الجمعة، 29 ربيع الثاني 1446| 2024/11/01
Saat: (M.M.T)
Menu
القائمة الرئيسية
القائمة الرئيسية

بسم الله الرحمن الرحيم


 سوال کا جواب:

 امریکہ خلیج سربرہی کانفرنس

 سوال:

 امریکی صدر اوبا ما20 اپریل 2016 کو سعودیہ پہنچا۔ یہ 2009 میں صدارت کا منصب سنبھالنے کے بعد  اس کا چوتھا دورہ ہے۔ اس نے پہلی ملاقات سعودی بادشاہ سلمان آل سعود کے ساتھ کی جو ایک دن بعد ریاض میں ہونے والی امریکہ خلیج سربراہی کانفرنس  سے پہلے تھی۔ اس دورے کے بارے میں میڈیا میں  یہ پروپیگنڈا کیا گیا کہ اس سے خطے کے مسائل کو حل کرنے میں مدد ملے گی!  اختتامی بیان میں ان مسائل کا تذکرہ بھی کیا گیا جیسے شام، یمن، عراق، لیبیا  اور فلسطین۔۔۔یہ سب ایک ایسے وقت کہا جا رہا ہے جب  اوباما کا آخری سال  ہے اور مسائل کو حل کرنے  کی اس کی صلاحیت  کمزور ہوچکی ہے،پھر اس دورے کے مقاصد کو کیسے سمجھا جائے؟  اللہ آپ کو بہترین جزاء دے۔

 جواب:

 اوباما کے دورے سے قبل ہی امریکہ نے حل  کے منصوبے پیش کیے  تھے۔  شام کے لیے حل پیش کیا تھا اور  مذاکرات کے لیے ریاض کمیٹی بناتے وقت ہی اس  کی تو ثیق کی تھی، یمن کے لیے حل  پیش کیا تھا اور "فیصلہ کن طوفان" فوجی آپریشن کے وقت  اس کو سامنے لایا تھا کہ حوثی  حکومت میں شریک ہونے کے لیے  مزاحمت کا راستہ اختیار کریں گے ،  فلسطین کے لیے یہود کی ریاست کے اعتراف کی شکل میں حل وضع کیا تھا،  اسی طرح عراق اور لیبیا کے لیے بھی۔۔۔یوں امریکہ کے منصوبے اوباما کے مسائل کو حل کرنے کی صلاحیت کے کمزور ہونے سے قبل ہی وضع کیے گئے تھے!  اختتامی بیان میں ان مسائل کا ذکر  صرف بیان کے سطروں میں اضافے کے لیے کیا گیا تھا!

 دورے کا مقصد اور بنیادی اہداف  یہ نہیں تھے،  بلکہ دورے میں جو کچھ ہوا اس کے حوالے سے  جو وضاحت کی گئی اور جو اختتامی بیان جاری کیا گیا اس کو غور سے دیکھنے سے ۔۔۔اس کے بعد بیان کے دیباچہ  اور غیر اہم مسائل کا ذکر  بیان کے خلاء کو پُر کرنے کی کوشش سے، دورے کے اہداف واضح ہو جاتے ہیں کہ یہ  امریکی مفادات  اور خطے پر بالادستی کو برقرار رکھنے  پر توجہ مرکوزرکھنے اور اپنے ایجنٹوں کے معاملات کو ترتیب دینے کے لیے تھا۔۔۔یہ وہ امور ہیں  جو تمام امریکی صدور انجام دیتے ہیں چاہے  وہ طاقتور ہوں یا کمزور، خاص کر جب انہیں ایسے ایجنٹ میسر ہیں  جو اس کے لیے راہ ہموار کرتے ہوں! ان اہداف کو دو بنیادی باتوں میں سمیٹا جا سکتا ہے:

 1۔ خلیج کے خطے پر امریکی بالادستی کی ضمانت اور کسی اور کی بالادستی  کی راہ میں رکاوٹ ڈالنا خاص کر برطانیہ کی۔  اختتامی بیان پر غور کیا جائے ، جس کو22 اپریل2016 کو  الریاض اخبار نے شائع کیا ہے، تو اس سے یہ اچھی طرح معلوم ہو تا ہے  کہ اس کا مقصد یہی ہے۔  اس بیان کے بعض متعلقہ حصوں کا ہم ذکر کر کے اس پر تبصرہ کریں گے۔۔۔ بیان میں آیا ہے کہ : ۔۔۔" امریکہ اور خلیج تعاون کونسل کے سربراہوں نے کل ریاض میں  اجلاس منعقد کیا  تاکہ طرفین کے درمیان  اسٹریٹیجک شراکت کا اعادہ کیا جائے،  جس کا ہدف  خطے کا استحکام، امن اور خوشحالی ہے۔ قائدین نے  اس قابل ذکر پیش رفت کا جائزہ لیا جو مئی 2015 میں کیمپ ڈیوڈ  میں ہونے والی پہلی سربراہی ملاقات  کے بعد عمل میں آئی ہے۔۔۔" بیان میں مزید کہا گیا ہے: "اس طرح خلیج تعاون کونسل کے ملکوں نے  سمندری دفاع کے حوالے سے کیے جانے والےتعاون کی امریکی پیش کش  کو بھی گہرائی سے پڑھنے کا عہد کیا ہے،  تاکہ جلد سے جلد  بلاسٹک میزائلوں کے حملوں سے پہلے سے خبردار کرنے والے دفاعی نظام  قائم کرنے کے لیے ضروری اقدامات  کے حوالے سے معاہدے  تک پہنچا جا سکے۔۔۔" امریکہ خلیجی سرمائے سے   خطے میں اس  میزائل دفاعی شیلڈ کی تنصیب کے ذریعے خطے پر اپنا تسلط مضبوط کرنا چاہتا ہے اور اس کو اپنے پنجوں سے نکلنے کو روکنے کی کوشش کر رہا ہے۔۔۔ بیان میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ :" امریکی پالیسی جو کہ خلیج کے خطے میں اس کے اہم ترین مفادات  کی ضمانت اور اپنے اتحادیوں اور شرکاء  کے خلاف کسی بھی بیرونی حملے کے دفاع میں ہر قسم کی قوت  استعمال کر نے پر مشتمل ہے  جیسا کہ خلیج کی جنگ میں ہوا اور اس میں شک کی گنجائش نہیں"۔ یہ سب کچھ خلیجی ریاستوں کی جانب سے امریکہ کے سامنے  ذلت آمیز  جھکاؤ اور رسوا کن گھٹنے ٹیکنا  ہے۔  یہ ممالک  اس بیان کے مطابق  امریکہ کو  اس کے مفادات کے دفاع کی ضمانت اور تسلط کو قائم کرنے کے لیے طاقت کے استعمال کی اجازت دے رہے ہیں  جس میں امریکہ کی اطاعت سے نکلنے کی صورت میں خود ان کے لیے دھمکی ہے۔  بیان میں مثال بھی خلیج کی جنگ یعنی عراق پر قبضے کی دی گئی ہے۔۔۔! بیان میں مزید کہا گیا ہے کہ:" خلیج تعاون کونسل  کی قیادت نے  عسکری تعاون  اور  علاقائی چیلنجوں سے نمٹنے کے لیے  کردار ادا کرنے کے مقاصد  کے لیے مشقوں کے حوالے سے امریکی پیش کش کی اسٹڈی کو مکمل کرنے کی پابندی میں اپنا کردار ادا کرنے کی یقین دہانی کی ہے"۔ یعنی خلیجی ممالک  نے بغیر کسی مزاحمت کے امریکی مطالبات مان لیے ہیں۔ بیان سے بھی اس کی تائید ہوتی ہے:"قائدین نے خلیجی ریاستوں اور امریکہ کے سیکریٹری دفاع کے درمیان دوطرفہ  ملاقاتوں کی رپورٹ کو سنا، جس  میں خلیج تعاون کونسل اور امریکہ کے مابین مشترکہ جنگی مشقوں  کی اہمیت کو بیان کیا گیا ہے۔ قائدین نے اعلان کیا کہ  خلیج تعاون کونسل کےممالک اور امریکہ  مارچ 2017 میں مشترکہ جنگی مشقوں  کےاجراء کی منصوبہ بندی پر فوراً کام شروع کریں گے تا کہ طرفین کی عسکری صلاحیتوں کا جائزہ لیا جا سکے۔۔۔ساتھ ہی خلیج تعاون کونسل  نے امریکہ کے ساتھ سائبر سیکیورٹی کے شعبے میں بھی تعاون کو وسعت دینے کی حامی بھر ی ہے اور  سعودی عرب،  امریکہ اور  جی 20 ممالک کی جانب سے  سائبر نگرانی کے لیے وضع کیے گئے پیمانوں کو اپنائیں گے۔۔۔قائدین نے اس بات پر بھی اتفاق کیا کہ  دوطرفہ ورکنگ گروپس  سال میں کم از کم دوبار  ملاقات کریں گے، جس کا ہدف  دہشت گردی کے خلاف  مشترکہ جنگ کو  تیز کرنا اور  حساس  دفاعی  صلاحیتوں کی منتقلی ،  بلاسٹک میزائلوں سے بچاؤ   اور عسکری تیاری اور سائبر سیکیورٹی ہے"۔ ان سب باتوں سے یہ ظاہر ہو تا ہے کہ  اس بیان کے ذریعے خلیج میں امریکہ کی بالادستی  مضبوط کی گئی ہے۔ بیان نے اس پر ہی اکتفاء نہیں کیا بلکہ  اختتام اس کو نافذ کرنے کی ضمانت کے ساتھ ہوا ہے ! " ان سرگرمیوں کو جاری و ساری رکھنے اور 14 مئی 2015 کے  کیمپ ڈیوڈمشترکہ  بیان اور موجودہ بیان میں موجود فیصلوں کو عملی جامہ پہنانے کے لیے  قائدین نے متعلقہ اداروں کو  دوطرفہ شراکت کو مضبوط کرنے  کی ذمہ داری دے دی، جس میں خلیج امریکہ اسٹریٹیجک تعاون کلب بھی ہے"( الریاض22 اپریل2016 )۔۔۔ اسی لیے اوباما نے  سربراہی اجلاس کے بعد  پریس کانفرنس میں  کامیابی کا اعلان کرتے ہوئے کہا :" سربراہان نے  ایک بار پھر امریکی پالیسی  کی تائید کی کہ  جس کے مطابق  خلیج کے خطے میں ہمارے مفادات کی حفاظت اور ہمارے اتحادیوں اور شرکاء  کے خلاف کسی بیرونی حملے کو روکنے کے لیے  ہماری عسکری قوت کو استعمال کیا جائے گا"۔(رائٹرز 21 اپریل2016 )

