حتمی تبدیلی کے بارے میں رائے عامہ پائی جاتی ہے۔

ہمیں، بطورِ حزب، اسلام ( جسےہم پیش بھی  کررہے ہوتے ہیں)کے بارے میں عوامی آگہی  سے جُڑی ایک رائے عامہ چاہئے اور ہم امت کو ایک ممکنہ اعلیٰ ترین مقام پر لانا چاہتے ہیں۔  تاہم، میری رائے میں ہمارے لئے نصرۃ کی طلب کے عمل کو شروع کرنے کے لئے یہ کوئی شرط نہیں ہے۔  چونکہ امت نے ہمیشہ ہی جذباتی وابستگی سے اسلام کا ہی انتخاب کیا ہے نہ کہ حزب النور، تیونس کی النہدۃ، اخوان یا اردگان کو منتخب کرتے ہوئے اُن کے تجویز کردہ اسلام پر بحث کی ہے۔ اور اگر امت نے عالمی نظام کے منظر نامے پر ہمیں پہلے  پا لیا ہوتا تو یقیناً وہ اِن سے پہلے ہمارا چُناؤ کرتی کیونکہ وہ ہم پر اعتماد کرتے ہیں اور حتیٰ کہ ہم سے چاہتے ہیں کہ ہم الیکشن میں حصہ لیں تاکہ وہ ہمیں منتخب کرسکیں۔ اسلام ویسے ہی اجنبی کے  طور پر واپس آئے گا جیسا کہ یہ اپنے آغاز میں تھا۔ اور یہ کہنا کہ، اگر ہم امت کی اسلام کی آگہی ،  جو کہ ہم تجویز کررہے ہیں، سے پہلے حکمرانی لے آئیں، تو وہ ہم سے بھی دُور ہو جائے گی یا یہ کہے گی : یہ وہ اسلام نہیں ہے جو ہمیں چاہیے، جو اگرچہ ایک غلط بیانیہ ہے اور ایسا نہیں ہو گا ، کیونکہ امت نے عثمانی سلطنت کے آخری دور میں اُن نظریات کو ، جو اسلام سے نہ تھے، محض اس بنا پر قبول کرلیا تھا کہ علمأ یا شیخ الاسلام نے ایسا کہا تھا اور امت نے اس کے معتبر ہونے کے جواز پر بحث نہیں کی تھی اور آج تک وہ  اُنہی باتوں کو قبول کرتے ہیں جو ٹی وی   پر معزز علمأ بیان کردیتے  ہیں ۔ جب رسول اللہ ﷺ نے مدینہ کی طرف ہجرت کی اور اقتدار سنبھالا، تو رائے عامہ اسلام کے ساتھ تھی، حتیٰ کہ ابھی تک  قوانین مکمل  بھی نہ ہوئے تھے۔

اور آج بھی جب طالبان اقتدار میں آئے، طالبان کے بارے میں الواقعۃ ٹی وی چینل پر بہت سے موضوع زیرِ بحث آئے، جیسا کہ کیا ہمیں اُن سے یہ کہنا چاہئے کہ وہ خلافت کا اعلان کردیں اور انہیں نصیحت کریں کہ اُن کا ماخذ صرف اسلام ہونا چاہئے اور یہ کہ وہ کسی عالمی نظام میں شمولیت  نہ کریں وغیرہ وغیرہ۔۔۔ اُنہی شاب نے، جن کی رائے عامہ کے حوالے سے رائے کا میں اوپر حوالہ دے چکا ہوں ،کہا کہ :   طالبان کو اسلام کو ہی ماخذ کے طور پر لینا چاہئے اور ان کی حمایت امت سے ہو نی چاہئے  اور   اُنہیں  اپنے  گردونواح پر  گہری نظر رکھنی  چاہئے   اور یہ کہ اسے مسلمان ممالک کے مابین سرحدوں کو خاطر میں نہیں لانا چاہئے۔ یہ ایک درست   اور  اچھا بیان ہے، لیکن انہوں نےاپنی سمجھ کے مطابق  رائے عامہ کا ذکر نہیں کیا ۔

