المكتب الإعــلامي
ولایہ پاکستان
ہجری تاریخ | 3 من شوال 1441هـ | شمارہ نمبر: 62 / 1441 |
عیسوی تاریخ | منگل, 26 مئی 2020 م |
پاکستان کو صرف ایک ایسی صنعتی پالیسی ترقی کی راہ پر ڈال سکتی ہے جس کی بنیاد اسلام کے پیغام کو دنیا تک پہنچانا اور اسلامی ریاست کے شہریوں کے حقوق کے حوالے سے شرعی فرائض کو پورا کرنا ہو
پی ٹی آئی کو اقتدار میں آئے دو سال پورے ہونے والے ہیں لیکن پچھلی حکومتوں کی طرح اس حکومت کے دور میں بھی صنعتوں کے لیے درکار بنیادی خام مال بڑے پیمانے پر درآمد ہو رہا ہے جس کی وجہ سے درآمدی بل کا حجم اب بھی بہت زیادہ ہے، برآمدات پر کچھ زیادہ ڈالر نہیں کمائے جا رہے، صنعتوں سے محاصل کی تعداد زیادہ نہیں ہے اور بے روزگاری کی شرح بہت زیادہ ہے۔ جولائی 2019 سے مارچ 2020 کے درمیانی عرصے کے دوران 4.35 ارب ڈالر مشینری، 1.8 ارب ڈالر لوہا اور اسٹیل اور 1 ارب ڈالر ٹرانسپورٹ مشینری کی درآمد پر خرچ ہوئے۔ ان اشیاء کی مجموعی مالیت پیٹرولیم مصنوعات کی درآمد پر خرچ ہونے والے 7 ارب ڈالر سے بھی زیادہ ہے۔ جہاں تک بڑے پیمانے پر مینوفیکچرنگ کا تعلق ہے تو برآمد کی جانے والی اشیاء کی فہرست دیکھ کر ایک ایسے ملک کے متعلق انتہائی افسوسناک تصویر ابھرتی ہے جس کے پاس صنعتی ترقی کرنے کی بہت زیادہ صلاحیت موجود ہے لیکن اسے خوراک، ٹیکسٹائل، کھیلوں کے سامان، آلات جراحی، چمڑے کی مصنوعات اور بنیادی کیمیکلز کی برآمدات تک محدود کر کے گزارا کرنے پر مجبور کردیا گیا ہے۔
پی ٹی آئی کی حکومت کبھی بھی پاکستان کو کئی دہائیوں پر محیط صنعتی بحران سے نہیں نکال سکتی کیونکہ پی پی پی اور پی ایم ایل-ن کی طرح یہ حکومت بھی معاشی ترقی کے مغربی ماڈل کی اندھی تقلید کر رہی ہے جس میں مقامی صنعتی ترقی کی حوصلہ شکنی کی جاتی ہے۔ یہ معاشی ماڈل ترقی کے لیے مقامی معیشت کو فری مارکیٹ اصلاحات کے نام پر غیر ملکی سرمائے، ٹیکنالوجی اور لیبر کے لیے کھول دیتا ہے۔ مارکیٹ اصلاحات کے نام پر اختیار کی جانے والی سوچ آئی ایم ایف کے اسٹرکچرل ایڈجیسمنٹ پروگرام کا اہم ترین ستون ہے اور ہر اس ملک کو اس سوچ کو اختیار کرنے پر مجبور کیا جاتا ہے جو بیلنس آف پیمنٹ (ادائیگی کے توازن) کے بحران سے نکلنے کے لیے آئی ایم ایف سے قرض لیتا ہے۔
