الجمعة، 25 صَفر 1446| 2024/08/30
Saat: (M.M.T)
Menu
القائمة الرئيسية
القائمة الرئيسية

تفسیر  سورہ البقرہ آیات  83 تا 86

مشہور فقیہ اور رہنما، امیر حزب التحریر، شیخ عطا بن خلیل ابو الرَشتہ کی کتاب "التیسیرفی اصول التفسیر" سے اقتباس (ترجمہ) ﴿وَإِذْ أَخَذْنَا مِيثَاقَ بَنِي إِسْرَائِيلَ لَا تَعْبُدُونَ إِلَّا اللَّهَ وَبِالْوَالِدَيْنِ إِحْسَانًا وَذِي الْقُرْبَىٰ وَالْيَتَامَىٰ وَالْمَسَاكِينِ وَقُولُوا لِلنَّاسِ حُسْنًا وَأَقِيمُوا الصَّلَاةَ وَآتُوا الزَّكَاةَ ثُمَّ تَوَلَّيْتُمْ إِلَّا قَلِيلًا مِنْكُمْ وَأَنْتُمْ مُعْرِضُونَ﴾ (83) ﴿وَإِذْ أَخَذْنَا مِيثَاقَكُمْ لَا تَسْفِكُونَ دِمَاءَكُمْ وَلَا تُخْرِجُونَ أَنْفُسَكُمْ مِنْ دِيَارِكُمْ ثُمَّ أَقْرَرْتُمْ وَأَنْتُمْ تَشْهَدُونَ﴾ (84)﴿ثُمَّ أَنْتُمْ هَٰؤُلَاءِ تَقْتُلُونَ…
Read more...

سوال وجواب : شام کے انقلاب اورحزب التحریر کے حوالے سے

(حزب التحریر کے امیر شیخ عطا بن خلیل ابو الرشتہ کی جانب سے فیس بک پر ان کے صفحے کو وزٹ کرنے والوں کی طرف سے پوچھے گئےسوالات کے جوابات کا سلسلہ) مامون شحادہ ۔ صحافی،رائٹر اور سیاسی تجزیہ نگار کی طرف سے علامہ عطابن خلیل ابو الرشتہ سے سوال سوال:سلام کے بعدمیں آپ سے پوچھنا چاہتا ہوں کہ وہ کیا محرکات تھے جن کی وجہ سے حزب التحریر شام…
Read more...

شام میں فوجی مداخلت کا اشارہ، جس کا چرچا ہے،ہر لحاظ سےشر انگیز ہے، یہ اسلام کی حکمرانی کو قائم ہونے سے روکنے اور اپنے ایجنٹ بشار کا کردار ختم ہونے پراس کے متبادل کا بندوبست کرنے کے لیے ہے