اگر حزب حکمرانی میں آتی ہے تو کیا کسی  خاص رائے عامہ کی ضرورت ہو گی اور اگر کوئی اور خلافت کا اعلان کردے تو کیا اس کی ضرورت نہ ہو گی؟

براہِ مہربانی ہماری رہنمائی فرما دیں۔ اللہ سبحانہ وتعالی  آپ پر رحم کرے۔

جواب :    

وعلیکم السلام ورحمۃ اللہ وبرکاتہ

آپ کی نیک خواہشات کے  بدلے میں اللہ سبحانہ وتعالی آپ پر کرم کرے اور اللہ آپ کو جزائے خیر عطا فرمائے۔

جہاں تک آپ کے سوال کے جواب کا تعلق ہے، تو عوامی بیداری سے جنم لیتی ہوئی رائے عامہ نصرۃ  (مادی مدد) کی طلب کے لئے ایک شرط ہے۔چنانچہ کسی بھی ملک میں جہاں یہ شرط پوری ہوتی ہو، تو اس ملک میں نصرۃ کی طلب کا عمل کیا جاتا ہے بشرطیکہ وہ ملک ریاست ہونے کے ضروری عناصر رکھتا ہو۔ لہٰذا  اگر مجال (جہاں عملی طور پر دعوت کا کام ہو رہا ہو)  میں سے کسی ملک میں رائے عامہ قائم ہو جائے تو اس میں نصرۃ  کی طلب کی جاتی ہے اور ان دوسرے ممالک میں بھی  جو ریاست بننے کے عناصر رکھتے ہوں یعنی کہ اگر  مجال کے کسی  بھی ملک میں رائے عامہ قائم ہو جائے جیسا کہ ذکر ہُو ا ہے  تو پھر ہر اُس ملک میں طلبِ نصرۃ فرض ہو جاتی ہے جو ریاست بننے  کے ضروری اجزاء رکھتا ہو  چاہے   اُس ملک کو نقطۂ ارتکاز بنانا ہو یا  دوسرے ملک سے ضم کرنا ہو۔

یہ رائے عامہ تو 1960 کی دہائی کے وسط میں ہی قائم ہو گئی تھی اور پھر حزب نے پورے مجال میں اُن ممالک کے حالات کے مطابق  اور حزب کی قیادت کے لائحہ عمل کو دیکھتے ہوئے طلبِ نصرۃ کا عمل شروع کیا۔ اور ذیل میں  آپ کی معلومات کے لئے کچھ متعلقہ معاملات کا ذکر کروں گا  :

1۔ ہم نے 5 ربیع الثانی 1389 ہجری بمطابق 20جون 1969 کو ایک سوال کے جواب میں کہا تھا :    

