بسم الله الرحمن الرحيم
سوال کا جواب:
ابوبکر صدیقؓ کے زمانے میں قرآن کریم کا جمع کیا جانا
صوت التحریر کے سوال کا جواب
سوال:
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
میرا ایک سوال ہے جو ابوبکرؓ کی جانب سے قرآن کو جمع کرنے کے بارے میں ہے، کیا قرآن کریم کے نسخے تھے یا لکڑی کی تختیاں تھیں جن پر قرآن کریم لکھا ہوا تھا؟ مجھے اس موضوع کے حوالے سے اسلامی شخصیہ کتاب میں تبنی اور امیر حفظہ اللہ کے جواب کا علم ہے، کتاب تیسیرالوصول الی اصول کا بھی ، یہ سب کہتی ہیں کہ ابوبکرؓ نے قرآن کو ان تختیوں سے اکھٹا کرکے جمع کیا کسی نسخے سے نہیں، مگر میں نے بعض ایسی نصوص پڑھیں ہیں جو اس بات پر دلالت کرتی ہیں کہ جمع سے مقصود بعض کو بعض کے ساتھ یکجا کرنا نہیں بلکہ ان تختیوں کے نسخے بنانا ہے، یہ نصوص مندرجہ ذیل ہیں:
کتاب "المرشد الوجیز الی علوم تتعلق بالکتاب العزیز" جو کہ شہاب الدین عبدالرحمن بن اسماعیل بن ابراھیم المعروف بابی شامہ المقدسی، المتوفی 665 ہجری کی تالیف ہے، کے اقتباسا ت اس بات پر دلالت کرتے ہیں کہ قرآن کا جمع کرنااس کے نسخے بنانا اور ان صحائف سے نقل کرکے لکھنا تھا جو رسول اللہ ﷺ کے سامنے ہی ایک کتاب میں لکھے گئے تھے، ان صحائف کو ایک کتاب کی شکل میں جمع کرنا نہیں،۔۔۔الخ مجھے اس کے اور شخصیہ اسلامیہ میں جو لکھا ہے اس کے درمیان تعارض نظر آتا ہے، اسی طرح سوال کے جواب کے ساتھ بھی۔ ہم نسخے بنانے کی نفی کرتے ہیں، جمع کرنے سے مراد ان تختیوں کو جمع کرنا سمجھتے ہیں جن کو رسول اللہ ﷺ کے سامنے لکھا گیا تھا، جبکہ یہ دلائل اس کو ثابت کرتے ہیں۔
ان کے درمیان موافقت کی کیا صورت ہوگی بارک اللہ فیکم۔ ختم شد
جواب:
وعلیکم السلام ورحمۃ اللہ وبرکاتہ،
1۔قرآن کو جمع کرنے کے مسئلے کو ہم نے اپنی کتابوں میں واضح انداز میں بیان کیا ہے، یہ رسول اللہ ﷺ کے تختیوں، چمڑے کے ٹکڑوں اور ہڈیوں پر لکھے گئے صحیفوں کو ابوبکرؓ کے زمانے میں جمع کرنا ہے، یہ وفات تک ابوبکر کے پاس رہے، پھر وفات تک عمرؓ کے پاس رہے، اس کے بعد حفصہ ؓ کے پاس رہے۔۔۔ عثمانؓ کے عہد میں ان جمع کیے گئے ٹکڑوں کے نسخے تیار کرنے کی ضرورت پیش آئی، آپؓ نے حفصہؓ سے ان جمع کیے گئے ٹکڑوں کو منگوا کر ان سے قرآن کریم کے کئی نسخے تیار کروائے، جن کو مختلف علاقوں میں بھیجا اور ایک نسخہ اپنے پاس رکھاجو مصحف"امام" ہے۔۔۔ہم نے اس معاملے کو کافی تفصیل سے واضح انداز میں بیان کیا ہے۔