شام کی حکومت کی جانب سے کیمیائی ہتھیار استعمال کرنے پر امریکہ اور اس کے اتحادیوں کی طرف سے شام میں فوجی مداخلت کی خبریں گردش میں ہیں۔ امریکہ اور اس کے اتحادی اس کے لیے انسانی اور اخلاقی ذمہ داری کا پردہ استعمال کر رہے ہیں جبکہ وہ خود اس سے بے بہرہ ہیں۔ امریکہ،برطانیہ ، فرانس ،روس اور تمام کافراستعماری ممالک اپنے تنگ وتاریک عقوبت خانوں میں تمام انسانی اور اخلاقی اقدار کو اپنے پیروں تلے روند چکے ہیں،بگرام،گونتاناموبے اورابوغریب کےعقوبت خانے اس کی حالیہ مثالیں ہیں۔ پوری دنیا کی رسوائے زمانہ جاسوسی اس کے علاوہ ہے! یہی ممالک ایٹمی،بائیولوجیکل ،وسیع پیمانے پر تباہی پھیلانے والے ہتھیاروں کے استعمال اور وحشیانہ قتل و غارت میں ایک دوسرے کو پیچھے چھوڑنے میں مشہور ہیں۔ اس کے شواہد ہیروشیما،ناگا ساکی اور عراق،افغانستان،وسط ایشیا،مالی اور چیچنیا میں برپا کیے جا نے والے شرمناک قتلِ عام کی شکل میں موجود ہیں۔
پھر انہی ممالک خاص طور پر امریکہ ہی نے بشارالاسد کو بچوں،عورتوں اور بوڑھوں کوقتل کرنے کے لیے کیمیائی ہتھیار استعمال کرنے کا گرین سگنل دیا۔ اگر یہ گرین سگنل نہ ہوتا توشام کا سرکش حکمران کبھی بھی الغوطہ میں اس کے استعمال کی جرات نہ کرتا۔ بشار حکومت الغوطہ سے قبل بھی شام میں کیمیائی ہتھیار استعمال کرچکی ہے بلکہ اس کے بعد بھی، جیسا کہ آج ہی حکومت کی جانب سے بعض علاقوں میں زہریلی گیس استعمال کرنے کی خبریں میڈیا میں گردش کر رہی ہیں۔ یہ سب امریکہ اور اس کے اتحادیوں کے علم اورمرضی سے ہو رہاہے۔ اس لیے امریکہ اور اس کے اتحادی فوجی مداخلت کے لیے انسانی اور اخلاقی اقدار کا جو پردہ استعمال کر رہے ہیں وہ محض سفید جھوٹ اور انتہا درجے کا دوغلاپن ہے ۔ یہ وہ من گھڑت اور خودساختہ حجت بازی ہے جس کی حقیقت ہردیکھنے والےاور قلبِ سلیم رکھنے والے شخص کو معلوم ہے۔
رہی بات اس امریکی فوجی مداخلت کی حقیقت کی جو شرانگیز استعماری قوتوں کی قیادت کر رہا ہے، تویہ بشار کی ایجنٹ حکومت کی جگہ ایک اور ایجنٹ حکومت کا بندوبست کرنے کے لیے ہے ،یعنی عسکری مداخلت کے ذریعے دباؤ ڈال کراپنے منصوبے کے لیے حالات کو سازگار بنایاجائے۔ کیونکہ بشار تواپنا کردار ادا کرچکا،اور وہ اپنی تمام تر کوششوں کے باوجود قومی کونسل اور اتحاد میں اپنے کارندوں کو شام کے اندر اس قابل نہ بنا سکا کہ لوگ انہیں بشارحکومت کے متبادل کے طور پر قبول کر لیں۔ چنانچہ شرکے اس بلاک نے خوف محسوس کیا کہ اہل شام جواسلام کی حکمرانی قائم کرنا چاہتے ہیں کہیں کفار اور منافقین کی جڑ ہی کاٹ کر رکھ نہ دیں۔ اسی وجہ سے امریکہ اور اس کے اتحادیوں نےمخصوص مقامات پر فوجی مداخلت کے ذریعے اس کے راستے میں رکاوٹ بننے کا ارادہ کیا،تاکہ اس فوجی مداخلت کے نتیجے میں حکومت اور قومی اتحاد کے درمیان مذاکرات کوشروع کیا جائے،اور یوں ایک ایسی متبادل ایجنٹ حکومت ترتیب دی جائے جو بشار حکومت سے سوائے اس چیز کے کسی طرح مختلف نہ ہو کہ اس کا منہ کم کالا ہو!
اے مسلمانو، اے شام کے ہمارے مسلمان بھائیو،اے سرکش کے خلاف اپنی جدوجہد میں مخلص اور سچے لوگو:
اس عسکری مداخلت اور کفارکے ہلاکت خیز منصوبوں کو ناکام بنانے کی مقدور بھر کوشش کر نا فرض ہے۔ یہ سرکش تمہارے ہاتھوں اپنے انجام کو پہنچنے کے قریب ہے۔ تم اپنے ملک میں اسلام کی حکمرانی قائم کرنے میں کامیاب ہونے کے قریب ہو،جس سے تم اپنے دین،اپنی جان،اپنی عزت وآبرو اور اپنے اموال کو محفوظ کر سکو گے۔ ایک ایسی ہدایت یافتہ اور عادل حکومت جو ہر حقدار کو اس کا حق پہنچائے،ایسی خلافتِ راشدہ جو شام کو اس کا نور اور اس کا کردار لوٹادے،کیونکہ یہ اسلام کا مسکن ہے اور عنقریب ان شا ء اللہ ایسا ہی ہوگا۔ صبر کرو ،صبر کی تلقین کرو اورظلم اور ظالموں کے مقابلے میں سرجوڑ کر یکجان ہو جاؤ۔ یاد رکھو کہ اپنے ملک کو بچا نا تمہارے اپنے ہاتھ میں ہے۔ جتنی بڑی قربانی بھی تمہیں دینی پڑی ،یہ قربانی دنیا اور آخرت میں تمہارے حق میں اس چیز سے ہزار مرتبہ بہتر ہےکہ استعماری کفارتمہیں بچانے کے بہانے تمہارے ملک میں مداخلت کریں۔ یہ بچاؤ نہیں بلکہ ہر لحاظ سے موت اور تباہی ہے﴿كَيْفَ وَإِنْ يَظْهَرُوا عَلَيْكُمْ لَا يَرْقُبُوا فِيكُمْ إِلًّا وَلَا ذِمَّةً يُرْضُونَكُمْ بِأَفْوَاهِهِمْ وَتَأْبَى قُلُوبُهُمْ وَأَكْثَرُهُمْ فَاسِقُونَ﴾ "کس طرح اگر تم پر غالب آتے ہیں تو نہ قرابت کا پاس رکھتے ہیں نہ رشتہ داری کا لحاظ اپنی زبان سے تو تمہیں راضی کرتے ہیں لیکن ان کے دل اس کا انکار کرتے ہیں ان میں اکثر فاسق ہیں"۔
