السبت، 26 صَفر 1446| 2024/08/31
Saat: (M.M.T)
Menu
القائمة الرئيسية
القائمة الرئيسية
Super User

Super User

سوال وجواب:  امریکہ میں بجٹ اورقرضوں کی حد اونچی کرنے کے حوالے سے حالیہ رسہ کشی کی حقیقت

 

سوال: اس وقت یونائیٹڈ اسٹیٹس میں ایک طرف اوباماانتظامیہ اورڈیموکریٹک پارٹی کے درمیان اوردوسری طرف حریف ریپبلکن پارٹی کے درمیان زبردست رسہ کشی عروج پرہے.یہ کشمکش بجٹ اورقرضوں کی حد اونچی کرنے کے حوالے سے ہے.اوباماحکومت قرضوں کی حد کو بڑھانے کا شدید تقاضاکررہی ہے ۔ بجٹ منظورکرنے میں ناکامی کے باعث بحران میں اس حد تک شدت آئی کہ وفاقی حکومت کےلاکھوں ملازمین کونوکریوں سے فارغ کرناپڑا، اس کو انہوں نے بغیر ادائیگی کے جبری رخصت کانام دیا۔
اب سوال یہ ہے کہ سرمایہ دارجمہوری ممالک کا پیشواامریکہ جیسی ریاست میں یہ حالات کیسے ظہورپذیر ہوئے ۔یہ کس نوعیت کی جمہوریت ہے جس کے بارے میں خیال کیاجاتا ہے کہ یہ لوگوں کوانصاف فراہم کرتی ہے ؟ ان لوگوں سے کام کرنے میں کوئی کوتاہی سرزد ہوئی ہے، یاپھر جمہوریت ان کوان کے ناکردہ گناہ کی سزا دےرہی ہے،جوعوام کوان کی تنخواہوں سے محروم کرتی ہے؟ پھر یہ کہ الٹا حکومت قرضوں کی حد بڑھانے پراصرار کر رہی ہے ،حالانکہ ہوناتویہ چاہئے تھا کہ حکومت قرضے گھٹانے پر اصرار کرتی؟
اس کی ایسی وضاحت درکارہے جسے آسانی کے ساتھ سمجھاجاسکے ،جزاک اللہ خیراً ۔

 