2۔ جی ہاں دوسری مختلف روایات بھی ہیں کہ جن میں یہ بتایا گیا ہے کہ نسخے ابوبکرؓ کے زمانے میں تیار کیے گئے، یہ نسخے ٹکروں میں صحابہ کے پاس تھے۔۔۔یہ روایات بھی ہیں کہ یہ نسخے پورے قرآن کے نہیں اس کے ایک حصے کے تھے یہ ابوبکرؓ کے عہد میں۔۔۔وغیرہ۔
3۔ مگر اس حال میں بخاری میں منقول روایات کو لیا جائے گا پھر دوسری روایات کو دیکھا جائے گا کہ اگر وہ بخاری میں لکھے ہوئے کے موافق ہوں، تو لیا جائے گا اگر مخالف ہوں تو نہیں۔
4۔بخاری میں اس مسئلے کو پڑھنے کے بعد یہ واضح ہوتاہے:
ا۔ صحیح بخاری میں آیا ہے:
4311 ۔ ابو الیمان نے بتایا کہ شعیب نے زُھری سے روایت کی ہے انہوں نے کہا کہ ابنِ سباق نے بتایا کہ زید بن ثابت انصاریؓ جو کہ کاتبینِ وحی میں سے تھے، نے کہا:" اہلِ یمامہ کے قتل کے بعد ابوبکر نے مجھے بلایا اور عمر بھی آپ کے پاس تھے ابوبکرؓ نے کہا: عمر میرے پاس آئے اور کہا: یمامہ کے دن قتل نے لوگوں کا صفایا کر دیا، مجھے ڈر ہے کہ جنگوں میں قاریوں کا صفایا ہو جائے اور اگرجمع نہیں کیا تو قرآن کا بڑا حصہ ضائع ہوجائے، میں قرآن کو جمع کرنے کا ارادہ رکھتا ہوں۔ ابوبکرؓ نے کہا کہ: میں نے عمرؓ سے کہا: میں ایسا کام کیسے کروں جو رسول اللہ ﷺ نے نہیں کیا ہو؟ عمرؓ نے کہا: اللہ کی قسم! یہ خیر ہے۔ عمرؓ اسی حوالے سے مسلسل مجھ سے بات کرتے رہے یہاں تک کہ اللہ نے اس کے لیے میرا سینہ کھول دیا اور میں عمر کی رائے کی موافقت کی،۔ زید بن ثابت نے کہا عمرؓان کے ساتھ بیٹھے ہوئے تھے مگربول نہیں رہے تھے۔ تب ابوبکرؓ نے کہا: تم ایک عقلمند نوجوان آدمی ہو،تم وحی لکھتے تھے قرآن کو جمع کرو۔ اللہ کی قسم! اگر مجھے کسی پہاڑ کو اٹھانے کا حکم دیتے تو یہ قرآن کو جمع کرنے کے بوجھ سے زیادہ مجھ پر بھاری نہ ہوتا۔ میں نے کہا: آپ ایسا کام کیسے کر سکتے ہیں جو رسول اللہ ﷺ نے نہیں کیا ہو؟ ابو بکرؓ نے کہا: اللہ کی قسم یہ خیر ہے۔ میں مسلسل ان سے بات کرتا رہا یہاں تک کہ اللہ نے میرا سینہ اس کام کے لیے کھول دیا جس کے لیے ابو بکر اور عمر کا سینہ کھول دیا تھا، میں کمر بستہ ہوگیا اور قرآن کو ٹکڑوں، تختیوں ،چمڑے کے ٹکڑوں اور آدمیوں کے سینوں سے اکھٹا کیا یہاں تک کہ سورہ توبہ کی دو آیتیں خزیمہ انصاری کے پاس سے پالیں، جو مجھے ان کے علاوہ کسی کے پاس نہیں ملی، لَقَدْ جَاءَكُمْ رَسُولٌ مِنْ أَنفُسِكُمْ عَزِيزٌ عَلَيْهِ مَا عَنِتُّمْ حَرِيصٌ عَلَيْكُمْ دو آیتوں کے آخر تک۔جن صحیفوں میں قرآن کو جمع کیا گیا تھا، ابوبکرؓ کی وفات تک آپ کے پاس تھے پھر عمر ؓکے پاس ان کی وفات تک تھے اس کے بعد حفصہ بنت عمر کے پاس۔۔۔"ختم شد
ب۔ صحیح بخاری میں یہ بھی ہے:
6654 ۔ ابو ثابت محمد بن عبیداللہ نے روایت کی ہے کہ ابراھیم بن سعید نے ابنِ شہاب سے، انہوں نے عبید بن سباق سے انہوں نے زید بن ثابتؓ سےنقل کیا ہے، انہوں نے کہا: ابوبکر نے اہلِ یمامہ کے قتل کے بعد مجھے بلایا، آپ کے پاس عمر بھی تھے، ابو بکرؓ نے کہا: عمرنے میرے پاس آکر کہا کہ یمامہ کے دن جنگ نے قرآن کےقاریوں کا صفایا کر دیا ہے، مجھے خدشہ ہے کہ ہر جنگ میں اس طرح قاری قتل ہوتے رہے تو قرآن کا بڑا حصہ ضائع ہوجائے گا، میں سمجھتا ہوں کہ آپ کو قرآن کو جمع کرنے کا حکم دینا چاہیے۔ میں نے کہا: میں ایسا کام کیسے کروں جو رسول اللہ ﷺ نے نہیں کیا؟ عمر نے کہا: اللہ کی قسم یہ خیر کا کام ہے۔ عمراس حوالے سے مجھ سے مسلسل بات کرتے رہے یہاں تک کہ اللہ نے میرا سینہ اس کام کے لیے کھول دیا جس کے لیے عمر کا سینہ کھول دیا تھا ،میں بھی یہی سمجھا جو عمر سمجھتا تھا۔ زیدؓ نے کہا کہ ابوبکر ؓنے کہا: آپ ایک عقلمند نوجوان ہو ، آپ رسول اللہ ﷺ کےلیے وحی لکھتے تھے،قرآن کو ڈھونڈ کر جمع کرو۔ زیدنے کہا: اللہ کی قسم اگر کسی پہاڑ کو منتقل کرنے کا بوجھ مجھ پر ڈال دیا جاتا یہ قرآن کو جمع کرنے کے بوجھ سے زیادہ بھاری نہ ہوتا۔ میں نے کہا:آپ دونوں ایسا کام کیسے کر سکتے ہیں جو رسول اللہ ﷺ نے نہیں کیا؟ ابوبکرؓ نے کہا: اللہ کی قسم یہ خیر ہے۔ وہ مجھ سے مسلسل کہتے رہے یہاں تک کہ اللہ نے میرا سینہ بھی اس کام کے لیے کھول دیا ،جس کام کے لیے ابوبکر اور عمر کا سینہ کھول دیا تھا۔ میں نے بھی اس بات کی حامی بھر لی، پھر میں نے قرآن کو تختیوں، ہڈیوں کے ٹکڑوں اور لوگوں کے سینوں سے جمع کیا یہاں تک کہ سورۃ التوبہ کے آخر کی یہ آیات لَقَدْ جَاءَكُمْ رَسُولٌ مِنْ أَنفُسِكُمْ تک خزیمہ یا ابو خزیمہ کے پاس پایا اور ان کو میں نے سورت سے ملایا ۔ اور یہ صحیفے وفات تک ابوبکرؓ کے پاس تھے، آپ کی وفات کے بعد عمرؓ کے پاس ان کی وفات تک تھے پھر حفصہ بنت عمر ؓکے پاس۔۔۔ محمد بن عبیداللہ کہتے ہیں کہ اللحاف سے مراد خزف(چمڑے کا ٹکڑا) ہے۔ ختم شد
ج۔زید بن ثابت رضی اللہ عنہ سے بخاری کی روایات متعدد ہیں ان سب میں زید سے ابوبکر کا یہ قول مذکور ہے(ابوبکر نے کہا:آپ ایک نوجوان اور عقلمند آدمی ہو ،رسول اللہ ﷺ کے لیے وحی لکھتے رہے، قرآن کو تلاش کرکے جمع کرو۔
د۔ اس سے یہ واضح ہوتاہے کہ ابوبکرؓ نے زید سے مطالبہ کیا کہ وہ قرآن کو تلاش کرکے جمع کریں، لکھنے کا نہیں کہا، یعنی زیدؓ کا کام رسول اللہ ﷺ کے سامنے لکھے ہوئے صحائف کو ،جو چمڑے کے ٹکڑوں، ہڈیوں اور تختیوں کی شکل میں تھے، کو جمع کرنا تھا، دوبارہ لکھنا نہیں۔۔۔
