بسم الله الرحمن الرحيم
شَهْرُ رَمَضَانَ الَّذِي أُنْزِلَ فِيهِ الْقُرْآنُ هُدًى لِلنَّاسِ وَبَيِّنَاتٍ مِنَ الْهُدَى وَالْفُرْقَانِ
" رمضان کا مہینہ ہے جس میں قرآن نازل ہوا جو لوگوں کا رہنما ہے اور (جس میں) ہدایت کی کھلی نشانیاں ہیں اور (جو حق و باطل کو) الگ الگ کرنے والا ہے۔"(البقرۃ، 2:185)
رمضان المبارک کا مہینہ آپ پر آچکا ہے۔ یہ آپ کے لیے اللہ تعالیٰ کی رحمت کی برکتیں لاتا ہے۔ تو اپنے اچھے اعمال کے ذریعے اپنے آپ کو اللہ تعالیٰ کی نعمتوں سے روشناس کرائیں۔ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا،
تَعَرَّضُوا لِنَفَحَاتِ رَحْمَةِ اللهِ، فَإِنَّ لِلهِ نَفَحَاتٍ مِنْ رَحْمَتِهِ، يُصِيبُ بِهَا مَنْ يَشَاءُ مِنْ عِبَادِهِ
" اللہ تعالیٰ کی رحمت کے عطیات کے درپے رہو، کیونکہ اللہ تعالیٰ جس کو چاہتا ہے اپنی رحمت کے عطیات عطا کرتا ہے۔" الطبرانی نے رویات کی۔
آپ پر فرقان کا مہینہ رمضان آگیا ہے۔ یہ آپ کے لیے یوم بدر، یوم فرقان کے ساتھ ساتھ فتح مکہ، القدس (یروشلم) کی فتح اور عین جالوت کی جنگ کی یاد دہانیاں لاتا ہے۔ یہ متقی مؤمنین کے لیے اللہ تعالیٰ کی فتح کی یاددہانیاں ہیں۔ لہٰذا اللہ تعالیٰ کے دین کی تائید کرتے ہوئے اس کی فتح کی یاددہانی سے آگاہ رہیں۔ اللہ سبحانہ و تعالیٰ نے فرمایا،
يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا إِنْ تَنْصُرُوا اللَّهَ يَنْصُرْكُمْ وَيُثَبِّتْ أَقْدَامَكُمْ
"اے ایمان والو! اگر تم اللہ کی مدد کرو گے تو وہ بھی تمہاری مدد کرے گا اور تم کو ثابت قدم رکھے گا۔"(محمد، 47:7)
آپ پر فرقان کا مہینہ آگیا۔ یہ آپ پر فرض کرتا ہے کہ حق اور باطل میں فرق کیا جائے۔ لہٰذا اللہ اور اس کے رسول ﷺ کے ساتھ وفادار رہو اور کفر، کافر، منافق اور منافقت سے پرہیز کرو۔ اللہ تعالیٰ کے حکم کے سوا کوئی حکم نہیں ہے۔ اللہ سبحانہ و تعالیٰ نے فرمایا،
إِنِ الْحُكْمُ إِلَّا لِلَّهِ أَمَرَ أَلَّا تَعْبُدُوا إِلَّا إِيَّاهُ ذَلِكَ الدِّينُ الْقَيِّمُ وَلَكِنَّ أَكْثَرَ النَّاسِ لَا يَعْلَمُونَ
"اللہ کے سوا کسی کی حکومت نہیں ہے۔ اُس سبحانہ و تعالیٰ نے ارشاد فرمایا ہے کہ اُس کے سوا کسی کی عبادت نہ کرو۔ یہی سیدھا دین ہے لیکن اکثر لوگ نہیں جانتے۔"(یوسف، 12:40)۔
اللہ تعالیٰ کے سوا کسی کا خوف نہیں ہونا چاہیے۔ اللہ سبحانہ و تعالیٰ نے فرمایا،
أَتَخْشَوْنَهُمْ فَاللَّهُ أَحَقُّ أَنْ تَخْشَوْهُ إِنْ كُنْتُمْ مُؤْمِنِينَ
"کیا تم ایسے لوگوں سے ڈرتے ہو حالانکہ ڈرنے کے لائق اللہ ہے بشرطیکہ ایمان رکھتے ہو۔"(التوبۃ، 9:13)
آپ پر رمضان کا مہینہ آچکا ہے۔ یہ آج کے انصار کا انتظار کررہا ہے، جو رسول اللہ ﷺ کے انصار کی طرح ہیں، جو اللہ اور اس کے رسولﷺ کی حمایت کرتے ہیں۔ روزے کا مہینہ آپ کے اندر اسلام کی عظمت، اہل ایمان کی قوت اور متقیوں کی استقامت کو ابھارنے کے لیے آیا ہے۔ اللہ کی راہ میں جہاد کا مہینہ آپ پر آیا ہے، تا کہ مسلمانوں کے لشکروں کے عزم کو مضبوط کیا جائے تاکہ وہ اللہ کے حکم پر لبیک کہیں۔ اللہ سبحانہ و تعالیٰ نے فرمایا،
يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا قَاتِلُوا الَّذِينَ يَلُونَكُمْ مِنَ الْكُفَّارِ وَلْيَجِدُوا فِيكُمْ غِلْظَةً وَاعْلَمُوا أَنَّ اللَّهَ مَعَ الْمُتَّقِينَ
"اے ايما ن والو جہاد کرو ان کافروں سے جو تمہارے قريب ہيں،اور چاہیئے کہ وہ تم میں سختی پائیں، اور جان رکھو کہ اللہ پرہیزگاروں کے ساتھ ہے۔ "(التوبۃ، 9:123)
اے پیارے ایمان والو!
رمضان المبارک کا مہینہ ہم پر تقریباً سو سال سے ایسی صورتحال میں آرہا ہے، جس میں یہ ہماری تفرقہ بازی، جھگڑے، ہماری جانب سے ربّ کی کتاب کو ترک کرنے اور ہمارے صحیح راستے سے بھٹک جانے کی گواہی دیتا ہے۔ درحقیقت، مسلمان روزے کے آغاز کے دن اور عید کے دن کو لے کر بھی جھگڑتے ہیں۔ اس سال رمضان مبارک سرزمین میں ان لوگوں کے ہاتھوں قتل عام کی گواہی دے رہا ہے جن سے اللہ تعالیٰ ناراض ہے۔ رمضان ہزاروں شہیدوں اور زخمیوں کی گواہی دے رہا ہے۔ رمضان المبارک اللہ تعالیٰ تک بچوں، عورتوں اور سوگواروں کی مدد کی اپیل پہنچا رہا ہے۔ بے شک اللہ ہمارے لیے کافی ہے اور وہ بہترین انتظام کرنے والا ہے۔
اے امت محمد ﷺ!
کیا آپ اس طرح اللہ تعالیٰ کے مہینے کا استقبال کرتے ہیں؟! کیا آپ رمضان المبارک کا استقبال ایسے کرتے ہیں کہ آپ منقسم ہیں، آپ پر ظالموں کی حکمرانی ہے اور مسلمانوں کا قبلہ اول، مسجد الاقصیٰ ، یہود کے حوالے ہے جہاں سے رسول اللہ ﷺ آسمانوں کی بلندیوں کی جانب گئے تھے؟!
اے امت محمد ﷺ!
ایسی حالت میں آپ کیسے رمضان کا استقبال کرسکتے ہیں جبکہ رسول اللہ ﷺ نے جبرائیل علیہ السلام کی اس دعا پر آمین کہا تھا،
رَغِمَ أَنْفُ رَجُلٍ دَخَلَ عَلَيْهِ شَهْرُ رَمَضَانَ، ثُمَّ انْسَلَخَ قَبْلَ أَنْ يُغْفَرَ لَهُ
"اس شخص کی بدبختی سے بچو جس پر رمضان کا مہینہ آیا لیکن اس کی مغفرت ہونے سے پہلے ہی رخصت ہو گیا۔"،(ابن حبان نے رویات کی)؟!جو لوگ اللہ اور اس کے رسول ﷺ کی حمایت سے انکار کرتے ہیں وہ اللہ کی رحمت اور بخشش کیسے حاصل کر سکتے ہیں؟
کیا آپ نہیں جانتے کہ اللہ تعالیٰ کی رحمت اور بخشش کس چیز سے حاصل ہوتی ہے؟ یہ اللہ تعالیٰ سے مخلصانہ عقیدت سے حاصل ہوتی ہے۔ یہ اللہ اور اس کے رسول ﷺ کے حکم کی تعمیل سے حاصل ہوتی ہے۔ یہ اللہ تعالیٰ کے نازل کردہ تمام احکام کے مطابق حکمرانی قائم کرنے سے حاصل ہوتی ہے۔ یہ اللہ کی راہ میں جہاد کرنے سے حاصل ہوتی ہے۔ یہ خلافت کی ریاست قائم کرنے سے حاصل ہوتی ہے جو دین کو قائم کرتی ہے اور پوری انسانیت تک اسلام کی دعوت کو پہنچاتی ہے، تاکہ مسلمان اللہ تعالیٰ کے سامنے اپنی ذمہ داریوں سے پاک ہو جائیں۔
اے گواہی دینے والی امت، انسانیت کے لیے لائی گئی سب سے بہترین امت!
