بسم الله الرحمن الرحيم
خلافت کے خاتمے کے 102 سال گزر جانے پر
حزب التحریر کے امیر، ممتاز عالم، عطاء بن خلیل ابو الرَشتہ کا خطاب
(ترجمہ)
تمام تعریفیں اللہ تعالیٰ ہی کے لیے ہیں اور درود و سلام ہو اللہ کے رسول ﷺ پر، آپﷺ کی آل پر، صحابہ رضی اللہ عنہم پر اور ان لوگوں پر جنہوں نے آپﷺ کی پیروی کی۔ بات کا آغاز کرتے ہیں۔۔۔
مسلم امت کو بالعموم اور خلافتِ راشدہ کی بحالی کے لیے کام کرنے والے دعوت کے حاملین کو بالخصوص۔۔۔
السلام علیکم ورحمتہ اللہ و برکاتہ
اس دن، 28 رجب 1342 ہجری بمطابق 3 مارچ 1924 عیسوی کو، یعنی 102 ہجری سال قبل، برطانیہ کی قیادت میں استعماری کفار، عرب اور ترک غداروں کے ساتھ مل کر، ریاستِ خلافت کو ختم کرنے میں کامیاب ہو گئے۔ مصطفیٰ کمال نے استنبول میں خلافت کو ختم کرکے کھلے کفر کا ارتکاب کیا، اس کے ساتھ ہی خلیفہ کا محاصرہ کیا اور انہیں علی الصبح جِلاوطن کر دیا ۔ پھر وہی ہوا، خلافت کی تباہی کے ساتھ ہی یہ دردناک مصیبت مسلم سرزمین میں آ پہنچی ۔۔۔۔ امت پر یہ فرض تھا کہ کھلے عام کفر کا ارتکاب کرنے والے مجرم مصطفٰیٰ کمال کے خلاف ہتھیار اٹھاتی اور اس سے لڑتی جیسا کہ متفق علیہ حدیث میں عبادہ بن صامت ؓ سے مروی ہے، رسول اللہﷺ نے فرمایا،
« وَأَنْ لَا نُنَازِعَ الْأَمْرَ أَهْلَهُ إِلَّا أَنْ تَرَوْا كُفْراً بَوَاحاً عِنْدَكُمْ مِنْ اللَّهِ فِيهِ بُرْهَانٌ»
"اور یہ کہ ہم اقتدار والوں سے اختیار کے بارے میں جھگڑا نہیں کریں گے، جب تک کہ تم کوئی کھلا کفر نہ دیکھ لو، جس کے بارے میں تمہارے پاس اللہ کی حتمی دلیل موجود ہو"(بخاری و مسلم)۔
تاہم، امت نے اس مجرم اور اس کے مددگاروں کو روکنے کے لیے کچھ نہیں کیا، کہ مصطفٰیٰ کمال اور اس کے ساتھی ہی نقصان اٹھانے والے ہوتے۔ اس کی بجائے، امت کا ردِعمل کمزور تھا بلکہ اس قابل بھی نہیں تھا کہ اسے ردِعمل کہا جا سکے!
