بسم الله الرحمن الرحيم
سوال وجواب
پاکستان میں جنرل الیکشن
(ترجمہ)
سوال:
برطانوی خبررساں ادارے رائٹرز نے 19 فروری 2024ء کو رپورٹ کیا کہ پاکستان کی دو بڑی سیاسی پارٹیاں مسلم لیگ اور پیپلز پارٹی پیر کو ملاقات کریں گی۔ سیاسی جماعت کے ایک اعلیٰ عہدیدار نے بتایا کہ اس ملاقات کا مقصد سیاسی ابتری اور معاشی عدم استحکام کے شکار ملک میں منعقدہ غیر حتمی انتخابات کے بعد مخلوط حکومت پر بات چیت کرنا ہے۔ پاکستان مسلم لیگ(ن) کی جانب سے ملک کی قیادت کے لئے سابق وزیراعظم شہباز شریف کا دوبارہ نام دئیے جانے کے بعد مخلوط حکومت کی تشکیل کے لیے کی جانے والی ملاقاتوں کے سلسلے میں یہ پانچواں راونڈ ہے جس کے لیے پیر کا دن متعین کیا گیا ہے، (ذرائع)۔ پاکستان میں انتخابات ملتوی ہونے کے بعد آخرکار 8 فروری 2024ء کو منعقد ہوئے۔ کیا مذکورہ بالا ان ملاقاتوں کے اجلاسوں کا مطلب یہ ہے کہ تحریک انصاف کے آزاد امیدواروں کو اقتدار سے باہر کر دیا جائے گا؟ انتخابات میں دھاندلی اور نتائج میں ہیرا پھیری کے جو الزامات لگائے جا رہے ہیں، وہ کس حد تک سچ ہیں؟ اور انتخابات کے بعد پاکستان میں حالات کیا رخ اختیار کرنے جا رہے ہیں؟
براہ کرم اس پر روشنی ڈالئے۔
جواب:
پاکستان میں انتخابات کئی مہینوں تک ملتوی ہونے کے بعد منعقد ہوئے ہیں۔ سماء نیوز نے 11 فروری 2024ء کو رپورٹ کیا کہ، "اب تک کے اعلان کردہ حتمی نتائج کے مطابق آزاد امیدوار 101 نشستیں جیت چکے ہیں۔ قابلِ ذکر بات یہ ہے کہ ان 101 امیدواروں میں سے 92 امیدوار پاکستان تحریک انصاف کے حمایت یافتہ ہیں اور باقی 9 امیدوار عام آزاد امیدوار ہیں۔ پاکستان مسلم لیگ (ن) 75 نشستیں حاصل کر کے دوسرے نمبر پر ہے جبکہ بلاول بھٹو زرداری کی قیادت میں پیپلز پارٹی نے 54 نشستیں حاصل کیں" (ذرائع)۔ ان انتخابات کا مقصد ملک کو سیاسی استحکام کی جانب لے کر جانا تھا۔ 9 اپریل 2022ء کو پاکستان کی پارلیمنٹ میں تحریک انصاف کے چیئرمین عمران خان کے خلاف عدم اعتماد کا ووٹ پیش کیا گیا جس کے نتیجے میں ان کو برطرف کر دیا گیا اور پاکستان مسلم لیگ (ن) کی جانب سے نواز شریف کے بھائی شہباز شریف کو ملک کا نیا وزیر اعظم منتخب کیا گیا جس کے بعد ملک میں شدید قسم کے مظاہروں کا سلسلہ شروع ہوا، اور بالآخر افراتفری اور انتشار کے اس کٹھن مرحلے کے بعد ملک کو سیاسی استحکام کی طرف لے جانے کے لیے انتخابات کا انعقاد ہوا ... جہاں تک اس کا بات کا تعلق ہے کہ پاکستان میں انتخابات کے بعد حالات کیا رخ اختیار کریں گے تو اس کو سمجھنے کے لیے درج ذیل باتوں کو مد نظر رکھنا نہایت ضروری ہے :
1۔پاکستان اہم ترین مسلم ممالک میں سے ایک ہے۔ اس کی 250 ملین افراد کی بڑی آبادی اسے ایک بڑا انسانی ریسورس بناتی ہے، جس سے معاشی پہیہ چلتا ہے اور فوج کے لیے افرادی قوت مہیا ہوتی ہے۔ پاکستان افرادی قوت اور عسکری قوت دونوں کے حوالے سے دنیا کے منفرد ممالک میں سے ہے اور ساتھ ہی ساتھ یہ دنیا کے نقشے پر اسٹریٹجک مقام بھی رکھتا ہے۔