ھ۔ اس کی تائید اس بات سے بھی ہوتی ہے کہ زیدبن ثابت ؓکو جب سورۃالتوبہ کی آخری آیتیں لکھی ہوئی صرف خزیمہ انصاریؓ کے پاس ملیں اور آپ کے علاوہ کسی کے پاس لکھی ہوئی نہیں تھیں، تو زید ؓان کو ثابت کرنے کے لیے توقف اختیار کیا حالانکہ وہ ان کو تواتر سے یاد کیے ہوئے تھے ،مگر یہ لازمی قرار دیا گیا تھا کہ اسی صحیفے کو لیا جائے گا جس کو رسول اللہ ﷺ کے سامنے لکھنے کی گواہی دو گواہ دیں اور خزیمہ کے پاس موجود اس صحیفے کا گواہ ایک یعنی خود خزیمہؓ تھے، دوسرے گواہ کی ضرورت تھی۔۔۔زید نے اس آیت کو نہیں لکھا حالانکہ وہ اسے تواتر سے حفظ کیے ہوئے تھے۔۔۔پھر اللہ سبحانہ وتعالیٰ نے آسانی کردی کہ صحابہ نے گواہی دی کہ رسول اللہ ﷺ نے خزیمہؓ کی گواہی کو دوگواہیوں کے برابر قراردیا ہے، اسی لیے اس صحیفے کو خزیمہؓ سے لیا کہ ان کی گواہی دو گواہوں کے برابر ہے۔
و۔ جہاں تک خزیمہ کی گواہی کے دوگواہوں کے برابر ہونے کی بات ہے تواحمد اپنے مُسنَد میں اور ابو داؤد نے اپنی سنن میں روایت کی ہے اوریہ الفاظ احمد کے ہیں کہ:
) حَدَّثَنَا أَبُو الْيَمَانِ حَدَّثَنَا شُعَيْبٌ عَنِ الزُّهْرِيِّ حَدَّثَنِي عُمَارَةُ بْنُ خُزَيْمَةَ الْأَنْصَارِيُّ، أَنَّ عَمَّهُ حَدَّثَهُ، وَهُوَ مِنْ أَصْحَابِ النَّبِيِّ ﷺ، أَنَّ النَّبِيَّ ﷺ ابْتَاعَ فَرَساً مِنْ أَعْرَابِيٍّ فَاسْتَتْبَعَهُ النَّبِيُّ ﷺ لِيَقْضِيَهُ ثَمَنَ فَرَسِهِ، فَأَسْرَعَ النَّبِيُّ ﷺ الْمَشْيَ وَأَبْطَأَ الْأَعْرَابِيُّ، فَطَفِقَ رِجَالٌ يَعْتَرِضُونَ الْأَعْرَابِيَّ فَيُسَاوِمُونَ بِالْفَرَسِ لَا يَشْعُرُونَ أَنَّ النَّبِيَّ ﷺ ابْتَاعَهُ، حَتَّى زَادَ بَعْضُهُمْ الْأَعْرَابِيَّ فِي السَّوْمِ عَلَى ثَمَنِ الْفَرَسِ الَّذِي ابْتَاعَهُ بِهِ النَّبِيُّ ﷺ، فَنَادَى الْأَعْرَابِيُّ النَّبِيَّ ﷺ فَقَالَ: إِنْ كُنْتَ مُبْتَاعاً هَذَا الْفَرَسَ فَابْتَعْهُ وَإِلَّا بِعْتُهُ. فَقَامَ النَّبِيُّ ﷺ حِينَ سَمِعَ نِدَاءَ الْأَعْرَابِيِّ فَقَالَ: أَوَلَيْسَ قَدْ ابْتَعْتُهُ مِنْكَ؟ قَالَ الْأَعْرَابِيُّ: لَا وَاللَّهِ مَا بِعْتُكَ. فَقَالَ النَّبِيُّ ﷺ: بَلَى قَدْ ابْتَعْتُهُ مِنْكَ. فَطَفِقَ النَّاسُ يَلُوذُونَ بِالنَّبِيِّ ﷺ وَالْأَعْرَابِيِّ وَهُمَا يَتَرَاجَعَانِ، فَطَفِقَ الْأَعْرَابِيُّ يَقُولُ: هَلُمَّ شَهِيداً يَشْهَدُ أَنِّي بَايَعْتُكَ، فَمَنْ جَاءَ مِنْ الْمُسْلِمِينَ قَالَ لِلْأَعْرَابِيِّ: وَيْلَكَ النَّبِيُّ ﷺ لَمْ يَكُنْ لِيَقُولَ إِلَّا حَقّاً، حَتَّى جَاءَ خُزَيْمَةُ فَاسْتَمَعَ لِمُرَاجَعَةِ النَّبِيِّ ﷺ وَمُرَاجَعَةِ الْأَعْرَابِيِّ، فَطَفِقَ الْأَعْرَابِيُّ يَقُولُ: هَلُمَّ شَهِيداً يَشْهَدُ أَنِّي بَايَعْتُكَ. قَالَ خُزَيْمَةُ: أَنَا أَشْهَدُ أَنَّكَ قَدْ بَايَعْتَهُ، فَأَقْبَلَ النَّبِيُّ ﷺ عَلَى خُزَيْمَةَ فَقَالَ: بِمَ تَشْهَدُ؟ فَقَالَ: بِتَصْدِيقِكَ يَا رَسُولَ اللَّهِ، فَجَعَلَ النَّبِيُّ ﷺ شَهَادَةَ خُزَيْمَةَ شَهَادَةَ رَجُلَيْنِ
