الإثنين، 02 جمادى الأولى 1446| 2024/11/04
Saat: (M.M.T)
Menu
القائمة الرئيسية
القائمة الرئيسية

بسم الله الرحمن الرحيم

 

اے مسلم ممالک کی افواج !

بس بہت ہو گیا ! کیا آپ غزہ ہاشم کی مدد کرنے کے لئے حکمران کے حکم کے انتظار میں بیٹھے رہیں گے !  

 

(ترجمہ)

 

 

 

اے مسلم ممالک کی افواج !

کیا تمہارے سینوں میں دل نہیں دھڑکتے کہ جن سے تم سمجھ سکو، کیا تمہارے پاس آنکھیں نہیں کہ جن سے تم دیکھ سکو اورکیا تمہارے پاس کان نہیں کہ جن سے تم سن سکو؟ کیا آپ کو غزہ میں مسلمانوں کے بہتے خون کی ندیاں نظر نہیں آتیں؟ کیا آپ کو دیہاتوں، شہروں اور گلیوں کوچوں میں برپا ہوتی خونریزی نظر نہیں آتی؟ کیا آپ کو مسمار ہوتے گھر، بمباری زدہ ہسپتال اور روکی گئی ایمبولینسیں نظر نہیں آتیں جنہیں زخمیوں کو لے جانے سے روک دیا جاتا ہے حتیٰ کہ ان ایمبولینسوں کوتب تک قریب نہیں جانے دیا جاتا جب تک کہ  زخمی مرنہیں جاتے ؟ کیا آپ کو نظر نہیں آتا کہ اس شیطان نما یہودی وجود کی بربریت نے انسان تو انسان بلکہ پتھروں اور درختوں تک پر بھی ظلم کے پہاڑ توڑ دئیے ہیں؟ یہودیوں کا ظلم وجبرغزہ اور مغربی کنارے سے آگے تک پھیل چکا ہے اور یہاں تک کہ 1948ء کے قبضہ شدہ فلسطین تک بھی، تو آپ آخرکس بات کا انتظار کر رہے ہیں؟ اس میں کوئی شک نہیں کہ آپ دیکھ بھی رہے ہیں اور سن بھی رہے ہیں جو کچھ رونما ہو رہا ہے اور کیا قیامت برپا ہو رہی ہے۔ کیا آپ کی صفوں میں کوئی ایک بھی ایسا صالح مرد نہیں جو مسلم فوجوں کی قیادت کرے اور فلسطین پر قابض یہودی وجود کو ختم کر کے اسلام اور مسلمانوں کی مدد کرے اور پورے فلسطین کو اسلام کی سرزمین پر واپس لوٹا دے؟ اور اگر حکمرانوں میں موجود ظالم اس امر میں رکاوٹ ڈالیں تو وہ انہیں راہ سے ہٹا دے گا۔ کیا آپ کی صفوں میں کوئی ایک بھی ایسا صالح مرد نہیں ہے ؟!

 