جواب: آپ کے سوال کاجواب مندرجہ ذیل امور پرغورکرنے سے واضح ہوگااوربآسانی سمجھ میں آجائے گا۔
پہلا : امریکی بجٹ :
امریکی بجٹ کی منظوری کیلئے کانگریس کے دونوں ایوانوں سے منظوری ضروری ہوتی ہے۔ امریکی سینٹ میں اکثریت ڈیموکریٹس کی ہے اورامریکی ایوان نمائندگانمیں اکثریت ریپبلکن کی ہے ۔ بات چیت کازبردست راؤنڈ ہوا،جس میں امریکی سینٹ اورایونِ نمائندگان کے درمیان سوموار 03/9/2013 کی شام تک تجاویز اورتحریروں کاتبادلہ ہوتارہا ،لیکن امریکی کانگریس 1/10/2013 کے ابتدائی گھنٹوں سے قبل، جب کہ امریکہ کے نئے مالی سال کاآغاز ہوتاہے،عارضی بجٹ پاس کرنے میں ناکام ہوئی ۔
دوسرا : قرضوں کی حد کاموضوع :
امریکی قرضہ وفاقی حکومت پربراہ راست قرضے کی مجموعی مقدار ہے،جو یونائیٹڈاسٹیٹس سے باہر اور اندرکی پارٹیوں کے پاس موجود ٹریژری بانڈز ہیں جو امریکی وزارت خزانہ کی طرف سے جاری کئے گئے ہیں ۔
امریکی قرضے کی حد کا تعین کانگریس کرتی ہے ،جس سے تجاوز کرناوفاقی حکومت کیلئے جائز نہیں ،اورجس کی مقدارفی الحال 16.7ٹریلین ڈالرہے ۔توقع یہ ہے کہ حکومت 17/10/2013، کواس حدسے تجاوز کرجائے گی ،اس لئے وفاقی حکومت نے اس تاریخ کو کانگریس کی طرف سے کیے جانے والےفیصلے کے انتظارمیں اپنی دھڑکنوں کوروکاہواہے ۔
تیسرا : پیش آمدہ بحران اوراس کے اسباب وعوامل :
1ـ اوبامانے ہیلتھ کئیرکاایک پروگرام پیش کیاجسے اس نے "اوباماکئیر"کانام دیا،اس کامقصد کم آمدنی والے 46ملین امریکیوں کوسماجی تحفظ اورہیلتھ انشورنس فراہم کرناتھا،تاکہ جو لوگ انشورنس نہیں کرواسکتے ،ان کیلئے ہیلتھ انشورنس حاصل کرناممکن ہوجائے ۔اس پروگرام کوچلانے کیلئے 2013ـ 2014 کی بجٹ میں اس کیلئے مختص کئے گئےکوٹے کی ڈکلئیریشن ضروری ہے۔بجٹ کاآغاز 1/10/2013سے ہوتاہے ،مگر ری پبلیکنز نے دیکھاکہ پروگرام کامقصد ڈیموکریٹک پارٹی کیلئے عوامی حمایت اوررائے عامہ کاحصول ہے ،بالخصوص جبکہ کانگریس کے مڈٹرم الیکشن نومبر 2014 میں ہونے والے ہیں اوریہ توقع کی جاتی ہے کہ اس میں اوباماکاہیلتھ کئیرپروگرام موضوع بحث ہوگا۔اس لئے ری پبلیکنز نے اوباماپروگرام کیلئے بجٹ کی تخصیص کواس وقت تک کے لیے روک دینے کا مطالبہ کیا جب تک اس سے متعلق قانون پر مذاکرات اور ترامیم جاری ہیں ۔ یہ مطالبہ اس لیے کیا گیا تاکہ پیکج میں ری پبلیکنز کے نقطہ نظر کو گنجائش دے کراس کودونوں پارٹیوں کے مشترکہ نام سے جاری کیاجائے ، صرف اوباماکے نام سے جاری نہ ہو،اس طرح اوباماڈیموکریٹک پارٹی کیلئے آئندہ انتخابات میں کوئی ووٹ بینک نہ بناسکے گا،اور چونکہ امریکی ایوان نمائندگان میں ری پبلیکنز کی اکثریت ہے ،اس لئے وہ اس قابل ہیں کہ اس قانون کومعطل کردیں۔
چونکہ دونوں پارٹیوں کے نزدیک ایشولوگوں کی خدمت کرنانہیں،بلکہ یہ آنیوالے انتخابی فصل کوکاٹنے کیلئے ایک سیاسی تنازع ہے ،اس لئے ہرایک نے اپنے موقف پراصرار کیا،چاہے لوگوں کااس میں نقصان ہو،جیساکہ حال ہی میں سامنے آیا۔اوباما اس پیکج کی منظوری کاخواہشمندہے ،جبکہ ری پبلیکنز اس کے بارے میں بات چیت کیلئے اس کوملتوی کرنے اوراس کواوباماسے الگ کرکے اس کوایسا رنگ دینا چاہتے ہیں جس میں ان کابھی حصہ ہو ۔ اس طرح ماہِ اکتوبرکے ابتدائی گھنٹوں سے پہلےعارضی بجٹ پیش کرنے میں کانگریس کی ناکامی نےاس بحران میں اضافہ کیا،جو اس کی منظوری کاطے شدہ وقت ہے۔ اوردونوں پارٹیوں کے درمیان اس کے مقررہ تاریخ تک بحث ومباحثہ ہوتارہا۔
2ـ اس کے نتیجے میں"وفاقی حکومت نے شٹ ڈاون " کیا،کیونکہ ری پبلکن پارٹی نے 30/9/2013کوبجٹ 2014 کے قانون پر ووٹنگ کومسترد کردیااوراس کی وجہ سے 8 لاکھ سے زیادہ حکومتی ملازمین کومعاؤضےاداکیے بغیر جبری رخصت دے کرمعطل کردیاگیا،اورتمام امریکی اداروں سے اپنے ملازمین میں کمی اوربڑی تعداد کوچھٹی دینے کی توقعات کی گئیں ،جیساکہ سابقہ ادوار میں ہوا، جب بل کلنٹن کے دورمیں دسمبر 1996 تاجنوری 1997تک 21 دن حکومتی سرگرمیوں کومعطل کیاگیاتھا،اس وقت حکومت کو اس شٹ ڈاؤن سے دوبلین ڈالر کانقصان ہوا تھا ۔
3ـ یہ اس بحران کی ایک کڑی ہے، بلکہ آئندہ بحران کے آنے کا اعلان اور زریعہ ہے ،یعنی حکومتکانگریس میں اس معاملے پربحث کرنے کیلئے طے شدہ وقت میں جو قریباً ایک ہفتہ بعد 17/10/2013 کوآرہاہے، قرضے کی حد بڑھانے کامطالبہ کرے گی ،اس لئے کہ حکومتی قرضہ جائز مقدار سے تجاوز کرگیاہے، جو 16.7ٹریلین ڈالر ہے ۔اس حد کی منظوری کانگریس نے دی ہے اورحکومت پریہ لازم کردیاہے کہ وہ اس سے زائد قرضہ نہ لے ۔ مگرحکومتی خزانہ 17/10/2013 کودیوالیہ ہونے کے قریب ہے ،کیونکہ حکومتی خزانے میں متوقع پیش گوئیوں کے مطابق ،سوائے 30 بلین ڈالرکے اورکچھ نہیں رہے گا،جس کی بناپر حکومت اپنی مالی ذمہ داریوں کوپوراکرنے کی اہل نہیں رہے گی۔
4ـ دونوں پارٹیاں ایک دوسرے پرالزامات کی بوچھاڑ کرنے لگی ہیں ،بالخصوص جبکہ ان دونوں پارٹیوں کے مسائل کی وجہ سے عوام کوپریشانیوں کاسامناکرناپڑاہے ۔اب ہرایک پارٹی دوسری پرکیچڑ اچھالنے کی کوشش میں ہے ۔اوباماری پبلکنں پارٹی کوان حالات کاذمہ دار ٹھہراتاہے اورکہتاہے کہ اس نے ملک کواپنے پارٹی مفادات کے بدلے گروی رکھ لیاہے ۔اس نے 8/10/2013 کو وائٹ ہاوس میں ایک پریس کانفرنس میں کہا " سینٹ کے اندرکانگریس کے اراکین اوربالخصوص ری پبلیکنز اپنے فرائض کی ادائیگی کے بدلے کسی معاوضے کامطالبہ نہیں کرسکتے ۔ ان کے دوبنیادی کام یہ ہیں کہ وہ بجٹ پاس کریں اوراس بات کی یقین دہانی کرائیں کہ امریکہ ان بلوں کواداکرے گا"۔
امریکی ایوان نمائندگان کے سپیکر کاکہناتھا کہ وہ کانگریس کوہرگز قرضوں کی حد اونچی کرنے کی اجازت نہیں دے سکتے، جب تک کہ اوباما ،ہیلتھ کئیرالمعروف اوباماکئیرکے حوالے سے کچھ دستبردار یوں کااعلان نہ کردے اوراس حوالے سےبات چیت پراتفاق نہ کرے ، ورنہ" ہم قرضوں کی حد نہیں بڑھائیں گےجب تک اس حوالے سے سنجیدہ مذاکرات نہ ہوں جو قرضوں کے بڑھنے کا سبب بن رہے ہیں" ۔
