سوال و جواب: پاک چین اقتصادی راہداری منصوبہ اور ایران –افغانستان-بھارت کا چاہ بہار پر منصوبہ
بسم الله الرحمن الرحيم
سوال و جواب
پاک چین اقتصادی راہداری منصوبہ اور ایران –افغانستان-بھارت کا چاہ بہار پر منصوبہ
سوال :
چاہ بہار بندرگاہ کو ٹرانزٹ ٹریڈ کے لئے استعمال کیا جائے گا اس کے لئے مشترکہ تعاون کے پیش نظر ایران نے بھارت اور افغانستان کے ساتھ سہ ملکی معاہدے پر دستخط کردیے ۔ چاہ بہار ایران کے جنوب میں دریائے عمان کے کنارے واقع ہے...... تزویراتی مقاصد کے حامل اس معاہدے پر دستخطوں کا کام مکمل کیا جا چکا ہے۔ اس منصوبے کا ہدف تینوں ممالک کے درمیان اقتصادی راہداری کی تشکیل ہے.........ایرانی بندر گاہ چاہ بہار پاکستانی گوادر بندرگاہ سے محض 100 کلومیٹر کے فاصلے پر واقع ہے ۔ چین گوادر بندر گاہ کی جدید تشکیل پربھی کام کر رہا ہے، جو کہ پاک چائنا اکنامک کاریڈور منصوبے (سی پیک) کا حصہ ہے۔ اس منصوبے کی تکمیل پر 46 ارب ڈالر لاگت آئے گی(العربیہ24 مئی2016)۔ اس سے قبل یعنی 20 اپریل2015 کو چین وپاکستان کے درمیان اقتصادی راہداری منصوبے پر اتفاق ہوا تھا۔سوال یہ ہے کہ اس قسم کے بڑے بڑے منصوبے محض اقتصادی منصوبوں کی حیثیت رکھتے ہیں یا اس کے پیچھے سیاسی محرکات بھی کار فرما ہوتے ہیں؟ دوسرا یہ کہ ان منصوبوں میں شامل ممالک امریکہ کے ساتھ جڑے ہوئے ہیں ،سوائے چین کے۔ تو کیا اس کا مطلب یہ ہے کہ چین کو جنوبی بحر چین سے دوردراز کے علاقوں میں مصروف کرنے کے لئے یہ کھیل کھیلا جا رہا ہے؟ کیا ان جیسے ضخیم منصوبوں کے ذریعے جن کے اقتصادی فوائد و ثمرات 46 ارب ڈالر کے برابر نہیں ہوسکتے ، چین کو اقتصادی طور پر مشکلات اور پریشانیوں سے دو چار کرنا ہے؟ آخر میں یہ کہ کیا ان منصوبوں کے اہداف ان ممالک کو بھی نظر میں رکھے ہوئے ہوتے ہیں، جو معاہدہ کرنے والے ممالک کے علاوہ ہیں جیسے وسطی ایشیا کے ممالک؟ جزاک اللہ خیراً ۔ سوال کی طوالت پر معذرت خواہ ہوں۔
جواب:
واضح جواب تک رسائی کے لئے مندرجہ ذیل امور پر نظر ڈالتے ہیں:
پہلا: سوال میں مذکور دو نوں منصوبوں میں شراکت دار ریاستوں کے ساتھ امریکہ کے تعلقات کا ذکر کیا گیا ہے
1- 1998 میں جب بھارت میں بھارتیا جنتا پارٹی برسراقتدار آئی اور اس کے دور حکومت میں بھارت کی وفاداریاں امریکہ کے ساتھ ہوگئی تھیں، پھر 2004 میں اسے ناکامی ہوئی جبکہ 2014 میں ایک دفعہ پھرمودی کی قیادت میں حکومت بنانے میں اسے کامیابی ملی، تو اس وقت بھارت کے ساتھ امریکی تعاون کھل کر سامنے آیا۔ چنانچہ بھارت اور امریکہ کے درمیان کئی میدانوں میں معاہدات طے پائے، بالخصوص ایٹمی ٹیکنالوجی کے میدان میں۔ ان معاہدات سے یہ بھی واضح تھا کہ یہ چین کے مقابلے میں کیے جارہے ہیں۔ جبکہ اس حوالے سے پاکستان کی صورتحال ایسی ہے کہ گزشتہ صدی کی نوے کی دہائی میں نواز شریف حکومت سے لے کر پرویز مشرف اور آصف زرداری کی حکومتوں اور موجودہ نواز حکومت تک برابر امریکی وفاداریوں پر عمل ہوتا رہا ہے۔ اسی مشترکہ وفا داری کے سبب پاکستان اور بھارت کے درمیان قربتیں بڑھیں اور پاکستان نے امریکی اشاروں پر بھارت کے حق میں کئی اہم امور پر دستبرداری اختیار کی،جس کا مقصد بھارت میں امریکی ایجنٹوں کو توانا بنانا اور چین کے خلاف ان کے موقف کی پشت پناہی تھا۔ امریکہ نے پاکستان کو یہ مہم سونپ دی کہ وہ نہ صرف اندرونی طور پر بلکہ اس پورے خطے میں اسلامی تحریکات کے ساتھ نبٹے،جسے "دہشت گردی" اور علیحدگی پسندی کے خلاف جنگ کا نام دیا گیا۔9 جون2016 کو ایک سوال کے جواب میں کہا گیا تھا " اس کے باوجود کہ پاکستان اور بھارت دونوں ممالک میں حکومتیں امریکہ کی وفادار ہیں مگر امریکہ ہر ایک کے لئے مختلف اہداف رکھتا ہے، بھارت کے لئے اس کا ہدف یہ ہے کہ اسے چین کے مقابلے میں لا کھڑا کیا جائے،پاکستان کے ساتھ تعلقات کا ہدف یہ ہے کہ وہ امریکہ کے خلاف پاکستانی اور افغانی مزاحمت کا ڈٹ کر مقابلہ کرے........."