" ابو الیمان نے روایت کیا کہ شعیب نے زُھری سے روایت کیا ہے کہ عمارہ بن خزیمہ انصاری نے روایت کیا ہے کہ اس کے چچا نے اس کو بتایا جو کہ رسول اللہ ﷺ کے صحابہ میں سے ہیں کہ نبی ﷺ نے ایک دیہاتی سے گھوڑا خریدا، رسول اللہ ﷺ نے اسے گھوڑے کی قیمت ادا کرنے کے لیے بلایا نبی ﷺ جلدی چل رہے تھے اور دیہاتی آہستہ۔ لوگ دیہاتی کی طرف آرہے تھے اور اس کے ساتھ گھوڑے کا بھاؤ تاؤ کر رہے تھے کیونکہ انہیں معلوم نہیں تھا کہ یہ گھوڑا رسول اللہ ﷺ خرید چکے ہیں، یہاں تک کہ کسی نے دیہاتی کو اس سے زیادہ قیمت کی پیش کش کی جتنی قیمت میں رسول اللہ ﷺ نے خریدا تھا۔ اس دیہاتی نے رسول اللہ ﷺ کو مخاطب کرکے کہا کہ اگر تم یہ گھوڑا لے رہو تو لے لو ورنہ میں یہ بیج دوں گا۔ رسول اللہ ﷺ دیہاتی کی آواز سن کر کھڑے ہوئے اور فرمایا: کیا یہ میں تم سے خرید نہیں چکا؟ دیہاتی نے کہا: نہیں اللہ کی قسم! میں نے تمہیں نہیں بیچاہے۔ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: کیوں نہیں میں یہ تم سے خرید چکا ہوں۔ لوگ دیہاتی اور رسول اللہ ﷺ کو دیکھتے رہے ۔ دیہاتی نے کہا: کوئی گواہ لے آؤ جو گواہی دے کہ میں یہ تمہیں بیج چکا ہوں۔ کسی مسلمان نے دیہاتی سے کہا تیرا بیڑہ غرق ہو نبی ﷺ حق کے سوا کچھ نہیں کہتے۔ پھر خزیمہ آئے اور نبی ﷺ اور دیہاتی کے درمیان گفتگو سنی دیہاتی کہہ رہا تھا کہ گواہ لے آؤ کہ میں نے تمہیں بیچ دیا ہے۔ خزیمہؓ نے کہا: میں گواہی دیتا ہوں کہ تم نے ان کو بیچا ہے۔ نبی ﷺ خزیمہ کی طرف متوجہ ہوئے اور فرمایا: تم کیسے گواہی دیتے ہو؟ انہوں نے کہا:کیونکہ ہم نے آپ کے سچا ہونے کی تصدیق کی ہے اے اللہ کے رسول ﷺ۔ اس کے بعد آپ ﷺ نے خزیمہ کی گواہی کو دوآدمیوں کی گواہی کے برابر قرار دیا۔ اس کو حاکم نے بھی مستدرک علی صحیحین میں روایت کیا ہے اور کہا ہے کہ :" ۔۔یہ صحیح الاسناد ہے ، اس کے راویوں کے قابل اعتماد ہونے پر شیخین کا اتفاق ہے لیکن انہوں نے اس کی تخریج نہیں کی"۔
ز۔ یہ سب یہ ثابت کرتا ہے کہ وہ صحابی جس کے پاس وہ رِقہ ملا جس پر سورہ توبہ کی آیتیں لکھی ہوئی تھیں وہ خزیمہ ہیں، ابو خزیمہ نہیں جیسا کہ بعض روایات میں ہے کیونکہ اس آیت کے لیے شہادت میں ان کی گواہی کو دوگواہوں کے برابر سمجھا گیا، یہ خزیمہ پر منطبق ہوتا ہے ابو خزیمہ پر نہیں۔۔۔ ایسا لگ رہا ہے کہ راوی خزیمہ اور ابو خزیمہ میں التباس کا شکار ہوئے کبھی کبھی ایسا ہوتاہے۔۔۔بہرحال یہ خزیمہ بن ثابت انصاری ؓتھے جیسا کہ ہم نے اوپر بیان کیا۔
