الأربعاء، 25 جمادى الأولى 1446| 2024/11/27
Saat: (M.M.T)
Menu
القائمة الرئيسية
القائمة الرئيسية

حزب التحریر ولایہ شام نے غزہ کی حمایت میں ادلب کے مضافات میں مظاہرہ کیا

حزب التحریر ولایہ شام نے شمالی ادلب کے مضافات الدانا شہر میں غزہ کے بھائیوں کی حمایت میں مظاہرہ کیا ،جنہیں دنیا کی افواج نے بے یار و مدد گار چھوڑ دیا ہے ۔ مظاہرین نے بینرز اُٹھا رکھے تھے جن پر اُمت ِمسلمہ کی وحدت اور نبوَّت کے نقش ِقدم پر خلافت کے دوبارہ قیام کے مطالبات درج کئے گئے تھے۔
مظاہرے سے حزب التحریر ولایہ شام کے میڈیا آفس کے سربراہ نے خطاب کیا ۔ انہوں نے کہا کہ مسلم علاقوں ، بالخصوص غزہ میں ہونے والے واقعات انسانیت کے ماتھے پر بدنما داغ ہے۔
انہوں نے اقوام ِعالم کی بُزدلی کو واضح کیا ،بالخصوص مسلم ممالک کے حکمرانوں کے کردار پر روشنی ڈالی جن کو مغربی کفار نے ہماری گردنوں پراس لئے مسلط کررکھا ہے تا کہ وہ اسلام کا مقابلہ اور یہودیوں کی پشت پناہی کریں اور مسلم علاقوں کے مزید ٹکڑے کئے جانے کی کوششوں کو کامیاب بنائیں۔ انہوں نے یہ بھی کہا کہ افواج کے پر یہ واجب ہے کہ وہ مسلمانوں کو نصرۃ فراہم کریں اورالاقصیٰ کو آزادی سے ہمکنار کرائیں۔
انہوں نے اپنے خطاب کے اختتام پر مسلمانوں کو اپنے حکام کے خلاف خروج کرنے اور خلیفہ کو مقرر کرنے کی دعوت دی، وہ خلیفہ جو مسلمانوں کو تحفظ فراہم کرے۔

الاستاذ احمد عبدالوہاب
ولایہ شام میں حزب التحریرکے میڈیا آفس کے سربراہ

Read more...

عید الفطر کی آمد پر مبارکباد

ولایہ شام میں حزب التحریر کے میڈیا آفس کی طرف سے امت مسلمہ کو عید الفطرمبارک ہو۔اس امید کے ساتھ کہ اللہ تعالیٰ رمضان کے روزوں اور اس میں قیام کو قبول کرے گا۔ ہم اللہ تعالیٰ سے یہ دعا بھی کرتے ہیں کہ یہ عید بھلائی اور برکت کے ساتھ دوبارہ آئےاس خلافت راشدہ کے سائے تلے جس کے ہوتے ہوئے ہم شرع کو نافذ کریں اور اپنے امور کی دیکھ بھا ل کریں،ہم اپنے رعایا کی حفاظت کریں اور اپنی سرحدوں کو محفوظ بنائیں اور اس خلافت کی موجودگی میں ہم دعوت وجہاد کے ذریعے دنیا بھر میں اسلام کا پیغام لے کر جائیں۔ یہ عید ہر سال آتی رہے ۔


الاستاذ احمد عبدالوہاب
ولایہ شام میں حزب التحریرکے میڈیا آفس کے سربراہ

Read more...

آطمہ کی عوامی مارکیٹ میں کار بم دھماکہ

28 رمضان 1435 ہجری کو شمالی ادلب کے مضافات آطمہ شہر، جو ترکی کی سرحد کے قریب واقع ہے، کی ایک عوامی مارکیٹ میں کار بم دھماکہ ہوا ۔ اس بم دھماکے میں دس افراد شہید اور بیسیوں زخمی ہوئے، جن میں سے بعض کو فیڈرل ہسپتالوں میں لے جایا گیا اور کچھ زخمیوں کو جن کی حالت نازک تھی سرحد کے قریب ہسپتالوں میں منتقل کیا گیا۔ دھماکے سے کئی عمارتوں اور دکانوں کو بھی جزوی نقصان پہنچا۔ دھماکہ نامعلوم افراد کی طرف سے کیا گیا۔ ۔ ۔ دوسری جانب اعزاز میں کار بم دھماکہ ہوا جوشمالی حلب کے دوردراز مضافات میں ترکی کے شہر کلس کی سرحد پر واقع ہے۔ اس دھماکے میں پانچ افراد شہید اور کئی ایک شدید زخمی ہوئے۔ تقریباً اسی وقت تیسرا دھماکہ مغربی حلب کے مضافات بالخصوص الفوج 46میں ہوا جس کے نتیجے میں کئی لوگ شہید ہوئے۔
اسلام کے مسکن شام کے مسلمانو!
دھماکوں کا یہ سلسلہ شام کے مسلمانوں کا ہر جگہ پیچھا کر تارہتا ہے۔ اس کے ذریعے ہر اس شخص کو جو موت کے ڈراموں سے پناہ تلاش کرتے بھاگنے کی کوشش کرتا ہے واضح پیغام دیا جا رہا ہے، جس کا مطلب ہے کہ ایسی کوئی بھی کوشش کسی کو موت سے نہیں بچاسکتی ۔ یہ دھماکے دباؤ ڈالنے کے ان ذرائع میں سے ہیں جن کو اللہ کے دشمن شام کے مسلمانوں پر آزماتے رہتے ہیں تا کہ ان کے تبدیلی لانے کے عزائم کو توڑدیا جائے اور ان کو اُسی سیاسی کاروائی کے آگے سرتسلیم خم کرنے پر مجبور کیا جائے جس میں پہل کرنے والا وہی مجرم بعثی حکومت ہوگی جس نے ملک میں فساد برپا کیا ہوا ہے، جس نے خون ریزی، تباہی اورہلاکت وتخریب کاری کی داد دی اور جس نے عصمت دری، بوڑھوں، بچوں اور عورتوں کو قتل کرنے کی حد کردی۔ اس ظالم حکومت نے کوئی جرم نہیں چھوڑا جو اس نے نہ کیا ہو تاکہ اس اُمت کو گھٹنے ٹیکنے پر مجبور کرے جس نے یہ فیصلہ کیا ہوا ہے کہ وہ سوائے اللہ سبحانہ وتعالیٰ کے کسی کے سامنے نہیں جھکے گی۔
ہر بینا شخص اس میں شک نہیں کرے گا کہ یہ تمام مجرمانہ کاروائیاں سرانجام دینے والا صرف ایک ہی ہے اور وہ یہی مجرم حکومت ہے جو اس امت کا کمینہ دشمن ہے او راس کا ایک ہی سبب ہے کہ اس امت کے عزائم کو توڑدیا جائے جس نےاپنے لئے ایک راستے کا انتخاب کیا ہوا ہے کہ وہ ان غدار اور خائن حکمرانوں کو تبدیل کریں گےجنہوں نےان کے وسائل کو خوب لوٹا اور ان کو دیگر اقوام کا دست نگر بنا یا ہوا ہے جبکہ یہ امت تو دنیا کی قیادت کرنے کیلئے پیدا کی گئی تھی۔ ان حکمرانوں نے ان کے اوپر ایسی حکمرانی کی جو ان کے عقائد اور تصورات سے ٹکراتی ہے کہ حکمرانی صرف اللہ عزوجل کی اور بالادستی صرف شرع کی ہے ۔ اللہ تعالی کا فرمان عالیشان ہے وَمَا نَقَمُوا مِنْهُمْ إِلَّا أَن يُؤْمِنُوا بِاللَّهِ الْعَزِيزِ الْحَمِيدِ "انہوں نے ان سے صرف اس کاانتقام لیا کہ وہ غالب اور تعریف کے جانے والے اللہ پر ایمان لائے" (البروج:8)۔
مگر یہ ان کی بھول ہے کہ وہ ایک ایسی امت کے ارادوں کو توڑدینے کا سوچتے ہیں جس نے رہائی پالینے کا راستہ پہچان لیا ہے اور اپنا ہدف خلافت راشدہ علیٰ منہاج النبوۃ کو متعین کر لیا ہے۔ وہ خلافت جو حالات کو اپنے نہج پر دوبارہ استوار کرے گی اور یہ امت ایک دفعہ پھر انسانیت کی قیادت کرنے والی امت کی طرف لوٹ آئے گی جس کے تحت مسلمان اسلامی نظام کے سائے تلے اسلامی زندگی کا لطف اٹھائیں گے، زمین اور آسمان والے ان سےراضی ہوں گے، اور یہ اللہ کیلئے مشکل نہیں۔
اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں وَيَوْمَئِذٍ يَفْرَحُ الْمُؤْمِنُونَ  بِنَصْرِ اللَّهِ يَنصُرُ مَن يَشَاء وَهُوَ الْعَزِيزُ الرَّحِيمُ "اس دن مؤمنین اللہ کی مدد پر خوشی منائیں گے، اللہ جس کی چاہے مدد کرے، وہی غالب اوررحمت والا ہے"(الروم:4-5)۔ پس صبر کرو اور ڈٹے رہواور جان لو کہ نصر صبر کے ساتھ ہوتی ہے اور اللہ کی مدد و نصرت آنے میں بس ایک گھڑی صبر کی دیر ہے۔
الاستاذ احمد عبدالوہاب
ولایہ شام میں حزب التحریرکے میڈیا آفس کے سربراہ

Read more...