 2۔ سعودیہ  اورایران کے کردار  میں توازن پیدا کرنا، یوں ایران  خلیج کے مشرق میں ہو گا اور سعودیہ خلیج کے مغرب میں ، پھر ان دونوں کے درمیان  خطے کے دوسرے ممالک میں کردار کی تقسیم ہوگی اور  یہ  خلیج  میں اپنے ایجنٹوں پر برطانیہ کی روایتی بالا دستی کو بالائے طاق رکھتے ہوئے کھیلوں کے طرز پر مقابلہ بازی کریں گے،  بلکہ سعودی بادشاہ سلمان خلیج میں انگریز کے ایجنٹوں  خاص کر قطر کو امریکی منصوبوں کی راہ میں روڑے اٹکانے سے روکنے کی ذمہ داری دی گئی ہے اور  سلمان کو اسی حوالے سے خصوصی اہمیت دی گئی ہے۔۔۔ یہ بات اس لیے واضح ہے کہ  اوبا ما نے خلیج  امریکہ سربراہی اجلاس سے پہلے  سلمان سے ملاقات کی  جو امریکہ اور  سعودیہ کےسلمان کے درمیان خصوصی تعلقات کا ثبوت ہے۔ امریکی منصوبوں میں سلمان کا خصوصی کردار ہے، ورنہ امریکی صدر  سیدھے سربراہی اجلاس میں شریک ہو تا  اس سے قبل خصوصی ملاقات نہ کرتا۔ یہی وجہ ہے کہ وائٹ ہاوس کے ترجمان "بن روڈس" نے کہا "بدھ 21 اپریل2016 کو  شاہ  سلمان سے ملاقات دو گھنٹے تک جاری رہی اور یہ دونوں رہنماوں کے درمیان طویل ترین ملاقات تھی۔۔۔" (رائٹرز21 اپریل2016 )۔ شاہ سلمان کی جانب سے اوباما کا شخصی طور پر استقبال نہ کرنا  اس کے خاص کر دار پر اثرانداز نہیں ہو گا کیونکہ  یہ کانگریس ، ڈیموکریٹک اراکین اور خاص کر ان لوگوں کے لیے پیغام ہے جو انتخابی مقاصد کے لیے  سعودیہ کو امریکیوں کے قتل کا ذمہ دار قرار دے رہے ہیں جو القاعدہ کے ذریعے ہوا  کیونکہ وہ سمجھتے ہیں کہ القاعدہ کے قیام میں سعودی شہریوں کا مال لگا ہے اسی لیے وہ  معاوضے کا مطالبہ کرتے ہیں، اور  انہوں نے کانگریس میں قرار داد بھی پیش کی ہے۔۔۔ انتخابی مہم کے حصے کے طور پر ہی بعض  ڈیموکریٹک ارکان نے  اس میں شمولیت اختیارکی ہے۔۔۔  اس پراجیکٹ کو جاری نہ رکھنے کے لیے امریکی انتظامیہ کے دباؤ کے باوجود  کانگریس کی کوششوں خاص طور پر ان ڈیموکریٹک اراکین  کو ناکام  بنا نے کے لیے سعودیہ کا غصہ   ضروری تھا جنہوں نے  انتخابات میں ووٹ  حاصل کرنے کے لیے اپنے آپ کو مقتولین کے خاندانوں کے خیر خواہ کے طور پر پیش کیا،  اسی لیے اس پر سعودیہ کی جانب سے  غصے کا اظہار کانگریس کے لیے  ایک پیغام تھا کہ  ذمہ داری اور معاوضے کے دعووں سے باز رہیں،  بلکہ اربوں ڈالر امریکی بنکوں سے نکالنے کی دھمکی دی،  کیونکہ اربوں ڈالر  نکالنے کا سرمایہ داروں کے ہاں بڑا اثر ہوتا ہے۔۔۔ ھافنگٹن پوسٹ عربی نے رپورٹ دی کہ "صدراتی عہدہ داروں اور کانگریس میں دونوں پارٹیوں کےنمائندوں نے اوباما انتظامیہ پراس منصوبے کو روکنے  کے لیے دباؤ ڈالا۔ عہدہ داروں نے کانگریس کے اراکین کو  اس قانون کے اجراء سے پیدا ہونے والے معاشی اور سفارتی عوامل سے خبردار کیا، جیسا کہ نیویارک ٹائمز کی رپورٹ میں کہا گیا ہے۔ سعودی وزیر خارجہ عادل الجبیر نے گزشتہ مہینے کے اپنے واشنگٹن کے دورے کے دوران  بعض اراکین سے کہا کہ سعودیہ  امریکہ میں  بانڈز اور دوسرے ذخائر کو فروخت کرسکتا ہے جن کی قیمت 750 ارب ڈالرز ہے۔۔۔" (ھافینگٹن پوسٹ عربی 18 اپریل2016)۔