5ـ دونوں پارٹیوں کی کھینچا تانی سے یہ واضح ہے کہ دونوں قرضوں کی مقررہ حد میں اضافہ کرنے کی خواہش مندہیں ،مگرری پبلکنض پارٹی اس کے بارے میں ہم آہنگی کوہیلتھ کئیر پیکج کے قانون میں ترمیم کے ساتھ جوڑتی ہے ،تاکہ اس میں ان کابھی رنگ شامل ہو۔مگرغورکی بات یہ ہے کہ عام ممالک کے امور کوایسے انداز سے چلایاجاتاہے ،جس سے ان کی معاشی اورمالی حالات کنٹرول کیے جاسکیں تاکہ ان کے قرضے بڑھنے کی بجائے ان کوگھٹایاجاسکے،مگرامریکہ واحدریاست ہے جسے اس کی کوئی پروانہیں کہ وہ قرضوں کی دلدل میں سرتاپاغرق ہوجائے ،کیونکہ یہ اب بھی بانڈز جاری کرتاہے اورمناسب وقت پہ ان کی ادائیگی کی ضمانتیں بھی دیتاہے ، اگرچہ اپنے مالی حالات کی وجہ سے ان کی ادائیگی کے قابل نہ رہے ،کیونکہ جب اسے کوئی مفاد نظر آئے تو وہ دیگر ریاستوں کے برعکس لامحدودپیمانے پراپنے خزانے میں پڑے ہارڈ کرنسی سےمزید ڈالرچھپواسکتاہے،بالخصوص جبکہ اس کی کرنسی بڑی حد تک دیگرریاستوں کے ریزرواثاثوں کوکنٹرول کرتی ہے ۔امریکہ آئی ایم ایف سےخفیہ اجازت لے کر مزید ڈالرچھپواسکتاہے ،بلکہ بغیراجازت کے کھل کربھی ایساکرسکتا ہے ،کیونکہ آئی ایم ایف میں اصل اثرونفوذ اس کاہوتا ہے۔امریکہ جعلی اسباب کاپروپیگنڈاکرکے اصل حقائق لوگوں کی نظروں سےچھپالیتاہے ،اس میں آئی ایم ایف اس کوسہارادیتاہے ۔وہ ایساکرتاہے ،اگرچہ ڈالر پرنٹنگ کے باعث اس کی قیمت گرے یامہنگائی میں اضافہ ہو، بشرطیکہ اس میں کوئی مصلحت نظر آئے ۔ مثال کے طورپر ذرائع نے نقل کیاہے کہ امریکہ نےتیل پرسٹے بازیوں کے دوران 2ٹریلین ڈالر تا4ٹریلین ڈالر چھپوائے ،جس کی وجہ سے قمتیں بڑھ کر 2008میں 150 ڈالر فی بیرل تک پہنچ گئی تھیں۔امریکہ اس سٹے بازی سے الگ نہیں رہا،چنانچہ اس نے تیل کی بالواسطہ یابلاواسطہ بڑی مقدار کی خریداری کیلئے پیپر پرنٹ کروائے،پھر اس تیل کواپنے گوداموں میں محفوظ کرلیا۔امریکہ کااس میں اپنامفاد پیش نظر تھا ،جومہنگائی بڑھنےاورڈالرسستاہونےکے مقابلے میں اعلیٰ تھا۔
اس لئے امریکی وفاقی حکومت کے قرضوں کی حد مجبوراً بلند کی جارہی ہے ،مثلاً حکومتی قرضے( مرکزی ادارہ اورعلاقائی ادارہ جات )1990میں 4.3ٹریلین ڈالر سے بڑھ کر2003میں 8.4ٹریلین ڈالر تک اور2007 میں 8.9ٹریلین ڈالر تک پہنچ گئے۔ 2009میں اوباماحکومت کے ابتدائی دنوں میں قرضہ 10.3ٹریلین تھا، 2011میں اس نے 14ٹریلین امریکی ڈالر کی حد پارکی،جبکہ آج کل یہ 16.7ٹریلین ڈالر کوعبورکررہاہے۔کوئی اور ریاست اگران قرضوں سے بہت کم مقدارمیں ڈوب جاتی تووہ کب کی گرچکی ہوتی اوراس کی معیشت کاکباڑاہوجاتا،مگرامریکہ کو قرضوں کی کوئی پروانہیں،کیونکہ یہ اس کااندرونی مسئلہ ہے ،چنانچہ کانگرس جب چاہے قرضوں کی حد بڑھادیتی ہے ،اس کی معیشت چل پڑتی ہے اوراگر اس کی معیشت مضبوط ہو توقرضوں کو اپنی اقتصادی قوت کے ذریعے پوراکردیتی ہے،ورنہ بلاروک ٹوک کےکرنسی نوٹ جاری کردیتاہے،اس لئے امریکی معیشت کوصرف اس وقت ہی زوال وانحطاط سے دوچارکیاجاسکتا ہے،جب کرہ ارض پرکوئی ایسی ریاست رونماہوجائے، جوامریکی ڈالر کوکسی تول میں نہ لائے ،بلکہ اس کے ساتھ یاتوسامان کے بدلے سامان کامعاملہ رکھے، یاگولڈ اینڈ سلور سٹینڈرڈکرنسی( سونے چاندی کےزرمبادلہ) کوپھرسے رواج دے۔
6ـ یوں سرمایہ دارنہ جمہوری بلاک کاسرغنہ جمہوری سرمایہ دارانہ نظام کی ناکامی کاثبوت دے رہاہے ،اوریہ کہ یہ نظام برسراقتدارسرمایہ دارطبقے کی من مانی کے سواکچھ نہیں،جو لوگوں ،بالخصوص متوسط طبقہ اوراس سے کہیں زیادہ عوام کی قسمتوں کافیصلہ کرتاہے۔اوبامانے اپناایشو"اوباماکئیرپروجیکٹ" کوبنایا ہے۔اوبامااس کیلئے یہ دلیل دیتاہے کہ وہ لاکھوں لوگوں کوہیلتھ کئیرکے حوالے سے تعاون فراہم کرے گا،مگردوسری جانب اس نے لاکھوں ملازمین کوبغیرادائیگی کے رخصت دیکرمعطل کردیا۔۔! اس کامطلب ہے کہ ڈیموکریٹک پارٹی اس قانون کے ذریعے لوگوں کی خدمت نہیں کرناچاہتی بلکہ اسے مستقبل میں اپنے انتخابی مقاصد عزیزہیں،ورنہ لوگوں کی خدمت کرنے کےنتیجےمیں ان کوبغیرکسی کوتاہی کے نوکریوں سے فارغ کردیاجائے ،یہ کس قسم کی منطق ہے؟ری پبلکنی پارٹی کی نظرمیں ہیلتھ کئیرکاہونایانہ ہوناکوئی ایشونہیں ،بلکہ اس کے پیش نظر یہ ہے کہ اس پیکج کی نسبت صرف اس کے حریف کی طرف نہ کی جائے بلکہ اس میں ان کی بھی شرکت اور کردارکو یقینی بنایاجائے ، دونوں پارٹیوں کوصحت عامہ کی کوئی فکرنہیں ، اس کی دلیل یہ ہے کہ ری پبلکنم پارٹی اس بات پرمذاکرات کے بعد ہم آہنگ ہوجائے گی ،کہ اس کی نسبت دونوں پارٹیوں کی طرف کی جائے۔ پس اس پروجیکٹ کا مواد ( content)ایشونہیں ،بلکہ اس کے انتخابی فوائدونتائج پیش نظرہیں،خواہ اس کے نتیجے میں لوگ سختی اورزبوں حالی کاشکار کیوں نہ ہوجائیں،اور کتناہی ان کیلئے باعث آزارہو۔ نیز اس پروجیکٹ میں یہ لازمی شرط بھی رکھی گئی ہے کہ بڑی کمپنیاں اپنے ملازمین کی ہیلتھ انشورنس کرائیں،توپروجیکٹ ہولڈراوبامانے گزشتہ مئی میں اس شرط کوایک سال تک ملتوی کرنےکابذات ِخوداعلان کیاتھا،تاکہ ان کمپنیوں اوران کی سپورٹر ری پبلنیں پارٹی کی خوشنودی حاصل کی جائے۔اوباماکاخیال تھاکہ ری پبلکنِ پارٹی اس پیکج میں اس کے ساتھ اتفاق کرلے گی۔ اس سے یہ معلوم ہوتاہے کہ کسی ایک پارٹی کوبھی لوگوں کے امور کی صحیح طریقے سے دیکھ بھال کی اتنی فکرنہیں جتنی ان کواپنی انتخابی مقبولیت کی فکر ہے۔اس سے یہ بھی واضح ہوتاہے کہ ان کی سرمایہ داریت یہ ہے کہ سرمایہ داراپنے سرمائے کی بڑھوتی کیلئے عوام کااستحصال کرے ،جبکہ ان کی جمہوریت عوام کی خدمت کیلئے نہیں، بلکہ اس لئے ہے کہ عوام جمہوریت کے"بڑے "مالکان کی خدمت گزاری کریں،اگرچہ بلامعاوضہ بھی ہو۔
7ـ آخرمیں ہم اس پراللہ کاشکراداکرتے ہیں کہ ہم مسلمان ہیں ،اللہ تعالیٰ نے اس نظام کی طرف ہماری رہنمائی کی ہے جوحکیم اورخبیر ذات کی طرف سے ہے۔اس نظام میں اگرعام لوگ بھوکے ہوں توخلیفہ بھی بھوکارہتاہے ،لوگ سیرہوں تووہ بھی سیرہوتاہے ،وہ تب ہی امن محسوس کرتاہے جب لوگ امن سے ہوں۔ اللہ کی طرف سے دیاہوایہ وہ نظام ہے جوتمام رعایا کیلئےگھر،لباس اورکھانے پینے جیسے بنیادی ضروریات کاضامن ہوتاہے ،جوآدمی کام کاج کے قابل ہو ،اسے روزگارفراہم کرتاہے اورجوکام کرنے سے قاصرہو،اس کاکوئی رشتہ داربھی نہ ہوجواس کاخرچہ برداشت کرے ،توخلیفہ ہی اس کے مروجہ خرچے کابندوبست کرتاہے اوربا نفس نفیس اس کی سرپرستی کرتاہے۔یہ وہ نظام ہے جس میں عوام کی ملکیت کوان کے امن اورمعیشت کے تحفظ کیلئے عوام میں تقسیم کیاجاتاہے، چنانچہ ان کی طرف سےدیےگئے اموال ان کی پیدائش سےہی ان پر نچھاور کئے جاتے ہیں۔یہ وہ نظام ہے جوایک پرامن ،عدل پر مبنی معاشی زندگی دیتاہے،جس کی وجہ سے انسانوں کے حالات سدھرتے ہیں ،کیونکہ خالق لوگوں کی فلاح وبہبوداور ان کے خیر وشر کوسب سے زیادہ جانتاہے﴿أَلَا يَعْلَمُ مَنْ خَلَقَ وَهُوَ اللَّطِيفُ الْخَبِيرُ﴾"بھلاوہ بھی بے علم ہوسکتاہے جو خالق ہو ، اور پھر باریک بین اورپوراباخبرہو " ۔
ہم اللہ سبحانہ وتعالیٰ سے خلافت راشدہ کی واپسی کیلئےمدد اورتوفیق کی دعاکرتے ہیں،جو نہ صرف دارالاسلام میں بھلائی عام کردے گی ،بلکہ ہرذی عقل اورامن پسندکواس کافائدہ پہنچے گا،والحمدللہ رب العالمین۔

