الأربعاء، 22 رجب 1446| 2025/01/22
Saat: (M.M.T)
Menu
القائمة الرئيسية
القائمة الرئيسية

بسم الله الرحمن الرحيم

تفسیر سورۃ البقرۃ آیت نمبر (275-281)

 

 

جلیل قدر فقیہ شیخ عطاء بن خلیل ابو الرَشتہ کی کتاب"التیسیر فی اصول التفسیر" سے اقتباس

 

 

 

﴿الَّذِينَ يَأْكُلُونَ الرِّبَا لاَ يَقُومُونَ إِلاَّ كَمَا يَقُومُ الَّذِي يَتَخَبَّطُهُ الشَّيْطَانُ مِنْ الْمَسِّ ذَلِكَ بِأَنَّهُمْ قَالُوا إِنَّمَا الْبَيْعُ مِثْلُ الرِّبَا وَأَحَلَّ اللَّهُ الْبَيْعَ وَحَرَّمَ الرِّبَا فَمَنْ جَاءَهُ مَوْعِظَةٌ مِنْ رَبِّهِ فَانتَهَى فَلَهُ مَا سَلَفَ وَأَمْرُهُ إِلَى اللَّهِ وَمَنْ عَادَ فَأُوْلَئِكَ أَصْحَابُ النَّارِ هُمْ فِيهَا خَالِدُونَ * يَمْحَقُ اللَّهُ الرِّبَا وَيُرْبِي الصَّدَقَاتِ وَاللَّهُ لاَ يُحِبُّ كُلَّ كَفَّارٍ أَثِيمٍ * إِنَّ الَّذِينَ آمَنُوا وَعَمِلُوا الصَّالِحَاتِ وَأَقَامُوا الصَّلاَةَ وَآتَوْا الزَّكَاةَ لَهُمْ أَجْرُهُمْ عِنْدَ رَبِّهِمْ وَلاَ خَوْفٌ عَلَيْهِمْ وَلاَ هُمْ يَحْزَنُونَ * يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا اتَّقُوا اللَّهَ وَذَرُوا مَا بَقِيَ مِنْ الرِّبَا إِنْ كُنتُمْ مُؤْمِنِينَ * فَإِنْ لَمْ تَفْعَلُوا فَأْذَنُوا بِحَرْبٍ مِنْ اللَّهِ وَرَسُولِهِ وَإِنْ تُبْتُمْ فَلَكُمْ رُءُوسُ أَمْوَالِكُمْ لاَ تَظْلِمُونَ وَلاَ تُظْلَمُونَ * وَإِنْ كَانَ ذُو عُسْرَةٍ فَنَظِرَةٌ إِلَى مَيْسَرَةٍ وَأَنْ تَصَدَّقُوا خَيْرٌ لَكُمْ إِنْ كُنتُمْ تَعْلَمُونَ * وَاتَّقُوا يَوْمًا تُرْجَعُونَ فِيهِ إِلَى اللَّهِ ثُمَّ تُوَفَّى كُلُّ نَفْسٍ مَا كَسَبَتْ وَهُمْ لاَ يُظْلَمُونَ

 

جو لوگ سود کھاتے ہیں( قیامت میں) اُٹھیں تو اس شخص کی طرح اُٹھیں گے جسے شیطان نے چُھوکر بدحواس کر دیا ہو۔ یہ اس لیے ہوگا کہ انہوں نے کہا تھا کہ: ”تجارت بھی تو سود ہی کی طرح ہوتی ہے۔ حالانکہ اللہ نے تجارت کو حلال کیا ہے اور سود کو حرام قرار دیا ہے۔ لہٰذا جس شخص کے پاس اس کے پروردگار کی طرف سے نصیحت آگئی اور وہ ( سودی معاملات سے) باز آگیا تو ماضی میں جو کچھ ہوا وہ اسی کا ہے۔ اور اس ( کی باطنی کیفیت) کا معاملہ اللہ کے حوالے ہے۔ اور جس شخص نے لوٹ کر پھر وہی (سود) کیا تو ایسے لوگ دوزخی ہیں۔ وہ ہمیشہ اسی میں رہیں گے(275)۔ اللہ سود کو مٹاتا ہے اور صدقات کو بڑھاتا ہے۔ اور اللہ ہر اس شخص کو نا پسند کرتا ہے جو نا شکرا گنہگار ہو(276)۔ (ہاں) وہ لوگ جو ایمان لائیں، نیک عمل کریں ، نماز قائم کریں اور زکوٰۃ ادا کریں وہ اپنے رب کے پاس اجر کے مستحق ہوں گے، نہ انہیں کوئی خوف ہوگا، نہ کوئی غم  پہنچے گا (277)۔ اے ایمان والو ! تم اللہ سے ڈرو اور جو کچھ بھی سُود باقی رہ گیا ہے، اسے چھوڑ دو، اگر تم ایمان والے ہو (278)۔ پھر اگر تم نہ چھوڑو گے تو اللہ اور اس کے رسول ﷺ سے جنگ کے لئے خبردار ہو جاؤ، اور اگر تم نے توبہ کر لی تو تمہارا اصل زر تمہارے لئے ہے، نہ تم ظلم کرو اور نہ تم پر  ظلم کیا جائے گا (279)۔ اور اگر کوئی تنگ دست ہو تو کشادگی ہونے تک مہلت دے دو، اور اگر (قرض) بخش دو تو تمہارے لئے زیادہ بہتر ہے، اگر تم جانتے ہو (280)۔ اور اس دن سے ڈرو (جس دن) تم اللہ کی طرف لوٹائے جاؤ گے، پھر ہر شخص کو پورا پورا صلہ دیا جائے گا جو اس نے کمایا اور ان پر ظلم نہ کیا جائے گا(281)۔ (البقرۃ؛ 2: 275-281)

