الأربعاء، 23 جمادى الثانية 1446| 2024/12/25
Saat: (M.M.T)
Menu
القائمة الرئيسية
القائمة الرئيسية

معاشرے میں زنا بالجبرکی بیماری جنسی آزادی کی لبرل سوچ کا منطقی نتیجہ ہے


اس سال ستمبر میں لاہور کی پانچ سالہ بچی کے ساتھ زنا بالجبر اور پھر اس کو ایک ہسپتال کے باہر پھینک دینے کے واقع نے پاکستان اور پوری دنیا کو لرزا دیا۔ اس بھیانک واقع کو چند روز ہی گزرے تھے کہ فیصل آباد میں ایک چھوٹی بچی اور ٹوبہ ٹیک سنگھ میں کالج کی ایک طالبہ زنا بالجبر کا شکار ہوں گئیں۔ حالیہ چند سالوں میں پاکستان میں عورتوں اور بچوں کے ساتھ زنا بالجبر کے واقعات نے ملکی میڈیا کی کی شہ سرخیاں بنیںاور میڈیا نے پاکستان میں ان بڑھتے ہوئے گھناؤنے واقعات کو عوام کے سامنے پیش کیا ہے۔ اس جرم میں ملوث افراد کا تعلق معاشرے کے کسی مخصوص طبقے سے نہیں تھا بلکہ وہ مختلف پس منظر رکھتے تھے۔اسلام آباد کی ایک غیر حکومتی تنظیم(NGO) "ساحل" کے مطابق 2012 میں بچوں کے خلاف جنسی جرائم کے 3861مقدمات ریکارڈ کیے گئے جوکہ 2011 کے مقابلے میں 17فیصد زائد ہیں۔صرف اس سال ہیومن رائٹس کمیشن آف پاکستان نے لاہور میں بچوں کے ساتھ جنسی زیادتی کے 113 واقعات ریکارڈ کیے ہیں۔ لیکن اس مسئلہ کی شدت ان اعدادوشمار سے کئی گنا زیادہ ہے۔ اس جرم کے حوالے سے معاشرے میں موجود شرم،مجرم کی جانب سے مزید حملے کے خوف اور پولیس کا اس جرم کے شکار مظلوموں کے ساتھ توہین آمیز سلوک کی وجہ سے ماہرین یہ سمجھتے ہیں کہ اس جرم کے واقعات اکثر منظر عام پر لائے ہی نہیں جاتے۔ اس کے ساتھ ساتھ ان واقعات کو پولیس کے پاس مقدمات کی صورت میں درج نہ کروانے کی وجہ یہ بھی ہے کہ خواتین اور ان کے اہل خانہ اس قانونی نظام پر اعتماد کھو چکے ہیں جو انصاف کی فراہمی میں انتہائی تاخیر کرتا ہےجہاں ان مقدمات میں سزاؤں کا تناسب انتہائی کم ہے اور پولیس اور عدلیہ میں موجود کرپشن کی بنا پر اکثر ملزمان رہا ہوجاتے ہیں۔
ان واقعات کے خلاف ملکی سطح پر غم و غصہ صرف اس جرم میں ملوث لوگوں کے خلاف ہی نہیں کہ انھیں سخت ترین سزا دی جائے بلکہ عوام کا غصہ پولیس، سیاست دانوں اور اس نظام کے خلاف بھی ہے جو اس مسئلہ سے نمٹنے میں بری طرح سے ناکام ہوچکے ہیں۔ لوگوں کا غم و غصہ اس لیے بھی سیاست دانوں کے خلاف شدید ہے کیونکہ عورتوں اور بچوں کی حفاظت اور ان کی فلاح و بہبود کے لیے ان کاتساہل پر مبنی رویہ انتہائی شرمناک اور مجرمانہ ہے۔
جنسی جرائم میں اس قدر اضافے کا شکار صرف پاکستان ہی نہیں ہے۔ ہمارا پڑوسی بھارت پچھلے سال دسمبر میں دہلی کی ایک بس میں 23 سالہ میڈیکل کی طالبہ کے ساتھ ہونے والے زنا بالجبر اور اس کے قتل کے خلاف عوامی غم و غصہ سے گونج اٹھاتھا ۔ اس واقع کے بعد بھی زنا بالجبر کے کئی ایک ایسے واقعات ہوئے کہ جس نے بین الاقوامی میڈیا کو بھی ان واقعات کو اپنی خبروں میں نمایاں جگہ دینے پر مجبور کردیا کیونکہ یہ بات اس لحاظ سے انتہائی اہم تھی کہ یہ مجرمانہ حملے ایک وبا کی طرح اس ملک میں ہورہے تھے جو دنیا کی سب سے بڑی سیکولر جمہوریت بھی ہے۔بھارت میں حالیہ سالوں میں اس قسم کے مجرمانہ حملوں میں تیزی سے اضافہ ہوا ہے اور اب یہ جرم بھارت میں سب سے زیادہ تیزی سے بڑھنے والا جرم بن چکا ہے۔ الجزیرہ کے مطابق بھارت میں ہر بیس منٹ میں ایک خاتون زنا بالجبر کا شکار ہوتی ہے اور ٹائمز آف انڈیا کے مطابق پچھلے چالیس سالوں میں بھارت میں اس جرم میں 792فیصد اضافہ ہوا ہے۔ ان گھناؤنے جرائم کے خلاف ایک بار پھرعوامی غم و غصہ کا نشانہ پولیس اور سیاست دان بنے کیونکہ انھوں نے اس جرم سے متعلق غفلت کا مظاہرہ کیا اور اس مسئلے کو حل کرنے کے لیے کسی قسم کی تیزی نہیں دِکھائی۔ برطانیہ میں پچھلے ایک سال کے دوران میڈیا میں شوبز کی مشہور و معروف شخصیات کے ہاتھوں بچوں اور چھوٹی بچیوں کو جنسی لذت کے حصول کا ذریعہبنانے اور ملک کے کئی شہروں میں قحبہ خانوں کو چلانے والے گروہوں کی خبریں گردش میں رہی ہیں۔ بچوں کی حفاظت کی ایک تنظیم، NSPCCکے مطابق برطانیہ میں بالغ نوجوانوں کی ایک تہائی تعداد ایسی ہے کہ جو اپنے پچپن میں جنسی زیادتی کا نشانہ بنے جبکہ برطانیہ کے محکمہء صحت کے اعدادوشمار کے مطابق ملک میں ہر دس منٹ میں ایک عورت یا تو جنسی زیادتی کا شکار ہوتی ہے یا اس پر جنسی حملہ کیا جاتا ہے۔ امریکہ میں امراض کو قابو اور اس کے بچاؤ سے متعلق ادارےCenters for Disease Control and Preventionکے مطابق امریکہ میں ہر پانچ میں سے ایک عورت زنا بالجبر یا جنسی حملے کا شکار ہوئی ہے۔ یہ تمام اعدادوشمار اس بات کی نشاندہی کرتے ہیں کہ سیکولر لبرل ممالک میں جنسی حملے ایک عام جرم ہے۔
ان ممالک نے اس غلیظ اور گھناؤنے جرم کے خلاف ہونے والے عوامی ردعمل کے نتیجے میں محض چند نئی پالیسیاں اور قوانین بنائے جن میں مجرموں کے لیے سخت سزائیں بھی شامل ہیں۔ حکومتوں کا اس قسم کا فوری ردعمل اس مسئلہ کو حل کرنے کے حوالے سے ان کی سُست روی کے خلاف عوامی ردعمل کو ٹھنڈا کرنے کے لیے ہوتا ہے۔ یہ اس بات کو جانتے بوجھتے نظر انداز کردیتے ہیں کہ اس مسئلہ کو ختم کرنے کے لیے مشرق و مغرب میں کی جانے والی کوششیں، جن میں سخت سزائیں بھی شامل ہیں ، اس مسئلے کو حل کرنا تو دور کی بات ، اس کی شدت میں کمی لانے میں بھی ناکام رہیں ہیں۔
ایک چیز جو اس مسئلہ کو سمجھنے کے لیے انتہائی ضروری ہے وہ یہ کہ لبرل اور سرمایہ دارانہ اقدار اور اس نظام کے متعلق سوالات اٹھائیں جائیں جو اس وقت پاکستان سمیت دنیا بھر کے ممالک میں رائج ہیں۔ زنابالجبر کا عام ہونا، پولیس کا اس کے متعلق بے فکری کا رویہ اور حکومتوں کا اس مسئلہ پر لاپرواہی پر مبنی رویہ دراصل معاشرے کو منظم طریقے سے ایسا بنا دینا ہے جہاں جنسی لذت کا حصول زندگی کے اہم ترین مقاصد میں سےایک ہوتا ہے اور لبرل اقدار مثلاًشخصی آزادی اور جنسی آزادی جس کے نتیجے میں عورت کے وقار اور عزت کو خاک میں ملا دیا جاتا ہے اور سرمایہ دارانہ نظام محض معاشی فوائد کے لیے اس کو فروغ دیتا ہے۔ان تمام چیزوں نے ایسا ماحول پیدا کردیا ہے جس نے مردوں کی نگاہ میں عورت کی عزت و مقام کو پامال کردیا ہے اور ان کی سوچ کو گندا اور غلیظ کردیا ہے جو انھیں ایسے خوفناک جرائم کی جانب مائل کرتا ہے اور پولیس، عدلیہ اورحکمرانوں کی نظر میں اس جرم کی سنگینی کو کم کردیا ہے جس کی وجہ سے وہ اس جرم کو معمول کے کسی بھی دوسرے جرم کی طرح ہی دیکھتے ہیں اور یہ تمام باتیں بچوں اور خواتین کے خلاف جنسی جرائم کو فروغ دیتے ہیں۔
لبرل آزادیاں افراد کو اس بات کی جانب راغب کرتی ہیں کہ وہ اپنی جنسی تسکین کو پورا کرنے کے لیے کسی سے بھی، کسی بھی طریقے سے تعلق قائم کرسکتے ہیں جس کو وہ اپنے لیے مناسب سمجھتے ہوں۔ یہ لبرل اقدار اشتہارات، فیشن، فحش مواد، موسیقی، ٹی وی اور فلمی صنعت کے ذریعے خصوصاً بولی وڈ اور لولی وڈ ثقافت کے ذریعےمعاشرے میں عام کی جاتی ہیں جو پاکستان اور دیگر سرمایہ دارانہ آزاد(لبرل) ممالک میں دیکھی اور پسند کی جاتی ہیں۔ اس قسم کی صنعتیں اور ثقافت معاشرے پر مسلسل فحاشی کی بمباری کرتے ہیں اور جنسی جذبات کو مشتعل کرنے والی خواتین کی تصاویر اور کہانیوں کے ذریعے ایک فرد کے جنسی جذبات کو مسلسل مشتعل کیا جاتا ہے۔ خواتین کو مسلسل ایک شے، ایک چیز کے طور پیش کیا جاتا ہے جس کا مقصد مردوں کی خواہشات اور جذبات کو ہی پورا کرنا ہے اور اس طرح منظم طریقے سے معاشرے میں عورت کے مقام کو پست تر کردیا جاتا ہے۔ ڈرامہ، فلم اور فحش مواد کی صنعت مردوں کے ہاتھوں خواتین کی عصمت دری کو دِکھاتے ہیں جس سے دیکھنے والوں کی نظر میں اس شرمناک تشدد کا احساس ہی باقی نہیں رہتا۔اس کے ساتھ ساتھ شادی کے بندھن سے باہر مرد و عورت کے جسمانی تعلق کو ایک عام حقیقت قرار دیا جاتا ہے بلکہ اسے خوش نما عمل کے طور پر پیش کیا جاتا ہے جس کے نتیجے میں ایسی تہذیب پیدا ہوتی ہے جس میں مردو عورت کا تعلق محض ایک جنسی تعلق بن کر رہا جاتا ہے۔
یہ اسی خطرناک ماحول کا نتیجہ ہے کہ بہت سے مرد یہ دیکھتے ہوئے کہ وہ سزا سے بچ نکلیں گے،اپنی جنسی خواہش کو پورا کرنے کے لیے کسی بھی حد تک جانے کے لیے تیار ہوجاتے ہیں چاہے بچوں، بچیوں اور خواتین کو اس شرمناک حرکت کا نشانہ ہی کیوں نہ بنانا پڑے۔ اس کے ساتھ ساتھ اس ماحول نے نہ صرف اس جرم کے مرتکب افراد کی نظروں میں عورتوں اور بچے بچیوں کی حرمت کو گھٹا دیا ہے بلکہ اُن لوگوں کی نگاہ میں بھی یہ کوئی غیر معمولی عمل نہیں ہوتا جن کی یہ ذمہ داری ہے کہ وہ معاشرے کے کمزور افراد یعنی بچوں اور خواتین کو تحفظ فراہم کریں اور اسی وجہ سے ہم اس جرم کے خلاف ان میں کسی قسم کی غیر معمولی حرکت نہیں دیکھتے۔ لہٰذا اس قسم کی صنعت کو بے ضرر تفریحی نہیں سمجھنا چاہیے۔ ان کا منظم طریقے سے معاشرے کو جنسیات میں مشغول کردینا اور عورت کے مقام کو کمتر کردینا ریاست میں موجود خواتین اور بچوں کی حفاظت کے حوالے سے منفی نتائج پیدا کرتے ہیں۔ اور کرپٹ سرمایہ دارانہ نظام ان تمام خبائث کی پشت پناہی کرتا ہےکیونکہ اس نظام میں کسی بھی قیمت پر منفعت کی پیاس بجھتی ہی نہیں اور وہ اپنے کاروبار کو بڑھانے کے لیے کسی بھی حد تک جاسکتے ہیں چاہے اس کے نتیجے میں معاشرے میں عورت کا وقار مٹی میں مل جائے اور جنسی جرائم میں خوفناک حد تک اضافہ ہوجائے۔
تو پھراس مسئلہ کا حل کہاں ہے؟ اس مسئلے کو اخلاص سے حل کرنے کے لیے ضروری ہے کہ ہم لبرل، سرمایہ دارانہ اقدار اور اس کے نظام کو مسترد کردیں۔ اس مسئلے کے حل کے لیے لازمی ہے کہ ہم ان اقدار اور اس نظام کو قبول کریں جو کسی بھی صورت عورت کے مقام و مرتبے کی تذلیل نہ کرتا ہو، جو پیسے کو اخلاقیات پر فوقیت نہ دیتا ہو اور مردو وعورت کے تعلق کو محض جسمانی تعلق ہی نہ سمجھتا ہو بلکہ ان کی اس جبلت کو ایسے طریقے سے پورا کرتا ہو جو معاشرے کے لیے نقصان کا باعث نہ بنے بلکہ نہ صرف مرد و خواتین بلکہ معاشرے کی فلاح اور ترقی کا باعث بھی بنے۔ اس مسئلے کے حل کے لیے ہمیں کہیں اور جانے کی ضرورت نہیں ہے کیونکہ اسلامی طرز زندگی اور اس کے نظام میں یہ سب کچھ موجود ہے جو کہ اس کے عقیدے سے نکلتا ہے اور اس عقیدے کو پاکستان کے مسلمان دل و جان سے زیادہ عزیز رکھتے ہیں اور وہ عقیدہ ہے اسلام۔
اسلام نے عورت کے مقام ومرتبے، عفت و عصمت کو دنیا بھر کے خزانوں سے زیادہ قیمتی قرار دیا ہے اور اس کے تحفظ کو ویسے ہی لازمی قرار دیا ہے جیسا کہ اسلام کا تحفظ کرنا۔ رسول اللہﷺ نے خواتین کے متعلق فرمایا:((إنما النساء شقائق الرجال ما أكرمهن إلا كريم وما أهانهن إلا لئيم))"خواتین مردوں کا آدھا حصہ ہیں۔ ایک شریف آدمی خواتین کے ساتھ عزت سے پیش آتا ہے لیکن ایک جاہل مرد،عورت کی تذلیل کرتا ہے"۔ رسول اللہ ﷺ نے حجۃ الوداع کے موقع پر فرمایا تھا کہ ((اتقوا الله في النساء))"خواتین کے معاملے میں اللہ سے ڈرو" اوررسول اللہﷺ نے عورت کو مرد کے ہاتھ میں ایک امانت قرار دیا اور اس امانت کی حفاظت کے لیے ایک پورے قبیلے کو مدینہ بدر کر دیا کیونکہ بنو قینُقہ نے ایک مسلمان عورت کی عزت پر ہاتھ ڈالا تھا۔لیکن اسلام صرف خواتین اور بچوں کی حفاظت اور ٖفلاح کو ہی انتہائی اہمیت نہیں دیتا بلکہ وہ ایک تفصیلی نظام اور اقداربھی فراہم کرتا ہے جس کے نتیجے میں ریاست اپنے شہریوں کو جنسی جرائم سے تحفظ فراہم کرتی ہے اور معاشرے کو ایک مخصوص شکل دینے کے لیے اس نظام کے قوانین ایک دوسرے سے متصادم نہیں ہوتے بلکہ ایک دوسرے کے لیے تقویت کو باعث بنتے ہیں۔
سب سے پہلے اسلام لبرل شخصی اور جنسی آزادیوں کو مستردکرتا ہے بلکہ معاشرے میں خوف خدا کے احساس کو پروان چڑھاتا ہے جس کے نتیجے میں احتساب پر مبنی ذہنیت پیدا ہوتی ہے جو مردکو خواتین اور بچوں کی عزت کرنے کی جانب مائل کرتی ہے۔ لہٰذا اسلام معاشرے میں جنسیات کی ترویج کی ممانعت کرتا ہے اور جنسی جبلت کے نتیجے میں پیدا ہونے والے مسائل سے معاشرے کو تحفظ فراہم کرتا ہے اور ایسے تمام اعمال کی ممانعت کرتا ہے جس کے نتیجے میں عورت کو ایک شے کے طور پر دیکھا جائے اور عورت کا استحصال کیا جائے۔ اس طرح مردو عورت کے تعلقات کا محورکبھی بھی محض جنسی تسکین نہیں ہوتی اور عورت کا مقام و مرتبہ بھی برقرار رہتا ہے۔
دوسرا یہ کہ اسلام کا معاشرتی نظام ایسے قوانین کا مجموعہ ہے جو مردو عورت کے تعلقات کو منظم کرتا ہے۔ اس میں شریفانہ لباس، مرد و عورت کے اختلاط کو روکنا اور شادی کے بندھن سے باہر ان کے جسمانی تعلق کی ممانعت بھی شامل ہے۔ یہ تمام اقدامات مرد وعورت کو اس بات پر مجبور کرتے ہیں کہ وہ جنسی جبلت کی تسکین کو صرف اور صرف شادی کے بندھن کے ذریعے سے ہی پورا کرسکتے ہیں۔ لہٰذا جنسی جبلت کو دبایا نہیں جاتا اور نہ ہی کھلا چھوڑ دیا جاتا ہے بلکہ اس کی اس طرح تسکین کی جاتی ہے کو معاشرے کے لیے فلاح کا باعث ہو۔
اور تیسری بات یہ کہ اسلام جنسی جرائم کے خلاف انتہائی سخت سزائیں مقرر کرتا ہے جس میں چند مخصوص مقدمات میں موت کی سزا بھی دی جاتی ہے۔ اس کے علاوہ اسلام اس بات کو لازمی قرار دیتا ہے کہ ایک ایسا موثر عدالتی نظام ہو جو ان جرائم سے باآسانی نمٹ سکے۔
یہ تمام اقدامات عورتوں اور بچوں پر جنسی حملوں کو انتہائی کم کردیتے ہیں اور ایسا معاشرہ پیدا کرتے ہے جہاں لوگ خوف کی حالت میں نہیں رہتے بلکہ انھیں تحفظ کا احساس ہوتا ہے اور یہ تحفظ کا احساس انھیں بغیر کسی خطرے کےسفرکرنے، پڑھنے اور کام کرنے کے مواقع فراہم کرتا ہے۔ لیکن یہ ماحول صرف اسی وقت پیدا کیا جاسکتا ہے جب ایک ریاست اسلام کا نظام مکمل طور پر اسلام کے نظام حکمرانی کے تحت نافذ کرے اور خواتین و بچوں کی عفت و عصمت کے تحفظ کو انتخابی نعرے کے طور پر نہیں بلکہ یاست کیپالیسی میں اولین ترجیح قرار دے۔ اس میں تعلیمی نظام اور میڈیا بھی شامل ہے جو معاشرے میں عورت کے بلند مقام کی ترویج کرے گا نہ کہ اس کو ایک ایسی شے کے طور پر پیش کرے جس کا کام مردوں کی خواہشات کو پورا کرنا ہو۔
خلاصہ یہ ہے کہ یہ سمجھنا کہ اس جرم کے خلاف شعور کی بیداری کے لیے مہم چلانے سے، پولیس کو بہتر تربیت دینے سےیا زیادہ سخت قوانین بنانے سے خواتین اور بچوں کے خلاف جنسی جرائم میں قابل ذکر کمی آجائے گی جبکہ دوسری جانب ایسا نظام نافذ ہو جو منظم طریقے سے خواتین اور بچوں کے عزت و مرتبے کو گھٹا تا ہو ، ان کے تحفظ کی ذمہ داری سے کوتاہی برتتا ہو، ایک خواب ہے جس کی تعبیر ممکن ہی نہیں۔ جب تک کہ اس تصور اور اس کی ترویج کرنے والی حکومت کو پاکستان سے اکھاڑ نہیں پھینکا جائے گا جو معاشرے میں ایسے جرائم کے پیدا ہونے کی بنیادی وجہ ہے اور اس کی جگہ اسلام کو نافذ نہیں کیا جاتا جو ایسی اقدار کی ترویج کرتا ہے جس کے نتیجے میں شہریوں کی عزت و حرمت کو تحفظ حاصل ہو، تو ایسے انتہائی افسوسناک اور خوفناک واقعات کا سلسلہ جاری و ساری رہے گا اور خبروں کی سرخیوں کی زینت بنتے رہیں گے۔
ڈاکٹر نظرین نواز
حزب التحریر کے میڈیا آفس کی رکن