اس کے بعد امت کی تاریخ تاریک ہوگئی۔ اس سے پہلے امت کی ریاست خلافت موجود تھی، جو حق و انصاف پر قائم تھی۔ اب، امت کے پاس پچاس سے زائد کٹی پھٹی ریاستیں ہیں، اور ان کے حکمرانوں کے درمیان شدید تقسیم اور اختلاف ہے۔ رجب کے مہینے میں آنے والا شام اور ترکی کا زلزلہ بھی ان کی تقسیم کو ختم نہ کرسکا، کہ وہ ایک ریاست کی حیثیت سے اپنی وحدت کو بحال کرتے۔ اس کی بجائے، وہ زلزلے سے پہلے اور بعد میں بھی پھٹے ہوئے ٹکڑوں کی مانند ہی پڑے ہیں ، اور انہوں نے سبق نہیں سیکھا! حالانکہ اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا ہے،
﴿أَوَلَا يَرَوْنَ أَنَّهُمْ يُفْتَنُونَ فِي كُلِّ عَامٍ مَرَّةً أَوْ مَرَّتَيْنِ ثُمَّ لَا يَتُوبُونَ وَلَا هُمْ يَذَّكَّرُون﴾
"کیا یہ دیکھتے نہیں کہ یہ ہر سال ،ایک یا دو بار، آزمائش میں مبتلا کیے جاتے ہیں پھر بھی توبہ نہیں کرتے اور نہ نصیحت پکڑتے ہیں"(التوبہ، 9:126)۔
تاہم اس زلزلے کی آفت نے ظاہر کر دیا ہے کہ اسلام مسلمانوں میں گہرائی کے ساتھ پیوست ہے اور ان کے وجود کا مستقل حصہ ہے۔ جب وہ اپنے بھائیوں کو ملبے کے نیچے سے نکال رہے تھے تو مسلسل تکبیر کی صدائیں بلند ہورہی تھیں۔ ان کی زبانوں پر تکبیر جاری تھی، خاص طور پر جب وہ ایک نومولود کو بچا رہے تھے، جس کی ماں نے اسے جنم دیا مگر وہ ملبے تلے ہی دم توڑ گئی۔۔۔ یا وہ شخص جو ملبے سے ڈھکا ہوا تھا، مگر اس کے ہاتھ میں تسبیح نظر آئی جس کے ذریعے وہ اللہ تعالیٰ کی حمد و ثنا کر رہا تھا۔۔۔ یا جب وہ ایک عورت کو منہدم عمارت کے نیچے سے نکالنے کی کوشش کر رہے تھے تو اس عورت نے باہر نکالے جانے سے پہلے اپنا سر ڈھانپنے کے لیے کپڑا مانگا تاکہ وہ نکالے جانے پر بے پردہ نظر نہ آئے۔۔۔ یا جب ملبے کے نیچے پھنسے ہوئے شخص نے اپنے نکالنے والے سے سب سے پہلے وضو کے لیے پانی مانگا، تاکہ نماز کا وقت نہ چھوٹ جائے۔۔۔۔لوگ ایک شخص کو ملبے کے درمیان سے نکالنے کی کوشش کر رہے ہیں جبکہ انہوں نے دیکھا کہ وہ شخص قرآن میں سے سورۃ البقرۃ کی تلاوت کررہا ہے۔۔۔ یا وہ لڑکی کہ جسے وہ باہر نکالنے کی کوشش کر رہے تھے، اور وہ اپنے دکھ کا اظہار کررہی تھی کہ وہ اُس دن نماز ادا نہیں کر سکی۔۔۔ اور اس سب کے دوران تکبیر کی صدائیں گونج رہی تھیں، اللہ اکبر۔۔۔ یہ ہیں مسلمان! اللہ تعالیٰ زلزلے میں جاں بحق ہونے والے ہر مسلمان کی مغفرت فرمائے۔ اللہ تعالیٰ کے حکم سے وہ آخرت کے شہداء میں شامل ہوں۔ اللہ تعالیٰ زخمیوں کو شفا دے، ایسی شفا جو بیماری اور تکلیف کا نام و نشان مٹا دے۔۔۔ اللہ تعالیٰ زندہ بچ جانے والے ہر مسلمان کی مدد فرمائے۔ اللہ تعالیٰ اسے اچھی زندگی عطا فرمائے کہ وہ اسےاللہ اور اس کے رسول ﷺ کی اطاعت میں گزارے۔۔۔
یہ ہیں مسلمان، جبکہ دوسری طرف مسلم سرزمین کے حکمران ان سے یکسر مختلف ہیں۔ یہ فرق اِن 102 ہجری سالوں میں، خلافت کے خاتمے کی عظیم آفت کے بعد سے رونما ہوا! پھر خلافت کے انہدام سے فائدہ اٹھاتے ہوئے استعماری کفار نے مسلمانوں کو ایک اور تکلیف دہ مصیبت میں مبتلا کر دیا۔ انہوں نے یہودیوں کو مبارک سرزمین میں ایک ریاست مہیا کی ، وہ سرزمین جو نبی کریم ﷺ کے اسراء کی منزل تھی اور جہاں سے اللہ کے رسول ﷺ معراج کے لیے آسمانوں کی طرف روانہ ہوئے تھے۔ اس کے بعد استعماری کفار نے اس ریاست کو زندہ رکھنے کے ذرائع فراہم کیے۔ ان میں سے سب سے اہم ذریعہ اس کی حفاظت کے لیے اس کے ارد گرد کٹھ پتلی حکمرانوں کی حکومتوں کا قیام تھا ۔ چنانچہ انہوں نے ہر جنگ میں یہودیوں کے ہاتھوں شکست کھائی، یہاں تک کہ انہوں نے یہودی ریاست کے ناقابل شکست ہونے کا تاثر قائم کر دیا جو اس کے برعکس ہے جو اللہ تعالیٰ نے یہودیوں کے متعلق بیان کیا ہے، اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے،
﴿وَضُرِبَتْ عَلَيْهِمُ الذِّلَّةُ وَالْمَسْكَنَة﴾
"اور ان پر ذلت اور محتاجی ڈال دی گئی"(البقرۃ، 2:61)۔
مسلم دنیا کے یہ حکمران صرف اسی پر مطمئن نہیں ہوئےبلکہ انہوں نے اس مسئلے کو یہودی وجود کے خاتمےسے بدل کر، اس کے ساتھ بات چیت کرنے میں تبدیل کرنے کی تمام کوششیں کیں، اور یہودی ریاست سے یہ درخواست کی کہ وہ 1967 ءمیں اس کے قبضے میں چلے جانے والے علاقوں میں سے کچھ علاقے سے دستبردار ہو جائے!