 لہٰذا سعودیہ کاظاہری غصہ  اور اربوں ڈالر نکالنے کی دھمکی کانگریس کے لیے پیغام ہے اوباما کے لیے نہیں بلکہ یہ بھی بعد از امکان نہیں کہ  یہ ظاہری غصہ اور شخصی طور پر اوباما کا استقبال نہ کرنا اور  اربوں ڈالر نکالنے کا الجبیر کا بیان  اوباما کے ساتھ ساز باز کا نتیجہ ہو جس کا مقصد ڈیمو کریٹ اراکین کی کوشش   کو ناکام بنا نا ہو،  کیونکہ ڈالر نکالنے کی دھمکی  ایک طاقتور عمل ہے جو ان کو اپنے منصوبے کو آگے بڑھانے سے روک سکتا ہے،   ورنہ اگر غصہ حقیقی ہوتا تو سربراہی ملاقات سے پہلے خصوصی ملاقات نہ کی جاتی بلکہ کسی  پیشگی خصوصی ملاقات کے بغیر ہی اجلاس میں آتے۔ یہ بات بھی ہے کہ امریکہ کے گود میں پلنے والا اور ان کے ہاں پرورش پانے والا الجبیر کیسے  امریکی ریزرو سے بانڈز نکالنے کی دھمکی دے سکتا ہے؟! بلا شبہ اوباما انتظامیہ یہ جانتی ہے،  چنانچہ سی این این عربی نے20 اپریل2016 کو رپورٹ دی کہ امریکی عہدہ دار نے کہا کہ" اوباما  کے سعودیہ پہنچتے وقت سلمان کااستقبال کے لیے حاضر نہ ہونا  کسی توہین کا اظہار نہیں"، یہ اس بات کی طرف اشارہ ہے کہ امریکی صدر غیر ملکی زعماء کے امریکہ پہنچنے پر  شاذ ونادر ہی کسی کا استقبال کرتا ہے۔۔۔ دوسر ی طرف "بروکنگز" تحقیقاتی  انسٹیٹیوٹ  کے دانشور   اور سی آئی اے کے سابق عہدہ دار بروس ریڈل نے کہا کہ " تمام تر اختلافات کے باوجود سعودیہ اور امریکہ الگ نہیں ہو سکتے"۔۔۔ یوں امریکہ اور سلمان کے درمیان تعلقات مضبوط ہیں۔۔۔