 

 

اللہ سبحانہ و تعالیٰ جل شانہ نے جب  ان لوگوں کا اجر و ثواب بیان فرمایا  جو اللہ کی راہ میں حلال اور طیب مال خرچ کرتے ہیں، تو اب اس کے بعد ان آیات کریمہ میں ان لوگوں کے انجام کا بیان ہے جو حرام  طریقے سے خرچ کرتے ہیں اور اللہ اور اس کے رسول ﷺ کی نافرمانی والے کاموں میں لگاتے ہیں۔

 

 

ان آیات کریمہ میں اللہ سبحانہ و تعالیٰ نے ربا (سود) کا ذکر فرمایا ہے اوراس کا جُرم عظیم ہونا اور سود خوروں کے بُرے کرتوتوں کوبیان کیا ہے، اس کے ساتھ اس قبیح گناہ اور بڑے منکر پر ان کو ہونے والے دردناک عذاب اور شدید سزا کا بھی ذکر ہے۔وہ اس طرح کہ :

 

 

اللہ تعالیٰ نے سُودی کاروبار کرنے والے کی مثال اس شخص سے دی ہے جو مرگی کی بیماری کی وجہ سی خبطی بن گیا ہو، اٹھنے بیٹھنے اور چلنے پھرنے میں وہ عجیب و غریب حرکتیں کرتا ہے، اس کا ہر عمل پاگل پن  اور بدحواسی کا مظہر ہوتا ہے، یہ مثال اس مناسبت سے دی ہے کہ سود خور، سود کو تجارت اور خرید و فروخت کی طرح ہی سمجھتا ہے، جو اس کے دماغی خلل پر دلالت کرتا ہے، کیوں کہ اللہ تعالیٰ نے سود کو حرام قرار دیا ہے اور خرید و فروخت کو حلال کر دیا ہے۔

 

اس کے بعد اللہ سبحانہ و تعالیٰ، جاہلیت میں لوگ جو سودی معاملات کرتے رہے ، ان کی معافی کا اعلان کرتے ہیں اور اہل ایمان کے لیے بیان فرماتے ہیں کہ سود کی حرمت نازل ہونے کے بعد اب ان پر لازم ہے کہ وہ اس حکم کی پابندی کریں اور اللہ اور اس کے رسولﷺ کی تابعداری اختیار کرلیں، سو د کی حرمت نازل ہونے کے بعد جو شخص سودی معاملات سے باز نہ آئے، اور اللہ تعالیٰ کے حرام کردہ کو حلال سمجھے تو ایسا شخص دردناک عذاب کے قابل ہے ، ایسا شخص جہنم والوں میں شامل ہے جس میں  وہ ہمیشہ رہے گا۔

 

جہاں تک ﴿الَّذِينَ يَأْكُلُونَ الرِّبَا جو لوگ سود کھاتے ہیں یعنی لیتے ہیں، ان کا ذکر ہے، تو یہاں ذکر سُود کھانے کا ہے مگر اس میں ہر قسم کا سُودی منافع شامل ہے۔  اسی طرح کا صیغہ (يَأْكُلُونَ) قرآن کریم میں مذمت پر دلالت کرنے کے لیے استعمال ہوا ہے۔ جیسے ﴿إِنَّ الَّذِينَ يَأْكُلُونَ أَمْوَالَ الْيَتَامَى ظُلْمًا إِنَّمَا يَأْكُلُونَ فِي بُطُونِهِمْ نَارًا وَسَيَصْلَوْنَ سَعِيرًا بیشک جو لوگ یتیموں کا مال ظلم کے ساتھ کھاتے ہیں، وہ اپنے پیٹوں میں آگ بھر رہے ہیں(النساء؛ 4:10)۔

 

اور اسی طرح ﴿يَتَمَتَّعُونَ وَيَأْكُلُونَ كَمَا تَأْكُلُ الأَنْعَامُ وَالنَّارُ مَثْوًى لَهُمْ وہ فائدہ اٹھاتے ہیں اور کھاتے ہیں جیسے جانور کھاتے ہیں، اور ان کے لیے آگ ہی آخری ٹھکانہ ہے (محمد؛ 47:12)۔ زیر مطالعہ آیت میں بھی اسی معنی میں آیا ہے۔

 

﴿لاَ يَقُومُونَوہ نہیں کھڑے ہوں گے“،   یعنی قیامت کے دن۔

 

﴿إِلاَّ كَمَا يَقُومُ الَّذِي يَتَخَبَّطُهُ الشَّيْطَانُ یعنی وہ اپنی قبروں سے اٹھائے جائیں گے، جیسے دنیا میں دیوانہ (مجنون) اُٹھتا ہے، یہ اس دن ان کی ذلت و رسوائی ہوگی۔ یہ اس بات کا قرینہ ہے کہ رِبا سے جو نہی کی گئی ہے وہ نہی  جازم(حتمی) ہے اور ان آیات میں اس کی حرمت پر بار بار زور دیا گیا ہے۔

