الخميس، 17 صَفر 1446| 2024/08/22
Saat: (M.M.T)
Menu
القائمة الرئيسية
القائمة الرئيسية

بسم الله الرحمن الرحيم

سوال کا جواب:علم حدیث میں شواہد(Witnesses) اور متابعات(Follow-ups)

سے متعلق اسامہ عیاط کےسوال کے جواب میں

سوال:

السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ

 میں آپ سے ایک سوال پوچھنا چاہتا ہوں ،  اوریہ علمِ حدیث سے متعلق  ہے۔ سوال کچھ اس طرح ہے کہ علماء صحیح حدیث کی تعریف یوں کرتے ہیں:  وہ حدیث جس کی سند متصل ہو ، اس کو عادل اور ضابط راوی نےاپنے جیسے راوی(یعنی عادل وضابط)  سے نقل کیا ہواور یہ کیفیت سند کی ابتدا سے سند کے آخر تک برقرار رہے( یعنی تمام راوی مذکورہ صفات سے متصف ہوں) ، نیز وہ شاذ اور مُعلّل بھی نہ ہو۔ گویا حدیث کو صحیح قرار دینے کے لیے مذکورہ  شرائط کا پایا جانا ضروری ہے۔ مگر میں نے کئی علما ء کو دیکھا کہ وہ شواہد اور متابعات کی وجہ سے ضعیف حدیث کو بھی صحیح کہہ دیتے ہیں ۔مثلاً ایک حدیث ایک سند سے آئی ہوتی ہے اور وہ ضعیف حدیث  ہوتی ہے ،پھراس حدیث کے شواہد یا متابعات بھی ضعیف ہی ہوتے ہیں ،مگر اس کے باوجود  علماء انہی شواہد اور متابعات کی بنا پر اُس حدیث کو صحیح کہہ دیتے ہیں۔ تو ان شواہد اور متابعات کو کس حد تک معتبر گردانا جاتا ہے اور حدیث کی تصحیح میں ان کا کس حد تک اثر ہوتا ہے؟میرا سوال ختم ہوا  ، آنجناب سے اُمید ہے کہ جواب دیں گے ،اللہ آپ کو برکت دے ۔

اسامہ ابوعمر السبت

 

جواب

وعلیکم السلام ورحمۃ اللہ وبرکاتہ

سوال کا جواب  دینے سے پہلےمتعلقہ چند اصطلاحات کی وضاحت ضروری ہے ، جیسے شواہد، متابعات، متن اور سند ۔ یہ علمِ حدیث میں استعمال ہونے والے اصطلاحات ہیں اور ان کی وضاحت مثالوں کے ضمن میں کردیتے ہیں :

 

مسند شافعی میں آیا ہے :

((أَخْبَرَنَا مَالِكٌ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ دِينَارٍ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عُمَرَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: «الشَّهْرُ تِسْعٌ وَعِشْرُونَ، فَلَا تَصُومُوا حَتَّى تَرَوُا الْهِلَالَ، وَلَا تُفْطِرُوا حَتَّى تَرَوْهُ، فَإِنْ غُمَّ عَلَيْكُمْ فَأَكْمِلُوا الْعِدَّةَ ثَلَاثِين)).

" ہم سے  مالک نےعبد اللہ بن دینار سے حدیث روایت کی ، انہوں نے عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہ سے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: مہینہ انتیس دن کا (بھی )  ہوتا ہے ، لہٰذا   چاند دیکھے بغیر روزے نہ رکھو، اور جب (شوال کا) چاند نظر آئے تب ہی افطار(عید)  کرو، پس اگر  چاند نظر نہ آئے تو تیس کی گنتی پوری کرلو "۔

 