پریس ریلیز حزب التحریر "غزہ .....بلکہ پورا فلسطین اس وقت مسلم افواج کو پکار رہا ہے" کے عنوان سے عالمی میڈیا کانفرنس منعقد کررہی ہے

حزب التحریرکا مرکزی میڈیا آفس غزہ اور پورے مقبوضہ فلسطین کی آزادی کے لئےعالمی میڈیا کانفرنس منعقد کررہا ہے،جس میں فلسطین کو پنجہ یہود سے آزادی کے لئے اُس طریقہ کار کو واضح کیا جائے گا جسے شرع نے واجب کیا ہے۔اس کانفرنس کا عنوان ہے:
"غزہ .....بلکہ پورا فلسطین اس وقت مسلم افواج کو پکار رہا ہے"
کانفرنس لبنان - بیروت میں 19 شوال 1435 ہجری بمطابق 15 اگست 2014 کو بعد ازنمازِ جمعہ 2 بجے منعقد ہورہی ہے۔

کانفرنس میں حزب التحریر کے مرکزی میڈیا آفس اور مصر،اردن اورلبنان میں حزب کے میڈیا دفاتر کے نمائندے شرکت کررہے ہیں۔ کانفرنس میں حزب التحریر ترکی کے میڈیا آفس کےنمائندے بھی شرکت کررہے ہیں جبکہ سیکورٹی صورتحال کے پیش ِ نظر حزب التحریر فلسطین اور شام کے میڈیا آفس کے نمائندوں کی ذاتی طور پر شرکت مشکل ہےاس لئےان کی طرف سے ریکارڈ نگ ہی سنائی جائیں گی۔
کانفرنس میں غزہ وفلسطین میں جاری صورتحال کی حقیقت اور اہم مسائل پر روشنی ڈالنے پر توجہ مرکوز رکھی جائے گی اور فلسطین کے اصل مسئلے ،اس کےاسباب اور کا میاب حل کو پیش کیا جائے گا۔ نیز مسلمانوں کی اس حوالے سے کیا ذمہ داری بنتی ہے،اس کو واضح کیا جائےگا۔ اس کے علاوہ مذاکرات اور فلسطین سے متعلق معاہدات اور عرب ممالک کی افواج کا کردار اور ان کی حقیقی صلاحیت جیسے اہم موضوعات کو زیر بحث لایا جائے گا.....آخر میں مسئلہ فلسطین کے حوالے سے حزب التحریر کے موقف پر زور دیا جائے گا اس لئے کہ حزب التحریر امت کا وہ قائد ہے جو ان سے جھوٹ نہیں بولتا جبکہ اس دور میں سیاست جھوٹ، دھوکہ اور گمراہی کا عنوان اختیار کرچکی ہے۔
یہ کانفرنس اس مہم کے ضمن میں ہی منعقد کی جارہی ہے ،جسے اہل غزہ پر تازہ ترین جارحیت کے آغاز کے فوراً بعد حزب التحریر کے مرکزی میڈیا آفس کی طرف سےاہل غزہ کی حمایت میں شروع کی گئی تھی۔ اس مہم کا عنوان ہے: "اے مسلم افواج!اہل فلسطین کی نصرت پر لبیک کہو"۔
http://www.hizb-ut-tahrir.info/info/index.php/contents/entry_38124
اس اعلان کے ساتھ ساتھ ٹویٹر پر بھی ہیش ٹیگ کے ذریعے ایک عالمی مہم شروع کی گئی ہے۔

#MuslimArmies4Gaza

کانفرنس کے احوال اور کاروائیوں کا جائزہ لینے کے لئےمیڈیا سے وابستہ تمام لوگوں کے لئے عام دعوت ہے اور وہ ذاتی طور پر کوریج کے لئے شرکت کرسکتے ہیں یا پھر حزب التحریر کے مرکزی میڈیا آفس کی لائیو ٹی وی نشریات کے ذریعے دیکھ سکتے ہیں۔

عثمان بخاش
ڈائریکٹر مرکزی میڈیاآفس حزب التحریر

Read more...

پریس ریلیز اوباما کا مردہ ضمیر!

جمعہ یکم اگست 2014 کو ایک پریس کانفرنس میں امریکی صدر اوبامہ نے کہا کہ "ہم وضاحت کے ساتھ اعلان کر چکے ہیں کہ غزہ میں جنگ میں پھنسے ہوئے معصوم شہری ہمارے ضمیر سےاوجھل نہ ہوں ۔۔۔ہمیں ان کے بچاؤ کے لیے مزید کچھ کرنا چاہیے "۔
زمینی حقائق اور امریکہ کے جرائم جو کہ ان گنت اور لامحدود ہیں اوبامہ کے ضمیر اور اس کے مگر مچھ کے آنسووں کے برعکس ہیں:
۔ سب سے پہلے تو خود اس کے بیان کے مطابق شہری "جو جنگ میں پھنسے ہوئے ہیں"!!! اس نے اس بات کا اعتراف نہیں کیا کہ یہود کی جنگی مشینری نے ہی غزہ میں چھتوں کو ان کے اندر رہنے والوں پر گرادیا اور اپنی بری ،بحری اور فضائی حملے میں اس نے امریکی اسلحہ استعمال کیا ہے۔
۔ جو چیز اس کے جھوٹ کو مزید بے نقاب کرتی ہے وہ یہ کہ اوبامہ نے جنگی جرائم کے مرتکب نیتن یاہو کی جانب سے پہلے سے موجود امریکی اسلحہ "جنگ میں پھنسے ہوئے شہریوں" پر استعمال کر کے مزید طلب کرنے پر فوراًاسلحہ سپلائی کرنے کی حامی بھر لی ، کیا یہ شہریوں کو بچانے کا طریقہ ہے!؟
۔اوبامہ کا جرائم سے بھر پور عہد اس کے جھوٹ اور جرائم کو بے نقاب کر تا ہے۔ اس کی فوج نے اس کے عہدہ صدارت کے دورات 350 ڈرون حملے کیے جو اس کے پیش رو بش کے مقابلے میں کئی گنا زیادہ ہیں جس نے 50 ڈرون حملے کیے تھے۔ یہ بات مصدقہ اور مشہور ہے کہ ان حملوں میں 80 فیصد شہری مرے ہیں۔ یہ بھی یاد رہے کہ صدارت کا منصب سنبھالنے کے بعد 2009 کی ابتداء میں اس نے اپنے پہلے خطاب میں کہا تھا کہ "وہ اپنے پیش رو بش جونیئر کی پالیسیوں کو نافذ کرنے کے طریقہ کار کو مسترد کر تا ہے کیونکہ وہ "غلط راستے " پر گامزن تھا، جو کہ "ہمارے تحفظ اور اقدار " کے خلاف تھیں۔ اس نے اس بات کا عہد کیا تھا کہ "دہشت گردی کے خلاف جنگ" کو امریکی اقدار سے ہم آہنگ کیا جائے گالیکن اس نےعملاً یہ ثابت کر دیا کہ امریکی پالیسی مجرمانہ اور جارحانہ ہے اور امریکی صدور اپنے جمہوری تہذیب یافتہ امریکی عوام کی حمائت سے جو کے مجسمہ آزادی کے رکھوالے ہیں اور جو اب نیویارک کے ساحل میں دفن ہو چکی ہے، ایک دوسرے سے اس بات میں سبقت لے جانے کی کوشش کرتے ہیں کہ کون زیادہ بڑا مجرم ہے ۔
۔ باوجویکہ کہ وہ یہودی فوجی جس کے بارے میں کہا گیا کہ اس کو قیدی بنا یا گیا ہے "پھر کہا گیا کہ اس کو قتل کردیا گیا" یہ فوجی حیفا کے ساحل پر چہل قدمی نہیں کررہا تھا بلکہ غزہ کی سرزمین پر شہریوں کو قتل کر نے کے مشن پر تھا لیکن اوبامہ نے انتہائی بے شر می سے بہادر اہل غزہ کو مزید قتل وغارت کی دھمکی دی اگر انھوں نے غیر مشروط طور پر اپنے قاتل کو رہا نہ کیا!! اس واقعے نے اس کے جھوٹ اور مگرمچھ کے آنسوؤں کی حقیقت کو کھول دیا جس کا وہ لوگوں کو یقین دلانا چاہتا تھا۔ اس نے غزہ کے لوگوں پر یہودی فوجیوں کواس طرح مکمل کھلی چھٹی دینے کے لیے دباؤ ڈالا جس طرح عراق،پاکستان،افغانستان ،یمن اور صومالیہ میں اس کے فوجیوں اور موت کے دستوں کو قتل وغارت کرنے کی کھلی چھٹی دی گئی ہے!!
آخر میں ہم یہ کہتے ہیں کہ اوبامہ ہو یا نیتن یاہو امت مسلمہ سے ان کی عداوت پر ہمیں کوئی شک شبہ نہیں کیونکہ وہ دن رات مسلمانوں کے خلاف سازشوں میں مصروف ہیں،لیکن ہم دکھ اور افسوس کے ساتھ یہ پوچھتے ہیں کہ : مسلمانوں کے اہل قوت آخر کب اسلام اور اہل اسلام کی نصرت اور مدد کے لیے اور ان کے دشمن کے خلاف اٹھ کھڑے ہوں گے،خلافت کے قیام کے لیے وہ حزب التحریر کو کب نصرہ دیں گے تاکہ وہ ڈھال واپس آئے جس کے بارے میں رسول اللہ ﷺ نے فرمایا ہے : «إِنَّمَا الْإِمَامُ جُنَّةٌ يُقَاتَلُ مِنْ وَرَائِهِ وَيُتَّقَى بِهِ»؟ "صرف خلیفہ ہی ڈھال ہے جس کی قیادت میں جنگ لڑی جاتی ہے اور اسی کے ذریعے حفاظت ہو تی ہے"۔ اے اللہ! محمدﷺ کی امت کو وہ خلیفہ عنایت کر دے جو تیری شریعت کے ذریعے حکمرانی کرے اور صرف حملہ آوروں کا ہی نہیں، اس کی خواہش رکھنے والوں کا بھی سر کچل دے۔ تو اس کا اہل اور اس پر قادر ہے۔
عثمان بخاش
حزب التحریر کا مرکزی میڈیاآفس

Read more...