2۔ زرخیز زرعی میدانوں، پانی کی دستیابی، صنعتی صلاحیتوں اور دنیاکی بڑی معیشتوں کو چلانے کی صلاحیت رکھنے والی افرادی قوت کے باوجود آج پاکستان کا شمار دنیا کے غریب ترین ممالک میں ہوتا ہے۔ اس کی وجہ امریکہ کی طرف سے دی جانے والی ناکام پالیسیاں ہیں۔ مالی اور انتظامی بدعنوانی اور چین یا امریکہ جیسے دوسرے ممالک پر انحصار کی بیماری کا پھیلاؤ معاشی ترقی کے لیے کی جانے والی کسی بھی کوشش میں رکاوٹ بنا ہوا ہے۔ ملک کو 2022 میں تباہ کن سیلاب کی آفت کا سامنا کرنا پڑا جس نے زرعی زمینوں کو تباہ کر دیا۔ اور ریاست تباہ حال لوگوں کو قابل قدر حل فراہم کرنے سے قاصر تھی۔ معاشی ناکامی کے ساتھ ساتھ تمام شعبوں میں مکمل ناکامی پاکستانی حکمرانی governanceکی نمایاں علامت ہے جو کئی دہائیوں پر محیط ہے۔
3۔ پاکستان میں اسلامی جہادی جذبہ اس وسیع پیمانے پر پنپ گیا کہ جس نے پوری دنیا میں خوف و ہراس پھیلا دیا۔ اس کا محرک مسئلہ کشمیر بنا، پھر سوویت یونین کا افغانستان پر قبضہ اور پھر امریکی یلغار نے اس کو مزید بڑھاوا دیا، اور کئی دہائیوں کے دوران ہونے والے بہت سے واقعات نے پاکستانی عوام کے اسلامی عقیدے میں پیوست مضبوط جذبہ جہاد کو ظاہر کیا ہے۔ کشمیر اور افغانستان کو آزاد کرانے کے لیے بہت سی اسلامی جہادی تحریکیں اٹھیں۔ دنیا بھر کے مسلمانوں کی حمایت کے لیے آوازیں اٹھ رہی تھیں۔ اس کے علاؤہ پاکستان میں ایسی تحریکوں نے جڑ پکڑ لی جنہیں مغرب سیاسی اسلام کا نام دیتا ہے، جن میں سب سے مشہور خلافت کے قیام کی دعوت تھی... اس سب کی وجہ سے، پاکستان میں اسلام کے تیزی سے پنپنے نے اسے پڑوسی ملک افغانستان کے ساتھ ساتھ، مشرق وسطیٰ کے بعد اسلامی سیاسی کشش ثقل کا دوسرا مرکز بنا دیا۔
4۔ پاکستان کی فوج کو ایک مضبوط فوجی قوت سمجھا جاتا ہے جو مہلک ہتھیاروں اور جوہری صلاحیتوں سے لیس ہے اور بھارت کے ساتھ تنازعات کی طویل تاریخ کی وجہ سے امریکہ پاک فوج کو پاکستان میں خانہ جنگی کی طرف دھکیل رہا ہے۔ امریکہ پاکستانی فوج کو طالبان تحریک کے ساتھ تصادم اور مخاصمت کی طرف دھکیل رہا ہے، جو افغانستان میں سال 2021 میں اقتدار میں واپس آئی، اور یہاں تک کہ امریکہ پاکستانی فوج کو ایرانی سرحد پر توجہ مرکوز کرنے کی طرف بھی دھکیل رہا ہے۔ یہ سب کچھ اس لیے کیا گیا ہے تاکہ ہندوستان کو امریکہ کی حکمت عملی میں حصہ لینے کے قابل بنایا جاسکے، چین کے عروج حاصل کرلینے کو روکا جاسکے اور چین کے ہندوستان کے ساتھ جنگ کے امکانات کو روشن کیا جاسکے۔ ان سب سے پہلے امریکہ 2001 سے 2021 تک افغانستان پر اپنے قبضے کے دوران، افغانستان تک پہنچنے کے لیے پاکستان کو اپنے لئے ایک گزرگاہ بنانے میں کامیاب رہا تھا۔ اس سب کے باوجود امریکہ کی نظریں ایک لمحے کے لیے بھی، پاکستانی فوج کی طاقت سے درپیش ممکنہ سٹرٹیجک خطرات سے نہیں ہٹتی ہیں۔ اسی لئے 13 اکتوبر 2022 کو امریکی صدر بائیڈن نے پاکستان کو "دنیا کی خطرناک ترین قوموں میں سے ایک" قرار دیا، جیسا کہ وائٹ ہاؤس کی ویب سائٹ پر رپورٹ کیا گیا ہے(ذرائع)۔ یہ پاکستان میں فوجی اور سیاسی قیادت کی تمام تر خفیہ ایجنٹی اور امریکی پالیسیوں کی سہولت کاری کے باوجود ہے۔
