المكتب الإعــلامي
ولایہ پاکستان
ہجری تاریخ | 27 من رمــضان المبارك 1441هـ | شمارہ نمبر: 59 / 1441 |
عیسوی تاریخ | بدھ, 20 مئی 2020 م |
پاکستان کو سودی قرضوں کی دلدل میں ڈبو کر پی ٹی آئی کی حکومت غریب عوام کی کمر توڑرہی ہے تا کہ مقامی اور غیر ملکی مالیاتی سرمایہ کاروں کے منافع کو یقینی بنایا جاسکے
پچھلی کرپٹ حکومتوں کی طرح پی ٹی آئی کی حکومت بھی پاکستان کو سودی قرضوں کی دلدل میں ڈبو کر ریاست کے خزانے پر غریبوں کے حق کو ختم کررہی ہے۔ مارچ 2020 تک سود کی ادائیگی پر، اس حکومت کی جانب سے، 2442 ارب روپے خرچ کیے جاچکے ہیں جو کہ جون میں 2900 ارب روپے تک پہنچ جائے گا۔ سود کی ادائیگی پر خرچ کی جانے والی یہ رقم 7000 ارب روپے پر محیط بجٹ کا ایک بہت بڑا حصہ ہے جبکہ ریاست کی جانب سے جمع کیے جانے والے محاصل کا آدھے سے بھی زیادہ حصہ ہے۔ایک ایسے وقت میں جبکہ معاشرے کی معاشی صورتحال بہت خراب ہے اتنی بڑی رقم سود کی ادائیگی پر خرچ کرنے کی وجہ سے ریاست لوگوں کے امور کی دیکھ بحال کرنے سے قاصر ہے۔ سود معاشرے میں موجود دولت مندوں کو سودی قرضوں اور سیکیورٹیزمارکیٹ میں سرمایہ لگانےپر راغب کرتا ہے جس کی وجہ سے حقیقی معیشت جیسا کہ زراعت اور صنعت سرمائے سے محروم یا اس کی قلت کا شکار ہو جاتی ہے۔ اس کے علاوہ سودی ادائیگیاں اہم عوامی اور نجی انفراسٹرکچر کے منصوبوں کی تکمیل میں رکاوٹ بن جاتی ہیں کیونکہ اس قسم کے منصوبوں کے لیے بین الاقوامی اور مقامی مالیاتی اداروں سے قرض لیے جاتے ہیں جس کی وجہ سے ان منصوبوں کی لاگت میں اضافہ ہو جاتا ہے۔ اس صورتحال کی سب سے واضح مثال توانائی کے شعبے میں پاکستان کا گردشی قرضہ ہے جس کا ایک نمایاں حصہ سودی قرضوں کی ادائیگی پر مبنی ہے۔
آئی ایم ایف کی نگرانی میں پی ٹی آئی کی حکومت نے پچھلے ایک سال میں پاکستان کو سودی قرضوں کے جال میں مزید پھنسا دیا ہے۔ آئی ایم ایف کے مطالبات کو پورا کرنے کے لیے اسٹیٹ بینک آف پاکستان نے جولائی 2019 میں شرح سود کو 13.25 فیصد پر پہنچا دیا تھا۔ اس قدم کی وجہ سے حکومتی قرضوں جیسا کہ ٹی-بلز پر شرح سود 13.66فیصد تک پہنچ گیا جو کہ اس وقت پوری دنیا میں سب سے زیادہ شرح سود میں سے تھا۔ مقامی اور بین الاقوامی سرمایہ کاروں نے بلند شرح سود سے خوب فائدہ اٹھایا اور پاکستانی ٹیکس دہندگان کی قیمت پر بہت بڑی مقدار میں پیسہ کمایا۔ حکومت کی سودی سیکیورٹیز ،جس کے ذریعے حکومت تجارتی بینکوں سے قرض لیتی ہے، 30 اپریل 2020 کے دن 9.79ٹریلین روپے تک پہنچ گئی تھیں۔ اس کے علاوہ حکومت کی طرف سے اجراء کیے گئے سودی قرضے مالیاتی عدم استحکام کو بڑھانے کا باعث بنتے ہیں کیونکہ سرمایہ کار ان میں سے اس وقت تیزی سے پیسے نکالنا شروع کردیتے ہیں جب انہیں یہ احساس ہو کہ ان کا سرمایہ اتنا محفوظ نہیں رہا یا انہیں کہیں اور مستقل بنیادوں پر زیادہ منافع ملنے کا یقین ہوجائے۔ ایسا ہی کچھ مارچ 2020 کو ہوا جب بین الاقوامی سرمایہ کاروں نے اچانک سودی ٹریژری بلز سے 1.28ارب ڈالر کھینچ لیے کیونکہ انہوں نے دیکھا کہ پاکستان کا ایکسچینج ریٹ دباؤ کا شکار ہورہا ہے۔ جہاں تک مغربی مالیاتی اداروں کے قرض کا تعلق ہے ، جیسا کہ آئی ایم ایف، تو اس میں مزید اضافہ ہوگیا جب آئی ایم ایف کے مطالبے پر پاکستان نے روپے کی قدر میں کمی کی ۔
اس طرح مرکزی حکومت کا جوقرض جون 2018 میں 24212 ارب روپے تھا وہ مارچ 2020 میں بڑھ کر 34135 ارب روپے پر پہنچ گیا ۔ پی ٹی آئی کی حکومت نے شرح سود کو بڑھانے اور روپے کو کمزور کرنے کےآئی ایم ایف کے مطالبات پر آنکھیں بند کر کے عمل کیا۔ آئی ایم ایف سرمایہ داراریت کے ساتھ مکمل طور پر وفادار ہے، جو اس بات کو یقینی بناتا ہے کہ سرمائے پر سود دولت کو اشرافیہ کےچند ہاتھوں میں مقید کرتی رہے جبکہ عوام کی بڑی تعداد اپنی ضروریات کو پورا کرنے کے لیے درکار مالیاتی وسائل سے محروم رہے۔ بنیادی طور پر سرمایہ داریت سودی بینکاری کو تجارت کی ہی ایک شکل سمجھتی ہے اور اس تجارت پر سود کو ایک جائز منافع سمجھتا ہے۔ یقیناً جو سرمایہ داریت کے اصولوں کی بنیاد پر حکمرانی کرتے ہیں وہ کبھی بھی قرض کی دلدل کے مسئلے کو ختم نہیں کریں گے اگرچہ وہ یہ کہتے رہیں کہ وہ غریب کی مشکلات کو ختم کرنا چاہتے ہیں۔
اے پاکستان کے مسلمانو!
