الأربعاء، 16 صَفر 1446| 2024/08/21
Saat: (M.M.T)
Menu
القائمة الرئيسية
القائمة الرئيسية

معزز بھائیو: القدس کی آزادی باتوں سے نہیں بلکہ مسلم افواج کی صیہونی ریاست سے جنگ کے ذریعے ہی ممکن ہے

 

آج دو دن کی لاحاصل اور بے مقصد بحثوں کے بعد28 مارچ 2010ئ کو عرب حکمرانوں نے اپنی بائیسویںسمٹ کانفرنس کا اختتام سِرت ، لیبیائ میںکیا۔ جس سے پہلے 25 اور26مارچ کو ان کے وزرائِ خارجہ نے نے بھی اس کی تیاری کیلئے ملاقاتیں کی تھیںاور اس کانفرنس کیلئے ایجنڈا مرتب کیا تھا۔اس سمٹ کانفرنس میں جو قراردادیں پاس ہوئیںوہ ما ضی کی طرح قدیم اور جدید استعاروں سے بھری پڑی تھیں جیسا کہ ، 'امن process‘، 'عرب ۔اسرائیلی تصادم ‘(Arab Israeli conflict)، 'عرب کا پہل کرنے کا اقدام‘﴿the arab initiative﴾،حرمِ ابراہیم اور مسجدِ بلال کو کھولنے سے اسرائیل کا انکاراسکے ساتھ ساتھ نئی آبادکاریوں سے باز آنے سے یہودیوں کا انکار اور اس کے مزاکرات پر واسطہ یا بالواسطہ اثرات....عراق اور امارات میں صورتحال، سوڈان، سومالیہ اور کمورس کے جزائر میں امن اور ترقی کی حمایت، اور خطے کو ایٹمی ہتھیاروں سے پاک کرنا وغیرہ وغیرہ ....اور اس کے بعد مزید ایک اورسمٹ کانفرنس کیلئے ایک اضافی قراردادبھی منظور کی گئی جس میں یہ حکمران صرف میل جول اور ایک دوسرے کو شاباشیاں دیں گے۔ یہ سب بے وقعت اور بے مقصد قراردادیں ہیںجو اصل مسئلہ کو حل نہیں کرتیں بلکہ اسے اور الجھا دیتی ہیں اور یہ صرف فضولیات ہیں جن کا کوئی مطلب نہیں ۔ یہاں تک کہ سمٹ کے اختتام پر اعلامیہ بھی جلدی جلدی پڑھ دیا گیا جیسے شائد یہ حکمران اس سے شرمندہ تھے۔

بہر حال وزرائِ خارجہ کی ابتدائی ملاقاتوں سے سمٹ کانفرنس کے اعلامیہ تک دو نکات توجہ طلب ہیں۔

 

پہلا یہ کہ برطانوی ایجنٹ پوری محنت کے ساتھ عرب لیگ کی قراردادوں کو متاثر اور کنٹرول کرنی کی کوششوں میں مصروف تھے۔ یمن نے عرب لیگ کی جگہ عر ب یونین بنانے کی تجویز پیش کی اور جس طرح لبنانی صدر اور اس کے وفد نے فوراً اس کا خیر مقدم کیا اس سے واضح تھا کہ ان کا اس پر پہلے سے گٹھ جوڑ تھا۔ اور پھر قذافی نے کہا کہ اس پر اتفاقِ رائے ہے، دوسری طرف قذافی نے سمٹ کا صدر ہونے کی حیثیت سے عرب لیگ کے سیکرٹری جنرل کے احتساب اور خاص سمٹ کانفرنسیں طلب کرنے کے اختیارات کا بھی مطالبہ کیا۔ اس سب سے واضح ہوتا ہے کہ برطانیہ اپنے ایجنٹوں کے ذریعے عرب لیگ کا متبادل ڈھونڈنے کی کوشش کر رہا ہے یعنی عرب لیگ کی جگہ وہ کچھ اور قائم کر سکے، اور وہ اسلئے کہ عرب لیگ جسے 22مارچ 1945ئ کو برطانیہ نے قائم کیا تھا پچھلے کچھ سالوں میں امریکہ کی دستِ راست بن چکی ہے جو کہ عرب لیگ کی قراردادوں سے واضح ہے.... عرب لیگ کا مرکز قاہرہ میں ہے اور مصرکا صدر امریکی ایجنٹ ہے ، وہ سپر وائزر کی حیثیت سے عرب لیگ اور سیکرٹری جنرل دونوں کی رکھوالی کرتا ہے۔اگر چہ برطانیہ اور اس کے ایجنٹ کوششیں کررہے ہیں لیکن اس کے باوجود ان کی کامیابی کے امکانات کم ہیں، بلکہ زیادہ امکان تو اس بات کا ہے کہ یہ کوششیں صرف پانی کی گہرائی کا اندازہ لگانے کیلئے ہیں کہ دیکھیں کیا نتیجہ نکلتا ہے تاکہ اس کے مطابق آئندہ اقدامات اٹھائے جا سکیں۔

 

دوسرا موضوع القدس کا ہے ، قراردادوں نے کم از کم اس مو ضوع پر بات ضرور کی ہے جس کی بنائ پر پوری کانفرنس اس شیریں زبانی سے لطف اندوز ہوئی.....کانفرنس میں فاتحانہ انداز میں دعوہ کیاگیا کہ انہوں نے القدس کو آزاد کروانے کا منصونہ تشکیل دے دیا ہے جس کی بنیادتین ستونوں پر ہو گی، سیاسی، قانونی اور مالیاتی.....تو انہوں نے اقوامِ متحدہ سے مطالبہ کیا کہ وہ اپنی ذمہ داریاں نبھائے اور عرب۔اسرائیلی تنازعہ ختم کروانے کیلئے مناسب اقدامات اٹھائے ۔پھر انہوں نے فیصلہ کیا کہ وہ بیت المقدس میں اسرائیل کی طرف سے کئے جانے والے مظالم کے خلاف عالمی عدالت میں جائیں گے۔ انہوں نے یہ فیصلہ بھی کیا کہ وہ القدس کو 50کروڑ ڈالر کی رقم بھی دیں گے تاکہ وہ اسرائیل کے نئے آبادکاری کے منصوبوں کا مقابلہ کر سکیں۔اور انہوں نے عرب لیگ کی سربراہی میں القدس کیلئے ایک بااختیار کمشنر کوتائنات کرنے کا فیصلہ بھی کیا۔اور سب سے اہم ان سب حکمرانوں نے القدس کے ساتھ اپنی محبت جتانے اور الاقصیٰ کی قدر دانی کیلئے ایک دوسرے پر سبقت لیجانے کی سر توڑ کوششیں کیں ۔کانفرنس سے پہلے ہونے والی وزرائ کی ملاقات میں ، مصر کے وزیر خارجہ نے اپنے ہم عصروں سے سبقت لیجانے کی کوشش کی اور کہا کہ مصر نے کانفرنس کا نام ''القدس کانفرنس ‘‘رکھنے کی تجویز دی تھی تو عرب لیگ کیلئے شام کے مستقل نمائندے نے احتجاج کیا کہ نہیں بلکہ یہ اس کے ملک نے دوسرے عرب ممالک کے وزرائ خارجہ سے ایسا کرنے کا مطالبہ کیا تھا کہ وہ اس کانفرنس کا نام القدس کانفرنس رکھ دیں....پس عربوں کا سکور برابر رہا، چاہے وہ میانہ رو ہوں یا نہیں۔ بلاشبہ امریکیوں نے اردگان کیلئے اس خطے میں بے باکی اور جوشیلی تقاریر کرنے کا کردار چن رکھا ہے، جس کی بدولت اس نے القدس اور اس کے تقدس کے بارے میں وہ باتیں کی ہیں جو عرب بھی نہیں کر سکے۔اور اگر اشکینازی، جو یہودی فوج کا سربراہ ہے، ابھی کل ہی اردگان کی پیشکش پر ترقی میں ایک ملٹری کانفرنس میں شامل نہ ہوا ہوتا تو لوگوں نے اس کی دھواں دار تقریر کو یہودی ریاست کے خلاف اعلانِ جنگ سمجھ لینا تھا

 

اے لوگو ! ان حکمرانوں کے دماغ ہیں لیکن یہ سوچتے نہیں، ان کے کان ہیں لیکن یہ سنتے نہیں، ان کی آنکھیں ہیں لیکن یہ دیکھتے نہیں؛ یہ اندھے ہیں، آنکھوں سے نہیں بلکہ یہ دلوں سے اندھے ہیں جو ان کے سینوں میں ہیں! کیا القدس کو ایک ایسا کمشنر آزاد کروا سکتا ہے جس کے پاس خود کوئی اختیار نہیں؟ کیا اقوامِ متحدہ کو اسے آزاد کروانے کا کہنے سے یہ آزاد ہو سکتا ہے جس نے خوداس یہودی ریاست کو فلسطین مین قائم کیا؟اور کیا اسے عالمی عدالت کے ذریعے آزاد کروایا جا سکتا ہے جو نہ تو بھلائی کو حکم دیتی ہے اور نہ ہی منکر کو روکتی ہے؟کیا القدس کی شان میں یہ گرما گر م تقاریر اسے آزاد کروا سکتی ہیں جبکہ ان کا مقرر اپنے ملک میں یہودی سفارت خانے کا افتتاح کر رہا ہو اور القدس کے قاتلوں کی میزبانی کر رہا ہو؟