اے مسلمانو، اے شام کے ہمارے مسلمان بھائیو،اے سرکش کے خلاف اپنی جدوجہد میں مخلص اور سچے لوگو:
بے شک اپنے مسائل کو حل کرنے کے لیے کافر استعماری ممالک سے مدد طلب کرنا عظیم گناہ اور شرہی شر ہے۔ یہ اللہ،اس کے رسولﷺ اور مومنین کے ساتھ خیانت ہے،ایسا کر کے تم اللہ قوی اور العزیز کے غضب کو دعوت دو گے،اللہ تعالی فرماتا ہے:﴿ يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا لَا تَتَّخِذُوا الْكَافِرِينَ أَوْلِيَاءَ مِنْ دُونِ الْمُؤْمِنِينَ أَتُرِيدُونَ أَنْ تَجْعَلُوا لِلَّهِ عَلَيْكُمْ سُلْطَانًا مُبِينًا﴾"اے ایمان والو !مسلمانوں کو چھوڑ کر کافروں کو اپنا دوست مت بناؤ ،کیا تم اپنے ہی خلاف کھلی دلیل اللہ کو دینا چاہتے ہو"۔ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا«لَا تَسْتَضِيئُوا بِنَارِ الْمُشْرِكِ»" مشرک کی آگ سے روشنی مت لو"اسے احمد نے انس سے روایت کیا ہے، جبکہ بیہقی کی روایت میں یوں ہے((لا تستضیئوا بنار المشرکین))"مشرکین کی آگ سے روشنی مت لو"۔ اسی طرح بخاری نے بھی اپنی تاریخ الکبیر میں اس حدیث کوانہی الفاظ سے نقل کیا ہے۔ یعنی مشرکین کی آگ کو اپنے لیے روشنی مت بناؤ،یہاں آگ کا لفظ جنگ کی طرف اشارے کے طور پر ہے۔ اس حدیث میں کنایہ کے ساتھ یہ بیان کیا گیا ہے کہ جنگ میں مشرکین کوساتھی نہ بناؤ اور ان سے رائے بھی نہ لو۔ اس حدیث سے کفار سے مدد طلب کرنے کی ممانعت کا پتہ چلتا ہے،جیسا کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:((فانا لا نستعین بمشرک))"ہم کسی مشرک سے مدد نہیں مانگتے"اسے احمد اور ابوداؤد نے روایت کیا ہے۔ کفار سےعسکری مداخلت کا مطالبہ کرنا حتی کہ ان سے اپنے مسائل کے بارے میں مشورہ لینا عظیم گناہ اور حرام ہے، ایسا کرنا صحیح اور جائز نہیں۔
یقینا یہ نہایت ہی اندوہناک بات ہے کہ استعماری کفار شام میں فوجی مداخلت کا الٹی میٹم اور دھمکی دینے کی جسارت کر رہے ہیں جبکہ مسلمان ملکوں کے حکمران ٹانگ پر ٹانگ رکھ کر بیٹھے ہوئے ہیں۔ جو کچھ ہو رہا ہے اور جو چل رہا ہے اس سے اس طرح بے پرواہ ہیں گویا یہ ان سے مشرق و مغرب کے فاصلے سے بھی زیادہ دور ہے۔گویا یہ حکمران گونگے اور بہرے ہیں اور اہلِ شام کی فریاد سُن ہی نہیں رہے۔ وہ اللہ کی اس پکار پر لبیک نہیں کہتے کہ﴿ وَإِنِ اسْتَنْصَرُوكُمْ فِي الدِّينِ فَعَلَيْكُمُ النَّصْرُ﴾"اور اگر وہ تم سے دین کی بنیاد پر مدد مانگیں تو تم پران کی مدد کرنا لازم ہے"۔ اگر ان کے اند ر ذرہ برابر بھی حیا ہوتی تو یہ اہل شام کی مدداور شام کے سرکش حکمران سے چھٹکارہ حاصل کرنے کے لیے بیرکوں میں پڑی مسلمان فوجوں کو متحرک کردیتے،کیونکہ اہلِ شام پڑوسی مسلمان ممالک میں موجوداپنے بھائیوں کی مدد سے ،اللہ کے اذن سے ، سرکش بشارکو اپنے انجام تک پہنچانے اور اس کی جگہ اسلام کے مسکن شام میں اسلامی حکومت قائم کرنے پر قادر ہیں۔ بجائے یہ کہ استعماری کافر ایک ایسی نئی حکومت قائم کرنے کے لیے، جو پرانی حکومت سے چہروں کی تبدیلی کے سوا مختلف نہ ہو،شام میں مداخلت کریں،اوریوں شام ایک بار پھر طاغوت کے پنجوں کی نذر ہوجائے، جبکہ شام میں اسلام کی حکمرانی کا سورج دوبارہ طلوع ہونے کے قریب پہنچ چکاتھا۔
استعماری کفار جس ملک میں بھی آئے انہوں نے اسے برباد کر کے رکھ دیا،اس کی بنیادیں ہی تباہ کرکے رکھ دیں اور اس کے چپے چپے کو ویران کردیا۔ جس ملک میں یہ داخل ہوئے ان کی پھیلائی ہوئی تباہی و بربادی کی نشانیاں اب بھی موجود ہیں اور ان کے جرائم اور کرتوتوں کا منہ بولتا ثبوت ہیں۔شام میں ان کفار کی عسکری مداخلت بہت بڑا زلزلہ اور شر ہو گا،اے مسلمانو، اس سے چوکنے ہو جاؤ۔ خبردار یہ گمان کر کے کہ کفارہمیں بچالیں گے، ان سے مدد مانگنے میں جلدی مت کرو ،ورنہ ندامت کا سامنا ہو گا اور اس وقت ندامت کا کوئی فائدہ نہیں ہوگا!
﴿فَتَرَى الَّذِينَ فِي قُلُوبِهِمْ مَرَضٌ يُسَارِعُونَ فِيهِمْ يَقُولُونَ نَخْشَى أَنْ تُصِيبَنَا دَائِرَةٌ فَعَسَى اللَّهُ أَنْ يَأْتِيَ بِالْفَتْحِ أَوْ أَمْرٍ مِنْ عِنْدِهِ فَيُصْبِحُوا عَلَى مَا أَسَرُّوا فِي أَنْفُسِهِمْ نَادِمِينَ﴾
"تودیکھے گا ان لوگوں کو جن کے دلوں میں مرض ہے کہ اس بارے میں جلدی کریں گے اور کہیں گے ہمیں خوف ہے کہ ہم پر مصیبت آئے گی۔ ممکن ہے اللہ فتح نصیب کرے گا یا اپنی طرف سے کوئی بھلائی کا معاملہ کرے گا، تب یہ لوگ اس پرشرمندہ ہوں گے جو کچھ وہ اپنے دلوں میں چھپائے ہوئے تھے "
﴿ إِنَّ فِي هَذَا لَبَلَاغًا لِقَوْمٍ عَابِدِينَ﴾"بے شک یہ عبادت گزار قوم کے لیے اعلان ہے"

