سوال اور جواب: 'سلطان متغلب'
بسم الله الرحمن الرحيم
سوال: بعض (سوشل میڈیا) کے صفحات پر کچھ اس قسم کے تبصر ے دیکھنے کو ملے (حزب التحریر نے خلافت قائم کرنے کے لیے ایک طریقہ "طلب نصرہ" مقرر کر رکھا ہے جس کی وہ پابند ہے اور اس کے علاوہ وہ کسی اور شرعی طریقے کو نہیں مانتی .....حالانکہ ایک اور طریقہ بھی موجود ہے جو کہ 'سلطان متغلب' (زبردستی اقتدار پر قبضہ کرنے والے) کا طریقہ ہے، یعنی وہ شخص جو قوت اور قتال سے ریاست قائم کرے.....کچھ لوگوں نے یہ بھی کہا ہے کہ حزب التحریر نے جماعتی تعصب کی وجہ سے البغدادی کے اعلان پر اعتراض کیا،حزب خلافت کو اس وقت تک شرعی نہیں سمجھتی جب تک وہ خود اس کو قائم نہ کرے.....) کیا اس قسم کے اعتراضات کا کافی شافی جواب دینے کی زحمت کریں گے؟ اللہ آپ کو بہترین جزا دے۔
جواب:
1۔ خلافت کے قیام کے لیے شرعی طریقہ حزب التحریر نے متعین نہیں کیا ہے بلکہ یہ طریقہ شرع نے خود مقرر کر دیا ہے۔ اسلام کی دعوت کی ابتداء سے لے کر ریاست کے قیام تک رسول اللہﷺ کی سیرت طیبہ اس کا منہ بولتا ثبوت ہے.....ریاست کے قیام سے پہلے رسول اللہﷺ نے ان اہل قوت وطاقت سے نصرہ طلب کی جو اپنے ارد گرد کے علاقوں کی صورت حال کے مطابق ریاست کے لوا زمات کے حامل تھے۔ اسی وجہ سے رسول اللہﷺ طاقتور قبائل کے پاس جاتے، ان کو اسلام کی دعوت دیتے اور ان سے نصرہ طلب کرتے جیسا کہ ثقیف، بنی عامر، بنی شیبان اور انصار مدینہ سے نصرہ طلب کی جبکہ چھوٹے قبائل کو صرف اسلام کی دعوت دینے پر اکتفا کیا.....تمام تر مشکلات اور مشقتوں کا سامنا کرتے ہوئے بھی اس کام کو جاری رکھا اور مشقت کے باوجود کسی کام کو باربار کرنا شرعاً اس کے فرض ہو نے کی دلیل ہے جیسا کہ اصول میں ہے.....یوں رسول اللہﷺ نے اہل قوت اور طاقت سے نصرہ طلب کرنے کو جاری رکھا۔ کسی قبیلے نے آپﷺ کے قدم مبارک لہو لہان کر دیے، کسی نے آپﷺ کو روکا اور کسی نے شرائط رکھیں۔ اس کے باوجود رسول اللہ ﷺ اللہ کی طرف سے وحی کی وجہ سے اس پر ثابت قدم رہے اور اس طریقے کو تبدیل کرکے کوئی اور طریقہ نہیں اپنایا۔ آپﷺ نے اپنے صحابہ کو اہل مکہ سے لڑنے کی اجازت نہیں دی یا ریاست قائم کرنے کی غرض سے کسی قبیلےسے لڑنےکا حکم نہیں دیا حالانکہ آپﷺ کے صحابہ زبردست بہادر اور جنگجو تھے اور اللہ کے علاوہ کسی سے نہیں ڈرتے تھے لیکن اس کے باوجود آپﷺ نے ان کو لڑنے کا حکم نہیں دیا بلکہ اہل قوت و طاقت سے نصرہ طلب کرنے کے کام کو ہی جاری رکھا یہاں تک کہ اللہ نے آپﷺ کو وہ انصار مہیا کردیے جنہوں نے بیعت عقبہ ثانی میں آپﷺ کو بیعت دی۔ اس سے پہلے مصعب رضی اللہ عنہ مدینہ منورہ کی اپنی اس مہم میں کامیاب ہوچکے تھے جس کی ذمہ داری رسول اللہﷺ نے ان کو سونپ دی تھی۔ اللہ سحا نہ وتعالیٰ کی جانب سے کچھ اہل قوت اور طاقت کو نصرت کی توفیق دینے کے ساتھ ساتھ آپ رضی اللہ عنہ نے اللہ کے اذن سے اسلام کو مدینہ کے گھر گھر میں داخل کیا اوراسلام کے لیے رائے عامہ ہموار کی۔ یوں یہ رائے عامہ اور انصار کی جانب سے بیعت باہم مل گئے، جس کی وجہ سے رسول اللہﷺ نے ایک صاف شفاف بیعت اور اہل مدینہ کی جانب سے رسول اللہﷺ کےپُر جوش استقبال سے مدینہ منورہ میں اسلامی ریاست قائم کر دی۔
