بسم الله الرحمن الرحيم
شامی مسلمانوں کے انقلاب کے خلاف امریکی قیادت میں جدید صلیبی اتحاد مکڑی کے جالوں سے بھی کمزور ثابت ہوگا
﴿سَيُهْزَمُ الْجَمْعُ وَيُوَلُّونَ الدُّبُرَ﴾
"(حقیقت تو یہ ہے کہ) اس جمعیت کو عنقریب شکست ہو جائے گی اور یہ سب پیٹھ پھیر کر بھاگیں گے" (القمر:45)
23 ستمبر 2014 کو امریکی بمبار طیاروں نے "تنظیم البغدادی "، "النصرۃ فرنٹ" اور متعدد دیگر دھڑوں کے ٹھکانوں پر درجنوں حملے کئے جس کے باعث بہت سے جنگجو اور شامی شہری قتل اور زخمی ہوئے ۔ اس گناہ اور جرم میں اس کے ساتھ سعودیہ، بحرین ، امارات ، قطر اور اردن بھی شریک ہوئے۔ یہ حملے کرکے امریکہ ایک نئے منصوبے میں داخل ہوا ہے ، جس کے ذریعے وہ شام کے معاملات کو خود ہی اپنے کنٹرول میں لینا چاہتا ہے جبکہ اس کا ایجنٹ مجرم بشار، ایران اور اس کے پیروکار شام کے اندر مسلمانوں کو اپنا تابع بنانے اور شام کے حق میں امور طے کرنے میں ناکام ہوچکے ہیں۔ چنانچہ شامی قوم پر بمباری کا مشن اسد کی جگہ اوباما سرانجام دے گا تاکہ امریکی سیاسی حل کی راہ ہموار کرنے کے لئے اسے تقویت فراہم ہو۔
بلا شبہ امریکہ" البغدادی تنظیم" کی آڑ لے کر حقیقت میں شام کے اندر اپنے اثر و نفوذ اور وہاں اپنے مفادات کی نگہبانی کرنے کی کوشش کررہا ہے اوریہ کام وہ ایسے متبادل امریکی ایجنٹ کے ذریعے کروائے گا جو حکومت کی باگ ڈور سنبھال سکے ۔اس لئے اوباما نے کل ایک پریس کانفرنس کے دوران عہد کیا کہ "ہم شامی اپوزیشن کی تربیت اور تیاری کے لئے آگے بڑھ رہے ہیں ، جو اس قابل ہوگی کہ وہ داعش اور اسد حکومت کی جگہ ایک بہتر اور متبادل توازن کو تشکیل دے"۔ کیونکہ اوباما نے غرور و تکبر میں ڈوبے ہوئے لہجے میں پہلے سے اعلان کیا تھا کہ "ایسے سیاسی حل تک پہنچنا جس کا ہدف شامی بحران کا ہمیشہ کیلئے خاتمہ کرنا ہے" اس مہم کے اہداف میں سے ہے۔ اس سے اوباما کے اُس بیان کی وضاحت ہوجاتی ہے، جب اس نے کہا تھا "شام میں داعش کے حوالے سے کوئی بھی منصوبہ وقت لے گا "۔ اور اگر "تنظیم البغدادی " کے خاتمہ کو صرف عسکری پہلو تک محدود رکھا جانا ہوتا تو ان طویل المدتی پالیسیوں پر بات کرنے کی ضرورت نہ ہوتی۔
یہ ہے امریکہ جس کی یہ فطرت کبھی بدلتی نہیں کہ وہ ہمیشہ سے صرف مفاد کی بنیاد پر اپنی پالیسیاں بناتا ہے اور جسے صرف اپنے آپ کی فکر ہی لگی رہتی ہے۔ آج مسلمانوں کی اکثریت اس کے جرائم کی بھینٹ چڑھتی ہے۔ یہ حقیقت سویت یونین کے سقوط کے بعد کھل کر سامنے آئی، جب اس نے ایک تہذیبی منصوبے کی حیثیت سے اسلام کے خلاف اپنی کشمکش کا محاذ کھول دیا ۔ اور اوباما دور میں بالخصوص شام میں مسلمان مقتولین کی تعداد اپنے پیش رو بدنام زمانہ بش جونئیر کے دور سے بھی زیادہ ہوچکی ہے ۔ چونکہ اوباما کو مسلمانوں کے خلاف کئے گئے اپنے جرائم اور دشمنی کی کرتوتوں کا اندازہ ہے، اس لئے اس معرکے میں خطے کے ممالک کو شریک کرنے پر اصرار کیا تاکہ وہ یہ باور کرائے کہ یہ "صرف امریکی جنگ " نہیں، جیسا کہ اوباما نے کہا ۔ بلکہ اس نے ایک ایک ملک کا نام لے کر اسے حکم دیا کہ وہ سرکاری بیانات کے ذریعے اپنی شرکت کا اعلان بھی کریں ۔ وائٹ ہاوس نے شام پر فضائی حملوں میں شرکت کرنے والی پانچ عرب ریاستوں کے وفود کے قائدین کواوباما کی اس خواہش سے مطلع کردیا کہ وہ نیویارک پہنچتے ہی ان سے ملاقات کرنا چاہتا ہے۔ یہ سب اس لئے کیا تاکہ مسلمانوں کے خلاف اپنے جرائم کی حقیقت پر پردہ ڈالے ۔ یقیناً یہ خیانت ہے کہ مسلمانوں کے یہ گھٹیا حکمران فضائی حملوں میں شرکت کررہے ہیں، جبکہ یہ ان حملوں کے نتائج سے اچھی طرح واقف ہیں کہ ہر ایک حملے کے نتیجے میں درجنوں معصوم مسلمان قتل ہوتے ہیں۔ انہیں پتہ ہے کہ پاکستان، افغانستان اور یمن میں کیا ہورہا ہے جن کے حالات اخبارات اور ٹی وی کے ذریعے ہم تک پہنچتے رہتے ہیں۔ اس بنا پر ان پانچ ریاستوں نے جس جارحیت کا ارتکاب کیا ہے جن کی قیادت سعودیہ کررہا ہے جو جھوٹے اور خودساختہ طور پر اسلام کی حمایت و حفاظت کا بھی دعویدار اور علمبردار ہے، ایک ناقابل معافی جرم ہے ۔ نیز قومی اتحاد کی طرف سے اس جارحیت کی حمایت کا اعلان اور مبارکباد سچ مچ اس بات کا اعلان ہے کہ وہ امریکی جارحانہ پالیسی کا ایک سستا پیرو کار ہے اور یہ اتحاد اپنے آپ کو موجودہ عراقی حکمرانوں کی مثل کردار ادا کرنے کے لئے پیش کررہا ہے۔ اس لئے یہ ریاستیں بشمول ِاتحاد ایمان کے ہیڈ کوارٹر میں آنے کی بجائے امریکی کفر یہ ہیڈ کوارٹر میں جاگھسے ہیں۔ اور ہم صراحت کےساتھ یہ کہہ سکتے ہیں کہ آج بلادالشام میں خلافت راشدہ کے عظیم منصوبے سے مسلمانوں کو باز رکھنے کے لئے امریکی قیادت میں ایک نیا صلیبی اتحاد وجود میں آگیا ہے، جس پر پردہ ڈالنے اور اس کے اہداف کو نظروں سے اوجھل رکھنے کے لئے اوباما نے ان پانچ عرب ریاستوں کو شریک کیا جوخیانت کے بین الاقوامی کلب کے مستقل ممبر ہیں ۔ ہم ان حکمرانوں کے بارے میں مسلمانوں کوخبردار کرتے ہیں جن کا یہ دعویٰ ہے کہ بلاد الشام کے اندر امت کا انقلاب ہماری خواہش ہے، جبکہ یہی حکمران مسلمانوں کے خون میں ڈوبے ہوئے ہیں اور نہایت گندا کردار ادا کررہے ہیں ۔ اور شام کے اس مبارک انقلاب کو سیاسی رقوم سے خرید کر مغرب اور امریکہ کو بیچ دینے کی کو شش کرتے ہیں ۔ تو یہ ریاستیں انقلاب کے حوالے سے ایران سے کم خطرناک نہیں ہیں۔ آج یہ ریاستیں اسلام کے خلاف جنگ میں اس لئے امریکہ اور مغرب کے ساتھ کھڑی نظر آتی ہیں کیونکہ ان کو یہ خوف ہے کہ اسلامی حکومت کے قیام سے ان کے تخت دھڑام سے نیچے گرجائیں گے، جیساکہ امریکہ کو بھی یہی خوف بے چین کئے ہوئے ہے۔ یہ کوتاہ نظر حکمران یہ نہیں سمجھتے کہ امریکہ کے "جدید مشرق وسطیٰ " کے تقسیم کے منصوبے کی ہوائیں ان کو بھی لگیں گی اور یہ بچ نہیں پائیں گے، جبکہ اپنی غدار اور مجرمانہ حرکتوں کے سبب اللہ کے عذاب کا مزہ بھی ضرور چکھ لیں گے۔
