بسم الله الرحمن الرحيم
سوال و جواب
مالی- نائیجر- برکینا فاسو کا سہ فریقی اتحاد
سوال:
بروز ہفتہ، 6 جولائی 2024، برکینا فاسو، نائیجر، اور مالی کے فوجی رہنماؤں نے نائیجر کے دارالحکومت نیامی میں منعقد کردہ ایک اجلاس کے دوران ایک کنفیڈریشن معاہدے پر دستخط کرنے کا اعلان کیا۔ کیا اس اعلان کے پس پردہ کوئی بین الاقوامی طاقت ہے؟ اور اگر ایسا ہے، تو وہ کون سا ملک ہے جس کے ساتھ ان کی وفاداری ظاہر ہو رہی ہے؟ یا یہ کنفیڈریشن اتحاد ان ممالک کا ایک خودمختار اقدام ہے؟ آپ کا بہت شکریہ۔
جواب:
اس کے جواب کی وضاحت کے لیے، ہم درج ذیل نکات پر غور کریں گے:
1۔ 2020 سے 2023 کے دوران رونما ہونے والے انقلابوں کے بعد، ان تینوں ممالک نے امریکہ کے ساتھ وفاداری اختیار کر لی ہے اور اس کے احکامات کی تعمیل کر رہے ہیں ! یہ بات ہم نے درج ذیل سوالوں کے جوابات میں واضح کی تھی: 1 ستمبر 2020 کو مالی میں اسیمی غویتا کی قیادت میں انقلاب پر سوال، 7 فروری 2023 کو برکینا فاسو میں ابراہیم تراؤري کی قیادت میں انقلاب پر سوال، اور 15 اگست 2023 کو نائیجر میں عبد الرحمٰن تشیانی کی قیادت میں انقلاب پر سوال ... اور یہ تینوں علاقے اسلامی ممالک ہیں:
ا۔ مالی: یہ ایک اسلامی ملک ہے جہاں اسلام 11ویں صدی میں پہنچا، اور یہ اب بھی غالب دین ہے یعنی اسلام۔ مالی کی آبادی میں تقریباً 90% مسلمان ہیں، تقریباً 5% عیسائی ہیں، اور 5% دیگر مذاہب کے لوگ ہیں۔ اس کا دارالحکومت باماکو ہے۔
ب۔ برکینا فاسو: یہ مغربی افریقہ میں واقع ہے اور ایک اسلامی ملک ہے۔ 2006 کی مردم شماری کے مطابق، 60.5% سے زیادہ آبادی مسلمان ہے، تقریباً 23% آبادی عیسائی ہے، اور باقی دیگر مذاہب کے پیروکار ہیں۔ اس کا رقبہ 274,200 مربع کلومیٹر ہے، آبادی 21,510,181 نفوس ہے، اور معیشت کا انحصار زراعت پر ہے۔ برکینا فاسو کا دارالحکومت اوغادوگو ہے جو اس کا سب سے اہم شہر تصور ہوتا ہے۔
ج۔ نائیجر: یہ مغربی افریقہ میں واقع ہے اور اس کا نام نائیجر دریا پر رکھا گیا ہے جو اس کے علاقوں سے گزرتا ہے۔ اس کی سرحدیں جنوب میں نائجیریا اور بینن، مغرب میں برکینا فاسو اور مالی، شمال میں الجزائر اور لیبیا، جبکہ مشرق میں چاڈ سے ملتی ہیں۔ نائیجر کا رقبہ تقریباً 1,270,000 مربع کلومیٹر ہے، نائیجر ایک اسلامی ملک ہے اور اسلام اس کی اکثریت کا مذہب ہے اور 99.3% سے زیادہ آبادی مسلمان ہے۔ اسلام 15 ویں صدی میں نائیجر کے مغرب میں سونگھائی سلطنت کے پھیلاؤ اور مغربی عرب اور مصر سے صحرا کے راستے تجارت کے اثر و رسوخ کے ذریعے اس جگہ پھیلا جسے اب نائیجر کہتے ہیں۔ اس کا دارالحکومت نیامی ہے۔
اس طرح، مالی، نائیجر، اور برکینا فاسو میں 2020 سے 2023 کے درمیان ہونے والی بغاوتیں امریکہ کے ساتھ ہم آہنگ اور اس کی حمایت سے تھیں۔
