بسم الله الرحمن الرحيم
صرف نبوت کے نقشِ قدم پر خلافت کا قیام ہی کرپشن کا خاتمہ کرے گا!
پاکستان میں کرپشن کا سنگین مسئلہ ایک طویل ڈرامہ اور تماشہ بن کر رہ گیا ہے ۔ پہلے ہم نے وزیر اعظم نواز شریف کے خاندان کے خلاف کرپشن کی ایک لمبی تحقیق اور عدالتی کاروائی کا مشاہدہ کیا جسے شروع ہوئے ایک سال سے زیادہ ہو چکا ہے۔ پھر ہم نے دیکھا کہ 10 جولائی 2017 کو مشترکہ تحقیقاتی ٹیم (جے آئی ٹی) کی جانب سے ایک طویل رپورٹ سپریم کورٹ میں جمع کرائی گئی۔ پھر ہم نے مشاہدہ کیاکہ ایک ہفتے بعد 17 جولائی 2017 کو شریف خاندان کی جانب سے جے آئی ٹی رپورٹ کے خلاف قانونی اعتراضات جمع کرائے گئے۔ اور اب ہم دیکھ رہے ہیں کہ حکمران اور اپوزیشن جماعتوں نےایک دوسرے کی ٹانگیں کھینچنے اور شور مچانے کا طویل سلسلہ شروع کر رکھا ہے جبکہ ابھی انتخابات کا سال نہیں آیا اور اس میں کئی ماہ باقی ہیں۔
ہمیں حکمران جماعت پاکستان مسلم لیگ-ن کی طرف سے کرپشن کے متعلق کیا موقف دیکھنے کو ملا؟ حکمران جماعت کا موقف یہ ہے کہ کرپشن ہر طرف ہے لہٰذا اس کی تفتیش کرنا نہ صرف وقت کا ضیاع ہے بلکہ اس کے پیچھے پڑنے سےعوام کو سہولیات کی فراہمی میں رکاوٹ پیدا ہو گی! 6 مئی 2017 کو نواز شریف نے کہا، “ملک میں اتنے گھپلے اور کرپشن سکینڈلز ہیں کہ جتنا کہا جائے کم ہے، بہت سی چیزوں کی تحقیقات ہونی ہیں لیکن اگر ہم تحقیقات کے چکر میں پڑ گئے تو سارا وقت اسی میں لگ جائے گا ، پھر ترقیاتی کام کون کرے گا، سارے منصوبے راستے میں رہ جائیں گے”۔
اور ملک کی سب سے بڑی اپوزیشن جماعت پاکستان پیپلز پارٹی (پی پی پی)کا اس حوالے سے کیا موقف ہے؟ کیا اس کا موقف کسی بھی طرح حکمران جماعت سے بہتر ہے؟ نہیں! بلکہ اس کا موقف بھی مسلم لیگ-ن کے موقف کی تائید کرتا ہے کہ کرپشن اورموجودہ نظام لازم و ملزوم ہیں۔ یقیناً پی پی پی کی صفیں ایسے لوگوں سے بھری ہوئی ہیں کہ جو اپنی باری کے دوران اپنے پیٹ خوب بھرتے رہے اور اِ س دوران مسلم لیگ-ن نے صبر کے ساتھ اپنی باری کا انتظار کیا ، کیونکہ ان کرپٹ لوگوں کے گٹھ جوڑ یعنی “میثاقِ جمہوریت” میں یہی طے ہوا تھا۔
اور ہم پاکستان تحریکِ انصاف (پی ٹی آئی) کا کیاکردار دیکھتے ہیں جو کہ پی پی پی اور مسلم لیگ-ن کی باریوں کی سیاست کو ختم کرنا چاہتی ہے تاکہ کرپشن کے لیے گٹھ جوڑ کرنے والی ان دو جماعتوں سے اقتدار چھین کر اپنی باری پکی کر لے ۔ کیا یہ جماعت واقعی اُمید کی علامت اور نجات کا باعث ہو سکتی ہے ؟ تو صورتِ حال یہ ہے کہ پی ٹی آئی کی صفیں بھی کرپٹ سیاست دانوں سے بھری پڑی ہیں ،بشمول وہ جو اِس سے پہلے مسلم لیگ –ن اورپی پی پی کے ساتھ تھے اوراس کی بھونڈی توجیح یہ دی جاتی ہے کہ صرف کرپٹ لوگ ہی انتخابی دنگل جیتنے کی قابلیت رکھتے ہیں!
