اہلِ غزہ کی مدد امن کی بھیک مانگنے یا شہداء کے لیے تعزیتی وفود بھیجنے سے نہیں بلکہ صرف ایک لشکرِ جرار کے ذریعے ہو گی جو صبح وشام یہودی وجودکو لرزا دے گا
- Published in حزب التحریر
- Written by Super User
- سب سے پہلے تبصرہ کرنے والے بنیں
- الموافق
چوتھے روز بھی غزہ پر یہودی ریاست کی جانب سے زمینی،فضائی اور سمندر سے بمباری کا سلسلہ جاری ہے،دسیوں لوگ شہید اور سینکڑوں زخمی ہو چکے ہیں...مسلم ملکوں کے حکمران ،خصوصاًجو علاقے اور رشتے کے لحاظ سے بھی قریب ترین ہیں ،صرف شہداء اور زخمیوں کی گنتی کر رہے ہیں،ناگواری اور مذمت کا اظہار کرنے میں مقابلہ بازی کر رہے ہیں،دبے لفظوں میں احتجاج کر رہے ہیں بلکہ صرف واویلا مچارہے ہیں۔ قطر کا وزیر خارجہ جو اس خطے میں یہودی ریاست کے لیے ہی پیغام رسانی کرتا ہے اپنے پُرتعیش محل میں بیٹھ کر یہ بھڑکیں مار رہا ہے کہ یہودی بدمعاش کو''سزا ضرور ملنی چاہیے''۔ یہ حکمران ایک دوسرے سے رابطے کر رہے ہیں اور غزہ کے المناک واقعات کے بارے میں صرف باتوں کے مزے لوٹ رہے ہیں،وہ ایسا ظاہر کر رہے ہیں کہ گویا جو کچھ ہو رہا ہے وہ اس کے بارے میں بڑے غمگین ہیں۔ وہ جنگ بندی کے لیے مذاکرات کرنے اور تعزیت کے لیے وفود روانہ کرنے کے وعدے کرتے ہیں...پھر غزہ پر دوبارہ بمباری شروع ہو جاتی ہے اور یہ وفود دیکھتے ہی رہ جاتے ہیں ! یہ حکمران پھر یہ کہہ کر اپنی صبح کا آغاز کرتے ہیں کہ ''فجر سے ذرا پہلے میں نے امریکی صدر اوباما سے فون پر بات کی ہے اور اس حملے کو روکنے اور دوبارہ ایسا نہ ہونے کے لیے کہا ہے''۔ یوں وہ اپنی صبح کی ابتدا حملے کو روکنے کے لیے اُس ریاست سے بات چیت کے ذریعے کرتے ہیں جو بذاتِ خودیہودی ریاست کی محافظ ہے...! چاہیے تو یہ تھا کہ یہ فجر کی نماز پڑھ کر یہودیوں کے ہاتھوں اہلِ غزہ کے بہائے جانے والے خون کا بدلہ لینے کے لیے فوج کو حرکت میں لاتے۔ وہ زبان سے تو کہتے ہیںکہ:'' خون کے بدلے خون تباہی کے بدلے تباہی''لیکن افواج کو حرکت میں لانے کی بجائے اپنی صبح کا آغاز اوبا ما کے ساتھ بات چیت کے ساتھ کرتے ہیں! بلکہ اس سے بھی بدتریہ ہے کہ جب عرب دنیا کے ایک نئے حکمران سے پوچھا گیا کہ تمہارے اور سابقہ حکمرانوں کے درمیان کیا فرق ہے وہ بھی اپنے سفیر کو واپس بلاتے تھے،مذمت کرتے تھے اور اوبا ما کو فون کیا کرتے تھے...؟ تو وہ جواب دیتا ہے کہ فرق ہے!وہ تاخیر کیا کرتے تھے، ہم فوراً کرتے ہیں!
