الخميس، 19 جمادى الأولى 1446| 2024/11/21
Saat: (M.M.T)
Menu
القائمة الرئيسية
القائمة الرئيسية

المكتب الإعــلامي
ولایہ اردن

ہجری تاریخ    22 من شوال 1445هـ شمارہ نمبر: 16 / 1445
عیسوی تاریخ     بدھ, 01 مئی 2024 م

پریس ریلیز

مزدوروں کا عالمی دن مزدوروں کے حقوق چھیننے کا دن ہے!

 سرمایہ دارانہ نظام کی ناانصافیوں اور اسلامی عدل و انصاف کی عدم موجودگی کی یاد دہانی کا دن ہے !
(عربی سے ترجمہ(

 

ہر سال یکم مئی کو دنیا کے تمام ممالک مزدوروں کا عالمی دن مناتے ہیں۔ تاہم، امریکہ ستمبر کے پہلے پیر کو شکاگو میں ہونے والے ہیمارکیٹ (Haymarket) قتل عام کے واقعات کے پس منظر میں اس دن کو مناتا ہے، جس میں11 افراد اس وقت مارے گئے تھے جب کارکن ایک مارچ کے لئے چوک میں جمع ہوئے تھے جو 4 مئی 1886ء کو فسادات پر ختم ہوا تھا۔ لیکن اس کی وجوہات وہی ہیں اور اُن کی ہر سال تجدید ہوتی ہے، یہ مسائل: کام کے اوقات کو کم کرنا، اجرتوں میں اضافہ کرنا، کام کے انسانی حالات کو بہتر بنانا، اور آجروں کی طرف سے مزدوروں کے حقوق کی خلاف ورزی نہ کرنا اور دیگر حقوق اور مسائل جنہیں حاصل کرنے کے لئے مزدور آج بھی جدوجہد کر رہے ہیں۔ یقیناً تمام اسلامی ممالک بھی اس دن کو منانے میں دنیا کی اسی مثال کی پیروی کر رہے ہیں۔ ہر ملک اپنے مفادات کے حصول اور ہر کوئی اپنی کرپشن کی حد کے مطابق مزدوروں کے حقوق کا دفاع کرنا چاہتا ہے۔

 

اردن کی وزیر برائے لیبر (Minister of Labour) نادیہ الروابدہ نے یوم مزدور کے موقع پر اردن کے تمام محنت کشوں کو ان کی مسلسل خدمات کو سراہتے ہوئے مبارکباد پیش کی۔ جبکہ 2023ء کی تیسری سہ ماہی کے مطابق اردن میں بے روزگاری تقریبا 23 فیصد تک پہنچ چکی ہے۔ سابق وزیر برائے لیبر (Minister of Labour) یوسف الشمالی نے تصدیق کی ہے کہ اردن میں تقریبا ساڑھے چار لاکھ افراد بے روزگار ہیں۔ اس دن کو یوم مزدور نہیں بلکہ بے روزگاری کا دن کہنا زیادہ مناسب ہوتا، لیکن یہ ایک کھوکھلا اور بے معنی عمل ہے۔ تمام مسلم ممالک میں بے روزگاری کی ایک جیسی شرح نظر آتی ہے اور غربت اور قرضوں کی شرح جو مجموعی ملکی پیداوار (GDP) کے 114 فیصد سے زیادہ ہے، جو بین الاقوامی مالیاتی فنڈ (IMF) کے پروگراموں کی پالیسیوں کی وجہ سے ان ممالک میں پیدا ہوئی ہے جنہوں نے خود کو نوآبادیاتی پالیسیوں کے سامنے گروی رکھ دیا ہے، جو کامیاب منصوبوں کی نجکاری کے ساتھ وسائل کو کم کرتے ہیں، جس سے قرضوں میں اضافہ ہوتا ہے اور بے روزگاری میں اضافہ ہوتا ہے۔

 

جہاں تک کام کرنے والوں کے لئے کام کے حالات کا تعلق ہے تو یہ ایک اور مسئلہ ہے۔ اجرتیں کم ہیں اور کسی شخص کی کھانے پینے اور رہائش کی بنیادی ضروریات کو بمشکل پورا کر پاتی ہیں، نجی شعبے میں حد سے زیادہ ٹیوشن فیس کا ذکر تو نہ ہی کریں، چاہے وہ ان اسکولوں میں ہوں جنہیں لوگ سرکاری شعبے میں تعلیم کے معیار میں گراوٹ کی وجہ سے استعمال کرتے ہیں، یا سرکاری یونیورسٹیوں میں، جہاں مسابقتی میڈیکل ٹیوشن فیس اوسطاً 30،000 دینار ہے۔ براہ راست اور بالواسطہ ٹیکسوں کے علاوہ، افراط زر، اور توانائی، خوراک اور ادویات کی بلند قیمتیں۔ اس کے علاوہ آجر اجرتوں اور کام کے اوقات کو کنٹرول کرتے ہیں، جسے مزدور نوکری سے نکالے جانے کے خوف سے ظاہر نہیں کرتے ہیں۔