سوال وجواب: شخصیہ کے عربی شمارے، جلد نمبر3صفحہ 129 پر موجود ایک اصطلاح 'کلی مُشکِّک' کی وضاحت

 

سوال: شخصیہ کے عربی شمارے ، جلد نمبر3صفحہ 129نیچے سےسطرنمبر2پیراگراف کے آخرمیں آیاہے :
"۔۔۔ اوراگرکلی معنی (Whole) اپنے افراد کے اندرمختلف اندازمیں پایاجاتا ہو، تواس کوکلی مُشکِّک (causing of doubt) کہتے ہیں، مثلاً الوجود(موجود ہونا ) اورالابيض(سفید) کالفظ، چاہے یہ اختلاف وجوب (obligation) اورامکان (ability) کااختلاف ہویابے نیازی اورمحتاجی کے اعتبارسے، یا کمی اورزیادتی کے اعتبارسے ہو، پہلی قسم کی مثال ، جیسے وجود، کیونکہ یہ باری تعالیٰ کیلئے واجب(obligation) ہے ،جبکہ اس کے علاوہ میں ممکن (possible) ہے، دوسری قسم کی مثال بھی وجود ہے، کیونکہ یہ اجسام پربھی بولاجاتاہے ،جنہیں کسی محل (location) کی ضرورت نہیں ہوتی اوروجود اعراض پر بھی بولاجاتاہے،یہ اعراض (causes) کسی نہ کسی محل (location) کے محتاج ہوتے ہیں، تیسری قمر کی مثال روشنی ہوسکتی ہے، چنانچہ سورج کی روشنی کسی چراغ کی روشنی سےبدرجہاں زائد ہوتی ہے۔ اس قسم کی کلی کومشکک کہاگیاہے، کیونکہ جوکوئی اس کودیکھتاہے، وہ اس کی وجہ سےشک میں پڑجاتاہے کہ آیایہ وہ کلی ہے جسے متواطی (جس کے تمام افراد میں کوئی فرق نہ ہو، جیسے انسان) کہتے ہیں، آیا یہ مشترک ہے، ( کیونکہ ایک طرف تواس میں حقیقت ایک ہوتی ہے اور دوسری طرف یہی حقیقت، اپنے افراد کے اندرمختلف انداز میں رونماہوتی ہے )۔
تو شیخ نے "وجود اورسفید" کاذکرکیاہے پھروجود کی مثال بیان کی، اورپھر اس کومکرر ذکرکیا، "سفید " کی مثال نہیں بیان کی ...... پھراستغناء اورمحتاجی کاذکراس طرح کیا کہ میرے اوپرخلط ملط ہوگیا۔۔۔۔تواس عبارت کوواضح طورپرکس طرح سمجھ سکیں گے۔؟جزاک اللہ خیراً

 