یہودیوں کی اس ریاست نے فلسطین میں سب سے گھناؤنے جرائم سرانجام دیے اور اب بھی دے رہی ہے۔ 26 جنوری 2023 ءکو جنین میں ہونے والا قتلِ عام اس کی گواہی دیتا ہے۔یہودی افواج نے بھاری اسلحے سے لیس ہو کر جنین پر دھاوا بول دیا اور قتل وغارت کیا جس سے نو افراد شہید ہو گئے۔ ان کے جرائم میں لوگوں کو قتل کرنا، زخمیوں پر دیواریں گرانا اور ان پر بلڈوزر چلانا شامل ہیں۔ پھر انھوں نے نابلس میں اپنی جارحیت جاری رکھی، عقبہ جبر کیمپ پر حملہ کیا، جس کے نتیجے میں وہاں کے لوگ شہید اور زخمی ہوئے۔۔۔اور اس سب کچھ کے دوران مسلم سرزمین کے حکمرانوں نے مظلوم مسلمانوں کو بچانے کے لیے کوئی کوشش ہی نہیں کی۔ اس کی بجائے، ان خائن حکمرانوں میں سب سے کم خائن وہ تھا جس نے مجرم اور مظلوم کے درمیان ثالثی کی پیشکش کی۔ اللہ تعالیٰ ان کو تباہ کرے کہ کس طرح یہ حق سے منہ موڑ رہے ہیں!۔ وہ اس سے بڑھ کر کیوں کریں گے، کیونکہ وہ تو یہودیوں کے ساتھ تعلقات قائم کرنے کے جرم کی طرف لپکتے ہیں! ذلت اور رسوائی کے اس مارچ کی قیادت مصر کے حکمرانوں کے بعد، PLO اور پھر اردن، متحدہ عرب امارات، بحرین اور مراکش کے حکمرانوں نے کی، اور اب سوڈان ان کے ساتھ اس جرم میں شامل ہو نے جارہا ہے۔ سوڈان کے صدر البرہان نے 2 فروری 2023 ءکو خرطوم میں یہودی وزیر خارجہ ایلی کوہن سے ملاقات کی تاکہ تعلقات کو معمول پر لانے پر تبادلہ خیال کیا جا سکے۔ ان میں سے کسی کو بھی اس ذلت کی پرواہ نہیں ہے جو انہیں گھیر رہی ہے۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا،
﴿سَيُصِيبُ الَّذِينَ أَجْرَمُوا صَغَارٌ عِنْدَ اللَّهِ وَعَذَابٌ شَدِيدٌ بِمَا كَانُوا يَمْكُرُونَ﴾
"جو لوگ جرم کرتے ہیں ان کو اللہ کے ہاں ذلّت اور عذابِ شدید ہوگا، اس لیے کہ وہ مکاریاں کرتے تھے"(الانعام، 6:124) ۔
یہ واقعی عجیب بات ہے کہ یہودی وجود کی طرف سے ہر اشتعال انگیزی یا ہر جرم کے ارتکاب کے موقع پر، اس کے رہنما، محض ایک یا دو دن پہلے، عرب حکمرانوں سے بغل گیر ہورہے ہوتے ہیں یا ان کے دورے پر ہوتے ہیں۔ جنین پر جرم سے پہلے، نیتن یاہو اردنی حکومت کے محل میں مہمان تھا!۔۔۔ جنین پر جرم کے دوران، فلسطینی اتھارٹی یہودیوں کے ساتھ سیکورٹی تعلق کو مربوط کررہی تھی جس کا اس نے خود اعتراف کیا ۔ فلسطینی اتھارٹی نے دعویٰ کیا کہ جنین پر جرم کے بعد وہ سیکورٹی ہم آہنگی کو ختم کر دے گی۔ یہ سب کچھ تو ہے ہی ،لیکن سب سے زیادہ حیران کن اور عجیب بات یہ ہے کہ جب جنین پر حملے کے بعد فلسطین کے ہیروز میں سے ایک ہیرو نے اپنی سرزمین اور اس کے عوام کا دفاع کرتے ہوئے القدس آپریشن میں سات یہودیوں کو ہلاک کر دیا تو مسلم ممالک کے حکمران اس کی مذمت کے لیے دوڑ پڑے! ترکی، متحدہ عرب امارات، اردن اور مصر کی وزراتِ خارجہ نے پریس بیانات میں القدس آپریشن کی مذمت کی!!