اسلام کی طرف آپ کی ذمہ داری بہت بڑی ذمہ داری ہے۔ یہ ذمہ داری آپ پر فرض کرتی ہے کہ آپ اللہ تعالیٰ کی خوشنودی حاصل کرنے کے لیے اپنی جان اور مال دونوں کی قربانی دیں۔ یہ ذمہ داری فوجوں اور مسلح افواج میں مسلمانوں کے بیٹوں پر فرض کرتی ہے کہ وہ ایجنٹ حکمرانوں اور غدار حکومتوں کا تختہ الٹ دیں۔ یہ ذمہ داری اُن پر اِن سرحدوں کو ختم کرنا فرض کرتی ہے جنہوں نے مسلم علاقوں کو ٹکڑے ٹکڑے کیا ہوا ہے۔ یہ ان پر فرض کرتی ہے کہ وہ خلافت راشدہ کے قیام کے لیے حزب التحریر کو نصرۃ دیں۔ یہ انہیں پابند کرتی ہے کہ وہ اللہ تعالیٰ کے وعدے اور اس کے رسول ﷺ کی بشارت کو پورا کریں۔
مسجد اقصیٰ کے حوالے سے اسلام نے آپ پر جو ذمہ داری عائد کی ہے وہ آپ پر فرض کرتی ہے کہ آپ پوری قوت سے امت اسلامیہ اور اس کی فوجوں کو اللہ تعالیٰ کی راہ میں جہاد کرنے کے لیے متحرک کریں، تا کہ الاقصیٰ کو آزاد کرایا جائے، یہودیوں کو زندگی اور بقا کے ذرائع فراہم کرنے والی ایجنٹ حکومتوں کا قلع قمع کیا جائے اور "دو ریاستی حل" پر مبنی مغربی اور امریکی منصوبوں کو ملیا میٹ کردیا جائے۔
بابرکت سرزمین کے لوگ اگرچہ بمباری اور نسل کشی سے دوچار ہیں لیکن امداد کے ٹکڑوں کی بھیک نہیں مانگتے۔ اس کے بجائے، وہ اُن مسلم فوجوں کو گلے لگانے کا اعزاز حاصل کرنے کے لیے تڑپ رہے ہیں جو بنی اسرائیل سے اللہ تعالٰی کے وعدے کی تکمیل کے لیے بابرکت سرزمین میں داخل ہوں گے۔ اللہ سبحانہ و تعالیٰ نے فرمایا،
فَإِذَا جَاءَ وَعْدُ الْآخِرَةِ لِيَسُوءُوا وُجُوهَكُمْ وَلِيَدْخُلُوا الْمَسْجِدَ كَمَا دَخَلُوهُ أَوَّلَ مَرَّةٍ وَلِيُتَبِّرُوا مَا عَلَوْا تَتْبِيرًا
"پھر جب دوسرے (وعدے) کا وقت آیا (تو ہم نے پھر اپنے بندے بھیجے) تاکہ تمہارے (یہود) چہروں کو بگاڑ دیں اور جس طرح پہلی دفعہ مسجد (بیت المقدس) میں داخل ہوگئے تھے اسی طرح پھر اس میں داخل ہوجائیں اور جس چیز پر غلبہ پائیں اُسے تباہ کردیں۔"(الاسراء، 17:7)
اے بابرکت سرزمین کے لوگو!