 

اے لوگو ! تمہارے درمیان وہ لوگ موجود ہیں جو کہتے ہیں کہ اگر یہ حکمران مقبوضہ فلسطین سے ناطہ توڑ بھی لیں تو بھی وہ الاقصیٰ اور القدس کو نہیں چھوڑیں گے ، اپنے تقوے کی وجہ سے نہ بھی ہو تو کم از کم شرم کی وجہ سے ہی......لیکن یہ القدس ہے جو نہ صرف ہر طرف سے ڈسا جا رہا ہے بلکہ اس کے دل پر بھی وار ہو رہا ہے، اس کے گنبد پر ، اس کی مسجد پر ، یہودی اس میں ہر طرف سے داخل ہو چکے ہیں، انہوں نے اس کے نیچے سے زمین کھود ڈالی ہے اور اس کے تقدس کو پامال کر دیا ہے۔انہوں نے اس کے آگے اورپیچھے آبادیاں بنا لی ہیں ۔ اس سے بڑھ کر یہ کہ انہوںنے کانفرنس کے افتتاح کی رات غزہ کے اوپر جارہانہ حملہ کیا اورارعلان کیا کہ انکی نئی آبادکاری کی پالیسی کسی تبدیلی کے بغیر جاری رہے گی، اور یہ حکمران اپنی ملاقاتوں، مارکبادوں ، کھانوں اور قہقہوں کے دوران چپ سادھے یہ سب دیکھتے اور سنتے رہے۔

 

ا ے مسلمانو! بے شک القدس کو صرف ایک ایسا حکمران ہی آزاد کروا سکتا ہے جو اپنے خالق اللہ سبحانہ و تعالیٰ کے ساتھ مخلص ہو اور اللہ کے رسول ﷺ کے ساتھ سچا ہو، جو مسلم افواج کی کما ن سنبھالے گا اور تمام اہل لوگوں کو اس میں جمع کرے گا.......اسے ایک مضبوط اور متقی حکمران ہی آزاد کروا سکتا ہے جس میں عمرالفاروق (رض) جیسی خوبیاں ہوںجس نے القدس کو ہجرت کے پندرہویں سال میں آزاد کروایا تھا، وہ ایک ایسا حکمران ہو گا جوعمر الفاروق کے قول کو پورا کرے جس نے کہا تھا کہ القدس میں کوئی یہودی آباد نہیں ہو سکے گا۔ایسے حکمران میں صلاح الدین کی خوبیاں ہو ں گی جس نے القدس کو 583ھ میںصلیبیوں کی غلاظت سے پاک کیا تھا اور وہ قاضی محی الدین جیسا ہو گا جس نے القدس کی آزادی کے بعد پہلے جُمع کے خطبے میں اس اٰیت کی تلاوت کی تھی:


﴿فَقُطِعَ دَابِرُ الْقَوْمِ الَّذِينَ ظَلَمُوا وَالْحَمْدُ لِلَّهِ رَبِّ الْعَالَمِينَ
پھر ان ظالموں کی جڑ کاٹ دی گئی اور اللہ ہی کیلئے سب تعریف ہے جو تمام جہانوں کا پالنے والا ہے۔ ﴿الانعام۔45:6﴾

 

ایسا حکمران سلطان عبدالحمید دوئم کی خصوصیات کا حامل ہو گا جس نے القدس کی حفاظت کی اور ہرٹزل اور اس کے ہواریوں کو 1901میںفلسطین کی زمین دینے سے انکار کر دیا، حالانکہ وہ اسکیلئے حکومت کے خزانے کو ایک خطیر رقم بھی دینے کو تیار تھے۔اس نے کہا تھا، ''فلسطین میری ملکیت نہیں ، بلکہ یہ اس کی ملکیت ان لوگوں کو پاس ہے جنہوں نے اسکیلئے اپنا خون دیا ہے۔ یہودی اپنے اربوں روپے اپنے پاس رکھیں، مجھے اپنے جسم سے ایک خنجر کو آر پار کرنا زیادہ آسان ہے بجائے اس کے کہ میں فلسطین کو اپنی ریاست سے الگ ہوتا دیکھوں۔ ایسا کبھی نہیں ہو گا۔‘‘

 

ان یہودیوں کے شکنجے سے القدس مسلم افواج ہی آزاد کروائیں گی جب وہ ان پر وہاں سے حملہ کریں گی جہاں سے یہ کبھی سوچ بھی نہیں سکتے اور ان پر ایک ایسا حملہ کریں گی کہ یہ شیطان کی سب سر گوشیاں بھول جائیں گے اور مسلم افواج کے لشکر دونوں میں سے ایک رحمت کی طرف دوڑیں گے: فتح یا شہادت، جیسا کہ اللہ سبحانہ و تعالیٰ نے فرمایا کہ:

 

﴿فَإِمَّا تَثْقَفَنَّهُمْ فِي الْحَرْبِ فَشَرِّدْ بِهِمْ مَنْ خَلْفَهُمْ لَعَلَّهُمْ يَذَّكَّرُونَ﴾
اور اگر تم ان پر جنگ میں غلبہ پا لو تو انہیں ایسی سخت سزا دو کہ ان کے پچھلے دیکھ کر بھاگ جائیں ، تاکہ انہیں عبرت ہو۔ ﴿الانفال۔57:8﴾

 

﴿واخرجوھم من حیث اخرجوکم﴾....
اور انہیں نکال دو جہاں سے انہوں نے تمہیں نکالا ہے.... ﴿البقرہ۔191:2﴾

اے مسلمانو !یہ ایسے ہو گا۔

اے مسلم افواج کے جوانو!

اس سے اعتراض کرنے والوں کے پاس کوئی چارہ نہیں ،اور اس عذر کی کوئی گنجائش نہیں، تو ایسا نہ کہو کہ یہ حکمران تمہیں روک رہے ہیں ، بلکہ طاقت تو تمہارے ہاتھوں میں ہے، دراصل یہ تم ہو جو انہیں تحفظ دیتے ہو ان کی گردنوں کے پھندے تو تمہارے ہاتھوں میں ہیں۔ اگر تم ان کے اطاعت کرو گے تو تم گناہگار اور حد سے گزرنے والے ہو جائو گے اور رسول اللہﷺ کے حوص کوثر پر نہیں جا پائو گے۔ اور اگر تم نے ان کے جرم میں ان کی معاونت نہ کی اور ان کے جھوٹ کا اعتبار نہ کیا تو رسول اللہ ﷺ تم میں ہوں گے اور تم حوص کوثر تک پہنچ جائو گے، اور اچھائی کا صلہ تو صرف اچھائی ہے۔ ترمزی میں کعب ابن عجرہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:

 

اعذک باللہ یا کعب بن عجرہ من امرائ یکونون من بعدی فمن غشی ابوابھم فصدقھم فی کذ بھم و أعائھم علی ظلمھم فلیس منی ولست منہ ولا یرد علی الحوض ومن غشی ابوابھم فلم یصدقھم فی کذبھم ولم یعنھم علی ظلمھم فھو منی و انا منہ و سیرد علی الحوض
'' میں تمہارے لئے بیوقوف کی حکمرانی کی اللہ سے پناہ مانگتا ہوں۔‘‘ پوچھا کہ وہ کون ہوں گے تو رسول اللہ ﷺ نے فرمایا ، ''میرے بعد ایسے حکمران آئیں گے جن کے جھوٹ پر یقین کیا جائے گا اور ان کے فرمانبردار ان کے جبر میں ان کی مدد کریں گے۔ وہ مجھ سے نہیں اور میں ان میں سے نہیںاور وہ کبھی حوص کوثر پر میرے پاس نہ آ سکیں گے۔ لیکن جنہوں نے ان کی فرمانبرداری نہ کی ، اور ان کے جھوٹ پر یقین نہ کیا اور نہ ہی ان کے جبر میں ان کی مدد کی وہ مجھ سے ہیں اور میں ان سے ہوں اور وہ حوص کوثر پر مجھ سے ملاقات کریں گے۔‘‘

 

اے مسلم افواج کے جوانو!