صرف فلسطین اکیلا ہی نہیں ہے کہ جس کی پیٹھ میں ان حکمرانوں نے چُھرا گھونپا ہے، بلکہ وہ اسلامی سرزمین کے دیگر حصوں سے بھی دستربردار ہوگئے ہیں یا انہوں نے کفار کے سامنے اپنے ہتھیار ڈال دیے ہیں۔ کشمیر کو ہندو مشرکین نے زبردستی اپنی ریاست میں شامل کر لیا، جبکہ پاکستان کے حکمران خاموش ہیں، میانمار (برما) میں روہنگیا مسلمانوں کو قتل کیا جا رہا ہے، جبکہ بنگلہ دیش کے حکمران گویا سوئے ہوئے ہیں، جیسے انہوں نے کچھ دیکھا ہی نہیں ۔۔۔اس کے بعد مشرقی ترکستان ہے، جس میں چین قتل عام کر رہا ہے، جبکہ مسلم سرزمین میں موجودہ ریاستیں قبروں کی خاموشی کی طرح چُپ ہیں۔ جب بھی وہ اس قتل عام کے حوالے سے بات کرتی ہیں تو کہتی ہیں کہ یہ چین کا اندرونی معاملہ ہے! اللہ تعالیٰ نے فرمایا،
﴿كَبُرَتْ كَلِمَةً تَخْرُجُ مِنْ أَفْوَاهِهِمْ إِنْ يَقُولُونَ إِلَّا كَذِباً﴾
"(یہ) بڑی سخت بات ہے جو ان کے منہ سے نکلتی ہے (اور کچھ شک نہیں) کہ یہ جو کہتے ہیں محض جھوٹ ہے"(الکھف، 18:5)۔۔۔
استعماری کفار اس ذلت سے ہی مطمئن نہیں ہوئے جس سے انہوں نے امت کو دوچار کررکھا ہے بلکہ انہوں نے مسلمانوں کے عقیدے کی بھی توہین کی۔ چنانچہ جب سویڈش حکام نے اجازت دی، تو 21 جنوری 2023 ء بروز ہفتہ کو، سٹاک ہوم میں ترک سفارت خانے کی عمارت کے سامنے، ایک گھٹیا انتہا پسند نے مقدس قرآن کا نسخہ نذر آتش کیا۔۔۔ پھر انہوں نے انہی جرائم کے تسلسل میں ہیگ میں اور پھر کوپن ہیگن میں جمعہ 27 جنوری 2023ء کو قرآن پاک کے نسخے کو جلایا ۔۔۔ اس کے بعد ہم نے دیکھا کہ مصر کی جامعہ الازہر نے انتہا پسندی سے نمٹنے کے لیے اپنے الازہر آبزرور(Al-Azhar Observer) کے ذریعے سخت الفاظ میں ایک مذمتی بیان جاری کیا، جس میں دین کے تقدس کو پامال کرنے کےان جرائم کے خلاف کھڑے ہونے کا مطالبہ کیا گیا تھا ۔۔۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ الازہر کے علماء جانتے ہیں کہ قرآن مجید کو جلانے کا ردِعمل محض زبانی مذمت نہیں ہے بلکہ اللہ کی کتاب اور اس کے دین کی حمایت میں اسلامی دنیا کی افواج کو لازمی طور پر متحرک کرنا ہے۔ قرآن مجید کو جلانا مسلم امت اور اس کے عقیدے کے خلاف اعلانِ جنگ ہے۔ اس کا درست ردعمل ایک ایسی جنگ ہے جو سرکش کفار کو روکنے کے لیے ایسا خوف پیدا کردے کہ وہ ایک مثال بن جائے۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا،