Read more...

امریکہ اور کافر حربی ریاستوں سے قریبی تعلقات، پاکستان کے لیے ہمیشہ نقصان کا باعث بنے ہیں

تحریر: شہزاد شیخ
(ولایہ پاکستان میں حزب التحریر کے ڈپٹی ترجمان)
تاریخ: 17اکتوبر2013

خبر: 14اکتوبر 2013 بروز پیر امریکہ کے نمائندہ خصوصی برائے پاکستان و افغانستان جیمز ڈوبنز نے پاکستان کا دورہ کیا۔ پاکستان میں امریکی سفارت خانے سے ایک پریس ریزیں جاری کی گئی جس کے مطابق:"ڈوبنز نے پاک امریکہ تعلقات، خطے کے سلامتی امور اور افغانستان کے معاملات پر وزیر داخلہ چوہدری نثار ، وزیر اعظم کے مشیر برائے قومی سلامتی و خارجہ امور سرتاج عزیز اور چیف آف آرمی سٹاف اشفاق پرویز کیانی سے بات چیت کی"۔
تبصرہ: امریکی نمائندہ خصوصی جمیز ڈوبنز نے یہ دورہ اس وقت کیا ہے جب وزیر اعظم پاکستان نواز شریف کی 23 اکتوبر 2013 کو واشنگٹن میں امریکی صدر اوبامہ سے ملاقات ہونے والی ہے۔ پاکستان میں بر سراقتدار آنے والا ہر حکمران اپنا سب سے پہلا غیر ملکی دورہ واشنگٹن یا لندن کا کرنا چاہتا ہے تا کہ وہ پاکستان کے عوام کو یہ دِکھا سکے کہ وقت کی سپر پاور اور اس کےاتحادی ، اس کی حمائت کررہے ہیں اور اس کا قتدار مضبوط و مستحکم ہے۔ لیکن جہاں ایک طرف امریکہ اور اس کے اتحادیوں سے بظاہر دوستانہ تعلقات استوار رکھنا کسی بھی پاکستانی حکمران کے کام نہیں آیا، کیونکہ جب بھی امریکہ نے یہ دیکھا کہ یہ حکمران مزید اس کے مفادات کے حصول اور ان کے تحفظ کے لیے زیادہ فائدہ مند نہیں رہا تو امریکہ نے ہمیشہ ان کی سرپرستی سے ہاتھ اٹھا لیا، تو دوسری جانب امریکہ اور مغربی کافر حربی ریاستوں سے تعلقات کا پاکستان کو بھی فائدے سے زیادہ ہمیشہ نقصان ہی ہوا ہے۔
تاریخ گواہ ہے کہ جب جب پاکستان نے امریکہ و مغربی کافر حربی ریاستوں کی بات مانی یا ان پر بھروسہ کیا تو پاکستان کو ہمیشہ نقصان ہی اٹھانا پڑا۔ 1948 میں جب افواج پاکستان اور مسلم مجاہدین، کشمیر کے محاظ پر بھارتی فوج کو شکست دیتے ہوئے سرینگر کی جانب پیشقدمی کررہے تھے تو بھارت بھاگا بھاگا اقوام متحدہ گیا اور پاکستان نے امریکہ اور کافر مغربی حربی ریاستوں کے دباؤ اور یقین دہانیوں پر یقین کرتے ہوئے جنگ بندی قبول کر لی ۔ لیکن اس کے بعد سے اب تک 65 سال گزر چکے ہیں اور پاکستان اور کشمیر کے مسلمان اقوام متحدہ کی قراردادوں پر عمل درآمد کا انتظار ہی کررہے ہیں۔ اسی طرح جب 1962 میں چین اور بھارت کی جنگ شروع ہوئی تو پاکستان کے پاس کشمیر کو آزاد کروانے کا ایک سنہری موقع تھا لیکن امریکہ اور کافر مغربی حربی ریاستوں نے مداخلت کی اورانکےمشورے پر عمل کرتے ہوئے پاکستان نے اس موقع سے فائدہ نہیں اٹھایا اور کشمیر کی آزادی کا موقع گنوا دیا۔ پھر 1971 میں جب بھارت نے اس وقت کے مشرقی پاکستان پر حملہ کیا تو باوجود اس کے کہ امریکہ کا دشمن سوویت یونین بھارت کی کھلم کھلا اور بھر پور مدد کررہا تھا اور امریکہ کا پاکستان کےساتھ دفاعی معاہدہ بھی تھا ، امریکہ پاکستان کی مدد کو نہیں آیا ۔ پاکستان آٹھویں امریکی بحری بیڑے کے آنے کا انتظار ہی کرتا رہ گیا اور مسلم تاریخ کی سب سے بڑی شکست کا سامنا کیا جس میں تقریباً ایک لاکھ مسلم فوج کو بھارت نے جنگی قیدی بنالیا اور اب پچھلے بارہ سالوں سے خطے میں امریکی مفادات کی تکمیل کے لیے پاکستان اس کی فرنٹ لائن سٹیٹ اور نان نیٹو اتحادی بن کر پچاس ہزار سے زائد شہریوں اور فوجیوں کا خون اور معیشت کو ستر ارب ڈالر کا نقصان اس جنگ کی بھینٹ چڑھا چکا ہے۔
لہٰذا پاکستان کی ترقی اور خوشحالی کے لیے ہمیں امریکہ اور کافر مغربی حربی ریاستوں سے تعلقات کو ختم کرنا ہو گا تب ہی ہم اس قابل ہوسکیں گے کہ اپنے معاملات میں آزادانہ فیصلے کرسکیں چاہے ان کا تعلق معیشت سے ہو یا خارجہ پالیسی سے ۔ لیکن ایسا صرف پاکستان میں خلافت کے قیام کے ذریعے ہی ممکن ہے کیونکہ موجودہ سرمایہ دارانہ نظام اور سیاسی و فوجی قیادت میں موجود غدار کبھی بھی ایسے جرات مندانہ اقدام اٹھانے کی ہمت نہیں کرسکتے۔ یہ خلافت ہی ہو گی جو تمام امریکی فوجیوں، نجی سیکورٹی اہلکاروں اور سفارت کاروں کو ملک بدر کردے گی۔ خلافت تمام امریکی اڈے بنداور نیٹو سپلائی لائن کو کاٹ دے گی اور خلافت کے افواج مخلص مجاہدین کے ساتھ اس خطے سے امریکہ اور کافر مغربی حربی ریاستوں کو مار بھگائے گی اور ان کی نجاست سے اس سرزمین کو پاک کردے گی۔

Read more...

