المكتب الإعــلامي
ولایہ پاکستان
ہجری تاریخ | 3 من ربيع الاول 1439هـ | شمارہ نمبر: PR17077 |
عیسوی تاریخ | منگل, 21 نومبر 2017 م |
جمہوریت کی وجہ سے اسلامی احکامات نشانے پر ہیں
حکومت اپنے مغربی آقاؤں کی خوشنودی کے لیے اپنے لبرل تشخص کو اجاگر کر رہی ہے
اورختم نبوت کے حلف نامےمیں تبدیلی اس مقصد کی جانب پیش قدمی تھی
پاکستان کے وزیر داخلہ احسن اقبال نے پاکستان کے دارلحکومت میں بیٹھے مظاہرین سے اپیل کی کہ وہ اپنا دھرنا ختم کر دیں۔ اس اپیل کے ساتھ ہی انہوں نے یہ وعدہ بھی کیا کہ ایک کمیٹی بنائے جائے گی جو اس الزام کی تحقیق کرے گی کہ آیا انتخابی امیدواروں کے حلف نامے میں ختم نبوت کی شق میں تبدیلی کے پیچھے، جسے اب واپس لے لیا گیا ہے، وفاقی وزیر قانون زاہد حامد کا ہاتھ ہے یا نہیں۔ حکومت اسلام اور مسلمانوں کا دشمن ہونے کے الزام سے خود کو بچانے کی کوشش کر رہی ہے اور اس بات سے شدید خوفزدہ ہے کہ کہیں اس کے متعلق یہ تاثر عام نہ ہو جائے کہ اس کا تعلق بھی اس طبقے سے ہے جو ختم نبوت کے عقیدے کے حوالے سے امت میں ابہام اور شک پیدا کرتا ہے۔ حکومت نے خود کو اور اپنے وزراء کو بچانے کی کوشش میں اسلام آباد اور راولپنڈی کے لوگوں کو انتہائی تکلیف سے دوچار کر دیا ہے اور یہ خبریں بھی ہیں کہ اسپتال نہ پہنچنے کی وجہ سے کچھ لوگ جاں بحق ہو گئے، جبکہ بچے اسکول نہیں پہنچ پا رہے، ملازمت پیشہ حضرات کو اپنے دفاتر پہنچنے میں شدید دشواریوں کا سامنا ہے اور گاڑیوں، بسوں، ویگنوں اور موٹر سائیکلوں پر سفر کرنے والے ہزاروں لوگوں کو گھنٹوں ٹریفک جام میں پھنس کر شدید اذیت کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔
یہ بات بالکل واضح ہے کہ ختم نبوت کے حلف نامے میں تبدیلی “دفتری غلطی” نہیں تھی۔ یہ حکومت کی اپنے مغربی آقاؤں کو خوش کرنے اور لبرل اقدار سے وفاداری ثابت کرنے کی کوشش تھی تاکہ مغرب خصوصاً امریکہ اس کی مسلسل پشت پناہی جاری رکھے جبکہ اگلے سال پاکستان میں انتخابات بھی ہونے والے ہیں۔ یہ کوئی اتفاق نہیں ہے کہ جب ختم نبوت کے حلف نامے میں تبدیلی کی کوشش کی گئی تو اسی دوران حکومت اقوام متحدہ کے انسانی حقوق کونسل کی عالمی جائزہ کے عمل میں شریک تھی۔ حکومت نے اقوام متحدہ کے انسانی حقوق کونسل کو جمع کرائی گئی رپورٹ میں فخر سے 17 ستمبر 2017 کو ان اقدامات کا ذکر کیا ہے جو پاکستان میں لبرل مغربی اقدار کی بنیاد پر انسانی حقوق کی ترویج کے لیے کیے گئے۔ رپورٹ کے ایک حصے میں، جس کا عنوان اقلیتوں کے حقوق ہے، یہ کہا گیا ہے کہ، “۔۔۔مثال کے طور پر، یہ بات قابل ذکر ہے کہ نچلی عدالتوں نے توہین رسالت کے قوانین کے تحت کوئی سزا نہیں سنائی، اعلیٰ عدلیہ نے بھی اس عمل کو برقرار رکھا اور کسی کو بھی ان قوانین کے تحت سزا نہیں دی گئی“۔ جنیوا میں امریکہ کے اقوام متحدہ میں موجود مشن نے پاکستان کی رپورٹ پر تبصرہ کرتے ہوئے 13 نومبر 2017 کو یہ مشورہ دیا کہ، “امریکہ یو پی آر ورکنگ گروپ میں پاکستانی وفد کو خوش آمدید کہتا ہے اور پاکستان کو یہ مشورہ دیتا ہے کہ: 1۔ توہین رسالت کے قوانین واپس لے اور احمدی مسلمانوں کے خلاف ان قوانین کے استعمال کو ختم کرے اور آزادی رائے کے تحفظ اور ترویج کے لیے اقوام متحدہ کے خصوصی رپورٹر کو دورے کی اجازت دے“۔ امریکہ کی جانب سے یہ بیان اس وقت آیا جب پاکستان میں ختم نبوت کا مسئلہ طے شدہ ہے اور وہ جو ختم نبوت سے انکار کرتے ہیں انہیں واضح طور پر غیر مسلم قرار دیا جا چکا ہے اور ان کے لیے مسلم کا لفظ استعمال نہیں کیا جا سکتا۔
اے پاکستان کے مسلمانو!