جواب: یہ عبارت مختصر ہے، اس میں تفصیل نہیں، جیسے اصول کی کتابوں میں یہی طریقہ اپنایاجاتاہے۔ یقیناً اس عبارت میں سفید کی مثال نہیں بتائی گئی، کیونکہ "روشنی " کی مثال "سفید" پربھی آتی ہے ۔ اسی طرح بے نیازی اورمحتاجی کی مثال دیتے ہوئےوجود کالفظ دوبارہ ذکرکیاگیاہے ،یہاں "وجود" دراصل "موجود "کے معنی میں ہے،اس میں زیادہ باریکی ہے ،لیکن اس عبارت کومزید واضح کرنے کیلئے میں اس کومزید تفصیل اورتوضیح کے ساتھ ذکرکروں گا جومندرجہ ذیل ہے :
اگرکلی کامعنی اپنے افراد میں مختلف اندازمیں پایاجائے تواس کومشکک(causing of doubt) کہتے ہیں، جیسے وجود اورسفید کالفظ، اب یہ اختلاف چاہے واجب ہونے یاممکن ہونے میں ہوجیسے وجود کالفظ، جوباری سبحانہ میں واجب ہے اوراس کے علاوہ میں ممکن ہے ۔ یایہ اختلاف بے نیازی اورمحتاجی کاہو، جیسے "موجود" کالفظ، جواجسام پربھی بولاجاتاہے، باوجود یہ کہ اجسام کومحل کی ضرورت نہیں ہوتی اوریہ اعراض پربھی بولاجاتاہے، جوکسی نہ کسی محل کے محتاج ہوتے ہیں ،مثال کے طورپر "مشک اورآدمی" جوکہ جسم ہیں ان کوبھی (آپ ) موجود کہہ سکتے ہیں اور"مشک کی خوشبواورآدمی کی بیماری " جوکہ اعراض ہیں اورمحل کے محتاج ہیں ،ان کوبھی موجود کہہ سکتے ہیں، یہ مشک کی خوشبو مشک کی صفات میں سے ایک صفت ہے، اسی طرح آدمی کی بیماری آدمی کی صفات میں سے ایک صفت ہے، اس کے باوجود ہم کہتے ہیں کہ مشک موجود ہے اورساتھ یہ بھی کہتے ہیں کہ مشک کی خوشبوموجود ہے، آدمی موجود ہے اورآدمی کی بیماری موجود ہے، اس کے باوجود کہ وجود کامعنی بے نیازی اور محتاجی کے اعتبارسے ان میں مختلف ہے، (یعنی آدمی کاوجود کسی دوسرے وجود کامحتاج نہیں ،جس کے ذریعے وہ پایاجائے،مگر اس کی بیماری اس کے جسم کے وجود کی محتاج ہے)۔
یایہ اختلاف شدت اورعدم شدت کاہو، یعنی کمی اورنقصان کا، اس کی مثال، "سفید" کالفظ ہے، یہ برف اورہاتھی کے دانت دونوں پربولاجاتاہے، لیکن سفیدی برف میں زیادہ اورہاتھی کے دانت میں کم ہوتی ہے، یا "روشنی " کالفظ، اگرچہ سورج اورچراغ کی روشنی کے درمیان تفاوت ہے، لیکن دونوں کوروشنی کہاجاتاہے۔
تو "وجود، موجود، سفید اورروشنی " کے الفاظ کلی مشکک ہیں اوراس کومشکک اس لئے کہاجاتاہے،کیونکہ اس کودیکھنے والااس شک میں پڑجاتاہے کہ آیایہ متواطی ہے ،کیونکہ حقیتھ توایک ہے، یایہ مشترک ہے کیونکہ کمی بیشی ، وجوب اورامکان اوراستغناء ومحتاجی کااختلاف بھی ہے ۔
آپ کی معلومات کیلئے کہ مشکک اسم فاعل کاصیغہ بھی ہوسکتاہے ،کہ پہلی کاف مشدد ہواوراس کے نیچے زیر ہواوریہ بھی جائز ہے کہ کاف مشدد ہواوراس کے اوپرزبرہو،یعنی اسم مفعول کاصیغہ ہو،یہ دونوں صحیح ہیں، اسم فاعل کامعنی ہوگا شک میں ڈالنے والا اوراس میں شک بھی کیاجاتاہے تویہ مفعول بھی ہوا، لہٰذااسم فاعل اوراسم مفعول ، دونوں ٹھیک ہے۔
امید ہے کہ کلی مشکک کامعنی واضح ہواہوگا۔ اوراگرمناسب معلوم ہواتوکتاب کی اس عبارت کومزید تفصیل اورتوضیح کے ساتھ ترتیب دیں گے۔انشاء اللہ

يُخَادِعُونَ ٱللهَ وَٱلَّذِينَ آمَنُوا وَمَا يَخْدَعُونَ إِلاَّ أَنْفُسَهُم وَمَا يَشْعُرُونَ "وہ چاہتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ اورایمان والوں کو دھوکہ دیں، لیکن دراصل وہ خود اپنے آپ کو ہی دھوکہ دے رہے ہیں مگرسمجھتے نہیں" (البقرۃ:9)  

کچھ عرصے سے امریکہ افغانستان سے اپنی افواج کی واپسی کی بات کررہا ہے۔ یکم دسمبر 2009ء کو امریکی صدر اوبامہ نے ویسٹ پوائنٹ ملٹری اکیڈمی سے خطاب کرتے ہوئے اعلان کیا کہ "ہماری افواج گھر واپس آنا شروع ہو جائیں گی"۔ لیکن حقیقت یہ ہے کہ امریکہ نے بارہ سال تک یہ جنگ اس لیے نہیں لڑی کہ وہ خطے میں اپنے اثر و رسوخ کو مستحکم کیے بغیر افغانستان سے نکل جائے جبکہ اس جنگ کے نتیجے میں اس کی افواج کا شیطانی روپ بھی دنیا کے سامنے بے نقاب ہو گیا اور اس کی معیشت اس حد تک خراب ہوگئی کہ ایک وقت پرایسا لگنے لگا کہ اس کی معیشت بالکل ہی ڈوب جائے گی۔ اس وقت امریکہ خطے میں اپنے اثرو رسوخ کو برقرار رکھنے کے لیے پاکستان کی مدد پر انحصار کررہا ہےبالکل ویسے ہی کہ جس طرح امریکہ پاکستان کی مدد سے ہی افغانستان میں فوجیں داخل کرنے میں کامیاب ہوا تھا۔ لیکن امریکہ کوئی ٹھوس وجہ بیان کر کے اس جنگ کے لیے پاکستان کے مسلمانوں کی حمایت اور تائید حاصل کرنے سے قاصرہے، بلکہ کوئی ٹھوس اور سچی وجہ تو کیا وہ کوئی جھوٹا جواز پیش کرکے ہمیں قائل کرنے سے بھی قاصر ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اُس نے پاکستان میں بم دھماکوں اور قتل وغارت گری برپا کرنے کا حربہ استعمال کیاکہ کسی طرح پاکستان کے مسلمان اس جنگ کو اپنی جنگ مان لیں، ایسے دھماکے اورقتل و غارت گری کہ جس سے نہ توہمارے فوجی محفوظ ہیں اور نہ ہی عام شہری، ہمارے بازار ہوں یا عبادت گاہیں ، یہاں تک کہ عورتیں ، بچے، بوڑھے، مسلمان ، غیر مسلم، کوئی بھی ان حملوں سے محفوظ نہیں ہے۔ پس جب یہ بم دھماکے اور قتل و غارت گری ہوتی ہے تو امریکہ کے ایجنٹ فوراًیہ پکارنے لگتے ہیں "دیکھو، یہ ہماری ہی جنگ ہے"۔ یہ ہے وہ شیطانی دھوکہ اور سازش کہ جس کی عمارت لوگوں کی لاشوں پر کھڑی کی گئی ہے اورمسلمانوں کے خون سے اس عمارت کی بنیادوں کو پختہ کیا گیا ہے!