]... 1964 کے آغاز میں ہی ، حزب کی ایک ولایہ ، اردن   میں حزب کو امت کا جواب مل گیا تھا  ،"اورایک ہمسایہ ملک  سے ضم ہو نے کی تصدیق  مل  چکی تھی یعنی عوامی بیداری سے پیدا ہونے والی رائے عامہ کے ساتھ ساتھ ریاست کے اجزاء بھی حاصل  ہو چکےتھے"۔ اور اس طرح  مجموعی طور پر حزب کا یہی ردِ عمل تھا کہ یہ تمام مجال کیلئے تھا، اسی لئے حزب نے نصرة کے  دو موضوعات (پہلا دعوت کے عمل کو ممکن بنانا اور دوسرا حکمرانی تک پہنچنا )میں سے ایک   موضوع پر توجہ دی،یعنی  حزب نے اپنے آپ کو  حکمرانی /اقتدار تک پہنچنے کے لئے طلبِ نصرۃ تک محدود کرلیا اور  اُس وقت  سے ہی حزب طلبِ نصرۃ کا کام کررہی ہے تا کہ حکمرانی تک پہنچا جا سکے۔  اقتدار کے لئے طلبِ نصرۃ ایک طریقہ ہے نہ کہ  اسلوب ،  یعنی یہ ایک شرعی حکم ہے جس کی پابندی ضروری ہے اور یہ حالات وحقیقت کی مطابقت  کا کوئی عمل نہیں ہے لہٰذا حزب ، طلبِ نصرۃ میں ہی مصروف رہی ہے ۔ تاہم طلبِ نصرۃ کے بہت سے عوامل ہیں اور پُرخطر بھی ہیں ، ہر شاب ان کو ادا کرنے کے قابل نہیں اور حزب کے لئے یہ  صحیح نہ ہو گا کہ ان کاموں کے لئے کسی بھی شاب کو مقرر کردے  لہٰذا یہ کام  تمام شباب کے سپرد کرنا ممکن نہ تھا۔ رسول اللہ ﷺ نے قبائلی سرداروں یا ریاستوں کے سربراہوں سے  اور ان  وفود سے جو مکہ آتے تھے، اور ان اہلِ قوت سے جو بیت اللہ کی عبادت  کے لئے آیا کرتے تھے، نصرۃ طلب کی ، یعنی آپ اہلِ قوت کے گروہ سے نصرۃ طلب کرتے رہے، وہ جن سے نصرۃ طلب کرنا قابل قدر تھا؛  مصعب بن عمیرؓ نے مدینہ کے سرداروں سے نصرۃ  طلب کی اور انہوں نے یہ بات ان کے اہلِ قوت سے ہی  کی۔ پھر انہوں نے انہیں ایک ایک کرکے   اکٹھا کیا اور انہیں  ایک گروہ کی صورت میں رسول اللہﷺ کے پاس لائے تا کہ وہ آپ کی حمایت کریں اور آپ کو  مدینہ کی اتھارٹی  دے دیں ، اس  دعوت کے پیغام کی حفاظت کریں اور اس کی حفاظت میں جان دینا بھی  قبول کرلیں۔

یہ حقیقت ویسی ہی ہے جیسی حزب اپنی دعوت کے کام میں طلبِ نصرۃ کے لئے کررہی ہے، حزب اُسی طرح اسے طلب کررہی ہے جیسا کہ رسول اللہ ﷺ نے کیا، اور جیسے مصعب بن عمیرؓ کر رہے تھے، چاہے  وہ رسول اللہ   کی طرح  کسی ایک گروہ سے  طلبِ نصرہ ہو یا  مصعبؓ کی طرح ، جسے بہرحال رسول اللہ ﷺ کی منظوری حاصل تھی، جو کہ اہلِ قوت افراد سے ایک ایک کرکے  نصرة طلب کرنا اور پھر انہیں  ایک گروہ کی صورت میں اکٹھا  جمع کرنا، تا کہ وہ  حقیقتاً نصرۃ  فراہم کرنے کا کام کرسکیں۔۔[

2۔  ہم نے   12محرم 1390 ہجری بمطابق 20 مارچ 1970 کو ایک سوال کے جواب میں یہ کہا تھا  :

] نقطۂ ارتکاز وہ جگہ ہے جہاں سے ریاست قائم ہوتی ہے، یعنی  وہ جگہ جہاں سے حزب اقتدار سنبھال لے ... لیکن اگر وہ ریاست ہونے کے تمام عناصر نہ رکھتی ہوتو وہ نقطۂ ارتکاز کے لئے مناسب نہیں ہو گی، تاآنکہ کوئی اور جگہ ہو، یعنی کوئی اور ملک جو  اس کا ساتھ دینے کیلئے تیار ہو، اگراِس میں  ریاست قائم ہوجاتی ہے اور یہ ممکن ہے کہ ریاست ہونے کے تمام اجزاء دونوں میں  مل کر پائے جاتے ہوں یا ان میں سے کسی ایک میں ...       

