الأحد، 22 جمادى الأولى 1446| 2024/11/24
Saat: (M.M.T)
Menu
القائمة الرئيسية
القائمة الرئيسية

بلیک واٹر اور حکمرانوں کی ملی بھگت سے لاہور پھر خون میں نہا گیا! لاہور میں دھماکے کروا کر امریکہ ایک نیا آپریشن شروع کروانا چاہتا ہے

حزب التحریر علی ہجویری (رح) کے مزار سے ملحقہ مسجد میں ہونے والے بم دھماکہ کی شدید الفاظ میں مذمت کرتی ہے جس میں چالیس سے زائد مسلمان جاں بحق اور 200 کے لگ بھگ زخمی ہوئے۔ امریکہ اور اس کی پرائیویٹ فوج بلیک واٹر اور ڈائن کورپ نے ایک بار پھر قتل عام کا بازار گرم کر دیا۔ کل ہی پنجاب حکومت نے عسکریت پسندوں کے خلاف آپریشن کرنے کے لئے اعلیٰ سطحی اجلاس منعقد کیا تھا اور آپریشن کو شروع کرنے کے لئے کل کے دھماکے سے بہتر جواز حکومت کو مہیا نہیں کیا جاسکتا۔ عوام جان چکے ہیں کہ مساجد، اسلامی یونیورسٹیوں،اسکولوں اور بازاروں کا نشانہ بننا اور بلیک واٹر اور دیگر امریکی دہشت گرد تنظیموں کے دفاتر کا محفوظ رہنا اتفاقاً نہیں ہے بلکہ یہ اس بات کا واضح ثبوت ہے کہ امریکہ ہی ان کاروائیوں کے پیچھے ہے۔ وہ مسلمانوں کا قتل عام کر کے فوجی آپریشنوں کے لئے رائے عامہ ہموار کرتاہے۔ سوات، جنوبی وزیرستان اور اورکزئی ایجنسی میں آپریشن کے نام پر کئے جانے والے قتل عام سے قبل ہر دفعہ شہری علاقوں میں بم دھماکے کروائے جاتے تھے اور پھر اس کے نتیجے میں عوامی غم و غصے کی لہر کو فوجی آپریشن کے حق میں استعمال کیا جاتا تھا۔ امریکہ اور اس کے ایجنٹ جان لیں کہ اب عوام اس دھوکے میں آنے والے نہیں۔ یہی وجہ ہے کہ کل دھماکوں کے بعد عوام نے حکومت اور اس کی ایجنٹوں کے خلاف شدید مظاہرہ کیا اور اس قتل عام کا ذمہ دار حکومت کو ٹھہرایا۔ مزید برآں اس دھماکہ کے ذریعے امریکہ دینی ذہن رکھنے والوں کو تقسیم کرنا چاہتا ہے تاکہ مسلمان مسلکی انتشار کا شکار ہو کر امریکہ کو خطے سے نکالنے کے لئے متحد نہ ہو سکیں۔

یہ وہی پالیسی ہے جو اس نے عراق میں اپنائی تھی۔ حزب التحریر تمام مکاتب فکر کے علمائ سے اپیل کرتی ہے کہ وہ اس امریکی منصوبے کو ناکام بنا دیں اور یک آواز ہو کر امریکہ کو خطے سے نکالنے کا اعلان کریں کیونکہ یہ امریکہ ہی ہے جس کے خطے میں آنے کے بعد پاکستان جہنم کا نظارہ پیش کر رہا ہے۔ ہم اہل طاقت میں موجود مخلص عناصر سے بھی مطالبہ کرتے ہیں کہ وہ اپنی بندوقوں کا رخ اپنے ہی بھائیوں کی طرف کرنے کا امریکی حکم مسترد کر دیں اور اپنی تمام تر طاقت امریکہ کو خطے سے باہر نکالنے کے لئے استعمال کریں۔ صرف اسی صورت میں پاکستان میں لگی اس فتنے کی آگ کو بجھایا جاسکتا ہے۔

Read more...

حزب التحریر ۱۸ جولائی ۲۰۱۰کو بیروت میں عالمی میڈیا کانفرنس منعقد کرے گی

حزب التحریر ۱۸ جولائی ۲۰۱۰ کو بیروت،لبنان میں عالمی میڈیا کانفرنس منعقد کررہی ہے۔ یہ کانفرنس یوم سقوط خلافت ، 28 رجب 1342 ھ ﴿بمطابق 3 مارچ 1924ئ﴾ کی یاد میں منعقد کی جارہی ہے جسے گزرے 89 تکلیف دہ سال ہو چکے ہیں۔ کانفرنس کا عنوان ہے: ''دنیاکے اہم ترین بین الاقوامی اور علاقائی مسائل کے متعلق حزب التحریرکا نقطۂ نظر‘‘۔ اس بات کا اعلان پاکستان میں حزب التحریر کے نائب ترجمان شہزاد شیخ نے کراچی پریس کلب میں ایک پریس کانفرنس کے دوران کیا۔انھوں نے کہا کہ1924 میں خلافت کے انہدام کے بعد سے مسلمانوں کی حالت ناگفتہ بہ ہو چکی ہے اوران کے مسائل میں کئی گنا اضافہ ہو چکا ہے ۔

شہزاد شیخ نے کہا کہ حزب التحریر اس وقت چالیس سے زائد مسلم ممالک میں خلافت کے انعقاد کے لئے متحرک ہے۔ اس سے قبل حزب التحریر نے ۲۰۰۷ میں انڈونیشیا میں دنیا کے دسویں بڑے سٹیڈیم میں خلافت کانفرنس منعقد کی جس میں لگ بھگ ایک لاکھ افراد نے شرکت کی۔ ۲۰۰۹ میں انڈونیشیائ میں عالمی علمائ کانفرنس منعقد کی جس میں ہزاروں علمائ نے خلافت کے قیام کے لئے حزب التحریر کے ساتھ یکجہتی کا اعلان کیا۔ مزید برآں ۲۰۰۹ میں جب سرمایہ دارانہ نظام کی وجہ سے پوری دنیا معاشی بحران کا شکار ہوئی تو حزب التحریر نے سوڈان میں عالمی اقتصادی کانفرنس منعقد کی جس میں اس بحران کی وجوہات پیش کرنے کے ساتھ ساتھ حزب نے اسلامی اقتصادی نظام کو متبادل کے طور پر پوری دنیا کے سامنے پیش کیا۔