ملالہ یوسفزئی،ایک لڑکی جس کو مغرب اپنےمفادات کی تکمیل کے لیے استعمال کر رہا ہے

خبر:اپنی سولویں سالگرہ کے موقع پر ملالہ یوسفزئی ، جسے طالبان نے پاکستان میں لڑکیوں میں تعلیم کے فروغ کے لیے کام کرنے کی بنا پر سر میں گولی مار دی تھی ،نے اقوام متحدہ میں خطاب کیا اور عالمی رہنماوں سے ہر بچے کو ''مفت،لازمی تعلیم ‘‘ فراہم کرنے کا مطالبہ کیا۔
اس کا استقبال جنوبی کوریا سے تعلق رکھنے والے اقوام متحدہ کے جنرل سیکریٹری بان کی مون نے کیا۔ بان کی مون نے نوجوانوں کی اسمبلی سے اس کا تعرف کرایا۔ بان کی مون نے کہا کہ ''ملالہ کو نشانہ بنا کر انتہا پسندوں نے یہ دیکھا دیا ہے کہ وہ ایک ایسی لڑکی سے سب سے زیادہ خوفزدہ ہیں جس کے ہاتھ میں کتاب ہو‘‘۔ اس نے مزید کہا کہ ''ملالہ ہم سے اپنے وعدوں پر قائم رہنے کا مطالبہ کررہی ہے کہ ہم نوجوانوں پر خرچ کریں اور تعلیم کو پہلی ترجیع دیں‘‘۔
برطانیہ کے سابق وزیر اعظم،گورڈن براؤن جو عالمی تعلیم کے لیے اقوام متحدہ کے نمائندہ خصوصی بھی ہیں،نے ملالہ کا تعرف کرایا اور اقوام متحدہ میں ملالہ کے دن کو منانے کے لیے اہم کردار ادا کیا۔
http://thelede.blogs.nytimes.com/2013/07/12/video-of-malala-yousafzai-at-u-n-calling-on-world-leaders-to-provide-education-to-every-child/
تبصرہ:
1۔ کافر مغرب جس کے ہاتھ مسلمانوں کے خون سے رنگے ہوئے ہیں ہمیشہ پہلے مسلمانوں کو قتل کرتا ہے اور پھر ان کے جنازوں میں شریک ہو کر ان کے قتل پر افسوس کا اظہار بھی کرتا ہے۔ مغرب کی آزادی کا تصورعورت کو ایسا سامان قرار دیتا ہے جس کوبغیر کسی شرم و حیا کے بیچا اور خریدا جا سکتا ہے۔ لیکن اسلام نے اس کے مقام کو بلند کیا اور اس کی عزت و آ بروکا محافظ ہے۔ یہ حقیقت سب کے سامنے آشکار ہو چکی ہے جن میں وہ لوگ بھی شامل ہیں جو '' آزادی‘‘اور ''عورت اور مرد کے درمیان برابری‘‘ کی دعوت دیتے پھرتے ہیں۔ اسی چیز نے مغرب کو سیخ پا کر دیا ہے اور وہ انانیت کا شکار ہو کر مسلمان عورت کو حسد کی نگاہ سے دیکھنے لگا ہےباوجود اس کے کہ آج مسلم عورت کسی مثالی اسلامی معاشرے میں زندگی نہیں گزار رہی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ مغربی ممالک اپنے ایجنٹوں اور اپنی قاتل کمپنیوں ''بلیک واٹر‘‘وغیرہ کے ذریعے اسلامی علاقوں بشمول پاکستان میں وحشیانہ جرائم کا ارتکاب کرتے ہیں اور پھر ان جرائم کو مسلمانوں کے سر تھوپتے ہیں تا کہ مغرب یہ کہہ کر اپنے صلیبی یلغار کا جواز پیش کر سکے کہ یہ لوگ رجعت پسند، ترقی کے دشمن اور جرائم پیشہ ہیں۔ یوں اقوام عالم کے سامنے مسلمانوں کے قتل اور ان کی نسل کشی کا جواز پیش کیا جاتا ہے کہ ان کے خلاف یہ صلیبی یلغاران رجعت پسندوں سے انسانیت کو بچانے کے لیے ہے۔
2۔ پاکستان میں تعلیم سے محروم افراد کی تعداد پچپن ملین ہے جو کہ کل آبادی کا تقریباً ایک تہائی کے برابر ہے۔ تو کیوں اقوام متحدہ اس مسئلے کو حل کرنے کے لیے کام نہیں کرتی اور صرف ملالہ کو تقلیم فراہم کرنے پر توجہ مبزول کرتی ہے؟ اس کے پاس اس بات کے لیے تو بے پناہ وسائل ہیں کہ سوات اور قبائلی علاقوں میں ڈرون طیارے بھیج سکے جہاں ملالہ رہتی ہے لیکن پاکستان میں ناخواندگی کو ختم کرنے کے لیے وسائل کے کمی ہوجاتی ہے!
3۔ پچھلے سال پیچیاسی ہزار لوگوں نے ملالہ کو امن کا نوبل انعام دینے کے لیے نامزد کیا۔ ٹائمز میگزین نے ''سال کی شخصیت‘‘میں دوسرے نمبر پر قرار دیا۔ مغرب، مسلم دنیا میں اس کے ایجنٹ حکمران اور وہ لوگ جو اس کے دن کو منا رہے ہیں آخر کیوں ملالہ کے مسئلہ کو اتنی اہمیت دے رہے ہیں؟ یقیناً ان کی حمائت لڑکیوں میں تعلیم کے فروغ کے لیے نہیں ہے۔ اگر ایسا ہے تو ایسی تعلیم کا کیا فائدہ کہ جس کو حاصل کرنے کے بعد بھی روزگار یا نوکری نہ مل سکے جبکہ پاکستانی گریجویٹس میں بے روزگاری کی شرح بڑھتی جارہی ہے؟ انھوں نے ملالہ کے مسئلے کو استعمال کیا ہے اور اس مسئلہ کو مغرب نے ہی پیدا کیا ہے تا کہ قدامت پسند علاقوں میں موجود مسلم عورتوں میں سے شرم و حیا کا خاتمہ کیا جائے اور اسلام کے تصوراور اس کی تہذیب کو مسلمانوں اور غیر مسلموں کے سامنے مسخ کیا جائے۔ اور ایسا اس وقت کیا جارہا ہے جب خود مغربی تہذیب بے نقاب ہوچکی ہے اور مغرب کے لوگ ایک متبادل کی تلاش میں ہیں۔ لہذا کرپٹ سرمایہ دارانہ اور مغرب پسند حکومتوں سے فائدہ اٹھانے والے اسلام کی تہذیب کو مسخ کرنے کی بھر پور کوشش کررہے ہیں اور ان لوگوں کو جو ایک متبادل تہذیب کی تلاش میں سرکردہ ہیں،اسلامی تہذیب سے دور کرنے کی کوشش کرنے رہے ہیں۔اسلام سرمایہ دارانہ نظام کے لیے ایک سنگین خطرہ ہے جو اپنی بقا کے لیے لوگوں کے خون کا محتاج ہے۔

ابو عمر و

Read more...

ایبٹ آباد کمیشن رپورٹ:سیاسی و فوجی قیادت میں موجود غداروں نے پاکستان کی سالمیت اور خودمختاری کو امریکہ کےہاتھوں بیچ دیا ہے

تحریر: شہزاد شیخ
پاکستان میں حزب التحرير کے ڈپٹی ترجمان
تاریخ:۱۷ جولائی۲۰۱۳

خبر : ۸ جولائی ۲۰۱۳ کو الجزیرہ نے ایبٹ آباد کمیشن کی رپورٹ شائع کردی۔ یہ کمیشن ۲ مئی ۲۰۱۱ کو ایبٹ آباد پر ہونے والے امریکی حملے کی تحقیقات کے لیے قائم کیا گیا تھا۔ اب تک کیانی و شریف حکومت نے اس رپورٹ کے مندرجات کی تردید نہیں کی ہے بلکہ اس چیز کی تحقیقات ہورہی ہیں کہ کس نے اور کس طرح اس رپورٹ کو بے نقاب کردیا۔ اس رپورٹ کی اشاعت نے ملک میں ایک بار پھر یہ بحث شروع کردی ہے کہ سانحہ ۲ مئی کے ذمہ دار کون تھے۔

تبصرہ: حزب التحرير وہ پہلی سیاسی جماعت تھی جس نے اس عظیم سانحہ کی ذمہ داری براہ راست جنرل کیانی اور سیاسی و فوجی قیادت میں موجو اس کے غدار ساتھیوں پر ڈالی تھی۔ ایک ایسے ملک میں جہاں آج بھی ایبٹ آباد اور سلالہ کے سانحات کے باوجود اکثر تجزیہ نگار اور دانشور ان جرائم کے ذمہ داروں کا نام لیتے ہوئے خوف کھاتے ہیں لیکن حزب نےفورابغیر کسی خوف کےًپاکستان کے عوام کواصل مجرموں سے آگاہ کیا تھا۔ کیانی اور سیاسی و فوجی قیادت میں موجود غداروں سے خوف کھانے کا یہ عالم ہے کہ اس کمیشن نے بھی براہ راست ان کا نام لینے سے مکمل گریز کیا لیکن ایسی زبان استعمال کی کہ ہر کوئی سمجھ جاتا ہے کہ اصل مجرم کون ہیں۔
اس بات میں کوئی شک و شبہ نہیں کہ حزب التحرير ہی امت کی حقیقی نمائندہ اور ان کی رہنمائی کرنے کی حق دار ہے کیونکہ وہ کیانی اور اس کے غنڈوں سے خوفزدہ نہیں ہوئی تھی اور اس کی عظیم غداری کے خلاف ملک بھر میں زبردست مہم چلائی تھی اور آج کے دن تک اس کے جرائم کو بے باکی اور بہادری سے بے نقاب کر رہی ہے۔ نے اپنی اس ذمہ داری کی ادائیگی کی خوشی سے بھاری قیمت ادا کی تھی اور اب بھی اس قیمت کو بغیر کسی افسوس کی ادا کررہی ہے کیونکہ جابر حکمرانوں کا احتساب کرنے پر اللہ سبحانہ و تعالی نے بہت بڑے اجر کا وعدہ کیا ہے۔ جب حزب نے کیانی کی غداری کو بے نقاب کیا تو اسلام آباد سے تین اور رحیم یار خان سے اس کے دو اراکین کو کیانی کے غنڈوں نےاغوا کرلیا اورانھیں بدترین جسمانی تشدد کا نشانہ بنایا اوربلترتیب چاراورنو ماہ تک ذہنی و جسمانی تشدد کا نشانہ بناتے رہے۔ اور پھر مئی ۲۰۱۲ میں حزب التحرير کے پاکستان میں ترجمان نوید بٹ کو اغوا کرلیا گیا جو آج کے دن تک لاپتہ ہیں۔ اس کے علاوہ سیکڑوں شباب کو گرفتار کیا گیا اور ان پر اس حد تک جبر کیا گیا کہ ان کے دفتر والوں کو مجبور کیا گیا کہ انھیں ملازمت سے فارغ کردیا جائے۔ لیکن ان تمام تر ہتھکنڈوں کے باوجود کیانی حزب التحرير اوراس کے شباب کی آوازوں کو ختم کرنا تو دور کی بات انھیں دبا بھی نہیں سکا۔
ایبٹ آباد کمیشن کی رپورٹ حزب التحرير کے اس موقف اور یقین کو ثابت کرتی ہے کہ آج پاکستان کا اصل مسئلہ امریکی راج کا خاتمہ ہے کیونکہ اس امریکی راج کی وجہ سے پاکستان اور اس کے عوام کی سالمیت ایک مذاق بن کررہ گئی ہے۔ بدقسمتی سے آج بھی سانحہ ایبٹ آباد کا مجرم جنرل کیانی نہ صرف افواج پاکستان کی قیادت کے منصب پر بیٹھا ہوا ہے بلکہ یہ امید رکھتا ہے کہ امریکہ کے لیے اس کے شرمناک جرائم کے عوض امریکہ اس کی مدت ملازمت میں توسیع یا فائیو سٹٓار جنرل بنا کر مزید تین سالوں کے لیے اسے افواج پاکستان پر مسلط کرادے گا۔
کمیشن کی رپورٹ حزب التحرير کے اس موقف کو بھی ثابت کرتی ہے کہ امریکہ ہمارا دشمن ہے لہذا ایک دشمن ملک کے ساتھ دوستانہ تعلقات نہیں رکھے جاسکتے۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ افواج پاکستان میں موجود مخلص افسران خلافت کے قیام کے لیے حزب التحرير کو نصرۃ فراہم کریں تا کہ سیاسی و فوجی قیادت میں موجود غداروں کا صفایا کیا جاسکے، ملک میں موجود امریکی سفارتی میشنزاوراڈوں کا خاتمہ، سفارتی و انٹیلی جنس اہلکاروں کو ملک بدراور امریکیوں کے بنائے ہوئے ریمنڈ ڈیوس نیٹ ورک کو جڑ سے اکھاڑ پھینکا جائے۔ صرف اور صرف اسی صورت میں پاکستان اور اس کے عوام کی سالمیت کو یقینی بنایا جاسکتا ہے۔

Read more...

