المكتب الإعــلامي
ولایہ پاکستان
ہجری تاریخ | 8 من جمادى الثانية 1445هـ | شمارہ نمبر: 27 /1445 |
عیسوی تاریخ | جمعرات, 21 دسمبر 2023 م |
پریس ریلیز
ڈنڈے کے زور پر اکثریت کی حکمرانی کے نفاذ اور قومیت پر مبنی سیاست نے بلوچستان میں انسانی، سیاسی اور سیکورٹی بحران پیدا کر دیا ہے
کاؤنٹر ٹیررازم ڈیپارٹمنٹ کے ہاتھوں تربت سے تعلق رکھنے والے بلوچ نوجوان بالاچ مولا بخش کی ہلاکت نے ملک بھر میں بڑے پیمانے پر غم و غصے اور احتجاج کو جنم دیا ہے۔ متاثرہ خاندان نے، متعدد دیگر افراد کے ساتھ مل کر احتجاجی دھرنا شروع کیا، جو اسلام آباد کی جانب لانگ مارچ میں تبدیل ہوگیا۔
یہ دل دہلا دینے والا واقعہ کوئی اکیلا سانحہ نہیں بلکہ موجودہ جمہوری نظام اور قومیت پر مبنی فیڈرل حکومتی ڈھانچے کی خامی کا عکاس ہے۔
موجودہ قومی ریاست کا ماڈل، جس کے ذریعے مختلف نسلی، لسانی اور علاقائی شناختوں کو ایک بندھن میں باندھا جاتا ہے ، مختلف قومیتوں سے تعلق رکھنے والے افراد کو متحد رکھنے میں بری طرح ناکام ہو گیا ہے۔ یہ اس لیے کہ قومیت پر مبنی سیاست علاقائی، لسانی یا قبائلی شناخت پر معاشرے کو منظم کرتی ہے۔ یوں ایک ہی ملک میں مختلف شناخت رکھنے والے گروہ درحقیقت مختلف معاشروں کے طور پر دیکھے جاتے ہیں۔ قومی ریاست اور فیڈرل حکومتی ڈھانچہ ان مختلف شناختوں پر مبنی معاشروں کو فیڈرل حکومتی نظام کے ذریعے متحد رکھنے کی کوشش کرتی ہے جس میں حقوق کی ضمانت، وسائل کی تقسیم ، علاقائی خودمختاری اور علاقائی، لسانی یا قبائلی شناخت کے تحفظ کی ضمانت پر مختلف گروہوں کو قومی ریاست کی اتھارٹی تلے جمع کیا جاتا ہے۔ اس ریاستی ڈھانچے اور حکومتی نظام میں ہمیشہ وسائل کی تقسیم ، علاقائی خودمختاری ، حقوق کی ضمانت اور شناخت کے اظہار پر مختلف گروہوں کے درمیان کشمکش جاری رہتی ہے جو بگڑ کر مختلف گروہوں کے درمیان خانہ جنگی میں تبدیل ہو سکتی ہے اور یہی بلوچستان میں ہو رہا ہے۔ بالاچ مولا بخش کی ہلاکت اور بلوچ نوجوانوں کی جبری گمشدگی درحقیقت فیڈرل نظام حکومت کی مختلف گروہوں کو متحد رکھنے کی ناکامی کے بعد ریاست کی جانب سے طاقت اور قوت کے زور پر قومی اتحاد کو قائم رکھنے کی کوشش ہے۔
پاکستانی ریاست اپنی ناکامی کو چھپانے کے لیے جبر کے ذریعے قومی اتحاد پیدا کرنے کی کوشش کر رہی ہے ، جس کے نتیجے میں بے گناہ مسلمانوں کی جانوں کا نقصان ہو رہا ہے اور ریاست اور بلوچ قبائل کے درمیان تصادم کے نتیجے میں دونوں اطراف پر مسلمانوں کا خون بہہ رہا ہے جو مسلمانوں کی قوت اور طاقت کو کمزور اور دشمنوں کو ہمارے خلاف ساز باز کرنے کا موقع فراہم کر رہا ہے۔
مزید یہ کہ جمہوری نظام حکومت میں اکثریت کی نمائندگی کے اصول کے تحت ان گروہوں کے حقوق کو نظر انداز کر دیا جاتا ہے جن کی سپورٹ اور سیاسی نمائندگی مرکز میں حکومت بنانے یا جمہوری نظام میں قانون سازی کے لیے درکار نہیں۔ جمہوری نظام کا یہ اندازِ حکمرانی ریاست اور ان گروہوں کے درمیان خلیج کو بڑھا رہا ہے جو اپنے آپ کو اقلیت کے طور پر دیکھتے ہیں۔ بلوچستان میں علیحدگی پسند تحریک جمہوری نظام حکومت کا براہ راست نتیجہ ہے۔
یہ تسلیم کرنا ضروری ہے کہ جبر کے ذریعے حقیقی معاشرتی ہم آہنگی کو پیدا نہیں کیا جا سکتا۔ یہ ممکن ہے کہ جبر کے ذریعے لوگوں کو کچھ عرصے کے لیے دبا لیاجائے لیکن یہ صورتحال عارضی ہوگی، اور اس میں پائیداری اور طوالت کا فقدان رہے گا۔ جو چیز معاشرے کو متحد کرتی ہے وہ زندگی کے بارے میں نقطہ نظر پر معاشرے کا اتفاق اور اسی نقطہ نظر سے نکلنے والے نظام کا معاشرے پر نفاذ اور پورے معاشرے کی ایک واحد شناخت ہے جو رنگ، نسل، علاقے اور قبیلے سے بالاتر ہو کر پورے معاشرے کو ایک لڑی میں پرو دے۔ کسی بھی ریاست میں اتحاد کو قائم رکھنے کے لیے اس معاشرے کی ایک اکائی ہونا ضروری ہے نہ کہ ریاست میں مختلف شناختوں پر مختلف معاشروں کے قیام کے اجازت دی جائے اور پھر ان معاشروں کو اکھٹا رکھنے کی ناکام کوشش کی جائے جیسا کہ فیڈرل نظام حکومت میں ہوتا ہے۔