 حدیث کا متن وہ ہے جہاں حدیث کی سند ختم ہوتی  ہے ۔ اس حدیث میں رسول اللہ ﷺ کا ارشاد " مہینہ انتیس دن کا بھی  ہوتا ہے ، لہٰذا   چاند دیکھے بغیر روزے نہ رکھو، اور جب (شوال کا) چاند نظر آئے تب ہی افطار کرو، پس اگر  چاند نظر نہ آئے تو تیس کی گنتی پوری کرلو "، یہ اس   حدیث کا متن ہے۔  حدیث کی سند راویوں کے سلسلے کو کہتے ہیں ، جن کے ذریعے حدیث کے متن  کو رسول اللہ ﷺ تک پہنچایا جاتا ہے، چنانچہ اس حدیث کی سند کی کڑیاں امام شافعیؒ ،  امام مالک ؒ ،عبد اللہ بن دینارؒاور  عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہ ہیں (گویا راویوں کا سلسلہ ہی سندِ حدیث ہے)۔

 

مالک ؒ سے اس حدیث  کی روایت صرف الامام الشافعیؒ نے نہیں کی ہے، بلکہ مالک ہی سے عبد اللہ بن مسلمہؒ نے بھی اسی سند کے ساتھ یہی حدیث  روایت کی ہے۔ امام بخاری ؒ نے صحیح البخاری میں روایت کی ہے:

 

(( حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ مَسْلَمَةَ، حَدَّثَنَا مَالِكٌ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ دِينَارٍ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عُمَرَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا، أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ: «الشَّهْرُ تِسْعٌ وَعِشْرُونَ لَيْلَةً، فَلاَ تَصُومُوا حَتَّى تَرَوْهُ، فَإِنْ غُمَّ عَلَيْكُمْ فَأَكْمِلُوا العِدَّةَ ثَلاَثِينَ))"

 

ہمیں عبد اللہ بن مسلمہ نے مالک سے ، انہوں نے عبد اللہ بن دینار سے ، انہوں نے عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہ سے نقل کرتے ہوئے حدیث بیا ن کی  کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: "مہینہ انتیس دن کا( بھی)  ہوتا ہے ، لہٰذا   چاند دیکھے بغیر روزے نہ رکھو، اور جب (شوال کا) چاند نظر آئے تب ہی افطار کرو، پس اگر  چاند نظر نہ آئے تو تیس کی گنتی پوری کرلو "۔ اس قسم کی صورتحال میں یہ کہا جاتا ہے کہ عبد اللہ بن مسلمہ ؒنے اس حدیث کی روایت میں شافعیؒ کی متابعت(Follow-up) کی ہے ، یعنی عبد اللہؒ  بن مسلمہ نے امام شافعیؒ کے استاذ مالکؒ سے اُسی حدیث کی روایت کی  جسے امام شافعیؒ نے بھی اپنے استاذ مالکؒ سے روایت کیا ہے،دونوں کی سند بھی ایک ہے، اس لیے عبد اللہ بن مسلمہ کا اس حدیث کو روایت کرنا متابعت کہلایا جائے گا،اس قسم کی صورتحال میں اس کو عام متابعت(full follow-up  )کہتے ہیں۔

 

اس طرح مسلم ؒ نےاپنی صحیح میں یہی حدیث عبد اللہ بن عمررضی اللہ عنہ سے ان الفاظ کے ساتھ نقل کی ہے:

 

(( حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرِ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ، حَدَّثَنَا أَبُو أُسَامَةَ، حَدَّثَنَا عُبَيْدُ اللهِ، عَنْ نَافِعٍ، عَنِ ابْنِ عُمَرَ رَضِيَ اللهُ عَنْهُمَا، أَنَّ رَسُولَ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ذَكَرَ رَمَضَانَ، فَضَرَبَ بِيَدَيْهِ فَقَالَ: «الشَّهْرُ هَكَذَا، وَهَكَذَا، وَهَكَذَا - ثُمَّ عَقَدَ إِبْهَامَهُ فِي الثَّالِثَةِ - فَصُومُوا لِرُؤْيَتِهِ، وَأَفْطِرُوا لِرُؤْيَتِهِ، فَإِنْ أُغْمِيَ عَلَيْكُمْ فَاقْدِرُوا لَهُ ثَلَاثِينَ ))