ح۔یوں زیدؓ نے خزیمہؓ کے پاس جو لکھا ہوا ملا تھا، کوباقی قرآن میں جمع کرنے سے توقف کیایہاں تک کہ یہ معلوم ہوگیا کہ خزیمہ کی گواہی دوگواہوں کے برابر ہے جیسا کہ رسول اللہ ﷺ کی اس حدیث میں ہے جسے ہم نے اوپر بیان کیا، تب زید کا دل مطمئن ہوا اور انہوں نے اس رِقہ کو لیا اور دوسرے رِقعوں کے ساتھ جمع کیا جو لکھے ہوئے تھے۔
ط۔ یہ سب اس بات کی تائید کرتا ہے کہ ابوبکر ؓنے قرآن کو جمع کرنے کے لیے زیدبن ثابت ؓ کو جو ذمہ داری دی تھی وہ قرآن کو لکھنا نہیں تھا بلکہ رسول اللہ ﷺ کے سامنے قرآن کے لکھے ہوئے مختلف ٹکڑوں کو یکجا کرنا تھا اور ان ٹکڑوں کو اپنی اپنی سورتوں میں ترتیب سے رکھنا تھا، ہر ٹکڑے کےلیے کم ازکم دوبندے گواہی دیتے تھے کہ یہ رسول اللہ ﷺ کے سامنے لکھاگیا ہے سوائے سورہ توبہ کے آخرکے ، جو صرف خزیمہ ؓکے پاس موجود تھا اور یہ خزیمہؓ وہ ہیں جن کی گواہی کو رسول اللہ ﷺ نے دوآدمیوں کی گواہی کے برابر قرار دیاتھا، اللہ نے سچ فرمایا ہے کہ إِنَّا نَحْنُ نَزَّلْنَا الذِّكْرَ وَإِنَّا لَهُ لَحَافِظُونَ "بے شک ہم نے قرآن کو نازل کیا اور ہم ہی اس کی حفاظت کرنے والے ہیں"۔
ی۔ یوں وہ روایات جن کا آپ نے سوال میں ذکرکیا جو زید نے ابوبکر کے عہد میں کیا وہ قرآن کی آیات کے نسخے بنانا ہے ان کواکھٹاکرنا نہیں جو کہ چمڑے کے ٹکڑوں، تختیوں اور ہڈیوں پر لکھی ہوئی تھی، یہ روایات بخاری میں مذکور صحیح روایات سے متصادم ہیں جن کو ہم نے اوپر بیان کیا ہے، لہذا اس پر وہی لاگو ہوگا جو ہم نے ذکر کیا، درایتاً ان الفاظ کو رد کیا جائے گا اگر سند صحیح ہو ،اور اگر سند ضعیف ہو توضعف کی وجہ سے اس کو نہیں لیاجائے گا۔
6۔ آخر میں آپ کے سوال سے یہ واضح ہوتا ہے کہ آپ نے شخصیہ الاسلامیہ جز اول اور قرآن کو جمع کرنے کے موضوع پر تیسرالوصول الی الاصول کو پڑھا ہے اس لیے قرآن کو جمع کرنے کے حوالے سے ان دونوں کتابوں میں جو آیا ہے وہ میں آپ کے لیے نہیں دہراؤں گا۔۔۔مگر شخصیہ میں سے اس جزو کو پیش کرتا ہوں:
"اس بنا پر قرآن کو جمع کرنے کے حوالے سے ابوبکر کا حکم اس کو ایک مصحف میں لکھنے کے لیے نہیں تھا بلکہ ان صحائف کو ایک جگہ جمع کرنے کے لیے تھا جو رسول اللہ ﷺ کے سامنے لکھے گئے تھےاس میں بھی تاکید کے لیے دوگواہ ہوتے تھے جو اس بات کی گواہی دیتے تھے کہ یہ رسول اللہ ﷺ کے سامنے لکھے گئے ہیں ،یہ لکھے ہوئے صحابہ کے پاس تھے اور ان کو حفظ بھی تھے۔ یہ صحیفے مرتے دم تک ابوبکرؓ کے پاس محفوظ رہے، پھر عمرؓ کے پاس تاحیات رہے ،اس کے بعد عمرؓ کی وصیت کے مطابق ام المومنین حفصہ بنت عمرؓ کے پاس رہے۔۔۔ لہذا عثمانؓ کا عمل قرآن کو جمع کرنا نہیں بلکہ رسول اللہ ﷺ کے سامنے لکھے گئے کے نسخے تیار کرنا تھا۔ عثمان نے اس نسخے سے ان کے سات نقلیں تیار کرنے کے علاوہ کچھ نہیں کیا جو ام المومنین حفصہؓ کے پاس تھا، لوگوں نے اسی خط پر اجماع کیا اور اس کے علاوہ کسی خط یا املاء سے منع کیا۔ پھر خط اور املاء دونوں لحاظ سے معاملہ اسی نسخے پر رک گیا، یہ وہی خط اور املاء ہے جس کو رسول اللہ ﷺ کے سامنے اس وقت لکھا گیا جس وقت وحی کے ذریعے یہ نازل ہوا، یہ وہی نسخہ ہے جس ابوبکر نے جمع کیا جس کے بعد مسلمانوں نے اس کے نسخے بنائے اس کے علاوہ کوئی نسخہ نہیں ،یہی اپنے رسم الخط میں مصحف عثمان ہے۔۔۔"
۔اور التیسیر سے مندرجہ ذیل حصہ پیش کرتاہوں:
(اللہ عزوجل نے قرآن کریم کی حفاظت کی ذمہ داری خود لی جس پر کسی بھی طرف سے باطل حملہ آور نہیں ہوسکتا اس میں کوئی بھی کسی ایک حرف کو تبدیل نہیں کرسکتا ایسا کوشش کرنے والا لازما بے نقاب ہوگا،" بے شک ہم نے ہی اس قرآن کو نازل کیا ہے اور ہم ہی اس کے محافظ ہیں"(الحجر9 )، "اس کا جمع کرنا ہم پر ہی ہے" (القیامۃ17 )، "اگر یہ اللہ کے علاوہ کسی کی طرف سے ہوتا تو اس میں بہت سارے اختلافات پاتے"(النساء 82 )، "اس کے آگےیا پیچھے سے باطل اس میں داخل نہیں ہوسکتا یہ قابلِ تعریف حکمت والے کا نازل کیا ہوا ہے" (فصلت42)
اللہ عزوجل نے قرآن کی حفاظت کی ،اسے جمع کرنے کا بندوبست کیا، اس کو تبدیلی اور تحریف سے محفوظ کیا یہاں تک کہ یہ نقل متواتر سے ہم تک پہنچا، صحابہ کرام رضوان اللہ علیھم اجمعین نے عین اسی کو نقل کیا جو وحی کے ذریعے نازل ہوا تھا، جس کو لکھنے کا حکم رسول اللہ ﷺ نے دیا تھا اور یہی قیامت کے دن اور جب تک اللہ چاہے گا محفوظ رہے گا۔
آپ کا بھائی عطاء بن خلیل ابو رَشتہ
30 ربیع الآخر1442 بمطابق 15/12/2020
Latest from
- امریکی منصوبے کے جال میں پھنسنے سے خبردار رہو
- مسلم دنیا میں انقلابات حقیقی تبدیلی پر تب منتج ہونگے جب اہل قوت اپنی ذمہ داری ادا کرتے ہوئے جابروں کو ہٹا کر امت کا ساتھ دینگے
- حقیقی تبدیلی صرف اُس منصوبے سے آ سکتی ہے جو امت کے عقیدہ سے جڑا ہو۔ ...
- حزب التحریر کا مسلمانوں کی سرزمینوں کو استعمار سے آزاد کرانے کا مطالبہ
- مسلمانوں کے حکمران امریکی ڈکٹیشن پر شام کے انقلاب کو اپنے مہروں کے ذریعے ہائی جیک کر کے...