 

مسلم ممالک میں موجودہ حکومتوں کی طرف سے سیکولر سرمایہ دارانہ نظام کو اپنانا اور اسلامی معاشی نظام کو ترک کرنا مغربی نوآبادیاتی ممالک کے ساتھ ان کی سیاسی غلامی کے علاوہ معیشت کی بدحالی اور زوال کی بنیاد ہے۔ مغرب آج بھی تمام معاملات میں سرمایہ دارانہ نظام کے ظلم و جبر کا شکار ہے۔ چاہے ان کا تعلق مزدوروں سے ہو یا لوگوں کے معاملات کی دیکھ بھال سے ہو جو ایک کے بعد ایک بحران کا سامنا کرتے ہیں، جیسے متعدد اور تجدید شدہ بھتہ خوری، اور قیمتوں میں اتار چڑھاؤ۔ آج بھی سرمایہ دارانہ ممالک کے دارالحکومتوں میں مظاہرے ہو رہے ہیں اور وہی نعرے لگتے ہیں جو 1886ء میں سرمایہ داروں کی ناانصافی اور غیر منصفانہ قوانین کے خلاف لگائے گئے تھے۔ یہ مظاہرے سرمایہ دار آجروں کے کنٹرول سے نجات، اجرتوں میں اضافے اور مزدوروں کے لئے کام کے حالات کو بہتر بنانے کا مطالبہ کرتے ہیں۔ بے روزگاری، منفعت پر مبنی سرمایہ دارانہ نظام کا ناگزیر نتیجہ ہے، کیونکہ یہ نظام زیادہ بچت کرنے اور لاگت کو نیچے لانے کے لئے لیبر فورس کو کم کرنے کے لئے کام کرتا ہے۔ اس نظام سے روزگار فراہم کرنے کی توقع نہیں کی جا سکتی اور نہ ہی اس سے پیدا ہونے والے مسائل کا حل تلاش کرنے کی توقع کی جا سکتی ہے۔

 

اسلام نے کام کو ملکیت کی پہلی وجہ بنایا ہے، لہٰذا ریاستِ خلافت اور اس کی شہریت رکھنے والوں کے درمیان تعلق (جیسا کہ حدیث سے ظاہر ہوتا ہے)؛ ابن عمرؓ نے روایت کیا ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:

«الإِمَامُ رَاعٍ وَهُوَ وَمَسْؤُولٌ عَنْ رَعِيَّتِهِ»

’’امام نگہبان ہے اور اپنی رعایا کا ذمہ دار ہے‘‘ (صحیح بخاری)۔

 

لوگوں کے معاملات کی دیکھ بھال میں سب سے اہم کام یہ ہے کہ وہ لوگ جو کام کرنے کی اہلیت رکھتے ہیں مگر کوئی کام تلاش نہیں کر پاتے، اُن کو کام تلاش کر کے دیا جائے۔ یہ ریاست کی ذمہ داری تھی کہ وہ ہر نوکری تلاش کرنے والے کو کام فراہم کرے۔ بلکہ جو کام وہ کرتا ہے اس کے بدلے اسے مناسب اجرت دینا، اس بات کو یقینی بنانا کہ اس کی بنیادی ضروریات پوری ہوں تاکہ وہ ایک مہذب زندگی گزار سکے۔ اگر اسلامی ریاست اس کے لئے کام تلاش کرنے کی پابند ہے تو اگر وہ غریب ہے یا کام کرنے سے قاصر ہے اور اس کا کوئی رشتہ دار نہیں ہے جو اس کی مدد کرنے کی صلاحیت رکھتا ہو تو اس کی مدد کرنا بھی ریاست پر واجب ہے۔ لہٰذا آپ ﷺ کے قول کے مطابق اس کے اخراجات ریاست پر واجب ہیں:

«مَنْ تَرَكَ مَالاً فَلِوَرَثَتِهِ، وَمَنْ تَرَكَ كَلاًّ فَإِلَيْنَا»

’’جس نے مال چھوڑا ( اپنی موت کے بعد ) وہ اس کے وارثوں کا ہے اور جس نے قرض چھوڑا ہے وہ ہمارے ذمہ ہے‘‘ [متفقہ علیہ]۔۔ لفظ ’’کلاً (سب کچھ) ‘‘ میں قرض اور ماتحت سب شامل ہیں۔

ایک دوسری روایت میں ہے:

 

«مَنْ تَرَكَ مَالاً فَلْيَرِثْهُ عَصَبَتُهُ مَنْ كَانُوا، وَمَنْ تَرَكَ دَيْناً أَوْ ضَيَاعاً فَلْيَأْتِنِي فَأَنَا مَوْلاَهُ »