خلافت کے قیام میںحزب التحریر تمہاری مدد کر رہی ہے تو تم بھی اس کی مدد کرو اور یہودیوں سے جہاد کیلئے وہ تمہیں پکار رہی ہے تو اس کی پکار پر اٹھ کھڑ ے ہو، یہود سے لڑنا تو مقرر ہے، اللہ سبحانہ و تعالیٰ قراٰن میں فرماتے ہیں:

 

﴿فاذا جائ وعد الاخرۃ لیسو عوا وجوحکم ولید خلو ا المسجد کما دخلوہ اول مرۃ ولیثبروا ما علو تثبیرا عسی ربکم ان یر حمکم و ان عدتم عد تا وجعلنا جھنم للکافرین حصیرا﴾
مسلم میں ابن عمر (رض) سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا،

لتُقا تِلُنَّ ال،یَھُودَ فَلَتَق،تُلُنَّھُم، حَتَّی یَقُولَ ال،حَجَرُ یَا مُس،لِمُ ھَذا یَھُودِیَّ فتَعَالَ فَاق،تُل،ہُ
''اور تم ضرور یہود سے جہاد کرو گے حتیٰ کہ پتھر کہے گا: اے مسلمان، یہا ں ایک یہودی ہے آئو اور اسے قتل کر دو‘‘

 

کیا تم میں کوئی عقلمند آدمی ہے جو اپنے جوانوں کے ساتھ اٹھے اور اپنے راستے میں رکاوٹ بننے والے سب حکمرانوں کو روندھتا ہوااسلام کے حکم کو نافذ کرے، یعنی رسول اللہ ﷺ کے طریقے پر خلافت، اور یوںالاقصیٰ کو آزاد کروائے اور پھراسے یہودیوں کے ناپاک ہاتھوں سے آزاد کروانے کے بعد اپنے پہلے خطبے میںوہ کہے جو قاضی محی الدین نے کہا تھا:

 

﴿فَقُطِعَ دَابِرُ الْقَوْمِ الَّذِينَ ظَلَمُوا وَالْحَمْدُ لِلَّهِ رَبِّ الْعَالَمِينَ﴾
پھر ان ظالموں کی جڑ کاٹ دی گئی اور اللہ ہی کیلئے سب تعریف ہے جو تمام جہانوں کا پالنے والا ہے۔ ﴿الانعام۔45:6﴾

 

اللہ سبحانہ و تعالیٰ اس کا ذکراپنے ساتھ والوں سے کریں گے، اور جنتوں میں اس کے ساتھ اللہ کے ملائکہ ہوں گے اوردنیا میں اس کے ساتھ مو منین ہوں گے، اس سے اس دنیا میں بھی محبت کی جائے گی اور آخرت میں بھی، اور بے شک یہی اصل کامیابی ہے۔

 

﴿يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُواْ اسْتَجِيبُواْ لِلّهِ وَلِلرَّسُولِ إِذَا دَعَاكُم لِمَا يُحْيِيكُمْ وَاعْلَمُوا أَنَّ اللَّهَ يَحُولُ بَيْنَ الْمَرْءِ وَقَلْبِهِ وَأَنَّهُ إِلَيْهِ تُحْشَرُونَ ﴾
''اے ایمان والو! اللہ اور اس کے رسول ﷺ کی آواز پر لبیک کہو جس وقت وہ تمہیں اس کا م کی طرف بلائیں جس میں تمہارے لئے زندگی ہے اور جان لو کہ اللہ آدمی اور اس کے دل کے درمیان آڑ بن جاتا ہے اور بیشک اسی کی طرف تم سب جمع کئے جائو گے۔ ﴿الانفال8 :24﴾

Read more...

لندن کانفرنس - امریکہ اور برطانیہ سرزمینِ یمن پر اپنا اثرورسوخ مضبوط کرنے کیلئے ایک دوسرے سے لڑ رہے ہیں

 

برطانوی وزیر اعظم نے یکم جنوری 2010کو یمن کی صورتحال پر غور کرنے اور جنم لینے والے بحران سے نکلنے میں یمن کی مدد کے نام پر لندن میں کانفرنس طلب کی۔ جو آج یعنی 27جنوری 2010ئ کو منعقد ہوئی ،جس میں 21ممالک نے شرکت کی اور یہ کانفرنس دو گھنٹے جاری رہی۔ اس کانفرنس میں القائدہ کے خلاف جنگ میں یمن کی مدد اور اسکے ساتھ ساتھ ترقیاتی معاونت، اقتصادی اور سیاسی اصلاحات کے نفاذ میں مدد اور IMFکیساتھ مذاکرات اورجامع مفاد کے حصول میں مدد کے متعلق قرارداد یں اور میڈیا بیانات جاری کیے گئے۔

 

یمن میں حالیہ واقعات اور موجودہ حالات پر نظر رکھنے والا شخص اس بات کو محسوس کرسکتاہے کہ ان قراردادوں کی ظاہری مک دمک نے درپردہ طے پانے والی حقیقی اور موثر قراردادوں کو چھپا دیا ہے۔ اور وہ یہ بھی دیکھ سکتا ہے کہ امریکہ و برطانیہ کویمن پر وسیع اختیار حاصل ہیں اور اس کانفرنس کے انعقاد کے پسِ پردہ ان کے اپنے مفادات اور ایجنڈا ہے اور وہ اس کانفرنس سے مخصوص نتائج حاصل کرنا چاہتے ہیں۔

 

یمن میں برطانوی اثررسوخ کے قیام سے لے کر آج تک ، خصوصاً موجودہ حکومت کے دور میں ، امریکہ یمن میں حالات کو غیر مستحکم کرنے اور اپنے دیرینہ نقطہ نظر کو نئی شکل میں مسلط کرنے کیلئے کئی کوششیں کر چکا ہے ۔ امریکہ اپنے آپ کو دم توڑتی برطانوی سلطنت کا فطری جانشین سمجھتا ہے اور اس بات کو اپنا حق سمجھتا ہے کہ وہ پرانی اور کمزور برطانوی سلطنت کی سابقہ کالونیوں پر اپنی مرضی چلائے۔ پس وہ برطانیہ کے بجائے اپنے آپ کو یمن کا حقیقی مالک سمجھتا ہے۔ یہ الگ بات ہے کہ برطانیہ کے ساتھ وفاداری کے باوجودیمن کی موجودہ حکومت بڑی حد تک یا مکمل طور پرامریکہ کے ہاتھوں کٹھ پتلی بنی ہوئی ہے اور امریکہ کی وفادار ہے، پس امریکہ جسے قتل کرانا چاہتا ہے یہ حکومت اسے قتل کرتی ہے ،اور امریکہ جسے گرفتار کرانا چاہتا ہے یہ اسے ہتھکڑیاں لگا دیتی ہے،امریکہ جسے ملک بدر کرنا چاہے یہ اسے ملک بدر کردیتی ہے اور امریکہ جسے غائب کرانے کی خواہش ظاہر کرے ،یہ اسے غائب کردیتی ہے...تاہم یمن میں امریکہ کے پاس کوئی ایسا قدآور سیاست دان نہیں ہے جسے امریکہ کندھا دے کر مسندِاقتدارتک پہنچا سکے اوربرطانوی اثر رسوخ کو لگام دے کر یمن میں اپنے اثرورسوخ کو مضبوط بنیادیں فراہم کر سکے ۔ چنانچہ امریکہ نے دو کاموں پر اپنی توجہ مرکوز کی ہے:

 

یمن کی حکومت کو دھمکانے کے لیے تھریٹ بٹالین(Threat Battalions) اور امریکہ نواز درمیانے درجے کی سیاسی قیادت کی تربیت(Training Battalions)۔

 

جہاں تک تھریٹ بٹالین(Threat Battalions) کا تعلق ہے توایران کویہ ذمہ داری سونپی گئی ہے کہ وہ حوثیوں (Houthis)کو مدد فراہم کرے۔ پس یہ صورتِ حال ایک ٹِک ٹِک کرتے ٹائم بم کی شکل اختیار کر چکی ہے جو کہ ضرورت پڑنے پر سعودی عرب کے قریب شمالی یمن میں کسی بھی وقت پھٹ سکتا ہے...ہم نے حوثیوں(Houthis) کو'تھریٹ بٹالین‘ قرار دیاہے کیونکہ یہ یمن کے اقتدار پر قابض ہونے کیلئے کام نہیں کررہے بلکہ یہ علاقے میں اپنی پوزیشن کو مستحکم بنانے کے لیے کا م کر رہے ہیں۔

 

جہاں تک ٹر یننگ بٹالین(Training Battalions) یا امریکہ نوازمِڈ لیول سیاستدانوں کا تعلق ہے تو یہ جنوبی یمن میں ایک مسلسل تحریک ہے ،تاکہ امریکی ایجنڈے کے پہلے قدم کے طور پر جنوبی یمن کو شمالی یمن سے علیحدہ کیا جائے، اور پھر پورے یمن پر امریکی اثررسوخ کو مستحکم کیا جائے۔ ہم نے انہیں ٹر یننگ بٹالین(Training Battalions) کا نام اس لئے دیا ہے کہ ان درمیانے درجے کے سیاست دانوںکو ان کی ٹاپ لیڈرشپ کے خاتمے کے بعد پروان چڑھایا جا رہا ہے اور انہیںاشتعال و عدم استحکام پیدا کرنے کی تربیت دی جارہی ہے۔

 