2- جہاں تک ایران کا تعلق ہے تو اس کی وفاداریاں بھی امریکہ کے ساتھ ہیں اوراس نے افغانستان پر امریکی قبضے میں تعاون اور وہاں استحکام کے حصول میں مدد فراہم کرنے کو خود تسلیم کیا ۔ ایران سابق امریکی ایجنٹ اور غلام کرزئی حکومت اور موجودہ اشرف غنی حکومت کی پشت پناہی کرتا رہاہے۔29 جون2016 کو ترکی اخبار" اخبار العالم" نے سابق ایرانی وزیر خارجہ علی اکبر ولایتی کے انٹرویو کو نقل کرکے شائع کیا ۔ یہ انٹرویو ایرانی اخبار" ایران " نے کیا تھا۔ علی اکبر ولایتی آج کل جمہوریہ ایران کے خامنہ ای کی مشاورتی کابینہ کے صدر ہیں۔ اس انٹرویو میں اس نے ایران وامریکہ کے درمیان تعلقات اور تعاون کا اعتراف کرتے ہوئے کہا: " ایران نے افغانستان کے معاملے پر امریکہ کےساتھ بات چیت کاسلسلہ شروع کیا.......اس بات چیت میں اقوام متحدہ میں ہمارا مستقل نمائندہ موجودہ وزیر خارجہ جواد ظریف تھا ......جبکہ افغانستان کا بہت بڑا علاقہ طالبان کے ہاتھوں میں تھا۔ ان حالات میں اگر ایران نہ ہوتا تو امریکہ افغانستان نہیں آسکتا تھا......." اس نے مزید کہا: " اس جیسی صورتحال عراق کے معاملے میں تھی، جب ایران اور امریکہ کے درمیان اس بات پر اتفاق ہوا کہ صدام حکومت کے خاتمے کے بعد عراق میں امن وامان کے قیام کے لئے مشترکہ مقاصد کے حوالے سے بات چیت کا سلسلہ جاری رکھاجائے........" اخبار نے ایران کے سابق صدر ہاشمی رفسنجانی کے بارے میں بھی اس سے ملتی جلتی باتیں نقل کیں اور یہ کہ یہ سب کچھ مرجع کی اجازت سے کیا جاتا ہے۔ انہوں نے کہا: "وہ گفتگو جو اس وقت امریکہ اور ایران کے درمیان جاری ہے ،اس کا اصل سر چشمہ مرشد اعلیٰ سے پیشگی اجازت ہے۔ امریکہ کے ساتھ ایران کے مذاکرات عُمان کے سلطان قابوس کے وساطت سے شروع ہوئےتھے،یہ مذاکرات حسن روحانی حکومت کے وجود میں آنے سے چھ مہینے پہلے شروع ہوئے"........)۔ یہ تمام حقائق امریکہ کے ساتھ ایرانی تعلقات کو ثابت کرتے ہیں۔ امریکہ نے اس کے بدلے ایران کو افغانستان اور عراق میں کردار ادا کرنے کا موقع دیا......11 جون2016 کو ایک سوال کے جواب میں کہا گیا تھا،" دوسری طرف یہ دکھائی دیتا ہے کہ امریکہ افغانستان میں بھارت کو کردار دینا چاہتا ہے اور دونوں ممالک کے درمیان تعلقات مستحکم کرنے پر کام کر رہا ہے تاکہ امریکہ افغانستان میں اپنے استحکام کو فروغ دینے کے سلسلے میں پاکستان کا دست نگر نہ رہےچنانچہ مودی کے ساتھ وزارت عظمیٰ سنبھالنے کی تقریب میں سب سے پہلےشریک ہونے والا صدر افغانستان کا صدر کرزئی تھا۔ امریکہ موجودہ حکومت کی طرح بھارت پرتب ہی بھروسہ کرتا ہے جب حکومت اس کی وفادار ہو، جبکہ پاکستان کے ساتھ اس کا رویہ ایسا نہیں ۔امریکی وفادار ہونے کے باوجود وہ اس پر اتنا اعتماد نہیں کرتا جتنا بھارت پر ۔