اے مسلمانو! کتنی عجیب بات ہے کہ مسلمانوں کی سرزمین پر قبضہ کیا جاتا ہے پھر اس کی آزادی بھی باتوں کے ہجوم کے اندر ضائع ہو جاتی ہے۔ اس کے بعد صحیح حل کو چھوڑ کر ہر قسم کا حل تلاش کیا جاتا ہے اور حقائق کے بارے میں لوگوں کو گمراہ کیا جاتا ہے کہ گویا یہودیوں کی کوئی پائیدار ریاست ہے اور ہمارے اور ان کے درمیان سرحدوں کا مسئلہ ہے،جس کے لیے کیمپ ڈیوڈ،وادی عربہ اور دوحہ وغیرہ کے معاہدات کیے جاتے ہیں ۔ ان میں سے کچھ معاہدے اعلانیہ ہو تے ہیں جبکہ بعض خفیہ رکھے جاتے ہیں! پھر بین الاقوامی قوانین کے احترام کا درس دیا جاتا ہے،پھر اس کو ریاستوں کے درمیان سرحدی چپقلش کا رنگ دیا جاتا ہے اوراس کے بعد اس کے لیے مقامی یا علاقائی یاپھر بین الاقوامی ثالثوں کا اہتمام ہو تا ہے اور یہ باور کرایا جاتا ہے کہ ہم نے بہت بڑا معرکہ مار لیا ہے ، ایسے جیسے اللہ نے مسلمانوں کو کفارکے خلاف قتال کرنے سے منع کیا ہو!!!
اے مسلمانو! معاملہ ایسا نہیں، بلکہ حقیقت یہ ہے کہ یہود نے فلسطین کی سرزمین کو غصب کر کے اس میں ایک ریاست قائم کی ہوئی ہے اور وہاں کے باشندوں کو وہاں سے بے دخل کیا ہے۔ یہ ریاست صرف ایک ایسی مومن فوج کے ذریعے صفحہ ہستی سے مٹادی جائے گی اور فلسطین کو وہاں کے باشندوں کو واپس کی جائے گی جو مسلمانوں کے ساتھ قتال کرنے والوں اور ہمیں ہماری سرزمین سے بے دخل کرنے والوںسے قتال کے بارے میں سات آسمانوں کے مالک اللہ سبحانہ و تعالیٰ کے اس حکم پر لبیک کہے گی
(وَاقْتُلُوهُمْ حَيْثُ ثَقِفْتُمُوهُمْ وَأَخْرِجُوهُمْ مِنْ حَيْثُ أَخْرَجُوكُمْ)
''جہاں بھی یہ تمہارے ساتھ قتال کریں تو تم بھی ان سے قتال کرو اور جہاں سے انہوں نے تمہیں نکالا ہے تم بھی ان کو وہاں سے نکالو''۔(البقرہ:191)
یہی حل ہے اور اس حل کو صرف وہ شخص نظر انداز کر سکتا ہے جس کے دل اور کانوں پر مہر لگی ہو اور اس کی آنکھوں پر پردہ ہو،کیا فلسطین کو اس کے باشندوں کو لوٹانے اور یہودی ریاست کو نیست ونابود کرنے کے لیے اس کے علاوہ بھی کوئی حل ہے؟
اے مسلمانو! ہماری مصیبت ہمارے حکمران اور ان کے وہ حواری ہیںجو لوگوں کو دھوکہ دینے کے لئے یہ واویلا مچاتے پھرتے ہیں کہ ہم یہو د سے لڑنے کے قابل نہیں ہیں، ہمارے پاس ان کے اسلحے جیسا اسلحہ نہیں ہے اور ان کے مددگاروں جیسا ہمارا کوئی مددگار نہیںہے
(كَبُرَتْ كَلِمَةً تَخْرُجُ مِنْ أَفْوَاهِهِمْ إِنْ يَقُولُونَ إِلَّا كَذِبًا)
''بڑی سخت بات ہے جو اُن کے منہ سے نکلتی ہے (اور کچھ شک نہیں کہ) جو کچھ یہ کہتے ہیں محض جھوٹ ہے'' ۔ (الکہف:5)