امریکہ ان دونوں کاموں میں کامیاب رہا ہے کیونکہ اس نے جنو ب میں حکومت کے ظلم سے فائدہ اٹھایا اور سیاسی لحاظ سے حکومت کو کارنر کیا۔ اور پھر حوثیوں کو انکی تشریح اور اسلامی افکار کی تبنی کے مطابق احکامِ شریعہ پر عمل کرنے سے روکا گیا۔ اسی مقصد کے تحت حکمرانوں نے یمن میں احسن طریقے سے شرعی احکامات کو نافذ نہ کرنے میں رضامندی اور تعاون کا رستہ اپنایا۔ یمنی حکومت نے نرم اور قابل قبول فضا بنانے میں امریکہ کا ساتھ دیا جس کے نتیجے میں امریکہ شمال میں تھریٹ بٹالین اور جنوب میں ٹر یننگ بٹالین کو پھیلانے کے قابل ہوا۔ تاہم یہ صورتِحال حکومت کی گردن پر اس حد تک سوار ہو گئی کہ برطانیہ اس امر پر مجبور ہو گیا کہ وہ دو محاذوں پر 'ہنگامی‘ اقدامات کرے۔

 

اول : ایک امن معاہدہ کے ذریعہ امریکہ کو خوش کرنا اور حکومت کیلئے اسکی خاموش حمایت حاصل کرنا۔ 10اور 11نومبر 2009 کو صنعائ میں عسکری اور دفاعی قیادت کے مذاکرات کے بعد یمن اور امریکہ ایک امن اور دفاعی ﴿عسکری﴾ معاہدے پر پہنچ گئے۔ یہ معاہدہ عسکری اور دفاعی معاملات میں تعاون اور دونوں میدانوں میں معلومات اور مہارت کے تبادلے کی بات کرتا ہے۔ اس معاہدہ کا اعلان یمن کی افواج کے چیف آف سٹاف بریگیڈیئر جنرل احمد علی اوریوایس جوائنٹ کمانڈکے پلاننگ کے ڈائریکٹر جیفری سمتھ کے درمیان گفت وشنیدکے بعد کیا گیا۔

 

دوم: القائدہ کی روک تھام کرنا اور اس سے لڑنا! حکومت کافی عرصہ سے القائدہ کے لوگوں کو جانتی تھی لیکن وہ انکی موجودگی کے متعلق خاموش رہی، کیونکہ حکومت حوثیوں اور جنوبیوں کے ساتھ لڑائی ک ساتھ ساتھ ایک تیسرا محاذ کھول کر اپنی مشکلات بڑھانا نہیں چاہتی تھی ۔ حکومت القائدہ کے بارے میں اس وقت تک خاموش رہی جب تک برطانیہ نے اسکے دوسرے پہلو پر نہیں سوچا ۔ برطانیہ جانتا ہے کہ امریکہ القائدہ کے بارے میں حساس ہے اور اگر یمن کی حکومت القائدہ سے لڑے گی تو امریکہ یمن کی مدد کرنے پر مجبور ہوجائیگا اور شمال اور جنوب سے پڑنے والا دبائو کم ہوجائے گا۔ پس حکومت نے القا ئدہ کے ٹھکانوں پر حملہ کرنا شروع کر دیا ،جنہیں وہ پہلے سے جانتی تھی۔ القائدہ پر یہ حملہ اتفاقی نہیں تھا بلکہ یہ ایک غیر معمولی حملہ تھا۔ یمن کی حکومت شمال ﴿حوثیوں﴾اور جنوب میں دو محاذوں پر لڑرہی تھی، ایک تیسرا محاذ کھولنا غیر معمولی امر تھا جو کہ ایک سیاسی اقدام تھا ، جبکہ اس کا اظہار عسکری تھا۔ یہ قدم خالصتاً برطانوی ایما ئ اور ایجنڈے کے مطابق تھا۔

 

اس نازک موڑ پر برطانوی وزیراعظم نے لندن کانفرنس بلائی تاکہ القا ئدہ پر حملہ کرنے اور اس سے لڑنے کیلئے یمن کے حق میں بین الاقوامی حمایت اور مدد حاصل کی جائے۔ اور اس طرح امریکہ کو یمن کی حکومت کی مدد کرنے اور شمال اور جنوب سے دبائو کم کرنے پر مجبور کیا جاسکے۔ امریکہ کے پاس کانفرنس کی حمایت کے علاوہ کوئی چارہ نہیں تھا۔ لیکن ساتھ ہی امریکہ اپنے اثرورسوخ کو قائم کرنا چاہتا ہے اور اپنے سیاسی اتحادیوں کو خصوصاً جنوب میں مضبوط کرنا چاہتا ہے۔ اور حوثیوں کیلئے ایک ایسے حل کا متمنی ہے کہ امریکہ ان سے دور بھی ہوجائے اور ان سے قطع تعلق بھی نہ ہو ،تاکہ یہ تحریک چلتی رہے اور ضرورت پڑنے پر اسکو بڑھاکر ﴿ہوا دیکر﴾ اسکا فائدہ بھی اٹھایا جاسکے۔

 

کانفرنس کے دوران کیا ہوا: امریکہ اس بات پر زور دیتا رہا کہ القائدہ کے خلاف لڑنے میں یمن کی عسکری مدد کی جائے اور اسے لاجسٹک امداد دی جائے اور جنوبی اور شمالی علاقوں میں تحریکوں کیساتھ مذاکرات کرنے کیلئے یمن کے اوپر دبائو ڈالا جائے، جبکہ برطانیہ اس بات پر زور دے رہا تھا کہ شمالی اور جنوبی تحریکوں کا مقابلہ کرنے کیلئے یمن کی اقتصادی معاونت کی جائے اور اس کیلئے عالمی حمایت حاصل کی جائے۔ اور حوثیوں اور جنوبیوں کے خلاف مدد کے طور پر القائدہ کی نگرانی کی جائے۔ لہٰذا یہ کانفرنس مختلف ممالک کے نمائندوں کا دو گھنٹوں کیلئے کیمروں کے سامنے کھل کر مسکرانے کے علاوہ اور کچھ بھی نہ تھا۔ اور پھر برطانیہ اور امریکہ نے شرکائ میں سے اپنے اپنے حواری ممالک کو اپنے گرد اکٹھا کیا تاکہ یمن کے لوگوں کے خون کے بدلے اپنے اپنے ایجنڈے کو پورا کرسکیں!۔

 

اے مسلمانو!

 

آخر کب تک مسلمانوں کے علاقے بڑی متحارب اقوام کی آپس کی لڑائی کا میدانِ جنگ بنے رہیں گے اور یہاں کے بیٹوں کو اپنی جنگوں کیلئے ایندھن کے طور پراستعمال کرتے رہیں گے اور اپنے مفاد کی جنگوںکا لقمہ بناتے رہیں گے؟ آخر کب تک مسلمانوں کی زمینیں مغرب کیلئے کھیل کا میدان بنی رہیں گی ،کہ وہ انکی دولت لُوٹے اور مسلمانوں کا خون بہائے؟ آخر کب تک مسلمانوں کی زمینوں پر مغرب کی آگ اس کی مرضی اور خواہش کے مطابق بھڑکائی جاتی رہے گی؟ آخر کب تک یمن اور دیگر مسلمان ممالک کے حکمران بغیر کسی شرمندگی ،رکاوٹ اور مزاحمت کے ،شطرنج کے مہروں اور کٹھ پتلیوں کی طرح استعماری مغرب کے اشاروں پر ناچتے رہیں گے۔ کیا یمن کے عوام پر اب بھی وہ وقت نہیں آیا کہ وہ اس بات کا ادراک کرلیں کہ یہ یمن کی حکومت اور اسکا ظلم ہی ہے جس نے مغرب کو یمن میں اپنے ایجنڈے پر عمل کرنے ،یہاں کے لوگوں کو قتل کرنے اور ان کے اموال کو تباہ و بربادکرنے کے قابل بنایا ہے۔ اس کے باوجود حکمرانوں کو اپنی حکومت اور اپنا عہدہ بچانے کے علاوہ کسی چیز کی پرواہ نہیں ،خواہ یہ طاقت اور اقتدار کتنا ہی کمزور کیوں نہ ہو، اس حد تک کہ ان کی حکومت مفلوج ہوکر کسی بھی وقت گر سکتی ہے ۔

 

پچھلے دس سالوں میں اس جنگ کے دوران ہزاروں بلکہ لاکھوں لوگ یا تو قتل کردیے گئے یا معذور ہوچکے ہیںاور دونوں اطراف اس تباہی کا نشانہ مسلمان ہی ہیں،دونوں طرف کے لوگ اللہ کی معبودیت اور رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی رسالت کی گواہی دیتے ہیں ۔ کیا آپ اس بات کا ادراک نہیں کرتے کہ کسی مسلمان سے لڑنا انتہائی سنگین اور عظیم گناہ ہے اور ایک مسلمان کا ناجائز قتل اللہ سبحانہ وتعالیٰ کے نزدیک بہت شدید امر ہے ،یہاں تک کہ خانہ کعبہ کے گرانے سے بھی زیادہ شدید۔ ابن ماجہ نے عبیداللہ بن عمرو سے روایت کیا ہے، کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:

 