ہاں اسے پاکستان کے حوالے سےجس بات کا خدشہ ہے وہ یہ ہے کہ اس اسلامی ملک کے اندر، جہاں کے عوام میں تبدیلی کی شدید تڑپ پائی جاتی ہے کسی بھی لمحے کوئی بھی تبدیلی آسکتی ہے ، اس لئے امریکہ پاکستان کو ایک انتہائی غیر محفوظ ریاست تصور کرتا ہے.......اسی طرح امریکہ نواز مودی کے عہدِ حکومت میں بھارت افغانستان میں سیکیورٹی کے حوالے سے کردار ادا کرنے میں سرگرمی دکھائےگا جو امریکہ نواز افغان حکومت ہی کے مفاد کے لئے ہوگا"۔ اب مزید اس کے ساتھ اقتصاد ی تعاون کے معاہدات کیے جارہے ہیں تاکہ امن کے قیام میں تعاون کو مضبوط تر اور افغانستان میں امریکی اثر ونفوذ کو تحفظ فراہم کرسکے۔
دوسرا: ایران- بھارت- افغانستان ٹرانزٹ منصوبہ
1- بھارت اور ایران نے پہلی مرتبہ 2003 میں چاہ بہار تک بھارتی تجارتی گذرگاہ پر بحث کی۔ اس وقت دونوں ممالک نے اس بندرگاہ کو ترقی دینے پر اتفاق کیا تھا۔ 2004 میں بھارتی کمپنیوں نےایرانی تنظیم برائے پورٹس و ٹرانسپورٹ کے ساتھ اس بندرگاہ کو ترقی دینے کے سلسلے میں ایک مفاہمتی یاد داشت پر دستخط کیے، لیکن اس پر پیش رفت نہیں ہوسکی۔ پھر مئی 2015 ،یعنی ایران کے ایٹمی پروگرام کے حوالے سے جامع مشترکہ ورکنگ پروگرام سے دو ماہ قبل ، بھارتی وزیر ٹرانسپورٹ نتین جاڈکر نے ایران کا دورہ کیا ۔ اس دورے کامقصد چاہ بہار سے متعلق مفاہمتی یاداشت پر دستخط کرنا تھا۔ اس کے فوراً بعد چاہ بہار معاہدے کے مسودات کو حتمی شکل دینے کے لیے نیو دہلی میں ایران ، افغانستان اور بھارتی مندوبین کی ملاقاتیں ہوئیں، جس کے نتیجے میں تینوں ممالک نے23 مئی2016 کو چاہ بہار بندرگاہ کو ترقی دینے کے معاہدے پر دستخط مکمل کرلیے۔ چاہ بہار ایران کے انتہائی مشرق میں واقع ہے اور اس معاہدے کے نتیجے میں چاہ بہار بندرگاہ بحر ِہند کے ایک تجارتی گزرگاہ میں تبدیل ہوجائے گا۔ اس معاہدے کا ہدف تینوں ممالک کے درمیان تجارت میں اضافہ کرنا ہے ۔ یہ معاہدہ ایران پر سے پابندیاں اٹھ جانے اور ایٹمی پروگرام کے معاہدے پر دستخط ہوجانے کے بعدعمل میں لایا گیا۔ تہران میں بھارتی وزیر اعظم نریندر مودی نے کہا "بھارت چاہ بہار منصوبے کے لئے 500 ملین ڈالر مختص کرے گا ،ہم اگر چہ پوری دنیا کے ساتھ رابطے استوار کرنے کے خواہاں ہیں، مگر ہم تین ممالک کے درمیان تعلقات ترجیحی ہیں ....... یہ امن اور خوشحالی کی گزرگاہ ہے........یہ اقتصادی تعلقات پر اثر انداز ہوگا"۔ ایرانی صدر روحانی نے کہا" یہ معاہدہ صرف اقتصادی نہیں بلکہ یہ سیاسی اور علاقائی معاہدہ ہے، البتہ یہ کسی ملک کے خلاف نہیں ،یہ امن برقرار رکھنے اور خطے کے استحکام میں کردار ادا کرے گا"۔ "مودی نے 12 مفاہمتی یاداشتوں پر بھی دستخط کیے جن کی رو سے بھارت تہران کو 6.5 بلین ڈالر ادا کرے گا جوتہران عالمی پابندیوں کی وجہ سے بھارت سے حاصل نہیں کرپا رہا تھا اس کی ادئیگی سے قاصر ہے" (اے ایف پی 25 مئی2016) "۔ فرانسیسی ایجنسی نے اپنے تبصرے میں کہا" چونکہ افغانستان سمندروں سے دور واقع ہے اس لئے ایران افغانستان کے لیے ایک بندرگاہ تیار کرے گا جس میں ریلوے لائنز اور ایران سے افغانستان تک سڑک بھی شامل ہیں۔ یہ چین کے خلاف بھارت کے حق میں اسٹریٹجک کامیابی سمجھی جارہی ہے۔ بھارت چین سے آگے بڑھنے کی کوشش کررہاہے ،جبکہ چین گوادر بندرگاہ میں سرمایہ کار کر رہا ہے جو چاہ بہار سے 100 کلومیٹر کے فاصلے پر واقع ہے"۔ لہذا ایرانی صدر واشگاف الفاظ میں یہ اعلان کرتا ہے کہ یہ منصوبے محض اقتصادی نہیں، بلکہ یہ سیاسی ہیں اور چین کے ساتھ ملحقہ علاقائی صورتحال کے ساتھ بھی اس کا تعلق ہے۔ ایرانی صدر نے اگر چہ یہ بھی کہا کہ یہ منصوبے کسی کے خلاف نہیں،مگر ایسا کیونکر ہوسکتا ہے جب کہ ایرانی صدر نے کہا ہے کہ یہ محض اقتصادی نہیں بلکہ سیاسی اور علاقائی ہیں۔ اور بھارتی وزیر اعظم نے تینوں ممالک کے درمیان روابط مستحکم کرنے کا بھی اشارہ دیا ، یعنی تینوں ممالک کے اہداف کے حصول کے لئے ان کے درمیان تعلقات مضبوط کیے جائیں گے ۔
2- یہ اعلان بھی کیا گیا ہے کہ بھارت وایران منصوبوں کا مقصد وسطی ایشیا کے ممالک کے ساتھ زمینی رابطوں کی تشکیل ہے۔چنانچہ ایران کے وزیر خارجہ جواد ظریف نے " بھارت وایران کے درمیان چاہ بہار بندرگاہ کے ترقی کے لئے اسٹریٹجک منصوبے کو جلد از جلد مکمل کرنے کی دعوت دی تاکہ چین اور وسطی ایشیا کے ممالک کے درمیان ہونے والی تجارت اور زمینی وتجارتی راستوں اور ریلویز لائنوں کو تقویت فراہم کرنے میں کردار ادا کرے"( صفحۂ عالم ،ایران17 اپریل2016)۔ اسی طرح بھارت کی وزارت خارجہ کے مطابق،"یہ معاہدہ افغانستان کی اقتصادی ترقی میں چاہ بہار بندرگاہ کو بڑی حد تک بہتر استعمال کے قابل بنائے گا اور بہترین علاقائی رابطے کا کام دے گا ، جو افغانستان اوروسطی ایشیا کے ممالک کے ساتھ بھارت کے روابط پر مشتمل ہے"( دی ڈپلومیٹ 18 اپریل 2016)۔ 24 مئی 2016 کو ایک پریس کانفرنس میں ایرانی صدر حسن روحانی کےبیان سے بھی یہی ظاہر ہوتا ہے ، اس نے کہا:" چاہ بہار میں ہماری مشترکہ سرمایہ کار ی،ہمیں افغانستان اور وسط ایشیائی ممالک کے ساتھ قابل اعتماد طریقے سے بھارت کو جوڑنے کے قابل بنادے گی"( کوارٹز، انڈیا24 مئی 2016)۔ اور " بھارتی حکومت نے بالآخر ایک ایسے منصوبے کو تسلیم کیا جس میں چاہ بہار بندرگاہ کی ترقی کے لیے 100 ملین ڈالر کی سرمایہ کاری کی وضاحت کی گئی ہے"( العالم ، ایران 2 جون2016)۔ یہ کہا جاتا ہے کہ بحر ہند اور آبنائے ہرمز پر واقع چاہ بہار بندرگاہ اسٹریٹجک( تزویراتی ) محل وقوع کی حامل ہے اور یہ وسطی ایشیا اور افغانستان کے لئے آسان ترین راستہ ہے۔
تیسرا : چائنا پاک منصوبہ