جو کوئی بھی اس امر کےلئے حکمرانوں کے حکم کے انتظار میں بیٹھا ہے اس کی مثال بالکل اس شخص جیسی ہے جو اپنے ہاتھ پانی کی طرف بڑھاتا ہے اور اسے اپنے منہ تک پہنچنے کے لئے کہتا ہے لیکن ایسا کبھی بھی نہیں ہو سکتا۔ اور اس سے بڑھ کر مزید یہ کہ اس شخص کی مثال اس جیسی ہے جو اونٹ کے سوئی کے ناکے میں سے گزر جانے کے انتظار میں بیٹھا ہے۔ یہ حکمران تو کافر استعماری ممالک کے احکامات پر عمل پیرا ہیں جنہوں نے یہودی ریاست کو قائم کیا اور فلسطین کی بابرکت سرزمین اس کے حوالے کردی۔ ان سے نہ تو بھلائی کی کوئی امید کی جا سکتی ہے اور نہ ہی ان سے جہاد کی کوئی امید کی جا سکتی ہے۔ بلکہ ان میں جواپنے آپ کو  قدرے مثالی گردانتے ہیں تو وہ ایسے ہیں جو شہداء اور زخمیوں کی گنتی کرتے ہیں، یا کافر استعماری ریاستوں کا سہارا لیتے ہیں جن کا سرغنہ امریکہ ہے، تاکہ وہ ان کے لئے حل تلاش کرے، چاہے وہ حل یہودیوں کے سامنے ہتھیار ڈال دینا ہی کیوں نہ ہو۔ یہ حکمران اس امید پر عالمی عدالت انصاف کی ستائشیں کرتے نہیں تھکتے کہ وہ کم از کم ان کے لیے جنگ بندی کا فیصلہ ہی کردے گی، لیکن اس عدالت نے ایسا کوئی اقدام نہیں کیا۔ اس کے بجائے اس عدالت نے یہودی وجود سےیہ کہا کہ وہ ایک ماہ کے اندر عدالت کو اپنا مدعا پیش کرے۔ کیا خونریزی رک سکی؟! جبکہ عالمی عدالت انصاف کے فیصلے کے حوالے سے کہا گیا کہ عالمی عدالت انصاف (ICJ)نے 'اسرائیل' کو حکم دیا ہے کہ وہ غزہ میں نسل کشی کی کارروائیوں کو روکنے اور فلسطینیوں کو انسانی امداد فراہم کرنے کے لیے کارروائی کرے، حالانکہ عدالت نے اسرائیل سے فوری طور پر اپنی عسکری کاروائیاں بند کرنے کا مطالبہ نہیں کیا ... فیصلے میں اسرائیل سے یہ بھی مطالبہ کیا گیا ہے کہ وہ ان امور پر عمل درآمد کے لیے اپنے اقدامات کے بارے میں ایک ماہ کے اندر عدالت کو رپورٹ کرے" (الجزیرہ، 26 جنوری، 2024)۔ اگرچہ عدالت کا یہ فیصلہ کافی کمزور تھا لیکن حکمرانوں نے اس کی ستائش میں تعریفوں کے پُل باندھ دئیے۔ الجزیرہ نے اس حوالے سے 26 جنوری، 2024 کو مسلم ممالک کے حکمرانوں کے رد عمل کے بارے میں رپورٹ کیا کہ انہوں نے اس فیصلے کی کافی تعریف کی اور اس کا خیر مقدم کیا، حالانکہ یہ فیصلہ ظلم وجبر کی جنگ بندی سے بالکل عاری تھا! اس فیصلے کے خیر مقدم کے بارے میں جو کچھ کہا گیا تھا، اس میں سے کچھ ذیل میں ہیں:

ترکی: ترک صدر رجب طیب اردگان نے اس فیصلے کا بھرپورخیر مقدم کیا اور اس فیصلے کو "قابل قدر" قرار دیا... ایران : ایران کے وزیر خارجہ حسین امیر عبداللھیان نے اسرائیلی حکام کو انصاف کے "کٹہرے میں لانے" کا مطالبہ کیا ہے ... مصر : مصر کی وزارت خارجہ نے عدالت کے فیصلوں کو عزت دینے اور ان پرعملدرآمد کرنے پر زور دیتے ہوئے کہا ہے کہ مصر عالمی عدالتِ انصاف کی جانب سے غزہ میں فوری جنگ بندی کا مطالبہ کرنے کا منتظر ہے جس طرح یہ عدالت اسی طرح کے معاملوں میں ایسے فیصلے دیتی رہی ہے... الجزائر کے صدر نے سلامتی کونسل کا اجلاس بلانے کی درخواست کی تاکہ عدالتی فیصلوں کو "ایگزیکٹو فارمولا" دیا جا سکے ... تیونس اور اردن نے عدالت کے فیصلے کو تاریخی قرار دے دیا ...قطر، کویت اور عمان نے اس فیصلے کا خیر مقدم کیا ہے ...پاکستانی صدر نے عدالت کے فیصلے کو خوش آئند اقدام  قرار دیا اورعالمی برادری اور اقوام متحدہ کے دیگر اداروں بالخصوص سلامتی کونسل پر زور دیا کہ وہ غزہ میں فوری جنگ بندی کے لیے اقدامات کریں اور 'اسرائیل' کو مزید خون ریزی سے روکیں... “اور جہاں تک فلسطینی اتھارٹی کا تعلق ہے تو فلسطینی وزارتِ خارجہ نے ایک ویڈیو پیغام میں کہا ، عدالت کا طے شدہ فیصلہ دنیا کو یہ باور کراتا ہے کہ کوئی بھی ریاست قانون سے بالاتر نہیں ہے اور عدل سب پر لاگو ہوتا ہے“... “

 