حزب کے ڈپٹی ترجمان نے کہا کہ اس سال 28رجب ، یوم سقوط خلافت کے موقع پرحزب التحریر نے پوری دنیا میں پائے جانے والے مسلمانوں کے اہم سیاسی مسائل اور تنازعات پر عالمی میڈیا کانفرنس منعقد کرنے کا فیصلہ کیا ہے، تاکہ امت کے سامنے ان کے تمام سیاسی مسائل کا عملی حل پیش کیا جائے۔ اس کانفرنس کا مقصد امت کو باور کرانا ہے کہ ان کے مسائل کبھی بھی امریکہ، برطانیہ اور فرانس جیسے استعماری ممالک اور زرداری،حسنی مبارک اور شاہ عبد اللہ جیسے غدار مسلم حکمران حل نہیں کریں گے بلکہ انہیں خلافت قائم کرتے ہوئے اپنے مستقبل کو خود اپنے ہاتھ میں لینا ہوگا اور ان مسائل کو اسلامی احکامات کی روشنی میں حل کرنا ہوگا۔ اس کانفرنس کے ذریعے شرکائ کو مستقبل قریب میں قائم ہوا چاہتی سپر پاور یعنی خلافت کی داخلہ اور خارجہ پالیسی سمجھنے کا موقع ملے گا۔ انہوں نے کہا کہ حزب التحریر کی شکل میں امت میں پائے جانے والی حقیقی قیادت خلافت کے قیام کے ذریعے امت کے امور کی دیکھ بھال کرنے کے لئے مکمل طور پر تیار ہے اور بیروت میں ہونے والی کانفرنس اس حقیقت کو پوری دنیا پر آشکار کریگی۔ انہوں نے کہا کہ اس کانفرنس میں دنیا بھر سے مخلص سیاستدان اور میڈیا کی شخصیات کی بڑی تعداد شریک ہوگی۔ کانفرنس میں فلسطین، عراق، سوڈان، افغانستان، کشمیر، انڈونیشیائ کی علیحدگی کی تحریکوں، قبرص، وسطی ایشیائ، مشرقی ترکستان ﴿سنکیانگ﴾ کے مسائل سمیت مغربی دنیا میں مسلمانوں کے مسائل پر مقالے پڑھے جائیں گے۔ نیز دنیا کو درپیش عالمی مسائل جیسے بین الاقوامی معاشی بحران اور ایٹمی بحران پر بھی سیر حاصل بحث کی جائیگی۔ یہ کانفرنس بروز اتوار، 6 شعبان 1431ھ، بمطابق 18جولائی 2010ئ بمقام: برسٹل کانفرنس ہال، لا برسٹل ہوٹل کنونشن سنٹر ورڈن، بیروت، لبنان میں منعقد کی جائیگی۔

حزب التحریر کے ڈپٹی ترجمان شہزاد شیخ نے کہا کہ ہم میڈیا سے مطالبہ کرتے ہیںکہ امت کو درپیش سنگین مسائل اور اس کے حل پر ہونے والی اس اہم بین الاقوامی کانفرنس کو بھر پور کوریج دے اور اس کانفرنس میں پیش کیے جانے والے حل کو لوگوں تک پہنچانے میں اپنا کردار ادا کرے۔

اس کانفرنس کے حوالے سے مزید معلومات حاصل کرنے کے لیے حزب التحریر کے مرکزی میڈیا آفس سے فون،فیکس یا ای میل کے ذریعے رابطہ کیا جاسکتاہے۔


فون /فیکس نمبر:009611307594
ای میل:This e-mail address is being protected from spambots. You need JavaScript enabled to view it.

ویب سائٹ: www.hizb-ut-tahrir.info

 

Read more...

یوم ِ سقوطِ خلافت - 28 رجب کا پیغام خلافت تمہاری پہنچ میں ہے مسلمانو، اب وقت تمہارا ہے!

 

اس سال 28 رجب پر خلافت کے انہدام اور دنیا سے کتاب اللہ اور سنتِ رسول ﷺ کے مطابق حکمرانی کو ختم ہوئے 89 اسلامی ہجری سال بیت جائیں گے۔ جس کے بعد سے مسلمانوں کی حالت یہ ہے کہ ان کے مسائل میں کئی گنا اضافہ ہو چکا ہے اور یہ مسائل گھمبیر سے گھمبیر تر ہو چکے ہیں۔

 

ایک وہ دور تھا جب مسلمانوں کے دشمن مسلم افواج کا سامنا کرنے کے خیال سے بھی کانپتے تھے۔ اس وقت مسلم افواج کی قیادت بہادر اور با وقار خلیفہ کے ہاتھ میں ہوا کرتی تھی۔ لیکن آج انہی دشمنوں میں یہ جرأت پیدا ہو چکی ہے کہ وہ مسلمانوں کی حرمتوں کو پامال کر رہے ہیں اور رسول اللہ ﷺ کی شان میں دیدہ دلیری سے لگاتار گستاخیاں کر رہے ہیں۔ کیونکہ وہ جانتے ہیں کہ مسلمانوں کے موجودہ بدبخت حکمران ان کے مقابلے کیلئے ایک انگلی بھی نہیں اٹھائیں گے، اگرچہ ان حکمرانوں کے ہاتھ میں دنیا کی سب سے بڑی اُمت کی باگ ڈور ہے ،وہ امت جو وسائل کے لحاظ سے دنیا میں سر فہرست ہے، جس کے پاس مجموعی طور پر دنیا کی سب سے بڑی فوج ہے، اور اسی اُمت کے ملکِ پاکستان کے پاس ایٹمی ہتھیار بھی ہیں۔ اور حد تو یہ ہے کہ وہ بزدل اور حقیر یہودی جو سینکڑوں سال ذمی کی حیثیت سے خلافت کے ماتحت زندگی بسر کرتے رہے، آج مسلمانوں کے خلاف سفاکی اور کھلی جارحیت کی تمام حدیں عبور کر چکے ہیں۔

 

اور بجائے یہ کہ ایک بہادر خلیفہ مقبوضہ مسلم علاقوں کو آزاد کروانے اور نئے علاقوں کو اسلام کیلئے فتح کرنے کے لیے مسلمانوں کی قیادت کرتا، آج صورتِ حال یہ ہے کہ وہ بزدل امریکی، جو قلیل اور ناقص اسلحہ سے لیس مسلمانوں کے چھوٹے چھوٹے گروہوں کا سامنے کرنے سے کتراتے ہیں، پاکستان کی مسلم افواج کو حکم دے رہے ہیں کہ وہ افغانستان پر امریکی قبضے کی صلیبی جنگ پاکستان کے قبائلی علاقوں میں لڑیں، اور واضح سچ کو چھپانے کے لیے بار بار یہ جھوٹ بول رہے ہیں: "یہ تمہاری جنگ ہے"، "یہ تمہاری جنگ ہے"۔

 

ایک وقت تھا جب اسلامی حکمرانی کے نتیجے میں مضبوط معیشت نے جنم لیا جس کی بدولت پوری دنیا مسلمان علاقوں کی خوشحالی اور دولت پر رشک کرتی تھی۔ انہی میں سے ایک برصغیر کا علاقہ تھا، جس پر مکار انگریزوں نے اپنی گندی نظریں جما لیں کہ وہ اِس نادر ہیرے کو اپنے گرتے ہوئے تاج کیلئے حاصل کرلیں۔ لیکن اب اسلام کی حکمرانی کہیں بھی موجود نہیں، بلکہ اس کی جگہ سرمایہ دارانہ نظام لے چکا ہے، ایک ایسا نظام جسے لالچ اور حرص کے خمیر میں گوندھا گیا ہے اور جس نے دولت کو معاشرے کے ایک محدود طبقے میں جمع کر دیا ہے۔ اس نظام کی عمارت کھوکھلی ہو کر منہدم ہونے کے قریب ہے اور اس امر نے پوری دنیا کومعاشی تباہی کے دھانے پر پہنچا دیا ہے۔ افسوس کہ اب وہ خلافت موجود نہیں، جو افریقہ سے جب زکوٰة اکٹھی کرتی تھی تو وہاں زکوٰة لینے کے لیے کوئی ضرورت مند نہیں ملتا تھا۔ جبکہ خلافت کی عدم موجودگی میں آج افریقہ سرمایہ دارانہ نظام کے پنجے تلے قحط سالی اور غربت سے دوچار ہے۔ اور وہ خلافت اب موجود نہیں ہے جس نے قحط سالی کے شکار آئر لینڈ میں عیسائیوں کیلئے خوراک سے لدے بحری جہاز بھجوائے تھے، جبکہ خلافت کی عدم موجودگی میں آج خود مسلمانوں کی یہ حالت ہے کہ کئی دریا اور کثیر زرخیز زرعی زمینوں کے مالک ہونے کے باوجود وہ اپنا پیٹ بھرنے سے عاجز ہیں۔