 

  ﴿مِنْ الْمَسِّ یعنی جنون ، کہا جاتا ہے: مُسّ الرجل" یعنی وہ شخص ممسوس ہے، یہ تب کہا جاتا ہے جب وہ پاگل ہو جائے۔ اور جیسے کہ کہاوت ہے، خبط العشواء“، جس کا مطلب ہے، اندھے اونٹ کا ٹکریں مارتے ہوئے چلنا۔

 

﴿الَّذِي يَتَخَبَّطُهُ الشَّيْطَانُ مِنْ الْمَسِّ کی تفسیر  میں کئی روایات آئی  ہیں ۔ان میں زیادہ راجح اور صحیح مفہوم یہ ہے کہ جب انسان جنون کا شکار ہوتا ہے تو شیطان کا اس پر اثر زیادہ ہو جاتا ہے، وسوسوں کے ذریعے، جنونی شخص کی حالت ایسی کر دیتے ہیں جس سے اس کو بہت سارے ایسے وہم اور الجھنیں پیدا ہو جاتی ہیں جس سے وہ ٹھوکر کھا جاتا ہے۔

 

لیکن یہ کہنا کہ شیطان ہی اسے مرگی کا دورہ پڑواتا ہے یا اسے جنون میں مبتلا کرتا ہے، تو آیت میں یہ بات نہیں ہے، تو آیت سےاس بات کی وضاحت نہیں ہوتی۔ کیوں کہ اللہ تعالیٰ نے یہ نہیں فرمایا کہ (يتخبطه الشيطان بالمس) شیطان اس پر جنون کا اثر ڈالتا ہے، بلکہ آیت میں یہ ذکر ہے کہ ﴿يَتَخَبَّطُهُ الشَّيْطَانُ مِنْ الْمَسِّشیطان اس پرجنون اور پاگل پن کی وجہ سے تخبط (بے ترتیبی) ڈالتا ہے۔ یعنی جنون پہلے سے موجود ہوتا ہے، اور پھر شیطان اس پر اثر انداز ہوتا ہے۔

 

اسی طرح یہ کہنا کہ آیت ﴿ الَّذِي يَتَخَبَّطُهُ الشَّيْطَانُ مِنْ الْمَسّ میں تخبط کا استعمال عربوں کے انداز گفتگو کے مطابق کنایہ اور مجاز کے طریقوں کی تاویل سے ہے، عرب لوگ مرگی والے کے بارے میں یہ کہتے ہیں کہ اس پر جنات اور آسیب کا اثر ہے اور جن نے اسے پاگل بنا دیا ہے۔ وہ جنون کو جن سے مشتق کرتے ہیں،سو یہ بھی راجح نہیں ہے۔ کسی تعبیر میں مجازکی ضرورت  اس وقت پڑتی ہے جب بیان شدہ حقیقت کا وقوع ناممکن ہو، لیکن یہاں یہ حقیقت نا ممکن نہیں کہ شیطان جنونی شخص کو وسوسوں کے ذریعے بدحواسی میں مبتلا کرے۔ اسی وجہ سے  توعربی میں ایسا کہا جاتاہے کہ(تخبطہ الشیطٰن) شیطان نے اس کوخبطی بنایا ہے۔ تاہم جو لوگ عربوں کے اس اسلوب کا مطلب یہ لیتے ہیں کہ یہ مجاز اور کنایہ کے باب سے ہے تو ممکن ہے کہ اس سے ان کی غرض اس بات کو مسترد کرنا تھاکہ شیطان ہی انسان کو جنون میں مبتلا کرتا ہے، کیوں کہ وہ جانتے ہیں کہ کہ شیطان کا انسان پر جنون کا اثر ڈالنا ممکن نہیں، جیسا کہ سورۃ ابراہیم میں ذکر ہے، ﴿وَمَا كَانَ لِي عَلَيْكُمْ مِنْ سُلْطَانٍاور میرا تم پر کوئی زور نہیں تھا (ابراہیم؛ 14:22)۔ اس لیے اس قسم کی بے  سروپا باتیں کیں۔

 

لیکن دونوں تفسیرات کمزور ہیں۔ جو ہم نے کہا وہ زیادہ درست ہے ۔ ہم نے اس کی وضاحت بھی کی ہے۔

 

اور عجیب بات یہ ہے کہ دونوں گروہوں کی تفسیروں میں ایک دوسرے پر اس بات پر تنقید کی جاتی ہے کہ اس نے موضوع میں اس کی رائے کی مخالفت کی ہے، یہاں تک کہ ان میں سے بعض دوسرے کو دین سے خارج کرنے کے قریب ہیں جب کہ آیت دونوں میں سے کسی کی رائے کو قطعی طور پر درست نہیں کہتی۔

 