«مَا أَطْيَبَكِ وَأَطْيَبَ رِيحَكِ مَا أَعْظَمَكِ وَأَعْظَمَ حُرْمَتَكِ وَالَّذِي نَفْسُ مُحَمَّدٍ بِيَدِهِ لَحُرْمَةُ الْمُؤْمِنِ أَعْظَمُ عِنْدَ اللَّهِ حُرْمَةً مِنْكِ مَالِهِ وَدَمِهِ وَأَنْ نَظُنَّ بِهِ إِلَّا خَيْرًا»
''کتنا طیب ہے تو اور کتنی طیب تیری ہواہے ، کتنا عظیم ہے تو اور کتنی عظیم تیری حرمت ہے۔ لیکن اس ذات کی قسم کہ جس کے قبضۂ قدرت میں میری جان ہے، اللہ کی نظر میں ایک مومن ، اس کے خون اور اس کے مال کی حرمت تجھ سے بڑھ کر ہے ۔ اورہم اس کے متعلق خیر کے سوا اور کچھ گمان نہیں کرتے‘‘

 

ا بے شک برطانیہ اور امریکہ آپس کی جنگ لڑرہے ہیں اور یمنی حکومت کے تعاون اورلاجسٹک سپورٹ سے یہاں کے مقامی عناصر کو استعمال کررہے ہیں جبکہ جنوب میں علیحدگی پسند اور شمال میں حوثی نادانی میں دشمنوں کے ایجنڈے کو ہی مضبوط کر رہے ہیں،جبکہ وہ سمجھ رہے ہیں کہ وہ بھلائی کاکام کررہے ہیں۔

 

اے مسلمانو! ہمارامسئلہ دو ہراہے:

 

اول: مسلم ممالک کے حکمران نہ اپنے عوام کے امور کی دیکھ بھال کرتے نہ ہی وہ اپنے لوگوں کی پرواہ کرتے ہیں ۔ وہ نہ تواپنے لوگوں اور نہ ہی اپنے علاقوں پر ظلم ڈھانے پر اللہ تعالیٰ سے ڈرتے ہیں۔ اگر وہ سوچتے تو جان لیتے کہ اپنے لوگوں سے غداری کرنے والا اور انکے امور کی دیکھ بھال نہ کرنے والا حکمران جنت میں داخل نہیں ہوگا ، حتیٰ کہ وہ اسکی خوشبو سے بھی محروم رہے گا۔ بخاری نے روایت کیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:

 

«مَا مِنْ وَالٍ يَلِي رَعِيَّةً مِنْ الْمُسْلِمِينَ فَيَمُوتُ وَهُوَ غَاشٌّ لَهُمْ إِلَّا حَرَّمَ اللَّهُ عَلَيْهِ الْجَنَّةَ»
''کوئی بھی والی اس حال میں مرے کہ اس نے اپنے لوگوں سے غداری کی ہو، تواللہ اس پر جنت کو حرام کر یتا ہے‘‘۔ ﴿بخاری﴾

 

اور ایسا کوئی حکمران جو اپنے لوگوں کو دھوکہ دے اور ان سے غداری کرے ، اوران کے سامنے حق کو باطل اور باطل کو حق بنا کر دکھائے ،وہ اس چرواہے کی مانند ہے جو اپنے ہی ریوڑ کو موت اور تباہی کے دہانے پر پہنچا دے۔ امام احمد نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی یہ حدیث نقل کی ہے:

 

«إِنَّهَا سَتَأْتِي عَلَى النَّاسِ سِنُونَ خَدَّاعَةٌ يُصَدَّقُ فِيهَا الْكَاذِبُ وَيُكَذَّبُ فِيهَا الصَّادِقُ وَيُؤْتَمَنُ فِيهَا الْخَائِنُ وَيُخَوَّنُ فِيهَا الْأَمِينُ وَيَنْطِقُ فِيهَا الرُّوَيْبِضَةُ قِيلَ وَمَا الرُّوَيْبِضَةُ قَالَ السَّفِيهُ يَتَكَلَّمُ فِي أَمْرِ الْعَامَّةِ»
''لوگوں پر دھوکہ دہی کا ایک ایسا دور آئے گا کہ لوگ سچے کو جھٹلائیں گے اورجھوٹے کا یقین کریں گے ، امانت دار کو خائن سمجھا جائے گا اور خائن کو امانت دار سمجھا جائے گا،اور اس وقت رویبضۃ کا بول بلا ہو گا۔ پوچھا گیا کہ رویبضۃ کون ہو گا؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: گھٹیا اور قابلِ نفرت شخص جو لوگوں کے امور میں کلام کرے گا‘‘۔

 

ہمارا دوسرا مسئلہ جابر حکمرانوں کے سامنے امت کی خاموشی اور انکے خلاف آواز نہ اٹھانا اور انہیں نہ روکنا ہے۔ ایسا اس امر کے باوجود ہے کہ ان حکمرانوں نے امت پر ذلت مسلط کررکھی ہے ۔ ہم فلسطین ،کشمیر ،قبرص اور مشرقی تیمور کھو چکے ہیں،سوڈان علیحدگی کے دہانے پر ہے، عراق،افغانستان،پاکستان اور اب یمن مغرب کی آپس کی لڑائی کیلئے میدانِ جنگ بنے ہوئے ہیں، جبکہ ہمارے حکمران انکے آلہ کار ہیں ،اورمتحارب مغرب کے اتحادی ہیں۔ پس اس میں کوئی تعجب نہیں کہ عذاب نہ صرف حکمرانوں بلکہ عوام پربھی مسلط ہو، جنہوں نے خاموش رہ کر ظلم کو قبول کر لیاہے۔ اللہ سبحانہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا:

 

﴿وَاتَّقُواْ فِتْنَۃً لاَّ تُصِیْبَنَّ الَّذِیْنَ ظَلَمُواْ مِنْکُمْ خَآصَّۃً وَاعْلَمُواْ أَنَّ اللّہَ شَدِیْدُ الْعِقَاب﴾
''اور اُس فتنہ سے ڈرو جو تم میں سے صرف ظالموں پر ہی نہ پڑے گا اور جان لو کہ بے شک اللہ سخت عذاب دینے والا ہے۔‘‘﴿الأنفال:25﴾
احمد اور ابو داؤد نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت کیا ہے:

 

«إِنَّ النَّاسَ إِذَا رَأَوْا الْمُنْكَرَ بَيْنَهُمْ فَلَمْ يُنْكِرُوهُ يُوشِكُ أَنْ يَعُمَّهُمْ اللَّهُ بِعِقَابِهِ»
'' جب لوگ اپنے درمیان برائی ہوتادیکھیں اور اُسے روکنے کی کوشش نہ کریں تو کچھ بعید نہیں کہ اللہ اُن سب پر اپنا عذاب نازل کر دے‘‘

 

اے مسلمانو!

 

تاہم صبح اب قریب ہے اور نظر رکھنے والے اسکی روشنی دیکھ سکتے ہیں۔ یہ معاملہ صرف اسی طرح ٹھیک ہوگا جیسے اسلام کے پہلے دور میں ہواتھا، یعنی نبوت کے قدموں پر چلتے ہوئے خلافتِ راشدہ کے قیام کے ذریعے جو اللہ تعالیٰ کے نازل کردہ احکامات کے مطابق حکومت کرے گی ا ور اللہ کی راہ میں جہاد کرے گی۔ جس میں مسلمانوں کاحکمران خلیفۂ راشد ہوگا جو کہ ایک ڈھال کی مانند مسلمانوں کی حفاظت کرے گا اور مسلمان اس کی قیادت میں لڑیں گے۔ یہی ہے وہ ڈھال جو اپنے لوگوں کی حفاظت کرتی ہے اور انہیں عمدہ نصیحت کرتی ہے۔ پھر امریکہ ، برطانیہ اور انکی طرح کے دیگراستعماری کفارکوہم پر اور ہماری زمینوں پر حملہ آور ہونے اوراثر و رسوخ قائم کرنے کیلئے نہ تو وقت ہوگا اور نہ ہی موقع ، کیونکہ وہ اپنے علاقوں اور ممالک کو بچانے کے لیے واپس بھاگیں گے۔ لیکن وہ اسلام کے نور سے ''بھاگ‘‘ نہیں سکیں گے، کیونکہ اسلام کی روشنی پھیل کر انکے گھروں کی دہلیز پرپہنچ جائے گی۔

 

﴿وَاللّٰہُ غَالِبٌ عَلٰٓی أَمْرِہٰ وَلَ کِنَّ أَکْثَرَ النَّاسِ لاَ یَعْلَمُوْنَ﴾

''اور اللہ اپنے امر میں غالب ہے لیکن اکثر لوگ نہیں جانتے‘‘﴿یوسف: 21﴾

Read more...

افغانستان کے حکمرانوں کے نام کھلا خط

سلام ان پر جس نے اللہ کی ہدایت کی پیروی کی !

جزب التحریر ایک فکری اور سیاسی جماعت ہے جو کہ تمام اسلامی ممالک میں خلافت کے دوبارہ قیام کے لیے جدوجہد کر رہی ہے ۔ ۔ ۔

Read more...