﴿فَإِمَّا تَثْقَفَنَّهُمْ فِي الْحَرْبِ فَشَرِّدْ بِهِمْ مَنْ خَلْفَهُمْ لَعَلَّهُمْ يَذَّكَّرُون﴾
"اگر تم ان کو لڑائی میں پاؤ تو انہیں ایسی سزا دو کہ جو لوگ ان کے پسِ پشت ہیں وہ ان کو دیکھ کر بھاگ کھڑے ہوں،تاکہ ان کو (اس سے) عبرت ہو"(الانفال، 8:57)۔
اے مسلمانو: مسلمانوں پر جارحیت کا مقابلہ بظاہر خوبصورت نظر آنے والے الفاظ سے نہیں کیا جاتا، نہ ایسی خالی تقریر سے جس سے نہ تو کوئی فائدہ ہو اور نہ ہی ضرورت پوری ہو۔ بلکہ جارحیت کو تلوار کی دھار سے پسپا کیا جاتا ہے، فولاد کی ایسی ضرب سے کہ دشمن کو شیطان کے وسوسے بھول جائیں۔جب مسلمانوں کی خلافت موجود تھی تو وہ ایسا ہی جواب دیا کرتے تھے اور ان کے زمانوں کے واقعات کا رُخ اس کا گواہ ہے۔ یہ ایک طے شدہ حقیقت ہے اور کوئی بھی بصیرت اور دوراندیشی رکھنے والا اس سےانکار نہیں کر سکتا۔۔۔اس کی مثالیں مسلمانوں کی تاریخ میں موجود ہیں، جو ابن کثیر کی کتاب "بدایہ و النہایہ"، بلاذری کی کتاب"فتوح البلدان"، ابن خلدون کی کتاب "التاریخ" ، اور ذھبی کی کتاب "تاریخِ اسلام" وغیرہ میں نقل ہوئی ہیں۔ اب میں ان میں سے کچھ مثالیں آپ کے سامنے نقل کرتا ہوں:
"پھر 87 ہجری کا سال آیا۔۔۔ اس میں قتیبہ بن مسلم نے بیکند کا علاقہ فتح کیا، جو بخارا کے اضلاع میں سے ایک ہے۔۔۔ اور لڑائی میں آدھا دن بھی نہیں گزرا تھا کہ اللہ تعالیٰ نے ان کو فتح عطا فرما دی۔۔۔ مسلمانوں پر حملہ کرنے والا ان میں سے ایک آنکھ والا ایک آدمی تھا۔ جب وہ پکڑا گیا تو اس نے کہا، "میں اپنا تاوان پانچ ہزار چینی ملبوسات دیتا ہوں، جن کی مالیت لاکھوں میں ہے"، چنانچہ سرداروں نے قتیبہ کو مشورہ دیا کہ وہ اس سے قبول کر لیں۔ قتیبہ نے کہا:
"نہیں، اللہ کی قسم، تم پھر کبھی کسی مسلمان میں خوف پیدا نہیں کرسکو گے"۔ پھر اس کے بارے میں حکم دیا اور اس کی گردن مار دی گئی"۔
"پھر 90 ہجری کا سال آیا۔۔۔ اس میں سندھ کے حکمران راجہ داہر نے مسلمان عورتوں کو لے جانے والے جہاز پر حملہ کیا اور انہیں قید کر لیا۔ چنانچہ خلیفہ نے اپنے والی (گورنر) کو پیغام بھیجا کہ اس ظالم سے بدلہ لے۔ اس طرح محمد بن قاسم نے ایک فوج کی قیادت کی اور مسلمان عورتوں کو بچایا، اس ظالم حکمران سے بدلہ لیا اور سندھ کی سرزمین کو فتح کر لیا"۔