اور اسی طرح میں نے اس آیت کی تفسیر میں کوئی صحیح حدیث نہیں دیکھی، سوائے اس کے جو رسول اللہ ﷺ سے اسراء و معراج کے واقعہ میں روایت ہے اور وہ کسی ایک کی رائے کو قطعی طور پر درست نہیں کہتی، «فانطلق بي جبريل فمررت برجال كثير كلّ منهم بطنه مثل البيت الضخم ... إلى أن يقول، فإذا أحس بهم أصحاب تلك البطون قاموا فتميل بهم بطونهم فيصرعون، ثم يقوم أحدهم فيميل به بطنه فيصرع ... إلى أن يقول، قلت، يا جبريل، من هؤلاء؟ قال: هؤلاء الذين يأكلون الربا لا يقومون إلا كما يقوم الذي يتخبطه الشيطان من المس»”جبرائیل مجھے لے کر چلے، اور میں بہت سے آدمیوں کے پاس سے گزرا جن میں سے ہر ایک کا پیٹ ایک بڑے گھر کی طرح تھا... یہاں تک کہ آپؐ نے فرمایا: جب ان پیٹ والوں کو احساس ہوتا تو وہ کھڑے ہوتے اور ان کے پیٹ انہیں جھکا دیتے اور وہ گر جاتے، پھر ان میں سے ایک کھڑا ہوتا تو اس کا پیٹ اسے جھکا دیتا اور وہ گر جاتا... یہاں تک کہ آپؐ نے فرمایا: میں نے کہا: اے جبرائیل، یہ کون لوگ ہیں؟ انہوں نے کہا: یہ وہ لوگ ہیں جو سود کھاتے ہیں، یہ نہیں اٹھیں گے مگر اس طرح جیسے وہ اٹھتا ہے جسے شیطان نے چھو کر بدحواس کر دیا ہو(احمد اور ابن ماجہ)۔ یہ سود خوروں کا بیان ہے جو اپنے پیٹوں کے جھکنے سے گر پڑتے ہیں کیونکہ وہ ان کے لیے بھاری ہیں اور یہ اس کی طرح ہے جسے شیطان نے چھو کر بدحواس کر دیا ہو۔

 

اور اسی بنیاد پر، نہ تو آیت اور نہ ہی کوئی حدیث اس آیت کی تفسیر میں کسی ایک کی رائے کو قطعی طور پر درست قرار دیتی ہے۔

 

اور جب معاملہ ایسا ہے، یعنی آیت کی تفسیر میں شریعت کی وضاحت موجود نہیں ہے، تو ہم زبان کی طرف رجوع کریں گے، کیونکہ قرآن عربی زبان میں نازل ہوا ہے، لہذا ہمیں راجح وہ ملتا ہے ﴿مِنْ الْمَسِّ﴾، جو ہم نے کہا یعنی ان کی مثال اس شخص کی مانند ہے جسے شیطان نے چھو کر بدحواس کر دیا ہے یعنی جنون کی وجہ سے، یعنی جنون کسی شخص کے شیطان کی طرف سے بدحواس کیے جانے سے پہلے آتا ہے، پس شخص کسی وجہ سے مجنون ہو جاتا ہے، پھر شیطان اپنے وسوسوں اور خیالات کے ذریعے اسے بدحواس کر دیتا ہے۔

 

پس شیطان نے کسی شخص کو مرگی کا دورہ نہیں ڈالا یعنی اسے مجنون نہیں بنایا، ورنہ آیت کریمہ ہوتی "الذي يتخبطه الشيطان بالمس" اور حرف "بـ " 'کے ساتھ' کے معنی میں آتا ہے یعنی جنون طاری کرنا، یا اسے جنون میں مبتلا کر دینا۔ لہٰذا کنایہ اور مجاز کا سہارا لے کر شیطان کے کردار کو اس کی حقیقت سےہٹانے کی ضرورت نہیں ہے کیونکہ لغت کے الفاظ ہی موزوں ہیں۔

 

اور تمام صورتوں میں ہم کہتے ہیں کہ یہی معانی ہی مضبوط ہیں اگرچہ قطعی نہیں ہیں۔ اور اگر کوئی لغت کی تحقیق یا کتاب و سنت سے کوئی قوی ترجیح پیش کر دے، تو اس کی پیروی کی جائے گی۔

 

اور یہ مثال سُود خوروں کے جرم کی شدت کی ایک واضح اور بھیانک تصویر کشی ہے، اور یہ نتیجہ تمام مفسرین کے نزدیک متفقہ ہے، خواہ وہ اس مثال کو جس طرح بھی سمجھیں۔

 

اور اللہ ہمارے ان بھائیوں کو معاف کرے جو ہم سے پہلے ایمان لائے، کہ انہوں نے اپنی تفسیروں میں ایک دوسرے کے بارے میں جو کچھ لکھا ہے، اور اللہ ہی مدد کرنے والا ہے۔

 

جہاں تک، ﴿ذَلِكَ بِأَنَّهُمْ قَالُوا إِنَّمَا الْبَيْعُ مِثْلُ الرِّبَا”یہ اس لیے کہ انہوں نے کہا کہ تجارت بھی تو سود کی طرح ہے“ کا تعلق ہے یعنی وہ بھیانک مثال جو ان کے جرم کی شدت کی وجہ سے ان کے لیے بیان کی گئی ہے، وہ اللہ تعالیٰ کا یہ فرمان ہے، ﴿الَّذِي يَتَخَبَّطُهُ الشَّيْطَانُ مِنْ الْمَسِّ”وہ شخص جسے شیطان نے چُھو کر بدحواس کر دیا ہو“ تو یہ اس وجہ سے ہے کہ انہوں نے سود کو جائز قرار دینے کا جواز نکال لیا اور اسے تجارت کے برابر سمجھ لیا۔ اور اس میں اس رسوائی اور عذاب کی دلیل ہے جو انہیں دنیا اور آخرت میں پہنچے گا۔