5- جو امر پاکستان کی اہمیت میں اضافہ کرتا ہے وہ یہ ہے کہ چین جو کہ امریکہ کا سب سے نمایاں بین الاقوامی حریف ہے، پاکستان کو ایک خاص نظر سے دیکھتا ہے۔ وہ بھارت کے خلاف پاکستان کی حمایت کرتا ہے۔ چین پاکستان کو اسلحہ فراہم کرتا ہے۔ چین پاکستان میں بنیادی ڈھانچے، سڑکوں، بندرگاہوں اور صنعتوں کو سپورٹ کرنے کے لیے قرضوں اور کچھ گرانٹس کی شکل میں دسیوں ارب ڈالر کی سرمایہ کاری کرتا ہے۔ اگرچہ پاکستان میں کنٹرول اور اثر و رسوخ کی باگ ڈور امریکہ کے ہاتھ میں ہے لیکن امریکہ ان چینی کوششوں اور پاکستان میں سرمایہ کاری کو شک کی نگاہ سے دیکھتا ہے۔
6- ان حقائق کی روشنی میں پاکستان کے سیاسی واقعات پر غور کرتے ہوئے سب سے پہلی چیز جس کا ادراک کرنا چاہئے وہ یہ ہے کہ کفر کے سرغنہ امریکہ نے پاکستان کی فوج اور اس کی عسکری قیادت پر توجہ مرکوز کر رکھی ہے۔ یہ پاکستان کے اندر اس کے تسلط اور اثر و رسوخ کی کُنجی ہے۔ یہ پاکستان کی فوج اور اس کی فوجی قیادت پر امریکی کنٹرول کے بڑے نتائج میں سے ہے کہ پاکستان نے بھارت کے ساتھ تنازعات اور جنگ سے دوری اختیار کر لی ہے۔ ایسا کشمیر میں مسلسل بھارتی اشتعال انگیزیوں کے باوجود ہے، جن کی تعداد میں اضافہ ہو رہا ہے۔ ان نتائج میں، خانہ جنگی میں پاکستانی فوج کا طرزعمل اور فوج کی طرف سے شمال مغربی پاکستان میں جنگ کی آگ بھڑکانا بھی شامل ہے تاکہ ان مجاہدین کو ختم کیا جا سکے جو افغانستان پر امریکی قبضے کے دوران افغانستان میں اپنے بھائیوں کی حمایت کر رہے تھے۔ افغانستان کے ساتھ وقتاً فوقتاً ہونے والی جھڑپیں، ان جھڑپوں کے علاوہ یہ بھی ہے کہ افغانستان پر امریکی حملے کے دوران تمام امریکی سپلائی لائن پاکستانی دروازے سے گزر رہی تھی۔ چنانچہ پاکستان کی فوجی قیادت پر امریکی کنٹرول ہی پاکستان کو امریکہ کی ایجنٹ ریاست بناتا ہے۔
7۔ پاک فوج ہی مکمل طور پر ملک کی باگ ڈور سنبھالتی ہے۔ یہ ملک کے سیاسی نظام کے ساتھ ساتھ سیاسی جماعتوں کے اندر بھی مداخلت کرتی ہے۔ جب بھی معاملات کنٹرول سے باہر ہونے لگتے ہیں تو پاک فوج عسکری بغاوت کے ذریعے مداخلت کر کے حکمران کا تختہ اُلٹ دیتی ہے۔ روایتی طور پر ملک میں دو سیاسی جماعتیں حکومت کرتی ہیں، جن میں سے ایک پاکستان مسلم لیگ-نواز گروپ ( PML-N) اور دوسری پاکستان پیپلز پارٹی (PPP) ہے۔ اول الذکر کو دائیں بازو کی جماعت کے طور پر دیکھا جاتا ہے جبکہ آخرالذکر جماعت کو بائیں بازو کی جماعت سمجھا جاتا ہے۔ پاکستان مسلم لیگ (ن) کو صوبہ پنجاب میں بھاری حمایت حاصل ہے جبکہ پیپلز پارٹی کا صوبہ سندھ میں پلڑا بھاری ہے۔دونوں ہی جماعتوں کو تاریخ میں ناکامی کا سامنا رہا ہے۔ دونوں جماعتوں کے رہنما کرپشن میں ڈوبے ہوئے ہیں جبکہ ان کی قیادت پاکستان میں جاگیرداروں کی طرح کام کرتی ہے۔ تاہم، اس دائمی ناکامی اور پاکستان کے اندر پائے جانے والے شدید غم و غصہ کے پیشِ نظر، جو کہ لوگوں کو سیاسی اسلام کی وکالت کرنے والی تحریکوں کی طرف راغب کر رہا ہے، پاک فوج نے اصول تبدیل کرنے کا فیصلہ کیا۔ لہٰذا پاک فوج نے عمران خان کو کھڑا کیا جو اس وقت اگرچہ ایک بڑی جماعت کے رہنما تو نہ تھے لیکن ان کی آواز کرپشن کے خلاف سب سے زیادہ بلند تھی۔ سابق وزیر اعظم اور مسلم لیگ (ن) کے قائد نواز شریف کے خلاف بڑے الزامات اور عدالتی کارروائیوں کے بعد پی ٹی آئی پارلیمانی ووٹوں پر غالب رہی۔ اور یوں 2018 میں عمران خان وزیر اعظم بن گئے۔
8- اس عرصے کے دوران پاکستان کی عدالتیں کرپشن کے الزامات میں سابق حکمران نواز شریف کے کیسز کی پیروی کر رہی تھیں۔ سپریم کورٹ کی جانب سے نواز شریف کو ٹیکس چوری سے متعلق کرپشن کے الزامات میں سزا سنائے جانے کے بعد نواز شریف نے جون 2017 میں اپنے عہدے سے استعفیٰ دے دیا تھا۔ سپریم کورٹ نے نواز شریف کو عہدے پر رہنے کے لیے نااہل قرار دے دیا۔ اور انہیں کرپشن کے الزام میں جولائی 2018ء میں دس سال قید کی سزا سنائی گئی۔ روئٹرز نے 17 اکتوبر 2020 کو رپورٹ کیا کہ، “ہفتے کے روز پاکستان کے سابق وزیر اعظم نواز شریف نے ان کی حکومت گرائے جانے، عدلیہ پر دباؤ ڈالنے اور 2018 کے انتخابات میں وزیر اعظم عمران خان کی موجودہ حکومت کو قائم کرنے کے لئے ملک کے آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ پر الزامات لگائے"(ذرائع)۔ یہ سب کچھ، نواز شریف کا تختہ الٹنا، ان کا ٹرائل اور ان کا پاکستان میں جیل کی سلاخوں کے پیچھے ہوتے ہوئے انتخابات کا انعقاد، پاک فوج کا فیصلہ تھا۔ پاکستان کی دو روایتی جماعتوں سے کہیں ہٹ کر عمران خان کو لے کر آنا بھی پاک فوج کا ہی فیصلہ تھا۔
9- نواز شریف جو کہ جیل کی سزا کاٹ رہے تھے، انہیں علاج معالجے کے لئے برطانیہ جانے کی اجازت دے دی گئی۔ یہ ان کے ساتھ ایک معاہدے کے تحت ہوا تھا کہ وہ علاج کے بعد اپنی سزا پوری کرنے کے لیے پاکستان واپس آئیں گے ... تاہم، جب پاکستانی فوج نے عمران خان کا تختہ الٹ دیا، جس کی وضاحت ہم نے 5 شوال 1443ھ بمطابق 5مئی 2022ء کو "امریکہ اور اس کے ایجنٹوں میں تبدیلی" کے عنوان سے ایک سوال و جواب میں کی ہے، تو پاک فوج نے نواز شریف کی وطن واپسی کی راہ میں حائل تمام قانونی رکاوٹوں کو دور کرنا شروع کر دیا۔ 2022 میں عمران خان کا تختہ الٹنے کے بعد نواز شریف کے بھائی شہباز شریف کو وزیر اعظم بنا دیا گیا۔ نیز اس کے علاوہ ایک وفاقی عدالت نے نواز شریف کی ملک واپسی سے قبل انہیں ضمانت پر رہا کرنے کا حکم جاری کر دیا۔ بعد ازاں جون 2023ء میں پارلیمنٹ نے ایک قانون جاری کیا جس میں قومی اسمبلی کے رکن کو نااہل کرنے کی میعاد زیادہ سے زیادہ پانچ سال مقرر کی گئی اور اس کے بعد وہ تاحیات نااہل ہو گا۔ یوں اس طرح سے نواز شریف کو ملک واپس آنے اور خود کو نامزد کرنے کا موقع ملا، چنانچہ وہ واپس آگئے۔ نواز شریف بیرون ملک سے واپس آئے اور اپنے اوپر لگے الزامات سے بری ہونے اور انتخابات میں حصہ لینے کی تیاری کے سلسلے میں عدلیہ کے سامنے پیش ہو گئے۔ دی انڈیپنڈنٹ نے 21 اکتوبر 2023 کو رپورٹ کیا کہ، "اسلام آباد ہائی کورٹ نے جمعرات کو ان کی واپسی سے چند دن قبل ہی گرفتاری سے بچاؤ فراہم کر دیا تھا" (ذرائع)۔ دراصل ایسا ہی ہوا! نواز شریف ایک بار پھر "شفاف" سیاستدان بن گئے۔ انہوں نے اپنی جماعت، پاکستان مسلم لیگ (ن) پارٹی کے ساتھ انتخابات میں حصہ لیا، جبکہ انوار الحق کاکڑ بطور نگران وزیر اعظم انتخابات کی نگرانی کر رہے تھے۔ دی انڈیپنڈنٹ نے 10 فروری 2024 کو رپورٹ کیا کہ، "مسٹر شریف کی مسلم لیگ (ن) کو ان انتخابات میں فوج کی حمایت یافتہ جماعت کے طور پر لیا گیا، جو پاکستانی سیاست میں اسٹیبلشمنٹ کے بدترین حد تک ملوث ہونے کا ایک بڑا عنصر ہے۔ ملک میں بہت زیادہ شکوک و شبہات پائے جاتے ہیں کہ فوج اپنی ترجیحی جماعت کو بغیر کسی مداخلت کے حکومت سے باہر ہونے کی اجازت نہ دے گی" (ذرائع)۔ ڈان اخبار نے 13 اکتوبر 2023ء کو رپورٹ کیا کہ، " قومی اسمبلی کے سپیکر راجہ پرویز اشرف کی جانب سے 21 اکتوبر کو سابق وزیر اعظم کی واپسی کے حوالے سے "شریفوں اور متعلقہ حلقوں کے درمیان کچھ مفاہمت" کے ذکر کے بعد، پنجاب سے تعلق رکھنے والے پیپلز پارٹی کے ایک اور سینئر رہنما نے ایک مجرم کو 'سرکاری پروٹوکول' دینے کے منصوبے پر احتجاج درج کرایا ہے .. دوسری جانب عمران خان کی جماعت، پاکستان تحریک انصاف نے نواز شریف کی وطن واپسی کو ’’ایک خفیہ ڈیل‘‘ کا نتیجہ قرار دیا ہے" (ذرائع)۔
10- مذکورہ بالا تفصیلات نواز شریف کے بارے میں ہیں۔ جہاں تک عمران خان کا تعلق ہے تو آج وہ جیل میں متعدد الزامات کے تحت سزا کاٹ رہے ہیں۔ ان کی سزا کے باعث عمران خان کو انتخابات میں حصہ لینے سے روک دیا گیا تھا، جبکہ ان کی جماعت، پاکستان تحریک انصاف کو بھی بطور سیاسی جماعت انتخابات میں حصہ لینے سے روک دیا گیا۔ اس طرح یہ واضح ہو جاتا ہے کہ پاکستان میں سیاسی بساط کس طرح بدل چکی ہے۔ آج 2024 میں فوج عمران خان کے خلاف ہو چکی ہے۔ اور عمران اب بالکل اسی پوزیشن میں ہے جس میں نواز شریف 2018ء میں تھے۔ جہاں تک نواز شریف کا تعلق ہے، تو جیسا کہ ہم واضح کر چکے ہیں کہ وہ خود پر سے تمام رکاوٹیں ہٹ جانے کے بعد نمایاں طور پر واپس آئے ہیں۔ ان تمام باتوں سے یہ واضح ہو جاتا ہے کہ پاکستانی فوج کی قیادت کس طرح پارلیمانی انتخابات میں جوڑ توڑ کرتی ہے۔ یہ واضح ہو جاتا ہے کہ پاکستانی فوج ان سیاسی جماعتوں کے ساتھ کس طرح جوڑ توڑ کرتی ہے جو اقتدار حاصل کرنے کے لیے اس کی منظوری لیتی ہیں۔ یہ کوئی ڈھکی چھپی بات نہیں ہے۔ ایک آرمی چیف نے نواز شریف کو جیل میں قید کیا اور عمران خان کو لے آیا... پھر ایک اور آرمی چیف نے عمران خان کو جیل میں ڈالا اور نواز شریف کو واپس لے لایا! پس اس طرح سیاسی پارٹی کے رہنماؤں میں سے، مصنوعی سیاستدانوں کو حکمرانی کی ایک متزلزل نشست کی خاطر امریکہ کی خواہشات کے مطابق جوڑ توڑ کیا جاتا ہے! پھر جب ایسے لیڈر کا کردار ختم ہو جاتا ہے تو اسے یا تو ایک طرف پھینک دیا جاتا ہے یا پھر جیل کی سلاخوں کے پیچھے ڈال دیا جاتا ہے!