لہٰذا آئی ایم ایف کا ہر پروگرام ملک کی مالیاتی اور مانیٹری پالیسی کو آئی ایم ایف کے کنٹرول میں دینےکا مطالبہ کرتا ہے جس میں ٹیکسوں کی تعداد اور ان کے حجم کے ساتھ ساتھ صنعت و توانائی کے متعلق حکومتی اصلاحات کا کنڑول بھی شامل ہے۔ مثال کے طور پر آئی ایم ایف کے موجودہ پروگرام کی شرائط کے مطابق آئی ایم ایف نے اسٹیٹ بینک آف پاکستان کو اپنے کنڑول میں لے لیا ہے جہاں اس نے اپنے سابق ملازم رضا باقر کی اسٹیٹ بینک کے سربراہ کے طور پر تعیناتی کو یقینی بنایا اور اس طرح معیشت میں سرمائے کے بہاؤ پر مکمل کنٹرول حاصل کر لیا۔ معاشی خودمختاری کو آئی ایم ایف کے قدموں میں قربان کر کے یہ سوچنا انتہائی بے وقوفی ہے کہ پاکستان اپنی صلاحیت اور استعداد کے مطابق صنعتی ترقی کر سکے گا۔
وہ ترقی پذیر ممالک جنہوں نے آئی ایم ایف کے پروگرام کو قبول نہیں کیا، ان پر بھی مغربی استعماری ممالک نے اپنے ناقص معاشی ترقی کے ماڈل کو مسلط کیا ہوا ہے۔ مغربی استعمار ترقی پذیر ممالک کو ایک ایسے معاشی ترقی کے ماڈل میں پھنسا لیتے ہیں جس میں ترقی پذیر ممالک مغربی کرنسی کمانے کے لیے ویلیو ایڈڈ (Value added) مصنوعات بنانے اور خدمات مہیا کرنے پر اپنی صنعت اور معیشت کو تشکیل دیں، وہ مصنوعات اور خدمات جس کی مغربی ممالک کو ضرورت ہوتی ہے۔ اس منصوبے کے تحت مقامی معیشتوں کو عالمی معیشت کے ساتھ جوڑ دیا جاتا ہے وہ عالمی معیشت جس پر مغربی معیشتوں اور کمپنیوں کا مکمل کنڑول ہے۔ یوں مغربی استعماری ممالک تمام ترقی پذیر ممالک کی معیشتوں پر اپنی مضبوط گرفت برقرار رکھتے ہیں، ان کو اپنا حریف بننے سے روکتے ہیں، ان کو صرف ایسی ولیو ایڈڈ (Value added) مصنوعات بنانے اور خدمات مہیا کرنے تک محدود رکھتے ہیں جن کی ان استعماری ممالک کو ضرورت ہو، ان ترقی پذیر ممالک کو مغربی برآمدات کے لیے منڈیوں کے طور پر استعمال کرتے ہیں اور مغربی کرنسیوں ڈالر، یورو اور پونڈ کو مستحکم کرنے کے لیے ان ممالک کی معیشتوں کا استحصال کرتے ہیں کیونکہ تقریباً تمام بین الاقوامی تجارت ان مغربی کرنسیوں میں ہوتی ہے۔ یوں ترقی پذیر ممالک کبھی ترقی نہیں کر پاتے کیونکہ وہ غیر ملکی معیشتوں کی ضروریات پر انحصار کر رہے ہوتے ہیں۔ اس حقیقت کا ادراک کورونا وائرس بحران کے دوران بہت اچھی طرح سے کیا جا سکتا ہے کیونکہ مغربی ممالک کے لاک ڈاون کی وجہ سے برآمدی آردڑ منسوخ ہونے شروع ہوگئے اور کئی ممالک کی برآمدی آمدن بری طرح سے متاثر ہوئی ہے جن میں پاکستان بھی شامل ہے۔یقیناً آئی ایم ایف اور دیگر مالیاتی اداروں کی نئی استعماریت (neo-colonialism) پرانی استعماریت کا براہ راست تسلسل ہے جس میں مغربی ممالک دوسرے علاقوں پر قبضہ کر کے ان کی دولت کو لوٹتے تھے اور جس لوٹی ہوئی دولت کے ذریعے مغرب نے اپنے صنعتی انقلاب کی مالیاتی ضروریات کو پورا کیا تھا۔
اے پاکستان کے مسلمانو!
