بسم الله الرحمن الرحيم
سوال کا جواب
یوکرین کے بارے میں روسی موقف
اور سویڈن اور فن لینڈ کے بارے میں اس کے موقف کے درمیان فرق
سوال:
روس اس وقت یوکرین کے خلاف کیوں عسکری طور پرمتحرک ہوگیا جب اس کو یوکرین کی نیت کا علم ہواتھا کہ وہ نیٹو اتحاد میں شامل ہونے کا ارادہ رکھتاہے، جبکہ عملی طور پر نیٹو میں شامل ہونے والے فن لینڈ کے خلاف اس نےکوئی عسکری قدم نہیں اٹھایا۔ اسی طرح سویڈن کے خلاف بھی اس نے کوئی حرکت نہیں کی جس کا نیٹو میں شامل ہونا اب بس زیادہ وقت کی بات نہیں ہے؟
جواب:
جواب کو واضح کرنے کےلیے ہم مندرجہ ذیل امورکو پیش نظر رکھیں گے:
پہلا: ہم نے پہلے ہی یوکرین اور ان وجوہات کے حوالے سے بہت کچھ شائع کیاہے جن نے روس کو اس کے خلاف اعلان جنگ کرنے پر مجبور کیا:
1۔ ہم نے 24 جنوری 2004 کے سوال کے جواب میں کہا کہ"جہاں تک یوکرین کی بات ہےاس کے روس کے ساتھ گہرے مراسم ہیں اور وہ روس کا اہم اتحادی ہے۔ اس سے بڑھ کر یہ کہ بہت سارے یوکرینی اپنے آپ کو روسی سمجھتے ہیں، وہ روسی زبان بولتے ہیں جن میں سے بیشتر روسی نژاد ہیں خاص طور پر یوکرین کے مشرق میں بسنے والے۔۔۔ "۔
2۔ ہم نے 20مارچ 2010 کے سوال کے جواب میں کہا"یوکرین جس کا رقبہ 603700 مربع کلومیٹر اور آبادی 48 ملین ہے بحر اسود سے لگنے کی وجہ سے ایک منفرد اسٹریٹیجک محل وقوع کا حامل ہے۔ انرجی لائن خاص طور پر قدرتی گیس پائپ لائنوں کے یہاں سے گزرنے کی وجہ سے بھی اس کو امتیاز حاصل ہے۔ اس کے علاوہ یہ یورپ اور ایشیا کو ملانے والے محل وقوع کی وجہ سے بھی منفرد مقام کا حامل ہے۔۔۔"۔
3۔ ہم نے23 مئی 2013 کے سوال کے جواب میں کہا"جہاں تک روس کی بات ہے یوکرین اس کےلیے سب سے زیادہ اہم ہے، اگر اس نے یوکرین کو کھودیا تو مغرب براہ راست اس کی سرحد پر ہوگا۔ یوکرین روس کےلیے یورپ کی حوالے سے دفاعی شیلڈ(ڈھال) کے مانند ہے۔ اس کی اقتصادی اہمیت اس کے علاوہ ہےکہ روس سے مغرب جانے والی گیس پائپ لائینیں یوکرین سے گزرتی ہیں۔ یہ بھی یاد رہے کہ روس سوویت علاقوں میں اپنی بالادستی کو دوبارہ بحال کرنے پر اصرار کر رہا ہے جن میں یوکرین بھی شامل ہے۔۔۔"۔
4۔ ہم نے 22 دسمبر2021کے سوال کے جواب میں کہا کہ"یوکرین روس کا سامنے والا باغیچہ ہے، وہ روس کےلیے، مثلاً وسطی ایشیا کی طرح نہیں کیونکہ وسطی ایشیا محل وقوع ، قومی روابط، دین اور تاریخ کے لحاظ سے پیچھے کی طرف کا باغیچہ ہے۔ یوکرین روس کا فرنٹ اور اس کا بین الاقوامی مقام ہے کیونکہ اسی کے ذریعے روس بحراسود تک رسائی حاصل کرتاہے اور وہاں اپنی پوزیشن مضبوط کرتا ہے۔۔سوویت ریاست کی کمزوری نے مشرقی یورپ سے دستبردار ہونے پر اس کومجبور کیا جو اس کےلیے بفرزون تھا ۔ روس نیٹو کو مشرق کی طرف بڑھنے سے روکنے کےلیے اپنے پڑوسی یوکرین اور بیلاروس سے کم از کم یہ چاہتا ہے کہ وہ روس اور نیٹو کے درمیان بفرزون کا کردار ادا کریں، اورنیٹو کے خطرے اور اس کی فوج کے مشرق کی طرف بڑھنے کی راہ میں روکاوٹ بن جائیں۔ آج روس یوکرین کو نیٹو میں شامل ہونے سے روکنے یا نیٹو کی جانب سے یوکرین کی مدد کو روکنے کی کوشش کر رہا ہے"۔
