بسم الله الرحمن الرحيم
سوال و جواب: جوائنٹ اسٹاک کمپنیوں کا آئین سازبورڈ
حمزہ شہادہ کیلئے
سوال:
السلام علیکم و رحمۃ اللہ و برکاتہ
اللہ آپ کو صحت مند اور تندرست رکھے۔ میرا جوائنٹ اسٹاک کمپنیوں کے بارے میں ایک سوال ہے :
ہم جوائنٹ اسٹاک کمپنیوں کے آئین ساز بورڈ کو ایجاب(offer) اور قبولیت(acceptance) کیوں نہیں سمجھتے؟
جواب:
وعلیکم السلام ورحمۃ اللہ وبرکاتۃ
شیئر ہولڈنگ کمپنیاں اپنی حقیقت میں فنڈ کمپنیاں ہوتی ہیں، یعنی وہ شرکاء کے پیسوں(investment) کی نمائندگی کرتی ہیں نہ کہ ان شراکت دار لوگوں کی، اور آئین ساز بورڈ بھی سرمائے کی نمائندگی کرتا ہے نہ کہ (شراکت دار)افراد کی، اس لیے جس کے پاس دو شیئر(shares) ہیں اس کے پاس دو ووٹ ہیں، اور جس کے پاس دس شیئر ہیں اس کے دس ووٹ ہیں، اور اسی طرح جوائنٹ سٹاک کمپنی ایک فنڈ (money)یا اموال کی کمپنی ہے، اور اس کا اسلام میں وجود نہیں ہے۔ اسلام میں کمپنیوں کے معاہدات کے مطابق عملی کام کرنے والے لوگوں کی معاہدے میں موجودگی کارپوریٹ کمپنی کا بنیادی ستون ہے، اور صرف مال کی سرمایہ کاری سے معاہدہ طے نہیں پاتا۔ اس کے مطابق،جوائنٹ اسٹاک کمپنیوں میں آئین ساز بورڈ فنڈز کی نمائندگی کرتا ہے، یعنی یہ ایک فریق ہے اور یہ اکیلا کوئی معاہدہ نہیں بناتا، اور اس لیے یہاں کوئی ایجاب و قبول موجود نہیں ہے...
کتاب اقتصادی نظام، عربی کے صفحہ 162-168 میں جوائنٹ اسٹاک کمپنیوں کے بارے میں تفصیل سے آیا ہے، اور میں اس کے کچھ نکات کا ذکر کروں گا:
[یہ ہے اسٹاک کمپنی اور یہ شرعی لحاظ سے باطل کمپنیوں میں سے ہے۔یہ لین دین کے ان معاملات میں سے ہے جن کو انجام دینا مسلمان کے لیے جائز نہیں۔اس کے باطل ہو نے کی وجہ اور اس میں شرکت کی حرمت مندرجہ ذیل امور سے واضح ہوتی ہے:
اسلام میں کمپنی کی تعریف یہ ہے:یہ دو یا دو سے زیادہ افراد کے درمیان ایک عقد ہے جس میں وہ منافع کمانے کے ارادے سے کوئی مالی کام کرنے پر اتفاق کر تے ہیں،پس یہ دو یا دو سے زیادہ افرادکے درمیان عقد ہے۔
-
پھر وہ ایک دستاویز بناتے ہیں جو کمپنی کے دستور کی نمائندگی کرتا ہے۔ پھر اس کے بعد اس دستاویز پر ہر وہ شخص دستخط کرتا ہے جو اس کمپنی میں شریک بننا چاہتا ہے اور اس کے دستخط کو قبولیت سمجھا جاتا ہے۔ایسا کرنے والوں کو کمپنی کا بانی اور شراکت دار سمجھا جاتا ہے۔ دوسرے الفاظ میں شراکت داری اس وقت قائم ہو جاتی ہے جب دستخط کیے جاتے ہیں یا شراکت داری میں حصہ ڈال دینے کی مدت ختم ہو جاتی ہے ۔ اس میں یہ واضح ہے کہ اس میں کوئی دو فریق نہیں جنہوں نے مل کر معاہدہ کیا، اور اس میں کوئی ایجاب(offer) اور قبولیت نہیں ہے، بلکہ ایک ہی فریق ہے جو شرائط پر راضی ہوتا ہے، اور اس رضامندی سے وہ شراکت دار ہو جاتا ہے۔ یہ واضح طور پر دیکھا جا سکتا ہے کہ جوائنٹ سٹاک کمپنی دو فریقین کے درمیان ایک معاہدہ نہیں ہے، بلکہ کچھ مخصوص شرائط پر ایک فریق کا اقرار ہے۔ اس لیے سرمایہ دارانہ اقتصادیات کے ماہرین اور مغربی قانون کے دانشوروں نے اس کے بارے میں کہا کہ اس طرح کی کمپنی کا عزم ایک طرح کی انفرادی مرضی سے عمل کرنے کی ایک شکل ہے۔
-اس بنا پر انفرادی مرضی کی بنیاد پر کیا گیا جوائنٹ سٹاک کمپنی کا معاہدہ شریعت کی رو سے باطل معاہدہ ہے کیونکہ شریعت میں کوئی بھی معاہدہ دو فریقین میں سے ایک کی طرف سے پیشکش اور دوسرے کی طرف سے اس پیشکش کی قبولیت کا تعلق ہے،جس کا اظہار ایسے طریقے سے ہو جو معاہدہ کے موضوع پر اس کا اثر ظاہر کرتا ہے۔ جوائنٹ سٹاک کمپنی کے معاہدے میں ایسا نہیں ہوتا کیونکہ کوئی سے بھی دو یا دو سے زائد افراد کے درمیان ایسا معاہدہ نہیں ہوتا...-