 

جہاں تک، ﴿وَأَحَلَّ اللَّهُ الْبَيْعَ وَحَرَّمَ الرِّبَا”اور اللہ نے تجارت کو حلال کیا اور سود کو حرام کیا ہے“ کا تعلق ہے، یہ جملہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے ان کے جواب میں اور سود اور تجارت کو برابر قرار دینے سے انکار کرنےکے لیے ہے۔

 

جہاں تک، ﴿فَمَنْ جَاءَهُ مَوْعِظَةٌ مِنْ رَبِّهِ”سو جس شخص کو اپنے رب کی طرف سے نصیحت پہنچے“ تو جس شخص کو یہ آگاہی ہو جائے کہ سود حرام ہے، یعنی جس کو حرمت کا حکم پہنچے۔ اور لفظ ﴿من شرط کے ساتھ ہےاور فعل ﴿جَاءَ میں تانیث کی علامت نہیں ہے کیونکہ موعظة اپنی حالت میں تانیث کے ساتھ ہے لیکن مذکر کے معنی رکھتا ہے بالکل اسی طرح جیسے یہ لفظ وعظ کے معنی میں ہے۔

 

جہاں تک، ﴿فَانتَهَى”اور وہ باز آجائے“ کا تعلق ہے، یہ ﴿جَاءَهُ”اسے پہنچ جائے“ تو یہ حرف عطف کے ساتھ ہے اور اس کے ساتھ 'فـ' کا ملانا اس بات کی دلیل ہے کہ حرمت پہنچنے پر بغیر تاخیر کے فوری طور پر نصیحت حاصل کی جائے۔

 

جہاں تک ﴿فَلَهُ مَا سَلَفَ”تو جو کچھ پہلے ہوچکا وہ اسی کا ہے“ کا تعلق ہے، تو حرف فـ “ شرط کے جواب کے طور پر آیا ہے، اور مراد یہ ہے کہ اس سے وہ مال واپس نہیں لیا جائے گا جو اس نے پہلے لےلیا ہے اور جو معاملہ حرمت سے پہلے مکمل ہو چکا ہے، البتہ اس میں سے جو کچھ باقی ہے اس پر ﴿فَلَكُمْ رُءُوسُ أَمْوَالِكُمْ لاَ تَظْلِمُونَ وَلاَ تُظْلَمُونَ”تو تمہارے لیے تمہارے اصل مال ہیں“ کا حکم لاگو ہوگا۔

 

جہاں تک ﴿وَأَمْرُهُ إِلَى اللَّهِ”اور اس کا معاملہ اللہ کے سپرد ہے“ کا تعلق ہے، یعنی اس شخص کا معاملہ جس نے باز آنا اختیار کیا، تو جو کچھ وہ پہلے کر چکا وہ اس کا ہے، اس کا آئندہ کا معاملہ اللہ کے سپرد ہے، پس اللہ سبحانہ وتعالیٰ بہتر جانتا ہے کہ وہ سود سے باز رہنے میں کس قدر پابند رہا ہے۔

 

جہاں تک ﴿وَمَنْ عَادَ”اوروہ جو پھر (سُود پر) لوٹ آئے“ یعنی جو شخص اپنے پہلے طریقے پر(سُود پر) لوٹ آئے اور کہے کہ تجارت سود کی طرح ہے، یعنی سود کو جائز سمجھنے کی طرف لوٹ جائے۔

 

جہاں تک، ﴿فَأُوْلَئِكَ أَصْحَابُ النَّارِ هُمْ فِيهَا خَالِدُونَ”تو یہی لوگ دوزخی ہیں، وہ اس میں ہمیشہ رہیں گے“ کیونکہ سود کو حلال سمجھنے کی طرف لوٹ جانے سے وہ کافر ہو جائے گا اور اسلام سے مرتد ہو جائے گا، اور کافر ہمیشہ آگ میں رہے گا۔

 

پھر اللہ سبحانہ وتعالیٰ اگلی آیت میں سود خور کے انجام اور صدقہ کرنے والے کے صلہ کو بیان کرتے ہیں، پس اللہ دنیا میں سُود کے مال سے برکت نکال لیں گے، اور سُود خور کے لئے آخرت میں دردناک عذاب تیار ہے۔اور اللہ سبحانہ و تعالیٰ صدقہ میں برکت ڈالیں گے اور اس صدقہ کرنے والے کے لیے آخرت میں عظیم اجر تیار ہے۔ پھر اللہ تعالیٰ نے آیت مبارکہ کو اس بات پر ختم کیا ہے کہ اللہ سبحانہ و تعالیٰ کافر اور گناہگاروں کو ناپسند کرتا ہے اور اس میں ایک تنبیہ اور اشارہ ہے کہ جو لوگ سُود کو حلال کرنے اور اسے تجارت کے برابر سمجھنے کی طرف لوٹتے ہیں وہ کافر اور گناہگار ہیں۔

 

جہاں تک ﴿يَمْحَقُ اللَّهُ الرِّبَا”اللہ سود کو مٹاتا ہے“ یعنی وہ اس کی برکت کو ختم کر دیتا ہے اگرچہ وہ بہت زیادہ ہی کیوں نہ ہو۔ ابن مسعود نے رسول اللہ ﷺ سے روایت کیا ہے کہ آپ ﷺ نے فرمایا، «إن الربا وإن كثر فعاقبته إلى قل»”سُود اگرچہ بہت زیادہ کیوں نہ ہو، لیکن اس کا انجام نقصان ہے“۔