2۔ 16 ستمبر 2023 کو، تین ممالک نے "ساحل ممالک کا اتحاد" قائم کیا تاکہ نائیجر میں مغربی افریقی ریاستوں کی اقتصادی برادری ((ECOWAS کی جانب سے ممکنہ فوجی مداخلت کے خلاف مشترکہ دفاعی فورس بنائی جا سکے : (مالی کے صدر، کرنل ٵسیمی غویتا، نائیجر کے جنرل عبد الرحمٰن تشیانی، اور برکینا فاسو کے کیپٹن ابراہیم تراوري نے ستمبر 2023 مٰں ایک چارٹر پر دستخط کیے جس سے متعلق مالی کے وزیر خارجہ، عبداللہ دیوپ نے کہا کہ یہ "تینوں ممالک کے درمیان فوجی اور اقتصادی کوششوں کا مجموعہ ہو گا"۔
16 ستمبر 2023 کو مالی، برکینا فاسو، اور نائیجر کے رہنماؤں نے ایک مشترکہ معاہدے پر دستخط کیے جس میں "ساحل ممالک کا اتحاد" قائم کرنے کی بات کی گئی۔ اس معاہدے کا بنیادی مسودہ 17 دفعات پر مشتمل ہے، جن میں سے پہلی دفعہ میں اسے "لیپٹاکو-گورما چارٹر" کے نام سے موسوم کیا گیا ہے، اور یہ بیان کیا گیا ہے کہ "معاہدہ کرنے والے فریقین نے ساحل ممالک کے اتحاد کے قیام پر اتفاق کیا ہے، جسے مختصر نام 'AES' سے جانا جائے گا"۔ دوسری دفعہ میں اس معاہدے کا مقصد "اجتماعی دفاع اور فریقین کے درمیان باہمی مدد کے لیے ایک ڈھانچے کی تشکیل" بتایا گیا ہے۔ معاہدے کی دفعہ 6 میں کہا گیا ہے کہ "اگر کسی فریق کی خود مختاری یا علاقائی سالمیت پر کوئی حملہ ہوتا ہے تو یہ دوسرے فریقین کے خلاف حملہ سمجھا جائے گا، اور اس کے نتیجے میں باہمی مدد لازمی ہو گی، جس میں امن بحال کرنے کے لیے مسلح قوت کا استعمال بھی شامل ہے"۔ معاہدے کی دفعہ نمبر 11 میں بیان کیا گیا ہے کہ "یہ اتحاد ہر اس ملک کے لیے کھلا ہے جو جغرافیائی، سیاسی، سماجی، اور ثقافتی حقائق میں ان تین ممالک سے مناسبت رکھتا ہے اور اتحاد کے مقاصد کو تسلیم کرے"۔ (الجزیرہ سینٹر فار اسٹڈیز 2024-06 -25)
دفعہ 6 اور دفعہ 11 سے واضح ہوتا ہے کہ اس اتحاد کا مقصد غیر ملکی فوجی مداخلت، خاص طور پر فرانسیسی مداخلت، کا مقابلہ کرنا ہے جو کہ مغربی افریقی ریاستوں کی اقتصادی برادری ((ECOWAS کے ذریعے ہو سکتی ہے۔ اس اتحاد کا مقصد یہ بھی ہے کہ کسی ایک ملک پر اگر فرانسیسی بیرونی فوجی حملہ ہو تو باقی ممالک اس کے ساتھ فوجی طور پر کھڑے ہوں گے۔ دوسرا مقصد یہ ہے کہ مغربی افریقی ریاستوں کی اقتصادی برادری میں تقسیم پیدا کی جائے جیسا کہ دفعہ 11 سے پتہ چلتا ہے اور اس کمیونٹی کے تحت شامل ممالک کو اس نئے اتحاد میں شامل ہونے کی ترغیب دی جائے۔