ہمیں حقیقی صنعتی ترقی کی دوڑ سے باہر رکھنے کے استعماری منصوبے سے نجات اسی صورت میں مل سکتی ہے اگر ہم اپنے دین کی جانب رجوع کریں اور اسے مکمل طور پر نافذ کریں۔ ریاست خلافت میں اسلام کی جانب سے متعین کی گئی معاشرے کی ضرورتوں پر اسلامی معیشت کی بنیادیں کھڑی کی جاتی ہیں۔ اسلام ریاست پر یہ ذمہ داری ڈالتا ہے کہ وہ اپنے شہریوں کے امور کی دیکھ بھال کرے اور اس کے ساتھ ساتھ پوری دنیا تک اسلام کا پیغام جہاد کے ذریعے پہنچائے۔ اللہ سبحانہ و تعالیٰ نے فرمایا،
وَأَعِدُّوا لَهُم مَّا اسْتَطَعْتُم مِّن قُوَّةٍ وَمِن رِّبَاطِ الْخَيْلِ تُرْهِبُونَ بِهِ عَدُوَّ اللَّهِ وَعَدُوَّكُمْ وَآخَرِينَ مِن دُونِهِمْ لَا تَعْلَمُونَهُمُ اللَّهُ يَعْلَمُهُمْ
"اور جہاں تک ہو سکے (فوج کی جمعیت کے) زور سے اور گھوڑوں کے تیار رکھنے سے ان کے (مقابلے کے) لیے مستعد رہو کہ اس سے اللہ کے دشمنوں اور تمہارے دشمنوں اور ان کے سوا اور لوگوں پر جن کو تم نہیں جانتے اور اللہ جانتا ہے ہیبت بیٹھی رہے گی" (الانفال، 8:60)۔
اسلام اس بات کی ممانعت کرتا ہے کہ ریاست خلافت اپنے مقامی فرائض یا خارجہ پالیسی کے اہداف کے حصول کے لیے کسی بھی دوسری ریاست پر انحصار کرے اور اس طرح اسلام ایک مضبوط صنعتی پالیسی کی بنیاد فراہم کرتا ہے۔ لہٰذا لازمی خلافت کو اس قابل ہونا چاہیے کہ وہ مقامی سطح پر آزادانہ طور پر مشینری اور انجن بنا سکے جو ہماری صنعت، زراعت، تعمیرات اور افواج کی ضروریات کو پورا کر سکیں۔ اس طرح خلافت کے پاس میزائل، سیٹلائیٹ ، ہوائی جہاز، ٹینک، بحری جہاز، بکتر بند گاڑیوں، ہر قسم کا بھاری اور ہلکا اسلحہ، مصنوعی ذہانت (آرٹیفیشل انٹیلی جنس)، اسٹیلتھ ٹیکنالوجی، نینو ٹیکنالوجی، میگا ٹرونکس، کوانٹم کمپیوٹنگ کے ساتھ ساتھ نیوکلیئر ٹیکنالوجی بنانے کے لیے ایک انتہائی مضبوط فوجی-صنعتی کمپلیکس ہونا چاہیے تاکہ ریاست میں استعداد پیدا ہو کہ وہ اسلام کے پیغام کو پوری دنیا تک پہنچانے کے لیے دوسرے ممالک پر غالب آ سکے۔ ریاست خلافت کی صنعتی پالیسی تعلیمی ڈھانچے خصوصاً اعلیٰ تعلیم کو صنعت کے ساتھ منسلک رکھتی ہے اور یونیورسٹیوں کو تحقیق و ترقی کے لیے بھر پور مالی وسائل فراہم کرتی ہے۔
جہاں تک پاکستان میں صنعتی انقلاب برپا کرنے کے لیے درکار مالی وسائل کا تعلق ہے تو سرمائے، مالیات اور ملکیت سے متعلق اسلام کے قوانین خلافت کو اس قابل بناتے ہیں کہ وہ بھاری صنعتوں کے شعبے میں کلیدی کردار ادا کرے جہاں اگرچہ بہت زیادہ سرمائے کی ضرورت ہوتی ہے لیکن نفع بھی بہت زیادہ ہوتا ہے۔ اسلام توانائی اور معدنیات کے شعبے سے حاصل ہونے والی دولت کو عوامی ملکیت قرار دیتا ہے جن کو عوامی ضروریات پر ہی خرچ کیا جاتا ہے۔ اسلام کا ملکیت کے متعلق منفرد تصور جس کے تحت ملکیت کو عوامی، ریاستی اور نجی ملکیت میں تقسیم کیا گیا ہے اور اسلام کا خصوصی طور پر معاشرے میں دولت کی تقسیم پر مسلسل توجہ مرکوز رکھنا ایک ایسا معاشی ماحول پیدا کرتا ہے جس کی وجہ سے ریاست کے خزانے کے لیے زبردست محاصل جمع ہوتے ہیں۔ اور سود کی مکمل ممانعت کی وجہ سے پاکستان کے محاصل کا بڑا حصہ جو آج سود کی ادائیگی پر خرچ ہوتا ہے، وہ ریاست خلافت کے بیت المال پر بوجھ نہیں بنتا۔ یقیناً ایک مضبوط صنعتی شعبہ اس وقت تک مسلم علاقوں میں قائم نہیں ہو سکتا جب تک ہم نبوت ﷺ کے نقش قدم پر دوبارہ خلافت قائم نہیں کر دیتے۔
ولایہ پاکستان میں حزب التحریر کا میڈیا آفس
المكتب الإعلامي لحزب التحرير ولایہ پاکستان |
خط وکتابت اور رابطہ کرنے کا پتہ تلفون: https://bit.ly/3hNz70q |
E-Mail: HTmediaPAK@gmail.com |