دوسرا: یہ سب روس کے لیے یوکرین کی اہمیت کو واضح کرتا ہے، بلکہ روس اس کو خود مختار ملک تسلیم کرنے کےلیے بھی تیار نہیں، چنانچہ پوٹین نے 21.2.2022 کو اپنے خطاب میں کہا"یوکرین صرف ہمارا پڑوسی ملک ہی نہیں بلکہ یہ ہماری تاریخ ہماری ثقافت اور ہماری معنوی فضاء کا اٹوٹ انگ ہے۔ یہ لوگ صرف ہمارے رفیق ساتھی اور دوست ہی نہیں بلکہ یہ ہمارے اقارب ہیں، ان کے ساتھ خون اور خاندان کا تعلق ہے۔۔۔"(اناتولیہ نیوز ایجنسی 23.2.2023)۔ اسی طرح اس کو نیٹو سے پاک علاقہ قرار دیا یعنی اپنے جعرفیائی اور اسٹریٹیجک محل وقوع اور ڈیموگرافک ڈھانچے کےلیےریڈ لائن قرار دیا۔ روس اس بات کی اجازت نہیں دیتا کہ نیٹو اس(روس) تک پہنچے۔ پوٹین نے نیٹو کو یوکرین میں فوج تعینات کرنے یا اسلحہ کا ڈھیر لگانے کے بارے میں خبردار کرتے ہوئے کہا"یوکرین میں نیٹو کے عسکری انفراسٹکچر میں توسیع روس کےلیے ریڈ لائن ہے جس کا بھر پور قوت سے جواب دیا جائے گا"(نون پوسٹ 4.12.2021)۔ یوکرین کو دوبارہ اپنے اندر ضم کرنے میں ناکامی کے بعد، چاہے یہ نوے کی دہائی کی ابتدا میں بحر اسود کے بیڑے کی تقسیم کے مسئلے میں ہو، یا ان طویل و عریض گیس پائپ لائنوں کے مسئلے میں ناکامی ہو، جن کو سوویت یونین نے یورپ کو گیس سپلائی کرنے کےلیے یوکرین کے اندر بچھائی تھی،یا تجارتی مسائل کی وجہ سے جہاں روسی مارکیٹ کو چینی اور تیل کی سخت ضرورت ہے، جو یوکرین کی زرخیز سرزمین میں ہوتے ہیں، یا یوکرین کی جانب سے یورپی یونین اور نیٹو کی طرف جھکاؤ کے نمایاں ہونے کی وجہ سے اور ان سب میں ناکامی کے بعد روس نے آخری آپشن کے طور پر فوجی قوت کو استعمال کرنے کا فیصلہ کیا۔ پوٹین اس خوش فہمی میں مبتلاتھا کہ وہ اس طرح بڑی طاقت کے طور پر روس کے مرتبے کو بحال کرنے میں کامیاب ہوجائےگا۔ وہ یہ گمان کر رہا تھا کہ امریکہ چین کے موضوع کے حوالے سے مصروف ہے اس لیے یوکرین پر روسی حملے پر خاموش رہے گا۔۔۔خاص کر پوٹین اس غلط فہمی میں مبتلا تھا کہ چین کے موضوع پر امریکہ کی مصروفیت کی وجہ سے اس (امریکہ)کے متحرک ہونے سے قبل ہی وہ جلدی سے یوکرین پر قبضہ کر لے گا۔ اس کی سیاسی حماقت اور عظمت کا جنون بھی ایسا کرنے پر اس کو ابھار رہا تھا!! نتیجہ یہ نکلا کہ امریکہ نے یوکرین کے موضوع کو ترجیح دی اور اس کو عسکری امداد دی، اس کے فوجیوں کی تربیت کی اور یورپ کو اپنے پیچھے لگا کر جنگ کی آگ بھڑکائی تاکہ آخری یوکرینی اور روسی فوجی تک یہ جنگ جاری رہے جبکہ خود امریکہ کے فوجی دور بیٹھے اس کا نظارہ کریں!!