سوال اور جواب: داعش کی جانب سے خلافت کے قیام کے اعلان کے حوالے سے

 

تمام بھائیوں اور بہنوں کی جانب جنہوں نے ایک تنظیم کی جانب سے ریاست خلافت کے قیام سے متعلق سوال پوچھا اور آپ سب کے نام نہ لکھنے پر میں معذرت خواہ ہو ں کیونکہ ایک لمبی فہرست بن رہی ہے۔
اسلام علیکم ورحمۃ اللہ وبراکاتہ
ہم پہلے بھی ایک مناسب جواب بھیج چکے ہیں اور میں ایک بار پھر یہ کہتا ہوں:
عزیز بھائیو اور بہنوں!
1- کسی بھی گروہ کے لئے، جس نے کسی جگہ خلافت کے قیام کا اعلان کرنا ہے، یہ ضروری ہے کہ وہ اس معاملے میں رسول اللہﷺ کے طریقہ کار کی پیروی کرے، اوراس منہج کے مطابق اس گروہ کے لئے اس جگہ پر واضح نظر آنے والا اختیار ہونا ضروری ہے تاکہ وہ اس جگہ پر اندرونی اور بیرونی سلامتی کو برقرار رکھ سکے اور جس جگہ خلافت کا اعلان کیا جا رہا ہواس جگہ میں وہ تمام خصوصیات ہونا ضروری ہیں جو کسی بھی ایک ریاست میں موجود ہوتی ہیں ۔۔۔ جب رسول اللہﷺ نے مدینہ میں اسلامی ریاست قائم کی تو انہوں نے مندرجہ ذیل صلاحیتیں حاصل کیں: اتھارٹی رسول اللہﷺ کے پاس تھی اور اندرونی و بیرونی سلامتی مسلمانوں کے ہاتھ میں تھی اور جو کچھ ایک ریاست میں ہونا چاہیے وہ مدینہ اور اس کے آس پاس کے علاقے میں موجود تھا۔
2- جس گروہ نے خلافت کے قیام کا اعلان کیا ہے نہ تو اس کے پاس اتھارٹی ہے، چاہے عراق ہو یا شام اور نہ ہی ان کے پاس یہ صلاحیت ہے کہ وہ اندرونی و بیرونی سلامتی کو برقرار رکھ سکیں۔ انہوں نے ایک ایسے شخص کو بیعت دی ہے جو کھل کر عوام کے سامنے بھی نہیں آسکتا بلکہ اس کی صورت حال اب بھی خفیہ ہے جیسا کہ ریاست کے قیام کے اعلان سے قبل تھی اور یہ عمل رسول اللہﷺ کے عمل سے متناقض ہے۔ رسول اللہﷺ کو ریاست کے قیام سے قبل غار ثور میں چھپنے کی اجازت تھی لیکن ریاست کے قیام کے بعد انہوں نے لوگوں کے امور کی دیکھ بھال سنبھال لی، افواج کی قیادت کی، مقدمات میں فیصلے سنائے، اپنے سفیر بھیجے اور دوسروں کے سفیر قبول کیے اور یہ سب کھلے عام، عوام کے سامنے تھا، لہٰذا رسول اللہ ﷺ کی صورتحال ریاست کے قیام سے قبل اور بعد میں بالکل مختلف تھی۔۔۔ اسی لیے اس گروہ کی جانب سے ریاست کے قیام کا اعلان محض ایک جذباتی نعرہ ہے جس میں کوئی وزن نہیں ہے۔ یہ بالکل ویسے ہی ہے جیسا کہ اس سے قبل بھی لوگ محض اپنی تسکین کے لئے بغیر کسی جواز اور وزن کےریاست کے قیام کا اعلان کرچکے ہیں ۔۔۔ تو کچھ تو وہ ہیں جنہوں نے خود کو خلیفہ کہلوایا اور کچھ نے خود کو مہدی کہلوایا جبکہ ان کے پاس نہ تو کوئی طاقت و اختیار تھا اور نہ ہی کوئی امن و سلامتی قائم کرنے کی صلاحیت۔ ۔۔
3- ریاست خلافت کی ایک شان و شوکت ہے، اور شریعت نے اس کے قیام کا ایک منہج بتایا ہے اور وہ طریقہ بھی بتایا ہے کہ کس طرح حکمرانی، سیاست، معیشت اور بین الاقوامی تعلقات کے احکامات اخذ کیے جاتے ہیں۔۔۔اور خلافت کے قیام کا اعلان محض نام کا اعلان نہیں ہوگا جس کو ویب سائٹ یا پرنٹ اور الیکٹرونک میڈیا پر جاری کردیا جائے بلکہ وہ ایک ایسا واقعہ ہوگا جو پوری دنیا کو ہلا کر رکھ دے گا اور اس کی بنیادیں مضبوط اور زمین میں پیوست ہوں گی، اس کا اختیار اس جگہ پر اندرونی و بیرونی امن و سلامتی کو قائم اور برقرار رکھے گا اور وہ اس سرزمین پر اسلام کو نافذ کرے گی اور دعوت و جہاد کے ذریعے اسلام کے پیغام کو پوری دنیا تک لے کر جائے گی۔
4- یہ جو اعلان کیا گیا ہے محض الفاظ ہیں، جو اس گروہ کی حقیقت کو نہ تو بڑھا سکیں گے اور نہ ہی گھٹا سکیں گے۔ یہ گروہ دراصل اس اعلان سے قبل ایک مسلح تحریک تھا اور ریاست کے قیام کے اعلان کے بعد بھی ایک مسلح تحریک ہی ہے۔ اس کی حقیقت ان مسلح گروہوں کی سی ہے جوایک دوسرے کے خلاف اور حکومتوں کے خلاف مسلح جدوجہد کرتے ہیں جبکہ ان میں سے کسی کے پاس یہ صلاحیت موجود نہیں کہ وہ شام یا عراق یا دونوں جگہ اتھارٹی حاصل کرسکیں۔ اگر ان میں کوئی بھی گروہ، جس میں ISISبھی شامل ہے، دراصل کسی مناسب مقام پر اپنے اختیار کو قائم کرسکے، جہاں ریاست کے لیے درکار لوازمات موجود ہوں اور پھر خلافت کا اعلان کرے اور اسلام کو نافذ کرے تو ایسے معاملے کا مطالعہ کرنا ضروری ہوتا کہ آیا خلافت شرعی احکامات کے مطابق حقیقتاً قائم ہو گئی ہے یا نہیں؟ اور پھر اس معاملے کی چھان بین (پیروی) کی جاتی کیونکہ خلافت کو قائم کرنا تمام مسلمانوں پر فرض ہے نہ کہ صرف حزب التحریر پر، لہٰذا جو کوئی خلافت قائم کرتا تو پھر اس کی چھان بین کی جاتی۔۔۔لیکن اس وقت معاملہ ایسا نہیں ہے بلکہ تمام مسلح تحریکیں بشمول ISIS، کسی کے پاس بھی زمین کے کسی ٹکڑے پر نہ تو کوئی اختیار ہے اور نہ اس زمین پر کوئی امن و سلامتی قائم کرنے کی صلاحیت ہے۔ لہٰذا ISIS کی جانب سے خلافت کے قیام کا اعلان محض ایک نعرہ ہے جس کی اتنی بھی وقعت نہیں کہ اس کی حقیقت کی چھان بین بھی کی جائے اور دیکھنے والی آنکھ کے لئے یہ بالکل واضح ہے۔
5- لیکن جس چیز کا مطالعہ اور مشاہدہ کیا جانا ضروری ہے وہ اس اعلان کے نتیجے میں پیدا ہونے والے منفی نتائج ہیں جو عام اور سادے لوگوں میں خلافت کے حوالے سے پیدا ہوں گے۔ خلافت کی اہمیت ان کی نظر میں کم ہوجائے گی اور اس کی شان و شوکت کا تصور مسلمانوں کے اذہان میں گھٹ جائے گا کہ جیسے یہ ایک کمزور تصور ہے۔ یہ ایسا ہی ہے کہ جیسے ایک شخص مایوسی کے عالم میں کسی گاؤں یا بیچ چوراہے میں کھڑے ہو کر اپنی مایوسی نکالنے کے لیے اعلان کردے کے وہ خلیفہ ہے اور پھر چلتا بنے یہ سوچتے ہوئے کہ اس نے جو کیا اس میں بڑی بھلائی تھی! ایسا کرنے سے خلافت کی اہمیت کم ہوجائے گی اور اس کی عظمت عام مسلمانوں کے دلوں سے ختم ہوجائے گی اور پھر یہ ایک خوبصورت لفظ سے زیادہ اہمیت نہیں رکھے گی کہ جس کو فخر سے بولا تو جائے لیکن اس میں کوئی مادہ موجود ہ نہ ہو۔۔۔یہ وہ معاملہ ہےجس کا مشاہدہ کیا جانا ضروری ہے خصوصاً ایک ایسے وقت میں جب کہ خلافت کا قیام کسی بھی گزرے وقت سے زیادہ قریب آچکا ہے اور مسلمان اس کا انتظار بے چینی سے کررہے ہیں اور وہ دیکھ رہے ہیں کہ حزب التحریر رسول اللہﷺ کےاس طریقے پر بڑھتی چلی جارہی ہے جس کے ذریعے رسول اللہﷺ نے مدینے میں اسلامی ریاست قائم فرمائی تھی۔۔۔ اور امت حزب کے اعمال کا اور مسلمانوں کے حزب کے پیغام کو گلے لگانے کا براہ راست مشاہدہ کر رہی ہے ۔ مسلمان حزب کے ان اعمال کے نتیجے میں پیدا ہونے والی اسلامی اخوت کو دیکھ رہے ہیں اور وہ کامیابی کے ساتھ حزب کے ہاتھوں قائم ہونے والی خلافت کے قیام پر اور لوگوں کے معاملات کی عمدہ دیکھ بھال کرنے پر خوشی کا اظہار کریں گے اور یہ رسول اللہﷺ کے طریقہ کار پر چلنے والی خلافت راشدہ ہوگی۔۔۔اور یہ ہے وہ وقت جب یہ اعلان کیا جاتا ہے تاکہ خلافت کے متعلق عام لوگوں میں یہ تصور عام کیا جائے کہ جیسے وہ ایک پولیس سٹیٹ ہوگی۔۔۔
6- یہ تمام باتیں ایک سوال، بلکہ کئی سوالات کو جنم دیتی ہیں۔۔۔اس اعلان کا وقت جبکہ یہ اعلان کرنے والے کوئی اتھارٹی نہیں رکھتے جس کے ذریعے وہ اندرونی اور بیرونی امن اور سلامتی کو برقرار رکھ سکیں۔ حقیقت یہ ہے کہ انہوں نے فیس بک اور میڈیا پرمحض اعلان ہی کیا ہے۔۔۔اس وقت کا چناؤ شکوک و شبہات پیدا کرتا ہے اور خاص طور پر اس لیے بھی کہ یہ مسلح گرو ہ کسی فکری بنیاد اور ڈھانچے پر قائم نہیں ہوتے جس کی وجہ سے مشرق و مغرب کے شیاطین کا ان میں داخل ہوجانا آسان ہے اور یہ بات ہر کوئی جانتا ہے کہ مغرب اور مشرق اسلام سے نفرت کرتے ہیں اور اسلام اور خلافت کے خلاف منصوبے بناتے ہیں اور وہ اس کے تصور کو بگاڑ دینا چاہتے ہیں کیونکہ وہ اس کا نام مٹانے میں ناکام ہو چکے ہیں ۔ لہٰذا وہ اس بات کو یقینی بنانا چاہتے ہیں کہ خلافت محض ایک نام ہی رہ جائے جس کے تصور میں کوئی وزن نہ ہو۔ لہٰذاوہ یہ چاہتے ہیں کہ وہ واقعہ جو ایک عظیم واقعہ ہوتا اور جس کے نتیجے میں کفار حواس باختہ ہو کر رہ جاتے، اس کا علان ہمارے دشمنوں کے لیے ایک مذاق بن کر رہ جائے۔
7- اس بات کے ساتھ ساتھ جو یہ شیاطین کررہے ہیں، ہم مشرق اور مغرب میں موجود اسلام کے دشمنوں اور ان کے ایجنٹوں اور ان کے پیروکاروں کو بتا دینا چاہتے ہیں کہ وہ خلافت آج بھی معروف ہے جس نے صدیوں تک دنیا کی قیادت کیاور ان کی تمام تر چالوں اور سازشوں کے باوجود ناقابلِ تسخیر ہوگی ۔ ﴿وَيَمْكُرُونَ وَيَمْكُرُ اللَّهُ وَاللَّهُ خَيْرُ الْمَاكِرِينَ﴾ "اور وہ اپنی تدبیریں کررہے تھے اور اللہ اپنی تدبیر کررہا تھا اور سب سے زیادہ مستحکم تدبیر والا صرف اللہ ہی ہے" (الانفال:30)۔
اللہ نے ہمیں خلافت کے قیام کے لئے ایک مضبوط جماعت سے نوازا ہے جس میں ایسے مرد و خواتین شامل ہیں جنہیں کوئی دنیاوی کام اللہ کی یاد سے غافل نہیں کرتا، انہوں نے خلافت کے تصور کو اپنے دل و دماغ سے قبول کیا ہے، اس کے لیے جس چیز کی ضرورت ہے یہ اس کی تیاری کرتے ہیں اور اسلام سے احکامات اور آئین کو اخذکرتے ہیں جس میں حکمرانی اور انتظامی ڈھانچہ بھی شامل ہے۔ وہ اس کے حصول کے لیے عین رسول اللہﷺ کے طریقہ کار کے مطابق آگے بڑھ رہے ہیں۔۔۔اللہ کے حکم سے وہ ایک ایسی ڈھال ہیں جو کسی بھی غیر اسلامی فکر اور عمل کے خلاف مزاحمت کرتے ہیں۔ یہ وہ پتھر ہیں جس پر کفار اور ان کے ایجنٹوں کی سازشیں تباہ برباد ہوجاتی ہیں، اللہ کی دی ہوئی طاقت کی بدولت وہ ایسے باعلم سیاست دان ہیں جو اللہ کی مدد و نصرت سے اسلام اور مسلمانوں کے دشمنوں کے منصوبوں کے خلاف مزاحمت کرتے ہیں اور ان کے منصوبوں کو ان ہی پر الٹ دیتے ہیں، ﴿وَلَا يَحِيقُ الْمَكْرُ السَّيِّئُ إِلَّا بِأَهْلِهِ﴾ "اور بری تدبیروں کا وبال ان تدبیر کرنے والوں ہی پر پڑتا ہے" (فاطر:43)۔
اے میرے عزیز بھائیو!
خلافت کا معاملہ عظیم اور بہت بڑا ہے اور اس کا قیام دھوکہ دینے والے میڈیا میں محض ایک خبر نہیں ہوگی بلکہ اللہ کے حکم سے اس کا قیام ایک ایسا زلزلہ ہو گا جو بین الاقوامی آرڈر کو ہلا کر رکھ دے گا اور وہ تاریخ کے دھارے کا رخ ہی تبدیل کردے گا۔۔۔اور خلافت رسول اللہﷺ کے طریقہ کار کے مطابق ہی قائم ہو گی جیسا کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا تھا اور جو اس کو قائم کریں گے وہ ویسے ہی ہوں گے جنہوں نے پہلی خلافت راشدہ قائم کی تھی۔ امت ان سے محبت کرے گی اور وہ امت سے محبت کریں گے، امت ان کے لیے دعا کرے گی اور وہ امت کے لیے دعا کریں گے، امت ان سے مل کر خوش ہو گی اور وہ امت سے مل کر خوش ہوں گے نہ کہ امت اپنے درمیان ان کے وجود کو نفرت کی نگاہ سے دیکھے گی۔۔۔ایسے ہوں گے وہ لوگ جو رسول اللہﷺ کے طریقہ کار کے مطابق آنے والی خلافت کو قائم کریں گے۔ اللہ یہ سعادت انہی کو دے گا جو اس کے حق دار ہوں گے اور ہم اللہ سے دعا کرتے ہیں کہ ہم ان لوگوں میں سے ہوں اور ہم اللہ سے دعا کرتے ہیں کہ وہ ہمیں اس کو قائم کرنے کی قوت عطا فرمائے، ﴿فَاسْتَبْشِرُوا بِبَيْعِكُمُ الَّذِي بَايَعْتُمْ بِهِ﴾ "تو تم لوگ اپنی اس بیع پر جس کا تم نے معاملہ ٹھرایا ہے خوشی مناؤ" (التوبۃ:111)۔
اللہ سے بالکل بھی ناامید مت ہوں۔ اللہ آپ کی کسی بھی کوشش کو ضائع نہیں کرے گا اور جو دعا آپ اس سے کرتے ہیں اس کو رد نہیں کرے گا اور نہ ہی اس امید کو رد کرے گا جس کی آپ کو اللہ سے توقع ہے۔ لہٰذا اپنی کوششوں کو بڑھا کر ہماری مدد کریں تاکہ اللہ کے سامنے آپ میں موجود خیر ثابت ہوجائے اور اللہ آپ میں موجود خیر کو مزید بڑھا دے گا اور اس سنجیدہ کام میں محض نعروں اور باتوں کی وجہ سے کسی قسم کی سستی نہ برتیں۔
اسلام علیکم ورحمۃ اللہ وبراکاتہ
آپ کا بھائی
3رمضان 1435 ہ
یکم جولائی 2014 م
میں دعا کرتا ہوں کہ یہ جواب کافی ہوگا۔ اللہ آپ کو کامیابی عطا فرمائے اور آپ کی مدد فرمائے اور اللہ ہم سب کی صحیح منزل کی جانب رہنمائی فرمائے۔
آپ کا بھائی
عطاء بن خلیل ابو الرشتہ
4 رمضان 1435 ہ
2 جولائی 2014 م