یہ بات عقل و بصیرت رکھنے والے لوگوں کے مشاہدے میں ہے کہ امریکہ ہمیشہ ان بم دھماکوں اور قتل و غارت گری کے واقعات کو نام نہاد دہشت گردی کے خلاف جنگ کے لیے پاکستان کی عوام کی حمایت حاصل کرنے کے لیے استعمال کرتا ہے۔ یکم دسمبر 2009 کو اوبامہ نے کہا کہ "ماضی میں پاکستان میں ایسے لوگ رہے ہیں جو یہ کہتے تھے کہ انتہاپسندوں کے خلاف جدوجہد اُن کی جنگ نہیں...لیکن پچھلے چند سالوں میں جب کراچی سے اسلام آباد تک معصوم لوگ قتل ہوئے...تو یہ بات واضح ہو گئی کہ پاکستان کے لوگوں کو انتہاء پسندی سے سب سے زیادہ خطرہ لاحق ہے"۔ اور پھر ان بم دھماکوں اور قتل و غارت گری کی شروعات کےتین سال بعد 12 اکتوبر 2012ء کو امریکی دفتر خارجہ کی ترجمان ویکٹوریہ نولینڈ نے کہا کہ "لہٰذا ظاہر ہے کہ پاکستان کے لوگ جتنا زیادہ اِن کے خلاف ہونگے اتنا ہی اُن کی حکومت کو اِن کے خلاف کام کرنے میں مدد ملے گی۔ یہ شاید اس بھیانک المیے کا ایک مثبت پہلو ہے"۔

عقل و بصیرت رکھنے والے لوگوں کے مشاہدے میں یہ بات بھی ہےکہ ان حملوں میں ہمارے بازاروں، گھروں،افواج اور لوگوں کو تونشانہ بنایا جاتا ہے لیکن اس بات کا خیال رکھا جاتا ہے کہ ملک میں موجود سی.آئی.اے اور ایف.بی.آئی کے دفاتر، امریکی فوجی اڈے، بلیک واٹر کی رہائش گاہیں اورامریکی قونصل خانےحملے اور تباہی سےمحفوظ رہیں ۔ حقیقت پر غور کرنے والےاس بات سے بھی آگاہ ہیں کہ ملک میں امریکہ کے داخل ہونے سے قبل ہم کبھی بھی اس قدر تباہی و بربادی کا شکار نہیں ہوئے تھے۔ اور یہ بات بھی واضح ہے کہ کوئی بھی مخلص اور سمجھ بوجھ رکھنے والا مسلمان اس قسم کی دہشت گرد کاروائیوں کی منصوبہ بندی نہیں کرسکتا جو کہ واضح اسلامی احکامات کے خلاف ہے۔ جیسا کہ اللہ سبحانہ و تعالیٰ نے ارشاد فرمایاہے : ((وَمَن يَقْتُلْ مُؤْمِناً مُّتَعَمِّداً فَجَزَآؤُهُ جَهَنَّمُ خَالِداً فِيهَا وَغَضِبَ ٱللهُ عَلَيْهِ وَلَعَنَهُ وَأَعَدَّ لَهُ عَذَاباً عَظِيماً))"اور جو کوئی کسی ایمان والے کو جانتے بوجھتے قتل کرڈالے ، اس کا ٹھکانہ جہنم ہے ، جہاں وہ ہمیشہ رہے گا اور اس پر اللہ کا غضب ہےاوراس پر اللہ کی لعنت ہے اور اللہ نے اس کے لیے بہت بڑا عذاب تیار کر رکھا ہے"(النساء:93)۔ اور رسول اللہ ﷺ نے ان غیر مسلم ذمیوں کی حفاظت کرنے کا حکم دیا ہے کہ جو مسلمانوں کے تحفظ کے تحت ہوں ، اور فرمایا ہے کہ ((أَلا مَنْ قَتَلَ نَفْسًا مُعَاهِدًا لَهُ ذِمَّةُ ٱللهِ وَذِمَّةُ رَسُولِهِ فَقَدْ أَخْفَرَ بِذِمَّةِ اللهِ، فَلا يُرَحْ رَائِحَةَ الْجَنَّةِ، وَإِنَّ رِيحَهَا لَيُوجَدُ مِنْ مَسِيرَةِ سَبْعِينَ خَرِيفًا)) "جس کسی نے ایسے شخص (اہلِ معاہد) کو قتل کر ڈالا کہ جس کے پاس اللہ اوراس کے رسول ﷺ کی جانب سے تحفظ کا وعدہ موجود ہو تو اُس نے اللہ اور اس کے رسول ﷺ کا کیا ہوا وعدہ توڑڈالا ۔ پس ایسا شخص جنت کی خوشبو کو بھی نہ پاسکے گا جبکہ اس کی خوشبو ستر سالوں کے سفر کی دُوری سے بھی محسوس کی جاسکتی ہے"۔(ترمذی)

درحقیقت، پاکستان میں امریکی موجودگی کا ایک اہم مقصد پاکستان بھر میں بم دھماکے اور قتل کروانا ہے۔ پاکستان کی فوجی و سیاسی قیادت میں موجود مشرف اور کیانی، اورزرداری و نواز شریف جیسے چند مُٹھی بھر غداروں کی مدد سے امریکہ نے پہلے پاکستان کےدروازےاپنے لیے کھلوائے اور پھر انھیں مسلسل کھلا رکھاگیا تا کہ امریکی فوجی، بلیک واٹر جیسی نجی سیکورٹی کمپنیوں کے کارندے اور انٹیلی جنس کا ایک بہت بڑا نیٹ ورک پاکستان میں داخل ہوسکے اور اپنے قدم جما سکے۔ اس قسم کے امریکی نیٹ ورک لاطینی امریکہ سے لے کر مشرق بعید تک افراتفری پھیلانے کے حوالے سے پوری دنیا میں بدنام ہیں۔ بم دھماکے اور شخصیات کوقتل کروانا اُن کی روز مرہ کی ذمہ داریوں میں شامل ہے۔ اس کے علاوہ یہ ایجنٹوں کو تیار کر کے مقامی گروہوں میں داخل کرتے ہیں تا کہ آپ کی نگاہوں میں اُس مزاحمت کی قدرو قیمت کو ختم کردیا جائے جو افغانستان میں امریکہ کے قبضے کے خلاف جاری ہے۔ یہ دھوکہ دہی امریکی جنگ کا طرہ امتیاز ہے اور ایسے حملے False flag attacks کے نام سے جانے جاتے ہیں، یعنی خود کاروائی کر کے اس کا الزام دشمن پر ڈال دینا تاکہ اپنی جنگ کےحق میں عوامی حمایت حاصل کی جائے۔