1- چین کے صدر شی جن پنگ نے 20 اپریل2015 کو پاکستان کا دورہ کیا اور اس کے ساتھ کئی معاہدوں پر دستخط کیے۔ ان کاتخمینہ 46 بلین ڈالر بتایا جاتاہے جس میں گوادر اور مغربی چین کے صوبہ سنکیانگ کے درمیان تین ہزار کلو میٹر پر مشتمل شاہراہوں کا جال بچھانے کے ساتھ ساتھ ریلوے اور پائپ لائنز پر مشتمل منصوبے شامل ہیں۔ یہ منصوبے چین کے لیے بحر ہنداور اس سے آگے کے خطوں تک رسائی آسان تر بنادیں گے( روئیٹرز) ۔ روئیٹرزنے پاکستانی پارلیمنٹ میں دفاعی کمیٹی کے صدر مشاہد حسین سید کی بات نقل کرتے ہوئے لکھا "اس وقت پاکستان چین کے لئے محوری اہمیت کا حامل ہے۔ اس منصوبے کی کامیابی ضروری ہے اور یہ کامیاب ہوگا"۔ مراسلہ نگار کہتے ہیں:" یہ منصوبے چین کی اپنی خواہشات میں پیش قدمی کا ترجمان ہیں،چین وسطی ایشیا اور جنوبی ایشیا میں اقتصادی اثر ورسوخ کا خواہاں ہے۔ یہ منصوبے یونائیٹڈ اسٹیٹس کی طرف سے پاکستان کو دی جانے والی امداد سے کہیں بڑھ کر ہیں"۔ اے ایف پی کے ساتھ آن لائن بات کرتے ہوئے پاکستانی وزیر احسن اقبال نے کہا" اس سرمایہ کاری کے ذریعے بڑے اور حقیقی منصوبوں کو مکمل کیا جائے گا اور پاکستانی معیشت پر اس کےمثبت اثرات پڑیں گے"۔ پاکستانی ذرائع کو چینی صدر نے کہا"چین اور پاکستان کو سیکیورٹی تعاون کو مضبوط بنانے کے لئے سیکیورٹی خدشات کے حوالے سے عملی یکسانیت کی ضرورت ہے"۔ پاکستان میں چینی سرمایہ کاری کے 50 معاہدوں پر دستخط کیے گئے ہیں جن میں سے 30 معاہدوں کا تعلق اقتصادی راہداری کے ساتھ ہے۔ نواز شریف نے کہا" چینی صدر شی کا دورۂپاکستان دونوں ممالک کے درمیان تعلقات کی تاریخ میں ٹرننگ پوائنٹ کی حیثیت رکھتا ہے اور چین کے ساتھ دوستی پاکستان کی خارجہ پالیسی میں سنگ بنیاد ہے"۔پاکستان کے صدر ممنون حسین نے کہا:" اس منصوبے سے تقریباً 3 ارب لوگ فائدہ حاصل کریں گے، پاکستان نے آئیندہ چالیس سال تک کے لئے گوادر بندرگاہ کو فعال بنانے کے لیے چین کو خصوصی حقوق دیے ہیں"۔ پاکستان نے 13000 فوجیوں پر مشتمل جدید افواج کا ایک ڈویژن تشکیل دیا جو اکنامک کارویڈور کی حفاظت کی خدمات سرانجام دے گا۔ چین نے پاکستان کے ساتھ خفیہ ایٹمی تعاون اور میزائل دیے ہیں ،ایٹمی صلاحیت کے حامل بیلسٹک میزائل فراہم کیے جس کی رینج 2750 کلومیٹر ہے۔ پاکستان کے وزیر اعظم نواز شریف کا تازہ ترین بیان ہے کہ "وہ خود ذاتی طور پر چینی اقتصادی راہداری کی نگرانی کرتے ہیں ،جو خطے کے لاکھوں لوگوں کی تقدیر بدل ڈالنے کی صلاحیت رکھتی ہے، یہ راہداری پورے خطے کو تیز رفتار سڑکوں اور ریلوے لائنوں کے ذریعے آپس میں مربوط کر دے گا....."( پاکستانی سرکار نیوز ایجنسی12/7/2016 )۔
