الأربعاء، 16 صَفر 1446| 2024/08/21
Saat: (M.M.T)
Menu
القائمة الرئيسية
القائمة الرئيسية

المكتب الإعــلامي
ازبکستان

ہجری تاریخ    27 من شوال 1445هـ شمارہ نمبر: 12 / 1445
عیسوی تاریخ     پیر, 06 مئی 2024 م

پریس ریلیز

وسطی ایشیا تک مغرب کا اجتماعی ’’مارچ‘‘: اب برطانیہ کی باری ہے!

 (عربی سے ترجمہ)

 

کروکس(Crocus) کے واقعے کے بعد روس کے اندر اسلامو فوبیا اور وسطی ایشیا کے لوگوں پر دباؤ میں اضافہ ہوا ہے۔ اس کے بعد سے مغربی ممالک کے حکام کی طرف سے خطے میں دوروں اور رابطوں میں تیزی دیکھی گئی۔ ایسا لگتا ہے کہ روس کی پالیسی کو، جو روس میں وسطی ایشیا سے آنے والے تارکین وطن پر دباؤ بڑھا کر وسط ایشیائی ممالک کی حکومتوں کو ایک اور دھمکی آمیز پیغام بھیجتی ہے، مغرب نے ایک موقع کے طور پر دیکھا ہے۔ حالیہ مہینوں میں، روسی حکومت اور اس کے حامیوں نے قازقستان اور ازبکستان کے ساتھ گستاخی اور تکبر کے ساتھ بات کی ہے، یہاں تک کہ ان دونوں ممالک کو روس کے ساتھ الحاق کرنے کی تجویز بھی پیش کی ہے۔ یہ کہنا مبالغہ آرائی نہیں ہے کہ کروکس کے واقعے نے ظاہر کیا ہےکہ حالیہ برسوں میں روسی خطرہ اپنے عروج پر پہنچ گیا ہے۔ لہٰذا، جہاں یہ کشیدگی بڑھی ہے، وہیں وسط ایشیائی حکومتوں کے ساتھ مغربی ممالک کے تعلقات میں بھی نمایاں اضافہ ہوا ہے۔

 

مثال کے طور پر مارچ 2024 کے آخر میں امریکی سینیٹرز کے ایک وفد نے وسطی ایشیائی ممالک بالخصوص ازبکستان کا دورہ کیا اور ازبک صدر اور متعدد عہدیداروں سے ملاقاتیں کیں۔ اس سال اپریل کے وسط میں، نیٹو کا ایک وفد ازبکستان پہنچا، اور اس کے ساتھ ہی بھارت، جسے امریکہ کی پشت پناہی حاصل ہے، نے بھی ایک وفد بھیجا جس کی سربراہی ایک اعلیٰ فوجی افسر کر رہا تھا۔ تاہم بین الاقوامی سیاست میں ایک ممتاز سیاست دان سمجھے جانے والے برطانوی سیکرٹری خارجہ، ڈیوڈ کیمرون کی وسطی ایشیا کے ممالک میں آمد، خطے پر نئی مغربی یلغار کی سب سے نمایاں مثال تھی۔ اپنی آمد سے قبل اُس نے اِس دورے کے بارے میں بتایا کہ وسط ایشیائی ممالک کے ساتھ تعاون کی تین صورتیں بڑی اہمیت کی حامل ہیں جو کہ عالمی تنظیم، اقتصادی تعاون اور تعلیم ہیں۔ ان الفاظ کی تصدیق کرتے ہوئے، کیمرون نے مزید کہا کہ چیوننگ(Chevening) اسکالرشپس کے لیے فنڈنگ، جو برطانوی یونیورسٹیوں میں غیر ملکیوں کے مطالعہ میں معاونت کرتی ہیں، کو دوگنا کیا جائے گا۔ اُس نے متنبہ کیا کہ وسطی ایشیا سب سے بڑے چیلنجوں کے مرکز میں ہے، اور کہا کہ اگلے تین سال میں اس (وسطی ایشیا)کی "محنت سے کمائی گئی خودمختاری" کی حمایت کے لیے50 ملین پونڈ مختص کیے جائیں گے۔