 

اور 'المحق' کی اصطلاح کے معنی ہیں، کمی اور زوال ہونا، اور اسی سے 'محاق القمر' ہے، یعنی چاند کا کم ہونا ہے۔

 

جہاں تک، ﴿وَيُرْبِي الصَّدَقَاتِ”اور وہ صدقات کو بڑھاتا ہے“ کا تعلق ہے، یعنی اللہ صدقے کو دنیا میں برکت سے بڑھاتا ہے اور آخرت میں اس کے ثواب کو دوگنا کرتا ہے۔ مسلم نے روایت کیا ہے: «إن صدقة أحدكم لتقع في يد الله فيربيها له كما يربي أحدكم فُلُوَّه أو فصيله حتى يجيء يوم القيامة وإن اللقمة على قدر أحد»”بیشک تم میں سے جو کوئی (پاکیزہ مال میں سے) صدقہ کرتا ہے تو اللہ اسے دائیں ہاتھ میں لیتا ہے اور اسے پالتا ہے جیسا کہ کوئی اپنے بچھڑے کو پالتا ہے۔ یہاں تک کہ جب وہ قیامت کے دن آئے گا تو وہ صدقہ بڑھ کر پہاڑ کی مانند ہو جاتا ہے“۔

 

جہاں تک، ﴿وَاللَّهُ لاَ يُحِبُّ كُلَّ كَفَّارٍ أَثِيم ”اور اللہ کسی ناشکرے گناہگار کو پسند نہیں کرتا“ یعنی سود کو جائز سمجھنے والے ہر کافرکو، اور سُود کھانے والے اور اللہ سبحانہ و تعالیٰ اور اس کے رسول ﷺ کی نافرمانی کرنےوالے ہر گناہگار کو ناپسند کرتا ہے۔ اور لفظ ﴿كفّار اور لفظ، ﴿أثيمگنہگار“ میں مبالغہ کا صیغہ سُود کے جرم کی شدت کو ظاہر کرنے کے لیے لایا گیا ہے۔

 

اور تیسری آیت میں اللہ سبحانہ وتعالیٰ ان لوگوں سے وعدہ کرتا ہے جواسلام پر ایمان لائے اور اس کے شرعی احکام کی پابندی کی کہ ان کے لیے اللہ کے پاس عظیم اجر ہے اور نہ ان پر کوئی خوف ہوگا اور نہ وہ غمگین ہوں گے۔

 

جہاں تک ﴿إِنَّ الَّذِينَ آمَنُوا”بے شک جو لوگ ایمان لائے“ یعنی وہ اللہ اور اس کے رسول اور اس کی کتابوں اور یوم آخرت اور تقدیر کے اللہ سبحانہ و تعالیٰ کی طرف سے اچھے اور برے ہونے پر ایمان لائے، جیسا کہ پہلے بیان ہو چکا ہے۔

 

جہاں تک ﴿وَعَمِلُوا الصَّالِحَاتِ”اور نیک کام کیے“ کا تعلق ہے، یعنی انہوں نے شرعی احکام کی پابندی کی اور انہیں اس طرح لاگو کیا جس طرح اللہ سبحانہ و تعالی کی کتاب اور اس کے رسول ﷺ کی سنت میں بیان کیا گیا ہے۔

 

جہاں تک ﴿وَأَقَامُوا الصَّلاَةَ وَآتَوْا الزَّكَاةَ”اور نماز قائم کی اور زکوٰۃ ادا کی“ کا تعلق ہے، یہ خاص بات کو  اس کی اہمیت کی وجہ سے عام بات کے بعد ذکر کرنے کے اسلوب میں سے ہے، پس نماز اور زکوٰۃ اللہ سبحانہ وتعالیٰ کے اس فرمان  ﴿وَعَمِلُوا الصَّالِحَاتِ”اور نیک کام کیے“ میں داخل ہیں، اور اس کے بعد ان کا ذکر ان کی عظمت پر زور دینے کے لیے کیا گیا ہے۔

 

4۔ چوتھی آیت میں اللہ سبحانہ وتعالیٰ کی طرف سے مؤمنین سے خطاب ہے کہ وہ اللہ سے ڈریں، یعنی اپنے آپ کو اللہ کے عذاب سے بچائیں اور سُود سے باز آ جائیں۔

 

پھر اللہ سبحانہ و تعالی آیت کے آخر میں بیان کرتے ہیں کہ جس اسلام پر تم ایمان لاتے ہو وہ تم پر یہ لازم کرتا ہے۔

 

جہاں تک، ﴿يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا”اے ایمان والو!“ کا تعلق ہے ، تو یہ مؤمنین سے خطاب ہے۔

 

جہاں تک، ﴿اتَّقُوا اللَّهَ”اللہ سے ڈرو“، کا تعلق ہے، تو  اس کا معانی ہےاپنے آپ کو اللہ کے عذاب سے بچاؤ۔

 