اوباما اسلامی دنیا کے لئے شکر میں لپٹا ہوا زہر پیش کر رہا ہے

7اپریل 2009کو اوباما نے ترکی کا دورہ مکمل کر لیا۔ امریکی صدر اوباما کا یہ دورہ ظاہری طور پر خوش نمابیانات سے پُر تھا، کہ جن کے ذریعے اس نے یہ ثابت کر نے کی کو شش کی کہ وہ اسلام یا مسلمانوں کے ساتھ حالتِ جنگ میں نہیں ہے ،نیز ترکی امریکہ اور پوری دنیا کے لیے اہم ملک ہے کیونکہ وہ اسلامی دنیا اور مغرب کے درمیان پُل کا کام دے سکتا ہے۔ اُس نے اس بات پر بھی زور دیا کہ اسلامی دنیا کے ساتھ امریکہ کے تعلقات محض دہشت گردی کے خلاف لڑنے تک ہی محدود نہیں بلکہ یہ کئی دیگر امور پر مشتمل ہیں۔ اور اوبامااسلامی دنیا اور مغرب کے مابین ڈائیلاگ بنانے کی کوشش کرے گا ۔ ترک پارلیمنٹ کے سامنے اپنے خطاب اور ترکی میں ہونے والی دیگر ملاقاتوں اور کانفرنسو ں میں اوباما نے انہی خطوط پربات کی۔

Read more...

اوباما مسلمان ممالک کو "فتح " کر رہا ہے،اس نے ترکی سے آغاز کیا اور سعودی عرب کے بعد مصر پر اختتام کیا