... اردن نے حزب کی کسی کوشش کے بغیر خود سے ہی حمایت کا اعلان کیا تھا، اس لئے حزب کو اقتدار کے لئے اردن میں کام کرنا ہی تھا۔ پس حزب نے اردن میں کام شروع کردیا اور اردن کے علاوہ  بھی تاکہ نصرۃ کی طلب کرتے ہوئے طاقت حاصل کرنے کے لئے کافی مادی قوت مل سکے، خصوصاً اس وقت جب ایک دوسری جگہ سے حمایت کا جواب مل چکا تھا۔  لہٰذا  اردن ایک نقطۂ ارتکاز ہو سکتا ہے اور عین ممکن ہے کہ اس میں اقتدار حاصل کر لیا جائے، کیونکہ نقطۂ ارتکاز کی شرائط پوری ہوچکی ہیں۔  

... مدینہ نقطۂ ارتکاز کے لئے ایک موزوں جگہ تھی کیونکہ اس میں جزائر ممالک کے لئے ریاست ہونے کے عناصر موجود تھے اور حتیٰ کہ طائف بھی نقطۂ ارتکاز کے لئے موزوں جگہ تھی کیونکہ اس میں بھی جزائر ممالک کے لئے ریاست ہونے کے اجزاء موجود تھے...

طلبِ نصرۃ ایک بہت ہی مشکل اور انتہائی پُرخطر معاملہ ہے، کیونکہ اس کے لئے زبردست دلیری و جواں مردی، مستقل مزاجی اور غیرمعمولی اسالیب ،ان کے ساتھ صبر، برداشت اور بہترین بصیرت کی  بھی ضرورت ہے ... [

جہاں تک اصل قیادت  کا تعلق ہے، موجودہ حالات میں ریاست کے قیام سے پہلے اسے حاصل کرنا بہت مشکل ہے کیونکہ رائے عامہ سے ایک فکری قیادت تو حاصل ہوجاتی ہے مگر اصل قیادت تب تک  حاصل نہیں ہوتی جب تک  امت اپنے معاملات خود اپنی نگرانی میں نہ لے لے جیسا کہ رسول اللہﷺ کے دور میں تھا۔ جہاں تک آج کے دور کی بات ہے، تو مسلمان ممالک بالواسطہ یا بلاواسطہ کسی نہ کسی حال میں استعماری کفار کے زیرِ حکمرانی ہیں۔ اسی لئے، رائے عامہ جو عوامی آگہی سے پُھوٹتی ہے، یعنی   ایک فکری قیادت، اگر کسی بھی مجال علاقے میں حاصل ہو جاتی ہے اور اس میں ریاست کے عناصر پائے  جاتے ہوں  توپھر نصرۃ طلب کرنا ایک فرض ہو جاتا ہے اور جہاں تک اصل قیادت کا تعلق ہے  ،یہ تب حاصل ہو گی جب ریاست قائم ہو گی جیسا کہ ہمارے حالات میں ہے جن میں ہم رہ رہے ہیں۔

4۔ آپ کے سوال سے ملتے جلتے  ایک سوال کے جواب میں ان معاملات کی وضاحت ہم شائع کرچکے ہیں اور وہ جواب 20 ستمبر 2011 کو شائع ہوا تھا، اس میں ہے کہ :     

]ــعوامی بیداری :

٭  لفظ "الواعی"( آگہی) لفظ "وعی" سے اخذ کیا گیا ہے جس کے بارے میں  لسان العرب میں ذکر ہے : (دل سے کسی چیز کا سیکھنا۔ مثال کے طور پر، اس نے وہ چیز اور تقریراچھے طریقے سے سمجھ لی یعنی یاد کر لی، سمجھ لی اور قبول کر لی اور اس لیے وہ ایک آگاہ اور ہوشیار  شخص ہے۔  اسی طرح، یہ شخص اس کی نسبت زیادہ  باخبر ہے یعنی معاملات کو یاد رکھنے اور سمجھنے کا  زیادہ فہم رکھتا ہے، اور یہ ایک حدیث میں بھی  مروی ہے : «نَضَّر اللَّهُ امْرَأً سَمِعَ مَقالَتي فوَعاها، فرُبَّ مُبَلَّغٍ أَوْعى مِنْ سامِعٍ »" اللہ تعالیٰ اس کو مزید خیر عطا کرے جس نے میری حدیث کو سُنا اور اسے یاد رکھا۔ بہت سے ایسے  پیغام بردار ہیں جو سننے والوں سے زیادہ باشعور ہیں")۔

