المكتب الإعــلامي
ولایہ پاکستان
ہجری تاریخ | شمارہ نمبر: نمبرPR16020: | |
عیسوی تاریخ | جمعرات, 07 اپریل 2016 م |
پانامہ لیکس
پانامہ لیکس
جمہوریت کرپشن کی بنیاد ہے جو حکمرانوں کی بدعنوانیوں کو قانون کی چھتری فراہم کرتی ہے
5 اپریل 2015 بروز منگل وزیر اعظم پاکستان نواز شریف نے قوم سے خطاب میں پانامہ لیکس کے نتیجے میں قوم کے مشتعل جذبات کو ٹھنڈا کرنے اور یہ ثابت کرنے کی کوشش کی کہ ان کا خاندان کسی مالیاتی بدعنوانی میں ملوث نہیں ہے۔ پانامہ لیکس کے نتیجے میں یہ حقیقت ایک بار پھر آشکار ہوئی ہے کہ دنیا بھر کے حکمران اور طاقتور افراد، چاہے ان کا تعلق مغرب سے ہو یا مشرق سے، ترقی یافتہ ممالک سے ہو یا ترقی پزیر ممالک سے، اپنی جائز و ناجائز دولت جمہوری نظام کی بدولت باآسانی ایسے مقامات پر منتقل کر دیتے ہیں جہاں ان کی دولت کے متعلق سوال نہیں کیا جاتا اور ٹیکس بھی برائے نام ہی ادا کرنا پڑتا ہے۔
جمہوری نظام میں عوام کے نام پر منتخب ہونے والے قانون سازی کی طاقت کو اپنے آقاوں، اپنے ساتھیوں اور اپنے ذاتی مفادات کی تکمیل کے لئے استعمال کرتے ہیں۔ جمہوری نظام قانون سازی کا اختیار عوام کے منتخب نمائندوں کو دیتا ہے جو اس اختیار کو استعمال کرتے ہوئے کسی بھی چیز یا عمل کو حلال یا حرام قرار دیتے ہیں۔ آج دنیا بھر میں یہ بحث ہو رہی ہے کہ ایسی قانون سازی کی جائے جس کے نتیجے میں حکمران اور طاقتور افراد اپنی دولت پر ٹیکس ادا کریں تاکہ عوام پر پڑنے والے ٹیکس کے بوجھ کو کم کیا جا سکے۔ لیکن اس بحث میں یہ حقیقت فراموش کر دی جاتی ہے کہ وہ لوگ جو قانون سازی کا اختیار رکھتے ہیں وہ خود اپنے مفادات کے خلاف کیسے قانون بنا سکتے ہیں؟ لہٰذا جب بھی اس قسم کا سکینڈل مغرب یا مشرق میں منظر عام پر آتا ہے تو حکمران طبقہ عوام کے مشتعل جذبات کو ٹھنڈا کرنے کے لئے مزید “سخت قوانین” یا عدالتی کمیشن بناتا ہے لیکن ہمیشہ اس میں ایسےچور دروازے چھوڑ دیے جاتے ہیں جس کے نتیجے میں ان کے مفادات پر کوئی آنچ نہیں آتی۔ اس کے علاوہ جمہوریت حکمرانوں کو یہ اختیار بھی دیتی ہے کہ وہ نجکاری کے ذریعے ریاستی اور عوامی دولت پر قبضہ کرسکیں۔ یہ سب کچھ جمہوریت کی بدولت ممکن ہوتا ہے اور اس نظام کے متعلق یہ بات واضح ہوتی ہے کہ یہ امیروں کی حکمرانی، امیروں کے ذریعے حکمرانی کا نظام ہے تاکہ مزید امیر ہوا جاسکے۔
صرف خلافت کا نظام ہی وہ واحد نظام حکمرانی ہے جس میں حکمران اور عوام یا جو منتخب ہوتے ہیں اور جو ووٹ ڈالتے ہیں، ان کے درمیان کوئی امتیاز نہیں ہوتا۔ خلیفہ، والی (گورنر) یا مجلس امت کے اراکین کے پاس قانون سازی کا اختیار نہیں ہوتا کیونکہ اسلام میں مقتدر عوام نہیں بلکہ صرف اللہ سبحانہ و تعالیٰ ہیں۔ لہٰذا سیاست دان اور حکمران ایسے قوانین نہیں بنا سکتے جو ان کے مفادات کو پورا کرنے کا باعث بن سکیں بلکہ وہ صرف اور صرف قرآن و سنت کو ہی نافذ کرنے پر مجبور ہوتے ہیں جو کہ اللہ سبحانہ و تعالیٰ کی جانب سے ہے اور مجلس امت اسلام کے نفاذ کے حوالے سے حکمرانوں کا احتساب کرتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ خلافت راشدہ کا عہد ہو یا اس کے بعد آنے والا خلافت کا دور، کوئی خلیفہ کبھی ایسا قانون جاری نہیں کر سکا جو حکمرانوں، ان کے ساتھیوں اور دوستوں کی دولت کو شرعی ٹیکسوں سے استثناء دیتا ہو بلکہ خلافت راشدہ کا دور تو اس بات کا شاہد ہے کہ حکمرانوں کی دولت پر ہمیشہ سخت نظر رکھی جاتی تھی کہ جب ایک والی (گورنر) کی دولت میں، اس کے عہدے سے اترنے کے بعد، اضافہ دیکھا جاتا تو اضافی دولت اس سے واپس لے کر بیت المال میں ڈال دی جاتی تھی۔
اے پاکستان کے لوگو!