2- یہ اقتصادی سر گرمی چین کو پاکستان کے ساتھ تعلقات کو مزید اہمیت دینے کی طرف کھینچے گی جبکہ پاکستان اس حوالے سے پرُ جوش ہے اور چین کو ان جیسے اقتصادی منصوبوں کی منظوری کی ترغیب دیتا ہے یوں چین اس میں بے تحاشا سرمایہ کاری کرتا ہے۔ اس طرح پاکستان اپنے آقا امریکہ کی خواہشات کی تکمیل اور خدمت گذاری کر رہا ہے،جو چین کو حدود وقیود کا پابند کرنے اور اس کو مقابلہ بازی سے باز رکھنے کے لیے اس کے گرد گھیرا ڈالنے کی کوششوں میں لگا ہوا ہے۔ امریکہ یہ چاہتا ہے کہ جتنا ممکن ہو چین کی توجہ جنوبی بحر چین پر تسلط کے حصول سے ہٹا کر دور دراز کے علاقوں میں کام کرنے پر لگائی جائے۔ یہ امر امریکہ کی نظر میں اہمیت کا حامل ہے ،اس نے جنوبی بحر چین پرتسلط حاصل کرنے کی چینی کوششوں کو ناکام کرنے کے لیے بہت بھاگ دوڑ کی، کیونکہ چین جزیروں کو توسیع دے رہاہے اور وہاں ہوائی اڈے اور بندرگاہیں بنارہا ہے۔ یوں فطری طور پر ارخپیل جزیروں پر اسی کا تسلط ہوگا ۔ ملحوظ رہے کہ ارخپیل جزیرے 250 جزیروں پر مشتمل ہیں۔ امریکہ یہ چاہتا ہے کہ چین اقتصادی راہداری جیسے منصوبوں پر توجہ دے کر اس کی نظریں ان جزیروں سے ہٹ جائیں اور چین یہ سمجھے کہ ایسے منصوبوں کا فائدہ ان جزیروں سے بہت زیادہ ہے،اور گویا ان جزیروں کی تو کوئی قیمت نہیں! اس لئے پاکستان کا چین کے ساتھ منصوبوں پر کام جس کا رُخ پاکستانی گوادر بندرگاہ کی طرف ہے جسے سہ ملکی منصوبوں کے بالمقابل لایا جارہا ہے ۔ سہ ملکی منصوبوں کا رخ بھارتی بندرگاہ بھارتا کی جانب ہے ، اوردونوں بندرگاہوں (گوادر اور بھارتا) کے درمیان 60 میل کا فاصلہ ہے۔ ظاہر ہے کہ چین اس کی وجہ سے خطے میں مصروف ہوجائے گا.......اور یہ بھی سب جانتے ہیں کہ پاکستان یا گوادر بندرگاہ اور ایران کی چاہ بہار بندرگا ہ خطے میں جغرافیائی ،تزویراتی اور سیاسی اہمیت کی حامل ہیں۔ اسی طرح عالمی ٹرانسپورٹ اور تیل کی تجارت میں بھی دونوں کی اہمیت مسلمہ ہے.........جنوبی ایشیا کے امور کے ماہر آدم وی لارکی نے مذکورہ منصوبوں کی سیاسی حقیقت واضح کرتے ہوئے کہا" گوادر میں چینی کردار کے اغراض ومقاصد یا اس کے حجم اور چاہ بہار میں بھارتی کردار کے درمیان کوئی موازنہ نہیں کیا جاسکتا،البتہ امریکیوں کو اس بات سے خوشی ہوئی ہے کہ بھارت چین کے توسیع پسندانہ سوچ کے راستے میں رکاوٹ بن کر سامنے آرہاہے"(امریکہ بھارت اور ایران کے درمیان چاہ بہار منصوبے کی پشت پناہی کررہاہے کیونکہ یہ منصوبہ چین اور پاکستان کے گوادر منصوبے کے گرد گھیرا ڈالتا ۔ Firstpost.com, 26 مئی 2016 )۔ اس سے ثابت ہوتاہے کہ امریکہ گوادر منصوبے کے راستے چین پر اثر انداز ہوگا، کیونکہ 46 ارب ڈالر کا یہ ضخیم منصوبہ مکمل ہونے کے بعد چین کے دل کی طرح ہوگا جسے چین آسانی سے چھوڑنے کے لئے تیار نہیں ہوگا، چنانچہ اس کی توجہ دوسرے علاقوں سے ہٹ جائے گی جوان جیسے منصوبوں سے کہیں زیادہ اہمیت رکھتے ہیں جیسے جنوبی بحر چین......