"ہم سے ابو بکر بن شیبہ نے حدیث بیان کرتے ہوئے کہا : ہم  سے ابو اسامہ نے حدیث بیان کرتے ہوئے کہا: ہم سے عبید اللہ نے، انہوں نے  نافع سے ، اُنہوں نے عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہ سے حدیث بیان کی کہ رسول اللہ ﷺ نے رمضان کا ذکر فرمایا اپنے دونوں ہاتھوں کو ہلا کر کہا: مہینہ اتنا ، اتنا ،  اور اتنا ہوتا ہے،( راوی کہتے ہیں) تیسرے مرتبہ میں اپنے  انگوٹھے کا گرہ بنایا۔  اس لیے چاند دیکھ کر روزہ رکھو اور چاند دیکھ کر افطار( عید ) کرو، اگر بادل ہوں( جس کی وجہ سے چاند نظر نہ آئے) تو اس کے لیے تیس پورے کرلو"۔

اس روایت میں نافعؒ عبد اللہ بن مبارک ؒ کی متابعت(follow-up) کر رہے ہیں، کیونکہ دونوں(عبد اللہ بن مبارک اور نافع)  عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہ سے ایک ہی حدیث  روایت کرتے ہیں ،ایسی متابعت کو قاصرمتابعت کہتے ہیں ، یہ نام اس لیے دیا جاتا ہے  کیونکہ یہ متابعت سند کی ابتدا میں نہیں بلکہ سند کے آخر میں ہے۔

 

نسائی نے اسی حدیث کو یوں روایت کیا ہے:

 

 

(( أَخْبَرَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ يَزِيدَ، قَالَ: حَدَّثَنَا سُفْيَانُ، عَنْ عَمْرِو بْنِ دِينَارٍ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ حُنَيْنٍ، عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ، قَالَ: عَجِبْتُ مِمَّنْ يَتَقَدَّمُ الشَّهْرَ، وَقَدْ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «إِذَا رَأَيْتُمُ الْهِلَالَ فَصُومُوا، وَإِذَا رَأَيْتُمُوهُ فَأَفْطِرُوا، فَإِنْ غُمَّ عَلَيْكُمْ فَأَكْمِلُوا الْعِدَّةَ ثَلَاثِينَ))

" ہم سے محمد بن عبد اللہ بن یزیدؒ نے حدیث بیان کی، وہ کہتے ہیں ہم سے سفیان نے عمرو بن دینار سے حدیث بیان کی، انہوں نے محمد بن حُنین سے وہ ابن عباس رضی اللہ عنہ سے روایت کرتے ہیں ، وہ فرماتے ہیں : مجھے ایسے شخص پر تعجب ہوتا ہے جو مہینہ داخل ہونے سے پہلے روزہ رکھتا ہے ، حالانکہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : جب تم چاند دیکھو تو روزہ رکھو اور جب تم چاند دیکھو تو افطار کرو،اگر بادل  ہوں (اور چاند نظر نہ آئے) تو تیس کی گنتی پوری کرلو"۔

 

