المكتب الإعــلامي
ولایہ پاکستان
ہجری تاریخ | 25 من ذي القعدة 1444هـ | شمارہ نمبر: 40 / 1444 |
عیسوی تاریخ | بدھ, 14 جون 2023 م |
پریس ریلیز
پاکستان کی معیشت میں مالیاتی وسائل کی مسلسل قلت کے بحران کو صرف خلافت ہی حل کر سکتی ہے
یکے بعد دیگرے پاکستانی حکومتیں مسلسل مالیاتی خسارے کا سامنا کرتی آرہی ہیں جس کا مطلب ہے کہ ریاست کے پاس عوام پر خرچ کرنے کے لیے وسائل کی مسلسل کمی رہتی ہے۔ ریاست کو درپیش وسائل کی یہ کمی ملک میں نافذ اقتصادی نظام کا براہ راست نتیجہ ہے۔ پاکستان کی حکمران اشرافیہ ملک میں سرمایہ دارانہ معاشی ماڈل کو نافذ کرتی ہے۔ سرمایہ دارانہ معاشی نظام ملکیت کی آزادی میں یقین رکھتا ہے اور اس کا یہ خیال ہے کہ ملک کے معاشی وسائل نجی شعبے کے کنٹرول میں ہونے چاہئیں اور حکومت کو صرف نجی شعبے کے مضبوط ریگولیٹر کے طور پر کام کرنا چاہیے اور معیشت کو چلانے میں مداخلت نہیں کرنی چاہیے۔
معاشی انتظام کے حوالے سے یہ نقطہ نظر ریاست کو ملک کے وسائل پر براہ راست کنٹرول سے محروم کر دیتا ہے کیونکہ ملک کے وسائل نجی شعبے کی ملکیت میں ہوتے ہیں۔ ریاست کے اخراجات کے لیے آمدنی حاصل کرنے کے لیے ریاست نجی شعبے پر ٹیکس لگانے اور سود پر مبنی قرضوں کے ذریعے مالیاتی خسارے کو پورا کرنے پر انحصار کرتی ہےجس کے نتیجے میں پاکستان قرض کے جال میں پھنستا چلا جاتا ہے۔
نجی شعبہ فطری طور پر اپنی دولت پر ٹیکس لگانے کو ریاست کی جانب سے نجی شعبے کے وسائل کو چھیننے کے طور پر دیکھتا ہے اور ریاست کی ٹیکس لگانے کی کوششوں کو معاشی جارحیت تصور کرتا ہے۔ ریاست اور نجی شعبے کے درمیان یہ تناؤ ٹیکس مخالف سیاست کو جنم دیتا ہے۔ نتیجتاً ریاست اور جس شعبے پر ریاست ٹیکس لگانا چاہتی ہے، وہ زیادہ سے زیادہ مالی فوائد حاصل کرنےکے لیے ایک دوسرے سے ٹکراتے ہیں۔
اس طرح کی سیاست سے پیدا ہونے والا تناؤ اور سیاسی دباؤ اکثر ریاست کی اپنی آمدنی کی ضروریات کو پورا کرنے کے لیے لگائے گئے ٹیکس کو اکھٹا کرنے کی صلاحیت پر اثر انداز ہوتا ہے۔ یوں ریاست مالیاتی خسارہ پورا کرنے کے کے لیے مالیاتی اداروں، کیپٹل مارکیٹوں اور عام لوگوں سے سود پر مبنی قرض لینے پر مجبور ہو جاتی ہے۔ سود پر مبنی قرضے معیشت پر بوجھ ہوتے ہیں خاص طور پر جب ان کا استعمال ریاست کے غیر ترقیاتی اخراجات کو پورا کرنےکے لیے کیا جاتا ہے۔ جیسے جیسے قرض پر سود بڑھتا جاتا ہے، ریاست کے پاس اس سود کی ادائیگی کا کوئی راستہ نہیں رہتا سوائے اس کے کہ مزید ٹیکس لگائے جائیں یا مزید سود پر مبنی قرض لیے جائیں۔ نتیجتاً ریاست ایک دائمی اور شیطانی مالیاتی بحران میں جکڑی جاتی ہے جیسا کہ آج پاکستان کی ریاست کا حال ہوگیا ہے۔ یوں سرمایہ دارنہ معاشی نظام ایک غریب اور وسائل کی کمی کی شکار ریاست اور ایک امیر نجی شعبے کے مسئلہ کو جنم دیتا ہے۔