 

1924ء میں کفار نے عرب و عجم میں موجود اپنے ایجنٹوں کی مدد سے خلافت کو تباہ کیا، کیونکہ وہ جانتے تھے کہ خلافت ہی ہم مسلمانوں کی طاقت کا منبع ہے۔ کفار آج بھی اس حقیقت سے آگاہ ہیں۔ 1924ء میں خلافت کے انہدام کے بعد برطانیہ کے سیکرٹری خارجہ لارڈ کرزن نے کہا تھا: "معاملہ یہ ہے کہ ترکی تباہ ہو چکا ہے اور اب یہ کبھی کھڑا نہیں ہو سکے گا کیونکہ ہم نے اسکی روحانی طاقت تباہ کر دی ہے، یعنی خلافت اور اسلام"۔ اورحال ہی میں 14مئی 2010 کو ریٹائر ہونے والے برطانوی فوج کے سربراہ، جنرل رِچرڈ ڈینیٹ Richard Dannattنے بیان دیا ہے کہ، "اگر ہم اس اسلامی ایجنڈے کی مخالفت نہ کریں اور جنوبی افغانستان یا افغانستان یا پھر جنوبی ایشیاء میں اس کا سامنا نہ کریں، تو بے شک اس کا اثر بڑھے گا، یہ اثرکافی زیادہ بڑھ سکتا ہے، اور یہ ایک اہم نقطہ ہے، ہم دیکھ رہے ہیں کہ یہ جنوبی ایشیاء سے بڑھتا ہوا مشرقِ وسطیٰ، شمالی افریقہ تک اور چودھویں، پندھرویں صدی کی اسلامی خلافت کے عروج سے جا ملے گا۔"

 

اے مسلمانو! 89 سال بیت چکے ہیں، اور اس دوران تمہارے ساتھ، تمہارے اردگرد، تمہارے علاقوں کے اندر اور باہر جو کچھ ہوا، تمہیں اور تمہارے دشمنوں کو اُس خلیفہ کی یاد دلاتا ہے جو تمہاری ڈھال اور تمہارا محافظ تھا۔

 

اے مسلمانانِ پاکستان!

 

جان لو کہ خلافت کا سورج اب افق پر آن پہنچاہے اور اللہ رب العالمین کے اذن سے، انسانوں کے بنائے ہوئے قوانین کے شرسے ڈسی ہوئی یہ دنیا بہت جلد اسلام کی راحت محسوس کرے گی۔ حزب التحریر اپنی جد و جہد کے آخری مراحل میں ہے اور وہ رسول اللہ ﷺ کے نقشِ قدم پرچلتے ہوئے اہلِ قوت میں سے مخلص لوگوں سے نُصْرَہ طلب کر رہی ہے تاکہ اسلام کو ایک ریاست اور حکمرانی کی شکل میں نافذ کر سکے۔ حزب التحریر اس وقت چالیس سے زائد ممالک میں متحرک ہے، اور حزب 2007 ء میں انڈونیشیا میں خلافت کے انہدام کے بعد اس موضوع پر سب سے بڑی کانفرنس منعقد کر چکی ہے اور 2009ء میں پوری مسلم دنیا سے ہزاروں علماء کو اس مشن کے سلسلے میں اکٹھا کرنے کے بعد اب مسلم دنیا کے مخلص سیاستدانوں اور میڈیا کے لوگوں کو، 18 جولائی 2010 کو، بیروت (بلادالشام) میں اکٹھا کر رہی ہے جہاں وہ مسلمانوں کے چیدہ چیدہ مسائل جیسا کہ فلسطین، کشمیر اور عالمی اقتصادی بحران کے متعلق، آنے والی خلافت کی پالیسی ان کے سامنے رکھے گی۔

 

اے مسلمانانِ پاکستان!

 

جان لو کہ خلافت اور اسلام کی حکمرانی ہمارے رب کی طرف سے ہمارے لیے فقط نعمت ہی نہیں بلکہ اِس کا قیام ہم پر فرض ہے اور اِس کے متعلق روزِ قیامت ہم سے پوچھ ہوگی۔ اللہ سبحانہ و تعالیٰ نے مسلمانوں کو صرف اور صرف اسلام کے ذریعے حکمرانی کرنے کا حکم دیا ہے، ارشاد ہے:

 

فَاحْكُمْ بَيْنَهُمْ بِمَا أَنزَلَ اللَّهُ وَلاَ تَتَّبِعْ أَهْوَاءَهُمْ عَمَّا جَاءَكَ مِنْ الْحَقِّ

(المائدہ:48)

"پس ان کے درمیان اللہ تعالیٰ کے نازل کردہ احکامات کے ذریعے حکمرانی کریں، اور جو حق آپ کے پاس آیا ہے، اس کے مقابلے میں ہرگز ان کی خواہشات کی پیروی نہ کیجئے گا۔"

 

اور رسول اللہ ﷺ نے ایک خلیفہ کی بیعت کو ہم پر فرض کیا، اور خلیفہ کی بیعت کی موجودگی کے بغیر موت کو سب سے بُری موت، یعنی جاہلیت کی موت قرار دیا، یعنی اسلام سے قبل جیسی موت۔ آپ ﷺ نے ارشاد فرمایا:

 

مَنْ مَاتَ وَلَيْسَ فِي عُنُقِهِ بَيْعَةٌ مَاتَ مِيتَةً جَاهِلِيَّةً

"اور جو کوئی اس حال میں مرا کہ اس کی گردن میں بیعت (کا طوق) نہ ہو تو وہ جاہلیت کی موت مرا۔"

(مسلم)

اے مسلمانانِ پاکستان!