بلوچستان کے مسئلے کا حل خلافت کے ریاستی ڈھانچے میں مضمر ہے، جو موجودہ نظام کی خرابیوں سے نجات حاصل کرنے کے لیے ایک یکسر متبادل حل پیش کرتا ہے۔ خلافت میں اکثریت اور اقلیت کے تصورات ریاستی امور میں کوئی اہمیت نہیں رکھتے۔ خلیفہ کے انتخاب میں پوری امت حصہ لیتی ہے جبکہ خلافت میں قانون سازی انسان کے ہاتھ میں نہیں ہوتی بلکہ قرآن و سنت سے ماخوذ ہوتی ہے یوں قانون سازی میں عددی برتری کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔ اسلام کا یہ طریقہ کار کسی بھی نسل، زبان، یا علاقے کے بے جا اثر و رسوخ سے دوسرے نسل، زبان یا علاقے کے لوگوں کو تحفظ فراہم کرتا ہے۔
حقیقی سیاسی ہم آہنگی صرف اسلام کے سماجی، اقتصادی اور سیاسی نظام کے نفاذ سے ہی حاصل ہو سکتی ہے۔ اسلام فرقہ وارانہ، لسانی اور علاقائی حدود سے بالاتر ہوکر اتحاد کے لیے ایک بے مثال قوت کے طور پر کام کرتا ہے۔
اے پاک فوج کے مخلص افسران!
ہمیں اتحاد کے حصول کے لیے استعمار کی کھینچی ہوئی رنگ، نسل اور زبان کی لکیروں کی بنیاد پر آپس میں لڑائی اور مسلمانوں کے خون کو بہانے سے باز رہنا ہے۔ یہ اسلام کی خاطر اپنے بہادر بلوچ بھائیوں کے ساتھ متحد ہونے کی دعوت ہے۔اس فرسودہ اور ناکام نظام کے لیے جانیں قربان کرنے کے بجائے، ہمیں ایک اعلیٰ اور بلند مقصد کے لیے مل کر جدوجہد کرنی ہے، یعنی فلسطین اور کشمیر میں قابض افواج سے لڑتے ہوئے اللہ کی راہ میں شہادت کا حصول۔
صحیح بخاری سے ماخوذ ہمارے پیارے نبی حضرت محمد ﷺ کی تعلیمات کو یاد رکھیں:
«الْمُسْلِمُ مَنْ سَلِمَ الْمُسْلِمُونَ مِنْ لِسَانِهِ وَيَدِهِ ، وَالْمُهَاجِرُ مَنْ هَجَرَ مَا نَهَى اللَّهُ عَنْهُ»
"مسلمان وہ ہے جو اپنی زبان اور ہاتھ سے مسلمانوں کو نقصان پہنچانے سے گریز کرے، اور مہاجر وہ ہے جو سب کچھ ترک کر دے۔ جسے اللہ نے حرام قرار دیا ہے۔"
صحیح مسلم میں رسول اللہ ﷺ نے اس بات کی بھی تاکید فرمائی ہے:
«لا تَحَاسَدُوا، ولا تَنَاجَشُوا ولا تَبَاغَضُوا، ولا تَدَابَرُوا، ولا يَبِعْ بَعْضُكم على بَيْعِ بعضٍ، وكُونوا عبادَ الله إخوانًا، المسلمُ أخُو المسلمِ لا يَظْلِمُهُ ولا يَخْذُلُهُ ولا يَكذبه ولا يَحْقِرُه»
"ایک دوسرے سے حسد نہ کرو، خرید وفروخت میں دھوکہ نہ دو، ایک دوسرے سے بغض نہ رکھو، ایک دوسرے سے منہ مت پھیرو، کسی کی بیع پر بیع مت کرو اور اللہ کے بندے بھائی بھائی بن جاؤ۔مسلمان مسلمان کا بھائی ہے، وہ اس پر ظلم نہیں کرتا، نہ اسے بے یار ومددگار چھوڑتا ہے، نہ اس سے جھوٹ بولتا ہے اور نہ اسے حقیر سمجھتا ہے۔ "
اس نازک دور میں جب امت اندرونی طور پر انتشار اور کشمکش کا شکار ہے، اور اسے بیرونی طور پر قبضے اور جبر کا سامنا ہے، ایک ایسے وقت میں خلافت کے دوبارہ قیام کے لیے آپ کی جانب سے نصرت فراہم کرنا، ہمیں اندرونی طور پر اتحاد اور یک جہتی کی طرف اور قابض قوتوں کو کچلنے کی راہ پر لے جائے گا۔ خلافت مسلمانوں کو یکجا کر کےاور آپس میں لڑائی کے فتنے کو ختم کر کے ہماری قوت کو دشمنوں کے خلاف اکھٹا کرے گی، بلوچ مسلمانوں اور تمام گروہوں کے شرعی حقوق کی ضمانت دے گی اور مسلم علاقوں میں امن اور خوشحالی لے کر آئے گی۔
ولایہ پاکستان میں حزب التحرير کا میڈیا آفس
المكتب الإعلامي لحزب التحرير ولایہ پاکستان |
خط وکتابت اور رابطہ کرنے کا پتہ تلفون: https://bit.ly/3hNz70q |
E-Mail: HTmediaPAK@gmail.com |