Read more...

سوال اور جواب: 'سلطان متغلب'

سوال: بعض (سوشل میڈیا) کے صفحات پر کچھ اس قسم کے تبصر ے دیکھنے کو ملے (حزب التحریر نے خلافت قائم کرنے کے لیے ایک طریقہ "طلب نصرہ" مقرر کر رکھا ہے جس کی وہ پابند ہے اور اس کے علاوہ وہ کسی اور شرعی طریقے کو نہیں مانتی .....حالانکہ ایک اور طریقہ بھی موجود ہے جو کہ 'سلطان متغلب' (زبردستی اقتدار پر قبضہ کرنے والے) کا طریقہ ہے، یعنی وہ شخص جو قوت اور قتال سے ریاست قائم کرے.....کچھ لوگوں نے یہ بھی کہا ہے کہ حزب التحریر نے جماعتی تعصب کی وجہ سے البغدادی کے اعلان پر اعتراض کیا،حزب خلافت کو اس وقت تک شرعی نہیں سمجھتی جب تک وہ خود اس کو قائم نہ کرے.....) کیا اس قسم کے اعتراضات کا کافی شافی جواب دینے کی زحمت کریں گے؟ اللہ آپ کو بہترین جزا دے۔
جواب:
1۔ خلافت کے قیام کے لیے شرعی طریقہ حزب التحریر نے متعین نہیں کیا ہے بلکہ یہ طریقہ شرع نے خود مقرر کر دیا ہے۔ اسلام کی دعوت کی ابتداء سے لے کر ریاست کے قیام تک رسول اللہﷺ کی سیرت طیبہ اس کا منہ بولتا ثبوت ہے.....ریاست کے قیام سے پہلے رسول اللہﷺ نے ان اہل قوت وطاقت سے نصرہ طلب کی جو اپنے ارد گرد کے علاقوں کی صورت حال کے مطابق ریاست کے لوا زمات کے حامل تھے۔ اسی وجہ سے رسول اللہﷺ طاقتور قبائل کے پاس جاتے، ان کو اسلام کی دعوت دیتے اور ان سے نصرہ طلب کرتے جیسا کہ ثقیف، بنی عامر، بنی شیبان اور انصار مدینہ سے نصرہ طلب کی جبکہ چھوٹے قبائل کو صرف اسلام کی دعوت دینے پر اکتفا کیا.....تمام تر مشکلات اور مشقتوں کا سامنا کرتے ہوئے بھی اس کام کو جاری رکھا اور مشقت کے باوجود کسی کام کو باربار کرنا شرعاً اس کے فرض ہو نے کی دلیل ہے جیسا کہ اصول میں ہے.....یوں رسول اللہﷺ نے اہل قوت اور طاقت سے نصرہ طلب کرنے کو جاری رکھا۔ کسی قبیلے نے آپﷺ کے قدم مبارک لہو لہان کر دیے، کسی نے آپﷺ کو روکا اور کسی نے شرائط رکھیں۔ اس کے باوجود رسول اللہ ﷺ اللہ کی طرف سے وحی کی وجہ سے اس پر ثابت قدم رہے اور اس طریقے کو تبدیل کرکے کوئی اور طریقہ نہیں اپنایا۔ آپﷺ نے اپنے صحابہ کو اہل مکہ سے لڑنے کی اجازت نہیں دی یا ریاست قائم کرنے کی غرض سے کسی قبیلےسے لڑنےکا حکم نہیں دیا حالانکہ آپﷺ کے صحابہ زبردست بہادر اور جنگجو تھے اور اللہ کے علاوہ کسی سے نہیں ڈرتے تھے لیکن اس کے باوجود آپﷺ نے ان کو لڑنے کا حکم نہیں دیا بلکہ اہل قوت و طاقت سے نصرہ طلب کرنے کے کام کو ہی جاری رکھا یہاں تک کہ اللہ نے آپﷺ کو وہ انصار مہیا کردیے جنہوں نے بیعت عقبہ ثانی میں آپﷺ کو بیعت دی۔ اس سے پہلے مصعب رضی اللہ عنہ مدینہ منورہ کی اپنی اس مہم میں کامیاب ہوچکے تھے جس کی ذمہ داری رسول اللہﷺ نے ان کو سونپ دی تھی۔ اللہ سحا نہ وتعالیٰ کی جانب سے کچھ اہل قوت اور طاقت کو نصرت کی توفیق دینے کے ساتھ ساتھ آپ رضی اللہ عنہ نے اللہ کے اذن سے اسلام کو مدینہ کے گھر گھر میں داخل کیا اوراسلام کے لیے رائے عامہ ہموار کی۔ یوں یہ رائے عامہ اور انصار کی جانب سے بیعت باہم مل گئے، جس کی وجہ سے رسول اللہﷺ نے ایک صاف شفاف بیعت اور اہل مدینہ کی جانب سے رسول اللہﷺ کےپُر جوش استقبال سے مدینہ منورہ میں اسلامی ریاست قائم کر دی۔
ریاست قائم کرنے کا یہی وہ شرعی طریقہ ہے جس کی پیروی لازمی ہے کیونکہ افعال میں اصل شرع کی پابندی ہے۔ ایک مسلمان جب یہ چاہے کہ نماز کس طرح پڑھے تو اس کو چاہیے کہ نماز کے دلائل کو پڑھے، اگر جہاد کا ارادہ کرے تو جہاد کے دلائل کو پڑھے اور اگر ریاست قائم کرنے کا ارادہ کرے تو اس کے قیام کے دلائل رسول اللہﷺ کے افعال میں پڑھے۔ ریاست قائم کرنے کے دلائل صرف رسول اللہﷺ کی سیرت پر مبنی ہیں جس میں ان اہل قوت اور طاقت کو دعوت دینا شامل ہے جو اپنے ارد گر کی صورت حال کے لحاظ ریاست کے لوازمات کے حامل تھے ۔ ان کو اسلام کی دعوت دی اور ان سے ان کی رضا اور اختیار سے نصرت اور بیعت طلب کی کیونکہ ان کے ہاں اور ان کے علاقے میں عام بیداری سے پیدا ہو نے والی رائے عامہ پیدا کی جا چکی تھی.....
یوں خلافت قائم کرنے کا شرعی طریقہ اسلام میں واضح طور پر متعین ہے۔ اس سے یہ بھی واضح ہو گیا ہے کہ مذکورہ اعلان کرنے والوں نے رسول اللہﷺ کے اس طریقے کی پیروی نہیں کی۔
2۔ رہی بات 'سلطان متغلب' (زبردستی بننے والے حکمران ) کی جس کا ذکر فقہ کی بعض کتابوں میں ہے لیکن اس کا معنی سمجھنا ضروری ہے۔ صرف سلطان متغلب کا رٹہ لگانا کافی نہیں بلکہ یہ سمجھنا ضروری ہے کہ وہ کب اور کس طرح شرعی طور پر ہوتا ہے اور کب اور کس طرح غیر شرعی ہوتا ہے بلکہ امت پر وبال ہوتا ہے!
بے شک سلطان متغلب مسلمانوں کا خون بہانے اور قہر و جبر اور زبردستی سے ان پر مسلط ہونے کی وجہ سے گنہگار ہوتا ہے اور شرعی طریقے کی خلاف ورزی کرنے کی وجہ سے اس کی خلافت کا انعقاد ہی نہیں ہوتا..... تاہم بعض فقہاء یہ سمجھتے ہیں کہ سلطان متغلب کی حکومت اس وقت شرعی ہو سکتی ہے جب اس کے اندر کچھ شرائط پائی جائیں جن میں سے نمایاں یہ ہیں:
ا ۔ وہ ایسے ملک میں زبردستی حکمران بنے جس ملک کے اندر اپنے گردو پیش کے لحاظ سے ریاست کے لوازمات موجود ہوں، وہاں اس کی مستحکم حکومت قائم ہو اور وہاں خطے کے لحاظ سے داخلی اور خارجی طور پر امن و امان ہو ۔
ب ۔ اس ملک میں اسلام کو عدل اور احسان کے ساتھ نافذ کرے، لوگوں کے ساتھ حسن سلوک کرے، لوگ اس سے محبت کریں اور اس سے راضی ہو جائیں۔
ج ۔ اس ملک کے لوگ اپنی مرضی اور اختیار سے اس کو بیعت دیں، ان پر کوئی زبردستی اور جبر نہ کیا جائے۔ شرعی بیعت کی شرائط میں سے یہ بھی ہے کہ بیعت اس ملک کے لوگ دیں سلطان متغلب کا اپنا ٹولہ نہیں کیونکہ اس قسم کی شرعی بیعت ہی رسول اللہﷺ کی اقتدا ہے۔ رسول اللہﷺ نے سب سے پہلے مدینہ منورہ کے انصار سے ان کی رضامندی اور اختیار سے بیعت لی ، اپنے مہاجر صحابہ سےنہیں لی اور بیعت عقبہ ثانی اس کا منہ بولتا ثبوت ہے۔