گویا ایسا ہے کہ جیسے اس فیصلے سے فلسطین پر یہودی وجود کے قبضے کا خاتمہ ہو گیا ہو اور اسی لئے  یہ حکمران اس فیصلے کی تعریفیں کرتے نہیں تھک رہے ! اللہ سبحانہ وتعالیٰ فرماتا ہے،

 

﴿قَاتَلَهُمُ اللهُ أَنَّى يُؤْفَكُونَ﴾

اللہ انہیں ہلاک کرے، یہ کہاں سے پھرے جاتے ہیں ( المنافقون؛ 63:4)۔

 

پھراس کے بعد عرب حکمرانوں نے عدالت کے اس فیصلے کے اپنے خیر مقدم کے تناظر میں اس بات کا جائزہ لینے کے لئے عرب لیگ کا اجلاس بلانے میں جلدی کی کہ غزہ کے حوالے سے کیا حل ہونا چاہئے۔ انہوں نے ہر حل پر تبادلۂ خیال کیا، سوائے اس حل کے جوکہ رب العالمین کی طرف سے فرض کیا گیا حقیقی حل ہے اور رسول اللہ ﷺ، خلفائے راشدین اوران کے بعد آنے والے خلفاء کا پیروی شدہ حل ہے جب تک کہ کفار 1924عیسوی میں خلافت کا خاتمہ کرنے میں کامیاب نہ ہوگئے۔ اس وقت فلسطین کو یہودیوں کے حوالے کر دیا گیا تھا۔ اللہ سبحانہ وتعالیٰ، خلیفہ عبدالحمید دوئم پر رحم فرمائے جو انہوں نے اپنے مشہور قول میں اس وقت کہا تھا، جب ہرڈزل نے یہودیوں کو فلسطین میں مقیم ہونے اور سکونت رکھنے کی اجازت دینے کے بدلے میں سرکاری خزانے میں لاکھوں سونے کےدینار کی پیش کش کی تو خلیفہ نے اسے یہ کہتے ہوئے مسترد کر دیا کہ فلسطین میری ذاتی ملکیت میں نہیں ہے، بلکہ یہ امت مسلمہ کی ملکیت ہے۔ میرے لوگوں نے اس سرزمین کے لیے جنگیں لڑی ہیں اور اسے اپنے خون سے سیراب کیا ہے۔ یہود اپنے لاکھوں اپنے پاس ہی رکھیں۔ اگر کسی دن خلافت ٹکڑے ٹکڑے ہوگئی تو وہ فلسطین کی سرزمین کو بغیر کسی رقم کے بھی لینے کے قابل ہو جائیں گے۔ اور اسی طرح ہی یہ سب ممکن ہوا! اور اب عرب حکمران اپنے ہنگامی اجلاس کے دوران ہر حل پر بات کر رہے ہیں سوائے اس حقیقی حل کے، جو کہ یہ ہے کہ وہ غزہ ہاشم کی مدد کے لئے افواج کو حرکت میں لائیں اور فلسطین کی مقدس سرزمین پر قابض یہودی وجود کا خاتمہ کریں! ان حکمرانوں کا اجلاس اس فیصلے کا خیر مقدم کرنے سے آگے نہیں بڑھ سکا اوراس میں یہ دعویٰ کیا گیا کہ یہ فیصلہعالمی قانون کو بحال کرنے کا ایک موقع ہے، جس کی شقوں کی اسرائیل خلاف ورزی کر رہا ہے، اور عرب فریقین کو اسی فیصلے پر کوشش کرنے کی ضرورت ہے۔ [اسکائی نیوز عربی، 28 جنوری، 2024[

 