ریاست قائم کرنے کا یہی وہ شرعی طریقہ ہے جس کی پیروی لازمی ہے کیونکہ افعال میں اصل شرع کی پابندی ہے۔ ایک مسلمان جب یہ چاہے کہ نماز کس طرح پڑھے تو اس کو چاہیے کہ نماز کے دلائل کو پڑھے، اگر جہاد کا ارادہ کرے تو جہاد کے دلائل کو پڑھے اور اگر ریاست قائم کرنے کا ارادہ کرے تو اس کے قیام کے دلائل رسول اللہﷺ کے افعال میں پڑھے۔ ریاست قائم کرنے کے دلائل صرف رسول اللہﷺ کی سیرت پر مبنی ہیں جس میں ان اہل قوت اور طاقت کو دعوت دینا شامل ہے جو اپنے ارد گر کی صورت حال کے لحاظ ریاست کے لوازمات کے حامل تھے ۔ ان کو اسلام کی دعوت دی اور ان سے ان کی رضا اور اختیار سے نصرت اور بیعت طلب کی کیونکہ ان کے ہاں اور ان کے علاقے میں عام بیداری سے پیدا ہو نے والی رائے عامہ پیدا کی جا چکی تھی.....
یوں خلافت قائم کرنے کا شرعی طریقہ اسلام میں واضح طور پر متعین ہے۔ اس سے یہ بھی واضح ہو گیا ہے کہ مذکورہ اعلان کرنے والوں نے رسول اللہﷺ کے اس طریقے کی پیروی نہیں کی۔
2۔ رہی بات 'سلطان متغلب' (زبردستی بننے والے حکمران ) کی جس کا ذکر فقہ کی بعض کتابوں میں ہے لیکن اس کا معنی سمجھنا ضروری ہے۔ صرف سلطان متغلب کا رٹہ لگانا کافی نہیں بلکہ یہ سمجھنا ضروری ہے کہ وہ کب اور کس طرح شرعی طور پر ہوتا ہے اور کب اور کس طرح غیر شرعی ہوتا ہے بلکہ امت پر وبال ہوتا ہے!
بے شک سلطان متغلب مسلمانوں کا خون بہانے اور قہر و جبر اور زبردستی سے ان پر مسلط ہونے کی وجہ سے گنہگار ہوتا ہے اور شرعی طریقے کی خلاف ورزی کرنے کی وجہ سے اس کی خلافت کا انعقاد ہی نہیں ہوتا..... تاہم بعض فقہاء یہ سمجھتے ہیں کہ سلطان متغلب کی حکومت اس وقت شرعی ہو سکتی ہے جب اس کے اندر کچھ شرائط پائی جائیں جن میں سے نمایاں یہ ہیں:
ا ۔ وہ ایسے ملک میں زبردستی حکمران بنے جس ملک کے اندر اپنے گردو پیش کے لحاظ سے ریاست کے لوازمات موجود ہوں، وہاں اس کی مستحکم حکومت قائم ہو اور وہاں خطے کے لحاظ سے داخلی اور خارجی طور پر امن و امان ہو ۔
ب ۔ اس ملک میں اسلام کو عدل اور احسان کے ساتھ نافذ کرے، لوگوں کے ساتھ حسن سلوک کرے، لوگ اس سے محبت کریں اور اس سے راضی ہو جائیں۔
ج ۔ اس ملک کے لوگ اپنی مرضی اور اختیار سے اس کو بیعت دیں، ان پر کوئی زبردستی اور جبر نہ کیا جائے۔ شرعی بیعت کی شرائط میں سے یہ بھی ہے کہ بیعت اس ملک کے لوگ دیں سلطان متغلب کا اپنا ٹولہ نہیں کیونکہ اس قسم کی شرعی بیعت ہی رسول اللہﷺ کی اقتدا ہے۔ رسول اللہﷺ نے سب سے پہلے مدینہ منورہ کے انصار سے ان کی رضامندی اور اختیار سے بیعت لی ، اپنے مہاجر صحابہ سےنہیں لی اور بیعت عقبہ ثانی اس کا منہ بولتا ثبوت ہے۔
یو ں سلطان متغلب گنہگار ہے اور اس کی حکمرانی بھی اس وقت تک شرعی نہیں جب تک اس کے اندر مندجہ بالا تین شرائط نہ پائی جائیں۔ جب یہ تین شرائط پائی جائیں تب ہی سلطان متغلب رضامندی اور اختیار سے بیعت دیے جانے کے لمحے سے شرعی حکمران بنیں گے۔ یہ ہے سلطان متغلب کی حقیقت کہ شاید ذہین لوگ یہ ذہن نشین کر لیں.....اب یہ بات بھی واضح ہے کہ مذکورہ اعلان کرنے والے لوگوں نے ان تین شرائط کو پورا نہیں کیا بلکہ اپنے آپ کو اور اپنے اعلان کو ناحق طریقے سے مسلط کر دیا۔