جہاں تک، ﴿وَذَرُوا مَا بَقِيَ مِنْ الرِّبَا”اور جو سود باقی رہ گیا ہے اسے چھوڑ دو“ یعنی جو سود تم نے ابھی تک وصول نہیں کیا ہے اسے چھوڑ دو، اسے مت لو، بلکہ صرف اپنا اصل سرمایہ لو، اور اس کا مفہوم یہ ہے کہ جو کچھ انہوں نے حرمت سے پہلے وصول کر لیا تھا اس کا ان سے مطالبہ نہیں کیا جائے گا۔

 

جہاں تک، ﴿إِنْ كُنتُمْ مُؤْمِنِينَ”اگر تم مومن ہو“ عربی میں مخاطب کو اکسانے اور اس سے جو طلب کیا جا رہا ہے اسے نافذ کرنے کی ترغیب دینے کا ایک طریقہ ہے، پس خطاب مومنین سے شروع کیا گیا ہے اور انہیں اس بات کی یاد دہانی کے ساتھ ختم کیا گیا ہے کہ جس اسلام پر وہ ایمان لائے ہیں اس کی وجہ سے ان پر سود کو چھوڑنا واجب ہے، جیسا کہ تم کسی ایسے شخص سے کہو جسے تم اکسانا چاہتے ہو (اگر تم مرد ہو تو ایسا کرو) اور تمہیں معلوم ہے کہ وہ مرد ہے، تو گویا تم اسے اس کی مردانگی یاد دلاتے ہو اور اس سے کہتے ہو کہ مردانگی تم پر لازم کرتی ہے کہ تم ایسا کرو۔

 

پھر اس کے بعد رب العالمین کی طرف سے ایک وضاحت اور پیغام ہے کہ تم دو چیزوں میں سے ایک کا انتخاب کرو:

 

الف۔یہ کہ تم اللہ کے حکم کی پابندی کرو اور سود سے توبہ کرو اور اس کی طرف نہ لوٹو، تو تمہارے لیے تمہارا اصل سرمایہ ہوگا سود کے بغیر، اور اس طرح تم نہ کسی پر ظلم کرو گے اور نہ تم پر ظلم کیا جائے گا، پس نہ تم اپنے قرض خواہوں پر زیادتی کرو گے سود لے کر اور نہ تم پر ان کی طرف سے زیادتی کی جائے گی کہ وہ تمہارا اصل سرمایہ واپس نہ کریں یا تم سے تاخیر کریں۔

 

ب۔یا پھر تم یقین کر لو اور جان لو کہ سود لینے سے تم اللہ سبحانہ وتعالیٰ اور اس کے رسول ﷺ کے ساتھ حالت جنگ میں ہو گے۔ اور یہ سود خوروں کے لئے ایک زبردست دھمکی ہے اور سود کے جرم کی سختی کا ایک واضح بیان ہے، اور کون ہے جو اللہ اور اس کے رسول سے جنگ کرنے کی طاقت رکھتا ہے؟

 

روایت ہے کہ جب یہ آیت نازل ہوئی تو قبائل ثقیف نے کہا: ]لا يد لنا بحرب الله تعالى ورسوله[”ہم میں اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول سے جنگ کرنے کی طاقت نہیں ہے“۔ اور انہوں نے بنی مغیرہ سے اپنے سود کا مطالبہ کیا تھا جیسا کہ ابن ابی حاتم نے مقاتل سے روایت کیا ہے کہ انہوں نے کہا: یہ آیت بنی عمرو بن عمیر بن عوف ثقفی اور اس کے بھائیوں کے بارے میں نازل ہوئی جن کا بنو مخزوم کے بنی مغیرہ پر سُود تھا، وہ جاہلیت میں بنی مغیرہ کو قرض دیتے تھے اور اسلام کے بعد ثقیف نے اپنا وہ سُود طلب کیا جو ان کا بنی مغیرہ پر تھا اور وہ بہت بڑا مال تھا۔ تو بنو مغیرہ نے یہ کہتے ہوئے انکار کیا : والله لا نعطي الربا في الإسلام وقد وضعه الله تعالى ورسوله عن المسلمين”اللہ کی قسم ہم اسلام میں سود نہیں دیں گے، اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول ﷺ نے اسے مسلمانوں سے ختم کر دیا ہے“۔ تو معاذ بن جبل کو ان کے معاملے کی خبر ہوئی اور کہا جاتا ہے کہ عتاب بن اسید نے - وہ فتح مکہ کے بعد رسول اللہ ﷺ کی طرف سے والی تھے-  رسول اللہ ﷺ کو اس بارے میں لکھا تو اللہ تعالیٰ نے یہ آیت نازل فرمائی: ﴿يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا اتَّقُوا اللَّهَ وَذَرُوا مَا بَقِيَ مِنْ الرِّبَا”اے ایمان والو! اللہ سے ڈرو اور جو سود باقی رہ گیا ہے اسے چھوڑ دو“،   تو رسول اللہ ﷺ نے اس بارے میں انہیں لکھا،  أن أعرض عليهم هذه الآية فإن فعلوا فلهم رؤوس أموالهم وإن أبوا فآذنهم بحرب من الله ورسوله”انہیں یہ آیت پیش کرو، پس اگر وہ مان جائیں تو ان کے لیے ان کا اصل سرمایہ ہے، اور اگر وہ انکار کریں تو انہیں اللہ اور اس کے رسول کی طرف سے جنگ کی اطلاع دے دو“۔

 