ہم یہودی ریاست کے ارد گرد ایسے ہیں جیسے کلائی کے گرد کنگن ہوتاہے،اور ہمارے پاس اسلحہ بھی وافر مقدار میں موجودہے...لیکن یہ اسلحہ غاصب یہودیوں کے خلاف یا استعماری کافروں کے خلاف استعمال ہوتا ہواکبھی نظر نہیں آتابلکہ یہ اسلحہ تو اپنے ہی ہم وطن مسلمانوں پر استعمال ہو تا ہے... جیسا کہ صحرائے سیناء کے ان مسلح مسلمانوں کے خلاف جو فلسطین کو غصب کرنے والے یہودیوں سے لڑنے کے لیے مسلح ہو رہے تھے،یہ اسلحہ شام میں انسانوں ، درختوں اور پتھروں کو تباہ کرنے کے لیے استعمال ہو رہا ہے،ایسا ایسا اسلحہ جس کے بارے میں پہلے کسی کو علم بھی نہیں تھا! اسی طرح پاکستانی حکومت امریکہ کی مدد کرنے کے لیے قبائلی مسلمانو ں پر جنگی جہازوں سے بمباری کر رہی ہے اورجیسا کہ سوڈان اپنے جنوبی حصے کو کھو تے وقت اپنے ہی لوگوں کو قتل کر رہاتھا...!یہ حکمران اللہ اس کے رسول ﷺ اور مومنوں کے سامنے کسی قسم کی شرم محسوس کرنے کی بجائے اور بھی بہت کچھ کر رہے ہیں...رہی بات یہود کے مدد گاروں کی تو اللہ ہمارا مددگار ہے ان کا نہیں
(ذَلِكَ بِأَنَّ اللَّهَ مَوْلَى الَّذِينَ آمَنُوا وَأَنَّ الْكَافِرِينَ لَا مَوْلَى لَهُم)
''یہ اس لیے کہ اللہ ان لوگوں کا کارساز ہے جو ایمان والے ہیں اور کافروں کا کوئی کارساز نہیں''(محمد:11)
مزید برآں ،یہودی ریاست کے سب سے بڑے مددگا ر یہ حکمران خود ہیں،یہی ہیں جو اسے تحفظ دیتے ہیں اور لوگوں کو اس کی طاقت کے بارے میں گمراہ کر تے ہیں، حالانکہ اگر یہ حکمران صرف مسلمانوں کی افواج کو صدق اور اخلاص کے ساتھ یہودیوں کے خلاف قتال کرنے کے لیے راستہ دے دیں تو یہود یوںکی طاقت کی حقیقت کھل کر سامنے آ جائے گی جو کہ مکڑی کے جالے سے بھی کم ہے ۔
اے مسلمانو! غزہ میں بہنے والے پاکیزہ خون کا تحفظ کوئی' غیر جانبدار' ثالث نہیں کر سکتا جو جنگ بندی کے لیے سودے بازی کرے اورنہ ہی تعزیت کے لیے جانے والا کوئی وفد کر سکتا ہے،اور نہ ہی کسی باد شاہ،صدر یا شہزادے کی وہ شعلہ بیاں تقریر جس کا اثر ان کے محلات تک ہی محدود ہے،یہ سب کچھ لوگوں کو بے وقوف بنانے کے مترادف ہے! دشمن ان سب کو سنجیدگی سے نہیں لیتا بلکہ وہ اس کو سرے سے کوئی اہمیت ہی نہیں دیتا۔ اوراس امت کے عقلمند لوگ بھی ان کی ان باتوں کوقابل توجہ نہیں سمجھتے سوائے ان لوگوں کے جو آنکھوں سے پہلے دل کے اندھے ہیں،یہی لوگ یہ کہہ کر ان حکمرانوں کے لیے تالیاں بجاتے ہیں کہ فلاں نے مصیبت میں تعزیت کے لیے وفد بھیجاحالانکہ یہودی ریاست اس وفد کی آنکھوں کے سامنے بمباری کرتی جاتی ہے...!
اہل غزہ کے بہتے خون کی مدد ایسی اِدھر اُدھر کی باتوں سے نہیں ہو سکتی بلکہ اس کی مددان تمام ترافواج کو یا ان میں سے کچھ حصے کو، متحرک کرنے کے ذریعے ہی ممکن ہے جو سیناء اور نہر ِ اردن کے اطراف میں ،اللیطانی کے جنوب اور گولان میں ہیں ،جن کا حرکت میں آنا یہودی ریاست کو ہلا کر رکھ دے گا...وہ افواج جس کے اطراف میں ابو بکررضی اللہ عنہ کی قسم ہو گی کہ میںدشمن کو شیطان کے وسوسے بھلادوں گا..