 

اور یہ بھی جان لیجئے کہ خلافت نہ صرف فرض ہے بلکہ اللہ سبحانہ تعالیٰ نے مومنین سے وعدہ کیا ہے کہ وہ انہیں موجودہ حکمرانوں کی جگہ حکمرانی عطا کرے گا اور رسول اللہ ﷺ نے خلافت کے قیام کے ذریعے ظلم کے خاتمے کی خوشخبری بھی دی ہے، ارشادِ باری تعالیٰ ہے:

 

وَعَدَ اللَّهُ الَّذِينَ آمَنُوا مِنْكُمْ وَعَمِلُوا الصَّالِحَاتِ لَيَسْتَخْلِفَنَّهُم فِي الأَرْضِ كَمَا اسْتَخْلَفَ الَّذِينَ مِنْ قَبْلِهِمْ

"اللہ تم میں سے اُن لوگوں سے وعدہ فرما چکا ہے جو ایمان لائے ہیں اورانہوں نے نیک عمل کیے ہیں، کہ وہ انہیں ضرور زمین میں اِن حکمرانوں کی بجائے حکمران بنائے گا جیسے کہ اُن مومنین کوحکمران بنایا جوان سے پہلے تھے"

(النور:55)

اور رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا:

 

ثُمَّ تَكُونُ مُلْكًا جَبْرِيَّةً فَتَكُونُ مَا شَاءَ اللَّهُ أَنْ تَكُونَ ثُمَّ يَرْفَعُهَا إِذَا شَاءَ أَنْ يَرْفَعَهَا ثُمَّ تَكُونُ خِلَافَةً عَلَى مِنْهَاجِ النُّبُوَّةِ ثُمَّ سَكَتَ

"پھر جابرانہ حکومت کا دور ہو گا جو (اس وقت تک) رہے گا جب تک اللہ چاہے گا، پھر جب اللہ اسے ختم کرنا چاہے گا تو اسے ختم کر دے گا۔ پھر نبوت کے نقشِ قدم پر خلافت قائم ہو گی۔ پھر آپ ﷺ خاموش ہوگئے۔"

(مسند احمد)

اے مسلمانانِ پاکستان!

 

اِس سال 28 رجب یومِ سقوطِ خلافت کے موقع پر اللہ سبحانہ تعالیٰ کے فضل و کرم سے خلافت کا قیام بہت قریب پہنچ چکا ہے، تو پھر جلدی کریں اور رسول اللہ ﷺ کے نقشِ قدم پر خلافت کے دوبارہ قیام کی جدوجہد میں حزب التحریر میں موجود اپنے بھائیوں اور بہنوں کے شانہ بشانہ کھڑے ہو جائیں۔ آگے بڑھیں اور مسجدوں، بازاروں، اپنے گھروں اور محلوں میں لوگوں کو اکٹھا کریں اور خلافت کے دوبارہ قیام کیلئے ایک بھرپور مہم چلائیں۔ اور پاکستان کی مسلح افواج میں موجود اپنے باپ، بھائیوں، بیٹوں، رشتے داروں اور شوہروں کو اِس بات پر آمادہ کریں کہ وہ اللہ سبحانہ تعالیٰ کی طرف سے عائد کردہ اس فرض کو پورا کرتے ہوئے خلافت کے دوبارہ قیام کے لیے حزب التحریر کو مدد و نصرت فراہم کریں، جو ظلم کی حکمرانی کا خاتمہ کرے گی اور تمام تر انسانیت کے لیے امن، انصاف اور خوشحالی کے ایک نئے دور کا آغاز کرے گی۔

Read more...

امریکی حکم پر شمالی وزیرستان میں ممکنہ فوجی آپریشن کے خلاف حزب التحریر کا مظاہرہ

حزب التحریر نے شمالی وزیرستان میں شروع کیے جانے والے ممکنہ فوجی آپریشن کے خلاف مظاہرہ کیا۔ مظاہرین نے بینر اور پلے کارڈ اٹھا رکھے تھے جن پر تحریر تھا ''اے پاک فوج! شمالی وزیرستان آپریشن کا انکار کرو امریکہ کے تسلط کو مسمار کرو ‘‘۔ مقررین نے مظاہرین سے خطاب کرتے ہوئے مطالبہ کیا کہ قبائلی علاقوں میں جاری فوجی آپریشن فی الفور بند کیے جائیں اور افواج پاکستان کو قبائلی علاقوں میں مجاہدین کے خاتمے کے بجائے خطے سے امریکی تسلط کوختم کرنے کا مشن سونپا جائے۔ انہوں نے کہا کہ ان فوجی آپریشنوںکا مقصد صرف اور صرف افغانستان میں یقینی امریکی شکست کو فتح میں بدلنے کی ناکام کوشش ہے۔ انہوں نے کہا کہ ملک میں شروع ہونے والی حالیہ دہشت گردی کی لہر دراصل اسی آزمودہ فارمولے کا نتیجہ ہے جس کے تحت کسی بھی نئے فوجی آپریشن سے قبل عوام کی رائے کو آپریشن کے حق میں ہموار کرنے کے لیے اہم فوجی اور شہری علاقوں کو دہشت گردی کا نشانہ بنایا جاتا ہے۔ انہوں نے کہا کہ کیا جامعہ حفصہ، باجوڑ،سوات، جنوبی وزیرستان اور اورکزئی ایجنسی میں آپریشن اور معصوم عوام کے قتل عام کے بعد بھی کوئی اس امریکی جنگ کو اپنی جنگ کہہ سکتا ہے؟ کیا اب بھی فوج میں موجود مخلص عناصر ہاتھ پر ہاتھ دھرے بیٹھے رہیں گے؟


انہوں نے اہل قوت سے مطالبہ کیا کہ وہ جلد از جلدحزب التحریر کو خلافت کے قیام کے لیے مددونصرت فراہم کریں تاکہ آنے والا خلیفہ مسلمانوں کے خلاف مسلمانوں کی فوج کا استعمال ختم کرے اور پاک افواج کو خطے میں موجود امریکی تسلط کو گرانے کے لیے استعمال کرے۔ آخر میں مظاہرین خلافت کے قیام کے حق میں نعرے لگاتے ہوئے پر امن طور پر منتشر ہو گئے۔

 

تصویریں

 

 

Read more...

امریکی صلیبی جنگ لڑنے کے لئے عوام کی چمڑی سے دمڑی نچوڑی جا رہی ہے

گیلانی - زرداری حکومت نے امریکی تلوے چاٹنے کا نیا ریکارڈ قائم کر دیا ہے۔ حکومت نے اپنے آقا امریکہ کی معیشت کو بچانے کیلئے اپنے ہی لوگوں پر ٹیکس بڑھا کر اور کھانے پینے کی اشیائ پر سبسڈی گھٹا کر امریکی صلیبی جنگ کے لئے پیسے بٹورنے کا نیا منصوبہ بنا لیا ہے۔ موجودہ بجٹ امریکی صلیبی جنگ کے لئے عوام کی چمڑی سے دمڑی نکالنے کی بدترین مثال ہے۔ آئندہ سال امریکی صلیبی جنگ لڑنے کے لئے فوجی بجٹ میں 29 فیصد ﴿99ارب روپے﴾ کا اضافہ کیا جا رہا ہے۔ حکومت ''وارٹیکس‘‘ لگا کر پاکستان کے غریب عوام سے مزید 83 ارب روپے ہتھیائے گی نیز 102 ارب سبسڈی کی مد میں بھی کاٹے جائیں گے تاکہ اس پیسے کو قبائلی علاقے کے مسلمانوں پر بمباری کے لئے استعمال کیا جاسکے۔ پاکستان کے عوام کے خون پسینے کی کمائی سے امریکی جنگ لڑنے کا اقرار تو خود امریکی اعلیٰ عہدیدار نے کیا ہے۔ امریکی سابق نائب سیکریٹری خزانہ پال کریگ رابرٹ نے اپنے حالیہ مضمون میں اقرار کیا ہے کہ '' واشنگٹن کی ایمائ پر حکومت پاکستان اپنے عوام کے خلاف جنگ کر رہی ہے جس سے بیشمار لوگ ہلاک اور باقی اپنا گھر بار چھوڑنے پر مجبور ہوئے... امریکی نائب سیکرٹری خزانہ نیل وولن نے حکومت پاکستان کو حکم دیا کہ اپنے عوام کے خلاف جنگ کے اخراجات پورے کرنے کیلئے لوگوں پر ٹیکس لگائے، کٹھ پتلی حکمران آصف علی زرداری نے اپنے آقا کے حکم کی تعمیل کی‘‘۔ کیا اب بھی یہ سیکولر ایجنٹ حکمران اس جنگ کو اپنی جنگ کہہ سکتے ہیں؟