یو ں سلطان متغلب گنہگار ہے اور اس کی حکمرانی بھی اس وقت تک شرعی نہیں جب تک اس کے اندر مندجہ بالا تین شرائط نہ پائی جائیں۔ جب یہ تین شرائط پائی جائیں تب ہی سلطان متغلب رضامندی اور اختیار سے بیعت دیے جانے کے لمحے سے شرعی حکمران بنیں گے۔ یہ ہے سلطان متغلب کی حقیقت کہ شاید ذہین لوگ یہ ذہن نشین کر لیں.....اب یہ بات بھی واضح ہے کہ مذکورہ اعلان کرنے والے لوگوں نے ان تین شرائط کو پورا نہیں کیا بلکہ اپنے آپ کو اور اپنے اعلان کو ناحق طریقے سے مسلط کر دیا۔
جیسا کہ پہلے گزر چکا ہے کہ انہوں نے صحیح شرعی طریقہ نہیں اپنایا حتی کہ سلطان متغلب کا طریقہ بھی اختیار نہیں کیا .....بلکہ اس کے برعکس خلافت کا اعلان کر بیٹھے۔ ان کے اندر وہ شرائط ہی موجود نہیں تھیں اس لیے ان کے اعلان کا شرعاً کوئی وزن اور قیمت نہیں بلکہ یہ ایسا لغو(بیہودہ) ہے جیسا کہ تھا ہی نہیں اور وہ بدستور ایک مسلح تنظیم ہیں۔
3 ۔ رہی یہ بات کہ حزب صرف اس خلافت کو شرعی سمجھتی ہے جس کو وہ خود قائم کرے گی، یہ بات مکڑی کے جال سے بھی کمزور ہے! یہ وہ بات ہے جو شیطان بعض ایسے چھوٹے دل والے اور تنگ نظر لوگوں کے دل میں ڈالتاہے جو بصارت اور بصیرت سے محروم ہیں.....حزب جو چاہتی ہے وہ یہ ہے کہ خلافت صاف شفاف اور غیر مشکوک طریقے سے قائم ہو۔ ہماری مثال "بچے کی ماں" کی ہے اس لیے ہمارا مسئلہ یہ ہے کہ یہ بچہ قتل یا بے راہ نہ ہو..... بلکہ بچہ صحت مند، توانا ہو، اس کی اچھی دیکھ بھال ہو اور وہ توجہ کا مرکز بنے۔ مسئلہ یہ نہیں کہ اس بچے کی پرورش کون کرے.....ہم چاہتے ہیں کہ خلافت شایان شان طریقے سے کما حقہ قائم ہو۔ اس کی اتھارٹی عظیم الشان ہو۔ وہ داخلی طور پر اسلام کو شاندار طریقے سے نافذ کرے اور دعوت اور جہاد کے ذریعے اس کو دنیا کے سامنے پیش کرے، تب ہی یہ وہ خلافت راشدہ علی منھاج النبوۃ ہوگی جس کا اللہ نے وعدہ فرمایا ہے اور رسول اللہﷺ نے بشارت دی ہے اور وہ جابرانہ حکومتوں کو ختم کر دے گی.....جو بھی اس کو قائم کرے گا اس کو قائم کرنے کا حق ادا کرے گا خواہ وہ لوگ ہم ہوں یا کوئی اور جن کی بات سنی جائے گی اور ان کی اطاعت کی جائے گی، تب اللہ کے اذن سے زمین اپنے خزانے اُگل دے گی اور آسمان اپنے خیر کو اتارے گا۔ اس دن اہل اسلام عزت مند ہوں گے اور اہل کفر ذلیل ، اور اللہ ہی غالب اور حکمت والا ہے.....
ہم خلافت کے بارے میں یہی چاہتے ہیں کہ وہ اس طرح مبارک اور پاک صاف قائم ہو جیسا کہ رسول نے اس کو قائم کیا تھا اور آپﷺ کے بعد آپ کے خلفائے راشدین رضوان اللہ علیھم نے آپﷺ کی پیروی کی تھی .....ایسی خلافت جس سے اللہ اور اس کے رسول ﷺ اور مؤمنین راضی ہوں ، جس سے مسلمانوں کے دل سرور سے لبریز ہوں اور ان کے سر فخر سے بلند ہوں .....نہ کہ برائے نام کسی مشکوک خلافت کا اعلان ہو اور وہ بھی مسلمانوں کے خون سے آلودہ ہو۔
یقینا اس بات سے ہمیں تکلیف پہنچی کہ خلافت ایسی ہوتی ہے جس سے دنیا کانپ اٹھتی ہے کفار اور استعماریوں پر لرزہ طاری ہو جاتا ہے لیکن اس واقعے سے ایسا کچھ بھی نہیں ہوا ۔ اس سے خلافت کی شان میں گستاخی ہوئی بلکہ وہ بے وقعت چیز لگنے لگی۔ اس اعلان پر تبصرہ کرتے ہوئے امریکہ کہتا ہے کہ "یہ کو ئی بڑی بات نہیں" جبکہ خلافت کے اعلان پر تو اس کو خون کے آنسو رونا چا ہیے تھا .....اس بات نے بھی ہمیں دکھ پہنچایا کہ وہ لوگ جن کی نظروں میں خلافت ایک عظیم الشان چیز تھی ایک معمولی چیز لگنے لگی اور اس اعلان کو انہوں نے ایک فضول واویلا سمجھا.....
حزب اسلام کا ایک امانت دار پہرہ دار ہے اور یہ اللہ کے معاملے میں کسی کو اہمیت نہیں دیتی۔ یہ ہر اچھے کام کرنے والے سے کہتی ہے کہ تم نے اچھا کیا اور برے کام کرنے والے سے کہتی ہے کہ تم نے برا کیا۔ یہ اس کے پیچھے کوئی جماعتی مفاد نہیں ڈھونڈتی نہ ہی فانی دنیا کی کسی متاع کی طلبگار ہے بلکہ ہم تو اس دنیا وما فیھا کو ایسا ہی دیکھتے ہیں جیسا عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کی اس حدیث میں رسول اللہﷺ نے فرمایا جس کو ترمذی نے روایت کی ہے کہ: «مَا لِي وَلِلدُّنْيَا، مَا أَنَا فِي الدُّنْيَا إِلَّا كَرَاكِبٍ اسْتَظَلَّ تَحْتَ شَجَرَةٍ ثُمَّ رَاحَ وَتَرَكَهَا» "میرا دنیا سے کیا لینا دینا، میں دنیا میں بس ایسا ہی ہو ں جیسا کہ ایک سوار ایک درخت کے سائے تلے سستاتا ہے پھر وہاں سے چل پڑتا ہے" حزب کے نزدیک دنیا وہی تھوڑا سا لمحہ ہے، جتنی دیر میں وہ اس درخت کے سائے میں بیٹھتی ہے جب وہ اس درخت کے نیچے ٹھراتی ہے، اس لمحے کو وہ خلافت کے کماحقہ قیام کے ذریعے شرعی احکامات کی تنفیذ کے لئے تندہی سے صالح اور صادق عمل میں مگن رہتی ہے جو صرف اللہ القوی العزیز کے اذن سے ہوگا۔
4 ۔ آخر میں حزب التحریر جس نے ساٹھ(60) سال سے زیادہ عرصہ رسول اللہﷺ کے طریقے پر خلافت کے قیام کے لیے جدوجہد میں گزارا ہے اور اس کی راہ میں سالہا سال ظالموں کے عقوبت خانوں میں کاٹے ہیں، تعاقب اور ظلم وستم کا سامنا کیا ہے، طاغوت کی طرف سے دیے جانے والا عذاب برداشت کیا ہے جس میں حزب کے بہت سارے شباب نے جام شہادت نوش کیا اور بہت سارے اذیتوں سے دوچار ہوئے ..... اب بھی حزب شدید ترین تشدد کے باوجود ثابت قدمی سے حق پر قائم اور نبوی طریقے پر گامزن ہے.....کیا کوئی ایسی جماعت جس کا یہ حال ہے آپ کا کیا خیال ہے کہ کسی جماعت کی جانب سے کما حقہ خلافت قائم کرنے پر اعتراض کرے گی، خواہ اس کو حزب قائم کرے یا کوئی اور .....؟ حزب کبھی اعتراض نہیں کرے گی بلکہ سجدہ شکر بجا لائے گی..... لیکن ساتھ ہی حزب خلافت کے نام کو ناحق استعمال کرنے والوں، اس کو مشکوک بنانے والوں اور اس کی شان میں گستاخی کرنے والوں کے خلاف مورچہ زن بھی ہے۔ اللہ کے اذن سے حزب ہمیشہ خلافت کے خلاف تمام سا زش کرنے والوں،اس کے بارے میں شکوک و شبہات پھلاانے والوں اور اس کی شان میں گستاخی کرنے والوں کے سامنے مضبوط چٹان ثابت ہو گی اور ان شاء اللہ خلافت ایسے لوگوں کے ہاتھوں قائم ہو گی جنہیں تجارت اور لین دین اللہ کے ذکر سے غافل نہیں کرتا ۔ وہ ایسے جوان مرد ہوں گے جو اس کے حقدار اور اہل ہیں،یوں خلافت کی صبح ایک بار پرں طلوع ہوگی ﴿وَيَوْمَئِذٍ يَفْرَحُ الْمُؤْمِنُونَ *بِنَصْرِ اللَّهِ يَنْصُرُ مَنْ يَشَاءُ وَهُوَ الْعَزِيزُ الرَّحِيمُ﴾ "اور اُس دن مؤمنین اللہ کی مدد سے خوش ہوں گے وہ جس کی چاہتا ہے مدد کرتا ہے اور وہی غالب اور رحم کرنے والا ہے"