Read more...

کرنسی کی مضبوطی اور تباہ کن افراط زر کے خاتمے کے لیے سرمایہ دارانہ نظام کا خاتمہ کرو شریعت کے طریقہ کار کے مطابق سونے اور چاندی پر مبنی کرنسی ہی روپے کی گرتی قدر کا خاتمہ کرسکتی ہے

پاکستان کے وزیر خزانہ اسحاق ڈار یہ کہہ کر لوگوں کو دھوکہ دے رہے ہیں کہ روپے کی گرتی قدر کی بنیادی وجہ مارکیٹ میں ہونے والی سٹے بازی ہےجس کی وجہ سے ملک کو تباہ کن افراط زرکا سامنا ہے جبکہ درحقیقت اس تباہ کن افراط زر کی بنیادی وجہ وہ سرمایہ دارانہ نظام ہے جس کو حکومت نافذ کررہی ہے۔
ڈالر، پاؤنڈ اور فرانک کی طرح روپیہ بھی کسی قیمتی دھات کی بنیاد پر جاری ہوتا تھا۔ ڈالر کی صورت میں وہ قیمتی دھات سونا ہوتی تھی جبکہ روپے کی صورت میں وہ چاندی ہوا کرتی تھی۔ کرنسی کا یہ نظام مالیاتی نظام کو نہ صرف اس خطے میں اندرونی طور پر بلکہ بین الاقوامی تجارت میں بھی استحکام فراہم کرنے کا باعث ہوتا تھا۔ یہی وجہ ہے کہ اسلام کے زیر سایہ برصغیر پاک و ہند عالمی معیشت کے لیے ایک انجن کا کردار ادا کیا کرتا تھا۔
لیکن سرمایہ دارانہ نظام کے تحت جاری ہونے والے سودی قرضوں اور سٹاک مارکیٹ نے کرنسی کی اس قدر طلب پیدا کی جس کو سونے اور چاندی کی رسد(Supply) پورا نہیں کرسکتی تھی۔ لہٰذا ریاستوں نے قیمتی دھات کی بنیاد پر جاری ہونے والی کرنسی کے نظام کو چھوڑ دیا اور زیادہ سے زیادہ نوٹ چھاپنے شروع کردیے جن کے پیچھے سونے اور چاندی کے ذخائر موجود نہیں تھے اور اس طرح ہر چھاپے جانے والا نوٹ پچھلے نوٹ سے قدر و قیمت میں کم ہوتا ہے۔ اور پھر جب ان نوٹوں سے اشیاء کو خریدا جاتا اور خدمات حاصل کی جاتیں تو یہ نوٹ اگر چہ اپنی مکمل قدر و قمیت تو نہیں کھوتے لیکن اس کا بڑا حصہ کھو دیتے ہیں۔اشیاء کی قیمتوں میں مسلسل اضافہ اب اس قدر سرمایہ دارانہ نظام کاطرہ امتیاز بن چکا ہے کہ ہر ملک افراط زرکے پیمانے کا حساب رکھتا کہ وہ کس قدر تیزی سے بڑھ رہا ہے۔
اسلام نے ریاست پر یہ لازم کیا ہے کہ وہ قیمتی دھات کی بنیاد پر کرنسی نوٹوں کو جاری کرے اور اس طرح اسلام نے افراط زر کی بنیادی وجہ ہی کا خاتمہ کردیاہے۔ رسول اللہ ﷺ نے مسلمانوں کو حکم دیا کہ وہ ریاست کی کرنسی کے طور پر سونے کے دیناراور چاندی کے درہم ڈھالیں جن کا وزن بالترتیب 4.25گرام اور 2.975گرام ہو۔ یہی وجہ تھی کہ ریاست خلافت ایک ہزار سال سے بھی زائد عرصے تک قیمتوں میں استحکام قائم رکھنے میں کامیاب رہی۔ جو سب سے آسان کام جناب ڈار اور ان کے ساتھی کرسکتے ہیں وہ یہ ہے کہ وہ خلافت کے قیام کے لیے حزب التحریر کے لیے راستہ کھلا چھوڑ دیں تا کہ اسلام کا نفاذ کیا جاسکے۔ صرف خلافت کے زیر سایہ اللہ سبحانہ و تعالیٰ اور رسول اللہ ﷺ کے احکامات کو نافذ کرکے ہی مسلمان پوری دنیا کی معاشی ترقی کے لیے ایک مثال قائم کرسکتے ہیں۔

