الأربعاء، 16 جمادى الثانية 1446| 2024/12/18
Saat: (M.M.T)
Menu
القائمة الرئيسية
القائمة الرئيسية

بسم الله الرحمن الرحيم

 

سوال و جواب

نصرۃ طلب کرنا، نصرۃ دینا، اور اللہ کی نصر

 

محمد علی بوعزیزی کے نام

 

سوال:

 

السلام علیکم ورحمة الله وبرکاته،

اللہ آپ کو توفیق دے اور آپ کو اجر سے نوازے۔

ایک تو طلبِ نُصرة ہے اور دوسرا پہلو اس مطالبے پر لبیک کہنا یعنی اہلِ قوت کی طرف سے نُصرۃ دیا جانا ہے اور تیسرا پہلو الله کی نَصر ہے۔ تو کیا نصرۃ کے مطالبے کے جواب میں لبیک کہا جانا اور نصرۃ دیا جانا، اللہ کی نصر کے مترادف ہے؟ مجھے یاد ہے جیسا کہ سیرت میں آیا ہے: ابن ہشام نے اپنی سیرت کی کتاب میں بیان کیا: "جب اللہ تعالیٰ نے اپنے بندے (محمد صلی اللہ علیہ والہ وسلم) کی نصر کرنا چاہی تو اُس نے اہل مدینہ میں سے ایک گروہ کو ان کی مدد کے لیے کھڑا کیا۔ اور کیا اللہ كى نصر آنے والی نئی ریاست کے ساتھ لازم ہے، جو ان شاء اللہ موجودہ پیمانوں کو پلٹا کر رکھ دے گی، امت کو لا الہ الا اللہ محمد رسول اللہ کے جھنڈے تلے جمع کرے گی، اور اگر مغرب نے ہم پر حملہ کیا تو اس سےجنگ کرے گی؟ اور کیا نصر ظاہری اور محسوس شکل میں ہوتی ہے جیسے بدر کی جنگ میں فرشتوں کے ذریعے مدد کی گئی، یا خندق کی جنگ میں تند و تیز ہوا کے ذریعے مدد کی گئی، یا پھر یہ معاونت، تائید ایزدی اور دشمن کے دلوں پر رعب و دہشت طاری کر دینے کی شکل میں بھی ہوتی ہے؟

 

سوال کے اندر ان مختلف جہتوں کی تفصیل پر معذرت خواہ ہوں، اللہ عزوجل آپ کو بہترین انعام دے۔ اللہ آپ کا حامی و ناصر ہو۔

 

 

جواب:

وعليكم السلام ورحمة الله وبركاته۔

1- النصر کے متعدد پہلو ہیں، مثلاً دعوت کی فکر کا دیگر خیالات پر غالب آنا ایک پہلو ہے، لوگوں کا دعوت کے گرد جمع ہونا اور اس کی طرف کِھچ آنا اور اس دعوت کی حمایت کرنا، اس کا دوسرا پہلو ہے، اور دعوت کے حامیوں کا اپنی دعوت پر ثابت قدم رہنا بھی ایک پہلو ہے ... وغیرہ۔

 

2- اللہ کی نصر کے مختلف پہلوؤں میں اہل قوت کا دعوت کو نصرہ دے کر اس کا مثبت جواب دینا بھی شامل ہے، لیکن نصر اپنے کامل مدد کے معنوں میں اس وقت تک ممکن نہیں جب تک کہ یہ نصرۃ ( اہل قوت کی طرف سے مادی مدد) حاصل نہ ہو جائے اور حزب حکمرانی میں نہ آ جائے، یعنی ریاست قائم ہو اور اسلام کو عملی طور پر نافذ کر دیا جائے اور اہل عالم کے سامنے اسلام کی دعوت پیش کی جائے... دعوت کے سیاق میں مکمل نصر کا مطلب ہے کہ ایک نقطۂ ارتکاز وجود پذیر ہو، یعنی ریاست قائم ہو جائے۔ کیونکہ ریاست کے بغیر زندگی کے میدان میں اسلام موجود نہیں ہو سکتا... نَصر کے دیگر پہلو بھی اگرچہ خیر پر مبنی ہوتے ہیں لیکن ان کے ذریعے زندگی کے میدان میں اسلام کی موجودگی کو قائم نہیں کیا جا سکتا، بلکہ ضروری ہے کہ ریاست قائم ہو اور اسلام کو عملی طور پر حکمرانی میں لایا جائے، تاکہ کار زار حیات میں اسلام کا بول بالا ہو اور نصر  مکمل شکل اور جامع صورت میں حاصل ہو جائے۔