کیا ختم نبوت کے حلف نامے میں تبدیلی کا مسئلہ آپ پر اس نظریے کی خامی کو بے نقاب نہیں کر دیتا جو انسان کو قانون سازی کا حق دیتا ہے؟ کیا اب یہ بات بالکل صاف شفاف اور واضح نہیں ہو چکی اور جس میں اب کسی شک کی بھی کوئی گنجائش نہیں کہ جمہوریت ایک غیر اسلامی نظام ہے اور اس کا اسلام سے دور پار کا بھی تعلق نہیں ہے؟ جمہوریت اللہ سبحانہ و تعالیٰ کی جگہ انسان کو قانون سازی کا حق دیتی ہے اور کفر قوانین کو جنم دیتی ہے۔ ریاست خلافت کے خاتمے کے بعد کافر استعماریوں نے ہمارے علاقوں میں جمہوریت کو نظام حکومت کے طور پر متعارف کرایا اور یہ جمہوریت ہی ہے جو ہمارے علاقوں میں مغرب کے اثرورسوخ کو قائم اور برقرار رکھنے کو یقینی بناتی ہے اور ہم پر کفر قوانین نافذ کرتی ہے۔
لہٰذا جمہوریت میں مسلمانوں کو ان معاملات کے تحفظ کے لیے بھی مظاہرے اور دھرنے دینے پڑتے ہیں جو بہت ہی مقدس ہیں اور ان کا ہر قیمت پر تحفظ لازم ہے۔ جمہوریت کے برخلاف نظام خلافت میں خلیفہ اسلامی شریعت کو نافذ کرنے کا پابند ہوتا ہے اور اپنی مرضی و منشاء کے مطابق قوانین نہیں بنا سکتا۔ اس سے بھی بڑھ کر خلیفہ دین، اس کے عقیدے اور اس کی حرمات کا محافظ ہوتا ہے۔ آج ہمیں اپنے ہی علاقوں میں اپنی مغرب زدہ اشرافیہ سے اپنے عقیدے کے تحفظ کے لیے تکلیف دہ ذرائع استعمال کرنا پڑتے ہیں جبکہ جب ریاست خلافت قائم تھی تو خلیفہ نہ صرف اسلامی ریاست کی حدود بلکہ اس سے باہر بھی اسلام، مسلمانوں، اس کے عقیدے اور اس کی حرمات کا تحفظ کرتا تھا۔ تو اے بھائیوں! صرف ایک یا دو وزراء یا اس حکومت کی برطرفی کی ہی کوشش نہ کریں بلکہ اس جمہوریت کے خاتمے کے لیے آگے بڑھیں جو اسلام، مسلمانوں، اس کے عقیدے اور اس کی حرمات پر حملہ آور ہوتی ہے۔ بھائیوں! حزب التحریر کے ساتھ اسلام اور مسلمانوں کے محافظ کو نامزد کرنے کی جدوجہد کریں، وہ حکمران جو اسلام کی بنیاد پر حکمرانی کرے گا، جو اسلام کو اپنی زندگی سے بڑھ کر اہمیت دے گا اور اللہ سبحانہ و تعالیٰ اور اس کے رسول ﷺ سے محبت کرے گا۔ اس خلیفہ کو نامزد کرنے کی جدوجہد کریں جس کی محض موجودگی ہی دشمنوں اور ان کے ایجنٹوں کے لیے اس قدر خوف کا باعث ہو گی کہ وہ اسلام اورمسلمانوں کے خلاف سازشیں کرنے کا تصور تک نہ کریں گے۔
رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:
وَإِنَّمَا الْإِمَامُ جُنَّةٌ يُقَاتَلُ مِنْ وَرَائِهِ وَيُتَّقَى بِهِ
“بے شک امام (خلیفہ) ہی ڈھال ہے، جس کے پیچھے رہ کر لڑا جاتا ہے اور اسی کے ذریعے تحفظ حاصل ہوتا ہے” (مسلم)۔
ولایہ پاکستان میں حزب التحریر کا میڈیا آفس
المكتب الإعلامي لحزب التحرير ولایہ پاکستان |
خط وکتابت اور رابطہ کرنے کا پتہ تلفون: https://bit.ly/3hNz70q |
E-Mail: HTmediaPAK@gmail.com |