اوباما کے دورۂ استنبول اور لوگوں سے خطاب کودوماہ بھی نہیں گزرے کہ اب اس نے مصر اور جزیرہ نما عرب کا رخ کیا ہے ۔ مصرکی حکومت نے جمعرات،4 جون 2009 کو اوباما کا ایساشاندار استقبال کیا کہ جیسے کسی فاتح کا استقبال کیا جاتا ہے ۔ 9 بجے صبح جب اس کا جہاز اترا ، بلکہ اس سے بھی قبل ائرپورٹ اور اس کے گردو نواح میں سیکیورٹی اتنی سخت تھی کہ جس کی ماضی میں مثال نہیں ملتی۔ سیکورٹی فورسز ہر طرف موجودتھیں اور کفر کے سردار ریاست ہائے متحدہ امریکہ کے صدر کو عالی شان پروٹوکو ل میسر تھا، جس کے ہاتھ ابھی بھی افغانستان، عراق اور پاکستان کے مسلمانوں کے خون سے رنگے ہوئے ہیں۔
مصرکی حکومت نے صدر اوباما کے لیے لمبا چوڑا کانوائے (convoy)تیار کیا تھا ، جسے ایلیٹ کیولری گارڈز نے ہر طرف سے گھیرے میں لے رکھا تھا ، نیز آرام دہ لیموزین اور موسیقی والے بینڈ بھی اس کانوائے کے ہم سفرتھے۔ مصرکے صدر نے صدارتی محل القبہ کے دروازوں پر اوباما کااستقبال کیا اور پھر اسے قاہرہ یونیورسٹی لے جایا گیا تاکہ وہ اس کے منبر پر چڑھے اور مسلمانوں سے خطاب کرے۔
(رض)آس حقیقت کے باوجودکہ اس کی تقریر کا مضمون سابق امریکی صدر کی پالیسیوںسے مختلف نہیں تھا ، خواہ وہ مسلمان ممالک کے خلاف امریکہ کی جنگیں ہوں ، یا فلسطین کا مسئلہ ہو، یا امریکہ کا یہودی ریاست سے خاص تعلق ہو، یا ایٹمی ہتھیاروں کا معاملہ ہو یا کوئی بھی چھوٹا یا بڑا مسئلہ ہو؛ اس کی تمام تر تقریر امریکی مفادات کے گرد گھومتی رہی اور تقریر کے دوران اس نے مسلم رائے عامہ پر اثر انداز ہونے کی کوشش کی تاکہ مسلمان اسلامی علاقوں پرمسلط امریکہ کی جنگوں کو اپنے حلق سے نیچے اتار لیں ۔
تاہم اوباما کی تقریر کا خاکہ سابق امریکی صد ر کی نسبت بظاہراًنرم اورخوشمنا تھا ، یہ یقینی طور پر عوامی تعلقات کی مشق تھی۔ اس تقریر سے اوباما کے اپنے اعتقادات اور دھوکہ دینے کے فن کا اندازہ ہوتا ہے،جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے قرآن میں ارشاد فرمایا:﴿ وَإِذَا رَأَيْتَهُمْ تُعْجِبُكَ أَجْسَامُهُمْ ۖ وَإِنْ يَقُولُوا تَسْمَعْ لِقَوْلِهِمْ ۖ كَأَنَّهُمْ خُشُبٌ مُسَنَّدَةٌ ۖ يَحْسَبُونَ كُلَّ صَيْحَةٍ عَلَيْهِمْ ۚ هُمُ الْعَدُوُّ فَاحْذَرْهُمْ ﴾ ''اور جب تم ان کو دیکھتے ہو تو ان کے جسم تمہیں بھلے معلوم ہوتے ہیں،اور جب وہ گفتگو کرتے ہیں تو تم توجہ سے ان کی بات سنتے ہو۔ گویا یہ لکڑیاں ہیں، سہارے سے لگائی ہوئیں، ﴿بزدل اتنے کہ﴾ ہر آواز پر سمجھیں کہ گویا ان پر کوئی مصیبت آپہنچی، یہ تمہارے دشمن ہیں ان سے بے خوف نہ رہنا‘‘﴿المنفقون: 4﴾
البتہ جہاںتک حساس اور اہم معاملات کا تعلق ہے تو اوباما کی تقریر واضح طور پرنوک دار اور جارحانہ تھی اور اس سے مسلم معاملات کے بارے میں غیر معذرت خوانہ دشمنی عیاں تھی۔ ﴿وَ مَا تُخْفِیْ صُدُوْرُھُمْ اَکْبَرُ ﴾ '' اور جو کچھ ان کے دلوں میں پوشیدہ ہے وہ تو اس سے بھی بڑھ کر ہے‘‘﴿اٰل عمرن: 118﴾
اس نے اپنی بات کا آغاز ان لوگوں کو دھمکانے سے کیا جنہیں وہ افغانستان اور پاکستان میں موجود ''دہشت گرد ‘‘کہتا ہے اور اس عزم کا اظہار کیا کہ وہ انہیں برداشت نہیں کرے گا اور اقوام سے مطالبہ کیا کہ وہ ان کے خلاف جنگ کریں۔ اس نے فخریہ انداز میں کہا کہ امریکہ نے افغانستان میں اِن لوگوںکے خلاف لڑنے کے لیے 46ملکوں کا اتحاد جمع کیا ہے! وہ صرف اسی پر مطمئن نہیں بلکہ اس نے پاکستان میں براہِ راست اور بالواسطہ طور پر میزائل داغنے شروع کر دیے اور اسے اس اقدام کی ذرابھی پرواہ نہیں، بلکہ اس نے بچوں ، بوڑھوں اور عورتوں کے بے رحم قتل کی توجیح پیش کرنے کی کوشش کی۔ اس نے اس قتل کو غیرارادی غلطیاںقرار دیا،حالانکہ ایسے واقعات افغانستان میں کئی مرتبہ ہو چکے ہیں!! اور اگر بچوں اور عورتوں کا یہ قتل منظرِ عام پر نہ آئے توان کے قتل کو بھی دہشتگردوں کی ہلاکت کی فہرست میں شمار کر لیا جاتا ہے ۔ حقیقت تو یہ ہے کہ اوباما کی نظر میں ہر وہ مسلمان انتہائ پسند اور دہشت گرد ہے جو دینِ اسلام پر عمل پیراہے اور اپنے ملک پر امریکہ کے قبضے کو قبول نہیں کرتا اور جو یہودیوں کے ہاتھوں مسلمانوں کی عزت کی پامالی کو برداشت نہیں کرتا۔
تاہم اپنے ان تمام شر انگیز اقدامات کے باوجود اور پاکستان، افغانستان اور عراق میں مسلسل قتلِ عام کے باوجود اوباما نے مصر میں بھی وہی الفاظ دہرائے جو اس نے ترکی میں کہے تھے کہ وہ اسلام اور مسلمانوں کے ساتھ جنگ نہیں چاہتا۔ بلاشبہ رسول اللہ انے اپنی حدیث میں حق بات کہی ہے: ﴿﴿اذا لم تستح فاصنع ما شئت﴾﴾''اگر تمہیں شرم نہیں تو پھر جو مرضی کرو‘‘ ۔
امریکی افواج اسلامی علاقوں میں مسلمانوں کا قتلِ عام سرانجام دے چکی ہیں ، ان افواج نے مسلمانوں کے خلاف خوفناک جنگ شروع کر رکھی ہے، وہ دن رات مسلمانوں کا خون بہا رہی ہیں اور لوگوں کو ان کے گھروں سے بے گھر کر رہی ہیں ...پھر بھی اوباما بضد ہے کہ وہ مسلمانوں سے جنگ نہیں کر رہا!
اس کے بعد اوباما نے فلسطین کو اپنی بات کا موضوع بنایا اور زور دیتے ہوئے کہا کہ یہودی ریاست ، جس نے فلسطین کی سر زمین کو غصب کر رکھا ہے، کے ساتھ امریکہ کے تعلقات مستقل ہیں اور انہیں منقطع نہیں کیاجاسکتا، خواہ یہ تعلقات عسکری نوعیت کے ہوں یا دیگرتعلقات ۔ اس نے اعلان کیا کہ یہودی ریاست فلسطین کی سرزمین پر قائم رہے گی اور اوباما اس کے علاوہ کوئی آپشن قبول نہیں کرے گا۔ اس کے بعد اوباما نے دوریاستی حل کی بات کی ، جس کا مطلب ہے کہ فلسطین کے زیادہ تر علاقے پر یہودیوں کا حق ہے اور اس کے بدلے میں اوباما نے چھوٹے چھوٹے غیر اہم علاقے فلسطینیوں کو دینے کی ضمانت دی، جو فلسطینیوں کا وطن کہلائیں گے! پھر اس نے یہودی بستیوں کی بات کی اور اپنے اوپر اعتماد کرنے والے لوگوں کی بے بصیرت حساسیت کو چھیڑا اور اعلان کیا کہ وہ آبادکاریوں کا خاتمہ چاہتا ہے، جس سے مراد پہلے سے موجود یہودی آبادیوں کا خاتمہ نہیں بلکہ محض یہودیوں کی نئی آبادیوں کی تعمیر کو روکنا ہے۔ اور صورتِ حال یہ ہے کہ اب مزید کوئی ایسا علاقہ باقی ہی نہیں کہ جسے یہودی محفوظ تصور کرتے ہوںکہ جہاں وہ آبادیاں بنا سکیں، ماسوائے اگر وہ وہاں قلعے اور اونچے اونچے محل تعمیر کر لیں۔ علاوہ ازیں نئی آبادیوں کی تعمیر کا نام نہاد اختتام بھی اس بات سے مشروط ہے کہ امن روڈ میپ کے مہلک رستے کے تمام تر سفر کے دوران یہودی ریاست کے خلاف ہر طرح کی دشمنی کی روک تھام کی جائے۔
پھر اوباما نے اپنی بات کا رُخ ایٹمی ہتھیاروں کی طرف موڑا اور ایران پر توجہ مرکوز کی۔ اس نے واضح کیا کہ وہ ایٹمی ہتھیاروں سے پاک مشرقِ وسطیٰ کا خواہاں ہے جہاں ایٹمی ہتھیاروں کی دوڑ موجود نہ ہو۔ اوریہ کہتے ہوئے اس نے یہودی ریاست کو باآسانی فراموش کر دیا جو ایٹمی ہتھیاروں کی مالک ہے۔
اس امرکے باوجود کہ اس کی تمام تقریر مسلمانوں کے معاملات کے بارے میں دھمکیوں سے بھری ہوئی تھی، مصرکی حکومت نے اس شخص کا استقبال کیا ، جو شر انگیزی اور میٹھی نرم زبان کے ساتھ آیا ہے، اور اس بات کی کوشش کر رہا ہے کہ وہ اُن معصوم لوگوں کے خون کے دھبوںکو چھپا سکے جو اس نے اوراس کی فوج نے افغانستان، عراق اور پاکستان میں بہایا ہے۔ مصرکی حکومت نے اوباما کے لیے لوگوں کے مجمع اور تالیوںکا بندوبست کیا ، تاکہ یہ تأثر دیاجائے کہ مصری عوام نے اس کی زہریلی تقریر کو قبول کیا ہے ۔
یہ تیار شدہ اور مصنوعی تعریف ہر اس شخص کے لیے عیاں تھی جو اپنی آنکھیں کھلی رکھتا ہے ۔ ایک شخص مسئلہ فلسطین کے دو ریاستی حل کی تعریف کس طرح کر سکتا ہے ؟ کیا کوئی مسلمان تعریف تو دور کی بات اس بات کوبرداشت بھی کر سکتا ہے کہ اسرائ ومعراج کی زمین کومسلمانوں اور غاصب قوت کے درمیان تقسیم کر دیاجائے ؟
ایک مسلمان کس طرح اوباما کی تعریف کر سکتا ہے اور اس کے لیے تالیاں بجا سکتا ہے ، جب اس نے قرآن کی اس آیت کو اس کے موضوع سے ہٹ کر استعمال کیا:﴿مَنْ قَتَلَ نَفْسًا بِغَيْرِ نَفْسٍ أَوْ فَسَادٍ فِي الْأَرْضِ فَكَأَنَّمَا قَتَلَ النَّاسَ جَمِيعًا ﴾''جو شخص کسی شخص کو قتل کر ڈالے علاوہ یہ کہ وہ کسی کا قاتل ہو یا زمین میں فساد مچائے، تو گویا اس نے تمام انسانیت کو قتل کر ڈالا‘‘﴿المائدہ: 32﴾