اسلام تجارت اور سود پر سرمایہ داریت کے برخلاف ایک منفرد اور واضح موقف رکھتا ہے۔ اللہ سبحانہ و تعالیٰ نے فرمایا،
الَّذِينَ يَأْكُلُونَ الرِّبَا لَا يَقُومُونَ إِلَّا كَمَا يَقُومُ الَّذِي يَتَخَبَّطُهُ الشَّيْطَانُ مِنَ الْمَسِّ ۚذَٰلِكَبِأَنَّهُمْقَالُواإِنَّمَاالْبَيْعُمِثْلُالرِّبَاۗوَأَحَلَّاللَّهُالْبَيْعَوَحَرَّمَ الرِّبَا"جولوگ سود کھاتے ہیں وہ (قبروں سے) اس طرح (حواس باختہ) اٹھیں گے جیسے کسیکو جن نے لپٹ کر دیوانہ بنا دیا ہو یہ اس لئے کہ وہ کہتے ہیں کہ تجارت کرنابھی تو (نفع کے لحاظ سے) ویسا ہی ہے جیسے سود (لینا) حالانکہ تجارت کو اللہنے حلال کیا ہے اور سود کو حرام"(البقرۃ، 2:275)۔
لہٰذا ، خلافت میں سودی بینکوں کا کوئی وجود نہیں ہوگا جو کہ حقیقی معیشت سے وسائل کھینچ لیتے ہیں۔ اسلام نے جو محاصل بتائے ہیں بیت المال انہیں جمع کرتا ہے جیسا کہ تجارتی مال پر زکوۃ اور زرعی زمینوں پر خراج، اور پھر انہیں ان فرائض پر خرچ کرتاہے جس کی ذمہ دارای اسلام نے حکمران پر ڈالی ہے جیسا کہ عوام کو خوراک، لباس، چھت، روزگار، تعلیم اور صحت کی سہولیات فراہم کرنا۔ اس کے علاوہ اسلام ایسی کاغذی کرنسی کو مسترد کرتا ہے جس کی بنیاد سونا اور چاندی نہ ہو۔ اسلام ریاست کی کرنسی کے لیے سونے اور چاندی کے معیار کو اختیار کر کے مانیٹری پالیسی کو سرمایہ کاری کے متعلق فیصلوں سے الگ کردیتا ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ معیشت میں کرنسی کی سپلائی کو کنٹرول کرنے کے لیے سود کو ایک پالیسی آلہ کار کے طور پر استعمال کرنے کی ضرورت ہی نہیں رہتی کیونکہ کرنسی کی سپلائی کا تعلق ریاست کے پاس موجود حقیقی سونے اور چاندی کے ذخائر سے ہوتا ہے۔
نبوت کے نقش قدم پر قائم خلافت ہی پاکستا ن کو قرضوں کے جال سے نکالے گی۔ خلافت سود کی ہر صورت کو مکمل طور پر ختم کردے گی اور اسلام کے معاشی نظام کو نافذ کرے گی جو بھاری صنعتوں میں ریاست کے کلیدی کردار ، عوام کی حیثیت کے مطابق ان سےٹیکس وصولی، توانائی اور معدنی وسائل کی عوامی ملکیت اور دیگر اسلامی احکامات کے نفاذ کے ذریعے ریاست کے خزانے کے لیے بھرپور محاصل جمع کرے گی۔ تو پھرکیا وقت نہیں آگیا کہ ہم سب خلافت کے داعیوں کے ساتھ اللہ سبحانہ و تعالیٰ کی وحی کی بنیاد پر حکمرانی کی بحالی کے لیے کام کریں اور دنیا اور آخرت کی بھلائی اور خیر حاصل کریں؟
ولایہ پاکستان میں حزب التحریر کا میڈیا آفس
المكتب الإعلامي لحزب التحرير ولایہ پاکستان |
خط وکتابت اور رابطہ کرنے کا پتہ تلفون: https://bit.ly/3hNz70q |
E-Mail: HTmediaPAK@gmail.com |