11- فوجی قیادت اکیلے ہی ریاست کو کنٹرول کرتی ہے، اور اسی لیے کئی طریقوں سے انتخابات کو بھی کنٹرول کرتی ہے۔ یہ ایک معلوم شدہ بات ہے کہ کچھ علاقوں میں مواصلات اور انٹرنیٹ منقطع رہا تھا۔ ریاست کی جانب سے یہ کہا گیا کہ انتخابات کے دن افراتفری اور بدامنی کو روکنے کے مقصد کے لیے ایسا کیا گیا تھا! ریاست مردم شماری کی بنیاد پر انتخابی اضلاع کا تعین کرنے کے معاملے پر بھی اپنی اجارہ داری رکھتی ہے۔ اس نقطہ نظر سے جن جماعتوں کا ان اضلاع میں انتخابی وزن زیادہ ہو تو ریاست مخصوص جماعتوں کے حق میں اضلاع میں اضافہ، یا کمی کر سکتی ہے ! حالیہ مردم شماری کی بنیاد پر انتخابی اضلاع کی ازسر نو تشکیل کے بہانے انتخابات اگست 2023 سے فروری 2024 تک ملتوی کر دیے گئے تھے۔ اس طرح سے پارٹیوں کے رہنما، جو باری باری اقتدار میں آتے ہیں، سب پر یہ لازم ہوتا ہے کہ وہ امریکہ کے تابع فرمان رہیں اور واشنگٹن کی خدمت کرتے رہیں۔ جو بھی امریکی لائن سے انحراف کرتا ہے، یا ایسا کرنے کی کوشش کرتا ہے، یا پاک فوج کے ساتھ مخالفت کرتا ہے، تو اس کے خلاف سازشوں کے جال بُنے جاتے ہیں جیسا کہ ہم دیکھ چکے ہیں۔ اس کے خلاف کرپشن کے مقدمات عائد کئے جاتے ہیں یہاں تک کہ وہ سلاخوں کے پیچھے نہ چلا جائے۔ اس لیے یہ تمام جماعتیں فوج کی قیادت کی چھتری تلے ہی کام کرتی ہیں۔ اور یہ ایک ایسی قیادت ہے جو کہ امریکہ کی ایجنٹ ہے۔ یہ جماعتیں صرف مقامی طور پر آپس میں مقابلہ کر سکتی ہیں، تاکہ پاک فوج ان میں سے تقرری کے لیے موزوں ترین شخص کا انتخاب کر سکے...
12- پھر، فوجی قیادت انتخابی نتائج کو آگے پیچھے کرنے کی اجازت دے کر یہ ظاہر کرنے کی کوشش کرتی ہے کہ جیسے نتائج کو کنٹرول کرنے سے اس کا کوئی واسطہ نہیں ہے! دی انڈیپنڈنٹ نے 10 فروری 2024 کو رپورٹ کیا کہ، "سابق وزیر اعظم نواز شریف اور جیل میں بند سابق وزیر اعظم عمران خان دونوں نے عام انتخابات میں کامیابی کا دعویٰ کیا ہے"(ذرائع)۔ پی ٹی آئی کا خیال ہے کہ جیتنے والے 101 آزاد امیدواروں میں سے اکثریت اس کے پیروکاروں کی ہے، جو کسی بھی جماعت کی حاصل کردہ نشستوں کی تعداد سے بھی زیادہ ہیں۔ اور اس لیے حکومت سازی کے عمل کی قیادت کرنے کا اسے اہل بناتا ہے۔ تاہم، نواز شریف کی قیادت میں مسلم لیگ (ن)، جس نے قومی اسمبلی میں 75 نشستیں حاصل کیں،ان کا کہنا ہے کہ وہ انتخابات میں فاتح ہیں۔ آرمی چیف کے انتخابات سے متعلق بیان میں اس کا حوالہ دیا گیا ہے۔ فوج کے میڈیا ونگ، آئی ایس پی آر نے رپورٹ کیا کہ آرمی چیف نے کہا، "قوم کو انتشار اور پولرائزیشن کی سیاست سے آگے بڑھنے کے لیے مستحکم ہاتھوں اور شفا بخش رابطے کی ضرورت ہے"(ذرائع)۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ عمران خان کی پارٹی پی ٹی آئی ، آزاد امیدواروں کے ذریعے پارلیمانی نشستوں کی ایک بڑی تعداد حاصل کرنے کے باوجود حکومت نہیں بنا سکے گی کیونکہ آزاد امیدواروں کی نشستیں سرکاری طور پر آزادوں کی بنتی ہیں، نہ کہ کسی سیاسی جماعت کی۔ لہٰذا، نواز شریف کی پارٹی ہی وہ پارٹی ہے جو دوسری جماعتوں کے ساتھ اتحاد کے ذریعے حکومت سازی کے عمل کی قیادت کرنے کا "قانونی" حق رکھتی ہے۔