امریکہ کا افغانستان سے انخلاء پاکستان کی مدد کے بغیر ممکن نہیں

تحریر: خالد صلاح الدین
امریکہ کے لیے پاکستان کی سٹریٹیجک اہمیت ایشیا کے حوالے سے سے بہت زیادہ ہے اور یہ حقیقت واضح بھی ہے۔ ایشیا اور ایشیا پیسیفک کے لیے امریکی منصوبوں کےلیے انتہائی اہمیت رکھنے والے دو ممالک بھارت اور افغانستان کی سرحدیں بھی پاکستان سے ملتی ہیں۔امریکہ کی پاکستان ، افغانستان اور پورے یوریشیا کے لیے حکمت عملی پوری امت کے لیے انتہائی اہمیت کی حامل ہے ۔
وسطی ایشیا کے ممالک کی اپنے محل و وقوع کے حوالے سے بہت اہمیت ہے کیونکہ یہ چین اور روس کے درمیان واقع ہیں۔ اس کے علاوہ ان ممالک میں موجود تیل و گیس کے وسیع ذخائر بھی اہمیت کے حامل ہیں۔ روس کے لیے ان ممالک کی یہ اہمیت ہے کہ وہ ان وسائل تک رسائی اور کنٹرول حاصل کر کے ان کی رسد(سپلائی) پر اپنی گرفت کو مزید مضبوط بنا سکتا ہے۔ اگر یہ وسائل اس کے ہاتھ سے نکل جاتے ہیں تو اس کا مطلب یہ ہوگا کہ خطے میں مختلف معاملات پر اس کے حاوی ہونے کی صلاحیت متاثر ہوجائے گی۔ چین کے لیے بھی ان وسائل تک رسائی اپنی بہت بڑی آبادی کی ضروریات کو پورا کرنےاور معاشی ترقی کے لیے انتہائی ضروری ہے ۔
یہ وہ جیو سٹریٹیجک معاملات ہیں جن کی بناء پر امریکہ اس خطے میں داخل ہونے کی شدید خواہش رکھتا ہے۔ ماضی میں امریکہ نے روسی جارحیت کو بنیاد بنا کر خطے میں اپنی مداخلت کے لیےپاکستان اور افغان مجاہدین کی حمائت کرنے کا جواز پیش کیا تھا۔ اس کے علاوہ یہ خیال بھی عام ہے کہ افغانستان سے روس کی واپسی کے بعد امریکہ بھی اچانک چلا گیا تھا اور پاکستان اور افغانستان کو تنہا چھوڑدیا گیا تھا۔ لیکن حقیقت یہ تھی کہ پاکستان ،آئی،ایس،آئی کے ذریعے امریکی خواہش کے مطابق اپنا کردار ادا کررہا تھا ۔ اس وقت خطے میں امریکہ کی اپنی موجودگی کی کوئی خاص ضرورت نہ تھی۔
لیکن خطے میں سیاسی اسلام کی مضبوط ہوتی پکار اور اس کے ساتھ ساتھ طالبان کا امریکی احکامات کو ماننے سے انکار کردینا اور 11/9کے واقع نے امریکہ کے لیے وہ بہانہ مہیا کردیا کہ وہ خطے میں بھر پور طریقے سے داخل ہوجائے۔
یقیناً امریکہ نے دس سال یہ جنگ اس لیے نہیں لڑی کہ وہ افغانستان کرپٹ جنگجو کمانڈروں یا آئی۔ایس۔آئی کے حوالے کردے کیونکہ وہ دونوں پر ہی بھروسہ نہیں کرتا۔ امریکہ خطے میں لمبے عرصے تک رہنا چاہتا ہے اور عراق اور دیگر مسلم ممالک میں اپنے اڈے بنانے کی پالیسی کو جاری و ساری رکھنا چاہتاہے۔ حالیہ عرصے میں افغانستان اور امریکہ کے درمیان جس سٹریٹیجک معاہدے پر دستخط ہوئے ہیں اس کا بنیادی مقصد افغانستان میں امریکی اڈوں کا قیام اور عورتوں، بچوں اور بوڑھوں پر گولیاں چلانے والے امریکی فوجیوں کے لیےکسی بھی جرم سے متعلق سزا سے استثناء حاصل کرنا ہے۔ یہ دو مقاصد ابھی تک پورے نہیں ہوئے ہیں جبکہ ان مقاصد کو حاصل کرنے کے لیے امریکہ خطے میں موجود اپنے ایجنٹوں کے ساتھ مسلسل کام کررہا ہے۔ 9 مئی 2013 کو حامد کرزئی نے اعلان کیا کہ " امریکہ افغانستان میں نو اڈے قائم کرنا چاہتا ہے"۔ اس نے یہ بھی کہا کہ " امریکہ کو یہ اڈے دینے پر ہم رضا مند ہیں" اور مزید کہا کہ " ان مسائل پر امریکہ کے ساتھ سنجیدہ مذاکرات ہوئے ہیں"(اے۔ایف۔پی)۔
14ستمبر 2013 کو پاکستانی سینیٹر مشاہد حسین نے اپنے چار روزہ دورہ کابل سے واپسی پر ایک بیان دیا جسے Xinhuanetنے رپورٹ کیا ۔ اس نے کہا کہ امریکہ اور نیٹو کی تقریباً 20ہزار افواج افغانستان میں موجود رہیں گی۔ اس نے وضاحت کی کہ افغانستان اور پاکستان میں تقریباً ایک لاکھ سے زائد امریکی نجی اہلکار سیکیوریٹی اور دوسرے معاملات دیکھ رہے ہیں۔ اور ان کی تعداد میں نیٹو افواج کے جانے سے کوئی فرق نہیں پڑے گا۔
12ستمبر2013 کو ملٹری ٹائمز میں شائع ہونے والے مضمون میں جنرل جوزف ایف ڈینفورڈ ، جو افغانستان میں ایساف اور امریکی افواج کے کماندڑ ہیں نے کہا کہ " 2015 کے شروع میں امریکہ اور اتحادی افواج ایک نیا ، مختصرلیکن اہم مشن شروع کریں گے جس کا نام ریزولیوٹ سپورٹResolute) Support)ہوگا۔ اس میں اس بات پر توجہ دی جائے گی کہ افغانستان کے سیکیوریٹی کے اداروں میں ترقی کے عمل کو مکمل کیا جائے۔ امریکی فوجی،مشیر کی حیثیت سے افغانیوں کو منصوبہ بندی، بجٹنگ، مواصلات اور انٹیلی جنس کی مہارت اور صلاحیت بڑھانےمیں مدد فراہم کریں گے۔ پہلے کی نسبت کم فوجیوں سے امریکہ اور ہمارے اتحادی ان فوائد کو برقرار رکھ سکیں گے جنھیں بہت محنت سے حاصل کیا گیا ہے اور اس بات کو یقینی بنائیں گے کہ جو کچھ ہم نے پچھلے بارہ سالوں میں حاصل کیا ہے اس کو برقرار رکھا جائے۔ اگرچہ افغانیوں کو اب بھی کئی مشکلات کا سامنا ہےلیکن امریکہ سمجھتا ہے کہ وہ ایک اہم مقصد کی تکمیل کے لیے صحیح سمت میں بڑھ رہے ہیں۔ ہم ایک ایسے نتیجے کے لیے بہترین مدد فراہم کرسکتے ہیں جوخطےمیں ہماری مسلسل موجودگی کے ذریعے،افغان عوام اورافغان نیشنل سیکیوریٹی فورس کی حمائت کر کے،اصلاحات کے نفاذکےلیےافغان حکومت کااحتساب کر کےاورمسئلہ کےسیاسی حل تک پہنچنےمیں مددفراہم کرکے، ہمارے قومی مفاد ات کا تحفظ کرے گا"۔
جس مشن کو بہت مختصر کہا جارہا ہے اس میں بھی ایک بڑی تعداد ملوث ہو گی یعنی ایک لاکھ بیس ہزار فوجی، اور ان کی موجودگی امریکی مفادات کوتحفظ فراہم کرنے کے نام پردرست قرار دی جائے گا ۔
امریکہ کی جانب سے ان اڈوں کی فراہمی کا مطالبہ قدرتی اور اس کے اہداف سے مکمل مطابقت رکھتا ہے۔ امریکی اڈوں کی موجودگی امریکہ کو اس قابل بنائے گا کہ اگر اس کے کسی بھی فیصلے کو نافذ کرنے میں افغان حکومت ناکام ہوجائے یا وہ اس کے نفاذ میں دلچسپی نہ لے تو امریکہ اپنے فیصلوں کے نفاذ کے لیے اس پردباؤ ڈال سکے ۔لہذا امریکی انخلاء کا منصوبہ نہ صرف محض ایک نعرہ ہے بلکہ وہ عقلی منطق سے بھی متصادم ہے۔
امریکہ افغانستان میں اڈے قائم کرنا چاہتاہے لیکن امریکہ یہ بھی جانتا ہے کہ سیاسی لحاظ سے غیر مستحکم افغانستان اس کے سٹریٹیجک اہداف کی تکمیل میں روکاٹ کا باعث بن جائےگا۔ افغانستان میں استحکام وسطی ایشیا ئی ممالک میں داخل ہونے اوران کے قدرتی وسائل کو اپنے قابو میں کرنے کے لیے ضروری ہے۔ وسطی ایشیائی ممالک سمندر وں سے دور ہیں اور اس وجہ سے وہ تجارت کے لیے دوسرے ممالک پر انحصار کرنے پر مجبور ہیں۔ مندرجہ ذیل تصویر ان سمتوں کا تعین کرتی ہے جن کی جانب ان ممالک سے نکلنے والی تجارتی شاہراہیں ہو سکتی ہیں ۔
امریکہ چاہتا کہ کہ ان وسائل کو دنیا تک پہنچانے کے لیے افغانستان اور پاکستان کا راستہ اختیار کیا جائے۔ یہاں سے سمندر تک پہنچنے کا سب سے مختصر رستہ افغانستان اور پاکستان سے ہی ممکن ہے۔ اس کے علاوہ عالمی معاشی بحران کے دوران اس قسم کا مختصر ترین راستہ ان وسائل کو دنیا تک پہنچانے پر آنے والے خرچے کو بھی مختصر ترین کردیتا ہے۔ روس کا راستہ اختیار کرنا مشکلات سے بھرپور ہے۔ مثال کے طور پر جنوری 2009 میں یوکرین کے ساتھ ایک تنازعہ میں روس نے گیس کی سپلائی مکمل طور پر بند کردی جس کے نتیجے میں یورپ کو دی جانے والی گیس میں 60فیصد کی کمی واقع ہو گئی تھی۔
اگر افغانستان میں استحکام قائم ہو جاتا ہے تو امریکہ وسطی ایشیائی ممالک کو آسانی سے افغانستان اور پاکستان کا راستہ اختیار کرنے پر راضی کرسکتا ہے۔ وسطی ایشیائی ممالک کے لیے اس میں یہ فائدہ ہے کہ اس طرح انھیں دو عالمی پاورز ، امریکہ اور چین کے ساتھ معاملات کرنے کا موقع حاصل ہوجائے گا جو کہ ایک منفرد سیاسی فائدہ ہے۔
امریکہ نے ترکمانستان، افغانستان، پاکستان، بھارت(TAPI) پائپ لائن کے لیے بہت کام کیا ہے جبکہ اس منصوبے کے ساتھ ساتھ وہ ایران،پاکستان، بھارت(IPI) پائپ لائن کی مخالفت کررہا ہے۔ یہ دونوں پائپ لائنز بھارت کو توانائی فراہم کریں گی جیسا کہ درج ذیل تصویر میں بھی دیکھا یا گیا ہے لیکن TAPIزیادہ بہتر طریقے سے امریکی اہداف کو پورا کرسکے گی۔
اس کے علاوہ TAPIپائپ لائن کا منصوبہ ، اس کی تعمیر اور اس کو محفوظ رکھنا خطے میں امریکی افواج کی موجودگی کا ایک اچھا جواز بھی فراہم کرتی ہے۔
ان باتوں کو ذہن میں رکھتے ہوئے جبکہ امریکہ اپنے ایجنٹ کرزئی کے ذریعے افغانستان میں اڈے بھی حاصل کر لے گا ، امریکہ یہ بات جانتا ہے کہ طالبان کے ساتھ امن معاہدے کے بغیر افغانستان میں استحکام قائم نہیں کیا جاسکتا۔ امریکہ طالبان کو امن مذاکرات کی میز پر لانے کے لیے پاکستان کو ایک اہم مہرے کے طور پر دیکھتا ہے اور اس نے اپنے ایجنٹ کرزئی کو اسی سمت میں ہدایت دی ہے ۔ اپنے حالیہ دورہ پاکستان میں افغان صدر حامد کرزئی نے کہا کہ " ہم نے اس سلسلے میں بات کی ہے۔۔۔۔۔۔اس انفرادیت کے ساتھ کہ پاکستان کی حکومت جس طرح سے بھی اس کے لیے ممکن ہو ، افغانستان میں امن اور اس کے قیام کے لیے مواقعوں کی فراہمی یا طالبان اور افغان امن کونسل کے درمیان بات چیت کے لیے پلیٹ فارم کی فراہمی کے لیے مدد اور سہولت فراہم کرے گی"۔
یقینا امریکہ کا پاکستان پر انحصار بہت زیادہ ہے جیسا کہ امریکی چیرمین جوائنٹ چیفس آف سٹاف مارٹن ڈیمسی نے 19جولائی2013کواکنامک ٹائمز میں شائع ہونے والے ایک مضمون میں کہا کہ"ہمارے سٹریٹیجک اور قومی سلامتی کے اہداف اب بھی یہ ہیں کہ القائدہ کو شکست دی جائے اور اسے ختم کردیا جائے اور افغانستان اور پاکستان میں محفوظ پناہ گاہوں کو دوبارہ قائم ہونے سے روکا جائے۔ پاکستان کی مدد کے بغیر یہ ممکن نہیں ہے"۔
امریکہ پاکستان کی مدد کے بغیر نہ تو القائدہ کو شکست دے سکتا ہے اور نہ ہی طالبان کو امن مذاکرات کی میز پر لاسکتا ہے۔ لہذااٖفغانستان میں فوجی و سیاسی حل کی کامیابی پاکستان کی مدد کے بغیر ممکن ہی نہیں۔
اٖفغانستان میں سیاسی استحکام کے ساتھ ہی وسطی ایشیائی ممالک کے توانائی کے وسائل افغانستان اور پاکستان کے ذریعے نکلنا شروع ہوجائیں گے۔ یہ توانائی بحیرہ عرب کراچی یا گوادر کے ذریعے اور بھارت ملتان کے راستے پہنچے گی۔ توانائی کے وسائل کی فراہمی کے ذریعے بھارت کو مضبوط کرنے کی کوشش چین کو گھیرنے کے امریکی منصوبے کا حصہ ہے اور یہ بھی پاکستان کے بغیر ممکن نہیں۔
خلاصہ یہ ہے کہ امریکہ کو پاکستان کی ضرورت ہے تا کہ طالبان کو مذاکرات کی میز پر لایا جائے۔ لہذا مستحکم افغانستان کے لیے پاکستان کا کردار ایک کنجی کی حیثیت رکھتا ہے۔ وسطی ایشیائی ممالک سے توانائی کے وسائل کو افغانستان اور پاکستان کے راستے دنیا تک پہنچانے کے لیے ایک مستحکم افغانستان ضروری ہے۔ توانائی کے ان وسائل تک بھارت کو رسائی فراہم کر کے بھارت میں موجود توانائی کے شدید بحران کو ختم کرنے کے لیے استعمال کیا جائے گا۔ یہ امریکہ کے اس منصوبے کا حصہ ہے جس کے تحت چین کے خلاف بھارت کو کھڑا کرنا مقصود ہے۔ لہذا یہ تمام صورتحال خطے میں پاکستان کو اہم ترین ریاست بنا دیتی ہے۔

Read more...

امریکہ افغانستان سے کیوں نکلنا چاہتا ہے

عابد مصطفیٰ

حالیہ دنوں میں افغانستان سے امریکی انخلاء کے متعلق بہت کچھ شائع ہوا ہے ۔ اس انخلاء کے منصوبے پر 2014 میں عمل درآمد کرنے کا ارادہ ہے۔ لہذا یہ ایک اچھا موقع ہے کہ اس بات کا جائزہ لیا جائے کہ آیا امریکہ نے افغانستان کے حوالے سے اپنے تضویراتی (سٹریٹیجک)منصوبےمیں کوئی تبدیلی کی ہے یا یہ انخلاء محض ایک آپریشنل منصوبے کا ایک حصہ ہے۔ اگر یہ آپریشنل منصوبے کا ہی حصہ ہے تو پھر وہ کیا وجوہات ہیں جن کی بنا پر واشنگٹن افغانستان سے نکلنے پر مجبور ہو رہا ہے۔ اس مضمون میں اسی سوال کا جواب دینے کی کوشش کی جائے گی۔
سب سے پہلے یہ دیکھتے ہیں کہ امریکہ کے لیے افغانستان کی کیا اہمیت ہے۔ اگر آپ 20اکتوبر 2010کو جاری کیے گئے سوال و جواب کو یاد کریں تو ہم نے یہ کہا تھا کہ افغانستان پر امریکی حملے کے تضویراتی(سٹریٹیجک) اہداف یہ تھے:
1۔ یوریشیا میں روس اور چین کی پیش رفت اور بالادستی کو روکنا
2۔ریاست خلافت کے قیام کو روکنا
3۔ کیسپین کے سمندر اور مشرق وسطی میں موجود تیل وگیس کے ذخائر کو اپنے قبضے میں لانا
4۔ کیسپین کے سمندر اور مشرق وسطی سے نکلنے والے تیل و گیس کی سپلائی کے راستوں اور ان کی حفاظت کے معاملات کو اپنے قبضے میں رکھنا