"پھر 223 ہجری کا سال آیا، اور بازنطینیوں Byzantineکے حکمران نے مسلمانوں کی سرزمین پر نکل کر زبطرہ کے لوگوں کو قتل اور گرفتار کیا۔ ایک عورت نے پکارا : وَامُعتصماہ "ہائے معتصم، تم کہاں ہو؟ "۔ یہ پکار خلیفہ معتصم تک پہنچی تو انہوں نے جواب دیا،"میں تمہاری خدمت میں حاضر ہوا"۔ پس اس نے ذاتی طور پر ایک فوج کی قیادت کی اور اس مظلوم عورت کا بدلہ لیا۔۔۔اس نے پوچھا کہ بازنطینیوں کے علاقوں میں سب سے شاندار علاقہ کون سا ہے۔ اسے بتایا گیا کہ عموریہ ، جو "انقرہ کے قریب" تھا۔ چنانچہ اس نے اسے فتح کر لیا"۔
"پھر 582ہجری کا سال آیا۔۔۔ اس میں کرک کے قابض ارناط (رینالڈ) نے مصر سے آنے والے حجاج کے ایک بڑے قافلے کا راستہ روک لیا۔ اس نے بعض حجاج کو قتل کیا اور بعض کو پکڑ لیا۔ چنانچہ سلطان صلاح الدین نے جنگ کی تیاری کی۔ انہوں نے ملک سے فوجیوں کو طلب کیا۔ صلاح الدین نے قسم کھائی کہ اگر وہ ارناط پر فتح یاب ہوئے تو وہ اسے قتل کر دیں گے۔ چنانچہ اللہ تعالیٰ نے انہیں سنہ 583 ہجری ربیع الثانی کے وسط میں جنگ حطین میں فتح نصیب فرمائی۔ پھر صلاح الدین نے ارناط کو اس کی غداری اور راستہ روکنے کی سزا کے طور پر اپنے ہاتھ سے قتل کیا۔ اس کے بعد 27 رجب 583 ہجری کو مسجد الاقصیٰ آزاد ہوئی"۔
"پھر 1307 ہجری ، 1890 عیسوی میں، ایک تحریر کے مصنف نے اپنی تحریر کو، جس میں رسول اللہ ﷺ پر بہتان لگایا گیا تھا، پیرس کے ایک تھیٹر میں ڈرامے کے طور پر دکھانے کی کوشش کی ۔ خلیفہ عبدالحمید کو جب اس بات کا علم ہوا تو انہوں نے استنبول میں فرانسیسی سفیر کو طلب کیا اور جان بوجھ کر فوجی وردی میں اس سے ملاقات کی۔ پھر سلطان نے اسے دھمکی دی کہ اگر یہ ڈرامہ دکھایا گیا تو عثمانی ریاست حالتِ جنگ کااعلان کرکے فرانس کے ساتھ تعلقات منقطع کرنے کا اعلان کر دے گی۔ اس نے سخت لہجے میں اسے مخاطب کرتے ہوئے کہا "میں مسلمانوں کا خلیفہ ہوں، اگر تم نے یہ ڈرامہ بند نہ کیا تو میں دنیا کو تمہارے سر پر الٹا دوں گا"۔ فرانس نے اس دھمکی کے نتیجےمیں اپنے لوگوں کویہ ڈرامہ سٹیج کرنے سے روک دیا ۔۔۔"۔
استعماری کفار اس وقت اس بات سے آگاہ تھے کہ اسلام اور مسلمانوں کے مقدسات کو پامال کرنے کی صورت میں ان کی زبانیں کاٹ دی جائیں گی اور ان کے پاؤں توڑ دیے جائیں گے۔ ۔۔مگر آج مقدس قرآن کو جلایا جاتا ہے، رسول اللہﷺ کی شان میں توہین کی جاتی ہے، اور مسلم علاقوں پر حملہ کیا جاتا ہے، لیکن جارحیت کا بدلہ نہیں لیا جاتا! ایسا صرف اس لیے ہورہا ہے کہ کوئی امام، خلیفۂ راشد موجود نہیں، جو امت کو دشمنوں کے شر سے محفوظ رکھے۔۔۔ صحیح متفق علیہ حدیث میں ہے کہ آپ ﷺ نے فرمایا:
«إِنَّمَا الْإِمَامُ جُنَّةٌ، يُقَاتَلُ مِنْ وَرَائِهِ، وَيُتَّقَى بِهِ»