امریکہ چین کے خلاف خطے کے ممالک کو بھی اکسارہا ہے جس میں فلپائن بھی شامل ہے جس نے عالمی عدالت میں چین کے ساتھ متنازعہ جزیروں کا مقدمہ اٹھایا جہاں مذکورہ عدالت نے فلپائن کے حق میں فیصلہ سنایا۔ چنانچہ ہالینڈ میں عالمی پنچائیتی ٹریبونل نے12 جولائی2016 کو یہ اعلان کیا" قانونی لحاظ سے نائن پوائنٹس کی لکیر کے اندر واقع بحری علاقوں میں تاریخی ذرائع کے ذریعے حقوق کے مطالبے کا چین کے پاس کوئی بنیاد نہیں" ۔ چین اپنے مطالبات میں انہی تاریخی پوائنٹس کو بنیاد بناتا رہاہے۔ اور یہ کہ " چین کی بعض سرگرمیوں کی وجہ سے فلپائن کے خصوصی اقتصادی علاقے میں بالا دستی کے حقوق پامال کیے گئے۔چین شکار کے معاملات اور فلپائنی تیل نکالنے اور مصنوعی جزیروں کے قیام جیسے امور میں دخل اندازی کرتا ہے،نیز چینی شکاریوں کو اس علاقے کے اندر شکار کرنے سے نہیں روکتا"۔یہ اعلان ہوتے ہی چین نے فی الفور اپنی سرکاری ایجنسی (شینخوا) کے ذریعے اس کا یقین دلایا کہ " چین ٹریبونل کے اس فیصلے کو قبول نہیں کرتا"۔ اس کے بعد اس کی وزارت خارجہ نے اعلان کیا" یہ فیصلہ جھوٹا اور فضول ہے اس کے اندر کوئی بائنڈنگ قوت نہیں۔" وزرات خارجہ نے یہاں تک کہا کہ " اس فیصلے کے پیچھے مذموم اور ضرررساں مقاصد کار فرما ہیں ، اس کا چین کے تنازع کے حل ،امن کی حفاظت اور جنوبی بحری چین میں استحکام کے ساتھ کوئی تعلق نہیں"۔ پھر صدر شی جن پنگ نے کہا" میر ا ملک عالمی ٹریبونل کے سہارے پر کسی قسم کی چارہ جوئی یا تجویز ہر گز قبول نہیں کرتا"۔ اس کے بعد امریکہ نے ٹریبونل کے فیصلے کی تائید کا اعلان کیا اوراس نے کہا "یہ فیصلہ چین اور فلپائن کے لیے حتمی اور قانونی ہے، اس کا مقصد بڑی حد تک جنوبی بحر چین کے حوالے سے اختلافات کے پر امن حل تک رسائی ہے،جو ایک مشترکہ مقصد ہے"۔ امریکہ نے " تمام فریقوں کو فیصلے کی پابندی کرنے اور اشتعال انگیز کاروائیاں یا بیانات دینے سے گریز کی دعوت دی "( ڈی پی اے، اے ایف پی 12 جولائی2015)۔
چوتھا:ان گزارشات سے سوال کا جواب کچھ اس طرح واضح ہوجاتا ہے:
ا۔ خطے کے ممالک بھارت ایران اور افغانستان اور چین وپاکستان کے درمیان جاری اقتصادی سرگرمیاں خالص اقتصادی نہیں ، بلکہ اس کے سیاسی اہداف ہیں ،بالخصوص چین کے علاوہ یہ تمام ممالک امریکی پالیسی کی پیروی کرنے والے ہیں۔
ب۔ امریکہ نے بھارت کو چین کا سامنا کرنے کے لئے کردار ادا کرنے کے قابل بنایا، امریکہ نے جس طرح بھارت کے ایٹمی صلاحیتوں کو مضبوط کرنے پر کام کیا اسی طرح اس کو اقتصادی طور پر بھی طاقتور وتوانا کرنا چاہتا ہے تاکہ جو کردار اس کو سونپا گیا ہے اس کو ادا کرنے کے قابل بنے،اس کو ایران کے ذریعے سہارا دیا اور اس کے اندر سرمایہ کاری کرنے کا میدان فراہم کیا۔امریکہ ایران کو بھی اقتصادی طور پر مضبوط کرنے پر کام کر رہا ہےتاکہ اس کو سقوط سے بچایا جاسکے اور خطے میں سونپے گئے کردار کو نبھاتا رہے۔ امریکہ نے بھارت کو افغانستان میں کردار ادا کرنے کا موقع دیا تاکہ وہاں امریکی نفوذ کی نگہداشت کرے، ایران بھی افغانستان میں امریکی وجود کی حمائت کرتا ہے، یہی وجہ تھی کہ بھارت اور ایران امریکی مقبوضہ افغانستان کی معیشت کو سہارا دینے کے لیے متحرک ہوگئے اور سمندر کے کنارے موجود بندرگاہ تک رسائی کے لیے اس کے لیےراستے کھول دیے۔