اسلام معاشی انتظام کے حوالے سے سرمایہ دارنہ نظام سے مختلف نقطہ نظر رکھتا ہے۔ اسلام معیشت کے اہم وسائل کا مکمل کنٹرول نجی شعبے کے حوالے نہیں کرتا۔ اسلام ملک کے وسائل کو تین مختلف ملکیتوں میں تقسیم کرتا ہے؛ سرکاری، نجی اور ریاستی ملکیت۔ ریاست، عوامی اور ریاستی ملکیت کے تحت آنے والے وسائل کو کنٹرول کرتی ہے جبکہ نجی شعبہ نجی ملکیت کے وسائل کو کنٹرول کرتا ہے۔ اسلام ریاست کو نجی ملکیت پر ٹیکس لگانے کی بھی اجازت دیتا ہے لیکن خلیفہ نجی شعبے سے شرعی ٹیکس کے علاوہ اور کوئی ٹیکس وصول نہیں کر سکتا ہے۔ اگراسلام نے امت پر کوئی ٹیکس نافذ نہیں کیا تو خلیفہ امت پر اپنی مرضی سے ٹیکس عائد نہیں کرسکتا ۔ اسلام ریاستی اور نجی شعبے دونوں کے لیے ہر قسم کی سود پر مبنی فنانسنگ کو حرام قرار دیتا ہے۔ اسلام میں سود پر مبنی لین دین یا سود پر مبنی مالیاتی پروڈکٹس اور پالیسیوں کی ممانعت ہے۔
سرمایہ دارنہ نظام کے تحت سرمایہ معیشت میں مارکیٹ فورسز کے ذریعے گردش اور تقسیم ہوتا ہے، جبکہ اس کے برعکس اسلام میں سرمایہ، شراکت داری اور تجارتی معاہدوں اور خود ریاست کے ذریعے معیشت میں گردش اور تقسیم ہوتا ہے۔ اسلام میں کوئی بینک، اسٹاک مارکیٹ اور کیپٹل مارکیٹ نہیں ہوتی۔ یوں نجی شعبہ سود پر مبنی قرضوں، سٹاک مارکیٹ میں سٹاک کے اجراء اور کیپٹل مارکیٹز میں بانڈز کے اجراء کے ذریعے سرمایہ اکٹھا نہیں کر سکتا۔ اس سے نجی شعبے کے لیے بڑی مقدار میں سرمایہ اکٹھا کرنا مشکل ہو جاتا ہے۔ نتیجتاً اسلامی معیشت میں وہ صنعتیں جس کے لیے کثیر سرمائے کی ضرورت ہوتی ہے جیسے ٹیلی کمیونیکیشن، ہوابازی(ایوی ایشن)، اسلحہ و فوجی سازو سامان، سیمنٹ اور کھاد کی صنعت وغیرہ، ایسی تمام کثیر سرمائے والی صنعتیں ریاست کے کنٹرول میں ہوتی ہیں۔ ریاست کثیر سرمائے والی صنعتوں میں سرمایہ کاری کرتی ہے اور ایسی صنعتوں سے حاصل ہونے والی آمدنی ریاست کے خزانے میں جاتی ہے۔اس طرح اسلام میں ریاست امیرہوتی ہے۔
عوامی املاک سے حاصل ہونے والی دولت جیسے تیل، گیس اور معدنی وسائل کی فروخت سے حاصل ہونے والی آمدنی ریاست کے خزانے میں جاتی ہے۔ مزید برآں ریاست کثیر سرمائے سے چلنےوالی صنعتوں سے حاصل ہونے والی آمدنی کی بھی مالک ہوتی ہے۔ ریاست نجی شعبے سے اکٹھی ہونے والے شرعی محصولات پر بھی اختیار رکھتی ہے جیسے عشر ، خراج اور زکوٰۃ وغیرہ۔ اسلام کے معاشی نظام میں ریاست کی آمدنی بڑے پیمانے پر سود کی ادائیگیوں میں ضائع نہیں ہوتی جیسے کہ سرمایہ دارنہ نظام میں ہوتا ہے۔ یوں ریاست کے پاس عوام پر خرچ کرنے کے لیے کافی وسائل موجود ہوتے ہیں۔ خلافت معیشت سے متعلق شرعی احکام کونفاذ کرے گی اور مسلم سرزمینوں کی وسیع اقتصادی صلاحیت کو پروان چڑھائے گی۔ نجی شعبے پر کم ٹیکس کے ساتھ ساتھ ایک امیر ریاست وسیع پیمانے پر معاشی خوشحالی لائے گی جیسا کہ تاریخی طور پر تھا جب اسلام کے معاشی نظام کے نفاذ نے برصغیر کو اسلامی حکمرانی کے تحت دنیا کے امیر ترین خطوں میں سے ایک بنا دیا تھا۔
ولایہ پاکستان میں حزب التحرير کا میڈیا آفس
المكتب الإعلامي لحزب التحرير ولایہ پاکستان |
خط وکتابت اور رابطہ کرنے کا پتہ تلفون: https://bit.ly/3hNz70q |
E-Mail: HTmediaPAK@gmail.com |