٭ "العام"، یہ شعور مجموعی طور پرمعاملے کے تمام نمایاں پہلوؤں کے حوالے سے ہے۔   خلافت کے حوالے سے عوامی شعور کا مطلب صرف لفظ خلافت کا جزوی علم نہیں بلکہ اس کا مطلب یہ ہے کہ  اس کے ساتھ کچھ نمایاں احکامات بھی معلوم ہوں جیسے یہ کہ خلافت فرض ہے، خلیفہ ایک ہی ہوتا ہے اور بیعت مرضی اور انتخاب سے ہی ہوتی ہے  …علاوہ ازیں کچھ قابلِ ذکر اختیارات جو  خلیفہ کو حاصل ہوتے ہیں جیسا کہ اسلامی ریاست کے اندرونی وبیرونی معاملات کی دیکھ بھال کرنا   …ہم یہاں "کچھ" احکامات کے معلوم ہونے کا ذکر کررہے ہیں کیونکہ عوامی آگہی کایہ مطلب نہیں کہ تمام تفصیلات معلوم ہوں بلکہ کچھ علم ہی کافی ہے تا کہ وہ شخص خلافت کے بارے میں شعور حاصل کرسکے  … اور اسی طرح کے دوسرے اور معاملات۔

ــ   عوامی آگہی ، حقیقتاً دعوت کے مجال کے بیشتر علاقوں میں حاصل ہو چکی ہے، اور یہ بات بخوبی معلوم  ہے، اگر یہ کسی ایک علاقے میں بھی محسوس کی جاتی ،   دعوت کے  مراحل دوسرے علاقوں میں بھی ساتھ ہی آگے بڑھتے تا کہ ان علاقوں کے ساتھ ملا جائے جہاں یہ شعور حاصل ہوچکا ہے  … یہاں تک کہ یہ اللہ کے حکم سے امت کے تمام پہلوؤں میں نہ اُجاگر ہو جائے۔

ــ  عوامی شعور کا اُجاگر ہونا طلبِ نصرۃ شروع کرنے کے لئے ایک شرط ہے  ... لیکن یہ شرط نہیں کہ یہ مجال  کے تمام ممالک میں حاصل ہو۔ یہ عوامی شعور 1960 کے اوائل سے ہی مجال کے ایک سے زیادہ علاقوں میں حاصل ہو چکا تھا، چنانچہ حزب نے نصرۃ کی طلب شروع کر دی اور ہر اس ملک میں جہاں اس نے طلبِ نصرۃ کا فیصلہ کیا، حزب نے عوامی شعور سے جُڑی رائے عامہ کے حوالے سے اپنی دعوت میں کوششیں تیز کردیں تا کہ دونوں امور کو ایک ساتھ حاصل کیا جا سکے ۔

کسی جگہ پر رائے عامہ کے حاصل ہو جانے کا یہ مطلب نہیں کہ علاقائی یا عالمی طاقتیں اسے متزلزل یا مضطرب نہیں کر سکتیں اور نہ ہی یہ مطلب ہے کہ وہ طاقتیں  کوئی غلط افکار یا باطل خیالات نہ پھیلا سکیں گی ...