3۔ 6 جولائی 2024 کو، مالی، نائیجر، اور برکینا فاسو نے ایک کنفیڈریشن اتحاد قائم کرنے کا اعلان کیا۔ یہ کنفیڈریشن اتحاد کا معاہدہ 6 جولائی 2024 کو نائیجر کے دارالحکومت، نیامی میں دستخط کیا گیا، اور یہ "ساحل ممالک کے اتحاد" کے معاہدے کی تکمیل کے طور پر ہوا جس پر پہلے اجلاس میں دستخط ہوئے تھے۔ (برکینا فاسو، مالی، اور نائیجر نے جو کہ افریقی ساحل کے علاقے میں واقع ہیں، آج ہفتے کو "کنفیڈریشن" کے طرز کا اتحاد کرنے کا اعلان کیا۔ تینوں ممالک نے نیامی یعنی نائیجر کے دارالحکومت میں اپنے پہلے اجلاس کے دوران ایک اختتامی بیان میں کہا کہ ان کے رہنماؤں نے "ممبر ممالک کے درمیان مزید گہرے انضمام کی طرف ایک اضافی مرحلہ عبور کرنے کا فیصلہ کیا ہے اور اس مقصد کے لیے، انہوں نے برکینا فاسو، مالی، اور نائیجر کے درمیان ساحل ممالک کی کنفیڈریشن بنانے کا ایک معاہدہ کیا ہے۔۔۔۔ متحدہ عرب امارات کا اخبار، الاتحاد، 2024-07-06)
4۔ اگرچہ امریکہ کی طرف سے کوئی براہ راست بیان نہیں آیا، لیکن تمام اشارے یہ بتاتے ہیں کہ اس "ساحل ممالک کے اتحاد" کی تشکیل کے پس پردہ امریکہ ہی ہے۔ امریکہ کی ایک طرف خواہش ہے کہ یہ کنفیڈریشن اس کے ایجنٹس کو ECOWAS کی طرف سے عائد کی جانے والی سزاؤں سے بچائے، خاص طور پر چونکہ تینوں ممالک ہر طرف سے زمین سے گھرے ہوئے ہیں اور سمندر تک رسائی نہیں رکھتے جو ان کی تجارت کو مشکل بنا رہا ہے۔ دوسری طرف، امریکہ یہ چاہتا ہے کہ یہ اتحاد، ECOWAS، جو کہ فرانس اور برطانیہ کے زیرِ اثر ہے، کے مقابلے کا ایک اتحاد ہو۔ درحقیقت، کنفیڈریشن کے قیام نے ECOWAS میں تنقید کی ایک لہر پیدا کر دی ہے اور اصلاحات کا مطالبہ سر اٹھانے لگا ہے، جس کا اظہار سینیگال کے صدر کے بیانات سے واضح ہوتا ہے، یعنی ECOWAS سے کنفیڈریشن کی طرف ممالک کی منتقلی ممکن ہو چکی ہے۔
5۔ لہٰذا، یہ کنفیڈریشن کوئی اتفاقیہ نہیں ہے بلکہ امریکہ نے ان تینوں ممالک کے درمیان اسے قائم کیا ہے تاکہ وہ اپنی نوآبادیات کو برقرار رکھ سکے اور یورپ، خاص طور پر فرانس، کی مداخلت اور ان ممالک کو واپس اس کی نوآبادیات میں واپس جانے کو روک سکے۔۔۔۔ ان ممالک نے اتحاد سے پہلے جو اقدامات کیے ہیں، وہ بھی اس بات کی تصدیق کرتے ہیں، جن میں بعض درج ذیل ہیں:
ا - برکینا فاسو اور نائیجر نے نومبر 2023 میں "پانچ ساحلی ممالک کے گروپ" کی ورکنگ ٹیم سے اپنے انخلاء کا اعلان کیا۔ اسی طرح، مالی نے مئی 2022 میں "پانچ ساحلی ممالک کے گروپ" کی ورکنگ ٹیم سے علیحدگی کر لی تھی۔ (برکینا فاسو اور نائیجر نے ہفتے کے روز، مالی کے افریقی گروپ سے دستبرداری کے ڈیڑھ سال بعد، پانچ ساحل ممالک کے گروپ سے علیحدگی کا اعلان کیا۔ برکینا فاسو اور نائیجر کی حکومتوں کے مشترکہ بیان، جو سرکاری برکینا فاسو نیوز ایجنسی نے جاری کیا تھا، کے مطابق، "یہ فیصلہ خودمختاری پر مبنی ہے، اور یہ فیصلہ گروپ اور اس کے کام کو گہری نظر سے جانچنے کے بعد کیا گیا ہے۔" بیان میں مزید کہا گیا: "ساحلی ممالک کے مفادات کو نظر انداز کر کے، پانچ ساحلی ممالک کے گروپ کا، غیر ملکی مفادات کی خدمت کرنا اور کسی بھی طاقت کا دباؤ قبول نہیں ہے، چاہے وہ کسی دھوکہ دہی پر مبنی شراکت داری کے نام پر ہو جو ہمارے لوگوں اور ممالک کی خودمختاری کا حق نظرانداز کرتی ہو۔ اس لیے، برکینا فاسو اور نائیجر نے واضح طور پر اس تنظیم سے انخلاء کی تاریخی ذمہ داری اٹھائی ہے"۔ (انادولو ایجنسی، 03/12/2023)۔ (اتوار کو مالی کے فوجی کونسل نے ایک بیان میں اعلان کیا کہ ملک نے مغربی افریقہ کے ساحلی علاقے میں موجود ایک کثیر القومی فوجی فورس سے انخلاء کا فیصلہ کیا ہے، جو 2014 میں جہادیوں کے خلاف لڑنے کے لیے تشکیل دی گئی تھی۔ فوجی کونسل نے انخلاء کے فیصلے کی وجہ بتائی کہ مالی کو "پانچ ساحلی ممالک کے گروپ" کی قیادت سنبھالنے کی اجازت نہیں دی گئی۔ باماكو میں فروری 2022 میں اس گروپ کے رہنماؤں کا اجلاس ہونا تھا، جس میں ماریطانیہ، چاڈ، برکینا فاسو، اور نائیجر شامل تھے، لیکن مالی میں اندرونی عدم استحکام کی وجہ سے جو فوجی انقلاب کے نتیجے میں اقتدار میں آئی تھی، اس اجلاس کی میزبانی نہیں کی جا سکی۔ (فرانس-24 نیوز، 05/16/2022)
ب۔ مالی، نائیجر اور برکینا فاسو نے جنوری 2024 میں ECOWAS سے دستبرداری کا اعلان کیا تاکہ فرانس کے اثر و رسوخ سے چھٹکارا حاصل کیا جا سکے اور دہشت گردی کے خلاف جنگ کے بہانے اسے فوجی مداخلت کی اجازت نہ دی جا سکے۔ (مالی، برکینا فاسو اور نائیجر نے اتوار کو مغربی افریقی ریاستوں کی اقتصادی برادری ((ECOWASسے دستبرداری کا فیصلہ کیا)۔ یہ تینوں ساحل ممالک کی طرف سے جاری کردہ ایک مشترکہ بیان میں سامنے آیا، جن کی قیادت فوجی کونسل اور عبوری حکومتیں کر رہی ہیں۔ بیان میں کہا گیا ہے کہ تینوں ممالک "جلد سے جلد" ECOWAS سے دستبردار ہو جائیں گے، جو کہ 15 اراکین پر مشتمل ہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ ECOWAS، جس پر "غیر ملکی طاقتوں کے اثر و رسوخ کے تابع ہونے" اور "اپنے اصولوں سے غداری" کا الزام ہے، تینوں ممالک کے لیے "خطرہ" ہے... (انادولو ایجنسی، 2024-01-28)
6۔ یہ سب کچھ اس بات کی طرف اشارہ کرتا ہے کہ ان تین ممالک نے فرانس کے اثر و رسوخ اور ہدایات کے تحت موجود تمام تنظیموں سے علیحدگی کر لی ہے تاکہ فرانس کے اثر سے آزاد ہو سکیں۔ یہ ممکن نہیں کہ یہ ممالک بغیر امریکی حمایت کے بلکہ امریکی حکم کے بغیر، خودبخود انخلاء کر لیں۔ مثال کے طور پر "کنفیڈریشن" کا قیام امریکہ کی جانب سے ایک منصوبہ ہے تاکہ ECOWAS کو توڑا جائے یا اسے کمزور کیا جائے اور فرانس کے اثر کو ان تین اہم ممالک میں، جن کی مجموعی آبادی 70 ملین سے زائد ہے اور جن کے پاس توانائی اور معدنیات کے وسائل ہیں جنہیں فرانس کی کمپنیاں استحصال کرتی رہی ہیں، کمزور کیا جائے یا تبدیل کیا جائے۔ یہ "کنفیڈریشن " اور اس کے رہنماؤں کی اس نوعیت کی باتیں ساحلی علاقے کے مزید ممالک کو فرانس کے اثر و رسوخ سے باہر نکالنے کی دھمکی ہے۔ یہ حکومتیں فرانس کی استعماری لوٹ مار اور اس کے نتیجے میں شدید غربت اور حکام کے درمیان پھیلتے ہوئے شدید فساد کی وجہ سے انتہائی کمزور ہیں۔ یہ نئے حالات ان فوجیوں کو راغب کر رہے ہیں جن سے امریکہ، دہشت گردی کے خلاف مہم، تربیت، اور فوجی تعاون کے نام پر رابطہ رکھے ہوئے ہے۔ مجموعی طور پر، یہ کہا جا سکتا ہے کہ ان تین ممالک کے رہنماؤں کا فرانس کے خلاف سخت موقف فرانس کے اثر و رسوخ کے لیے سب سے بڑا چیلنج ہے، جو کہ گزشتہ دہائیوں سے محفوظ اور مستحکم تھا۔
7۔ اس طرح یہ بات واضح ہو جاتی ہے کہ اسلامی ممالک کے حکمران اپنے ممالک کا انحصار ایک استعمار سے دوسرے استعمار کو منتقل کر رہے ہیں، پس وہ فرانس سے منہ موڑ رہے ہیں جس نے مسلمانوں کی دولت کو لوٹا اور امریکہ کی طرف رخ کر رہے ہیں جو اب ان ممالک کی دولت کو لوٹے گا، جبکہ مسلمان بدحالی اور غربت میں رہیں گے، گویا مسلمان اپنے ملکوں پر حکومت کرنے کے قابل نہیں ہیں، حالانکہ یہ صورت حال تمام مسلم ممالک پر لاگو ہوتی ہے، لیکن یہ افریقی ممالک میں زیادہ شدید اور گہری ہے۔ اور جب جب مسلمانوں کی اپنے دین کے بارے میں آگاہی بڑھے گی اور ان کا یہ یقین بڑھے گا کہ اس سے لگاؤ رکھنا دنیا اور آخرت میں ان کی نجات کا راستہ ہے تو مسلمان اللہ تعالیٰ کو راضی کرنے کے قریب ہو جائیں گے، اس سے کافر استعمار کے خلاف ان کی نفرت بڑھے گی جس نے ان کی زمینوں کے وسائل پر قبضہ کیا ہوا ہے اور انہیں فقر و غربت میں مبتلا چھوڑ دیا ہے، اور مسلمانوں کو متحد کرنے والی اسلامی ریاست کے قیام کے ذریعے، مسلمانوں کی اپنا دین قائم کرنے اور اپنی اسلامی زندگی کو دوبارہ شروع کرنے کی کوششیں بڑھ جائیں گیں جو کہ نبوت کے طریقے پر قائم دوسری خلافت کی ریاست ہے، اور یہ اس جبری بادشاہت کے دور کے بعد ہوگا جس میں مسلمان ابھی زندگی گزار رہے ہیں۔ جب ہم دیکھتے ہیں کہ مسلمانوں کے صبر کا پیمانہ لبریز ہو چکا ہے تو ہمیں یقین ہو جاتا ہے کہ، ان شاء اللہ مسلمان اب اسلامی ریاست کو قائم کرنے، مسلم ممالک کو متحد کرنے اور تمام استعماری کفار ممالک کو اپنے ملکوں سے نکال باہر کرنے سے بس ایک ہی قدم دور ہیں، بلکہ وہ ان ممالک کے لیے ہدایت کا ذریعہ بنیں گے، اور یہ اللہ کے لیے کچھ مشکل نہیں ہے۔ رسول اللہ ﷺ کی حدیث ہے جو احمد نے حذیفہ رضی اللہ عنہ سے روایت کی ہے:
«...ثُمَّ تَكُونُ مُلْكاً جَبْرِيَّةً فَتَكُونُ مَا شَاءَ اللهُ أَنْ تَكُونَ ثُمَّ يَرْفَعُهَا إِذَا شَاءَ أَنْ يَرْفَعَهَا ثُمَّ تَكُونُ خِلَافَةً عَلَى مِنْهَاجِ النُّبُوَّةِ ثُمَّ سَكَتَ»
”... پھر جبر کی بادشاہت ہوگی، اور تب تک ہو گی جب تک اللہ چاہے گا، پھر جب اللہ چاہے گا اسے اٹھائے گا، پھر نبوت کے طریقے پر خلافت ہوگی، پھر آپ ﷺ خاموش ہو گئے “۔
18 محرم 1446 ھ
بمطابق24/07/2024