اوباما نے ان مسلمانوں کو انتہائ پسند قرار دیا جو امریکہ سے لڑتے ہیں ، اگرچہ یہ آیت بنی اسرائیل کے بارے میں ہی نازل کی گئی تھی ،اور اوباما ان مسلمانوں کے بارے میں جو اپنے عقیدے اور لوگوں کی حفاظت کر رہے ہیں اور اپنے اوپر حملہ کرنے والوں کے خلاف لڑ رہے ہیں ، کے متعلق تصور کرتا ہے کہ انہوں نے پوری انسانیت کا قتل کیا ہے ۔ اور اوباما کی نظر سے وہ یہودی ریاست اوجھل ہے ، جو معصوم لوگوں کا بے دردی سے قتل کر رہی ہے، ان کی زمینوں کو غصب کر رہی ہے ، انہیں ان کے گھروں سے نکال رہی ہے ، ان کے عزتوں کے تقدس کو پامال کر رہی ہے ،اور فتنہ و تباہی پھیلا رہی ہے۔ تاہم اوباما ان اقدامات کو تمام انسانیت کا قتل نہیں سمجھتا! ا ور نہ ہی وہ اس قتلِ عام کو تمام انسانیت کا قتل سمجھتا ہے جو اس کی اپنی امریکی فوج کر رہی ہے ۔ ﴿كَبُرَتْ كَلِمَةً تَخْرُجُ مِنْ أَفْوَاهِهِمْ ۚ إِنْ يَقُولُونَ إِلَّا كَذِبًا﴾''یہ بہت بڑی بات ہے جو یہ اپنے منہ سے نکالتے ہیں۔ ان کی بات جھوٹ کے سو ا کچھ نہیں‘‘﴿کہف: 5﴾
اوباما کی بات کا خیر مقدم کیسے کیا جا سکتا ہے اور اس کی تقریر پرتالیاں کیسے بجائی جا سکتی ہیں ، جبکہ وہ اعلان کر رہا ہے کہ یہودیوں کی پہلے سے موجود بستیاں کوئی مسئلہ نہیں بلکہ مسئلہ نئی آبادیاں بنانا ہے؟ جبکہ حقیقت یہ ہے کہ یہ تمام یہودی بستیاں ہی ناجائز ہیں، خواہ وہ پرانی ہوں یا نئی تعمیر کردہ ہوں! صرف عقل و سمجھ سے عاری ، ایجنٹ حکمران ہی کھڑے ہو کر اس بات پر اوباما کو داد دے سکتے ہیں؟
القدس﴿بیت المقدس﴾ کو سب سے پہلے عمر(رض) نے فتح کیا تھا ، اور یہ طے کر دیا تھا کہ القدس میں کوئی یہودی نہیں رہے گا۔ اورالقدس کو دوبارہ صلاح الدین ایوبی(رض) نے آزاد کرایا تھا۔ لیکن اوباما اعلان کر رہا ہے کہ القدس یہودیوں ، عیسائیوں اور مسلمانوں کا مشترکہ وطن ہے۔ کوئی مسلمان اوباما کے اس بیان کا کس طرح خیر مقدم کر سکتا ہے۔ اور یہ بات اس کے علاوہ ہے کہ اوباما نے القدس کے مشرقی حصے میںشراکت کی بات کی اور مغربی حصے کا ذکرگول کر گیا!
بلاشبہ یہ تمام تر خیر مقدم محض ایک ڈھونگ تھا اور مصر کی حکومت اس واضح حقیقت کو چھپا نہ سکی، اگرچہ اس نے پورا سٹیج تیار کیاتھا کہ اوباما کے دوست ہونے کا تأثر دیا جائے اور اسے ایک عادل اور بُردبار شخص کے طور پر پیش کیا جائے ، علاوہ ازیں مصر کے متعلق پائے جانے والے اس تأثرپر پردہ ڈالا جائے کہ مصر امریکہ کا ایجنٹ ہے، جو فلسطین کے مسئلے میں غیر جانبدار ہے یعنی مصر فلسطین کی سرزمین کو غصب کرنے والے یہودیوں اور فلسطین کے حقدار مسلمانوں کے ساتھ ایک جیسا سلوک کرتا ہے ، بلکہ اس کے غیر جانبدار موقف کا جھکائو یہودی ریاست کی جانب ہے!
اے مسلمانو!
بے شک اوباما آپ کے پاس ایک بے ضرر سادھو کی شکل میں آیا ہے تاکہ آپ اس کے اصل روپ کا مشاہدہ نہ کر سکیں۔ یہ اس شخص سے کہیں زیادہ خطرناک ہے جو آپ کے ساتھ اپنی دشمنی کو نہیں چھپاتا۔ وہ ایسا اس لیے کر رہا ہے تاکہ آپ اپنے مسائل کے لیے اسی کی طرف رجوع کریں۔ یاد رکھیں! بش کے زیر قیادت امریکہ کی ننگی حقیقت محض ماضی کا قصہ نہیں ہے۔ امریکہ نے آپ کے علاقوں پر چڑھائی کی راہ اختیار کی ، اس امر کے باوجود کہ ان علاقوں پر اسی کے ایجنٹوں اور ہم نوائوں کی حکمرانی ہے۔ بھاری اسلحہ اور جنگی ساز و سامان رکھنے اورآپ کے خلاف کھلی دشمنی کے باوجود امریکہ آپ سے خوفزدہ اور پریشان تھا۔ لیکن آپ کے علاقوں پر قبضہ کرنے اور آپ کے لوگوں کو قتل کرنے کے باوجود اوباما چاہتا ہے کہ آپ اس کے لیے تالیاں بجائیں اور اس کا خیر مقدم کریں۔ اوروہ اپنی روایتی مسکراہٹ کو استعمال کررہا ہے تاکہ آپ کو دھوکے سے اپنا غلام بنا سکے۔
اے مسلمانو!
اوباما نے آپ سے اپنے مکارانہ خطاب کے لیے ان تین جگہوں کا انتخاب بغیر سوچے سمجھے نہیں کیا۔ ان تینوں اہم مقامات کو غور و فکر کے ساتھ ایک محتاط انداز سے چنا گیا ہے ۔ اوباما نے اپنے دورے کا آغازترکی سے کیا اور وہ تمام جزیرہ نما عرب کو عبور کرتا ہوا مصرپہنچا۔ اوباما اچھی طرح آگاہ ہے کہ استنبول سلطان محمد فاتح کا شہر ہے اور خلافت کا مرکزاستنبول یہودیوں کے راستے کی دیوار بنا رہا اور ترکی کی خلافتِ عثمانیہ نے یہودیوںکو فلسطین کی سرزمین کو غصب کرنے سے باز رکھا۔ اوباما جانتا ہے کہ جزیرہ نما عرب پہلی اسلامی ریاست کا نقطۂ آغاز تھا ، عمر(رض) نے وہاں سے نکل کر القدس کو فتح کیاتھا۔ اور اوباما اس بات سے بھی آگاہ ہے کہ مصر صلاح الدین ایوبی(رح) کا صوبہ تھا ، جہاں سے اس نے جنگ کا آغاز کیا تھااور فلسطین کو صلیبیوں سے آزاد کرایاتھا۔
اوباما ان تمام باتوں سے آگاہ ہے ، پس وہ ان ممالک میں یہ پیغام لے کر آیا ہے کہ تم لوگوں کے فخر و وقار کا وقت ختم ہو چکا اور اب طاقت اور اتھارٹی اوباما اور اس کے اتحادیوں کے ہاتھ میں ہے اوراب امریکہ ہی بالادست قوت ہے۔ استعماری کفار بہت سے مسلمانوں سے زیادہ اس بات سے آگاہ ہیں کہ مسلمانوں کی طاقت کے مراکز اور مضبوطی کے ذرائع کیا ہیں ۔ وہ ہماری تاریخ اور ہمارے عقیدے سے آگاہ ہیں جو ہماری طاقت کا منبع ہے، اور اس بات سے بھی کہ اس امت کی اعلیٰ صفات کیا ہیں۔ اور یہ محض اتفاق نہ تھا کہ اوباما نے قرآن کی یہ آیت پڑھی:﴿ يَا أَيُّهَا النَّاسُ إِنَّا خَلَقْنَاكُمْ مِنْ ذَكَرٍ وَأُنْثَىٰ وَجَعَلْنَاكُمْ شُعُوبًا وَقَبَائِلَ لِتَعَارَفُوا﴾''اے لوگو! ہم نے تمہیں ایک مرد اور عورت سے پیدا کیا اور پھر تمہارے کنبے قبیلے بنائے تاکہ تم ایک دوسرے کو پہچان سکو‘‘﴿الحجرات:13﴾ اور اس نے آیت کا یہ حصہ بیان نہیں کیا کہ جس کے بغیر آیت کا مفہوم مکمل نہیںہوتا:﴿ اِنَّ اَکْرَمَکُمْ عِنْدَ اللَّهِ اَتْقَاکُمْ ﴾''بے شک تم میں سب سے زیادہ عزت کے لائق وہ ہے جو تم میں سب سے زیادہ اللہ سے ڈرنے والا ہے‘‘ ۔ پس اوباما بڑے آرام سے یہ بات بیان کرنا بھول گیا کہ یہ تقویٰ ہی ہے جو امتِ مسلمہ کو معزز بناتا ہے اور امریکہ اور اس کے اتحادیوں کو ذلیل و رسوا کرتا ہے۔
اے مسلمانو!
اوباما نے اپنے آپ کو اس انداز سے پیش کرنے کی کوشش کی کہ گویا وہ پوری دنیا کا حکمران ہے اور اسلامی علاقوں میں قائم برائے نام ریاستیں اس کی غلام ہیں، جن کا کام اسے وہ سب مہیا کرنا ہے جس کی وہ خواہش کرے۔ ان ریاستوں نے اوباما کا اس قدر عالی شان استقبال کیا ، جتنا اوباما کااس کے اپنے ملک امریکہ میں بھی نہیں کیا جاتا! اوباما کی مثال فرعون اور اس کے لوگوں کی مانند ہے، کہ جن کے متعلق قرآن نے بیان کیا: ﴿فَاسْتَخَفَّ قَوْمَهُ فَأَطَاعُوهُ ۚ إِنَّهُمْ كَانُوا قَوْمًا فَاسِقِينَ﴾ ''فرعون نے اپنے لوگوں کو بیوقوف بنایا اورانہوں نے اس کی اطاعت کی ۔ بے شک وہ فاسق لوگ تھے‘‘﴿زخرف: 54﴾
اگرچہ اوباما چالاک ، مکار اور ملمع کار ہے جیسا کہ اس نے اپنی تقریر میں اپنے آپ کو پیش کیا، تاہم اسے یہ جان لینا چاہئے کہ استنبول، جزیرہ نما عرب اور مصر نے اسے خوش آمدید نہیںکہا۔ اسے محض غدار حکمرانوں کے ٹولے نے ہی خوش آمدید کہا ہے جنہیں مسلمان مجموعی طور پر مسترد کر چکے ہیں اور اپنے آپ سے جداکر چکے ہیں۔ اسے یہ بھی جان لینا چائیے کہ اس کا نرم انداز میں چکنی چپڑی باتیں کرنا امت کی نظر سے مخفی نہیں ہے ، جو اس بات سے بخوبی واقف ہے کہ اوباما کے تراشے ہوئے الفاظ میں پوشیدہ حقیقی معنی کیا ہیں ۔ اور اوباما کو جان لینا چاہئے کہ یہ حکومتیں اپنے ہر آقا کا استقبال ایسی ہی تالیوں اورجشن کے ذریعے کیاکرتی ہیں۔
حزب التحریر اوباما اور تمام دنیا کے لیے اعلان کرتی ہے کہ اسلام کے لیے ایسے مخلص لوگ بدستورموجود ہیں جو اسلامی ریاست قائم کریں گے ، جو دنیا کی سپر پاور بنے گی اور وہ یہ مقام دنیا کا استحصال کرنے ، علاقوں کو کالونی بنانے اور ان کے وسائل کو لوٹنے کے ذریعے حاصل نہیں کرے گی۔ بلکہ وہ عدل کے قیام ،ظلم کے خاتمے اور تمام لوگوں کو ان کا حق دینے کے ذریعے ایسا کرے گی۔ اور اس وقت امریکہ کووہ مقام ملے گا جس کا وہ حق دار ہے یعنی ذلت و رسوائی اور اطاعت گزاری کا مقام۔ اس وقت یہودی ریاست کا ہمیشہ کے لیے خاتمہ ہو جائے گا ،جس نے فلسطین کی سرزمین پر ناجائز قبضہ کر رکھا ہے اور تمام کا تمام فلسطین اسلامی ریاست کا حصہ بن جائے گا۔ اللہ کے اذن سے اس خلافت کا دوبارہ قیام ہو گا اور دنیا کا ہر گوشہ خیر و بھلائی سے معمور ہو جائے گا۔

﴿وَاللَّهُ غَالِبٌ عَلَىٰ أَمْرِهِ وَلَٰكِنَّ أَكْثَرَ النَّاسِ لَا يَعْلَمُونَ‏﴾
''اور اللہ اپنے امر میں غالب ہے لیکن اکثر لوگ نہیں جانتے‘‘﴿یوسف: 21﴾



Read more...
Subscribe to this RSS feed

دیگر ویب سائٹس

مغرب

سائٹ سیکشنز

مسلم ممالک

مسلم ممالک