المكتب الإعــلامي
ولایہ پاکستان
ہجری تاریخ | 1 من محرم 1442هـ | شمارہ نمبر: 01 / 1442 |
عیسوی تاریخ | جمعرات, 20 اگست 2020 م |
پریس ریلیز
رسول اللہ ﷺ کی بابرکت ہجرت اور
مدینہ منورہ کی ریاست کے قیام کی یاد میں!
ہر سال آج کے دن ، یکم محرم الحرام کو مسلمان اپنی عظیم تہذیب کی تاریخ کے ایک خوش کن اور اہم واقعہ کو یاد کرتے ہیں جب زمین پر حق و سچ کی ریاست ، رسول اللہﷺ کی ریاست، مدینہ منورہ کی ریاست کے قیام کے ذریعے انسانیت کے لیے بہترین امت کو دنیا کے سامنے پیش کیا گیا۔ یہ وہ عظیم ریاست تھی جس میں پیغمبرِ رحمتﷺ نے اُس رسالت کے پیغام کو نافذ کیا جو اللہ سبحانہ و تعالیٰ نے آپﷺ پر نازل فرمایا تھا۔ لہٰذا آپﷺ لوگوں کو گمراہی کے اندھیروں سے نکال کر اسلام کی روشنی میں لے آئے۔ لہٰذا مسلمانوں کا یہ حق ہے کہ وہ اس دن کی یاد منائیں اور رسول اللہﷺ کی بابرکت ہجرت پر غور کریں جس کے متعلق ہم کچھ امور بیان کررہے ہیں:
پہلا: جو ہجرت کے واقعے پرروشن فکر کے ساتھ غور کرتا ہے تو اُس پر ہجرت سے قبل ہونے والے واقعات کا ہجرت کے ساتھ تعلق واضح ہوجاتا ہے۔ یقیناً ہجرت عقبہ کےمقام پر ہونے والی دوسری بیعت کے بعد ہوئی تھی جس میں اوس و خزرج قبائل کے اہل قوت افراد نے رسول اللہﷺ کو اطاعت کی بیعت اور مدینہ میں اسلام کی پہلی ریاست کے قیام کے لیے نصرۃ فراہم کی تھی۔ پیغمبرﷺ کی سیرت کا جائزہ لینے والے ہرشخص پر یہ حقیقت واضح طور پر آشکار ہے ۔ تو آئیں، عباس بن عبادہ الانصاری کے الفاظ پر غور کریں جب انہوں نے انصار کی جانب سے بیعتِ کی مضبوطی کیلئے فرمایا تھا، "اے خزرج کے لوگو! کیا تمہیں احساس ہے کہ تم اس آدمی کی حمایت کرکے کس چیز کا وعدہ کررہے ہو؟ اس کا مطلب ہے تمام لوگوں سے ، ہر خاص و عام سے، سرخ و سفید اور کالے سے لڑو گے۔ اگر تم یہ سمجھ رہے ہو کہ جب تم اپنا مال کھو دو گے اور تمہارے معزز افرادقتل کر دئیے جائیں ، تو تم اس شخص (ﷺ)کو چھوڑ دو گے، تو بہتر ہے کہ ابھی سے چھوڑ دو، کیونکہ اگر تم نے بعد میں ایسا کیا تو اللہ سبحانہ و تعالیٰ تمہیں اس دنیا اور آخرت ، دونوں میں شرمسار کردے گا۔ لیکن اگر تم یہ سمجھتے ہو کہ تم اپنی بیعت پر قائم رہو گے، چاہے تمہیں مال و اسباب کا نقصان ہو یا تمہارے معززلوگ قتل ہوں، تو اس (محمدﷺ) کو اپنے ساتھ لے جاؤ، اللہ کی قسم ، یہ دنیا اور آخرت کی کامیابی ہے"۔ انصار نے جواب دیا ،"اے اللہ کے رسولﷺ، اپنا ہاتھ بڑھائیں تا کہ ہم آپ کو بیعت دیں"۔ تو آپﷺ نے اپنا ہاتھ بڑھایا اور انہوں نے بیعت دی۔ ہجرت اس وقت ہوئی جب انصار نے اسلام کو صرف عبادات اور اخلاقیات کے مذہب کے طور پر نہیں بلکہ ایک جامع عقیدے اور ایک مکمل نظامِ زندگی کے طور پر قبول کیا۔ اگر اسلام صرف فرد کی عبادات اور اخلاقیات تک ہی محدود ہوتا تو قریش کے لوگ کبھی آپﷺ اور صحابہؓ کے خلاف کھڑے نہ ہوتے اور نہ ہی انہیں ان کے دین کی وجہ سے اپنے ظلم کا نشانہ بناتے۔ اگر اسلام صرف فرد کی عبادات اور اخلاقیات تک ہی محدود ہوتا تو مغرب کے صلیبی اسلام اور مسلمانوں کو ختم کرنے کے لیے صلیبی جنگیں نہ شروع کرتے جو آج کے دن تک جاری ہیں جب وہ حقیقی اسلام ، سیاسی اسلام کے خلاف مہمات چلاتے ہیں، وہ اسلام جو سیاست و ریاست سمیت زندگی کے تمام امور کا احاطہ کرتا ہے۔