یہ واضح ہے کہ حدیث کی یہ روایت دوسری سند اوردوسرے صحابی سےہے یعنی ابن عباس رضی اللہ عنہ سے ہے۔یہ حدیث ابن عمر رضی اللہ عنہ سے روایت نہیں کی گئی ہے ، اس لیے نسائی کی  یہ حدیث امام شافعی ؒ کی مذکورہ بالا حدیث کی نسبت سے "شاہد"(Witness)کہلاتی  ہے،اسی طرح   نسائی کی حدیث بخاری اور مسلم کی حدیث کے لیے بھی "شاہد"(Witness) کہلائے گی۔  دوسری طرف  امام شافعیؒ ، بخاری ؒاورمسلمؒ کی مذکورہ بالا احادیث بھی نسائیؒ کی روایت کردہ حدیث کے لیے شواہد ہیں ......اور  جب حدیث کا متن ایسا ہو کہ اس کے الفاظ تو مختلف ہوں ،مگر  معنی میں دوسری حدیث کے ساتھ اس میں یکسانیت پائی جاتی ہو تو اس پر "شاہد بالمعنی" کا اطلاق کیا جاتا ہے...... اس کی مثال جیسے امام بخاریؒ نے اپنی صحیح میں ایک حدیث نقل کی ہے: ((حَدَّثَنَا آدَمُ، حَدَّثَنَا شُعْبَةُ، حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ زِيَادٍ، قَالَ: سَمِعْتُ أَبَا هُرَيْرَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، يَقُولُ: قَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: أَوْ قَالَ: قَالَ أَبُو القَاسِمِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «صُومُوا لِرُؤْيَتِهِ وَأَفْطِرُوا لِرُؤْيَتِهِ، فَإِنْ غُبِّيَ عَلَيْكُمْ فَأَكْمِلُوا عِدَّةَ شَعْبَانَ ثَلاَثِينَ)) ”ہم سے آدم نے شعبہ سے حدیث بیان کی ، شعبہ کہتا ہے ،ہم سے محمد بن زیاد نے حدیث بیان کی، وہ فرماتے ہیں : میں نے ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے یہ فرماتے ہوئے سنا کہ  رسول اللہ ﷺ نے فرمایا  : چاند دیکھ کر روزہ رکھو اور چاند دیکھ کر روزہ کھول دو ، اگر  چاند نظر نہ آئے تو شعبان کے تیس دن پورے کرلو"۔اس حدیث کا متن شافعی ؒ کی حدیث کے مشابہ ہے ، مگر یہ مشابہت صرف معنی میں ہے  الفاظ میں نہیں، کیونکہ اس حدیث میں شعبان کا ذکر ہے جو امام شافعیؒ کی حدیث میں نہیں ہے۔

 

اب ہم جواب کی طرف آتے ہیں:

وہ احادیث جو راوی کی فسق یا جھوٹ کی تہمت وغیرہ کی وجہ سے ضعیف قرار دی جائیں ،تو ایسی احادیث  میں  دوسری احادیث  کی بنا پر  قوت  نہیں آتی ،بلکہ ایسی احادیث کو رد کردیا جاتا ہے اور ان پر عمل نہیں ہوتا۔ الشخصیہ الاسلامیہ کی جلد اول میں لکھا ہے :

"یہ کہنا غلط ہے کہ ضعیف حدیث جب  دیگر متعدد ضعیف طریقوں (روایتوں ) سے آئی ہو وہ حسن یا صحیح کے درجہ تک پہنچ جاتی ہے، کیونکہ جب حدیث کا ضعف اس کے راوی کے فسق یا اس پر جھوٹ کی تہمت لگنے کی وجہ سےہو کہ وہ عملا ً جھوٹ بولتا ہو، پھر اسی قسم کی ضعیف واسطوں سے اس کی دیگر روایات بھی مل جائیں تو اس سے اس کے ضعف میں مزید اضافہ ہوجاتا ہے۔

ابن الصلاح  مقدمہ میں لکھتے ہیں:

حدیث کے اندر ہر قسم کا ضعف دیگر روایتوں سے روایت ہونے سے ذائل نہیں ہوتا بلکہ اس کے کئی اقسام ہیں:

انہی میں سے وہ ضعف ہے جو دیگر روایات کے ذریعے ختم نہیں ہوتا ، کیونکہ ضعف قوی ہوتا ہے جس کا مقابلہ متعدد روایات کے ذریعے نہیں کیا جاسکتا۔ اس کی مثال ،جیسے وہ ضعف جو راوی کے کذب بیانی  سے متہم  ہونے کی وجہ سے ہو یا حدیث شاذ ہو۔