ج۔ امریکہ اس حوالے سے پاکستان کی حوصلہ افزائی کرتا ہے کہ وہ چین کے ساتھ تعلقات مضبوط کرے تاکہ پاکستان چین کو ایسے منصوبوں کی منظوری پر قائل کرے جو چین کو جنوبی بحر چین پر تسلط جمانے کے توسیعی سرگرمیوں سے باز رکھیں ، اور یہ سب کچھ ایسے وقت میں ہورہا ہے جبکہ کچھ ممالک چین کے خلاف سمندر میں کود پڑنے کے لیے پر تول رہے ہیں اور اس کے لئے مشکلات اور پیچیدگیاں پیدا کر رہے ہیں، اور آخر میں یہ کہ ہیگ، ہالینڈ کے عالمی پنچائیتی ٹریبونل کی طرف سے ایک سیاسی فیصلہ کروایا گیا ۔
د۔ وسط ایشیائی ممالک امریکہ کے ہدف پر ہیں ،امریکہ ا ن ممالک کو پاکستان کے ساتھ کام کرنے کی طرف کھینچ رہاہے اور ان ممالک کو چین کی طرف سے بنائے جانے والے اکنامک کاریڈور کے ذریعے بحری بندرگاہ تک رسائی پانے کا مفاد جتلا رہا ہے۔ یوں امریکہ خطے کے ممالک کو اپنے ایجنٹ پاکستان کے ساتھ جوڑنے میں کامیاب ہوگا اور پاکستان کے ساتھ تعلقات کے راستے ان کے ساتھ روابط استوار کرے گا اور پاکستان کے ساتھ ان کے مفادات وابستہ ہونے کی وجہ سے انہیں خرید لینے کی کاروائی مکمل کی جائیگی...... یہ ایک پہلو ہے ، دوسرے پہلو سے سہ ملکی معاہدے( ایران ، افغانستان بھارت) کے اہداف میں سے یہ بھی ہے کہ وسط ایشیا تک رسائی حاصل کی جاسکے جیساکہ ایرانی اور بھارتی ذمہ داروں کے بیانات سے واضح ہے جبکہ وسطی ایشیا تک امریکہ نواز ریاستوں کی رسائی بلاشبہ امریکی مفادات کی خدمت ہی ہے ،کیونکہ اسی پالیسی کے ذریعے امریکہ وسط ایشیا ئی خطے میں اپنا اثر ونفوذ مستحکم کرے گا جہاں وہ روس کے ساتھ مزاحمت کے لیے خم ٹھونک کے کھڑا ہوسکے گا۔
آخر ی بات : یہ خطہ سالہا سال سے اسلامی خلافت کے دور میں اسلامی حکمرانی کے ماتحت رہا ،شاہراہِ ریشم اور خطے کی زیادہ تر بندرگاہوں اورتجارتی گزرگاہوں کی نگرانی خلافت کرتی تھی۔ ان ذرائع کو استعمال کرنے والے تاجر وں کی اکثریت مسلمان ہوا کرتی تھی جو ادھر ادھر سے تجارتی سامان لے کر چلتے پھرتے تھے اور اس کے ساتھ وہ اسلام کے داعی بنتے تھے اور ان ہی کے ہاتھوں پر خطے کے لاکھوں لوگ دائرہ اسلام میں داخل ہوئے اور ان ہی لوگوں کی نسلیں بڑھتے بڑھتے کروڑوں تک پہنچ گئیں۔ عنقریب ایسا پھر ہوکر رہے گا بلکہ اس سے بھی بہتر ہوگا ،انشاء اللہ ، تب ان ایجنٹوں کو کہیں بھی پناہ نہیں ملے گا جو امریکی اوامر پر چلتےہوئے اسی کے مفاد کی خدمت گزار بنے ہوئے ہیں ، چہ جائیکہ ان کو حکومت کے امور سونپ کر اپنے بوسیدہ نظام اور قومی مفادات کی حفاظت کرتے رہے۔ انشاء اللہ !صبح کا انتظار کرنے والا جلد ہی صبح کو طلوع ہوتا دیکھ لے گا ۔
﴿وَاللَّهُ غَالِبٌ عَلَى أَمْرِهِ وَلَكِنَّ أَكْثَرَ النَّاسِ لَا يَعْلَمُونَ﴾.
"اور اللہ کو اپنے کام پر پورا اختیار حاصل ہے لیکن بہت سے لوگ نہیں جانتے"(یوسف:21)
16 شوال 1437ھ
21/7/2016