تیسرا: جہاں تک اس بات کا تعلق ہے کہ روس نے فن لینڈ کے خلاف کوئی عسکری کارروائی کیوں نہیں کی جو عملاً نیٹو میں شامل ہوچکاہے، اسی طرح سویڈن کے خلاف کوئی کارروائی نہیں کی جس کی نیٹو میں شمولیت اب بس زیادہوقت کی بات نہیں ہے؟ اس کا جواب یوں ہے:
1۔اگرچہ سویڈن روس کا پڑوسی نہیں جبکہ فن لینڈ اس کا پڑوسی ہے مگر یہ دونوں اپنے جعرافیائی محل وقوع، اپنے ڈیموگرافی، اپنی تاریخی بالادستی، اقتصاد اور سیکورٹی کےلحاظ روس کےلیے یوکرین کی طرح نہیں۔ یہی وجہ ہے کہ یہ دونوں ممالک روس کےلیے یوکرین کی طرح زندگی اور موت کا مسئلہ نہیں۔ اس کے ساتھ ساتھ ان دونوں ممالک کے بارے میں روسی نقطہ نظر بالکل مختلف ہے، کیونکہ روس یوکرین کو خودمختار ملک ہی نہیں سمجھتاجیسا کہ پوٹین کے ان بیانات سے ظاہر ہوتا ہے جن کا ذکر ہم نے پہلے کیا ہے۔ خاص اس لیے بھی کہ یوکرین سوویت یونین کا حصہ تھا جبکہ سویڈن اور فن لینڈ کی صورت حال مختلف ہے۔ فن لینڈ 1995میں یورپی یونین میں شامل ہوا اور 2023 میں نیٹو میں شامل ہوا۔ جبکہ سویڈن کے نیٹو کے ساتھ مضبوط تعلقات ہیں، دونوں مشترکہ جنگی مشقیں کرتے ہیں، سویڈن غیر نیٹو ممالک میں سے یورپی یونین کے چھ ممبران میں سے ایک ہے جس نے 1995 میں یونین میں شمولیت اختیار کی تھی۔ یوں روس کے پاس ان دونوں ممالک پر ایسا حملہ کرنے کےلیے جیسا کہ یوکرین پر کیا کوئی ظاہری بہانہ بھی نہیں۔
2۔ روس اس وقت یوکرین کے دلدل میں پھنسا ہوا اور اس سے نکل نہیں پاتا، اس صورت حال کی وجہ سے وہ کسی نئی جنگ میں کودنے کے قابل ہی نہیں۔ ممکن ہے کہ اس کو اپنی طاقت اور قوت کا اندازہ ہوگیا ہے۔ یوکرین پر اس کے حملےکو ڈیڑھ سال ہوگئے مگر ابھی تک وہ کامیاب نہیں ہوسکا؛ اس لیے یوکرین اور اس کی مدد کرنے والے مغرب کے مقابلے میں اس کی اس کمزوری کے سامنے آنے کے بعد موجودہ حالات میں کسی نئی جنگ میں کودنا بعید از امکان ہے۔
3۔ یہاں ایک سابقہ مشابہت بھی ہے جو قابل ذکر ہے، جب سابق وارسو پیکٹ کے رکن ممالک جیسے پولینڈ، ہنگری، بلغاریا، رومانیا، اسٹونیا، لتھونیا اور لٹویا (آخری تین ریاستیں سابق سوویت یونین میں شامل تھیں) 1997میں نیٹو کو وسعت دینے کے ضمن میں اس میں شامل ہوئے۔ روس کمزور تھا سوویت یونین کے سقوط کے بعد کی انارکی سے باہر نہیں آیا تھا اور سقوط کےمسائل میں الجھا ہوا تھا، اس تباہی کے نتائج سے چھٹکارہ نہیں پایا تھا ، سیاسی اور اقتصادی لحاظ سے ایک بڑی ریاست کے طور پر مستحکم نہیں ہواتھا، اس لیے ان ممالک کے نیٹو میں شمولیت کو روکنے کےلیے مغرب کے سامنے کھڑا نہیں ہو سکا تھا۔ اسی طرح یوکرین پر اس کا حملہ جس میں وہ یوکرین کو اپنی شرائط کے سامنے جھکانے میں کامیاب نہیں ہوسکا ، جس نے اس کی خطرناک عسکری کمزوری کو بے نقاب کردیا، اور اس صورتحال نے اس کی شہرت اور مرتبے کو ہلاکر رکھ دیا ہے۔ روس کے لیےیہ بالکل پچھلی صدی کی نوے کی دہائی کی صورت حال ہے ۔ یہی وجہ ہے کہ وہ اپنے موقف اور موجودہ عسکری کمزوری کی وجہ سے سویڈن اور فن لینڈ کے نیٹو میں شمولیت کی مخالفت کرنے کے فی الحال قابل نہیں ہے۔
امید ہے یوکرین کے بارے میں روس کے موقف اور سویڈن اور فن لینڈ کے بارے میں اس کے موقف کے درمیان فرق واضح ہوگیا ہے۔
26 محرم الحرام 1445ہجری
بمطابق13 اگست 2023
Latest from
- عالمی قانون کا انہدام ...اور ان دنیا والوں کی ناامیدی...
- بچوں کو اغوا کرنے اور ان پر تجربات کرنے کی”اسرائیلی“ قبضے کی ایک لمبی داستان موجود ہے
- امریکی قیادت اور نگرانی میں: ایران کی صفوی حکومت اور یہودی وجود...
- شنگھائی تعاون تنظیم امریکن ورلڈ آرڈر کا حصہ ہے
- استعماری طاقتوں کی تنظیمیں ہماری سلامتی اور خوشحالی کی ضامن نہیں ہو سکتیں