-مزید یہ کہ اسلام میں کمپنی کے لیے کاروباری عمل کرنے والے وجود(بدن) کا ہونا ضروری ہے، یعنی اس شخص کی موجودگی جسے تصرف کا حق حاصل ہو ، کیونکہ شراکت، فروخت، اجارہ اور دیگر تمام معاہدات میں کاروباری عمل کرنے والے وجود(بدن) سے مراد وہ شخص ہے جو تصرف کر رہا ہے، جسمانی موجودگی یا کوشش نہیں۔عمل کرنے والے وجود (بدن)کی موجودگی کمپنی کی تشکیل میں ایک لازمی عنصر ہے۔ اگرعمل کرنے والا وجود (بدن) کمپنی میں موجود نہیں ہے،تو کمپنی قائم نہیں ہوتی۔ جوائنٹ سٹاک کمپنی کا سرے سے کوئی بدن نہیں ہے، بلکہ وہ جان بوجھ کر کمپنی سے ذاتی عنصر کو نکال دیتی ہے۔ شیئر سٹاک کمپنی کا معاہدہ صرف سرمائے(مال) کے درمیان ایک معاہدہ ہے، اور اس میں کوئی ذاتی عنصر نہیں ہے، کیونکہ یہ دراصل وہ ملکیتیں ہی ہیں جو آپس میں شراکت دار ہیں، ان کے مالکان کے نہیں۔ بالفاظِ دیگر، یہ فنڈز آپس میں کسی بدن(عمل کرنے والے وجود) کی موجودگی کے بغیر ایک دوسرے کے ساتھ شراکت کرتے ہیں۔ بدن کی عدم موجودگی سے کمپنی کا قیام نہیں ہوتا،اور یہ شریعت کی رو سے باطل ہے، کیونکہ شریعت کے مطابق بدن ہی مال کا تصرف کرتا ہے، اور مال کا تصرف صرف اسی پر منحصر ہے۔ لہٰذا اگربدن ہی موجود نہیں ہے توتصرف نہیں ہو سکتا ۔
- جو لوگ سرمائے کے مالک ہوتے ہیں وہی لوگ کمپنی میں پیسہ لگانے پراقرار کرتے ہیں اور وہ بورڈ آف ڈائریکٹرز(board of directors) کا انتخاب کرتے ہیں، جو کمپنی میں کام شروع کرتے ہیں۔لیکن اس کا یہ مطلب نہیں کہ کمپنی میں ایک بدن (عمل کرنےوالا وجود) موجود ہے کیونکہ ان کا معاہدہ سرمائے کو شراکت دار بنانے کا تھا، نہ کہ وہ خود شراکت دار ہیں۔لہٰذا سرمایہ شراکت دار ہے، اس کا مالک نہیں۔ جہاں تک بورڈ آف ڈائریکٹرز کے انتخاب کا تعلق ہے، اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ یہ بورڈ ان کی طرف سے تفویض کیا گیا ہے، بلکہ یہ منتخب شدہ بورڈ ان کے سرمائے کی نمائندگی کر رہا ہے،ان کی اپنی نمائندگی نہیں۔ اس کا ثبوت یہ ہے کہ شیئر ہولڈر کے پاس اتنے ہی ووٹ ہیں جتنے اس کے شیئر ہیں، لہذا جس کے پاس ایک شیئر ہے اس کے پاس ایک ووٹ ہے، یعنی ایک نمائندگی، اور جس کے پاس ہزار شیئرز ہیں اس کے پاس ہزار ووٹ ہیں، یعنی ایک ہزارنمائندگیاں۔ لہذانمائندگی سرمائے کی ہے، شخص کی نہیں۔ اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ بدن کا عنصرکمپنی سے غائب ہے، اور یہ صرف سرمائے کے عنصر سے بنا ہے۔
چنانچہ اس طرح جوائنٹ سٹاک کمپنی کا معاہدہ شریعت کی رو سے باطل ہےکیونکہ اسے اسلام کے کمپنی کے اصولوں کی بنیاد پر قائم نہیں کیا گیا۔[
آپ کتاب، "اسلام کا اقتصادی نظام "کے باب، "جوائنٹ سٹاک (شیئر)کمپنیاں" سے مزید معلومات لے سکتے ہیں۔
مجھے امید ہے کہ یہ جوائنٹ شیئر کمپنیوں کو باطل کرنے کے لیے کافی ہے، اور اللہ سب کچھ جاننے والا اور بڑی حکمت والا ہے۔
آپ کا بھائی
عطاء بن خلیل ابو الرشتہ
03 رجب الحرام 1444ھ
25 جنوری2023ء
Latest from
- فلسطین اور غزہ کی آزادی کے لیے خلافت اور جہاد کے لیے وسیع سرگرمیاں
- اے مسلمان ممالک کی افواج! کیا تم میں کوئی صالح جواں مرد نہیں کہ وہ افواج کی قیادت کرے؟
- مسئلہ فلسطین عالمی برادری کا نہیں بلکہ امت اسلامیہ کا مسئلہ ہے۔
- عالمی سیاست کیوں اہم ہے؟!
- بے شک غزہ کلمہ گو مسلمانوں کا ایشو ہے، سینٹ کام کے ملازموں کا نہیں