بسم الله الرحمن الرحيم
سوال کا جواب: زکوۃ میں جلدی
سوال:
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ,
کیا زکوۃ کے حکم میں 'وقت کے داخل ہونے' کا حکم لاگو ہوتا ہے، اگر یہ کہنا درست ہے تو لفظ 'وقت' کی درست تعبیر کیا ہے۔
سوال: اگر سال گزرنے سے پہلے مال کی زکوۃ اس کی نیت کرتے ہوئے نکالی جائے تو یہ درست ہے یا یہ صدقہ ہو گا اور سال گزرنے پر پھر زکوۃ نکالی جائے گی؟ کیا زکوۃ کا معاملہ نماز، روزہ اور حج کی طرح ہے جو ایک خاص وقت سے مربوط ہے اور دوسرے وقت میں جائز نہیں؟ اگر زکوۃ کا وجوب وقت سے مربوط ہے جو کہ سال کا گزرنا ہے تو کیا سال گزرنے کی پابندی ضروری ہے اور سال گزرنے سے قبل زکوۃ نکالنا جائز نہیں کیونکہ سال گزرنے پر جو اضافہ ہونا تھا اس سے قبل ہی اس سے زکوۃ نکال لی گئی؟اللہ آپ کو جزائے خیر دے اور آپ کے علم سے ہمیں فائدہ پہنچائے، میرے لیے اس سوال کا جواب جاننا ضروری ہے۔
حسام ابو مصعب کی جانب سے
ختم شدہ
جواب:
وعلیکم السلام ورحمۃ اللہ وبر کاتہ،
اول: زکوۃ میں جلدی کے حوالے سے ۔۔۔یہ ملاحظہ کیجئے:
1۔بے شک زکوۃ کے سبب"نصاب" میں سال کا گزرنا شرط ہے، جب یہ شرط پائی جائے یعنی سبب"نصاب" پر سال گزرے اور اس میں کوئی کمی نہ آئے تو زکوۃ واجب ہو جاتی ہے۔۔۔تاہم اگر زکوۃ واجب ہونے سے قبل ہی نکالی جائے تو یہ مندرجہ ذیل شرعی دالائل کی وجہ سے جائز ہے۔
البیہقی نے السنن الکبری میں علی رضی اللہ عنہ سے روایت کی ہے کہ، " عباس رضی اللہ عنہ نے رسول اللہ ﷺ سے سال گزرنے سے پہلے ہی زکوۃ کی ادائیگی کے بارے میں سوال کیا تو رسول اللہ ﷺ نے ان کو اجازت دی"۔۔۔ اور الدار قطنی نے اپنے سنن میں حجر العدوی علی رضی اللہ عنہ کے حوالے سے روایت کیا ہے کہ انہوں نے کہا کہ : رسول اللہ ﷺ نے عمر سے فرمایا، إِنَّاقَدْأَخَذْنَامِنَالْعَبَّاسِزَكَاةَالْعَامِعَامِالْأَوَّلِ " ہم عباس سے سال کی زکوۃ سال کے شروع میں ہی لے چکے ہیں"۔اس بنا پر زکوۃ کے واجب ہونے سے پہلے ہی ادا کرنا جائز ہے، پہلے ہی جو زکوۃ ادا کی گئی وہی زکوۃ ہوگی اس صدقہ نہیں کہا جائے گا ۔
2۔ زکوۃ میں جلدی کا یہ مطلب ہے کہ سال گزرنے سے پہلے ہی زکوۃ ادا کی جائے، چنانچہ محرم میں نصاب مکمل ہو گیا تو اس سال کا اختتام اگلے سال کا محرم ہی ہو گا اور تب زکوۃ واجب ہو گی، مگر زکوۃ کی ادائیگی میں جلدی جائز ہے۔ مثال کے طور پر رمضان میں ہی زکوۃ ادا کردی یعنی مقررہ وقت سے تقریباً چار مہینے پہلے۔۔۔تاہم اس کی کیفیت کے حوالے سے فقہاء کے درمیان اختلاف ہے جو کہ مندرجہ ذیل ہے:
ابن قدامۃ نے المغنی میں نصاب پر سال گزرنے سے پہلے زکوۃ کی ادائیگی کو جائز قرار دیا ہے اور اس کو جائز نہ سمجھنے والوں کو جواب دیتے ہوئے کہا ہے کہ" ہماری دلیل ترمذی میں علی کی روایت ہے " رسول اللہ ﷺ نے عمر سے فرمایا کہ" ہم نے عباس کی زکوۃ سال کے شروع میں ہی لی ہے"۔ دوسری روایت میں ہے کہ" ہم نے عباس کی اس سال کی زکوۃ لینے میں جلدی کی تھی اور سال کے شروع میں ہی لی تھی"۔اس کو سعید نے عطا سے اور ابن ابی ملیکہ اور الحسن بن مسلم نے رسول اللہ ﷺ سے مرسلاً روایت کیا ہے۔ مگر ابن قدامہ سمجھتے ہیں کہ جلد زکوۃ صرف ان اموال کی ادا کی جا سکتی ہے جن کا نصاب ہے چنانچہ کہتے ہیں کہ :" اگر نصاب کا مالک بن جائے اور اس کی زکوۃ ادا کرنے میں جلدی کرے اس سے حاصل ہونے والے منافع کی زکوۃ بھی ادا کرے تو اس کے نصاب کے لیے تو کافی ہے زیادہ کے لیے نہیں۔ " مزید کہتے ہیں کہ " ابو حنیفہ کہتے ہیں کہ اس کے لیے بھی کافی ہے کیونکہ وہ اسی کا تابع ہے جس کا وہ مالک ہے۔۔۔" ۔ حنابلہ سمجھتے ہیں کہ جو مال سامنے موجود ہے اس کی زکوۃ میں جلدی جائز ہے بشرطیکہ وہ نصاب سے زیادہ ہو اور اس مال سے پیدا ہونے والے اضافے سے جائز نہیں۔ جیسے وہ منافع جو سال پورا ہونے کے لیے باقی مدت کے دوران حاصل ہوں۔۔۔مگر ابو حنیفہ اس سب کی زکوۃ میں جلدی کو جائز قرار دیتےہیں۔