جیسا کہ پہلے گزر چکا ہے کہ انہوں نے صحیح شرعی طریقہ نہیں اپنایا حتی کہ سلطان متغلب کا طریقہ بھی اختیار نہیں کیا .....بلکہ اس کے برعکس خلافت کا اعلان کر بیٹھے۔ ان کے اندر وہ شرائط ہی موجود نہیں تھیں اس لیے ان کے اعلان کا شرعاً کوئی وزن اور قیمت نہیں بلکہ یہ ایسا لغو(بیہودہ) ہے جیسا کہ تھا ہی نہیں اور وہ بدستور ایک مسلح تنظیم ہیں۔
3 ۔ رہی یہ بات کہ حزب صرف اس خلافت کو شرعی سمجھتی ہے جس کو وہ خود قائم کرے گی، یہ بات مکڑی کے جال سے بھی کمزور ہے! یہ وہ بات ہے جو شیطان بعض ایسے چھوٹے دل والے اور تنگ نظر لوگوں کے دل میں ڈالتاہے جو بصارت اور بصیرت سے محروم ہیں.....حزب جو چاہتی ہے وہ یہ ہے کہ خلافت صاف شفاف اور غیر مشکوک طریقے سے قائم ہو۔ ہماری مثال "بچے کی ماں" کی ہے اس لیے ہمارا مسئلہ یہ ہے کہ یہ بچہ قتل یا بے راہ نہ ہو..... بلکہ بچہ صحت مند، توانا ہو، اس کی اچھی دیکھ بھال ہو اور وہ توجہ کا مرکز بنے۔ مسئلہ یہ نہیں کہ اس بچے کی پرورش کون کرے.....ہم چاہتے ہیں کہ خلافت شایان شان طریقے سے کما حقہ قائم ہو۔ اس کی اتھارٹی عظیم الشان ہو۔ وہ داخلی طور پر اسلام کو شاندار طریقے سے نافذ کرے اور دعوت اور جہاد کے ذریعے اس کو دنیا کے سامنے پیش کرے، تب ہی یہ وہ خلافت راشدہ علی منھاج النبوۃ ہوگی جس کا اللہ نے وعدہ فرمایا ہے اور رسول اللہﷺ نے بشارت دی ہے اور وہ جابرانہ حکومتوں کو ختم کر دے گی.....جو بھی اس کو قائم کرے گا اس کو قائم کرنے کا حق ادا کرے گا خواہ وہ لوگ ہم ہوں یا کوئی اور جن کی بات سنی جائے گی اور ان کی اطاعت کی جائے گی، تب اللہ کے اذن سے زمین اپنے خزانے اُگل دے گی اور آسمان اپنے خیر کو اتارے گا۔ اس دن اہل اسلام عزت مند ہوں گے اور اہل کفر ذلیل ، اور اللہ ہی غالب اور حکمت والا ہے.....
ہم خلافت کے بارے میں یہی چاہتے ہیں کہ وہ اس طرح مبارک اور پاک صاف قائم ہو جیسا کہ رسول نے اس کو قائم کیا تھا اور آپﷺ کے بعد آپ کے خلفائے راشدین رضوان اللہ علیھم نے آپﷺ کی پیروی کی تھی .....ایسی خلافت جس سے اللہ اور اس کے رسول ﷺ اور مؤمنین راضی ہوں ، جس سے مسلمانوں کے دل سرور سے لبریز ہوں اور ان کے سر فخر سے بلند ہوں .....نہ کہ برائے نام کسی مشکوک خلافت کا اعلان ہو اور وہ بھی مسلمانوں کے خون سے آلودہ ہو۔
یقینا اس بات سے ہمیں تکلیف پہنچی کہ خلافت ایسی ہوتی ہے جس سے دنیا کانپ اٹھتی ہے کفار اور استعماریوں پر لرزہ طاری ہو جاتا ہے لیکن اس واقعے سے ایسا کچھ بھی نہیں ہوا ۔ اس سے خلافت کی شان میں گستاخی ہوئی بلکہ وہ بے وقعت چیز لگنے لگی۔ اس اعلان پر تبصرہ کرتے ہوئے امریکہ کہتا ہے کہ "یہ کو ئی بڑی بات نہیں" جبکہ خلافت کے اعلان پر تو اس کو خون کے آنسو رونا چا ہیے تھا .....اس بات نے بھی ہمیں دکھ پہنچایا کہ وہ لوگ جن کی نظروں میں خلافت ایک عظیم الشان چیز تھی ایک معمولی چیز لگنے لگی اور اس اعلان کو انہوں نے ایک فضول واویلا سمجھا.....