Read more...

اے مسلم ممالک کی افواج اور بالخصوص عرب ممالک کی افواج! یہودیوں کے جرائم پر تمہاری رگوں میں خون کیوں نہیں کھولتا کہ تم فلسطین کے مسلمانوں کی مدد کرو؟

مسلسل چھ دن سے، غاصب یہودی، اہل ِغزہ پر طرح طرح کا تباہ کن اسلحہ برسا رہے ہیں، جس سے انسان تو کیا پتھر اور درخت تک محفوظ نہیں.....یہودی غزہ کے مکینوں کی چھتیں انہی پر گرارہے ہیں اورجو ان گھروں کے ملبے تلے سے زندہ نکل کر گاڑی میں یا پیدل بچنے کی کوشش کرتا ہے، میزائل اس کے تعاقب میں آگرتا ہے.....ان کے جرائم کا دائرہ مساجداور معذور افراد کی دیکھ بھال کرنے کے مراکز تک پھیل چکا ہے۔ یہ جرائم بڑھتے جارہے ہیں جبکہ وہ ممالک جو فلسطین کے گرد موجود ہیں مقتولین اور زخمیوں کی گنتی کرنے میں مصروف ہیں۔ ان میں سب سے زیادہ نمایاں کردار ان کا ہے جنہوں نے زخمیوں کیلئے گزرگاہیں کھول دی ہیں۔ یہ بالکل ایسے ہی ہے جیسے وہ کہہ رہے ہوں کہ اگر کوئی غزہ کے محاصرے سے باہر آناچاہتا ہے تو اسے بری طرح زخمی ہونا پڑے گا۔ ایسےجیسےکم زخمی ہونا تک کافی نہیں.....اگرآپ کا خون بہہ رہا ہے تو آئیے خوش آمدید !!! پھریہ حکمران عطیات دینے میں مشغول نظر آتے ہیں حالانکہ وہ اچھی طرح جانتے ہیں کہ قتل کا نشانہ بننے والے کو کھانا دینے سے پہلے اسے قتل سے بچانے والے کی ضرورت ہوتی ہے۔ پھر یہ حکمران ثالث اور غیر جانبدار بن جاتے ہیں اور دونوں طر ف سے امیدیں لگاتے ہیں اور دونوں طرف جھکے جاتے ہیں۔ جب یہودی ریاست اہل غزہ کے خون سے خوب سیراب ہوجاتی ہے تب یہ امن و امان قائم کرنے کے لئے ثالثی کرنے لگتے ہیں۔ امن وامان کی صورتحا ل، جس کو یہودی ریاست آرام کے ایک وقفے کی نظر سے دیکھتی ہے، کچھ دیر تک برقرار رہتی ہے.....پھر وہ اس کے پرخچے اُڑا کر ظلم وستم کا ایک اور دور شروع کردیتے ہیں اوریہ سلسلہ یوں ہی جاری رہتا ہے ! اس سب کے باوجود آس پاس کے عرب حکمران غیر جانبداری کا راگ الاپتے رہتے ہیں تاکہ مغرب اور یہود یوں کی خوشنودی حاصل کریں۔ ان حکمرانوں کو نہ تو اللہ سے کوئی شرم آتی ہے اور نہ ہی اس کے رسولﷺ اور مؤمنین سے۔
یہ کوئی انہونی بات نہیں کہ ان ریاستوں کے حکمران دستبرداری اور ذلت کا رویہ اپناتے ہیں کیونکہ جب سے امت کا ان کے ساتھ واسطہ پڑا ہے یہی ان کی عادت رہی ہے۔ تعجب تو ان افواج پرہے جو اپنے دین اور امت کی نصرت کے لئے اسلحہ اٹھائے پھرتے ہیں پھروہ کیسے اپنے بھائیوں اور بہنوں پر اس وحشیانہ بمباری کو دیکھنا یا سننا گوارا کرلیتے ہیں۔ ان کے بہن بھائی لہو لہان ہوکر مدد کے لئے پکارتے ہیں مگر ان کی پکار پر کوئی لبیک کہنے والا نظر نہیں آتا! لیکن اگر یہ حکمران ان حالات کو نظر انداز کررہے ہیں اور افواج حرکت میں نہیں آرہیں تو ان افواج میں موجود فوجیوں کے والدین، بھائی اور بیٹے کہاں ہیں؟ تم ان کو اللہ کے راستے میں قتال کی ترغیب کیوں نہیں دیتے ہو ؟ تاکہ وہ ان بندوں کی مدد کریں اور ان علاقوں کو آزاد کرائیں، تاکہ تم اور تمہارے بیٹے جہاد کی بدولت اللہ تعالیٰ کی نعمت اور مہربانی کو حاصل کریں۔ جہاد ہی اسلام کے پہاڑ کا بلند ترین حصہ ہے .....پس ان کے اندر قوت اور تقویٰ پیدا کرو اور ان کو اس بات پر تیار کرو کہ وہ ان مسلمانوں کی نصرت کریں جو یہودی جرائم کا نشانہ بنے ہوئے ہیں، وَإِنِ اسْتَنْصَرُوكُمْ فِي الدِّينِ فَعَلَيْكُمُ النَّصْرُ "اگر دین کی وجہ سے تم سے کوئی مدد مانگے تو تم پر ان کی مدد واجب ہے " (الانفال :72)۔ ان کو اس بات پر تیار کرو کہ وہ ظلم اور نا انصافی پر خاموشی اختیار نہ کریں اور حکمرانوں کے مظالم اور اللہ، اس کے رسولﷺ اور مؤمنین کے ساتھ ان کی خیانت کا انکار کریں اور وہ گناہ کے کاموں میں اطاعت نہ کریں۔ ایسا کرکے آپ ان کو دنیا میں رسوائی اور آخرت کے عذاب سے بچاسکتے ہیں۔
اےمسلم ممالک بالخصوص عرب ممالک کی افواج !کیا تمہارے اندر ایک بھی ایسا باشعور آدمی نہیں جو غزہ کی نصرت کے لئے فوج میں سے اپنے بھائیوں کی قیادت کرے جس کی بدولت اس کی ایسی تاریخ رقم کی جائے گی جو اس کے لئے دنیا و آخرت میں سرخروئی کا باعث ہوگی ؟ کیا تمہارے اندر کوئی ایک بھی ایسا نہیں جو مسلم افواج کے عظیم قائدین کی یاد تازہ کرے جو ایک عورت کو چھڑوانے کےلئے شیروں کی طرح جھپٹ پڑتے اور کہتے : یَا خَیلَ اللہِ اِرکَبِی...."اے اللہ کے شہسوارو! سوار ہوجاؤ"۔
یہ بات ایک کھلی حقیقت ہے کہ حکمرانوں کی یہ کوشش ہے کہ وہ تمہیں دشمنوں کے ساتھ لڑائی سے روکیں بلکہ وہ چاہتے ہیں کہ تم اپنے لوگوں کو تحفظ فراہم کرنے کی بجائے انہیں قتل کرو.....مگر ان حکمرانوں کی حفاظت کو ن کرتا ہے؟کیا وہ تم لوگ نہیں ہو؟ ان حکمرانوں کا اختیار تمہارے ہاتھوں میں ہے۔ اگر تم ان کے سامنے کھڑے ہوجاؤ اور اپنے لوگوں کی نصرت اور قتال فی سبیل اللہ کے لئے چل پڑو تو تم کامیاب ہو گے اور ان حکمرانوں کی نافرمانی کرکے ہی فلاح پاؤگے۔ رسول اللہﷺ نے فرمایا، لاَ طَاعَةَ لِمَخْلُوقٍ فِي مَعْصِيَةِ اللهِ "اللہ کی معصیت (نا فرمانی) میں کسی مخلوق کی اطاعت نہیں کی جاتی " (رواہ احمد والطبرانی)۔ تو کوئی ایسا باشعور شخص تمہارے اندر موجود ہے جو اللہ اور اس کے رسولﷺ کو نصرت دے؟ تمہارے اندر مصعب بن عمیر ، اسعد بن زرارہ، اسیدبن حضیر اور سعد بن معاذ رضی اللہ عنہ جیسا کوئی ہے جنہوں نے اللہ سبحانہ و تعالیٰ اور اس کے رسولﷺ کو نصرت فراہم کی تو اللہ تعالیٰ نے ان کو دنیا اور آخرت کی کامیابی سے نوازا اور پھرحضرت سعد بن معاذ رضی اللہ عنہ کی موت پر رحمٰن کا عرش حرکت میں آیا۔ یہ عزت اس لئے ملی کہ آپ رضی اللہ عنہ نے اللہ کے دین کی نصرت کی تھی۔ أخرج البخاري عَنْ جَابِرٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، سَمِعْتُ النَّبِيَّ صلى الله عليه وسلم يَقُولُ: «اِهْتَزَّ العَرْشُ لِمَوْتِ سَعْدِ بْنِ مُعَاذٍ»؟ بخاری نے حضرت جابر رضی اللہ عنہ سے روایت کی ہے، وہ فرماتے ہیں : میں نے رسول اللہﷺ سے یہ فرماتے ہوئے سنا : "سعد بن معاذ کی موت پر عرش ہل گیا تھا"۔ تم میں سے کوئی بھی ایسا باشعور نہیں جو ان لوگوں کی سیرت پر چل کر خلافت قائم کرے اور خلیفہ مقرر کرے جو تمہیں دشمن سے لڑنے سے روکنےکی بجائے خود دشمن سے لڑنے میں تمہاری قیادت کرے گا کیونکہ امام کی قیادت میں ہی لڑا جاتاہے۔ مسلم نے ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے انہوں نے نبی ﷺ سے روایت کی ہے آپ ﷺ نے فرمایا، اِ نَّمَا الْإِمَامُ جُنَّةٌ، يُقَاتَلُ مِنْ وَرَائِهِ، وَيُتَّقَى بِهِ "بے شک امام ڈھال ہے، جس کے پیچھے رہ کر لڑا جاتا ہے اور اسی کے ذریعے تحفظ حاصل کیا جاتا ہے"۔ یقیناً امام ہی کی قیادت اور سربراہی میں یہود کے قبضے کا خاتمہ کیا جائے گا اور فلسطین کی مبارک سرزمین مکمل طور پر اسلامی دیار کی طرف لوٹا دی جائے گی.....خلیفہ، امیر المومنین حضرت عمر الفاروق رضی اللہ عنہ کی سیرت کو زندہ کرے گا جنہوں نے القدس اور اس کے آس پاس کی بابرکت سر زمین کو فتح کیا، اور خلیفہ صلاح الدین ایوبی کی سیرت کو زندہ کرے گا جنہوں نے القدس کوصلیبیوں سے آزاد کروایا اور وہ عبد الحمید کی سیرت کو زندہ کرے گا جنہوں نے القدس کی حفاظت کی اور یہودیوں پر واضح کیا کہ یہ سرزمین اُن کے نزدیک اُن کی جان اور مال سے زیادہ عزیز اور قیمتی ہے۔
ہم جانتے ہیں کہ خلافت کو قائم کرنے کے لئے آسمان سے فرشتے نہیں اتریں گے جو یہود کے قبضے کے خاتمے اور فلسطین کی آزادی کے لئے ہمارے لشکر کی قیادت کریں۔ ہاں اس صورت میں اللہ تعالیٰ ہماری مدد کے لئے فرشتے نازل کرے گا جب ہم دل سے اور صدق واخلاص کے ساتھ زمین پر دوبارہ اسلامی زندگی کو واپس لانے اور خلافت کے قیام کے لئے عمل کریں گے، تبھی یہودسے قتال اور اللہ کے دین کی نصرت کےلئے لشکر روانہ ہوں گےاور تبھی ملائکہ کا نزول ہوگا جو ہمارے معاون ہوں گے۔ قرآن کریم میں اس کا تذکرہ اس طرح کیا گیا ہے: بَلَى إِنْ تَصْبِرُوا وَتَتَّقُوا وَيَأْتُوكُمْ مِنْ فَوْرِهِمْ هَذَا يُمْدِدْكُمْ رَبُّكُمْ بِخَمْسَةِ آلَافٍ مِنَ الْمَلَائِكَةِ مُسَوِّمِينَ "ہاں بلکہ اگر تم صبر اور تقویٰ اختیار کرو اور وہ لوگ اپنے اسی ریلے میں اچانک تم تک پہنچ جائیں تو تمہارا پروردگار پانچ ہزار فرشتے تمہاری مدد کو بھیج دے گا جنہوں نے اپنی پہچان نمایاں کی ہوگی " (آل عمران:125)۔ پس جب ہم صبر کریں گے اور تقویٰ اختیار کریں گے اور قتال کرتے ہوئے دشمن کے ساتھ ہماری مڈ بھیڑ ہوگی تب اللہ سبحانہ وتعالیٰ ہزاروں فرشتوں کےساتھ ہماری مدد کرے گا.....یہی غزہ بلکہ دنیا بھر کے تمام مسلمانوں کی مدد کا طریقہ ہے، درحقیقت اسی کے لئے کام کرنا چاہئے۔
اے مسلمانو! اے مسلم ممالک بالخصوص عرب ممالک کی افواج ! غزہ کے اندر یہودی جرائم مسلسل جاری ہیں اور حکمرانوں نے اہل غزہ کی مدد کرنےکی بجائے مجرمانہ خاموشی اختیار کی ہوئی ہے اوراب تو وہ شاید روایتی مذمت کے الفاظ بھی اپنی زبانوں پر لانا نہیں چاہتے اور اگر مذمت کرتے بھی ہیں تو شرم کے مارے.....اور اس کے باوجود غزہ کے لوگ ایسے کارنامے سرانجام دے رہے ہیں کہ وہ علاقائی طور پر کار آمد اسلحہ خود ہی بناتے ہیں جس نے دشمن کے ہوش اڑادئے ہیں، اوران کے دل دہل گئے ہیں.....مگر حقیقت یہ ہے کہ یہ مسئلہ صرف یہودی وجود کا خاتمہ کرکے ہی حل ہوگا اور یہ معاملہ واضح ہے کہ دشمن کو مغلوب کرنے اور اس کا خاتمہ کرنے کے لئے افواج کی ضرورت ہے کہ جب وہ حرکت میں آئیں گی تو یہودی ہل کے رہ جائیں گے.....حقیقت یہ ہے کہ یہودیوں کی پشت پناہی کرنے والے استعماری کفار اور ایجنٹ حکمران مسئلہ فلسطین کو امت مسلمہ کے مسئلہ سے گھٹا کر عرب مسئلہ کی طرف اور رفتہ رفتہ فلسطینی قومی مسئلہ کی طرف لانے میں کامیاب ہوگئے بلکہ اس کو آدھا کردیا ہے ! جس سے ہر دیکھنے والے کے نزدیک اب یہ واضح ہوگیا ہے کہ فلسطین مکمل طور پر اس وقت ہی آزادی حاصل کرے گا جب یہ مسئلہ ایک دفعہ پھر ایک اسلامی مسئلہ کی شکل اختیار کرے، اور مشرق بعید میں انڈونیشیا سے لے کر مغرب میں مراکش کے دارالحکومت رباط تک ہر مسلمان خواہ عام شہری ہو یا فوجی اس کو اپنا مسئلہ سمجھے اور وہ یہ جان لے کہ فلسطین کوئی دوست یا برادر ملک نہیں بلکہ یہ ہماری اپنی جان، اپنی سرزمین، عزت اور ایک ذمہ داری ہے.....کیونکہ مسلمان ایک جسم کی مانند ہیں۔ رسول اللہﷺ نے فرمایا إِذَا اشْتَكَى مِنْهُ عُضْوٌ تَدَاعَى لَهُ سَائِرُ الْجَسَدِ بِالسَّهَرِ وَالْحُمَّى "جب اس کے کسی عضو میں درد ہو تو باقی جسم اس کی وجہ سے جاگتااور بے قرار ہتا ہے اور بیماری میں مبتلاء رہتا ہے" (مسلم عن نعمان بن بشیر)۔
اےمسلم ممالک بالخصوص عرب ممالک کی افواج !
حزب التحریر تمہیں پکارتی ہے اور تمہارے عزائم کو بیدار کرتی ہے۔ یہ مبارک سرزمین تو مسلم ممالک کے درمیان موتی کی حیثیت رکھتی ہے اور یہ مسلمانوں کا قبلہ اول ہے۔ یہیں سے ان کے پیغمبرﷺ کو معراج ہوئی، سو اپنے دشمن کے ساتھ قتال کے لئے اٹھو اور اپنے لوگوں کو نصرت دو، جیساکہ اللہ سبحانہ کا ارشاد ہے، انْفِرُوا خِفَافًا وَثِقَالًا وَجَاهِدُوا بِأَمْوَالِكُمْ وَأَنْفُسِكُمْ فِي سَبِيلِ اللَّهِ ذَلِكُمْ خَيْرٌ لَكُمْ إِنْ كُنْتُمْ تَعْلَمُونَ "(جہاد کے لئے) نکل پڑو، چاہے تم ہلکے ہو یا بوجھل، اور اپنے مال وجان سے اللہ کے راستے میں جہاد کرو۔ اگر تم سمجھ رکھتے ہو تو یہی تمہارے حق میں بہتر ہے" (التوبہ:41)۔ اور ایسے مت ہوجانا جیسا کہ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں، يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا مَا لَكُمْ إِذَا قِيلَ لَكُمُ انْفِرُوا فِي سَبِيلِ اللَّهِ اثَّاقَلْتُمْ إِلَى الْأَرْضِ أَرَضِيتُمْ بِالْحَيَاةِ الدُّنْيَا مِنَ الْآخِرَةِ فَمَا مَتَاعُ الْحَيَاةِ الدُّنْيَا فِي الْآخِرَةِ إِلَّا قَلِيلٌ "اے لوگو جو ایمان لائے ہو! تمہیں کیا ہوگیا ہے کہ جب تم سے کہا گیا کہ اللہ کے راستے میں ( جہاد کے لئے ) کوچ کرو تو تم بوجھل ہوکر زمین سے لگ گئے ؟ کیا تم آخرت کے مقابلے میں دنیوی زندگی پر راضی ہو چکے ہو؟ (اگرایسا ہے ) تو (یاد رکھو کہ ) دنیوی زندگی کا مزہ آخرت کے مقابلے میں کچھ بھی نہیں، مگر بہت تھوڑا" (التوبہ :38)... ورنہ اللہ سبحانہ و تعالٰی فرماتے ہیں، يَسْتَبْدِلْ قَوْمًا غَيْرَكُمْ ثُمَّ لَا يَكُونُوا أَمْثَالَكُمْ "اور اگر تم منہ موڑوگے تو تمہاری جگہ دوسری قوم پیدا کردے گا، پھر وہ تم جیسے نہیں ہوں گے" (محمد:38)۔

Read more...