 

واضح رہے کہ 1997ء کے بعد سے ازبکستان کا یہ دورہ کسی برطانوی وزیر خارجہ کا پہلا دورہ ہے۔ازبکستان کے دورے کے دوران کیمرون نے وزیر خارجہ بختیور سیدوف(Bakhtiyor Saidov) اور سپریم کونسل کی سینٹ کی چیئرمین تنزیلہ ناربایوا (Tanzila Narbaeva)سے ملاقاتیں کیں۔ برطانوی سفارت خانے کے بیان کے مطابق، ازبکستان اور برطانیہ نے علاقائی اور بین الاقوامی مواصلات اور بنیادی ڈھانچے کے شعبوں میں تعاون کے حوالے سے ایک مفاہمت کی یادداشت پر دستخط کیے، جس میں جامع شراکت داری کا اعلامیہ بھی شامل ہے، جس میں انسداد دہشت گردی، دفاع، موسمیاتی تبدیلی اور انسانی حقوق کے شعبوں میں تعاون کو وسعت دینا شامل ہے۔کیمرون نے صحافیوں کے سوالوں کا جواب دیتے ہوئے یہ کہتے ہوئے بھی زور دیا، "میں یہاں جو کہنے آیا ہوں وہ یہ ہے کہ ہم آپ سے ان شراکت داروں اور برطانیہ جیسے ملک میں سے کسی ایک کا انتخاب کرنے کو نہیں کہہ رہے ہیں..." تاہم، میڈیا رپورٹس کے مطابق، اپنے دورۂ منگولیا کے دوران ، اُس نے کہا کہ اُس کے وسط ایشیا کے دورے کا بنیادی ہدف خطے کے ممالک کے لیے یہ موقع فراہم کرنا تھا کہ وہ انتخاب کریں ۔ یہ واقعی ظاہر کرتا ہے کہ برطانیہ کتنا منافق اور ہوس پرست ہے۔

 

مزید یہ کہ کیمرون، جنہوں نے خطے کے تمام صدور سے ملاقات کی تھی، ذاتی طور پر ازبکستان کے صدر مرزییوئیف(Mirziyoyev) سے ملاقات نہیں کر سکا۔ یہ اطلاع ملی ہے کہ مرزییوئیف اس کی آمد سے ایک دن قبل ہی 22 اپریل سے دفتر سے تعطیلات پر تھا۔ برطانیہ جیسے بڑے ملک کے اعلیٰ عہدے دار سے ملاقات نہ کرنا ایک انہونی سی صورتحال ہے، جبکہ مرزییوئیف خود ایک حریص طلب شخصیت کا مالک ہے، اور اس نے ایسا ظاہر کیا جیسے اسے برطانوی عہدیدار سے ملنے کی کوئی زیادہ خواہش نہیں ہے۔لیکن ایسا معلوم ہوتا ہے کہ جو بات حقیقت کے قریب ترین ہے وہ یہ ہےکہ مرزییوئیف کایہ عمل اُس کا اپنا فیصلہ نہیں تھا، بلکہ "روسی بھائی" کو دوبارہ ناراض کرنے سے بچنے کے لیے یہ ایک سیاسی چال ہے، کیونکہ اس سے قبل نیٹو وفد کے دورۂ ازبکستان نے روس کو مشتعل کر دیا تھا۔

 

ایک اور دلچسپ صورتحال یوں پیش آئی کیونکہ یہ واضح ہو گیا کہ ازبکستان برطانیہ کے لئے خطے کا ایک اہم ملک ہے۔ منگولیا کا دورہ مکمل کرنے کے بعد، کیمرون 27 اپریل کو پھر ازبکستان واپس آئے اور اس کے سیکرٹری خارجہ سے ملاقات کی۔ اگرچہ اس رویے کی کوئی وضاحت نہیں کی گئی تھی، لیکن بہرحال یہ اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ اس کا مقصد یہ ظاہر کرنا تھا کہ ازبکستان برطانیہ کے لئے خاص اہمیت کا حامل ہے اور ایک بار پھر یہ ظاہر کرنا تھا کہ روسی خطرے کے پیش نظر برطانیہ ہمیشہ مدد فراہم کرنے کے لئے تیار ہے۔