صبر کرو، اور ثابت قدم رہو۔ آپ کے صبر، استقامت اور ثابت قدمی کا بدلہ جنت کے سوا کچھ نہیں ہے۔ اللہ سبحانہ و تعالیٰ نے فرمایا،
وَلَا تَيْأَسُوا مِنْ رَوْحِ اللَّهِ إِنَّهُ لَا يَيْأَسُ مِنْ رَوْحِ اللَّهِ إِلَّا الْقَوْمُ الْكَافِرُونَ
"اور اللہ کی رحمت سے مایوس نہ ہو، بیشک اللہ کی رحمت سے نا امید نہیں ہوتے مگر کافر لوگ ۔"(یوسف، 12:87)۔
اگر زمین والے آپ کو چھوڑ دیں تو بھی زمین و آسمان کا رب آپ کو نہیں چھوڑے گا۔ اس معاملے میں آپ کے لیے رسول اللہ ﷺ کی بشارت ہی کافی ہے۔ رسول اللہﷺ نے فرمایا،
لَا تَزَالُ طَائِفَةٌ مِنْ أُمَّتِي ظَاهِرِينَ عَلَى الْحَقِّ لَا يَضُرُّهُمْ مَنْ خَذَلَهُمْ، حَتَّى يَأْتِيَ أَمْرُ اللهِ وَهُمْ كَذَلِكَ
"میری امت کا ایک گروہ ہمیشہ حق پر(قائم رہتے ہوئے)غالب رہے گا، جو شخص بھی ان کی حمایت سے دستبردار ہو گا وہ ان کو نقصان نہیں پہنچا سکے گا حتی کہ اللہ کا حکم آ جائے گا اور وہ اسی طرح ہوں گے۔"، مسلم نے روایت کی۔
اور امام احمد اور طبرانی کے مطابق ابوامامہ ؓ کی روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:
لا تَزَالُ طَائِفَةٌ مِن أُمَّتِي ظَاهِرِينَ عَلَى الحَقِّ، لِعَدُوِّهِم قَاهِرِينَ، لا يَضُرُّهُم مَن خَالَفَهُم، حَتَّى يَأتِيَهُم أَمرُ الله عز وجل وَهُم كَذَلِكَ
"میری امت کا ایک گروہ ہمیشہ حق پر(قائم رہتے ہوئے) غالب رہے گا، جو شخص بھی ان کی حمایت سے دستبردار ہو گا وہ ان کو نقصان نہیں پہنچا سکے گا حتی کہ اللہ کا حکم آ جائے گا اور وہ اسی طرح ہوں گے۔"انہوں نے کہا،يَا رَسُولَ الله! وَأَينَ هُم؟"یا رسول اللہ ﷺ! اور وہ (لوگ) کہاں ہیں؟"،آپ ﷺ نے فرمایا،
بِبَيتِ المَقدِسِ وَأَكنَافِ بَيتِ المَقدِسِ
"بیت المقدس اور بیت المقدس کے احاطے کی طرف۔"
بابرکت سرزمین اللہ تعالیٰ کی طرف سے فتح کے دہانے پر کھڑی ہے۔ اس لیے اللہ تعالیٰ کے حکم اور اس کے رسول ﷺ کے حکم کے لیے اپنے اخلاص کے ذریعے اللہ تعالیٰ کی فتح تلاش کریں۔ ظالم حکمرانوں اور شیطان کے ساتھیوں کو مسترد کردیں۔ اللہ تعالیٰ کے ارشادات پر غور کریں جس نے فرمایا:
الَّذِينَ آمَنُوا يُقَاتِلُونَ فِي سَبِيلِ اللَّهِ وَالَّذِينَ كَفَرُوا يُقَاتِلُونَ فِي سَبِيلِ الطَّاغُوتِ فَقَاتِلُوا أَوْلِيَاءَ الشَّيْطَانِ إِنَّ كَيْدَ الشَّيْطَانِ كَانَ ضَعِيفًا
"ایمان والے اللہ کی راہ میں لڑتے ہیں،اور کفار شیطان کی راہ میں لڑتے ہیں، تو شیطان کے دوستوں سےلڑو، بیشک شیطان کا داؤ کمزور ہے ۔"(النساء، 4:76)