13- بعض عہدیداروں نے اعتراف کیا کہ انتخابات میں دھاندلی ہوئی ہے۔ الجزیرہ نے 17 فروری 2024 کو رپورٹ کیا کہ، "پاکستان میں ایک سینئر بیوروکریٹ نے کہا ہے کہ اس نے پاکستان کے انتخابات میں دھاندلی میں مدد کی، یہ بات انہوں نے اس وقت کہی جب ہیرا پھیری کے الزامات سے متاثر ہونے والے انتخابات کے ایک ہفتے بعد تک کوئی واضح جیت سامنے نہیں آ سکی"... اُس نے صحافیوں کو بتایا"ہم نے 13 قومی اسمبلی کی نشستوں پر 70,000 ووٹوں کے مارجن کو تبدیل کرتے ہوئے ہارنے والوں کو فاتح میں تبدیل کر دیا"... پاکستان کے ڈان نیوز کے مطابق، کمشنر نے اعتراف کیا کہ وہ "میگا الیکشن دھاندلی 2024 جیسے سنگین جرم میں گہرا ملوث تھا"۔ دریں اثنا، پاکستان کے الیکشن کمیشن نے کمشنر چٹھہ کے الزامات کو مسترد کر دیا، لیکن ایک بیان میں کہا کہ وہ "انکوائری کریں گے"۔ ایک نیوز ریلیز میں، انتخابی نگران نے یہ بھی کہا کہ اس کے کسی بھی اہلکار نے چٹھہ کو "انتخابی نتائج میں تبدیلی" کے لیے کبھی کوئی ہدایات جاری نہیں کیں (ذرائع)۔ ان تمام باتوں کے باوجود آرمی چیف نواز شریف کو جیل سے رہا کرنے اور انہیں اپنی پارٹی کی سربراہی کے لیے انتخاب لڑنے کی اجازت دینے کے بعد، وزیراعظم کے دفتر میں ان کے لیے میدان تیار کر رہے ہیں۔برطانوی خبررساں ادارے رائٹرز نے 19 فروری 2024ء کو رپورٹ کیا کہ پاکستان کی دو بڑی سیاسی پارٹیاں مسلم لیگ اور پیپلز پارٹی پیر کو ملاقات کریں گی"، پارٹی کے ایک اعلیٰ عہدیدار نے سیاسی اور اقتصادی عدم استحکام کی نشاندہی کرتے ہوئے کہا...اس ملاقات کا مقصد غیر نتیجہ خیز انتخابات کے بعد اقلیتی مخلوط حکومت کی تشکیل پر اختلافات کو ختم کرنے کی کوشش ہے ...پیر کو ہونے والا مذاکرات اس قسم کے مذاکرات کا پانچواں دور ہو گا... سابق وزیر خارجہ بلاول بھٹو زرداری کی پاکستان پیپلز پارٹی (پی پی پی) نے مسلم لیگ (ن) کی مشروط حمایت کا اعلان کرتے ہوئے کہا ہے کہ وہ حکومت بنانے کے لیے شریف کو ووٹ دے گی، لیکن کابینہ میں عہدے نہیں لیں گے... نئی حکومت کو پارلیمنٹ کے آزاد ارکان کے ساتھ مزید سیاسی تناؤ کا بھی سامنا کرنا پڑ سکتا ہے، یہ آزاد ارکان جیل میں بند سابق وزیر اعظم عمران خان کے حمایت یافتہ ہیں اور مقننہ میں سب سے بڑا گروپ بن رہے ہیں" (ذرائع)۔یوں فوجی قیادت آج جسے چاہتی ہے فاتح بنا دیتی ہے اور کل اسی کو ہارنے والا اور قیدی بنا ڈالتی ہے... اور یوں یہ سلسلہ چلتا رہتا ہے! اللہ سبحانہ وتعالیٰ نے فرمایا،
﴿أَلَا سَاءَ مَا يَحْكُمُون﴾
"بے شک ان کا فیصلہ بہت برا ہے"( سورۃ النحل؛ 16:125)۔