اس تجزیے کے شواہد یہ تھے:
"یوریشیا میں دنیا کی سب سے زیادہ سیاسی لحاظ سے مضبوط اور متحرک ریاستیں موجود ہیں۔ تاریخی طور پر عالمی قیادت کے دعوے دار یوریشیا سے ہی اٹھتے رہے ہیں۔ علاقائی سطح پر بالادستی کی شدید خواہش رکھنے والے دنیا کے سب سے بڑی آبادی والے ممالک چین اور بھارت اسی خطے یوریشیا سے تعلق رکھتے ہیں اور اس کے ساتھ ہی امریکہ کی سیاسی و معاشی بالادستی کو چیلنج کرنے والےممالک بھی اسی خطے میں واقع ہیں۔ امریکہ کے بعد دنیا کی چھ سب سے بڑی معیشتیں اور اپنے دفاع پر خرچ کرنے والے ممالک بھی اسی خطے میں واقع ہیں اور اس کے ساتھ ہی ساتھ دنیا کے تمام اعلانیہ اور غیر اعلانیہ ایٹمی ریاستیں بھی اسی خطے میں موجود ہیں۔ دنیا کی کُل آبادی کا 75فیصد یوریشیا میں آباد ہےجبکہ دنیا کی 60فیصد کُل قومی پیداوار اور 75 فیصد توانائی کے وسائل بھی اسی خطے میں موجود ہیں۔ یوریشیا کی مجموعی طاقت امریکہ کی طاقت سے آگے نکل جاتی ہے۔ جو طاقت یوریشیا میں بالادستی حاصل کرے گی وہ لازماً دنیا کے تین میں سے دو انتہائی اہم معاشی طاقت کے حامل خطوں ، مغربی یورپ اور مشرقی ایشیا میں بھی فیصلہ کن اثرو رسوخ اورطاقت کی حامل بھی ہوگی۔۔۔اور اس کے ساتھ ہی مشرق وسطیٰ اور افریقہ کو بھی اپنے اثرو رسوخ کے طابع کردے گی۔ یوریشیا کے اتنے وسیع خطے میں جس طرح سے بھی طاقت کی تقسیم ہو گی تو اس کا فیصلہ کُن اثر امریکہ کی عالمی بالادستی اور اس کی تاریخی روایت پر بھی پڑے گا"۔(زےبیگنیو بریسینسکی، "یوریشیا کے لیے سٹریٹیجی"،فارن افئیرز، ستمبر/اکتوبر1997)
"امریکہ کا یہ لازمی ہدف ہے کہ یوریشیا کے خطے میں کسی بھی اہم اور بڑی طاقت کو قائم ہونے سے روکا جائے۔ اس مقصد کو وہ اس طرح سے حاصل کرے گا- ان مداخلتوں کا مقصد کبھی بھی یہ نہیں تھا کہ کچھ حاصل کرنا ہے ۔چاہے سیاسی طور پر کچھ بھی کہا جاتا رہےلیکن ان مداخلتوں کا مقصد کسی ہونے والی چیز کو روکنا ہے۔ امریکہ ان خطوں میں استحکام نہیں چاہتا جہاں ایک اور طاقت پیدا ہونے کا امکان موجود ہو۔ اس کا مقصد استحکام کا قیام نہیں بلکہ عدم استحکام کا قیام ہے اور اس سے اس بات کی وضاحت ہوجاتی ہے کہ امریکہ نے اسلامی زلزلے کا سامنا کس طرح سے کیا ہے۔ وہ ایک بڑی اور طاقتور اسلامی ریاست کے قیام کو روکنا چاہتا ہے۔ اگر نعرے بازی کو ایک طرف رکھ دیا جائے تو یوریشیا میں امن کا قیام امریکہ کا کوئی اہم ہدف یا مفاد نہیں ہے۔ اس کے علاوہ امریکہ کو اس بات سے بھی کوئی سروکار نہیں کہ وہ جنگ جیت جائے۔۔۔۔ان تنازعات کا مقصد صرف ایک طاقت کو ابھرنے سے روکنا یا خطے کو عدم استحکام کا شکار کرنا ہے ناکہ وہاں پر نظم و ضبط کو قائم کرنا"۔(جارج فرائڈمین،"اگلے سو سال-اکیسوی صدی کے لیے پیش گوئی"،2009)
ان اہداف کے حوالے سے ریپبلیکن اور ڈیموکریٹ میں کوئی اختلاف موجود نہیں ہے۔ لہذا دنیا کے اس خطے کے حوالے سے خارجہ پالیسی کے معاملات میں بش اور اوبامہ کے درمیان کوئی مقابلے بازی نہیں ہے۔ان دونوں جماعتوں کے درمیان جو بھی اختلاف ہوتے ہیں وہ آپریشنل سطح کے ہوتے ہیں ،مثلاً کیسے افغانستان پر امریکی قبضے کو قانونی بنایا جائے اور وہاں پر کسی حد تک استحکام کو قائم کیا جائے تا کہ اس کے بعد کے تضویراتی (سٹریٹیجک )اہداف کوحاصل کیا جاسکے۔آپریشنل سطح کے اختلافات ہی ہمیشہ بش اور اوبامہ کی حکومتوں کے درمیان رہے اور اب خود اوبامہ انتظامیہ میں بھی ہیں۔ لہذا آپریشنل حکمت عملی کئی بار تبدیل کی جاچکی ہے لیکن اوبامہ انتظامیہ کے دور میں کئی بار کی تبدیلیوں کے باوجود ،امریکہ کی حکمت عملی چار اہداف کو حاصل کرنے پر ٹہر گئی ہے اور وہ یہ ہیں:
1۔ افغان حکومت کی استعداد میں اضافہ کرنا تا کہ وہ ملک میں اپنی رِٹ قائم کرسکے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ افغان سیکیوریٹی فورسز، پولیس اور فوج کو تیار کیا جائے، وفادار اور قابل گورنر لگائے جائیں اور افغان حکومت میں بدعنوانی کو ممکن حد تک کم کیا جائے۔
2۔ القائدہ اورپشتونوں میں موجود ان جہادیوں کو جو امریکی قبضے کے خلاف ہیں ،تباہ و برباد کردیا جائے۔
3۔ اعتدال پسند طالبان کو میدان جنگ چھوڑنے اور مرکزی افغان حکومت میں شمولیت کے لیے رضا مند کیا جائے۔
4۔ افغانستان کے مسئلے کے امریکہ کے تجویز کردہ حل میں نیٹو، پاکستان،ایران،بھارت،روس،چین اور دوسرے ممالک کو بھی شامل کیا جائے یعنی کہ ایک طرح کے بین الاقوامی طرز کے طریقہ کار کو افغانستان کو درپیش چیلینجز کا سامنا کرنے کے لیے استعمال کیا جائے۔
اس بات میں کوئی شک و شبہ نہیں کہ امریکہ کو اپنے آپریشنل اہداف کو حاصل کرنے میں بہت مشکلات درپیش ہیں اور اسی وجہ سے اوبامہ اور اس کے اتحادی اس بات کا بہت شدید ادراک رکھتے ہے کہ افغانستان کی جنگ کو جیتنا اب ممکن نہیں یعنی استحکام پیدا نہیں کیا جاسکتا جو کہ آپریشنل اہداف میں سے ایک ہدف تھا۔
وہ وجوہات جن کی بنا پر امریکہ کو افغانستان میں اپنی صورتحال کا جائزہ لینا پڑا
ایسی کئی وجوہات ہیں جن کی بنا پر امریکہ کو اپنی صورتحال کا دوبارہ جائزہ لینا پڑا:
اندرونی وجوہات
٭ 2008میں لی مین برادرز کے ڈوبنے کے بعد عالمی مالیاتی نظام شدید دباؤ میں آگیا اور تقریباً تباہ ہی ہوگیا تھا۔ اس بحران نے امریکہ اور یورپ کی معیشتوں کو اس قابل ہی نہیں چھوڑا کہ وہ مزید جنگوں اور دوسرے ممالک میں مداخلت کے اخراجات کو برداشت کرسکیں۔
٭ افغانستان اور عراق میں ہونے والی جنگوں نے امریکہ کی فوجی طاقت میں موجود تھکاوٹ کو واضع کردیا۔ اگر آسان لفظوں میں اس کو بیان کیا جائے تو وہ یہ ہے کہ امریکہ کے افواج اس قدر وسیع علاقے میں پھیل چکی ہیں کہ اب وہ مزید بیرون ملک فوجی میشنز کو پورا کرنے سے قاصر ہے۔ واشنگٹن اس وقت شدید دباؤ کا شکار ہے کہ وہ بیرون ملک موجود افواج کی تعداد میں مناسب حد تک کمی کرے۔
٭2003 میں عراق میں مداخلت کے وقت سے امریکہ وہ سپر پاور نہیں رہا جو وہ کبھی ہوا کرتا تھا ۔ دنیا کے کئی خطوں میں مسلسل دنیا کی اہم طاقتیں جیسے روس، برطانیہ اور فرانس اس کے خلاف دباؤ بڑھا رہی ہیں ۔ایشیا پیسیفک میں امریکہ چین کی بڑھتی ہوئی طاقت سے شدید پریشان ہےاور واشنگٹن یہ سمجھتا ہے کہ اگر اس نے بیجنگ کو کھلا چھوڑ دیا تو وہ اس خطے میں اس کی بالادستی کو چیلنج کرے گا۔ 2006 میں نیشنل انٹیلی جنس کونسل کے سابق نائب چیرمین گراہم فولر نے امریکہ کے دشمنوں کی جانب سے اسے درپیش چیلنجز کو یوں بیان کیا کہ:
"پچھلے چند سالوں میں کئی ممالک نے مختلف طریقوں سے بش کے ایجنڈے کو کمزور، تبدیل، محدود، تاخیر یا روکنے کے لیے ہزاروں زخم لگائیں ہیں۔ یہ مخالفین مختلف وجوہات اور بعض دفعہ محدود فائدوں کے حصول کے لیےاکٹھے ہوئے لیکن ان کے اتحاد کی وجہ جس کی متعلق عموماً خاموشی اختیار کی جاتی ہے وہ یہ ہے کہ کسی بھی طرح طاقت کے ایک مرکز کی حامل دنیا کا خاتمہ کیا جائے"۔("سٹریٹیجک تھکاوٹ"، نیشنل انٹرسٹ،2006)
اس کے ساتھ ہی پچھلے ایک سال یا اس سے زائد عرصے کے دوران بین الاقوامی وجوہات نے بھی دو معاملات میں امریکی خارجہ پالیسی پر گہرے اثرات چھوڑے ہیں:
ا۔امریکہ 2001 سے افغانستان کی جنگ میں 550بلین ڈالر خرچ کرچکا ہے۔ اس کے علاوہ مسلسل دفاعی بجٹ میں کی جانے والی کمی نےامریکہ کے لیے مختلف محاذوں پر ایک ساتھ جنگ لڑنے کی صلاحیت میں شدید کمی پیدا کردی ہے۔ جنوری 2012 میں نیو یارک ٹائمز نے ایک مضمون اس وقت کے امریکی وزیر دفاع پنیٹا کے لیے لکھا جس میں فوجی بجٹ میں کمی کے طریقہ کار پر مشورے دیے گئے تھے۔ اس مضمون میں لکھا تھا کہ :
"مالیاتی مشکلات کی وجہ سے اہداف میں آنے والی تبدیلی اور پچھلی گرمیوں میں امریکہ کو دیوالیہ ہونے سے بچانے کے لیے ہونے والے معاہدے کی وجہ سے ،اس بات کی توقع کی جاری ہے کہ جناب پنیٹا یہ بات واضع کردیں گے کہ پینٹاگون اب ایک ساتھ دو جنگیں نہیں لڑسکتا۔ بلکہ اس کی جگہ وہ یہ کہیں گے کہ فوج اس قدر ہی بڑی ہے کہ ایک وقت میں ایک اہم اور بڑی جنگ لڑ سکتی اور جیت سکتی ہےجبکہ اسی دوران دنیا کے کسی دوسرے حصے میں ایک اور دشمن کے عزائم کو کئی چھوٹے چھوٹے آپریشنز کر کے ناکام کرسکتی ہے جیسا کہ نو فلائی زون کو قائم کرنا یا تباہ حال لوگوں کو مدد پہچاناوغیرہ"۔
لہذا امریکہ نے، جو کبھی ایک ساتھ دو جنگیں لڑنے کی صلاحیت رکھتا تھا، بل آخر اِس بات کا اعتراف کرلیا کہ وہ اب ایک وقت میں صرف ایک ہی جنگ لڑسکتا ہے۔
ب۔ تو اب امریکہ اس بات پر مجبور ہو چکا ہے کہ وہ اس بات کا تعین کرے کہ دو میں سے کون سی ایک جنگ اسے لڑنی ہے۔ امریکہ کو اس وقت کئی چیلینجز کا سامنا ہے اور اس کے ساتھ ساتھ اسے عراق اور افغانستان کی جنگوں کے معاملات بھی دیکھنے ہیں اور ایشیا پیسیفک میں چین کے خلاف جنگ لڑنے کےساتھ ساتھ مشرق وسطی میں بھی لڑنے کے لیے خود کو تیار کرنا ہے۔ بار حال یہ چین کی ڈرامائی طاقت کا کمال ہے جو امریکہ کے پالیسی سازوں کے لیے اس وقت سب سے زیادہ پریشانی کا باعث ہے۔ مارچ 2012میں کانگریس کے تحقیقاتی ادارے نے ایک رپورٹ امریکی کانگریس کے لیے تیار کی جس کا عنوان تھا "پیسیفک کی جانب توجہ؟ اوبامہ انتظامیہ کی ایشیا میں ترتیب کو درست کرنا"۔ اس رپورٹ میں واضع طور پر کہا گیا ہے کہ:
"اس 'توجہ' کے پیچھے یہ یقین ہے کہ امریکہ کی خارجہ پالیسی ، قومی سلامتی اور معاشی مفادات کا ہدف تبدیل اور ایشیا کی جانب منتقل ہورہا ہے لہذا امریکہ کی ترجیحات اور مفادات کا اسر نو تعین کیا جاناضروری ہو گیا ہے۔ کئی ماہرین کے مطابق یہ لازمی ہے کہ امریکہ ایشیا پیسیفک کو زیادہ اہمیت دے۔ یقیناً کئی سالوں سے خطے میں موجود کئی ممالک نے امریکہ کو اس بات پر مجبور کیا ہے کہ وہ چین کے بڑھتے ہوئے اثرو رسوخ کو محدود کرنے کے لیے اقدامات اٹھائے"۔
افغانستان اور عراق میں امریکی افواج میں کمی اور اس کی بحری اور زمینی افواج کی ایشیاپیسیفک میں پیشقدمی یہ ظاہر کرتی ہے کہ امریکہ چین کی بڑھتی ہوئی طاقت کو انتہائی سنجیدگی سے دیکھ رہا ہے اور اگر ضروری ہوا تو واشنگٹن فوجی محاذ آرائی کے لیے بھی تیار ہے۔ اسی کو اوبامہ کی ایشیا کی جانب توجہ کہا جاتا ہے جس کے تحت یورپ اور مشرق وسطی سے امریکی اثاثوں کو مشرقی ایشیا میں منتقل کیا جارہا ہے۔
علاقائی وجوہات
افغانستان میں دیر پا استحکام کے قیام میں تین علاقائی چیزوں نے امریکہ کے لیے اس معاملے کو پیچیدہ بنادیاہے۔
٭افغانستان میں امریکی قبضے کوبرقرار رکھنے کے لیے نیٹو نے ایک حد سے آگے جانے سے انکار کیا ہے جس کی قیادت یورپ کررہا ہے۔ 2003 میں جب افغانستان میں نیٹو نے بین الاقوامی سیکیوریٹی فورس کے پردے میں اپنا آپریشن شروع کیا تو اس وقت سے ہی کچھ یورپی ممالک نے اپنے افواج کو افغانستان بھیجنے میں زیادہ دلچسپی نہیں دیکھائی ہے۔ بیلجیم، اٹلی،فرانس اور جرمنی نے ہمیشہ ایسے بہانوں کو اختیار کیا ہے جن کی بنا پر ان کی افواج افغانستان کے نسبتاً پر امن علاقوں میں تعینات رہی ہیں۔ اسی طرح کئی نیٹو کیاجلاس اس مسئلے کو حل کرنے میں ناکام رہے ہیں اور امریکہ کے لیے اب یہ مشکل ہو چکا ہے کہ وہ اپنی تبدیل شدہ ترجیحات کے ساتھ افغانستان کے بوجھ کو بھی تنے تنہا ہی اٹھائے۔ 2012 میں شکاگو میں ہونے والی نیٹو سربراہی کانفرنس میں نیٹو ممالک نے بل آخر یہ تسلیم کرلیا کہ وہ افغانستان میں اپنے مشن کو ختم کردیں۔ کانفرنس کے اعلامیے میں کہا گیا کہ :
"دس سال کی جنگ کے بعد اور عالمی معیشت کے کمزور ہونے کی وجہ سے ، مغربی ممالک اب اس جنگ پر مزید خرچ نہیں کرنا چاہتے چاہے اس کا تعلق پیسے سے ہو یا جانوں سے۔ ان کی کوششوں کی قیمت ایک ایسے ملک میں لاحاصل ہے جس نے صدیوں تک بیرونی طاقتوں کے خلاف شدید مزاحمت کی ہے"۔
٭امریکہ مزید پاکستانی افواج کو قبائلی علاقوں میں فوجی آپریشنز کرنے کے لیے حرکت میں لانے سے قاصر رہا ہے خصوصاً شمالی وزیرستان میں۔ اور یہ اس صورتحال میں ہوا ہے جبکہ اس کے ایجنٹ زرداری اور کیانی اور وہ لوگ جو سیاسی میدان میں موجود ہیں، نے اپنے آقاؤں کے احکامات کو پورا کرنے کی سر توڑ کوشش کی۔
٭افغانستان میں امریکہ کی کامیابی کو مشکل بنانے میں بھارت نے بھی ایک کردار ادا کیا جو برطانیہ کے زیر اثر ہے۔ بھارت نے یہ ہدف اس طرح حاصل کیا کہ امریکہ کی مسلسل گزارشات کے باوجود،اس نے پاکستان اور بھارت کے سرحد پر کشیدگی میں خاطر خوا کمی نہیں ہونے دی۔ لہذا پاکستان پھر اس قابل ہی نہیں ہو سکا کہ وہ مزید افواج کو افغانستان کی سرحد پر منتقل کرے اور مزاحمت کے خاتمے میں امریکہ کو مزید مدد فراہم کرسکے۔
اندرونی وجوہات
امریکی صدر اوبامہ اور امریکی فوجی قیادت کے درمیان افغانستان میں امریکی افواج کی تعداد اور ان کے انخلاء کے حوالے سے منصوبہ بندی میں اختلافات جنرل میک کرسٹل کی برطرفی اور امریکی و نیٹو افواج کے حوصلوں میں پستی کا باعث بنی۔ اس کے علاوہ پشتون مزاحمت نے امریکہ کے مسائل میں مزید اضافہ کردیا۔ امریکی جنرل جیمز کونوے ،جو کہ امریکی میرینز کے سربراہ بھی ہیں، نے انخلاء کی تاریخ کے حوالے سے اپنے تحفظات کا اظہار کیا۔ اس نے کہا کہ :
"ہم سمجھتے ہیں کہ اس کے نتیجے میں (یعنی انخلاء کی تاریخ کا اعلان)دشمن کو فائدہ پہنچے گا۔ ہم نے ایک پیغام پکڑا تھا جس میں کہا گیا تھا 'ہمیں صرف کچھ عرصے کے لیے انتظار کرنا ہے'،۔۔۔۔میں ایمانداری سے یہ سمجھتا ہوں کہ ابھی ہمیں مزید کچھ عرصہ وہاں رہنے کی ضرورت ہے کہ جس کے بعد صورتحال اس قدر بہتر ہوجائے گی کہ ہم وہاں سے انخلاء کرسکیں"۔(امریکی جنرل:افغانستان میں انخلاء کی تاریخ دینا' دشمن کو فائدہ پہنچانے کے مترادف ہے'،بی۔بی۔سی نیوز لائن، 24اگست2010)
امریکی فوجیوں کے طرز عمل نے بہت جلد انھیں افغان معاشرے میں نا صرف انتہائی غیر مقبول بنادیابلکہ قابض فوجوں کے خلاف مزاحمت میں بھی زبردست شدت پیدا ہوگی۔ ان فوجیوں کے ذلیل طرز عمل میں قرآن کی بے حرمتی، مردہ مجاہدین کی لاشوں پر پیشاب کرنا، عورتوں اور بچوں کا قتل عام ، پشتون علاقوں میں آپریشنز کے لیے تاجک لوگوں کو استعمال کرنا اور بدعنوان اہلکاروں کی پشت پناہی کرنا شامل ہیں۔
لہذا ہم یہ کہہ سکتے ہیں بین الاقوامی، علاقائی اور اندرونی وجوہات نے امریکہ کو اپنی آپریشنل ترجیحات کو چھوڑنے اور طالبان سے براہ راست مزاکرات کرنے پر مجبور کردیا تا کہ ایک باعزت انخلاء کو ممکن بنایا جاسکے۔ لیکن اس کا قطعاً یہ مطلب نہیں ہے کہ امریکہ یوریشیا سے متعلق اپنے تضویراتی(سٹریٹیجک) اہداف سے دست بردار بھی ہوگیا ہے۔ وہ مستقبل میں بھی افغانستان کو اڈہ بنا کر خطے میں کاروائیاں جارے رکھے گا۔
لیکن انشاء اللہ خلافت کا قیام جلد ہی امریکہ کی خواہشات پر پانی پھیر دے گا اور افغانستان اور مسلم علاقے امریکہ کے لیے ایک بھولی بسری کہانی ہی رہ جائے گی۔