دوسرا: اللہ سبحانہ و تعالیٰ نے رسول اللہﷺ کو ان کے مقصد سے وحی کے ذریعے آگاہ کیا جس کے لیے رسول اللہﷺ کو مبعوث کیا گیا تھا ، تو جیسے ہی ہجرت کا عمل مکمل ہوا ، اور رسول اللہﷺ نے مدینہ منورہ کی سرزمین پر قدم رکھا ، تو آپﷺ نے اللہ سبحانہ و تعالیٰ کی وحی کے مطابق نئی ریاست کے قوانین نافذ کرنا شروع کردیے۔ لہٰذا آپﷺ نے مسجد بنائی تا کہ عبادت کے مقام کے ساتھ ساتھ ریاست کو ہیڈکواٹر بھی بن جائے ، اور آپ ﷺ نے مسلمانوں کے ایک دوسرے کے ساتھ اور ان کے ساتھ جو ان کی پیروی کرتے ہیں، تعلقات کی نوعیت کو بیان کرنے کے لیے صحیفہ تحریر کروایا جو کہ ایک ہدایت نامہ تھا جس میں مسلمانوں کے یہودی قبائل کے ساتھ تعلقات کی وضاحت کی گئی تھی۔اس صحیفے کا آغاز ان الفاظ سے ہوا،بسم الله الرحمن الرحيم. هذا كتاب من محمد النبي صلى الله عليه و سلّم بين المؤمنين المسلمين من قريش ويثرب ومن تبعهم فلحق بهم وجاهد معهم، أنهم أمة واحدة من دون النّاس "بسم اللہ الرحمن الرحیم،یہ دستاویز محمد ﷺ کی طرف سے قریش (مہاجرین) کے اور یثرب کے مسلمانوں (انصار ِ مدینہ)کے اور اُن کے جنہوں نے اِن کی اتباع کی،ان کے ساتھ آکر ملے اور ساتھ جہاد کیا، کے مابین ہے ،کہ یہ لوگ دوسرے لوگوں سے جدا ایک امت ہیں "۔ پھر آپﷺ نے بتایا کہ ایمان والوں کے درمیان کس طرح کے تعلقات ہونے چاہیے۔ آپﷺ نے ایمان والوں کے تعلقات کا ذکر کرتے ہوئے یہود کا بھی ذکر کیا، لہٰذا آپﷺ فرمایا،وأن المؤمنين بعضهم موالي بعض دون النّاس، وأنه من تبعنا من يهود فإن له النصر والأسوة، غير مظلومين ولا متناصرين عليهم وان سلم المؤمنين واحدة، لا يسالم مؤمن دون مؤمن في قتال في سبيل الله إلاّ على سواء وعدل بينهم "۔۔۔مسلمان دوسرے لوگوں سے جدا، آپس میں ایک دوسرے کے دوست ہیں۔ وہ یہود جو ہماری اتباع کریں سو اُن کیلئے ہماری مدد ہے ۔ اُن کے ساتھ کوئی ظلم نہیں ہوگا اور اُن کے کسی دشمن کو مدد نہیں دی جائیگی۔ مسلمانوں کا امن ایک ہے۔ پس اللہ کی راہ میں قتال کے دوران ایک مسلمان دوسرے مسلمان کو چھوڑ کر دشمن سے امن نہیں کر سکتا سوائے اس کے کہ یہ برابری پر ہو "۔ اس دستاویز پر دستخط کر کے رسول اللہﷺ نے نئی قائم ہونے والی اسلامی ریاست میں رہنے والوں کے درمیان تعلقات کو مستقل ااور مضبوط بنیادوں پر قائم کردیا جبکہ آپﷺ نے ریاست اور کے آس پاس رہنے والے یہودی قبائل کے درمیان تعلقات بھی واضح بنیادوں پر قائم کردیے۔
آپﷺ نے تعلقات کو منظم کرنے کے لیے عملی طور پر احکام شریعہ کو نافذکرنا شروع کیا اور جو اسلامی احکام کی خلاف ورزی کرتے ان پر اسلامی سزائیں جاری کرتے۔ مدینہ وہ ریاست تھی جس کے سربراہ رسول اللہﷺ تھے، اور حقیقی معنوں میں اس کے سربراہ تھے۔ لہٰذا جب بھی رسول اللہﷺ پر وحی آتی تو وہ رسول ہونے کی حیثیت سے اسے لوگوں تک پہنچا دیتے اور اس وحی کو ریاست کے سربراہ ہونے کے ناطے عملی طور پر نافذ فرماتے۔ اس طرح جہاد کے احکامات، جو پوری دنیا تک اسلام کی دعوت پہنچانے کا شرعی طریقہ کار ہے، نافذ کیے گئے۔ اسی طرح رسول اللہﷺ نے جنگ کے علم اپنے ہاتھوں سے باندھے اور فوجی مہمات بھیجیں جس کے ذریعے مدینہ میں قائم ہونے والی نئی سیاسی طاقت کے ظہور کا اعلان اور اس کی طاقت کا مظاہرہ کیا گیا۔ آپﷺ نے جتنے بھی اقدامات اٹھائے، وہ اسلام کی عظمت کو بیان کرتے تھے، وہ اسلام جسے آپﷺ لائے تا کہ لوگوں کو اسلام کی صرف دعوت ہی نہ دی جائے بلکہ ان پر اسلام کی بنیاد پر حکمرانی بھی کی جائے۔ لہٰذا مسلمانوں کو اس بات کی بھی خوشی منانی چاہیے کہ ہجرت کے بعد قائم ہونے والی ریاست کی وجہ سے لوگ جوق در جوق اسلام میں اور اس کی حکمرانی کے سائے میں داخل ہوئے۔
تیسرا: آج کے مسلمانوں پر لازم ہے کہ وہ ہجرت کے حقیقی معنی اور مقصد کو بحال کریں۔ تو مسلمانوں کو دنیا کی فکر وں کے بے جابوجھ کو اپنے کندھوں سے جھٹکتے ہوئےحزب التحریر کے ساتھ اسلام کی دعوت پہنچانی چاہیےتاآنکہ مسلمان ہجرت کے اصل مقصدکو ایک بار پھر حاصل کرلیں۔ مسلمانوں پر لازم ہے کہ وہ اسلام کی حکمرانی کے مسئلے کو اپنی زندگی کا مرکزی مسئلہ بنائیں۔ یقیناً مسلمانوں پر لازم ہے کہ وہ نبوت کے نقش قدم پر دوسری خلافت راشدہ کے قیام کو اپنی زندگی کا اہم ترین مقصد بنالیں، کیونکہ اللہ سبحانہ وتعالیٰ کی خوشنودی ان کے تمام اہداف میں سے سب سے اہم ہدف ہے۔ صرف اور صرف ایسا کرنے سے ہی مسلمانوں میں ایک بار پھر ہجرت کے حقیقی معنی اور مقصد اجاگر ہوگا۔ اللہ سبحانہ و تعالیٰ نے فرمایا، إِنَّا لَنَنصُرُ رُسُلَنَا وَالَّذِينَ آمَنُوا فِي الْحَيَاةِ الدُّنْيَا وَيَوْمَ يَقُومُ الْأَشْهَادُ "ہماپنے پیغمبروں کی اور جو لوگ ایمان لائے ہیں ان کی دنیا کی زندگی میں بھیمدد کرتے ہیں اور جس دن گواہ کھڑے ہوں گے (یعنی قیامت کو بھی)"(الغفار: 51)۔
اے اہل قوت !
جہاں تک آپ کا تعلق ہے، تو آپ اللہ سبحانہ و تعالیٰ کے انصار(مددگار) ہیں اور دین کو نصرۃ (مدد) فراہم کرنا آپ پر فرض ہے۔ اسلام آپ کو اس بات کی اجازت نہیں دیتا کہ آپ نصرۃ فراہم کرنے میں ایک دن بلکہ ایک گھنٹے کی بھی تاخیر کریں۔ یہ جان لیں کہ دین کے لیے نصرہ ،دنیا سے محبت اور جبر سے خوف کے سائے میں نہیں دیا جا سکتا۔ تو حزب التحریر اور اس کی دعوت کو نصرۃ فراہم کرنے کے لیے آگے بڑھیں، اسے بیعت دیں تا کہ اسلام کی دوسری ریاست ، نبوت کے نقش قدم پر ریاستِ خلافت، قائم ہو۔ تو آج کے انصار بنیں جیسے ماضی میں مدینہ کے لوگ انصار بنے تھے۔ اللہ سبحانہ و تعالیٰ نے فرمایا، يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آَمَنُوا كُونوا أَنصَارَ اللَّهِ كَمَا قَالَ عِيسَى ابْنُ مَرْيَمَ لِلْحَوَارِيِّينَ مَنْ أَنصَارِي إِلَى اللَّهِ قَالَ الْحَوَارِيُّونَ نَحْنُ أَنصَارُ اللَّهِ "مومنو! اللہ کے مددگار بن جاؤ جیسے عیسیٰ ابن مریم نے حواریوں سے کہا کہ کونہیں جومیرے ساتھ اللہ کےانصار ہونگے۔ حواریوں نے کہا کہ ہم اللہ کے انصار ہیں"(الصف:14)۔
ولایہ پاکستان میں حزب التحرير کا میڈیا آفس
المكتب الإعلامي لحزب التحرير ولایہ پاکستان |
خط وکتابت اور رابطہ کرنے کا پتہ تلفون: https://bit.ly/3hNz70q |
E-Mail: HTmediaPAK@gmail.com |