 جہاں تک سعودیہ اور ایران تعلقات کی بات ہے  توامریکہ اس   مسئلےکو حل کرکے دوطرفہ تعلقات کو بحال کرنا چاہتا ہے،  کیونکہ امریکہ ہر حال میں خطے میں ایرانی  کردار  کا حامی ہے جو امریکی مفاد میں ہے۔ پہلے بھی اوباما امریکی  میگزین اٹلانٹک سے10 مارچ2016 کو بات کرتے ہوئے  سعودیہ اور ایران کو وصیت کر چکے ہیں کہ خطے میں پر امن بقائے باہمی سے رہیں: امریکی صدر باراک اوباما نے کہا" سعودیہ اور ایران کو پرامن بقائے با ہمی سے رہنے کی راہ ہموار کرنے کی جستجو کرنی چاہیے۔۔۔"۔   اوباما نے "اٹلانٹک" میگزین سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ " سعودیہ اور ایران کے درمیان مقابلے بازی نے   شام،عراق اور یمن میں کرائے کی جنگوں  اور انارکی کو ہوا دی ۔ہم اپنے ایرانی اور سعودی دوستوں کو کہنا چاہیں گے کہ  ان کو پُر امن بقائے باہمی کے حصول کی راہ ہموار کرنے کی کوشش کرنی چاہیے" (بی بی سی، رائٹرز10 مارچ2016 )۔۔۔ گویا اوباما دونوں ملکوں کا ذمہ دار ہے، ان کے معاملات کی دیکھ بھال کر رہا ہے اور ان کو وصیت کر تا ہے کہ خطے میں کس طرح رہنا ہے! ایسا لگ رہا ہے کہ اوباما کی وصیت پر عمل کیا گیا ہے کیونکہ سربراہی اجلاس کے اختتامی بیان میں ہے کہ :"امریکہ اور خلیج تعاون کونسل کے ممالک نے ایران کے حوالے سے  مشترکہ اقدامات کے جا مع منصوبے کی تائید کی ہے جس کو اب عملی جامہ پہنایا جا رہا ہے  کہ ایران کو ایٹمی اسلحے کے حصول سے باز رکھا جائے جس سے  خطے میں امن واستحکام ہو گا۔۔۔خلیج تعاون کونسل نے  ایران کے ساتھ اختلافات ختم کرنے اور اعتماد کی بحالی کے لیے طویل المیعاد  تعاون پر تیاری کا اظہار کیا، بشرطیہ کہ ایران اچھے ہمسائیگی کے اصولوں کی پابندی کرے اور اندرونی معاملات میں مداخلت نہ کرے  اور بین الاقوامی قانون کے مطابق سرحدوں کا احترام کرے۔۔۔" (الریاض22 اپریل2016 )

آخر میں  یہ بلا شبہ تکلیف دہ بات ہے کہ  امریکہ سمندر پار سے ہاتھ بڑھا کر  ہماری زمینوں اور سمندروں میں دست درازی کر رہا ہے، اورہماری طاقت کے مصادر اور ہماری دولت میں تصرف کر رہا ہے۔۔۔

 مگر امریکہ کا ہاتھ روکنے والا کوئی نہیں،  ان نکموں کو اپنی کرسیاں بچانے کی فکر ہے،  ان کو اپنی دولت اور اپنے خاندانی حکومت کی فکر ہے، اسی لیے اس کے سامنے جھکتے ہیں اور اس کی ہر بات پر لبیک کہتے ہیں، اس سے ڈرتے ہیں اللہ سے نہیں ڈرتے،  اس لیے وہ ان کے ذریعے اسلامی دنیا میں اپنے منصوبوں کو کامیاب بنا رہا ہے! مگر اللہ کے اذن سے حالات ایسے ہی نہیں رہیں گے، اللہ غالب اور حکمت والے نے ہم سے وعدہ کیا ہے اور اس کے رسول ﷺ نے  خلافت راشدہ کے قیام کی بشارت دی ہے جس سے اسلام اور مسلمان عزت مند اور استعماری کفار ذلیل ہوں گے

    ﴿وَسَيَعْلَمُ الَّذِينَ ظَلَمُوا أَيَّ مُنْقَلَبٍ يَنْقَلِبُونَ﴾

" اور عنقریب ظالم جان لیں گے کہ وہ کس کروٹ گرنے والے ہیں"(الشعراء:227)۔

 20 رجب 1437 ہجری

27 اپریل2016

Last modified onاتوار, 11 ستمبر 2016 04:57

Leave a comment

Make sure you enter the (*) required information where indicated. HTML code is not allowed.

اوپر کی طرف جائیں

دیگر ویب سائٹس

مغرب

سائٹ سیکشنز

مسلم ممالک

مسلم ممالک