 

3- ہمیں یقین ہے کہ ریاست خلافت راشدہ الثانی قائم ہوگی اور باقی رہے گی اور امت مسلمہ کو مدد اور استحکام دلانے میں اس کی قیادت کرے گی۔ کیونکہ وہ شرعی دلائل جو اس کے قیام کے متعلق ہیں، اس بات کی طرف اشارہ کرتے ہیں کہ یہ باقی رہے گی اور قدم جمائے گی اور عدل کے ذریعے حکمرانی کرے گی۔ جیسا کہ:

 

- اللہ سبحانہ و تعالیٰ فرماتے ہیں:

 

﴿وَعَدَ اللَّهُ الَّذِينَ آمَنُوا مِنْكُمْ وَعَمِلُوا الصَّالِحَاتِ لَيَسْتَخْلِفَنَّهُمْ فِي الْأَرْضِ كَمَا اسْتَخْلَفَ الَّذِينَ مِنْ قَبْلِهِمْ وَلَيُمَكِّنَنَّ لَهُمْ دِينَهُمُ الَّذِي ارْتَضَى لَهُمْ وَلَيُبَدِّلَنَّهُمْ مِنْ بَعْدِ خَوْفِهِمْ أَمْناً يَعْبُدُونَنِي لَا يُشْرِكُونَ بِي شَيْئاً وَمَنْ كَفَرَ بَعْدَ ذَلِكَ فَأُولَئِكَ هُمُ الْفَاسِقُونَ﴾

  "اللہ نے تم میں سے ان لوگوں سے وعدہ کیا ہے جو ایمان لائے اور نیک عمل کیے کہ وہ انہیں زمین میں خلیفہ بنائے گا جیسا کہ ان سے پہلے لوگوں کو خلیفہ بنایا، اور ان کے دین کو جو اس نے ان کے لئے پسند کیا، مضبوط کر دے گا، اور ان کے خوف کے بعد انہیں امن عطا کرے گا کہ وہ میری عبادت کریں گے اور میرے ساتھ کسی شے کو شریک نہیں بنائیں گے، اور جو اس کے بعد کفر کرے گا تو وہی نافرمان ہیں" ( النور؛ 24:55)۔

 

یہ آیت عام ہے، اور یہ ان شاء اللہ آنے والی ریاستِ خلافت پر بھی منطبق ہوتی ہے۔ آیت سے یہ واضح ہے کہ تمکین اور امن حاصل ہوگا، اور یہ اس وقت ہی ممکن ہے جب اسے ثبات حاصل ہو جائے اور اپنے دشمنوں پر فتح حاصل کرے۔

 

- مسند امام احمد اور مسند طیالسی میں حضرت حذیفہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ، رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:

 

(( إِنَّكُمْ فِي النُّبُوَّةِ مَا شَاءَ اللَّهُ أَنْ تَكُونَ، ثُمَّ يَرْفَعُهَا إِذَا شَاءَ أَنْ يَرْفَعَهَا، ثُمَّ تَكُونُ خِـلَافَةٌ عَلَى مِنْهَاجِ النُّبُوَّةِ، فَتَكُونُ مَا شَاءَ اللَّهُ أَنْ تَكُونَ، ثُمَّ يَرْفَعُهَا إِذَا شَاءَ أَنْ يَرْفَعَهَا، ثُمَّ تَكُونُ مُلْكاً عَاضّاً، فَيَكُونُ مَا شَاءَ اللَّهُ أَنْ يَكُونَ، ثُمَّ يَرْفَعُهَا إِذَا شَاءَ أَنْ يَرْفَعَهَا، ثُمَّ تَكُونُ جَبْرِيَّةً، فَتَكُونُ مَا شَاءَ اللَّهُ أَنْ تَكُونَ، ثُمَّ يَرْفَعُهَا إِذَا شَاءَ أَنْ يَرْفَعَهَا، ثُمَّ تَكُونُ خِـلَافَةٌ عَلَى مِنْهَاجِ النُّبُوَّةِ))، ثم سکت۔