اے مسلمانو ! اسی طرح صلاح الدین اور ظاہر بیبرس کی افواج کے ہاتھوں فلسطین کے خون کی مدد کی گئی تھی،اور اسی طرح اِن مسلمان افواج کے ہاتھوں اس خون کی مدد کی جائے گی جو یہود سے قتال کرنے کے شوق سے سرشار ہیں...اہل غزہ کے پاکیزہ خون کی مدد صرف اسی طرح ہی ہو سکتی ہے،اس کے علاوہ کسی چیز سے نہیں ،کوئی بھی عقل مند شخص اس حل کے علاوہ کسی حل کو قبول نہیں کرے گا سوائے ایسے شخص کے جو بصارت اوربصیرت دونوں کے لحاظ سے دنیا اور آخرت دونوں میں اندھا ہو،
(وَمَنْ كَانَ فِي هَذِهِ أَعْمَى فَهُوَ فِي الْآخِرَةِ أَعْمَى وَأَضَلُّ سَبِيلًا)
''اور جو اس دنیا میں اندھا ہے وہ آخرت میں بھی اندھا اور گمراہ ہے''۔(الاسرائ:72)
مسلم افواج میں موجود مخلص سپاہیو! کیا تم میں کوئی سمجھدار آدمی نہیں جو ان حکمرانوں کو یہودی ریاست کے ساتھ عملی جنگ کے لیے مجبورکر سکے اور اس وجود کو اکھاڑ پھینکنے کے لیے فوج کو متحرک کر سکے...؟ کیا تم میں کوئی ایسا مضبوط اور پُر عزم مؤمن نہیں جو ان حکمرانوں کی کمر توڑ دے اور اپنی بٹالین یا بریگیڈ کو اس غاصب یہودی وجود کو جڑسے اکھاڑ پھینکنے کے لیے ایک ایسے جہاد کے لئے متحرک کرے جو اللہ اور اس کے رسول ﷺ کو بہت محبوب ہے؟ اگر ایک بھی بریگیڈ اس کی ابتدا کرے گی تو اس کے بعد بہت سی بریگیڈ زاس کی پیروی کریں گی اور پھر کوئی ظالم اور جابر حکمران ان کو روک نہیں پائے گا،یوں یہ خیر اور نصر میں سبقت لینے والے بن جائیں گے،
(إِنْ تَنْصُرُوا اللَّهَ يَنْصُرْكُمْ وَيُثَبِّتْ أَقْدَامَكُمْ)
''اگرتم اللہ کی مدد کرو گے تو اللہ بھی تمہاری مددکرے گا اور تمہارے قدم جمادے گا''۔(محمد:7)
کیا تم میں کوئی بھی ایسا سمجھدار آدمی نہیں جو اللہ ،اس کے رسول ﷺ کی خاطر خلافت کے لیے کام کرنے والوںکو نصرہ دے دے ،اور یوں تم انصار کی سیرت کو زندہ کروگے اور دنیا اور آخرت کی عزت کا مشاہدہ کرو گے۔ یوں نبوت کے نقشِ قدم پر خلافت کے دوبارہ قیام اور یہود کے ساتھ قتا ل اور ان کو شکست دینے کے بارے میں رسول اللہ ﷺ کی بشارت تمہارے ہاتھوں پورا ہونے کا شرف تمہیں نصیب ہو گا،اور تم دنیا اور آخرت کی کامیابی حاصل کرو گے اور مؤمنوں کو خوش خبری سنائو گے۔
اے مخلص سپاہیو! حزب التحریرتمہاری مخلص خیر خواہ ہے، اور تمہیں یہ پیغام دیتی ہے کہ ہر زمانے میں اللہ کے کچھ خاص بندے موجو دہوتے ہیں جو تاریخ کے اہم موڑ پر آگے بڑھتے ہیں ہیں،پس آگے بڑھواور ان بندوں میں سے بن جائو... تمام تعریفیں اللہ ہی کے لئے ہیں ، آگے بڑھو اور اسلام کی عزت خلافت کے لیے مدد دو تاکہ وہ خلیفہ آئے جس کے پیچھے تم لڑو اور جس کے ذریعے تمہاری حفاظت ہو سکے...تمام تعریفیں اللہ ہی کے لئے ہیں ،آگے بڑھو اسلام کی چوٹی جہاد کے لئے ،فتح یا شہادت کے لئے...تمام تعریفیں اللہ ہی کے لئے ہیں ، آگے بڑھو ایسی تجارت کے لیے جو تمہیں دردناک عذاب سے نجات دے گی ،آگے بڑھوسب سے خوبصورت اور سب سے سچی بات کی پیروی کرتے ہوئے جو کہ اللہ سبحانہ وتعالی کا فرمان ہے:
(انْفِرُوا خِفَافًا وَثِقَالًا وَجَاهِدُوا بِأَمْوَالِكُمْ وَأَنْفُسِكُمْ فِي سَبِيلِ اللَّهِ ذَلِكُمْ خَيْرٌ لَكُمْ إِنْ كُنْتُمْ تَعْلَمُونَ)
''نکلو خواہ ہلکے ہو یا بوجھل ،اور اپنی جان اور مال سے اللہ کی راہ میں جہاد کرو ،اگر تم سمجھ دار ہو تو یہ تمہارے حق میں بہتر ہے''۔(التوبہ:41)