 

بعض احادیث  کی کچھ روایات ایسی بھی  ہوتی ہیں جن میں ایک یا کئی راوی ایسے ہوتے ہیں  جن کا حافظہ  درست نہیں ہوتا یا وہ مستور الحال  ( of hidden condition) ہوتا ہے وغیرہ مگر اس پر جھوٹا ہونے  یا فاسق ہونے   کی تہمت نہ لگی ہو، یعنی حدیث کو اس لیے ضعیف قرار دیا گیا ہو  کہ راوی کا حافظہ درست نہیں وغیرہ ۔ضعف کی وجہ راوی کی   صداقت یا دینداری میں کوئی کمی نہ ہو ، تو احادیث کی ایسی روایات کو جب انفرادی طور پر لیا جائے  تو ہم اس پر ضعیف کا حکم لگائیں گے ،کیونکہ بہر حال سند میں بعض راوی ضعیف ہیں ۔ مگر تلاش  اور تتبع کرکے  جب پتہ چل جاتا ہے کہ ان روایات کے  قابل ِاعتماد اور معتبر متابعات یا شواہد بھی موجود ہیں جو اس روایت کو قوی بنا سکتے ہیں ،حافظہ کی کمزوری  کا متبادل  بن سکتے ہیں جس کی بنا پر حدیث کا متن شاذ یا منکر کے زمرے سے نکل جاتا ہے، تو ایسی حالت میں ہم اس حدیث پر ضعیف کا حکم نہیں لگائیں گے بلکہ اس قسم کی حدیث حسن قرار پاتی ہے ، کیونکہ اب جبکہ اس کی دیگر روایات بھی پائی گئیں تو وہ خلل جس کے سبب حدیث ضعیف کہلاتی ، رفع ہوگیا۔۔۔ الشخصیہ الاسلامیہ کے جلد اول میں آیا ہے : "حسن وہ حدیث  ہے جس کا پہلا راوی  معروف  ومشہور  ہو اور اس کے سند کے تمام  رجال بھی معروف ہوں ، اسی پر اکثر احادیث کا مدار ہے ، اس کو اکثر علما لیتے ہیں اور عام فقہا دلیل کے طور پر استعمال کرتے ہیں۔ حاصل یہ ہے کہ حسن ایسی حدیث ہوتی ہے  جس کی سند میں جھوٹ کے ساتھ تہمت زدہ  کوئی شخص نہ ہو ،اور حدیث شاذ بھی نہ ہو۔ اس کی دو قسم ہیں:

 

ایک : وہ حدیث جس کی سند میں کوئی نہ کوئی ایسا مستور الحال راوی  موجود ہو ، جس کی اہلیت ثابت نہ ہوئی ہو، البتہ اس کی یاد داشت اتنی کمزور  نہ ہو جس کی وجہ سے  اس کی غلطیاں زیادہ ہوں ،اس پر کذب بیانی کی تہمت نہ لگی ہو۔حدیث کا متن بھی ایسا ہو جس کی کوئی اور روایت بھی موجود ہو ،تو پھر ایسی  حدیث شاذ یا منکر کے مرتبے  سے نکل جاتی ہے۔

 

مقدمہ ابن الصلاح میں آیا ہے:

میرے لیے بالکل واضح ہوا اور بات مکمل صاف ہوئی کہ حسن حدیث کی دو قسمیں ہیں:

ایک: وہ حدیث جس کی سند کے راوی کسی نہ کسی مستور الحال سے خالی نہ ہوں جس کی اہلیت ثابت نہ ہو( کہ وہ حدیث روایت کرے) مگر وہ مستور الحال ایسا بھی نہ ہو جو کمزور یادداشت والا (ہونے کے سبب )حدیث روایت کرنے میں بہت زیادہ غلطیاں کرتا ہو ، نہ ہی حدیث کی روایت  میں اس پر  کذب  کا الزام ہو ،یعنی اس سے حدیث میں جان بوجھ کر غلطی سرزد نہ ہوئی ہو ، نہ کوئی اور سبب اس کے اندر پایا جاتا ہے جس کی بنا پر اسے فاسق کہا  جائے۔ اس کے ساتھ ساتھ حدیث کا متن اس لحاظ سے مشہور ہو کہ اس کی مثل  ایک یا  ایک سے زائد روایات اَور  بھی موجود ہیں ،اس کا فائدہ یہ ہوگا کہ اس حدیث کے راوی کا ایک متابع پایا گیا جو اسی جیسی حدیث روایت کرتا ہے یا اس کے لیے شاہد بن رہا ہے  ، نتیجۃً حدیث شاذ اور منکر کے درجے سے نکل جاتی ہے ، ترمذی کا کلام اسی قسم پر جچتا ہے......الخ

 

ایک اور مقام پر ابن الصلاحؒ  فرماتے ہیں:

یہ ضروری نہیں کہ دیگر روایات کے آنے سےحدیث میں موجود ہر طرح کا ضعف زائل  ہوجاتا ہے، بلکہ اس کے مختلف اقسام ہیں......

ایک ضعف تو وہ ہے جو کثرتِ طرق کی وجہ سے زائل ہوجاتا ہے،وہ یہ کہ حدیث کے اندرضعف راوی کی یاد داشت کی کمزوری کی وجہ سےآیا ہو ،البتہ وہ راست گواور دیانت دارہو ،جب ہم دیکھ لیں کہ  ایسے راوی کی روایت  کسی اَور سند سے بھی روایت کی گئی ہے ،تو ہم جان لیں گے کہ یہ حدیث من گھڑت نہیں اور راوی  نے واقعی اس کو کسی اور سے سن کر محفوظ  کرلیا ہے ،اس کی یادداشت کی کمزوری سے اس کے اندر کوئی خلل نہیں آتا......

بنابریں  سند کے اندر صرف کسی مستوریاکمزور یادداشت رکھنے والے راوی کی موجودگی  کے سبب احادیث پر ضعیف کا حکم لگانے میں جلد بازی نہیں کرنی چاہئے ...... بلکہ متابعات اور شواہد کے لیے اس کی دیگر روایات کی تلاش کی  جائے گی...... تاہم یہ بات مد نظر رکھنی چاہیے کہ متابعات یا شواہد کی بنیاد پر کسی حدیث کو قوی قرار دینے کا کام باریک مسائل میں سے ہے جس میں علم وفہم اور علوم حدیث پر عبور واحاطہ کی ضرورت ہوتی ہے نیز روایات کی باریکیوں کی سمجھ  اور جرح وتعدیل  کے علوم سے بہرہ ور ہونا  لازم ہے۔ کیونکہ  یہ اصول بھی عام نہیں کہ حدیث کی متابعات یا شواہد پائے جائیں تو اس کا ضعف دور ہو کر قوی بن جاتا ہے، بلکہ اس میں بقیہ شرائط کا پورا ہونا بھی ضروری ہوتا ہے  جن کا اس حوالے سے لحاظ کیا جاتا ہے اور حدیث میں موجود ضعف کے خلل کے لیے پٹی اور اس پر مقبولیت کا حکم لگانے  کا کام دیتی ہیں ۔

 

اُمید ہے کہ ان معروضات سے موضوع واضح ہوچکا ہوگا ، انشاء للہ

 

آپ کا بھائی عطاء بن خلیل ابو رشتہ

23 شوال /1437 ہجری ، بمطابق 28جولائی 2016 ء

               

Last modified onمنگل, 20 ستمبر 2016 01:33

Leave a comment

Make sure you enter the (*) required information where indicated. HTML code is not allowed.

اوپر کی طرف جائیں

دیگر ویب سائٹس

مغرب

سائٹ سیکشنز

مسلم ممالک

مسلم ممالک