موجودہ بجٹ نے ایک بار پھر ثابت کر دیا کہ حکومت جمہوری ہو یا آمرانہ پاکستان کا بجٹ آئی ایم ایف کا وضع کردہ ہوتا ہے جو کہ سرمایہ دارانہ اقتصادی نظام کے اصولوں کے عین مطابق ہوتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ آمریت ہو یا جمہوریت عوام کی اقتصادی حالت سرمایہ دارانہ نظام کی موجودگی میں بہتر نہیں ہو سکتی۔ یہ صرف اسلام کا معاشی نظام ہی ہے جس میں تمام قسم کے بالواسطہ ٹیکس مثلاً سیلز ٹیکس، انکم ٹیکس، بزنس ٹیکس، کسٹم، ایکسائز، سرچارج اور ایڈیشنل سرچارج، پٹرولیم ڈویلپمنٹ لیوی وغیرہ حرام ہوتے ہیں اور امیر سے بلاواسطہ ٹیکس (Direct Tax) وصول کیا جاتا ہے جبکہ غریب پر کسی قسم کا کوئی ٹیکس عائد نہیں کیا جاتا۔ چنانچہ زکوٰۃ صاحب نصاب سے، خراج زمین کے مالک سے، عشر پیداوار کے مالک سے، رکاز خمس خزانے کے مالک سے، جزیہ کمانے کے قابل غیر مسلم سے لیا جاتا ہے۔ اسلام میں متعین ٹیکس ہیں اور حکومت محض اپنی مرضی کے مطابق یا آئی ایم ایف جیسے استعماری ادارے کے دبائو پر عوام پر ٹیکس نہیںلگاسکتی۔ اسلام محض ہنگامی حالات میں محدود مدت کے لئے صرف امیر مسلمانوں کی پس انداز شدہ دولت پر ٹیکس لگانے کی اجازت دیتا ہے جسے ترقیاتی کاموں میں استعمال نہیں کیا جاسکتا۔ اس کے علاوہ تیل، گیس، معدنیات اور دیگر وسائل کو اسلام عوامی اثاثہ قرار دیتا ہے اور اسے نج کاری کے بہانے چند سیٹھوں یا ملٹی نیشنل کمپنیوں کے حوالے نہیں کیا جاسکتا۔ نیز ان وسائل کو عوام تک پہنچانے کی ذمہ داری ریاستِ خلافت کی ہوتی ہے جس پر ریاست ہوش ربا منافع بھی نہیں کماسکتی۔ یوں بجلی، گیس، تیل وغیرہ نہایت ہی ارزاں قیمت پر دستیاب ہوتے ہیں جس سے مہنگائی کی کمر ٹوٹ جاتی ہے ۔ نیز لاچار، معذور، اور غریبوں کی بنیادی ضروریات پوری کرنا خلافت کی ذمہ داری ہوتی ہے۔ کمیونسٹ نظام کی مانند سرمایہ دارانہ نظام بھی ناکام ہو چکاہے۔ یہ نظام امریکہ اور یورپ کے مسائل حل نہ کر سکا تو پاکستان کے اقتصادی مسائل کیسے کریگا؟ حکمران جان لیںکہ اپنی غداریوں کو چھپانے کیلئے یہ سیاسی ڈھکوسلے امت کو دھوکا نہیں دے سکتے۔ اور اہل قوت سن لیں، امت خلافت سے کم کسی چیز پر راضی نہ ہو گی۔

 

نوید بٹ
پاکستان میں حزب التحریر کے ترجمان

Read more...

مصیبت کی گھڑی میں مدد کے لیے ایک اپیل: آج... ابھی... اے سلطان محمد الفاتح کے جانشینو!

اپنی سفاکانہ کھلی دشمنی کا اظہار کرتے ہوئے نفرت انگیز یہودی افواج نے غزہ کے لیے امدادی سامان لے جانے والے بحری جہازوں پرشب خون مارا۔ وہ لوگ جنہوں نے ان فوجیوں کے سامنے کھڑے ہونے کی جرأت کی ،یہودی فوجیوں نے اُن میں سے درجنوںافراد کو ہلاک اور متعدد کوزخمی کردیا۔ یہودی فوجیوں نے غزہ کے لیے جانے والے بحری جہازوں پر یوںدھاوا بولاگویا وہ فوجوں سے لدے جنگی بیڑے کے جہاز ہوں جو یہودیوں کے قلعوں کو گرانے جارہے تھے،حالانکہ وہ بحری جہاز تو فقط عام لوگوں کو لے جا رہے تھے جن کا ہدف صرف انسانی امداد اور میڈیا کے حوالے سے کام تھا۔

اور اگرچہ یہ جہازاُس سے کہیں کم ہیںجو اِس امت پر غزہ کے لوگوں کاحق ہے۔ غزہ کے لوگ کہ جنہوں نے صبر کیا ، ثابت قدم رہے اور مدد کے لیے پکارا، لیکن مسلمانوں کے کسی ایک بھی حکمران نے اُن کی پکار کا جواب نہیں دیا۔ اگرچہ یہ امدادی جہاز نہ تو ناکہ بندی ہی ختم کرسکتے ہیں اور نہ ہی یہودی دشمن کو پیچھے دھکیل سکتے ہیں،مگر نفرت انگیز یہودی ریاست کی قیادت اپنے آپ کو محفوظ تصور کرتے ہوئے اپنی روائتی جارحیت اور سفاکی کا مظاہرہ کر رہی ہے اورجرائم کا ارتکاب کرتی جارہی ہے اور انہیں اُس ترک ریاست کی کوئی پرواہ نہیںجو اپنے آپ کوعظیم عثمانی خلفائ کی وارث سمجھتی ہے اور اُن دوستانہ تعلقات کی بھی پرواہ نہیںجنہیں یہ یہودی خود ترک حکمرانوں سے قائم کرنے پر مضر تھے بلکہ اِس جرم کا ارتکاب کرتے ہوئے انہوں نے تمام مسلم حکمرانوں کی بھی کوئی پرواہ نہیںکی۔

بین الاقوامی برادری، یورپی ریاستوں، اقوامِ متحدہ کی سیکیورٹی کونسل اور عرب لیگ کے رویوں، علاقائی اور عالمی پانیوںسے متعلق اُن کے قانونی فیصلوں اور سفارتی سرگرمیوںکی شہہ پر یہودی ریاست کی طرف سے اِس گھنائونے جرم کا ارتکاب کیا گیا۔ یہ صورتِ حال اس بات کی عکاسی کرتی ہے یہ ادارے سیاسی لحاظ سے بے کار اور محض بے فائدہ ہیں اوریہ ہر ذمہ داری سے دستبردارہو چکے ہیں۔ ناجائز یہودی وجود ایک بدمعاش ریاست ہے جو مغرب کی مدد سے عالمی قوانین اور اقدار کی دھجیاں بکھیرتے ہوئے غیر قانونی اور قابلِ نفرت اعمال سرانجام دے رہی ہے، وہ مغرب جو ایسی ہر جارحیت پر اُس کا احتساب کرنے کی بجائے فقط کمزور ردِ عمل پر اکتفا کرتا ہے۔