’’پس جو مومن بھی ( مرنے کے بعد ) ترکہ مال و اسباب چھوڑے اور کوئی ان کا ولی وارث نہ ہو تو (والد کی طرف سے) اس کے عزیز و اقارب، اس کے مال کے وارث ہوں گے، لیکن اگر کسی مومن نے کوئی قرض چھوڑا ہے یا ضرورت مند اولاد چھوڑی ہے تو وہ میرے پاس آ جائیں ان کا ذمہ دار میں ہوں‘‘۔ [متفقہ علیہ]

 

اسی طرح اسلام کم ترین معیار، جس پر انسان زندگی گزار سکتا ہے، کی بنیاد پر اجرتوں کا تعین کرنے کی بالکل بھی اجازت نہیں دیتا، جیسا کہ سرمایہ دارانہ نظام میں رائج ہے۔ بین الاقوامی معیار کے مطابق نام نہاد کم از کم اجرت کی اسلام میں کوئی گنجائش نہیں ہے اور نہ ہی یہ اجرتوں کے تعین کی بنیاد کے طور پر مفید ہے۔ بلکہ جس بنیاد پر اجرتوں کا تعین کیا جانا چاہیے وہ مزدور کی محنت سے حاصل ہونے والا فائدہ ہے۔ اسلام آجروں اور مزدوروں کے درمیان تعلقات میں سرمایہ دارانہ طرز عمل کی بھی ممانعت کرتا ہے، جیسے اجرت کی ادائیگی میں تاخیر کرنا یا اسے روکنا۔

رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:

«أَعْطُوا الْأَجِيرَ أَجْرَهُ قَبْلَ أَنْ يَجِفَّ عَرَقُهُ»

’’مزدور کو اس کی اجرت اس کا پسینہ خشک ہونے سے پہلے دے دو‘‘،

 

اور کام کرنے کے لئے ناقص حالات میں لاپرواہی اور ضروری حفاظتی اقدامات کو نافذ کرنے میں ناکامی، اس کے علاوہ ٹریڈ یونینوں کا وجود بھی ممنوع ہے، جو سرمایہ دارانہ نظام نے اپنی ناانصافی اور مزدوروں کے حقوق سے انکار کو چھپانے کے لیے بنائی ہیں، جو کہ ریاست کی ذمہ داری ہے۔

 

کام کی بات کی جائے تو زمین پر اللہ کے قانون کے نفاذ کے لئے کام کرنے سے بڑھ کر کوئی عظیم کام نہیں ہے اور اسلامی ممالک میں اسلامی زندگی کی بحالی کے لئے کام کرنے سے بڑھ کر کوئی قابل احترام کام نہیں ہے۔ انبیاء اور رسولوں نے اپنی قوم پر اللہ کی شریعت کو نافذ کرنے کے لئے کام کیا، اس کے علاوہ انہوں نے اپنے دنیاوی  معاملات اور روزی کمانے کے لئے بھی کام کیا۔ جب جلد ہی نبوت کے نقشِ قدم پر ریاست خلافت کے زیرِ سایہ اسلام مکمل طور پر نافذ ہو جائے گا تو ان شاء اللہ سماجی اور معاشی حالات کام اور ترقی کے لئے موزوں ہوں گے، استحصال سے پاک ہوں گے، لوگوں پر ناجائز ٹیکسوں سے اور ہر قسم کی بھتہ خوری سے پاک ہوں گے۔ لوگوں کو ضروری صلاحیتوں اور اسلامی اقدار سے آراستہ کیا جائے گا جو ان لوگوں کو کام فراہم کرتی ہیں جو اسے تلاش نہیں کر سکتے ہیں، اور بنیادی ضروریات کی ضمانت دیتے ہیں اور انہیں اپنے عیش و آرام کی ضروریات کو حاصل کرنے کے قابل بناتے ہیں۔ کام کے حالات اور محنت کشوں کے بارے میں  ریاستِ خلافت کا طرز عمل اور نقطہ نظر مثالی اور بصیرت بھرا ہو گا اور سرمایہ دارانہ استحصال کے آقاؤں کی طرف سے کی جانے والی ناانصافی کو روکے گا ۔

ارشادِ باری تعالیٰ ہے،

﴿ لمِثْلِ هَذَا فَلْيَعْمَلِ الْعَامِلُونَ﴾

’’ایسی ہی (نعمتوں) کے لئے عمل کرنے والوں کو عمل کرنے چاہئیں‘‘۔  (سورةالصَافَّات:61)

 

ولایہ اردن میں حزب التحرير کا میڈیا آفس

المكتب الإعلامي لحزب التحرير
ولایہ اردن
خط وکتابت اور رابطہ کرنے کا پتہ
تلفون: 
http://www.hizb-ut-tahrir.info
E-Mail: jordan_mo@hizb-ut-tahrir.info

Leave a comment

Make sure you enter the (*) required information where indicated. HTML code is not allowed.

دیگر ویب سائٹس

مغرب

سائٹ سیکشنز

مسلم ممالک

مسلم ممالک