بسم الله الرحمن الرحيم
قتل، زندہ جلانا، بھوک،فاقہ اور محاصرہ۔ تو اے امتِ اسلام تم کہاں ہو؟
)ترجمہ)
غزہ کی پٹی کو اس طرح نسل کشی کا نشانہ بنایا جا رہا ہے کہ اگر اس کے اندر کوئی درخت باقی رہ جائے تو وہ بھی بول اٹھے، یہ نسل کشی پتھروں کو رلا دے، وہ پتھر جو بھوک کی وجہ سے لوگوں کے پیٹوں سے بندھے ہوئے ہیں، یا جو تباہ ہو کر ان کے سروں پر برس رہے ہیں، یا جو غزہ کے لوگوں کے خون سے سیراب ہوئے ہیں، یا جو زخمیوں اور جھلسنے والوں کی کراہوں کو سنتے ہیں۔ تو اے امتِ اسلام تم کہاں ہو!!
مدد کے لیے غزہ اور بابرکت سرزمین کے لوگوں کی پکار اُفق کی بلندیوں تک جا پہنچی ہے۔ آوازیں آسمان کے دروازوں سے ٹکرا رہی ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ "اے امت اسلام! ہماری مدد کرو ورنہ ہم نابود اور فنا ہو جائیں گے۔ تو ان کے متعلق اللہ عزوجل کے سامنے تمہارے پاس کیا عذر ہے؟!
آج شمالی غزہ رو رہا ہے۔ اس کے اندر کا ہر پتھر آپ کو پکار رہا ہے، اور آپ کی مدد طلب کر رہا ہے۔ وہ جانتے ہیں، اور آپ بھی جانتے ہیں، کہ اگر آپ اپنی فوجوں کے ساتھ ان تک نہیں پہنچیں گے، تو پھر کون سی قوم پہنچے گی؟! اگر امتِ اسلام اللہ کی راہ میں جہاد کا اعلان کر دیتی اور سرزمینِ مبارک کی طرف متحرک ہو جاتی لیکن اسراء کی سرزمین کو آزاد نہ کر پاتی تو ہم کہتے کہ انسان صرف وہی کر سکتا ہے جس کی وہ استطاعت رکھتا ہے۔ تاہم ایک ایسی امت جس کے پاس لاکھوں سپاہی ہوں وہ کمزور اور بے بس نہیں ہے۔ بلکہ، یہ امت یہودیوں کے مجرمانہ وجود کو ختم کرنے کی صلاحیت رکھتی ہے، وہ وجود جسے صرف افواج کی روانگی ہی ہلا کر رکھ دے گی، اور اس کے وجود کو الٹ دے گی۔ تو اللہ عزوجل کے سامنے تمہارا کیا عذر اور جواز ہے؟
اے امتِ محمد ﷺ! اے بہترین امت جو انسانیت کے لیے اٹھائی گئی ہے:
آپ نے جان لیا ہے کہ جس چیز نے امتِ مسلمہ اور اس کے سپاہیوں کو اپنے بھائیوں کی مدد وحمایت سے روکا ہوا ہے وہ نہ تو ان کا کمزور ہونا ہے، نہ عزم کی کمی ہے اور نہ ہی ان سپاہیوں کو موت کا خوف ہے۔ درحقیقت امت میں ماھر الجازی اور محمد صلاح جیسے لاکھوں بلکہ اس سے بھی زیادہ لوگ موجود ہیں۔ درحقیقت امت میں لاکھوں یا اس سے بھی زیادہ لوگ ہیں جو اللہ عزوجل کی راہ میں موت کو اسی طرح پسند کرتے ہیں جس طرح دشمن زندگی سے محبت کرتا ہے۔ تاہم جس چیز نے آپ کو اور آپ کے سپاہیوں کو غزہ کے لوگوں کی مدد سے روک رکھا ہے وہ آپ کے حکمران ہیں۔ بلکہ حکمرانوں نے تو آپ کے بھائیوں کے قتل میں آپ کے دشمن کا ساتھ دیا ہے۔ تو آپ کیسے ان حکمرانوں پر صبر کیے ہوئے ہیں؟ آپ ان حکمرانوں کو اپنے پاؤوں تلے روند کیوں نہیں دیتے؟!