 

کیمرون کے دورے کو امریکہ کی قیادت میں پورے مغرب کی عمومی پالیسی کے حصے کے طور پر دیکھا جا سکتا ہے، جس کا مقصد وسطی ایشیا میں روس اور چین کے اثر و رسوخ کو کم کرنا ہے۔ لیکن برطانیہ کے بھی اپنے مفادات ہیں جنہیں حاصل کرنے کے لئے وہ امریکہ یا فرانس کی پیٹھ میں چھرا گھونپنے سے بھی نہیں ہچکچائے گا۔ اگرچہ یہ کافر استعماری ممالک ایک ہی صف میں کھڑےنظر آتے ہیں لیکن درحقیقت یہ ایک دوسرے کےدوست نہیں بلکہ سخت دشمن ہیں۔ یہ وہ شیطانی ممالک ہیں جو اپنے دلوں میں بغض  ونفرت رکھتے ہیں۔

 

خاص طور پر برطانیہ ہمارے بدترین دشمنوں میں سے ایک ہے کیونکہ اس نے مسلمانوں کے دلوں میں ایک ایسا گہرا گھاؤ لگایا جس سے اب تک خون بہہ رہا ہے۔ یہ برطانیہ ہی تھا جس نے عثمانی خلافت (خلافت عثمانیہ) کو منہدم کرنے میں بنیادی کردار ادا کیا، جو مسلمانوں اور ان کی جان، مال اور آبرو کی محافظ تھی۔ یہ برطانیہ ہی تھا جس نے  فلسطین میں ملعون یہودی وجود کو قائم کیا تھا۔

 

اگرچہ برطانیہ اب اتنا طاقتور نہیں ہے جتنا کہ دوسری جنگ عظیم سے پہلے تھا، تاہم اس کی شاطرانہ چالبازیاں اب بھی وہی ہیں۔ برطانیہ وسط ایشیاء میں سب سے زیادہ ممکنہ حصہ ہڑپ کرنے اور خاص طور پر ازبکستان میں اپنا اثر و رسوخ پھیلانے کے لئے اپنے اقدامات کو بھی تیز کر رہا ہے۔ خلاصۂ کلام یہ ہےکہ یہ لالچی سرمایہ دارانہ ریاست ایک طفیلی جاندار ہے جو کمزور قوموں اور ریاستوں کے جسموں پر جونک کی طرح پلتی ہے اور ان کا خون چوس کر زندگی گزارتی ہے۔ یہ صرف بدن کو زہر دیتی ہے، اسے بیمار اور تھکا دیتی ہے۔ بلاشبہ، ہم سب سے بہتر کام یہ کر سکتے ہیں کہ ہم اپنے آپ کو ہمارا خون چوسنے والے اور ہم پر جمہوریت کے مضر اثرات چھوڑنے والے ان طفیلیوں سے بچائیں اور انہیں اپنے قدموں تلے پھینک کر کچل دیں۔ تاہم یہ کام اس وقت تک مکمل نہیں ہو گا جب تک کہ ہم اپنی عظیم خلافت  کو قائم نہ کر لیں، جسے برطانیہ ایک دن تباہ کرنے میں کامیاب ہو گیا تھا! پھر اس خبیث، مکروہ ریاست کی شاطرانہ چالاکیوں کا اسے کوئی فائدہ نہیں ہوگا، بلکہ اسے شکست کی کڑواہٹ کا مزہ چکھنا پڑے گا۔

 

ازبکستان میں حزب التحرير کا میڈیا آفس

المكتب الإعلامي لحزب التحرير
ازبکستان
خط وکتابت اور رابطہ کرنے کا پتہ
تلفون: 

Leave a comment

Make sure you enter the (*) required information where indicated. HTML code is not allowed.

دیگر ویب سائٹس

مغرب

سائٹ سیکشنز

مسلم ممالک

مسلم ممالک