"تم میں نبوّت کا دور رہے گا جب تک کہ اللہ چاہے گا، پھر جب وہ اس کو اٹھانا چاہےگا تو اسے  اٹھا لے گا، پھر اس کے بعد خلافت ہوگی جو نبوّت کے نقش قدم پر ہوگی، اور تب تک رہے گی جب تک کہ اللہ چاہے گا، پھر جب اللہ چاہےگا، اس کو اٹھا لے گا، پھر اس کے بعد دانتوں سے پکڑ لینے والی حکمرانی ہوگی، اور وہ تب تک رہے گی، جب تک اللہ چاہے گا، پھر جب اللہ چاہےگا، اس کو اٹھا لے گا، پھر اس کے بعد جابرانہ حکمرانی ہو گی، اور وہ تب تک رہے گی جب تک اللہ چاہے گا، پھر جب اللہ چاہےگا، اس کو اٹھالے گا، پھر اس کے بعد نبوت کے نقش قدم پر خلافت ہو گی۔ اس کے بعد آپ ﷺ خاموش ہو گئے"۔ اور دوسری  خلافت کا منہجِ نبوت پر ہونا تبھی یہ معنی رکھتا ہے جب وہ مستحکم اور قائم رہے۔

 

- مسلم نے اپنی صحیح میں حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت کیا: رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:

 

(( لَا تَقُومُ السَّاعَةُ حَتَّى يُقَاتِلَ الْمُسْلِمُونَ الْيَـهُودَ، فَيَقْتُلُهُمُ الْمُسْلِمُونَ...))

" جب تک مسلمانوں کی یہود کے ساتھ جنگ نہ ہوجائے، قیامت قائم نہیں ہوگی، چنانچہ مسلمان ان کو قتل کریں گے"۔

 

ایک اور روایت میں یوں آیا ہےکہ:

 

(( تُقَاتِلُكُمُ يَـهُودُ، فَتُسَلَّطُونَ عَلَيْهِمْ))

"یہود تم سے قتال کریں گے، مگر تمہیں ان پر (سزا دینے کے لیے) مسلط کیا جائے گا"۔

 

اس کا مطلب ہے کہ یہودیوں کی ریاست کو جڑ سے اکھاڑ پھینک دیا جائے گا، اور غالب گمان یہی ہے کہ یہ تب ممکن ہو گا جب دوسری خلافت قائم ہو، مستحکم ہو اور فتح حاصل کرے۔

 

- امام احمد بن حنبل نے اپنی مسند میں تمیم الداری رضی اللہ عنہ سے روایت کیا ہے کہ انہوں نے رسول اللہ ﷺ سے سنا:

 

(( لَيَبْلُغَنَّ هَذَا الْأَمْرُ مَا بَلَغَ اللَّيْلُ وَالنَّهَارُ وَلَا يَتْرُكُ اللَّهُ بَيْتَ مَدَرٍ وَلَا وَبَرٍ إِلَّا أَدْخَلَهُ اللَّهُ هَذَا الدِّينَ بِعِزِّ عَزِيزٍ أَوْ بِذُلِّ ذَلِيلٍ عِزّاً يُعِزُّ اللَّهُ بِهِ الْإِسْلَامَ وَذُلّاً يُذِلُّ اللَّهُ بِهِ الْكُفْرَ..))