 

Read more...

لبرل ازم ( آزاد خیالی)ایک جھوٹ اور دھوکہ ہے جو ایک انسان کو دوسرے انسان کا غلام بنادیتا ہے

تحریر: ابن نصرۃ
لبرل ازم کے بنیادی تصورات سترویں صدی سے لے کر انیسویں صدی کے درمیان برطانیہ میں نمودار ہوئے اور نشونما پائے۔ ان صدیوں میں لبرل ازم کے تصورات اپنے مخالفوں کے خلاف اپنے مفادات کے تحفظ کے لیے استعمال کیے جاتے تھے۔ لوکی نے لبرل تصورات کو بادشاہت کے خلاف برطانوی تاجروں کی اشرافیہ کی حمائت میں استعمال کیا؛ اور افادیت(Utilitarian) کے نظریات کے حامل فلاسفروں نے لبرل ازم کو برطانوی سرمایہ داروں کی حمائت میں جاگیر داروں کے خلاف استعمال کیا۔اسی دوران انتہاء پسند فرانسیسی انقلابیوں نے خفیہ برطانوی حمائت سے لبرل ازم کو اپنی ریاست اور یورپ کی دوسری ریاستوں کو غیر مستحکم کرنے کے لیے استعمال کیا۔ اس کے علاوہ امریکی سرمایہ داروں کے ایک گروہ نے اس تصور کو برطانیہ میں ایک گروہ کے خلاف استعمال کیا ۔ لبرل ازم کو بین الاقوامی سطح پر عثمانی خلافت کے خلاف استعمال کیا گیا اور اس کے خاتمے کے بعد اس تصور کو نئی دشمن آئیڈیالوجیز (نظریہ حیات) فاشزم اور کمیونزم کے خلاف استعمال کیا گیا۔ بل آخر اکیسویں صدی میں ایک بار پھر لبرل ازم کو اسلامی آئیڈیا لوجی کو اُبھرنے سے روکنے کے لیے استعمال کیا جارہا ہے ۔ لہذا مخلص مسلمانوں کے لیے ضروری ہے کہ وہ لبرل ازم کے فلسفے کو جانیں اور مغرب کے ایک نظریاتی ہتھیار کے طور پر اس کا فہم حاصل کریں ۔
لبرل ازم آزادی کے تصور کی ترجمانی کرتا ہے(یہ لاطینی لفظ لیبر جس کا مطلب آزاد ہے سے نکلا ہے)، جو کہ ایک بہت ہی پُرکشش نعرہ ہے خصوصاً ان لوگوں کے لیے جن کا استحصال کیا جارہا ہو لیکن اس کا اصل مطلب عام زبان میں استعمال ہونے والے معنی سے مختلف ہے۔ لبرل کے عام معنی آزادی کے ہی ہیں یعنی کسی مخصوص روکاوٹ سے نجات حاصل کرنا جیسا کہ غلامی سے آزادی یا فوجی قبضے سے آزادی وغیرہ۔ لیکن سیاسی لحاظ سے آزادی کے معنی جیسا کہ لبرل ازم نے واضع کیا ہے وہ یہ ہے کہ انسان کو اس بات کی آزادی حاصل ہو کہ وہ جو چاہے عمل اختیار کرسکے۔ لہذا سیاسی معنوں میں آزادی کا مطلب یہ تصور بن گیا کہ انسان خودمختار(اقتدار اعلیٰ) ہے۔
یہ ضروری ہے کہ آزادی کے عام معنوں سے ہٹ کر انسان کے خودمختار بننے کے تصور اور اس کے نتائج کو سمجھا جائے۔ انسان کی خودمختاری کا مطلب یہ ہے کہ انسان دنیا کی زندگی میں اپنے لیے راہ کا تعین خود کرے، اسے اس بات کی اجازت نہیں کہ وہ کسی اور طاقت اور اقتدار اعلیٰ کے سامنے جھک جائے چاہے وہ ایسا اپنی مرضی سے ہی کیوں نہ کرے۔ مثال کے طور پر اگر ایک شخص آزادنہ طور پر بادشاہت کے زیر سایہ رہنے کا فیصلہ کرتا ہے تو اس نے اپنے اقتدار اعلیٰ(خود مختاری) سے دست برداری اختیار کرلی اور اس طرح اُس نے لبرل ازم کے تحت آزادی کے معنی کے الٹ راہ اختیار کی۔ انسان کا خودمختار (مقتدر) ہونا ہی وہ آزادی کا مقبول عام تصور ہے جو کہ مغربی تہذیب اور زندگی کے پیشتر نظاموں کی بنیاد ہے خصوصاً اس کے لبرل جمہوری حکومتی نظام اور اس سے نکلنے والے سرمایہ دارانہ معاشی نظام کی۔
آزادی کا مطلب طاقتور کے ہاتھوں انسان کی غلامی ہے
لبرل ازم آزادی کا مسحورکُن لیکن دھوکے پر مبنی تصور ہے ،جو طاقتوروں کے ہاتھ میں ایک انتہائی مہلک ہتھیار ہے۔ حقیقت میں ایک واحد انسان یا فرد روزمرہ زندگی میں پیش آنے والے تمام مسائل کو حل کرنے کی صلاحیت ہی نہیں رکھتا؛ لہذا بل آخر یہی ہوتا ہے کہ وہ دوسروں کے تجویز کردہ حل کو ہی اختیار کرتا ہے۔ لبرل معاشروں میں طاقتور لوگ مسائل کے اُن جوابات کی ترویج کرتے ہیں جو ان کے مفادات کو پورا کرنے کا باعث بنتے ہوں چاہے اس سے ایک عام شہری کا حق ہی کیوں نہ مارا جارہا ہو۔ سرمایہ دارانہ معیشت کاروباری اشرافیہ کے مفادات کا تحفظ کرتی ہے اور "نمائندہ " جمہوریت سیاسی اشرافیہ کے مفادات کا تحفظ کرتی ہے۔ لبرل ازم کے تحت حاصل آزادی دراصل ایک عام آدمی کی طاقتوروں کے ہاتھوں غلامی ہے۔
حقیقت میں انسان اس بات کی صلاحیت ہی نہیں رکھتا کہ وہ اپنی ذات میں خود اپنے آپ پر مقتدرہو۔ اقتدار اعلیٰ صرف اُسی کے لیے ہے جس نے انسان کو پیدا کیا اور صرف وہی ہے جو یہ جانتا کہ اُس نے انسان کو کیوں پیدا کیا اور صرف اُسی کے پاس انسان کی فطرت کے متعلق مکمل علم ہے۔ اپنے لیے غلط طریقے سے اقتدار اعلیٰ کا منصب حاصل کر کےاپنیخدائیکااعلانکردیاہے اور اس حق کو چھین لیا جو صرف اور صرف اُس ذات کے لیے مخصوص ہے جس نے اُسے پیدا کیا ہے ۔
انسان نے خود کو پیدا نہیں کیا بلکہ اسے پیدا کیا گیا ، انسان خود سے اپنی زندگی کا مقصد نہیں جانتا اورنہ ہی انسان کے پاس اپنی فطرت سے متعلق مکمل اور صحیح علم موجود ہے۔ انسان اس قابل ہی نہیں کے خود اپنے آپ پر مقتدر ہو بالکل ویسے ہی جیسے کوئی بھی دوسری پیدا کی گئی یا بنائی گئی چیز خود پر مقتدر نہیں ہوتی یعنی وہ یہ نہیں جان سکتیں کہ انھیں کیوں بنایا گیا ہے۔ یہاں تک کہ خدا کا انکار کرنے والے بھی یہ دعویٰ نہیں کرتے کہ انھوں نے خود اپنے آپ کو تخلیق کیا ہے، لہذا انسان کے لیے مقتدر ہونے کا دعویٰ کرنا ایک بہت بڑی غلطی ہے۔ جس طرح انسان نے یہ دیکھا کہ اسے پیدا کیا گیا ویسے ہی اُسے اِس بات کی جستجو کرنی چاہیے کہ کس نے اُسے پیدا کیا ہے تا کہ وہ اپنے پیدا کرنے والے کی عظمت کا معترف ہوسکے کیونکہ وہی اصل مقتدر ہے۔
لبرل ازم مذہب کا دشمن ہے
عیسائیت کے زیر سایہ ہزار برس سے بھی زائد عرصے تک رہنے کے بعد مغرب نے مذہب کو زندگی سے جدا کردیا اور لبرل ازم کو نئی تہذیب کی بنیاد کے طور پر اختیار کرلیا۔ لبرل ازم نے عیسائی دنیا کو یہ سوچ دے کر دھوکہ دیا کہ مذہبی آزادی کے تصور کے تحت وہ اپنے مذہب پر جس طرح چاہیں عمل کرسکتے ہیں۔ لیکن حقیقت میں لبرل ازم مذہب کا مخالف تصور ہے جو تمام مذاہب کا دشمن ہے۔ ایسا اس لیے ہے کیونکہ مذہب اپنی فطرت میں انسان کو اپنے سامنے جھکنے کا حکم دیتا ہے۔ کوئی بھی مذہب انسان کو مقتدر قرار نہیں دیتا اور اس بات کی اجازت نہیں دیتا کہ وہ اپنی مرضی اور خواہشات کے مطابق عمل اختیار کرے۔ مذہب انسان کو ایک مخصوص نظم و ضبط کا پابند کرتا ہے چاہے وہ نظم و ضبط اس کی پوری زندگی کا احاطہ کرتا ہو یا صرف اخلاقی اور روحانی مسائل تک محدود ہو۔
لبرل ازم براہ راست مذہب سے ٹکراتا ہے کیونکہ لبرل ازم انسان سے اس بات کا تقاضع کرتا ہے کو وہ خود کو صرف اور صرف لبرل تصور کا پابند بنائے ۔ لبرل ازم اللہ سبحانہ و تعالی کی جگہ انسان کو رب بنا دیتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ فرانس کا نقاب کو مسترد کرنا لبرل ازم کے عین مطابق ہے۔ نقاب اس بات کا مظہر ہوتا ہے کہ انسان نے خود کو اپنے رب کی خواہش کا پابند کردیا ہے اور یہ چیز پورے لبرل مغربی دنیا میں نفرت کی نگاہ سے دیکھی جاتی ہے چاہے ان تمام ممالک نے اس کو غیر قانونی قرار نہیں دیا ہے۔ ایک حقیقی لبرل انسان مذہب کا پابند نہیں ہوسکتا ۔ ایک لبرل انسان مذہب کی کچھ باتوں پر عمل یا اجتناب اختیارکرسکتا ہے لیکن ایسا وہ اپنی مرضی اور خواہش کے تحت ہی کرتا ہے۔
لبرل انسان اپنے رب کی نہیں بلکہ خود اپنی پرستش کرتا ہے۔ یہ اس مقتدر کی پرستش ہے جسے اُس نے خود اپنے لیے چُنا ہے کہ اُس نے کس طرح سے سوچنا ہے اور اپنی خوشی کے مطابق عمل کرنا ہے۔ اگر وہ اپنے رب کی عبادت بھی کرتا ہے تو اس لیے نہیں کہ وہ خود کو اس بات کا پابند سمجھتا ہے بلکہ وہ ایسا اس لیے کرتا ہے کہ وہ اس کی خواہش رکھتا ہے۔ لبرل انسان اس بات میں خوشی محسوس کرتا ہے جب وہ کسیمسلمان کو نماز پڑھنے کے ساتھ ساتھ شراب پیتا ہوا بھی دیکھتا ہے۔ لبرل اس طرح کے مسلمان کو "اعتدال پسند" سمجھتا ہے، جس سے اُس کی مراد یہ ہوتی ہے کہ وہ مذہب میں اپنی خواہشات کی پیروی کرتا ہے۔ ایک حقیقی لبرل انسان اس شخص سے شدید نفرت کرتا ہے جو خود کو اپنے رب کے سامنے مکمل طور جھکا دیتا ہے۔
آزادی نہیں ذمہ داری
آزادی کے اس تصور نے جس چیزکو سب سے زیادہ نقصان پہنچایا ہے وہ انسان کا ذاتی احساس ذمہ داری کا تصور ہے۔ انسان کو تخلیق کرنے والے رب نے اُس کو اپنی تمام تر تخلیقات سے برتر قرار دیا ہے کیونکہ رب نے اُسے سوچنے سمجھنے کی صلاحیت سے نوازا ہے جس کے ذریعے وہ صراط مستقیم اور بدی کی راہ کے درمیان تفریق اور کسی ایک کا چُناؤ کرسکتا ہے۔ اسلام میں ہر بالغ، عاقل فرد ہر اس معاملے میں ذمہ دار اور قابل احتساب تصور کیا جاتا ہےجس کو اس کے لیے لازمی قرار دیا گیا ہو(فقہ کی اصطلاح میں انسان "مکلف"ہے)۔ لہذا اس پر لازم ہے کہ وہ اس ذمہ داری کو اٹھائے جو اس پر ڈالی گئی ہے نہ کہ وہ یہ کہے کہ میں آزاد ہوں چاہوں تو اپنی ذمہ داری ادا کروں چاہوں تو نہ کروں۔ انسان پر یہ ذمہ داری ہے کہ وہ ان دو راستوں میں سے کسی ایک کا انتخاب کرے اور وہ اپنے اس فیصلے پر قیامت کے دن جوابدہ ہوگا۔
ذمہ داری اور احتساب ، آزادی سے ایک بالکل مختلف شے ہے۔ آزادی تباہ کُن، باغیانہ اور مفاد پرستی کا تصور ہے جو انسان کو اپنی خواہشات اور مفاد کے تحت چلنے کی تعلیم دیتا ہے چاہے یہ اس کے لیے یا کسی دوسرے کے لیے کتنا ہی نقصان کا باعث ہی کیوں نہ ہو۔ ذمہ داری اس بات کا تقاضع کرتی ہے کہ انسان اس بات سے باخبر ہو کہ اس کے اٹھائے جانے والے قدم کا اس کے لیے اور دوسروں کے لیے کیا نتیجہ نکلے گا۔ ہر عاقل و بالغ شخص اس قابل ہوتا ہے کہ وہ روز مرہ کی زندگی میں اپنے اعمال پر ذمہ دار ہو سکے کیونکہ وہ اس قابل ہوتا ہے کہ یہ جان سکے کہ اس کے اٹھائے ہوئے قدم کا اس کے لیے اور دوسروں کے لیے کیا نتیجہ برآمد ہوگا۔ یقیناً تمام مذاہب انسان کو اس دنیا کی زندگی میں اپنے اعمال کا ذمہ دار قرار دیتے ہیں۔ کوئی بھی مذہب انسان کو آزادی فراہم نہیں کرتا ۔
لبرل ازام ایک جھوٹا فلسفہ ہے جس نے کئی نسلوں کو دھوکہ دیا اورعملاً طاقتور کو اقتدار اعلیٰ دے کر دنیا میں جبر اور استحصال کا ماحول پیدا اور عام کیا۔ یہ تصور پہلے ہی عیسائی اور اسلامی تہذیبوں کو تباہ کرنے کے لیے استعمال کیا جاچکا ہے جنھوں نے دنیا پر ہزار سال سے بھی زائد عرصے تک اپنی بالادستی برقرار رکھی تھی۔ اب اس تصور کو اسلام کو دوبارہ ایک بالادست قوت بننے سے روکنے کے لیے استعمال کیا جارہا ہے۔ لبرل ازم اپنی بنیاد سے ہی غلط ہے۔ لبرل ازم کے فلسفے میں کی جانے والی تبدیلیاں اس کی غلطی اور جھوٹ کو تبدیل نہیں کرسکتیں۔ لبرل ازم کو مکمل طور پر مسترد کرنا ضروری ہے جس میں مسائل پر سوچنے اور ان کے حل تک پہنچنے کا طریقہ کار بھی شامل ہے جو کہ اس غلط تصور پر قائم ہے۔ مغربی تہذیب کو لازماً ختم کردینا چاہیے اور اس کی جگہ مذہب کی بنیاد پر ایک نئی تہذیب کو کھڑا کرنا چاہیے تا کہ انسان دوسرے انسانوں کی غلامی اور پرستش سے آزادی حاصل کرکے صرف اور صرف اپنے رب کی ہی عبادت کرسکے۔