بلا شبہ شام کے مسلمانوں پر جارحیت میں امریکہ کے ساتھ بعض حکمرانوں کی شرکت اللہ کے ہاں ایک جرم عظیم ہے، جبکہ امریکہ اسلام اور مسلمانوں کا کھلا دشمن ہے اور اس کے خطرناک معروضی اثرات مرتب ہوں گے، کیونکہ یہ امریکی منصوبے کو کامیابی سے ہمکنار کرنے اور اسلامی سرزمینوں پر اسے تسلط دلانے کے مترادف ہے اور ساتھ ہی اسلامی خلافت کی شکل میں اسلامی منصوبے پر ٖضرب لگانا ہے جس کو قائم کرنا اللہ تعالیٰ کاحکم ہے یعنی خلافت علی منہاج النبوۃ ۔ اس شرکت سے امریکہ ان کو اپنے فوجیوں کی طرح استعمال کرنے لگا ہے جو اس کے لئےلڑتے ہیں اور اس کے لئے جاسوسی کرتے ہیں اور اس سے مسلمان آپس کی جنگ میں الجھ گئے ہیں ۔ اس میں مسلمانوں کے لئے کوئی خیر نہیں، کوئی خیر نہیں جیسا کہ ماضی میں ہم نے دیکھا ۔
سوریا الشام کے صابر اور مخلص مسلمانو! بے شک امریکہ آج تک اسلام کے خلاف فتح حاصل کرنے میں ناکام رہا ہے، اسلام جو اُس کے تہذیبی منصوبے سے نبرد آزما ہے جس کو امریکہ دہشتگردی کے خلاف جنگ کے پردے میں برپا کئے ہوئے ہے، اور اوباما نے اپنے پہلے دور اقتدار میں ایک کمزور قراداد پاس کروائی کہ وہ روئے زمین پر فوجی جنگوں میں اپنے ملک کی مداخلت کے خلاف ہے تاکہ زبردست انسانی اور بھاری مادی نقصانات سے بچا جاسکے، جیسا کہ افغانستان اور عراق میں ہمیں سامنا کرنا پڑا اور یہ نقصانات اس کے عالمی منصب پر اثر انداز ہوئے، یہاں تک کہ ایک وقت پر ایسا محسوس ہونے لگا کہ امریکہ عالمی سپر پاور کے منصب کو سنبھال نہیں پائے گا، کیونکہ اسلام کے خلاف جنگ کے عین وسط میں امریکہ مالیاتی بحران سے دوچار ہوا جس کے بارے میں اوباما نے کہا تھا " کساد عظیم کے دور سے لے کر آج تک یہ ہماری معیشت کا بدترین مندا ہے"۔ پھر یہ کہ جب سے امریکہ نے خطے میں جس جنگ کاآغازکیا ہے، اب تک تہذیبی کشمکش اسلام کے مفاد میں جارہی ہے ۔ کیونکہ آج وہ حقائق بے نقاب ہوچکے ہیں جو کسی زمانے میں سربستہ راز تھے۔ اب مسلمانوں کی طرف سے خلافت راشدہ کے قیام کی ضد اور اس کے مقابلے میں مغرب کا مسلمانوں کو اس سے روکنے کی ضد سے جنم لینے والی کشمکش کھل کر سامنے آئی ہے ۔ اور امریکہ نے بغدادی کی مزعومہ خلافت اور اسلام کے نام پر اس کی تنظیم کے بھیانک قتل اور خون خرابے کا اس طور پر فائدہ اٹھا یا، کہ مسلمانوں کے ذہنوں میں خلافت کا ایک مسخ شدہ تصور راسخ کیا جائے۔ ان حالات کے سبب امریکہ ایسی سازگار فضا تیار کرنے کے قابل ہوا کہ اس نے اسلام اور مسلمانوں کے خلاف ایک نیا صلیبی اتحاد قائم کیا اور جس کے باعث مسلم ممالک کے خائن حکمرانوں کو اس اتحاد میں امریکہ اور مغرب کے شانہ بشانہ اپنے فوجی بھرتی کرنے کا موقع ملا .....مگر یہ اسلام اور مسلمانوں کے خلاف پہلا اتحاد نہیں، کیونکہ اس سے پہلے بھی قدیم صلیبیوں اور تاتاریوں نے اس قسم کے اتحاد قائم کئے تھے مگر امت نے ان کو روند ڈالا اور وہ اتحاد نیست ونابود ہوگئے اور امت بلند وبرتر رہی.....اور انشاء اللہ اس نئے اتحاد کو بھی اسی قسم کی شکست کا سامنا کرنا پڑے گا جیسا کہ گزشتہ زمانے میں ہوا۔ اور صبح کا انتظار کرنے والا بہت جلد اس کو دیکھ لے گا إِنَّا لَنَنْصُرُ رُسُلَنَا وَالَّذِينَ آمَنُوا فِي الْحَيَاةِ الدُّنْيَا وَيَوْمَ يَقُومُ الْأَشْهَادُ "یقین رکھو کہ ہم اپنے پیغمبروں اور ایمان لانے والوں کی دنیوی زندگی میں بھی مدد کرتے ہیں اور اس دن بھی کریں گے جب گواہی دینے والے کھڑے ہوں گے" (غافر:51)۔