مزید یہ کہ وہ حکمران ابھی تک امریکہ سے ہی حل چاہ  رہے ہیں۔ لہٰذا عرب ثالث، مصر اور قطر، امریکہ کی جانب سے یہودیوں کے ساتھ بلائے گئے ایک اجلاس میں شرکت کے لئے دوڑے چلے جا رہے ہیں تاکہ دوران مزاحمت قید ہونے والے یہودی قیدیوں کو بچانے کے لیے مغلوب ہونے کے ایک نئے طریقے کی کوشش کی جا سکے، اس اجلاس میں شرکت کے لئے "اسرائیلی" انٹیلی جنس سروس "موساد" کے ڈائریکٹر ڈیوڈ برنیا کی سربراہی میں "اسرائیلی" وفد غزہ میں قید مزید یرغمالیوں کی رہائی کے ممکنہ نئے معاہدے کے بارے میں مذاکرات کی پیروی کرنے کے لئے فرانسیسی دارالحکومت پہنچا۔ بیان میں کہا گیا ہے کہ "اسرائیلی" وفد اتوار کی شام پیرس میں امریکہ، قطر اور مصر کے نمائندوں کے ساتھ ملاقات کرے گا، جو "اسرائیل" اور حماس تحریک کے مابین تشکیل کردہ اور تیار کردہ معاہدے کو حتمی شکل دینے کے لئے مشترکہ ثالثی کی کوششوں کی قیادت کر رہے ہیں۔ امریکی حکام کے دو سینئر عہدیداروں کا حوالہ دیتے ہوئے کہا گیا کہ "ابتدائی فریم ورک کے حوالے سے امریکی مذاکرات کاروں کے سامنے جو کچھ پیش کیا جا رہا ہے اس کے بارے میں ٹھوس پیش رفت کے اشارے موجود ہیں۔ اس کے لئے اسرائیل سے مطالبہ کیا گیا ہے کہ وہ قیدیوں کے ایک نئے گروپ کی رہائی کے بدلے میں دو مہینے کے لئے غزہ میں اپنی فوجی کارروائیاں معطل کرے، اس طرح 100 سے زائد قیدی رہا ہوجائیں گے جو اب تک حماس کے قبضے میں ہیں" (بی بی سی عربی، 28 جنوری، 2024)۔ یہ امریکہ ہی ہے جو ان حکمرانوں کو ہانکے جا  رہا ہے  اور وہ غلاموں کی طرح پیچھے چل رہے ہیں ! ارشادِ باری تعالیٰ ہے، 

 

﴿سَاءَ مَا يَحْكُمُون﴾

کیا ہی برا حکم لگاتے ہیں(العنکبوت؛ 29:4)۔

 

ایسے ہیں مسلم ممالک کے حکمران ... لہٰذا اے افواج، اپنا راستہ خود منتخب کرو۔ پس یا تو تم اللہ اور اس کے رسول ﷺ کی اطاعت کرو؛ پھر تم ان دو بھلائیوں میں سے کسی ایک کام میں جلدی کرو گے، جس میں دنیا کی فتح ہو اور ایک ایسی مستحکم فتح جو امت کا مقام بلند کرے گی، اور آخرت کی فتح، جس میں آسمانوں جیسی وسیع جنت اور نیکو کاروں کے لیے تیار کیے گئے باغات ہوں گے۔ پس کیا آپ غزہ، اس کی فوج اور پورے فلسطین کی مدد کریں گے ...یا آپ اپنے حکمرانوں کی راہ پر چلیں گے۔ وہ حکمران نہ تو آپ کو اس دنیا میں اور نہ ہی آخرت میں کچھ نفع پہنچا پائیں گے۔ اس کے بجائے، آپ کی حالت کسی ایسے شخص کی طرح ہوگی جو خود آگ کے شعلوں سے نجات کے لئے پکار رہا ہو۔ اس طرح  نہ تو اس دنیا میں کوئی فتح مل پائے گی اور نہ آخرت میں کوئی تحفظ ملے گا۔ اللہ سبحانہ وتعالیٰ نے ارشاد فرمایا، 

 

﴿لَهُمْ خِزْيٌ فِي الدُّنْيَا وَلَهُمْ فِي الْآخِرَةِ عَذَابٌ عَظِيمٌ﴾

   دنیا میں بھی ان کے لئے بڑی رسوائی ہے اور آخرت میں ان کے لئے بھاری عذاب تیار ہے۔(المائدہ؛ 5:33)

 

اے مسلم ممالک کی افواج !