Read more...

کل جماعتی کانفرنس افغانستان میں امریکی قبضے کو جاری رکھنے اور امریکی جنگ کو ہماری جنگ قرار دینے کے لیے منعقد کی گئی

تحریر: شہزاد شیخ
(پاکستان میں حزب التحریر کے ڈپٹی ترجمان)
تاریخ:20ستمبر2013

خبر:

9 ستمبر 2013 کو حکومت پاکستان نے اسلام آباد میں کل جماعتی کانفرنس منعقد کی۔ اس کانفرنس میں صرف سیاسی جماعتوں ہی نے شرکت نہیں کی بلکہ افواج پاکستان کی سینئر ترین قیادت، آرمی چیف اشفاق پرویز کیانی اور ڈائریکٹر جنرل آئی۔ایس۔آئی ظہیر الاسلام نے بھی شرکت کی۔ اس کانفرنس کا مقصد پاکستان کو دہشت گردی کے خلاف جنگ سے باہر نکالنے کے لیے کسی مشترکہ لائحہ عمل پر متفق ہونا تھا ۔ کانفرنس میں یہ فیصلہ کیا گیا کہ ملک میں امن کی خاطر حکومت قبائلی عوام کے ساتھ فوجی آپریشنز کی جگہ مذاکرات کا سلسلہ شروع کرے۔

تبصرہ:

جیسے جیسے 2014 قریب تر آتا جارہا ہے ویسے ویسے امریکہ افغانستان سے انخلاء کے نام پر اپنے قبضے کو مستقل رکھنے کے لیے طالبان کے ساتھ کسی دیر پا معاہدے کے لیے کی جانے والی کوششوں میں تیزی لاتا جارہا ہے۔ اس مقصد کے حصول کے لیے امریکہ نے طالبان کو قطر میں اپنا دفتر قائم کرنے کی اجازت دی اور پاکستان کی سیاسی و فوجی قیادت میں موجود غداروں کو حکم دیا کہ وہ طالبان قیدیوں کو رہا کریں۔ 9 ستمبر کو ہونے والی کل جماعتی کانفرنس بھی اسی امریکی ہدف کے حصول کو یقینی بنانے کے لیے منعقد کی گئی۔اس کانفرنس میں حکومت کو یہ کہا گیا کہ وہ قبائلی لوگوں کے ساتھ مذاکرات کا راستہ اختیار کرے۔ لیکن اس کے ساتھ ہی اس کانفرنس نے اس امریکی جنگ کو یہ کہہ کر اپنا قرار دے دیا کہ "دہشگردی کےخلاف جنگ کےطریقہ کاراوروسائل کافیصلہ خودکرینگے"۔ تو اب اگر طالبان امریکی شرائط کے مطابق افغانستان سے محدود انخلاء کے منصوبے کو قبول نہیں کریں گے تو پاکستان فوری طور پر طالبان کے خلاف "ڈنڈا " اٹھا سکتے ہیں۔
یہ بات انتہائی قابل افسوس ہے کہ وہ جماعتیں جو دن رات اس امریکی جنگ سے پاکستان کو نکالنے کا مطالبہ کرتی رہتی ہیں انھوں نے بھی اس کانفرنس کے اعلامیہ پر دستخط کردیے۔ انھوں نے سیاسی و فوجی قیادت میں موجود غداروں کی جانب سے اختیار کیے جانے والے اس موقف کی بھی تائید کردی ہے کہ یہ انخلاء پاکستان کی کامیابی ہے۔ حقیقت یہ ہے امریکی صدر اوبامہ سمیت کئی امریکی عہدیدار اس بات کا اظہار ایک سے زائد بار کرچکے ہیں کہ 2014 کے بعد بھی افغانستان میں امریکی افواج درجنوں کی تعداد میں نہیں بلکہ ہزاروں کی تعداد میں موجود رہیں گی ۔ ان ہزاروں امریکی افواج کے مستقل قیام کے لیے امریکہ افغانستان میں 9 فوجی اڈے قائم کرنا چاہتا ہے۔ امریکہ یہ بات بھی کئی موقعوں پر واضع کرچکا ہے کہ مذاکرات کی کامیابی کے لیے یہ ضروری ہے کہ امریکہ کی نگرانی میں بنائے گئے افغانستان کے آئین کو لازماً قبول کیا جائے۔ ان تمام باتوں سے بڑھ کر اوبامہ اورکرزئی 2مئی2012 کو ایک سٹریٹیجک معاہدے پر دستخط کرچکے ہیں جس کے تحت 2014 کے بعد بھی امریکہ کو افغانستان میں سیکیورٹی کے امور کے علاوہ بھی کام کرنے کی اجازت ہو گی۔
یہ صورتحال کس طرح پاکستان کی کامیابی ہوسکتی ہے؟ وہ ملک جو اپنے "کالے بجٹ" کا بڑا حصہ اپنے اعلانیہ دشمنوں ایران اور شمالی کوریا کے خلاف خرچ نہیں کررہا بلکہ پاکستان اور اس کے ایٹمی اثاثوں کی جاسوسی پر خرچ کررہا ہے ،اسے پاکستان کی دہلیز،افغانستان میں مستقل قیام کی اجازت دے دی جائے گی۔ اس کے علاوہ پاکستان کا ازلی دشمن بھارت افغانستان میں امریکی موجودگی کا فائدہ اٹھاتے ہوئے پاکستان کے خلاف سازشوں کے سلسلے کوجاری رکھ سکے گا۔ یقیناً ہندو ریاست نے پاکستان کے خلاف سازشیں کرنے کے لیے افغان سرحد کے ساتھ قونصلیٹس کے پردے میں سینکڑوں اڈے قائم کررکھے ہیں ۔ تو پھر کس طرح پاکستان کی دہلیز پر ہزاروں امریکی افواج کی موجودگی پاکستان کی کامیابی ہوسکتی ہے؟
یہ بات ثابت ہوچکی ہے کہ آمریت اور جمہوریت دونوں ہی امریکی مفادات کا تحفظ کرتی ہیں اور جو بھی جماعتیں ان دونوں میں سے کسی میں بھی شرکت کرتی ہیں کبھی بھی امریکی مطالبات اور احکامات سے روگردانی کرنے کی جراءت نہیں کرسکتیں۔ پاکستان میں صرف خلافت کا قیام ہی خطے سے امریکی راج کا خاتمہ کرسکتا ہے۔ خلافت امریکی سفارت خانہ، قونصلیٹس، اڈوں اور نیٹو سپلائی لائن کو بند اور اس کے سفارتی و فوجی اہلکاروں کو ملک بدر کردے گی۔ اور اگر اس کے بعد بھی امریکہ نے اس خطے میں رہنے کی کوشش کی تو خلافت افواج اور مخلص مجاہدین کی مشترکہ طاقت کے ساتھ اس کے خلاف جہاد کا اعلان کردے گی۔

Read more...