تو آج ہم کہاں کھڑے ہیں کہ ہمارے سامنے انتخاب کرنے کے لئے بس اسی قسم کے لوگ اور جماعتیں ہیں؟! کیا ہم صرف اپنی تباہی کا تماشہ دیکھتے رہیں گے جب یہ کرپٹ لوگ ہم پر حکمرانی حاصل کرنے کے لیے آپس میں لڑائی لڑ رہے ہیں، ایک ایسے نظام میں اقتدار حاصل کرنے کے لئے جو ایک کرپٹ شخص کے لیے ہی پُرکشش ہے، کرپٹ کو ہی نوازتا ہے اورکرپشن کی آماجگاہ ہے؟!!
اے پاکستان کے مسلمانو!
کچھ شک نہیں کہ اگر ہم موجودہ نظامِ حکومت یعنی جمہوریت کے تحت ہی زندگی گزارتے رہے تو ہم ایسی ہی افسوس ناک صورت حال سے دوچار رہیں گے اور ہمارے سامنے انتخاب کے لیے ایسے ہی بے کار ترین لوگ ہوں گے۔ پاکستان میں مخلص اور قابل مسلمانوں کی کوئی کمی نہیں ہے لیکن جمہوریت کرپٹ لوگوں کے لیے ایک کار آمد ہتھیار ہے کہ جس کی طرف وہ یوں کھچے چلے آتے ہیں جیسے مکھیاں گندگی کی طرف ۔ تمام کرپٹ لوگ جمہوریت کے تسلسل کی پُرزورحمایت کرتے ہیں کیونکہ جمہوریت قانون بنانے،صحیح اور غلط کو طے کرنے اورحلال و حرام کا فیصلہ کرنے کا اختیار منتخب نمائندوں کو دے دیتی ہے۔ یوں جمہوریت اس بات کو یقینی بناتی ہے کہ کرپٹ لوگ قانون سازی کے ذریعے اپنی کرپشن کو “حلال” اور قانونی بنا لیں۔ سترہویں ترمیم ، قومی مصالحتی آرڈیننس (این آر او) اور اقتصادی اصلاحات کے تحفظ کا ایکٹ اس کی چند مثالیں ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ انتخابات سے قبل یہ کرپٹ عناصرجوش و خروش سے ہمارے گھروں اور علاقوں کادورہ کرتے ہیں اور ہمارے ووٹ حاصل کرنے کے لیے بڑی بڑی رقمیں خرچ کرتے ہیں۔ لیکن جمہوری نظام میں داخل ہونے کے بعد وہ ہم سے منہ پھیر لیتے ہیں اور انتخابات میں اپنی سرمایہ کاری پر زیادہ سے زیادہ منافع حاصل کرنے میں مصروف ہوجاتے ہیں۔
پچھلی سات دہائیوں سے جمہوریت نے اس بات کو یقینی بنایا ہے کہ پاکستان میں کرپشن برقرار رہے اور اگر جمہوریت باقی رہی تو اگلی سات دہائیوں تک کرپشن کو ہی یقینی بنائے گی۔ پانامہ پیپرز نے یہ واضح کردیا ہے کہ صرف پاکستان میں ہی نہیں بلکہ روس سے لے کر جنوبی امریکہ تک ،جمہوریت پوری دنیا میں کرپشن کو یقینی بناتی ہے۔ کئی دہائیوں سے جمہوریت اس بات کو یقینی بناتی رہی ہے کہ کرپٹ حکمران لوٹ کھسوٹ کی دولت کو بیرونِ ملک قائم کمپنیوں (آف شور کمپنیوں) میں اس طرح چھپا سکیں کہ نہ تو اس کا پتہ چلے ، نہ ہی اس کی تحقیق ہو سکے اور نہ ہی ان کے خلاف کوئی مقدمہ چل سکے۔ یہ جمہوریت کی بدولت ہی ہے کہ وسائل سے مالامال ممالک کے عوام بھی غریب اور ستم رسیدہ ہیں جبکہ ان کے حکمران انتہائی امیر اور کرپٹ ہیں۔لہٰذایہ بات بالکل واضح ہے کہ جمہوریت کے ذریعے کرپشن کے خاتمے کی کوشش کرنا لاحاصل ہے ،بلکہ یہ ایسا ہی ہے کہ بیماری کا علاج بیماری سے کیا جائے۔
اے پاکستان کے مسلمانو!