Read more...

سوال وجواب : امریکی پالیسی کے حوالے سے ایران کا کردار

سوال :امریکی پالیسی کے حوالے سے ایران کا کردار کیا ہے؟دوسرے لفظوں میں خطے میں رونما ہونے والے واقعات میں ایران کی امریکی پالیسی سے الگ اپنی کوئی پالیسی ہے؟ کیا ہم یہ کہہ سکتے ہیں کہ ایران خطے میں ایک خاص فکر کا علمبردار ہیں جو کہ جعفری مذہب ہے؟آخری بات یہ ہے کہ ایران کے ایٹمی اسلحے کے بارے میں امریکہ کا حقیقی موقف کیا ہے؟ جواب:اس کا…
Read more...

حزب التحریرنے خلافت کے عدالتی پالیسی کا اعلان کردیا یقینی،بروقت اور بغیر کسی امتیاز کے انصاف فراہم کرنے کے لیے عدالتی پالیسی

حزب التحریر ولایہ پاکستان نے عدالتی پالیسی کے حوالے سے مندرجہ ذیل پالیسی دستاویزجاری کی ہے۔یہ پالیسی ایسے عدالتی نظام کو یقینی بنائے گی جو بدعنوانی اورامتیازی سلوک سے پاک ہو، لوگوں کے حقوق کی فراہمی کو یقینی بنائے اور حکمرانوں کے احتساب میں انتہائی سخت ہو۔
اسلام کا عدالتی نظام انسانی تاریخ کا سب سے سے زیادہ تفصیلی اور گہری سوچ پر مبنی نظام ہے۔ رسول اللہ ﷺ کے وقت سے اسلام بروقت اور کسی بھی امتیاز سے مبرا انصاف فراہم کرنےکے حوالے سے پہچانا جاتا ہے۔ لیکن خلافت کے خاتمے اور شریعت کے نفاذ کی منسوخی کے بعد سے لوگوں کےدرمیان اختلافات اور جھگڑوں کےتصفیے، حکمرانوں کے احتساب اور لوگوں کے حقوق کی فراہمی کے معاملات انتہائی دگرگوں صورتحال اختیار کرچکے ہیں۔
بروقت، بلامتیاز اور شفاف انصاف کی فراہمی اسلامی کے عدالتی نظام کی پہچان ہے۔ اس کے علاوہ تیرہ سو سالوں تک شریعت دنیا بھر کی تہذیبوں کے لیے ایک راہنما تھی جس نے مغربی اقوام کو اپنے قانونی اور حکمرانی کے اصول و ضوابط میں تبدیلی لانے پر مجبور کیا، مثلاًفرانس کا نیپولیونک کوڈ، برطانیہ کا میگنا کارٹا اور امریکی آئین۔
جمہوریت کے برخلاف اسلام میں یہ اللہ سبحانہ و تعالی ہی ہے جو جرم، اس کو ثابت کرنے کے لیے درکار ثبوت اور سزا سے متعلق قوانین سے انسانیت کو آگاہ کرتا ہے۔ اللہ تعالی فرماتا ہے:أَلَا يَعْلَمُ مَنْ خَلَقَ وَهُوَ اللَّطِيفُ الْخَبِيرُ "کیا وہی نہ جانے جس نے پیدا کیا؟ پھر وہ باریک بین اور باخبر بھی ہو"(الملک:14)۔ لہٰذا اسلام میں طاقت، رتبے یا کسی بھی اور وجہ کی بنیاد پر کوئی امتیازی قوانین نہیں ہوتے کیونکہ یہ قوانین اللہ سبحانہ و تعالی کی جانب سے نازل کیے گئے ہیں۔ کمزور کے حقوق کا تحفظ کیا جاتا ہے اس بات سے قطع نظر کہ اس کا تعلق کس نسل، رتبے، جنس، مکتبہ فکر یا مذہب سے ہے۔ اسلام میں کسی حکمران کو اسلام کے احکامات سے استثناء حاصل نہیں ہوتا چاہے وہ خلیفہ ہو یا والی (گورنر)۔
اسلام نہ صرف طاقتور کو ظلم سے روکتا ہے بلکہ بروقت انصاف کی فراہمی کو بھی یقینی بناتا ہے۔ اسلام کا عدالتی نظام ایک منفرد نظام ہے جس میں اپیل کی کوئی گنجائش نہیں ہوتی اور نہ ہی مختلف درجوں کی عدالتیں ہوتی ہیں کہ جن کی وجہ سے آج لوگ ایک گرداب میں پھنس جاتے ہیں۔ جب ایک بار ایک مقدمے میں اللہ کا حکم ثابت ہوجاتا ہے تو مقدمہ ختم ہوجاتا ہے۔ صرف اُس صورت میں مقدمہ دوبارہ کھولا جاسکتا ہے کہ اگر فیصلہ اللہ کے حکم کے خلاف ہو یا مقدمے کی حقیقت کو نظر انداز کردیا گیا ہو۔
جہاں تک سزاؤں کا تعلق ہے تواسلام نے ایسی سزائیں تجویز کی ہیں جو مجرموں کو جرم کرنے سے باز رکھتی ہیں جبکہ مغربی سزائیں جرائم میں مسلسل اضافے کا باعث بنتی ہیں جس کے نتیجے میں جیلوں کی تعداد بڑھتی جارہی ہے۔
اس پالیسی اوراس سے متعلق ریاست خلافت کے دستور کی دفعات کے تفصیلی دلائل جاننے کے لیے اس ویب سائٹ لنک کو دیکھیے۔
http://htmediapak.page.tl/policy-matters.htm

 

Read more...
Subscribe to this RSS feed

دیگر ویب سائٹس

مغرب

سائٹ سیکشنز

مسلم ممالک

مسلم ممالک