آج امت عثمانی خلیفہ سلطان عبد الحمید جیسی قیادت سے محروم ہے ، جس نے فلسطین کی ریاست پر سودے بازی کے لیے آنے والے یہودی وفد کو ایسا جواب دیا جو ان کے منہ پر تھپڑ تھا، سلطان کا یہ طرزِ عمل تاریخ میں سنہرے حروف میں لکھا گیا۔ اور آج امت محمد الفاتح جیسے جری اور متقی شخص کی قیادت سے محروم ہے ، جس نے اسلامی فوج کی قیادت کی اور رومی سلطنت کو زمین بوس کیا۔

تو کیا آج ترکی کے حکمران اسی طرح غضب ناک ہو ں گے جس طرح سلطان عبد الحمید دوئم ہوئے تھے؟ کیا وہ سلطان محمد فاتح جیسی بہادری اور شجاعت کا مظاہرہ کریں گے؟ کیا وہ یہودی ریاست کی جارحیت کا جواب دینے کے لیے اسی طرح لپکیں گے جیسا کہ معتصم نے کیا تھا،تاکہ اس حقیر اور نفرت آمیز ریاست کو ایسا سبق سکھایا جائے جو تاریخ کا رُخ تبدیل کر دے؟ یا وہ محض میڈیا پر غم و غصے کے اظہاراور سطحی سیاسی اقدامات پر ہی اکتفائ کریں گی جس کا مقصد غصے میں مبتلا مسلمانوں کے جذبات کو غلط رُخ دینا اور ٹھنڈ ا کرنا ہے۔

بے شک ان حکمرانوں کی غداری اور فلسطین اور اس کے لوگوں سے دستبرداری ان کے بے کار خوابوں سے متعلق کسی بھی امید کو ختم کر چکی ہے۔ نہ ہی ترک حکومت سے کوئی خیر متوقع ہے جس نے اپنے باشندوں اور ان کے ساتھ شریک لوگوں سے غفلت برتی ہے۔ یہ حکمران جنگی جہازوںاورکثیر ا فواج کے ساتھ اپنے دشمن کا سامنا کرنے کی بجائے ان سے ملاقاتیں کرتے ہیں، جبکہ وہ اِس دشمن کی خون آلود تاریخ اورقتلِ عام کے سلسلے سے آگاہ ہیں۔ پس ہم ترک افواج اور تمام اسلامی افواج میں موجود مخلص کمانڈروں کو پکارتے ہیں کہ وہ اس گھنائونے مذاق کے خاتمے کے لیے حرکت میں آئیں...ابھی...فوراً!۔ ایک مخلص لیڈر کے تقرر کے لیے فوری عمل ، جو مسلم افواج کو بیرکوں سے باہر نکالے ، ان کے خون کو گرمائے اور یہودیوں کی خرمستیوں اور تکبر کا خاتمہ کرے۔ وہ مخلص قیادت جو ایسے مرد میدانِ جنگ میں اتارے جو شہادت سے اس سے زیادہ محبت کرتے ہوںجتنا یہودی زندگی سے محبت کرتے ہیں، وہ یہودیوں کو شیطان کی سرگوشیاں بھلا دیںاور ان کی نفرت آمیز حقیقت اور بزدل فطرت کو بے نقاب کردیں،اور فلسطین سے یہودی ریاست کا خاتمہ کردیں، اور بابرکت سرزمین سے اس کانٹے کو نکال دیں۔

﴿ وَاِنِ اسْتَنْصَرُوْکُمْ فِیْ الدِّیْنِ فَعَلَیْْکُمُ النَّصْرُ﴾

''اگر یہ دین کے بارے میں تم سے مدد چاہیں تو تم پر ان کی مدد لازم ہے۔ ‘‘ ﴿الانفال:72﴾

 

Read more...

یہود یہود ہیں ، ان سے کچھ بھی توقع کی جاسکتی ہے!! درجن بھر امدادی کارکنوں کو قتل کر کے یہودنے ایک بار پھر دنیا پر ثابت کر دیا کہ اسرائیل کے باقی رہنے کا کوئی جواز نہیں

ترکی کے امدادی جہاز پر شب کی تاریکی میںہلہ بول کر کے درجن سے زائد امدادی کارکنوں کو قتل کر کے یہود نے ایک بار پھر ثابت کر دیا ہے کہ اسرائیلی ریاست کے باقی رہنے کا کوئی جواز نہیں۔ یہود اللہ کی وہ ''مغضوب‘‘ قوم ہے جن کی روش سے دن میں پانچ دفعہ پناہ مانگنے کا حکم اللہ تعالیٰ نے مسلمانوں کو دیا ہے۔ یہ اور اس جیسے بے شمار کام صرف یہود جیسی ملعون قوم ہی کر سکتی ہے جن کے آبائو اجداد کو ان کے کرتوتوں کی وجہ سے سور اور بندر بنایا گیا۔ یہ وہی قوم ہے جس نے انبیائ کے ایک گروہ کو تو قتل کر ڈالا اور دوسرے گروہ کی تکذیب کی۔ آج کا قتل عام ان کی تاریخ میں کوئی بڑا ''کارنامہ‘‘ نہیں وہ اس سے قبل صابرہ وشتیلہ جیسے قتل عام کر چکے ہیں۔ لیکن دنیا محض اس لئے سکتہ میں آگئی کیونکہ اس دفعہ بہنے والا خون ارزاں فلسطینی مسلمانوں کا نہ تھا، ورنہ تو یہود کے لئے سینکڑوں مارنا اور پوری مغربی دنیا اور مسلمان حکمرانوں کا منہ دیکھتے رہنامعمول کا عمل بن چکا تھا۔ حزب التحریر اس بہیمانہ اور بزدلانہ قتل عام کی شدید الفاظ میں مذمت کرتی ہے اور مطالبہ کرتی ہے کہ یرغمالیوں کو فی الفور رہا کیا جائے۔ حز ب التحریر نے آج لاہور میں اس ضمن میں مظاہرہ کیا اور دیگر بڑے شہروں میں آنے والے دنوں میں مزید مظاہرے کئے جائیں گے۔