ہمیں کرپشن اور گھٹیا جمہوری اقدار سے چھٹکارا تب ہی حاصل ہو گا جب ہم نبوت کے نقشِ قدم پر خلافت کے قیام کے ذریعے اسلام کا نظامِ حکومت نافذ کریں گے۔ صرف نبوت کے نقشِ قدم پر قائم خلافت ہی کرپشن کے دروازے کوسختی سے بند کرتی ہےکیونکہ اس کے قوانین اللہ خالقِ کائنات کے عطا کردہ ہوتے ہیں جنہیں لوگوں کی مرضی اورخواہشات کے مطابق موڑا یاتبدیل نہیں کیا جا سکتا۔ خلافت میں قوانین اسمبلیوںمیں بیٹھے کرپٹ افراد کی کثرتِ رائے سے نہیں بنتے بلکہ کتاب اللہ اور سنتِ رسول سے اخذ کیے جاتے ہیں۔
یہ قرآن و سنت کے ذریعے حکمرانی ہی ہے جس نے ہمیں حکمرانی کا اعلیٰ معیار مہیا کیا۔ آج ہمارا اعلیٰ معیار خلیفۂ راشد ابو بکر ہیں کہ جو اپنے گھر والوں کی غربت کو دور کرنے کے لیے تجارت کی غرض سے بازار جا رہے تھے کہ رستے میں ان کے حکومتی معاون نے انہیں روکا اورپھر ان کے لیے بیت المال سے وظیفہ مقرر کیا گیا۔ ہمارے لیے حکمرانی کا اعلیٰ معیار خلیفۂ راشد عمر بن خطاب ہیں جنہوں نے انکساری کے ساتھ اس بات پر اپنے احتساب کوقبول کیاکہ ان کے پاس مالِ غنیمت کی اضافی چادر کہاں سے آئی۔ ہمارے لیے حکمرانی کا اعلیٰ معیار خلیفۂ راشد عثمان غنی ہیں جو اتنے بڑے تاجر تھے کہ جب ان کا قافلہ تجارتی سامان لے کر چلتا تھا تو زمین دہل جاتی تھی لیکن جب وہ حکمران بنے تو انہوں نے اتنہائی سادہ زندگی کو اختیار کیا۔ اور ہمارے لیے حکمرانی کا اعلیٰ معیار خلیفۂ راشد علی ہیں کہ جب وہ ایک یہودی کے خلاف اپنی ڈھال کی چوری کا مقدمہ لے کر عدالت گئے مگر گواہ نہ ہونے پر قاضی نے فیصلہ ان کے خلاف دیا اورعلیؓ نے کسی پس وپیش کے بغیر اس فیصلے کو قبول کیا!