" امام ڈھال ہے، اس کی آڑ میں لڑا جائے اور اس کی مدد کے ساتھ دشمن سے بچا جائے"(بخاری و مسلم)۔
آخر میں، میں آپ سے اپنی پکار دہراتا ہوں، اے اہل قوت و تحفظ ۔۔۔ یہ آپ ہی ہیں جو امت کے سینے کو اس کے دشمنوں، اپنے دین کے دشمنوں سے شفا دے سکتے ہیں۔ مسلمانوں کو ان کے علاقوں میں جو ذلت پہنچی ہے اس کو صرف آپ ہی ختم کرسکتے ہیں۔۔۔ اس لیے اٹھیں، اپنا فرض ادا کریں، اللہ آپ پر برکت نازل فرمائے۔ اٹھیں اور ہمیں نُصرۃ دیں، خلافت راشدہ کے قیام کے لیے حزبُ التحریر کو نصرۃ دینے کے لیے اٹھیں۔ ایسا صرف اس حقیقت کی بنا پر نہیں کہ یہی فتح کا واحد راستہ ہے۔ بلکہ خلافت کا قیام ایک عظیم فرض ہے۔ اول یہ کہ جو شخص خلافت کوقائم کرنے ، اور بیعت کے مستحق خلیفہ کا تقرر کرنے کی استطاعت رکھنے کے باوجود اس مقصد کے لیے کام نہ کرے تو اس کا گناہ اتنا بڑا ہے کہ گویا وہ قبل از اسلام (جاہلیت) کی موت مر گیا، جو اس گناہ کی شدت کا ثبوت ہے۔ آپ ﷺ نے فرمایا،
«وَمَنْ مَاتَ وَلَيْسَ فِي عُنُقِهِ بَيْعَةٌ، مَاتَ مِيتَةً جَاهِلِيَّةً»
" اور جو شخص اس حال میں مرا کہ اس کی گردن میں (خلیفہ کی) بیعت نہیں تو وہ جاہلیت (قبل ازاسلام) کی موت مرا"(مسلم)۔
دوئم یہ کہ مسلمانوں نے رسول اللہ ﷺ کے وصال کے بعد پہلےخلیفہ کی بیعت کی، اس کے بعد ہی انہوں نے رسول اللہ ﷺ کی تدفین کے لیے تیاری کی اور آپ ﷺکی تدفین کا فرض انجام دیا۔ یہ سب خلافت کی اہمیت کی وجہ سے ہے۔ تیسرا یہ کہ عمرؓ نے اپنی وفات کے دن یہ مقرر کیا کہ وہ چھ صحابہ ، جن کو جنت کی بشارت دی گئی تھی، "تین دن" کی مدت میں امت کے لیے اپنے میں سے ایک خلیفہ کا چناؤ کریں ۔ اور حکم دیا کہ اگر اس مدت کے اندر خلیفہ کے بارے میں ان چھ میں کوئی معاہدہ نہ ہوسکا تو اختلاف کرنے والے کو قتل کردیا جائے۔ یہ احکامات حضرت عمرؓ نےصحابہ کرام رضی اللہ عنہم کی ایک مجلس میں دیے تھے اوران سے کوئی اختلاف روایت نہیں ہوا۔ چنانچہ یہ صحابہ کرامؓ کا متفقہ اجماع تھا۔ تاہم، جہاں تک ہماری بات ہے تو، " ہزاروں تین دن " ہم پر گزر چکے ہیں! بے شک خلافت کا قیام بہت اہم معاملہ ہے۔
اے اللہ کے سپاہیو: ہمیں معلوم ہے کہ ہمارے لیے خلافت قائم کرنے کے لیے فرشتے آسمان سے نہیں اتریں گے۔ بلکہ اگر ہم خلافت کے قیام کے لیے محنت کریں گے تو اللہ تبارک وتعالیٰ ہماری مدد کے لیے فرشتے بھیجیں گے ۔ یہ اللہ تعالیٰ کی کتاب میں موجود سچا وعدہ ہے
﴿وَعَدَ اللَّهُ الَّذِينَ ءَامَنُوا مِنْكُمْ وَعَمِلُوا الصَّالِحَاتِ لَيَسْتَخْلِفَنَّهُمْ فِي الْأَرْضِ كَمَا اسْتَخْلَفَ الَّذِينَ مِنْ قَبْلِهِمْ﴾