موجودہ جمہوری قوانین میں تبدیلی، ان کو سخت بنانا یا جمہوری عدالتی کمیشن جمہوری حکمرانوں کی کرپشن کا حل نہیں بلکہ یہ تو آپ کے غصے کو ٹھنڈا کرنے کے لئے محض زبانی جمع خرچ ہے۔ حل صرف جمہوریت کا خاتمہ اور نبوت کے طریقے پر خلافت کا قیام ہے جہاں حکمرانی حکمران کی خواہشات کے مطابق نہیں بلکہ قرآن و سنت کے ذریعے کی جاتی ہے۔ اس طرح اسلام انسانوں کے اقتدار اعلیٰ کا خاتمہ کر دے گا جس کو استعمال کرتے ہوئے حکمران ایسے قوانین بناتے ہیں جن سے ان کے مفادات کا تحفظ ہو سکے۔ صرف خلافت کے قیام کے بعد ہی حکمرانوں اور عوام کے درمیان امتیازی سلوک اور حکمران اور طاقتور طبقات کو حاصل خصوصی مراعات کا خاتمہ ہوگا۔ اللہ سبحانہ و تعالیٰ فرماتے ہیں،
وَأَنِ احْكُمْ بَيْنَهُمْ بِمَا أَنْزَلَ اللَّهُ وَلَا تَتَّبِعْ أَهْوَاءَهُمْ وَاحْذَرْهُمْ أَنْ يَفْتِنُوكَ عَنْ بَعْضِ مَا أَنْزَلَ اللَّهُ إِلَيْكَ
“اور یہ کہ (آپ ﷺ) ان کے درمیان اللہ تعالیٰ کے نازل کردہ (احکامات) کے مطابق فیصلہ کریں اور ان کی خواہشات کی پیروی نہ کریں۔ اور ان سے محتاط رہیں کہ کہیں یہ اللہ تعالیٰ کے نازل کردہ بعض (احکامات) کے بارے میں آپ ﷺ کو فتنے میں نہ ڈال دیں” (المائدہ:49)۔
اے افواج پاکستان کے افسران!
کیا آپ نے نہیں دیکھا کہ کس طرح آئس لینڈ، ایک قوم جس کی آبادی چار لاکھ سے بھی کم ہے، نے اپنے جمہوری حکمران کو استعفی دینے پر مجبور کر دیا اگرچہ جمہوریت پھر بھی باقی رہی کیونکہ آئس لینڈ کے لوگ دین حق پر یقین رکھنے والے نہیں ہیں۔ آج یہ واضح ہے کہ پانامہ لیکس کے ردعمل میں پاکستان میں رائے عامہ موجودہ حکمرانوں اور جمہوریت کے خلاف ہے اور ان کے خلاف نفرت اس قدر ہے کہ لوگ اس موضوع پر بات کرتے ہوئےاسلام اور خلافت راشدہ کے عہد کا ذکر کر رہے ہیں۔ تو اب آپ کس چیز کا انتظار کر رہے ہیں؟ اب بھی جمہوریت کو ختم نہ کرنے اور اسلام کو نافذ نہ کرنے کا آپ اللہ سبحانہ و تعالیٰ کے سامنے کیا جواز پیش کریں گے؟ آپ پر لازم ہے کہ نبوت کے طریقے پر خلافت کے دوبارہ قیام کے لئے حزب التحریر کو فوراً نصرۃ فراہم کریں اور ہمیشہ ہمیشہ کے لئے ظلم کے حکمرانی کا خاتمہ کر دیں اور وہ تبدیلی لے آئیں جس کی مسلمانوں کو ضرورت ہے اور جس کی وہ شدید چاہت رکھتے ہیں۔ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا،
ثُمَّ تَكُونُ مُلْكًا جَبْرِيَّةً فَتَكُونُ مَا شَاءَ اللَّهُ أَنْ تَكُونَ ثُمَّ يَرْفَعُهَا إِذَا شَاءَ أَنْ يَرْفَعَهَا ثُمَّ تَكُونُ خِلَافَةً عَلَى مِنْهَاجِ النُّبُوَّةِ ثُمَّ سَكَتَ
“پھر ظلم کی حکمرانی ہو گی اور اس وقت تک رہے گی جب تک اللہ چاہیں گے۔ پھر جب اللہ چاہیں گے اس کا خاتمہ کر دیں گے۔ پھر نبوت کے طریقے پر خلافت ہو گی”۔ اس کے بعد آپ ﷺ خاموش ہو گئے” (احمد)۔
ولایہ پاکستان میں حزب التحریر کا میڈیا آفس
المكتب الإعلامي لحزب التحرير ولایہ پاکستان |
خط وکتابت اور رابطہ کرنے کا پتہ تلفون: https://bit.ly/3hNz70q |
E-Mail: HTmediaPAK@gmail.com |