ہم نے بہت سے مواقع پر ذکر کیا ہے، " عوامی شعور سے پُھوٹتی ہوئی رائے عامہ" ... اور جب ہم صرف "رائے عامہ " کا ذکر کرتے ہیں یا صرف " عوامی آگہی" کا ذکر ہوتا ہے تویہ بھی اس حقیقت کے تناظر میں صحیح ہےکہ رائے عامہ عوامی آگہی سے ہی جنم لیتی ہے۔یہ  دونوں  ایک ہی  سلسے کی کڑی ہیں اور  سلسلے کے ایک جزؤ کا ذکر کیے بغیر دوسرے جزؤ کا ذکر کرنا  درست ہے۔

ــ حزب نے ایک سے زیادہ علاقوں میں امت کی فکری قیادت سنبھال لی ہے، ... لیکن چونکہ امت اپنے معاملات پر خودنگران  نہیں ، نہ ہی یہ اپنے فیصلے خود کرتی ہے بلکہ احکامات و فیصلے ان کے حکمرانوں کے آقاؤں کی طرف سے آتے ہیں اور یہ حکمران تو ان کے ایجنٹ ہیں ... یہ ضروری نہیں کہ فکری قیادت اصل قیادت کے ساتھ  ہی  حاصل ہو۔اگر امت اپنے امور پر خود نگہبان ہوتی اور اس کے حکمران انہی  میں سے ان کی پسند کے ہوتے  تو اصل قیادت ، فکری قیادت سے مطابقت رکھتی، اور اگر امت فکری طور پر آپ  کو ہی قیادت دیتی ہے تو پھر اس کی اصل قیادت بھی   آپ ہی ہوں گے ...

آج کے حالات میں ، کچھ حد تک  تو ممکن ہے کہ اصل قیادت حاصل ہوجائے لیکن زیادہ امکان یہی ہے کہ عوام میں اصل قیادت اللہ کے اذن سے  حقیقی طور پر حکمرانی تک پہنچنے سے ہی حاصل ہوگی۔[  اقتباس ختم ہوا۔

جیسا کہ آپ گزشتہ جواب میں دیکھ سکتے ہیں ، کہ جو  آپ نے ذکر کیا اور جو اس "بہترین" شاب  نے بھی بیان کیا، وہ دونوں درست ہیں اور ان دونوں میں کوئی تضاد نہیں، کیونکہ :

ــ بظاہر وہ بھائی عوام کی اصل قیادت لینے کے حوالے سے بات کررہے تھے جیسا کہ آپ نے حوالہ دیا ہے، کیونکہ اُن بھائی نے کہا :  (رائے عامہ نے ابھی ہمیں اپنی قیادت نہیں دی ہے )، ان کا مطلب اس حد تک رائے عامہ لینا ہے کہ لوگ اپنی اصل قیادت ہمیں دے دیں  ... اور یہ بہرحال ابھی حاصل نہیں ہوا ... اصل قیادت  کا حصول طلب ِ نصرۃ کے لئے شرط نہیں ہے بلکہ اس کے لئے عوامی شعور سے پیدا ہونے والی رائے عامہ  ہی کافی ہے، اس کا  مطلب یہ ہے  کہ  کم از کم کسی ایک ولایہ (ملک)  میں کثیر عوام کی طرف سے  ہمارے افکار کا احترام کیا جائے ، جیسا کہ اوپر بیان ہو چکا ہے۔ 

ــ  آپ ایسی رائے عامہ کی بات کررہے ہیں جو عوامی شعور سے اُجاگر ہوتی ہے اور جس کے حاصل ہونے پر حزب اہلِ نصرۃ و اہلِ قوت سے مدد مانگتی ہے، جو کہ بلا شک و شبہ درست معاملہ ہے ...

میں اُمید کرتا ہوں کہ اتنی وضاحت کافی ہوگی۔

آپ کا بھائی

عطا بن خلیل ابؤالرشتہ

29 صفر،1443 ھ

6 اکتوبر 2021 ء                             

 

Last modified onبدھ, 09 مارچ 2022 21:34

Leave a comment

Make sure you enter the (*) required information where indicated. HTML code is not allowed.

اوپر کی طرف جائیں

دیگر ویب سائٹس

مغرب

سائٹ سیکشنز

مسلم ممالک

مسلم ممالک