اورامریکہ کا کوئی ارادہ نہیں کہ وہ اس قسم کی گٹھیا اور شیطانی دہشت گردی کی کاروائیاں روک دے ۔ امریکہ 2014 ءکے بعد بھی پاکستان اور افغانستان میں اپنی افواج، انٹیلی جنس اور کرائے کے فوجیوں کی ایک بڑی تعداد برقرار رکھنا چاہتا ہے۔ بلکہ امریکہ اپنی موجودگی کو مزید بڑھا رہا ہے اور اسی لیے وہ اسلام آباد میں ایک قلعہ نما سفارت خانہ تعمیر کررہا ہے، جو دنیا میں امریکہ کا دوسرا بڑاسفارت خانہ ہے۔ دوسری طرف وہ اٖفغانستان میں اپنے لیے 9 اڈے برقرار رکھنا چاہتا ہے اور پاکستان اور افغانستان میں ایک لاکھ بیس ہزار نجی سیکورٹی اہلکاروں کی تعینا تی اس کے علاوہ ہے۔ لہٰذا امریکہ پاکستان کے خلاف اپنی جنگ جاری رکھے گا کیونکہ اس امرکے باوجود کہ ہماری قیادت میں اس کے لیے کام کرنے والے غدار موجود ہیں،پھر بھی وہ ہم پر اور ہماری افواج اور انٹیلی جنس اداروں پربھروسہ نہیں کرتاہے۔ امریکہ اس بات سے پوری طرح باخبر ہے کہ ہم سب میں اسلامی جذبات مضبوطی سے پیوست ہیں اور ہمارے اندرامریکہ کےظلم وجبرکے خلاف شدید غم وغصہ پایا جاتاہے۔ اس کے علاوہ کافر استعماری طاقتیں یہ دیکھ رہی ہیں کہ پوری امت خلافت کے قیام کے لیے کھڑی ہونا شروع ہو گئی ہے۔ شام ، پاکستان اور دیگر اسلامی علاقوں کی یہ صورتِ حال کفار کی نیندیں حرام کیے ہوئے ہے۔ لہٰذا یہ بم دھماکے دوہرا کام کرتے ہیں ،ایک تو امریکہ ان بم دھماکوں کے ذریعے اسلام کے خلاف اپنی جنگ کے لیے ہماری حمایت حاصل کرنے کی کوشش کرتا ہے اور دوسرا یہ کہ وہ ان بم دھماکوں کو ایک دباؤ کے طور پر استعمال کرتا ہے تا کہ ہم اس کے سامنے سرنگوں ہو جائیں اور وہ امن مذاکرات کے ذریعے مسلم دنیا کی سب سے طاقتور ریاست پاکستان، کی دہلیز پر اپنی موجودگی میں اضافہ کر سکے۔

اے پاکستان کے مسلمانو! ہم اس وقت تک امن کا منہ نہیں دیکھ سکیں گے جب تک امریکہ ہمارے درمیان موجود ہے۔ ہماری قیادت میں موجود غداراپنے آقاؤں کی ہدایت پر ہمیں دھوکہ دینے کے لیے اس صورتحال کی ذمہ داری دوسروں پر ڈالتے ہیں لیکن وہ کبھی بھی اس کی بنیاد ی وجہ کی طرف انگلی نہیں اٹھاتے، اور یہ بنیادی وجہ ہمارے درمیان امریکہ کی موجودگی ہے۔ آپ جان لیں کہ امریکہ کبھی بھی خود بخودہمارے خطے سے نہیں نکلے گا کیونکہ وہ ہماری سرزمین اور ہمارے وسائل کو اپنا سمجھتا ہے کہ انہیں جیسے چاہے لوُ ٹتا رہے۔ امریکہ کولازماً قوت و طاقت کے ذریعے ہی نکالنا ہو گا۔ جب تک امریکہ کو ہم پر دسترس حاصل رہے گی خواہ وہ ایک فوجی اڈےیاقونصل خانےیاانٹیلی جنس دفتر کی صورت میں ہی ہو، وہ ہمارے درمیان شر اور فساد پھیلاتا رہے گا۔ اللہ سبحانہ و تعالیٰ نے ارشاد فرمایا: ((يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا لاَ تَتَّخِذُوا عَدُوِّي وَعَدُوَّكُمْ أَوْلِيَاءَ تُلْقُونَ إِلَيْهِمْ بِالْمَوَدَّةِ...إِنْ يَثْقَفُوكُمْ يَكُونُوا لَكُمْ أَعْدَاءً وَيَبْسُطُوا إِلَيْكُمْ أَيْدِيَهُمْ وَأَلْسِنَتَهُمْ بِالسُّوءِ وَوَدُّوا لَوْ تَكْفُرُونَ)) "اے لوگو جو ایمان لائے ہو! میرے اور خود اپنے دشمنوں کو اپنا دوست نہ بناؤ، تم تو دوستی سے ان کی طرف پیغام بھیجتے ہو...اگر وہ کہیں تم پر قابو پالیں تو وہ تمھارے (کھلے)دشمن ہو جائیں اور برائی کے ساتھ تم پر دست درازی اور زبان درازی کرنے لگیں اور خواہش کرنے لگیں کہ تم بھی کفر کرنے لگ جاؤ" (الممتحنہ:1-2)۔