ہم اپنی امت سے حمایت چاہتے ہیں، اس لیے نہیں کہ وہ یکجہتی یا دکھ کے اظہار کے لیے سڑکوں پر نکلیں۔ بلکہ ہم چاہتے ہیں کہ امت ایک ہی آواز اٹھائے: سپاہیوں اور جنگی طیاروں کو متحرک کیا جائے، سرحدیں کھول دی جائیں، اور اللہ سبحانہ و تعالیٰ کی راہ میں متحرک ہونے اور جہاد کا اعلان کیا جائے۔ لہٰذا ماؤں کو چاہیے کہ وہ افواج میں موجود اپنے بیٹوں کو اس طرح پکاریں: ’’اگر تم غزہ کی حمایت نہیں کرتے اور مسجد اقصیٰ کو آزاد کرانے کے لیے آگے نہیں بڑھتے تو تمہاری مائیں تمہارا سوگ منائیں گی‘‘۔
اے مسلم ممالک میں موجود افواج!
اللہ سبحانہ وتعالیٰ اپنے خاص لوگوں کو عظیم کاموں کے لیے چُنتا ہے۔ جو شخص اللہ عزوجل سے ملاقات اور آخرت کے دن سرخرو ہونے کی امید رکھتا ہے، اُس کے پاس، اِس کے سوا کوئی چارہ نہیں، کہ وہ اللہ کی رحمت اور اس کے انتخاب کا مستحق ہونے کے لیے اپنی جان کا نذرانہ پیش کر دے، تاکہ وہ ان لوگوں میں شامل ہو سکے جن کو اللہ تعالیٰ نے بیت المقدس کو آزاد کرانے والے سپاہیوں کے طور پر چُن لیا ہے۔ اور اس لیے کہ زمین و آسمان کے رہنے والے اس سے راضی ہوں۔
امتِ محمد ﷺاور اس کے سپاہیوں کے شایان نہیں، کہ بابرکت سرزمین کو اپنی مددوحمایت سے محروم رکھ کر، اپنے آپ کو رسوا کریں۔ ہمارے پاس اس سے پہلے یا اس کے بعد بھی، کوئی چارہ نہیں، سوائے یہ کے کہ آپ کو اللہ تعالیٰ کے کلام سے مخاطب کیا جائے۔
﴿يَاأَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا مَا لَكُمْ إِذَا قِيلَ لَكُمُ انْفِرُوا فِي سَبِيلِ اللَّهِ اثَّاقَلْتُمْ إِلَى الْأَرْضِ أَرَضِيتُمْ بِالْحَيَاةِ الدُّنْيَا مِنَ الْآخِرَةِ فَمَا مَتَاعُ الْحَيَاةِ الدُّنْيَا فِي الْآخِرَةِ إِلَّا قَلِيلٌ - إِلَّا تَنْفِرُوا يُعَذِّبْكُمْ عَذَابًا أَلِيمًا وَيَسْتَبْدِلْ قَوْمًا غَيْرَكُمْ وَلَا تَضُرُّوهُ شَيْئًا وَاللَّهُ عَلَى كُلِّ شَيْءٍ قَدِيرٌ﴾
"اے ایمان والو! تمہیں کیا ہو گیا ہے کہ جب تم سے کہا جاتا ہے کہ اللہ کی راہ میں (جہاد کے لیے) نکلو تو تم زمین پر گِرے جاتے ہو؟ کیا تم آخرت (کی نعمتوں) کو چھوڑ کر دنیا کی زندگی پر خوش ہو بیٹھے ہو؟ دنیا کی زندگی کے فائدے تو آخرت کے مقابل بہت ہی کم ہیں- اور اگر تم نہ نکلو گے تو اللہ تم کو بڑی تکلیف کا عذاب دے گا۔ اور تمہاری جگہ اور لوگ پیدا کر دے گا اور تم اس کو کچھ نقصان نہ پہنچا سکو گے اور اللہ ہر چیز پر قدرت رکھتا ہے" (سورۃ التوبہ: آیت 39,38)-
ہمارے لیے اللہ ہی کافی ہے اور وہ بہترین کارساز ہے۔ بے شک ہم اللہ کے ہیں اور بے شک ہم اسی کی طرف لوٹنے والے ہیں۔
ہجری تاریخ :11 من ربيع الاول 1446هـ
عیسوی تاریخ : پیر, 14 اکتوبر 2024م
حزب التحرير
فلسطين