مصر میں امریکہ ہی درحقیقت شکست کھا گیا

''واشگنٹن نے اپنے مفادات کے لیے مصر کو امداد دے کر یہ سوچ لیا تھا کہ وہ معملات کو قابو کرنے میں کامیاب ہو جائے گا جیسا کہ جیسا کہ ایک لمبے عرصے اس نے ایسا کیا ،مگر عنقریب مصر کے حوالے سے امریکی موقف تبدیل ہو جائے گا اور اس کا کردار محدود ہو گا،،-Steven A Cook. صدرمرسی کو ہٹانے کے بعد تین اہم مسائل پر بڑے پیمانے پر بحث کی گئی جو کہ یہ ہیں:
۔ انقلاب امریکی اشیر باد اور جنرل السیسی کے تقرر سے رونما ہو۔
۔ مرسی حکومت کے دوران سیاسی اسلام فیل ہو گیا،جس کا مطلب ہے کہ پورے خطے میں ایسا ہوا۔
۔ مرسی کے بعد تمرد(نافرمانی)کی تحریک اورعام اپوزیشن کوئی واضح تصور دینے میں ناکام ہوگئی،یہ غلط فہمی بھی کہ مبارک حکومت کے باقیات الاخوان اور حزب اختلاف سے بہتر ثابت ہوسکتے ہیں،تاہم ایک اور موجوع جس کا کوئی ذکر نہیں کیا گیا وہ ہے مصر میں امریکی بالادستی کا زوال ہے۔
1956 م میں جمال عبد الناصر کے مصر کی سیاسی زندگی میں ظہور کے ساتھ ہی مشرق وسطی میں امریکی پالیسی عروج حاصل ہو ا اور یہ بڑھتا گیا ،امریکہ پہلی بار مصر کے اثر ورسوخ کو عرب دنیا میں ان ممالک میں گھسنے اوراپنی سیاسی بالادستی قائم کرنے کے لیے دروازے کے طور پر استعمال کیا جو اس کے اثر ورسوخ سے باہر اور بر طانیہ کے زیر اثر تھے،یوں خطے کا سیاسی منظر نامہ بدل گیا اور مصر کے اندر اور اس سے باہر امریکہ کے اثر ونفوذ میں روز افزوں اضافہ ہوگیا،مصر پر امریکہ کا پنجہ عبد الناصر کی ہلاکت کے بعد بھی ڈھیلا نہیں ہوا بلکہ صدر السادات کے دور میں بھی بدستور اس کی بالادستی قائم رہی اور اس کے بعد حقیقی عبد الناصر امریکی مفادات کے مخلص محافظ (حسنی مبارک)زمانے میں بھی یہی حال رہا،صورت حال 2011 م جوں کا توں رہی یہاں تک کہ مبارک کے خلاف بڑے پیمانے پر احتجاجات شروع ہوگئے جن سے مصر میں امریکی بالادستی لڑکھڑانے لگی،امریکہ کے پاس عام لوگوں کی سیاسی بیداری اور اسلام کی حکمرانی کے لیے ان کے جوش اور ولولہ کے مقابلے کے لیے سوائے اس کے کوئی آپشن باقی نہ رہا کہ مصر میں سیاسی منظر نامے میں ترجیح تکمیل پر نظر ثانی کی جائے اور بلا آخر اخوان المسلمین کے ساتھ اپنے مفادات کی حفاظت اور امریکی بالادستی کو استحکام دینے کے بدلے سودابازی پر مجبور ہوا،یوں مرسی اور الاخوان کو مبارک کی پرانی حکومت کے باقیات کے ساتھ یکجا کر کے ایک نیا سیاسی میڈیم وجود میں لایا گیا جس پر فوج کی نظر رہے گی۔جوں ہی امریکہ نے اپنے سامنے سے روکاوٹیں ہٹادی اس کو اظمئنان ہو گیا،مطمئن کیسے نہ ہو سوئیس کنال حسب دستور کام کررہا ہو،اسرائیل کی حفاظت برقرار ہو،مصر کو غزہ سے ملانے والے سرنگوں کو معلوم ہو تے ہی منہد م کیا جارہا ہو،حماس مکمل طور پر قابو میں ہو،مرسی نئی لبرل اقتصادی پالیسی کو نافذ کرنے میں مصروف ہو!
لیکن ہوائیں امریکہ کے خوہشات کے مخالف سمت چلنے لگیں،امریکہ اور اس کا مدد گار مرسی خطے میں سیاسی استحکام کو برقرار رکھنے میں ناکام ہو گئے،امریکہ کی جانب سے مرسی کی حد سے زیاد حمایت نے مصر کے رائے عامہ کو ان کے خلاف کر دیا،مرسی مخالف جذبات سے سب سے پہلے اپوزیشن نے فائدہ اٹھا یا اور مصر کے سیکیولر باشندوں اور مسلمانوں کی ایک بڑی اکثریت کے قلوب واذہان پر ایک مختصر مدت کے لیے چھا گیا،یہی وہ طبقہ ہے جس نے صرف ایک سال قبل حزب الحریہ والعدالہ( Party Freedom and Justice)اور مرسی کو مصر کے سیاسی منظر نامے میں نمایاں کیا تھا اب اس کے خلاف ہو گیا اور اس کو برطرف کرنے کا مطالبہ کیا۔
امریکہ نے عوام کے اندر مرسی کی مقبولیت میں کمی کو محسوس کیا اور چند مہینے پہلے فوج کے ذریعے اس کے تختے کو الٹنے کا منصوبہ بنا یا،اپوزشن کو مکمل سول نافرمانی کے لیے تیار کیا گیا آخرکار فوج انقلاب کے ذریعے مرسی کو برطرف کیا گیا،امریکہ نے یہ اعتراف کرنے سے انکار کردیا کہ یہ فوجی انقلاب تھا،یوں امریکہ پھر مربع کے نمبر ایک پہ پہنچ گیا اور مبارک کی ظالم حکومت کے باقیات سے بغلگیر ہو گیا،اب امریکہ یہ باور کرانے کی سرتوڑ کوشش کر رہا ہے کہ جو کچھ ہو یہ انقلاب نہیں!
آج امریکہ کو مصری عوام کے غصے کا سامنا ہے،عالمی رائے عامہ کو جاننے کے لیے پیو سنٹر کے سروے کے مطابق مئی 2013 میں مصریوں کی صرف 16٪ نے امریکہ کے بارے میں مثبت رائے کا اظہار کیا(آج اس بات کا اندازہ لگانا کسی کے لیے مشکل نہیں کہ مثبت رائے رکھنے والوں کی تعداد کتنی ہو سکتی ہے)،ناصری سیاست دانوں نے اپنا اعتبار کھودیا،الاخوان کے حمایتی غصے میں ہیں،وہ وقت بھی دور نہیں کہ فوج بھی عوام کی نظروں سے گر جائے گی۔
اگر امریکہ کسی بھی طریقے سے مبارک کے باقیات اور نئے ناتجربہ کارٹکنوکریٹ جیسے البرادعی کی مدد سے حکومت تشکیل دینے میں کامیاب بھی ہو گیا تو ہم یہ سوال کر سکتے ہیں کہ :''مصر کا مستقبل کیا ہو گا؟!،،کسی دور جانے کی ضرورت نہیں ان حکومتو کو دیکھنے کی ضرورت ہے جو امریکہ نے افغانستان،عراق،لبنان اور پاکستان میں تشکیل دی،سیدھی بات یہ ہے کہ امریکہ ان ممالک میں فیل ہو چکا ہے،امریکہ بڑے پیمانے پر اس کے خلاف پیدا ہونے والے جذبات کے سامنے بہت کمزور ہوچکا ہے،دوسرے ملکوں جیسے لیبیا،شام اور صومال میں بھی اس کی پوزیشن اچھی نہیں۔
زیادہ امکان اسی کا ہے کہ مصر کا تجربہ بھی امریکی پالیسی کی ناکامیوں میں ایک اضافہ ہو گا، مصر کی صورت حال ناگفتہ بہ ہے،زیادہ امکان اس بات کا ہے کہ ملک میں افراتفری بڑھے گی،مختصرا اب امریکہ پہلے کی طرح عظیم طاقت نہیں رہا،اب وہ بڑی تیزی سے عالم اسلام میں اپنی بالادستی اور اعتبار کھو رہا ہے،ممکن ہے کہ مصر ہی امریکہ کی کمر توڑنے کا سبب بن جائے،بہت سے تجزیہ نگار امریکہ کے ساک میں برق رفتار گراوٹ کا عندیہ دے رہے ہیں، انگریزی رسالہSpectator Magazine کہا ہے کہ:"امریکی بالادستی اب اس حد تک زوال کا شکار ہے کہ اوباما نے زیادہ تر عالمی چودھراہٹ سے دستبردار ہو گیا ہے،،وقت ہی اس بات کی سچائی کو ثابت کرے گا۔

عابد مصطفی

Read more...

لائن آف کنٹرول پر بھارتی جارحیت کے خلاف سیاسی و فوجی قیادت میں موجود غداروں کا ردعمل انتہائی شرمناک ہے تحریر: شہزاد شیخ (پاکستان میں حزب التحریر کے ڈپٹی ترجمان) تاریخ:16 اگست 2013

خبر: پاکستان اور بھارت میں اچانک کشیدگی میں اس وقت اضافہ ہوگیا جب بھارتی حکومت نے یہ دعویٰ کیا کہ 6 اگست کو پاکستان کے فوجیوں نے جموں میں لائن آف کنٹرول پر واقع پونچھ سیکٹر میں سارلہ چیک پوسٹ پر حملہ کر کے پانچ بھارتی فوجیوں کو قتل کردیا ہے۔ حکومت پاکستان نے اس قسم کی مداخلت کے واقع سے مکمل انکار کیا ہے۔ اس واقع کے بعد نہ صرف لائن آف کنٹرول پر،جو کہ پاکستان اور بھارت کے درمیان مقبوضہ کشمیر میں سیئز فائر لائن ہے، بلکہ بین الالقوامی سرحد پر بھی کشیدگی میں اضافہ ہوگیا۔ بھارتی حکومت نے پہلے سے طے شدہ سیکریٹریز کی سطح کے مذاکرات کی منسوخی کا اعلان کردیا بلکہ اب یہ افواہیں بھی سرگرم ہیں کہ بھارتی وزیر اعظم منموہن سنگھ اور پاکستان کے وزیر اعظم نواز شریف کے درمیان نیویارک میں اقوامی متحدہ کی جنرل اسمبلی کے سالانہ اجلاس کے موقع پر ہونے والی ملاقات بھی منسوخ ہوجائے گی۔
تبصرہ: 2003 میں مشرف کے دور حکومت میں پاکستان اور بھارت کے درمیان لائن آف کنٹرول پر فائرنگ کے واقعات کے خاتمے کے لیے ایک معاہدہ ہوا تھا۔ لیکن 2013 کی شروعات سے اب تک بھارت کی جانب سے اس معاہدے کی سو سے زائد خلاف ورزیاں کی جاچکی ہیں۔ بھارت کی جانب سے لائن آف کنٹرول اور بین الالقوامی سرحدوں پر کشیدگی میں اضافے، پاکستانی شہریوں اور فوجیوں کی ہلاکتوں کے باوجود ،پاکستان کی سیاسی و فوجی قیادت میں موجود غداروں نے ،جن کی قیادت نواز شریف اور جنرل کیانی کررہے ہیں، انتہائی نرم اور کمزورردعمل کا اظہار کیا ہے۔ جنرل کیانی نے 13اگست2013 کو کاکول ملٹری اکیڈمی میں یوم آزادی کی تقریب سے خطاب میں بھارتی جارحیت پر کسی سخت ردعمل کا اظہار نہیں کیا بلکہ واشنگٹن میں موجود اپنے آقاوں کی مرضی کے مطابق کیانی نے قوم کو یہ باور کرانے کی کوشش کی بھارتی جارحیت کے مقابلے میں اندرونی سیکیوریٹی کے مسائل اس وقت قومی سلامتی کے لیے سب سے بڑا خطرہ ہیں۔ اسی طرح نواز شریف نے بھی کمزوری کا مظاہرہ کرتے ہوئے ایک بار پھر بھارت کو مذاکرات کی پیش کش کی اور ماضی کو بھول جانے کا درس دیا۔
سیاسی و فوجی قیادت میں موجود غدار مشرف کے وقت سے ہی قوم کو یہ باور کرانے کی کوشش کررہے ہیں کہ پاکستان کی معاشی ترقی کے لیے بھارت کے سامنے گھٹنے ٹیک دینے چاہیے چاہے اس کے لیے مقبوضہ کشمیر سے بھارتی قبضے کے خاتمے اور بھارت بھر میں مسلمانوں کے ساتھ ہونے والے انتہائی برے سلوک کے خاتمے کے مطالبے سے ہی کیوں نہ دست بردار ہونا پڑے۔لہذا یہ غدار حکمران بھارت سے تعلقات کو مضبوط بنا رہے ہیں ،اسے "پسندیدہ ترین ملک" قرار دینے کی کوشش کررہے ہیں اور اس کے ساتھ ساتھ بھارت سے ایک ہزار میگاواٹ سے زائد بجلی خریدنے کی بھی کوشش کررہے ہیں۔
در اصل ان غداروں کا یہ رویہ اور طرز عمل عین امریکی پالیسی کے مطابق ہے۔ امریکہ پاکستان کو ایک چارے کے طور پر استعمال کر کے بھارت کو اپنے حلقہ اثر میں لانا چاہتا ہے تا کہ وہ چین کو اس کی سرحدوں تک محدود رکھنے کے لیے بھارت کو اس کے خلاف استعمال کرسکے ۔ بھارت اس وقت اس امریکی منصوبے کے مطابق کردار ادا نہیں کرسکتا جب تک اس کے پاکستان کے ساتھ تعلقات معمول کے مطابق نہ ہوجائیں۔ اس کے ساتھ ساتھ امریکہ پاکستان کو بھارت پر انحصار کرنے والا ملک بنا دینا چاہتا ہے تا کہ جب خلافت قائم ہو تو وہ کمزور ہو۔
ایک طاقتور مسلمان ملک کے حکمرانوں کا یہ ردعمل انتہائی شرمناک ہے کہ جس کی آبادی اٹھارہ کروڑ ہو اور جس کے پاس دنیا کے ساتویں بڑی فوج بھی موجود ہو۔ اگر بولیویا، ایکواڈور اور وینیزویلا جیسے ممالک، جونہ صرف انتہائی کمزور ہیں بلکہ امریکہ کے پڑوسی بھی ہیں، امریکی احکامات کو نظرانداز کردیتے ہیں اور جب چاہتے ہیں امریکی سفارت کاروں ملک بدر بھی کردیتے ہیں تو پھر دنیا کے واحد مسلم ایٹمی طاقت پاکستان امریکی احکامات کو مسترد اور بھارتی جارحیت کا منہ توڑ جواب کیوں نہیں دے سکتا؟ ایک عزت دار اور باوقار ردعمل پیش کرنے کے بجائے سیاسی و فوجی قیادت میں موجود غدار امریکی پالیسیوں کے نفاذ اور ملکی خودمختاری کی تذلیل کے لیے کسی بھی حد تک گرنے کے لیے تیار رہتے ہیں۔
صرف خلافت ہی پاکستان کو اس کمزور اور رسوا کن صورتحال سے نکالے گی اور اس کو وہ مقام دلائے گی جس کا یہ اپنی صلاحیت اور طاقت کی بنا پر حقدار ہے۔

Read more...
Subscribe to this RSS feed

دیگر ویب سائٹس

مغرب

سائٹ سیکشنز

مسلم ممالک

مسلم ممالک