سرزمین مبارک کا مسئلہ ایک امت اور ایک عقیدے کا مسئلہ ہے۔ سرزمین مبارک ایک بھڑکتی ہوئی آگ رہے گی جو مسلمانوں کی روحوں میں اسلام کو بھڑکاتی رہے گی جب تک کہ امت اسلامیہ اپنی نیند سے بیدار نہ ہو جائے۔ جہاں تک اللہ اور اس کے رسول ﷺ کے خلاف غداروں کی ٹولیوں، یہودیوں کے اتحادیوں اور امریکہ کے ایجنٹوں کا تعلق ہے، ان پر اللہ، اس کے رسول اور مومنین کی لعنت ہے۔ اللہ تعالیٰ کی سنت ان پر لاگو ہوگی جیسا کہ تمام متکبروں پر لاگو ہوتی ہے۔ اللہ سبحانہ و تعالیٰ نے فرمایا،
مَلْعُونِينَ أَيْنَمَا ثُقِفُوا أُخِذُوا وَقُتِّلُوا تَقْتِيلًا (٦١) سُنَّةَ اللَّهِ فِي الَّذِينَ خَلَوْا مِنْ قَبْلُ وَلَنْ تَجِدَ لِسُنَّةِ اللَّهِ تَبْدِيلًا
"پھٹکارے ہوئے، جہاں کہیں ملیں پکڑے جائیں اور گن گن کر قتل کیے جائیں۔ اللہ کا دستور چلا آتا ہے ان لوگوں میں جو پہلے گزر گئے ،اور تم اللہ کا دستور ہرگز بدلتا نہ پاؤ گے ۔"(الاحزاب، 62-61)
ہم مومنین کے لیے اللہ تعالیٰ کی اس دعوت پر اپنی بات کا اختتام کرتے ہیں، اللہ سبحانہ و تعالیٰ نے فرمایا،
يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا إِنْ تَنْصُرُوا اللَّهَ يَنْصُرْكُمْ وَيُثَبِّتْ أَقْدَامَكُمْ (٧) وَالَّذِينَ كَفَرُوا فَتَعْسًا لَهُمْ وَأَضَلَّ أَعْمَالَهُمْ (٨) ذَلِكَ بِأَنَّهُمْ كَرِهُوا مَا أَنْزَلَ اللَّهُ فَأَحْبَطَ أَعْمَالَهُمْ (٩) أَفَلَمْ يَسِيرُوا فِي الْأَرْضِ فَيَنْظُرُوا كَيْفَ كَانَ عَاقِبَةُ الَّذِينَ مِنْ قَبْلِهِمْ دَمَّرَ اللَّهُ عَلَيْهِمْ وَلِلْكَافِرِينَ أَمْثَالُهَا (١٠) ذَلِكَ بِأَنَّ اللَّهَ مَوْلَى الَّذِينَ آمَنُوا وَأَنَّ الْكَافِرِينَ لَا مَوْلَى لَهُمْ
"اے ایمان والو اگر تم اللہ کے دین کی مدد کرو گے تواللہ تمہاری مدد کرے گا،اور تمہارے قدم جمادے گا۔ اور جو کافر ہیں ان کے لئے ہلاکت ہے۔ اور وہ ان کے اعمال کو برباد کر دے گا ۔ یہ اس لئے کہ اللہ نے جو چیز نازل فرمائی انہوں نے اس کو ناپسند کیا تو اللہ نے بھی ان کے اعمال اکارت کردیئے۔تو کیا انہوں نے زمین میں سفر نہ کیا کہ دیکھتےکہ جو لوگ ان سے پہلے تھے ان کا انجام کیسا ہوا؟ اللہ نے ان پر تباہی ڈال دی۔ اور اسی طرح کا (عذاب) ان کافروں کو ہوگا۔یہ اس لئے کہ جو مومن ہیں ان کا اللہ کارساز ہے اور کافروں کا کوئی کارساز نہیں۔"(محمد، 11-7)۔ یقیناً ایسا ہی ہے جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا، ذَلِكَ بِأَنَّ اللَّهَ مَوْلَى الَّذِينَ آمَنُوا وَأَنَّ الْكَافِرِينَ لَا مَوْلَى لَهُمْ" یہ اس لئے کہ جو مومن ہیں ان کا اللہ کارساز ہے اور کافروں کا کوئی کارساز نہیں۔"(محمد، 47:11)۔ پس اے اہل عقل، غور کرو۔
حزب التحریر، فلسطین کی مبارک سرزمین
ہجری تاریخ :1 من رمــضان المبارك 1445هـ
عیسوی تاریخ : پیر, 11 مارچ 2024م
حزب التحرير
فلسطين