"یہ دین ہر اس جگہ تک یقیناً پہنچے گا جہاں تک رات اور دن آتے ہیں، اور اللہ تعالیٰ ایسا کوئی گھر نہیں چھوڑے گا، چاہے وہ مٹی کا ہو یا اون کا، جس میں اللہ تعالی اس دین کو داخل نہ کرے، عزت والے کی عزت کے ساتھ اور ذلت والے کی ذلت کے ساتھ، ایسی عزت جو اللہ اسلام کے ذریعے عطا کرے گا اور ایسی ذلت جس سے اللہ کفر کی وجہ سے دوچار کرے گا"۔

 

اسی طرح امام بیہقی نے اپنی سنن الكبرى میں اور امام حاکم نے مستدرك میں بھی اس کو روایت کیا ہے۔ اس کا مطلب ہے کہ دوسری خلافتِ راشدہ قائم ہوگی، مستحکم ہوگی اور پوری دنیا کو اپنے دائرے میں لے لے گی۔

 

4- لیکن اوپر ذکر کردہ باتوں کا مطلب یہ نہیں کہ خلافت ہر جنگ میں فتح حاصل کرے گی، ممکن ہے کہ کسی جنگ میں شکست کا سامنا کرنا ہڑے، لیکن آخر کار فتح اس کا مقدر ہو گی۔ یعنی وہ کچھ جنگیں ہار بھی سکتی ہے، لیکن اللہ کی مرضی سے عسکری کشمکش کا اختتام خلافت کی فتح پر منتج ہوگا، بالکل جیسے پہلی اسلامی ریاست کا حال تھا۔ اس نے بعض جنگیں ہاریں لیکن جنگ کا اختتام اس کی فتح پر ہوا اور وہ سابقہ ادوار میں دنیا پر حکمرانی کرتی تھی۔

 

5- جہاں تک آپ کے سوال کا تعلق ہے: (کیا نصر ظاہری اور محسوس شکل میں ہوتی ہے جیسے بدر میں فرشتوں کی مدد اور خندق میں ہوا کا چلنا یا یہ نصر معاونت، تائید، اور دشمن کے دلوں میں دہشت ڈالنے کی شکل میں بھی ہو سکتی ہے؟)، تو یہ سب ممکن ہے، اور اس کا فیصلہ اللہ تعالیٰ پر ہے۔ وہ اپنے مومن بندوں کی مدد اپنی خاص لشکروں سے کرواتا ہے:

 

﴿ وَمَا يَعْلَمُ جُـنُودَ رَبِّكَ إِلَّا هُوَ﴾

"اور تیرے رب کے لشکروں کو صرف وہی جانتا ہے" ( المدثر؛ 74:31)۔

 

لیکن شرعی حکم ہمیں تیاری کرنے کا حکم دیتا ہے، جیسے اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے:

 

﴿وَأَعِدُّوا لَهُمْ مَا اسْتَطَعْتُمْ مِنْ قُوَّةٍ وَمِنْ رِبَاطِ الْخَيْلِ تُرْهِبُونَ بِهِ عَدُوَّ اللَّهِ وَعَدُوَّكُمْ وَآخَرِينَ مِنْ دُونِهِمْ لَا تَعْلَمُونَهُمُ اللَّهُ يَعْلَمُهُمْ وَمَا تُنْفِقُوا مِنْ شَيْءٍ فِي سَبِيلِ اللَّهِ يُوَفَّ إِلَيْكُمْ وَأَنْتُمْ لَا تُظْلَمُونَ﴾

"اور ان کے خلاف جو کچھ بھی طاقت تمہارے بس میں ہو، تیاری کرو، اور گھوڑوں کو تیار رکھو تاکہ اس سے اللہ کے دشمنوں اور تمہارے دشمنوں پر ہیبت طاری ہو، اور ان کے علاوہ بھی دوسرے لوگوں پر جنہیں تم نہیں جانتے، مگر اللہ انہیں جانتا ہے۔ اور جو کچھ بھی تم اللہ کی راہ میں خرچ کرو گے، وہ تمہیں پورا دیا جائے گا اور تم پر ظلم نہیں ہو گا" ( الانفال؛ 8:60)۔

 

امید ہے کہ یہ جواب کافی ہوگا،

واللہ اعلم

آپ کا بھائی،

 

عطاء بن خليل أبو الرشتة

22 جمادى الأولى 1446ھ 

بمطابق 24 نومبر 2024ء

#أمير_حزب_التحرير

Last modified onجمعرات, 05 دسمبر 2024 20:16

Leave a comment

Make sure you enter the (*) required information where indicated. HTML code is not allowed.

اوپر کی طرف جائیں

دیگر ویب سائٹس

مغرب

سائٹ سیکشنز

مسلم ممالک

مسلم ممالک