"جو لوگ تم میں سے ایمان لائے اور نیک کام کرتے رہے ان سے اللہ کا وعدہ ہے کہ ان کو ملک کا حاکم بنادے گا جیسا ان سے پہلے لوگوں کو حاکم بنایا تھا"(النور، 24:55)۔
رسول اللہ ﷺ کی حدیث کے مطابق موجودہ جابرانہ حکومت کے بعد خلافت کے دوبارہ قیام کی خوشخبری دی گئی ہے ،
«…ثُمَّ تَكُونُ مُلْكاً جَبْرِيَّةً فَتَكُونُ مَا شَاءَ اللَّهُ أَنْ تَكُونَ ثُمَّ يَرْفَعُهَا إِذَا شَاءَ أَنْ يَرْفَعَهَا ثُمَّ تَكُونُخِلَافَةً عَلَى مِنْهَاجِ النُّبُوَّةِ»
"… اور پھر جب تک اللہ چاہے گا ایک جابرانہ حکومت رہے گی اور پھر جب وہ اسے ختم کرنا چاہے گا اسے ختم کر دے گا اور پھر نبوت کے نقش قدم پر خلافت ہو گی"(مسنداحمد)،
اور یہ کہہ کر آپﷺ خاموش ہوگئے۔ ہمیں یہ بھی احساس ہے کہ اسلام کے دشمن خلافت کے دوبارہ قیام کو ناممکن سمجھتے ہیں۔ان کے حامی یہ قول دہراتے ہیں اور مذاق اڑاتے ہیں،
﴿غَرَّ هَؤُلَاءِ دِينُهُمْ﴾
"ان کے دین نے انہیں دھوکے میں ڈال رکھا ہے"(الانفال، 8:49)۔
البتہ جس طرح یہ قول ان لوگوں پر وبال ہے جنہوں نے پہلے ایسا کہا تھا، کیونکہ اللہ نے اپنے دین کو عزت بخشی اور اپنی قوم کو فتح بخشی، اسی طرح آج یہ بات کہنے والوں پر اللہ رب العزت کی طرف سےوبال ہے، جو غالب، حکمت والا ہے اور اپنے اُن مخلص بندوں کے ساتھ ہے جو دل و جان سے محنت کرتے ہیں، اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے،
﴿إِنَّ اللَّهَ بَالِغُ أَمْرِهِ قَدْ جَعَلَ اللَّهُ لِكُلِّ شَيْءٍ قَدْراً﴾
"یقیناً اللہ اپنا کام پورا کر لیتا ہے۔ اللہ نے ہر چیز کا تعین کر رکھا ہے"(الطلاق، 65:3)۔
ہر گزرتے دن کے ساتھ وہ اللہ تعالیٰ کے اذن سے اس "متعین" امرکے قریب تر ہوتے جارہے ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا،
﴿وَيَقُولُونَ مَتَى هُوَ قُلْ عَسَى أَنْ يَكُونَ قَرِيبًا﴾
"وہ پوچھتے ہیں، "یہ کب ہوگا؟" کہو، "ہو سکتا ہے کہ (اس کا وقت) قریب ہی ہو!"(الاسراء، 17:51)۔
والسلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
آپ کا بھائی،
عطا ءبن خلیل ابو الرشتہ
امیر حزب التحریر
28 رجب، 1444 ہجری
19 فروری، 2023 ء
Follow the Campaign page for more info: Click Here
Follow & Share Campaign Hashtags:
#Time4Khilafah |
#EstablishKhilafah |
#ReturnTheKhilafah |
#TurudisheniKhilafah |
#KhilafahBringsRealChange |
#بالخلافة_يحصل_التغيير_الحقيقي |
أقيموا_الخلافة# |
كيف_تقام_الخلافة# |
#YenidenHilafet |
#HakikiDeğişimHilafetle |