اپنے آباؤ اجداد کو یاد کرو۔ صلاح الدینؒ کو یاد کرو جس نے صلیبیوں کا خاتمہ کر دیا جب انہوں نے زمین پر فساد پھیلا دیا تھا... قطوز اور بیبرس اور ان مسلم سپاہیوں کو یاد کرو جنہوں نے تاتاریوں کا خاتمہ کیا تھا... یاد کرو کہ یہ سب معرکے ارضِ مقدس، فلسطین کی سرزمین پر وقوع پذیر ہوئے تھے۔ ان سب کارناموں کو یاد کرو، ان کے جانشیں بنو، ان کی راہ پر چلو اور فلسطین کو تیسری بار ان یہودیوں کا قبرستان بنا دو جنہوں نے تمہیں تمہارے گھروں سے نکالا اور ان کے ان مددگاروں کا بھی جنہوں نے تمہیں نکالنے میں مدد کی۔ اللہ سبحانہ و تعالیٰ کا ارشاد ہے؛

 

﴿إِنَّمَا يَنْهَاكُمُ اللهُ عَنِ الَّذِينَ قَاتَلُوكُمْ فِي الدِّينِ وَأَخْرَجُوكُمْ مِنْ دِيَارِكُمْ وَظَاهَرُوا عَلَى إِخْرَاجِكُمْ أَنْ تَوَلَّوْهُمْ وَمَنْ يَتَوَلَّهُمْ فَأُولَئِكَ هُمُ الظَّالِمُونَ﴾

اللہ تمہیں ان سے دوستی کرنے سے منع کرتا ہے جنہوں نے دین کے حوالے سے تم سے لڑائی کی اور تمہیں تمہارے گھروں سے نکالا اور تمہیں نکالنے میں اوروں کی مدد کی۔ تو جو لوگ ایسوں سے دوستی کریں گے تو وہی ظالم ہیں(الممتحنہ؛ 60:9)۔

 

یہ فرمان القوی العزیز کی طرف سے ہے، ارشاد ہے،

 

﴿وَاقْتُلُوهُمْ حَيْثُ ثَقِفْتُمُوهُمْ وَأَخْرِجُوهُمْ مِنْ حَيْثُ أَخْرَجُوكُمْ﴾

اور ان کو جہاں پاؤ، قتل کر دو اور جہاں سے انہوں نے تم کو نکالا ہےوہاں سے تم بھی ان کو نکال دو (البقرۃ؛ 2:191)۔

 

اے مسلم ممالک کی افواج !

کیا تم میں کوئی ایک بھی صالح جوانمرد نہیں؟ وہ جو اللہ کی تسبیح کرتا ہوا افواج کی قیادت کرے، خاص طور پر کنعانہ اور شام کی سرزمین میں، اور باقی افواج اللہ کی طرف سے فتح پر تسبیح کرتی ہوئی اس کی پیروی کریں۔ ارشادِ باری تعالیٰ ہے؛

 

﴿إِنَّا لَنَنْصُرُ رُسُلَنَا وَالَّذِينَ آمَنُوا فِي الْحَيَاةِ الدُّنْيَا وَيَوْمَ يَقُومُ الْأَشْهَادُ﴾

بے شک ضرور ہم اپنے رسولوں کی اور جو لوگ ایمان لائے، ان کی دنیا کی زندگی میں بھی مدد کریں گے اور جس دن گواہ کھڑے ہوں گے ( یعنی روزِ قیامت کو )( الغافر؛ 40:51)۔

 

بس بہت ہو گیا، اے افواج! نہ تو معافی طلب کرنے والے کے لئے کوئی عذر بچا ہے اور نہ ہی احتجاج کرنے والے کے لئے۔ آپ کے لئے صرف یہ کافی نہیں کہ عمل کچھ بھی نہ کریں اور بس غصے سے اپنے دشمن پر دانت پیستے رہیں۔ بلکہ جیسا کہ اللہ تبارک وتعالیٰ، العلیم الخبیر نے فرمایا؛ 

 

﴿قَاتِلُوهُمْ يُعَذِّبْهُمُ اللهُ بِأَيْدِيكُمْ وَيُخْزِهِمْ وَيَنْصُرْكُمْ عَلَيْهِمْ وَيَشْفِ صُدُورَ قَوْمٍ مُؤْمِنِينَ﴾

ان سے لڑو، اللہ انہیں تمہارے ہاتھوں سے عذاب میں ڈالے گا اور انہیں رسوا کرے گا، اور تم کو ان پر غلبہ دے گا اور مومنین کے سینوں کو شفا بخشے گا( التوبۃ؛ 9:14)۔

 

ہجری تاریخ :18 من رجب 1445هـ
عیسوی تاریخ : منگل, 30 جنوری 2024م

حزب التحرير

Leave a comment

Make sure you enter the (*) required information where indicated. HTML code is not allowed.

دیگر ویب سائٹس

مغرب

سائٹ سیکشنز

مسلم ممالک

مسلم ممالک