امریکہ کی ناجائز اولاد، اسرائیل کو محض اس لئے فلسطین کے مسلمانوں پر ظلم کے پہاڑ توڑنے کی جرأت ہوئی کیونکہ وہ جانتا ہے کہ مسلمانوں کو پچاس سے زائد زندانوں میںجکڑ دیا گیا ہے جس میں سے ہر ایک پر ایک غدار حکمران داروغہ بنا کر بٹھا دیا گیا ہے۔ یوں ایک ارب سے زائد مسلمان استطاعت رکھنے کے باوجود اسرائیل کے ناپاک وجود کا خاتمہ نہیںکر سکتے اور آج بھی قبلہ اول پر یہودی قابض ہیں۔ اسرائیل کی جارحیت روکنے اور غزہ کے محصور مسلمانوں کو بچانے کا ایک ہی رستہ ہے اور وہ قومی اسمبلی، اوآئی سی یا اقوام متحدہ کے ایوانوں سے ہو کر نہیں گزرتا بلکہ یہ رستہ مسلمانوں کی فوجی چھاؤنیوں سے نکلتا ہے۔ یہ ذمہ داری مسلم افواج کے جرنیلوں کی ہے کہ وہ اپنے ٹینکوں اور میزائلوں کا رُخ اسرائیل کی طرف کر دیں اور اپنی فوجوں کو متحرک کرتے ہوئے اسرائیلی ریاست کا خاتمہ کریں۔ اور اس میں حائل ہونے والے غدار حکمرانوں کو بھی روندتے چلے جائیں۔ ہم پاکستانی فوج کو بھی پکارتے ہیں کہ وہ اپنی ذمہ داری پوری کریں اور ایٹم بم اور دیگر اسلحہ کو گارڈ آف آنر کے لئے چمکانے کے بجائے جہاد کے لئے تیار کریں۔ اگر زرداری اور گیلانی جیسے ایجنٹ حکمران راستے کی رکاوٹ بنیں تو انہیں اکھاڑ کر ایک مخلص خلیفہ کو بیعت دیں اور اس کی سرکردگی میں اسرائیل کی اینٹ سے اینٹ بجا دیں۔

 

نوید بٹ
پاکستان میں حزب التحریر کے ترجمان

Read more...

امریکی حکم پر شمالی وزیرستان آپریشن کی تیاریاں!!! امریکہ اور ایجنٹ حکمران شمالی وزیرستان میں آپریشن شروع کرنے کے لئے دہشت گردی کی وارداتیں کر رہے ہیں

حزب التحریر پہلے بھی عوام کو خبردار کر چکی ہے کہ جب بھی امریکہ اور پاکستان کی غدار حکومت قبائلی علاقے میں آپریشن شروع کرنے کی ٹھانتی ہے تو اس سے چند روز قبل بڑے شہروں میں دھماکوں اور دہشت گردی کی وارداتوں کا سلسلہ شروع ہو جاتا ہے۔ اس کی چند مثالیں ہم اسلامی یونیوسٹی اور پریڈلین راولپنڈی کی مسجد پر حملے، لاہوربم دھماکوں اور سوات میں لڑکی کو درے مارے جانے والی ویڈیو وغیرہ کی شکل میں پہلے ہی دیکھ چکے ہیں۔ جیسے ہی امریکہ نے شمالی وزیرستان پر حملہ کرنے کا حکم دیا سیاسی بصیرت رکھنے والے حلقے، ذہنی طور پر تیار ہو چکے تھے کہ اب عنقریب شہری علاقوں میں بم دھماکوں کا سلسلہ شروع ہونے والا ہے۔ یہی نہیں ہمیشہ کی طرح آپریشن شروع ہونے کے بعد اگلا عذاب بجلی کی مصنوعی لوڈشیڈنگ کی شکل میں عوام کو جھیلنا پڑتا ہے۔ جس کا مقصد آپریشن کے نتیجے میں لاکھوں بے گھر ہونے والے مسلمانوں کی حالت زار اور فضائی بمباری کے نتیجے میں ہونے والی سینکڑوں ہلاکتوں سے امت کو بے خبر رکھنا ہوتا ہے۔ آج بھی سوات اور جنوبی وزیرستان کے آپریشنوں کے نتیجے میں تیرہ لاکھ مسلمان بچے عورتیں اور بوڑھے بے گھر ہیں اور کیمپوں میں زندگی گزارنے پر مجبور ہیں۔ لیکن یہ ظلم میڈیا عوام تک پہنچانے کے لئے تیار نہیں!!

کہاں ہیں وہ سیکولر لوگ جو کہتے تھے کہ بس سوات میں ایک آپریشن کر لینے دیں پھر دیکھیں دہشت گردی کا قلع قمع کیسے ہوتا ہے؟ کہاں ہیں وہ دانشور جن کی زبانیں یہ کہتے نہ تھکتی تھیں کہ دہشت گردی کی جڑ جنوبی وزیرستان میں ہے، بس ایک دفعہ اس کا صفایا ہو جائے تو پھر پاکستان امن کا گہوارا بن جائیگا؟ درحقیقت امریکہ نے ایک ایک کر کے پورے قبائلی علاقے میں آگ لگا دی ہے۔ امریکہ جانتا ہے کہ اگر پاکستان کے جہادی عناصر کو افغانستان جانے سے روکنا ہے اور امریکی رسد کو محفوظ بنانا ہے تو پاکستان آرمی اور سیکورٹی اداروں کو ان جہادی عناصر سے لڑنا ہوگا۔ یوں نہ تو پاک فوج اپنی اصل ذمہ داری، یعنی امریکہ کو خطے سے نکالنے کے بارے میں سوچ سکے گی اور نہ ہی پاکستان کے مخلص مسلمان امریکہ کے خلاف افغانستان میں جا کر جہاد کر سکیں گے۔ یوں امریکہ نے مسلمانوں کو مسلمانوں کے ساتھ لڑا کر اپنے آپ کو خطے میں محفوظ بنایا ہوا ہے۔ حزب التحریر اہل طاقت اور اہل فکر سے مطالبہ کرتی ہے کہ وہ اس امریکی سازش کو سمجھیں اور اس امریکی جنگ سے فی الفور کنارہ کشی اختیار کریں ورنہ یہ آگ پورے چمن کو جلا کر رکھ کر دیگی۔

نیز یہ ذمہ داری فوج کی ہے کہ وہ ان غدار حکمرانوں سے عوام کو نجات دلا کر خلافت کے قیام کے لئے حزب التحریر کو نصرت فراہم کریں جو امریکہ کو خطے سے نکالے گی اور مسلم امت کو ایک امیر تلے وحدت بخشے گی

 

نوید بٹ
پاکستان میں حزب التحریرکے ترجمان

Read more...

ماضی میں توہین آمیز خاکوں پر مسلم حکمرانوں کی مجرمانہ خاموشی نے کافروں کو مزید شہ دی '' اے پاک فوج! اٹھو اور خلافت کو قائم کرکے گستاخانِ رسول کو منہ توڑ جواب دو‘‘؛ حزب التحریر کے احتجاجی مظاہرے

حزب التحریر ولایہ پاکستان نے فیس بک پر توہین آمیز خاکوں کے مقابلے کے خلاف کراچی، لاہور اور اسلام آباد میں احتجاجی مظاہرے منعقد کئے۔ یہ مظاہرے پریس کلب اور میڈیا دفتر کے باہر منعقد کئے گئے۔ مظاہرین نے بینر اور کتبے اٹھارکھے تھے جس پر یہ نعرے تحریر تھے:

"اے پاک فوج! اٹھو اور خلافت کو قائم کرکے گستاخانِ رسول ﷺ کو منہ توڑ جواب دو"، اے مسلمانو! ناموسِ رسالت کا تحفظ مذمتی قراردادوں سے نہیں بلکہ پاک فوج کے عملی جہاد سے ممکن ہے" اور "توہین رسالت کرنے والوں کی تمام تر جرأت غدارحکمرانوں کی وجہ سے ہے"۔