میں ان دونوں میں سے کسی رائے کی تبنی کرنا نہیں چاہتا۔ آپ ان دو آراء میں سے جس سے مطمئن ہوں اس کو اختیار کریں۔ مثال کے طور پر آپ اس سال کے محرم میں صاحب نصاب بن جائیں اور جلدی ہی آنے والے رمضان میں زکوۃ ادا کرنا چاہیں اور آنے والے محرم تک سال کے گزرنے کا انتظار نہ کریں تو آپ یہ کر سکتے ہیں:
یا تو آپ رمضان میں اپنے پاس موجود مال کی زکوۃ ادا کریں اگر وہ مال نصاب کے برابر ہو، محرم میں سال مکمل ہونے پر اس مال سے حاصل ہونے والے منافع کا حساب کریں جس کی زکوۃ آپ نے جلدی ادا کی تھی جیسے کہ اس سے حاصل ہونے والے منافع وغیرہ اور اس مزید مال کی زکوۃ ادا کریں۔
مثال کے طور پر آپ نے رمضان میں جس مال کی زکوۃ ادا کی تھی وہ 10000 تھی اور اس کے بعد محرم میں سال مکمل ہونے تک مزید 5000 منافع آئے تو اس مزید 5000 کی زکوۃ سال کے مکمل ہونے پر ادا کریں گے۔
یا پھر پھر رمضان میں آپ مال کا حساب لگائیں گے اور محرم میں سال کے ختم ہونے تک حاصل ہونے والے منافع کا اندازہ لگائیں گے جس کا مجموعہ مثلاً 18000 اور اس کی زکوۃ ادا کریں گے ، اگر سال کے آخر تک مزید 2000 منافع ملیں گے تو ان کو ملا کر 20000 کی زکوۃ اداکریں گے۔
میں اللہ سے دعا کرتا ہوں کہ اللہ تمہاری زکوۃ کو قبول کرے اور اس کو اس دن تمہاری شفاعت کا ذریعہ بنائے جس دن مال واولاد کوئی فائدہ نہیں دیتے سوائے قلب سلیم کے۔
دوسری بات: زکوۃ اور نماز کے لیے وقت کا موضوع:
وقت نماز کے لیے سبب ہے اور سبب وہ ہے جس کے وجود سے وجود اور عدم سے عدم لازم ہو، اسی لیے حکم وجود اور عدم کے لحاظ سے اس کے گرد گھومتا ہے، وقت کے داخل ہونے سے قبل نماز درست نہیں نہ ہی وقت نکلنے کے بعد بھی ۔ مثال کے طور پر رسول اللہ ﷺ نے ظہر کی نماز کی نسبت فرمایا جیسا کہ الطبرانی نے الکبیر میں خباب سے روایت کی ہے کہ : رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:" جب سورج زوال پذیر ہو تو نماز پڑھو" اور البیھقی نے روایت کیا ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے نماز کے اوقات والی حدیث میں ظہر کی نماز کے بارے میں فرمایا جیسا کہ مسلم نے عبد اللہبن عمرو سے روایت کی ہے کہ " ظہر کا وقت تب شروع ہو تا ہے جب سورج کا زوال شروع ہو جب آدمی کا سایہ اس کے برا بر ہو تا ہے اور عصر تک ہے"۔ یہ اسباب ہیں اس لیے سبب کی غیر موجودگی میں نماز درست نہیں، جیسا کہ ہم نے پہلے بھی کہا کہ ظہر کی نماز زوال سے قبل اور وقت نکلے کے بعد نہیں ہو گی۔۔۔
جبکہ زکوۃ کے لیے سال کا گزرنا سبب نہیں سبب میں شرط ہے اس لیے شرط کا نہ پایا جانا سبب کے نہ ہونے سے مختلف ہے خاص کر جب زکوۃ کی جلدی ادائیگی کے لیے نص بھی موجود ہے۔
زکوۃ میں نصاب سبب ہے اس لیے نصاب کے مالک ہونے سے قبل کوئی فرض زکوۃ نہیں بلکہ جو بھی دیا جائے وہ نفل صدقہ ہے۔ نماز کے وقت اور زکوۃ کے نصاب میں سال گزرنے کے درمیان یہی فرق ہے۔ انشاء اللہ یہی کافی ہے۔
آپ کا بھائی عطا بن خلیل ابو الرشتہ
7 ذی الحجۃ 1437 ہجری
9 ستمبر 2016