سوریا الشام کے صابر اور مخلص مسلمانو! ہم آپ کو یاد دہانی کراتے ہیں کہ مسلمان کبھی عددی قوت کی کمی یا سامان جنگ کی قلت کی وجہ سے مغلوب نہیں ہوئے۔ ان کی مغلوبیت کی ایک ہی وجہ ہوتی ہے کہ ان کے اندر ایمانی کمزوری آجائے اور آپس میں پھوٹ پڑ جائے۔ ہمارے لئے تو رسول اللہﷺ اور آپﷺ کے اصحاب بہتر ین نمونہ ہیں۔ وہ سختیوں کے وقت صرف اللہ وحدہ کی طرف متوجہ ہوتے تھے۔ ان حالات میں ہم صرف اتنا کہنے پر اکتفا کرتے ہیں کہ ہم اللہ اور اس کے رسولﷺ اور امت کےساتھ مخلص لوگوں سے مطالبہ کرتے ہیں کہ وہ اللہ کے دین پر متحد ہوجائیں، تاکہ اللہ صرف ہماری مدد کرے۔ کیونکہ نصرت اور کامیابی صرف اسی کے ہاتھ میں ہے، وہی طاقت ور اور قدرت والا ہے، وہ بے پروا ہے، وہی ناصر ہے وہی عزت دینے والا اور ذلت دینے والا ہے وہی ہے کہ جسے چاہے حکومت دے اور جس سے چاہے لے لے۔ مگر نصرت کی شرائط ہیں جو ہمیشہ ایک رہی ہیں جو نہ تو پہلے زمانے میں حنین میں بدلے تھے جب مسلمانوں کو اپنی کثرت پر ناز ہوا تھا، تو اللہ تعالیٰ نے ان کو پسپائی سے دوچار کیا اور نہ ہی اُحد کے دن جب کچھ صحابہ رسول اللہﷺ کے امر پر پورا نہیں اترے تھے تو ان کی ہوا اکھڑ گئی تھی ۔
اور جنگجو دھڑوں میں سے مخلص لوگوں سے ہم کہتے ہیں: کہ صلیبی اتحاد کے یہ حملے جیسا کہ ہم نے پہلے کہا اس زمین بوس ہونے والی حکومت کو سہار ا دینے اور اس امریکی حل کے نفاذ کے لئے ہورہے ہیں جو امریکہ کے پسندیدہ سیاسی حل تک لے جائے گا۔ اس لئے تمہارے اوپر لازم ہے کہ اپنی صفوں میں وحدت پیدا کرو اور اس سے پہلے کہ امریکہ اپنے اہداف کو حاصل کرے اپنے حملوں کواس طور پر منظم کرو کہ اس نظام کو گرجانے کی سمت لے جائیں۔ ایک کا م یہ کرو کہ ادھر ادھر کے فرنٹ بنا کراپنی کوششوں اور قوت کو منتشر نہ ہونے دواور آپس میں نہ لڑو، کیونکہ یہی (انتشار) وہ چیز ہے جو حکومت اور صلیبی اتحاد کی خواہش ہے ۔ سو خدا را ہماری جانوں ہمارے آباؤجداد، ہماری ماؤں، بچوں اور عورتوں پر ترس کرو اور اللہ کے دین پر بھروسہ کرواور اللہ کے صراط مستقیم پر چل کر اپنے المیوں میں کمی لاؤ۔ یہی اللہ کی طرف سب سے قریب ترین اور نزدیک راستہ ہے۔ شرع نے جو بتا یا ہے وہ بالکل روشن اور واضح ہے اور شام یا دنیا کے دیگر ممالک میں مسلمان جن حالات سے گزر رہے ہیں، اس سے امید کی جاتی ہے کہ جلد تبدیلی آنے والی ہے۔
﴿وَأَنَّ هَذَا صِرَاطِي مُسْتَقِيمًا فَاتَّبِعُوهُ وَلَا تَتَّبِعُوا السُّبُلَ فَتَفَرَّقَ بِكُمْ عَنْ سَبِيلِهِ ذَلِكُمْ وَصَّاكُمْ بِهِ لَعَلَّكُمْ تَتَّقُونَ﴾.
"اور ( اے پیغمبر! اِن سے ) یہ بھی کہو کہ یہ میرا سیدھا سیدھا راستہ ہے، لہٰذا اس کے پیچھے چلو، اور دوسرے راستوں کے پیچھے نہ پڑو ورنہ تمہیں اللہ کے راستے سے الگ کردیں گے۔ لوگو! یہ باتیں ہیں جن کی اللہ نے تاکید کی ہے تاکہ تم متقی بنو" (الانعام:153)۔
ہجری تاریخ :
عیسوی تاریخ : جمعرات, 25 ستمبر 2014م
حزب التحرير