اے افواجِ پاکستان کے افسران! آپ نے اس اسلامی سرزمین اور اس میں رہنے والوں کی حفاظت کی قسم کھائی ہے ۔ جو صورتحال اب تک بن چکی ہے اور بنتی نظرآرہی ہے وہ اب آپ کی گردن پرہے۔ اب بھی پانی سر سے اونچا نہیں ہوا اور بچاؤ عین ممکن ہے۔ پس امریکہ کی جنگ کو اس کے منہ پر دے مارو، اس کے دھوکے اور سازشوں کو ناکام بنا دو، اورپاکستان کی سرزمین کو امریکہ کی نجاست سے پاک کردو۔ یہ آپ کی ذمہ داری ہے کہ آپ حزب التحریر کو خلافت کے قیام کے لیے نصرت دیں،جو ایک قابل فقیہ اورمدبر سیاست دان عطا بن خلیل ابورَشتہ کی قیادت میں سرگرمِ عمل ہے ۔ اُسی صورت میں آپ کا حرکت میں آنا آپ کے دین کی خواہش کے مطابق ہو گا،اور آپ پاکستان اور اس خطے سے صلیبیوں کی موجودگی کے خاتمے کے لیےحرکت میں آسکیں گےاور ان کے فوجی اڈوں ، انٹیلی جنس دفاتر، قونصل خانوں اور سفارت خانوں کا خاتمہ ہو سکےگا۔ تب ہم سے نفرت کرنے والے یہ دشمن یہ جان لیں گے کہ وہ اس امت کی حقیقت کے متعلق اپنے آپ کو ہی دھوکے میں ڈالے ہوئے تھے ۔ حزب التحریر نے خلافت کے قیام کا عَلم بلند کررکھا ہے اور اس کی یہ دعوت آپ کے ہر گوشے میں پہنچ چکی ہے ۔ تو کیا آپ جواب دیں گے؟! ((إِنَّ فِي ذَلِكَ لَذِكْرَى لِمَنْ كَانَ لَهُ قَلْبٌ أَوْ أَلْقَى السَّمْعَ وَهُوَ شَهِيدٌ))"اس میں ہر اس شخص کے لیے عبرت ہے جو سمجھنے والاقلب رکھتا ہو اور وہ متوجہ ہو کر کان لگائے" (ق:37)

 

نوا زشریف کا دورہ امریکہ دورہ امریکہ ڈرون حملوں اور بم دھماکوں کے ہزاروں شہداء کے خون سے غداری ہے

نواز شریف کا دورہ امریکہ ڈرون حملوں اور ملک بھر میں ریمنڈ ڈیوس نیٹ ورک کی نگرانی میں ہونے والےبم دھماکوں میں شہید ہونے والے ہزاروںشہریوں اور فوجیوں کے خون سے غداری ہے۔ امریکہ پچھلے نو سالوں سے ڈرون حملوں کی صورت میں پاکستان کی خودمختاری کی دھجیاں اڑا رہا ہے جس میں ہزاروں شہری اذیت ناک موت کا شکار ہو چکے ہیں لیکن اس کے باوجود ایک ایٹمی قوت کے سربراہ نے کسی غیرت کا مظاہرہ نہیں کیا اورپاکستان میں امریکی راج کو مزید مضبوط کرنے کے لیے امریکہ چلا گیا ۔ اگر وینزویلا جیسا کمزور، امریکہ کا پڑوسی ملک، محض اپنے ملک کے اندورنی معاملات میں مداخلت کے الزام پر ایک سے زائد بار امریکی سفارت کاروں کو ملک بدر کرچکا ہے اور امریکہ اس کا کچھ بھی نہ بگاڑ سکا تو پاکستان کی سیاسی و فوجی قیادت، جن کی نمائندگی نواز شریف اور کیانی کررہے ہیں کیوں امریکہ سے تعلقات منقطع نہیں کرسکتے؟
کیانواز شریف کادورہ امریکہ ایک بار پھر اقتدار کی کرسی پر بیٹھانے کے لیے اوبامہ کا شکریہ ادا کرنے کے علاوہ کچھ اور مقصد رکھتا تھا؟ چودہ سال قبل جب امریکیوں نے یہ دیکھا کہ نواز شریف اب ان کے کام کا نہیں رہا تو اسےتنہا چھوڑ دیا تھا۔ اور بھر جب پاکستان میں امریکی راج کو برقرار رکھنے کے لیے امریکہ کے پاس اعلیٰ درجے کے غداروں کی قلت ہو گئی تو نواز شریف کو تاریخ کے کوڑے دان سے نکال کر ایک بار پھر واپس لے آیا! لیکن غیرت سے نہ آشنا نواز شریف خطے میں جاری نام نہاد دہشت گردی کے خلاف امریکی جنگ میں اپنی اب تک کی کارگزاری سے اوبامہ کو آگاہ کرنے اور 2014 تک محدود انخلاء کے ڈرامے کے ذریعے خطے میں امریکہ کی مستقل موجودگی کے منصوبے کو عملی جامعہ پہنانے کے لیے مزید ہدایات وصول کرنے، واشنگٹن، اپنے آقا کے قدموں میں پہنچ گیا ۔ اس بات کا ثبوت کہ یہ دورہ خطے میں جاری امریکی جنگ میں پاکستان کے کردارکو جاری و ساری رکھنے کے لیے تھا، خود اوبامہ نے نواز شریف سے ملاقات کے بعد جاری ہونے والے بیان میں یہ کہہ کر دیا کہ "میں پاکستان اور امریکہ کے درمیان سلامتی کے امور پر ہونے والے تعاون کے نتیجے میں پیدا ہونے والی کشیدگی کا خاتمہ چاہتا ہوں "۔
پاکستان کے عوام اور افواج میں موجود مخلص افسران کو جان لینا چاہیے کہ پاکستان کی تاریخ یہ ثابت کرتی ہے کہ آمریت اور جمہوریت دونوں ہی امریکی گھوڑے ہیں۔ ہر آنے والا آمر و جمہوری حکمران ہمیں سیاسی و معاشی لحاظ سے مزید امریکی غلامی میں مبتلا کردیتا ہے اور پھرامریکہ کے ہاتھوں سانحہ ایبٹ آباد اور سلالہ جیسے ذلت آمیز واقعات کا سامنا کرنے کے باوجود قوم سے یہ کہتا ہے کہ امریکہ سے تعلقات ناگزیر ہیں۔صرف خلافت ہی پاکستان کو امریکہ کی سیاسی و معاشی غلامی سے اسلام کے مکمل نفاذ کے ذریعے نکالے گی، امریکی سفارت کاروں، فوجیوں اور نجی سیکورٹی اہلکاروں کو ملک بدر، امریکہ سفارت خانے اور قونصل خانے بنداور ملک سے امریکی راج کا خاتمہ کرے گی۔ لہٰذا افواج میں موجود مخلص افسران آگے بڑھیں اور دنیا و آخرت میں اللہ کی رضا اور خوشنودی حاصل کرنے کے لیے پاکستان میں خلافت کے قیام کو عمل میں لائیں اورحزب التحریر کو نصرۃ فراہم کریں۔

شہزاد شیخ
ولایہ پاکستان میں حزب التحریر کے ڈپٹی ترجمان

Subscribe to this RSS feed

دیگر ویب سائٹس

مغرب

سائٹ سیکشنز

مسلم ممالک

مسلم ممالک