14- جہاں تک پاکستان کی حکومت، جو کہ امریکہ کی ایجنٹ فوجی قیادت ہے، کی جانب سے اس گہرے انتخابی نتائج پر اثر انداز ہونے کا تعلق تو سیاسی انتشار کا ماحول ہے، جو جاری رہ سکتا ہے اور ملک کے استحکام کو نقصان پہنچا سکتا ہے... یہ سب صورتحال پاکستان کی فوج میں اور پاکستان کے عوام میں موجود مخلص افراد کے لیے ایک مضبوط محرک ہونی چاہیے، کہ وہ ملک کو امریکہ کی غلامی سے نکالنے کے لیےاٹھ کھڑے ہوں... یہ صرف اللہ کی حکمرانی، خلافت راشدہ کے قیام سے ہی ممکن ہے۔ خلافت اللہ سبحانہ و تعالیٰ کا وعدہ ہے۔ اللہ سبحانہ و تعالیٰ نے فرمایا،
﴿وَعَدَ اللّٰهُ الَّذِيۡنَ اٰمَنُوۡا مِنۡكُمۡ وَ عَمِلُوا الصّٰلِحٰتِ لَـيَسۡتَخۡلِفَـنَّهُمۡ فِىۡ الۡاَرۡضِ كَمَا اسۡتَخۡلَفَ الَّذِيۡنَ مِنۡ قَبۡلِهِمۡ ﴾
"جو لوگ تم میں سے ایمان لائے اور نیک کام کرتے رہے ان سے خدا کا وعدہ ہے کہ کہ ضرور انہیں زمین میں خلافت دے گا جیسا ان سے پہلے لوگوں کو دی تھی"(النور، 24:55)۔
خلافت رسول اللہ ﷺ کی بشارت ہے، جو موجودہ ظالمانہ دورِحکومت کے بعد آئےگی جس میں ہم اس وقت رہ رہے ہیں۔ حذیفہؓ کہتے ہیں کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا،
«ثُمَّ تَكُونُ مُلْكاً جَبْرِيَّةً فَتَكُونُ مَا شَاءَ اللهُ أَنْ تَكُونَ ثُمَّ يَرْفَعُهَا إِذَا شَاءَ أَنْ يَرْفَعَهَا ثُمَّ تَكُونُ خِلَافَةً عَلَى مِنْهَاجِ النُّبُوَّةِ ثُمَّ سَكَتَ»
’’پھر ظالمانہ دورِ حکومت ہوگا ، اس وقت تک رہے گا جب تک اللہ چاہے گا۔ پھر جب وہ چاہے گا اسے ختم کردے گا۔ پھر نبوت کے نقش قدم پر خلافت ہو گی۔' پھر آپﷺ خاموش ہو گئے“ احمد نے اسے روایت کیا۔
اس عظیم فریضہ کی انجام دہی کے لئے پوری امت اسلامیہ کے لوگوں سے توقع کی جاتی ہے ، خاص طور پر پاکستان سے، کیونکہ پاکستان اسلام کی بنیاد پر قائم ہوا ہے، اور اس کے عوام اور اس کی فوج دونوں ہی اسلام اور مسلمانوں سے محبت کرتے ہیں۔
پاکستان کے حکمرانوں اور اس کی عسکری قیادت کا امریکہ سے تعلق کو تبدیل کرنا اللہ سبحانہ و تعالیٰ کے لیے آسان ہے جبکہ ان حکمرانوں کے لیے امت کی اسلام سے محبت کو بدلنا ممکن نہیں ہے۔ پس اچھا نتیجہ نیک لوگوں کے لیے ہے اگر وہ ایماندار ہوں، تندہی سے کام کریں، اور اللہ سبحانہ وتعالیٰ کی نصرت کے لیے کوشش کریں، کیونکہ اللہ سبحانہ و تعالیٰ ان کا حامی ہے۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا،
﴿وَسَيَعْلَمُ الَّذِينَ ظَلَمُوا أَيَّ مُنْقَلَبٍ يَنْقَلِبُونَ﴾
"اور ظالم عنقریب جان لیں گے کہ کون سی جگہ لوٹ کر جاتے ہیں“ (الشوریٰ، 26:227)۔
10 شعبان 1445ہجری
بمطابق20 فروری 2024 عیسوی
#امیر _حزب_التحریر
Latest from
- عالمی قانون کا انہدام ...اور ان دنیا والوں کی ناامیدی...
- بچوں کو اغوا کرنے اور ان پر تجربات کرنے کی”اسرائیلی“ قبضے کی ایک لمبی داستان موجود ہے
- امریکی قیادت اور نگرانی میں: ایران کی صفوی حکومت اور یہودی وجود...
- شنگھائی تعاون تنظیم امریکن ورلڈ آرڈر کا حصہ ہے
- استعماری طاقتوں کی تنظیمیں ہماری سلامتی اور خوشحالی کی ضامن نہیں ہو سکتیں