حزب اسلام کا ایک امانت دار پہرہ دار ہے اور یہ اللہ کے معاملے میں کسی کو اہمیت نہیں دیتی۔ یہ ہر اچھے کام کرنے والے سے کہتی ہے کہ تم نے اچھا کیا اور برے کام کرنے والے سے کہتی ہے کہ تم نے برا کیا۔ یہ اس کے پیچھے کوئی جماعتی مفاد نہیں ڈھونڈتی نہ ہی فانی دنیا کی کسی متاع کی طلبگار ہے بلکہ ہم تو اس دنیا وما فیھا کو ایسا ہی دیکھتے ہیں جیسا عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کی اس حدیث میں رسول اللہﷺ نے فرمایا جس کو ترمذی نے روایت کی ہے کہ: «مَا لِي وَلِلدُّنْيَا، مَا أَنَا فِي الدُّنْيَا إِلَّا كَرَاكِبٍ اسْتَظَلَّ تَحْتَ شَجَرَةٍ ثُمَّ رَاحَ وَتَرَكَهَا» "میرا دنیا سے کیا لینا دینا، میں دنیا میں بس ایسا ہی ہو ں جیسا کہ ایک سوار ایک درخت کے سائے تلے سستاتا ہے پھر وہاں سے چل پڑتا ہے" حزب کے نزدیک دنیا وہی تھوڑا سا لمحہ ہے، جتنی دیر میں وہ اس درخت کے سائے میں بیٹھتی ہے جب وہ اس درخت کے نیچے ٹھراتی ہے، اس لمحے کو وہ خلافت کے کماحقہ قیام کے ذریعے شرعی احکامات کی تنفیذ کے لئے تندہی سے صالح اور صادق عمل میں مگن رہتی ہے جو صرف اللہ القوی العزیز کے اذن سے ہوگا۔
4 ۔ آخر میں حزب التحریر جس نے ساٹھ(60) سال سے زیادہ عرصہ رسول اللہﷺ کے طریقے پر خلافت کے قیام کے لیے جدوجہد میں گزارا ہے اور اس کی راہ میں سالہا سال ظالموں کے عقوبت خانوں میں کاٹے ہیں، تعاقب اور ظلم وستم کا سامنا کیا ہے، طاغوت کی طرف سے دیے جانے والا عذاب برداشت کیا ہے جس میں حزب کے بہت سارے شباب نے جام شہادت نوش کیا اور بہت سارے اذیتوں سے دوچار ہوئے ..... اب بھی حزب شدید ترین تشدد کے باوجود ثابت قدمی سے حق پر قائم اور نبوی طریقے پر گامزن ہے.....کیا کوئی ایسی جماعت جس کا یہ حال ہے آپ کا کیا خیال ہے کہ کسی جماعت کی جانب سے کما حقہ خلافت قائم کرنے پر اعتراض کرے گی، خواہ اس کو حزب قائم کرے یا کوئی اور .....؟ حزب کبھی اعتراض نہیں کرے گی بلکہ سجدہ شکر بجا لائے گی..... لیکن ساتھ ہی حزب خلافت کے نام کو ناحق استعمال کرنے والوں، اس کو مشکوک بنانے والوں اور اس کی شان میں گستاخی کرنے والوں کے خلاف مورچہ زن بھی ہے۔ اللہ کے اذن سے حزب ہمیشہ خلافت کے خلاف تمام سا زش کرنے والوں،اس کے بارے میں شکوک و شبہات پھلاانے والوں اور اس کی شان میں گستاخی کرنے والوں کے سامنے مضبوط چٹان ثابت ہو گی اور ان شاء اللہ خلافت ایسے لوگوں کے ہاتھوں قائم ہو گی جنہیں تجارت اور لین دین اللہ کے ذکر سے غافل نہیں کرتا ۔ وہ ایسے جوان مرد ہوں گے جو اس کے حقدار اور اہل ہیں،یوں خلافت کی صبح ایک بار پرں طلوع ہوگی ﴿وَيَوْمَئِذٍ يَفْرَحُ الْمُؤْمِنُونَ *بِنَصْرِ اللَّهِ يَنْصُرُ مَنْ يَشَاءُ وَهُوَ الْعَزِيزُ الرَّحِيمُ﴾ "اور اُس دن مؤمنین اللہ کی مدد سے خوش ہوں گے وہ جس کی چاہتا ہے مدد کرتا ہے اور وہی غالب اور رحم کرنے والا ہے"