تو اے مسلمانو کرپشن اور ظلم کے خاتمے کے لیے حزب التحریرکے شباب کے ساتھ مل کر نبوت کے نقشِ قدم پر خلافت کے قیام کی بھر پور جدوجہد کرو۔ زبردست جدوجہد کرو کہ اس وقت دنیا مغرب میں امریکہ سے لے کر مشرق میں چین تک جمہوریت اور اس سے پروان چڑھنے والے کرپٹ حکمران طبقے سے تنگ آچکی ہے۔ زبردست جدوجہد کرو کہ اب مسلم دنیا مغرب میں مراکش سے لے کر مشرق میں انڈونیشیا تک اپنی زندگی کے اصل مقصد کو جان کر جاگ اٹھی ہے۔ زبردست جدوجہد کرو کہ اس دنیا سے کرپشن اورجمہوریت کا ظلم ختم ہو جائے اور رسول اللہ ﷺ کی بشارت پوری ہو جائے ،جب آپ ﷺ نے فرمایا،
ثُمَّ تَكُونُ مُلْكًا جَبْرِيَّةً فَتَكُونُ مَا شَاءَ اللَّهُ أَنْ تَكُونَ ثُمَّ يَرْفَعُهَا إِذَا شَاءَ أَنْ يَرْفَعَهَا ثُمَّ تَكُونُ خِلَافَةً عَلَى مِنْهَاجِ النُّبُوَّةِ ثُمَّ سَكَتَ
“پھر ظلم کی حکمرانی ہو گی اور اس وقت تک رہے گی جب تک اللہ چاہے گا۔ پھر جب اللہ چاہے گا اِسے ختم کردے گا۔ پھر نبوت کے نقشِ قدم پر خلافت ہو گی۔ اس کے بعد رسول اللہ ﷺ خاموش ہوگئے”(احمد) ۔
اے افواجِ پاکستان میں موجود مسلمانو!
جمہوریت ، جو کرپشن اور ظلم کی سرپرست ہے، آج صرف اس وجہ سے چل رہی ہے کہ آپ کی قیادت میں موجود غداروں نے آپ کی طاقت کو ہمیشہ انسانوں کے بنائے ہوئے قوانین کو مضبوط کرنے کے لیے استعمال کیا ہے۔ آپ اپنی طاقت کے غلط اور ناجائزاستعمال کو کیسے برداشت کرسکتے ہیں جبکہ آپ نے تو اللہ کا نام لے کر حلف اٹھا رکھا ہے کہ آپ اپنے ملک اور اس کے لوگوں کی حفاظت کریں گے؟!
اور آپ کیسے اپنی طاقت کے غلط اور ناجائزاستعمال کو برداشت کرسکتے ہیں جبکہ آپ کے آباؤاجداد تو انصارِ مدینہ کے وہ جنگجو ہیں کہ جن کی نُصرۃ کے ذریعے رسول اللہ ﷺ نے اسلامی ریاست قائم کی تھی؟ آج نبوت کے نقشِ قدم پر خلافت کےفوری قیام کے لیے حزب التحریر کو نصرۃ فراہم کریں، کرپٹ حکمرانوں کو ان کے ہاتھوں سے پکڑ لیں کہ جن کا ظلم اپنی انتہاء کو پہنچ چکا ہے، اور یوں اللہ کی رضا کو حاصل کرلیں اور اُس کے غضب سے خود کو بچا لیں۔ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا،
إنَّ النَّاسَ إَذا رَأوُا الظَّالِمَ فَلمْ يَأْخُذُوا عَلى يَدَيْهِ أوْشَكَ أن يَعُمَّهُمُ اللَّهُ بعِقَاب
” اگر لوگ ایک ظالم کو دیکھیں اور وہ اُس کو اُس کے ہاتھوں سے نہ پکڑیں تو قریب ہے کہ اللہ ان سب کو سزا دے”(ابو داؤد، ترمذی،ابنِ ماجہ) ۔
ہجری تاریخ :27 من شوال 1438هـ
عیسوی تاریخ : جمعہ, 21 جولائی 2017م
حزب التحرير
ولایہ پاکستان