مظاہرین سے خطاب کرتے ہوئے مقررین نے کہا کہ کافر ایک بار پھر اسلام اور نبی ﷺ کو اپنی نفرت کا نشانہ بنا رہے ہیں اور ان کے حکمران اس توہین میں مکمل طور پر ان کی حمایت اور پشت پناہی کر رہے ہیں۔ یہ مسلم حکمرانوں کی مجرمانہ خاموشی ہی ہے جس نے فیس بک جیسے بے وقعت ادارے کو ایک ارب مسلمانوں کے جذبات سے کھیلنے کا حوصلہ دیا۔ اگر مسلم حکمرانوں نے ڈنمارک کے خلاف فوجیں متحرک کی ہوتیں تو آج ہمیں یہ دن دیکھنا نہ پڑتا۔ انہوں نے کہا کہ تیرہ سو سال ان کافروں کو مسلمانوں کے شعائر پر حملہ کرنے کی ہمت نہ ہو سکی کیونکہ خلافت ناموس رسالت ﷺ کے تحفظ کے لئے ہر دم تیار تھی۔ صرف ایک صدی قبل جب فرانس اور برطانیہ نے توہین آمیز ڈرامہ چلانے کی کوشش کی تو خلیفہ عبدالحمید ثانی کی جہاد کی ایک دھمکی ہی اس ڈرامے کو بند کرنے کے لئے کافی تھی۔ انہوں نے مزید کہا کہ جہاں تک "آزادیوں" کے تصور کا تعلق ہے تو یہ محض ایک ڈھکوسلہ ہے جسے اسلام کی پیٹھ پر کوڑے برسانے کے لئے استعمال کیا جاتا ہے۔ ہم پوچھتے ہیں کہ کیا یہ آزادیاں فرانس کے سکولوں میں مسلم عورت کو حاصل ہیں جہاں انہیں اپنی مرضی سے حجاب لینے کی بھی اجازت نہیں؟ کیا یہ آزادیاں ان سینکڑوں مسلمانوں کو حاصل ہیں جو گوانتاناموبے میں پچھلے آٹھ سال سے پڑے گل سڑ رہے ہیں اور انہیں اتنا بھی علم نہیں کہ انہیں کس گناہ کی پاداش میں اغوا کیا گیا ہے؟ کیا کسی بھی شخص کو ہولوکاسٹ پر تنقید کرنے کی اجازت ہے؟ ہر گز نہیں! تو پھر آزادیوں کو بنیاد بنا کر رسول اللہ ﷺ کی ذات ہی کو کیوں نشانہ بنایا جاتا ہے؟ انہوں نے کہا کہ مغر ب جانتا ہے کہ مسلمانوں کی ڈھال یعنی خلافت موجود نہیں اور یہ غدار حکمران انہی کے ایجنٹ ہیں جن کا کام محض مسلمان عوام کو کنٹرول کرنا اور مغرب کے مفادات کا تحفظ ہوتا ہے۔ انہوں نے کہا کہ یہ وہی "فیس بک" ہے جو گزشتہ چھ ماہ کے دوران حزب التحریر پاکستان کے میڈیا آفس اور ترجمان کے پیج کو دو دفعہ بند کر چکی ہے لیکن اسلام پر حملہ کرنے والے پیج کو بند کرنے کے لئے تیار نہیں۔

مقررین نے پاکستان فوج سے مطالبہ کیا کہ وہ اپنی ذمہ داری پوری کرتے ہوئے حرکت میں آئیں گستاخان رسول ﷺ کو منہ توڑ جواب دیں۔ یہ اسی وقت ممکن ہے جب وہ ان غدار حکمرانوں کو اکھاڑ کر خلافت قائم کریں اور ایک خلیفہ راشد تلے بذریعہ جہاد کافروں کو ان کے کرتوتوں کا مزا چکھائیں۔!

نوید بٹ

پاکستان میں حزب التحریر کے ترجمان

تصویریں

Read more...

افغان جنگ دراصل خلافت کے قیام کو روکنے کیلئے ہے: برطانوی افواج کے حالیہ ریٹائرڈ سربراہ کا اقرار حکمران اور افواج پاکستان جواب دیں، کیا وہ خلافت روکنے والوں کے ساتھ ہیں یا خلافت لانے والوں کے ساتھ!!!

آخر کار بلی تھیلے سے باہر آ ہی گئی۔ برطانوی افواج کے حال ہی میں ریٹائرڈ ہونے والے سربراہ اور نئے وزیراعظم کے مشیر سر جنرل رچرڈ ڈناٹ نے بی بی سی کو ایک انٹرویو میں اس امر کا اقرار کیا ہے کہ افغان جنگ دراصل خلافت کو قائم کرنے سے روکنے کیلئے ہے۔ ان سے جب افغانستان پر قبضے کے بارے میں پوچھا گیا تو اس نے کہا ؛''وہاں پر ایک اسلامی ایجنڈا ہے جس کی اگر جنوبی افغانستان، یا افغانستان یا جنوبی ایشیا میں ہم مخالفت نہ کریں یا اس کا خاتمہ نہ کریں تو سچی بات یہ ہے کہ اس کا اثر پھیلتا جائے گا۔ ہاں یہ پھیل سکتا ہے، اور یہ بہت اہم نکتہ ہے ، ہم﴿آگے﴾ دیکھ رہے ہیں کہ یہ جنوبی ایشیا سے مشرق وسطیٰ اور وہاں سے شمالی افریقہ اور چودویں اور پندرویں صدی خلافت کے عروج کے مقام کی جانب بڑھ رہا ہے۔۔۔ ‘‘ ۔ پس کفار نے ایک بار پر خلافت کے قیام کے خلاف جاری خفیہ جنگ سے پڑدہ اٹھایا ہے۔ اس سے پہلے بش، بلئیر، کلارک، رمسفیلڈ، ہنری کسنجر اور دیگر کفار کئی کئی بار خلافت کے خلاف اپنے جذبات کا اظہار کر چکے ہیں۔ سچ تو یہ ہے کہ خلافت تمام مسلمانوں کے دلوں کی آرزو اور مسلمانوںکی وحدت کا واحد ذریعہ ہے۔ کفار اس کوشش میں ہیں کہ خلافت کو ایک دہشتگرد ریاست کے روپ میں پیش کیا جائے تاکہ اس کے قیام پر عالمی رائے عامہ کو اس کے خلاف ابھارا جا سکے۔ لیکن وہ یہ بھول گئے ہیں کہ خلافت کا 1300سالوں پر محیط درخشاں ماضی پوری انسانیت کیلئے ایک کھلی کتاب ہے ،جس کے دوران مسلمان اور غیر مسلم اسلامی نظام کے تحت پر امن زندگی بسر کرتے تھے۔ حکمران اور افواج پاکستان کے سربراہوں سے امت جواب طلب کرتی ہے کہ وہ بتائیںوہ خلافت راشدہ قائم کرنے والوں کے ساتھ ہیں یا خلافت روکنے والے کافروں کے ساتھ!!! ۔نیٹو اور اس کے اتحادی غدار حکمران سن لیں وہ مل کر بھی خلافت راشدہ کے قیام کو نہیں روک سکیں گے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی بشارت ضرور پوری ہو کر رہے گی۔ انشاء اللہ!

 

 

Read more...
Subscribe to this RSS feed

دیگر ویب سائٹس

مغرب

سائٹ سیکشنز

مسلم ممالک

مسلم ممالک