فلسطین کے مسلمانوں کا قتل عام نواز شریف یہ وقت افسوس کے اظہار کا نہیں بلکہ افواج کولازمی حرکت میں لانے کا ہے

منگل اور بدھ کی درمیانی شب، 16 جولائی کو رات گئے نواز شریف کی جانب سے ایک بیان جاری کیا گیا جس میں غزہ، فلسطین کے مسلمانوں کے خلاف یہود کے ظلم و ستم کو قتل عام سے تشبیہ دی اور دنیا سے مطالبہ کیا کہ وہ یہود کی ننگی جارحیت کو روکیں۔ حزب التحریر نواز شریف سے سوال کرتی ہے کہ دنیا سے سوال کرنے سے پہلے وہ یہ بتائے کہ ایٹمی اسلحے اور مزائلوں سے مسلح دنیا کی ساتویں بڑی فوج کے کمانڈر ان چیف اور ایک مسلم حکمران ہونے کے ناطے تم نے یہود کی اس جارحیت اور فلسطینی مسلمانوں کے قتل عام کو روکنے کے لئے کیا عملی قدم اٹھایا؟ کیا تم نے اللہ سبحانہ و تعالٰی کا یہ فرمان نہیں پڑھا کہ، وَإِنِ اسْتَنْصَرُوكُمْ فِي الدِّينِ فَعَلَيْكُمُ النَّصْرُ "اگر دین کی وجہ سےتم سے کوئی مدد مانگے تو تم پر ان کی مدد واجب ہے" (الانفال :72)۔ تو راحیل-نواز حکومت تم نے اب تک افواج کو فلسطین کے مسلمانوں کو یہود کے ظلم اور قبضے سے آزادی دلانے کے لئے حرکت میں آنے کا حکم کیوں نہیں دیا؟
نواز شریف تم کس منہ سے یہ کہہ سکتے ہو کہ مسلم امت کی خاموشی اور غیر افادیت نے فلسطینی مسلمانوں کو غیر محفوظ اور یہود کو جارح بنا دیا ہے جبکہ تم اس مسلم امت کے سب سے طاقتور ملک کے حکمران ہونے کے باوجود اپنی افواج کو حرکت میں نہیں لاتے؟ مسلم امت خاموش نہیں ہے بلکہ اس کے حکمران مردہ لاشیں ہیں جو نہ سن سکتے ہیں اور نہ حرکت کرسکتے ہیں۔ فلسطین کے مسلمان امت مسلمہ کے حکمرانوں کو مدد کے لئے مسلسل پکار رہے ہیں اور پوری دنیا کے مسلمان اپنے حکمرانوں سے فلسطین کے مظلوم بھائیوں کو یہود کے ظلم اور قبضے سے نجات دلانے کے لئے افواج کو حرکت میں لانے کا مطالبہ کررہے ہیں ۔ تو اے راحیل-نواز حکومت! مسلم امت خاموش نہیں ہے بلکہ تم سمیت تمام مسلم حکمرانوں کے دل پتھر کے ہوچکے ہیں کہ جن کے دلوں پر اپنی مسلمان بہنوں، ماؤں اور بچوں کی چیخ و پکار کوئی اثر نہیں ڈالتی۔
اے مجرم حکومت! دنیا سے یہود کے ظلم و ستم کو روکنے کا مطالبہ کر کے تم امت کو بے وقوف نہیں بنا سکتے کہ تم نے اپنی ذمہ داری ادا کردی۔ پوری دنیا کے مسلمان یہ جان گئے ہیں کہ ان کے حکمران امریکہ کے حکم پر تو دنیا کے کسی بھی کونے میں اپنی افواج کو اقوام متحدہ کا جھنڈا تھما کر قربان کرنے کے لئے فوراً بھیج دیتے ہیں لیکن جب ان سے مسلمانوں کو کفار کے ظلم و ستم سے نجات دلانے کے لئے کہا جاتا ہے تو ان پر سکتہ طاری ہوجاتا ہے اور زمین سے چمٹ جاتے ہیں۔ يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا مَا لَكُمْ إِذَا قِيلَ لَكُمُ انْفِرُوا فِي سَبِيلِ اللَّهِ اثَّاقَلْتُمْ إِلَى الْأَرْضِ "اے لوگو جو ایمان لائے ہو! تمہیں کیا ہوگیا ہے کہ جب تم سے کہا گیا کہ اللہ کے راستے میں (جہاد کے لئے ) کوچ کرو تو تم بوجھل ہوکر زمین سے لگ گئے ؟ " (التوبہ:38)۔
راحیل-نواز حکومت ! تمھارا یہ بیان امت کو اب دھوکہ نہیں دے سکتا کیونکہ امت اب یہ جان چکی ہے کہ جمہوری حکمران ہو یا آمر، ان کا قبلہ، کعبہ نہیں بلکہ واشنگٹن ہے اوران کے دل اپنی امت کے ساتھ نہیں بلکہ کفار کے ساتھ دھڑکتے ہیں۔ اسی لیے پاکستان سمیت پوری دنیا کے مسلمانوں میں خلافت کے قیام کی چاہت بڑھتی جارہی ہے کیونکہ خلافت ہی وہ ریاست ہے جو مسلمانوں کو ان کے دشمنوں سے تحفظ فراہم کرتی ہے اور جس کے ذریعے امت اپنے دشمنوں سے لڑتی ہے۔ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا ، اِ نَّمَا الْإِمَامُ جُنَّةٌ، يُقَاتَلُ مِنْ وَرَائِهِ، وَيُتَّقَى بِهِ "بے شک امام ڈھال ہے ،جس کے پیچھے رہ کر لڑا جاتا ہے اور اسی کے ذریعے تحفظ حاصل کیا جاتا ہے "۔
شہزاد شیخ
ولایہ پاکستان میں حزب التحریر کے ڈپٹی ترجمان

 

Read more...

غزہ کے مسلمانوں کی حمائت میں حزب التحریر ولایہ پاکستان کے ملک بھر میں مظاہرے مسلم افواج لازمی فلسطین کو یہود کے قبضے سے آزادی دلائیں

مضان کے مہینے کے دوران جو کبھی مسلمانوں کے لئے فتوحات کا مہینہ ہوا کرتا تھا ، یہودی ریاست نے یہ ہمت کی ہے کہ وہ مسلمانوں کے مقدس خون کو غزہ، فلسطین میں بہائے۔ حزب التحریر ولایہ پاکستان ملک بھر میں مظاہرے کئے اور مسلمانوں کی افواج کو پکارا کہ وہ یہودی قبضے کا خاتمہ کریں۔ مظاہرین نے بینرز اور کتبے اٹھا رکھے تھے جن پر تحریر تھا کہ " اے پاک فوج! حرکت میں آؤ فلسطین کو آزاد کراؤ"، "صرف خلافت کا قیام ہی فلسطین سمیت دنیا بھر کے مسلمانوں کوظلم سے نجات دلائے گا"، "امت کی ڈھال خلافت خلافت"۔
حزب التحریر افواج پاکستان کو فلسطین کے مسلمانوں کی اس مضبوط پکار کی یاد دلاتی ہے جو رمضان سے قبل جاری کی گئی تھی، " کیا تمہارے اندر الاقصٰی سے والہانہ محبت نہیں، کیا تمہارے دل الاقصٰی میں سجدے کے شوق سے لبریز نہیں، کیا تمہارے دلوں میں الاقصٰی سے ملاقات کی تڑپ نہیں رہی ہے ؟ کیا تم رسول اللہﷺ کے اسراء کے مقام کے دیوانے نہیں ہو ، کیا تم اس مبارک سرزمین پر شہادت کے آرزومند نہیں ہو جہاں تمہارا خون صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم کے مبارک لہو سے یکجا ہو ؟ الاقصٰی تم سے یہ سوال کر رہی ہے ، عمر فاروق رضی اللہ عنہ کہاں ہے ۔۔۔ صلاح الدین کہاں ہے۔۔۔ مسلمانوں کا خلیفہ کہاں ہے ، کیا رسول اللہ ﷺ کا مقام اسراء تمہارے نزدیک ایسی بے وقعت ہے کہ تمہاری آنکھوں کے سامنے یہود اپنی نجاست سے اس کو روندتے رہیں ؟ یہ خلافت کے انہدام کی یاد میں تمہاری طرف الاقصٰی کی منادی ہے،خلافت کو قائم کرو اور مجھے آزاد کراؤ ،خلافت کو قائم کرو اور مجھے بچاؤ۔۔۔"
مسجد اقصٰی کی جانب سے اس پکار میں مزید کہا گیا ہے کہ " اے افواج پاکستان ۔۔۔ امریکہ تمہیں اپنے ہی بھائیوں کو قتل کرنے پر لگارہا ہے۔۔۔ امریکہ تمہیں تباہ کرنے کے درپے ہے۔۔۔ امریکہ ہی تمہارا دشمن ہے،اس کی غلامی سے اپنے آپ کو نکالو۔۔۔ اپنے درمیان موجود ایجنٹوں کو اٹھا کر باہر پھینک دو۔۔۔مسلمانوں کو یکجا کرو،اپنے جسم کے ٹکڑوں کو دوبارہ جوڑدو۔ تم، افغانستان ، ہند کے مسلمان ،وادی فرغانہ اور قفقاز ایک ہی امت ہو اور تم اسلام کی مدد اور اقامت دین پر قادر ہو۔۔۔ لہٰذا حزب التحریر کی تمہیں پکارتی ہے کہ خلافت کو قائم کرو اور پنی بہادر افواج کو بیت المقدس کی طرف گامزن کردو اور تم یہ شرف حاصل کرنے کے اہل ہو"۔

Read more...
Subscribe to this RSS feed

دیگر ویب سائٹس

مغرب

سائٹ سیکشنز

مسلم ممالک

مسلم ممالک