اور ابو یعلیٰ نے ابن عباس رضی اللہ عنہ سے روایت کیا ہے کہ جب یہ آیت نازل ہوئی تو ثقیف نے وہ بات کہی جو ہم نے پہلے ذکر کی: لا يد لنا بحرب الله تعالى ورسوله”ہم میں اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول ﷺ سے جنگ کرنے کی سکت نہیں ہے“۔

 

پھر االلہ سبحانہ و تعالیٰ نے گزشتہ آیت میں ربا کی قطعی ممانعت کو واضح کر دیا، اور یہ بیان کیا کہ سود پر کام کرنے والوں کو صرف ان کی اصل رقم واپس کی جائے گی تاکہ نہ تو کسی پر ظلم ہو اور نہ ہی کوئی ظلم کرے۔ اس کے بعد اللہ سبحانہ و تعالیٰ نے ایک خاص صورتحال کا ذکر کیا، اور وہ یہ کہ ممکن ہے کہ قرض دار مالی طور پر تنگ دست ہو، اور وہ قرض دہندہ سے لی گئی اصل رقم واپس کرنے سے قاصر ہو۔

 

یہ مسئلہ اس آیت مبارکہ میں بیان کیا گیا ہے، جس میں تنگ دست قرض دار کو اس کی مالی حالت بہتر ہونے تک کی مہلت دینے کا تقاضا کیا گیا ہے، تاکہ وہ قرض واپس کر سکے۔ نیز یہ کہ، اللہ سبحانہ و تعالیٰ قرض دہندگان کو صرف مہلت دے دینے سے بھی آگے بڑھ کر مزید نرمی دکھانے کی ترغیب دیتے ہیں، اور فرماتے ہیں کہ وہ قرض کے کچھ حصہ کو یا پورے قرض کو معاف کر دیں۔ ایسا عمل نہ صرف اس دنیا میں بلکہ آخرت میں بھی خیر کو یقینی بنائے گا کیونکہ اس سے وہ اجرِ عظیم اور ثواب کا مستحق ہو گا۔

 

جاہلیت کے دور میں، اگر کوئی قرض دار اپنا قرض ادا نہ کر پاتا تو اسے قرض کی ادائیگی کے عوض غلام بنا کر بیچ دیا جاتا تھا۔ تاہم، اللہ سبحانہ و تعالیٰ کی رحمت اور اسلام کے اس عظیم دین کے انصاف کی بدولت، تنگ دست قرض دار کو مہلت دی گئی، تاکہ ان کی مالی حالت بہتر ہو سکے اور وہ اپنا قرض ادا کر سکیں۔ اور نہ صرف یہ بلکہ اس کے علاوہ، قرض دہندگان کو بھی نہ صرف مہلت دینے کی ترغیب دی گئی، بلکہ قرض کا کچھ حصہ یا پورا قرض معاف کر دینے پر اجر کا ذکر کیا گیا۔ بے شک تمام تعریفیں اللہ کے لئے ہی ہیں جو تمام جہانوں کا پروردگار ہے۔

 

جہاں تک﴿وَإِنْ كَانَ ذُو عُسْرَةٍ فَنَظِرَةٌ إِلَى مَيْسَرَةٍاور اگر کوئی تنگ دست ہو تو کشادگی ہونے تک مہلت دے دو“ کی بات ہے، یہاں﴿كان فعل کی مکمل (ماضی) شکل ہے، جس کا معنی ہے ”اگر موجود ہو“۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ اگر کوئی قرض دار تنگ دست ہو تو اسے مہلت دی جانی چاہئے جب تک کہ وہ ایسی مالی حالت تک نہ پہنچ جائے جہاں وہ قرض ادا کرنے کے قابل ہو سکے۔

 

جہاں تک﴿عُسْرَةٍ ”مشکل“ کا تعلق ہے، یہ مالی مشکلات کی حالت کو ظاہر کرتا ہے جو مال کی کمی کی وجہ سے پیدا ہوتی ہے، جیسا کہ"جيش العسرة" (تنگ دستی کا لشکر) میں بیان کیا گیا ہے۔
اور﴿مَيْسَرَةٍ”آسانی“ کا مطلب ہے دولت یا مالی استطاعت، جو اس حالت کو ظاہر کرتا ہے جہاں قرض واپس کرنے کے لیے ضروری وسائل موجود ہوں۔

 

چونکہ﴿كانایک مکمل فعل کی صورت ہے، اس لیے مہلت دینے کا حکم صرف رِبا کے معاملات سے متعلق قرض داروں تک ہی محدود نہیں ہے، بلکہ یہ ان تمام قرض داروں پر بھی لاگو ہوتا ہے جو مالی طور پر قرض کی ادائیگی سے قاصر ہوں اور قرض ادا کرنے کے قابل نہ ہوں۔ اگر یہ آیت صرف رِبا سے متعلق افراد کے بارے میں ہوتی، تو اس میںوَإِنْ كَانَ ذا عسرةکے الفاظ استعمال ہوتے، جس میں'ذا' کی ضمیر ہوتی جو رِبا کی رقم کی ادائیگی کا مطالبہ کرنے والے قرض دار کی طرف اشارہ کرتی۔ تاہم، آیت میں الفاظ﴿وَإِنْ كَانَ ذُو عُسْرَةٍاور اگر کوئی تنگ دست ہو،عمومی معنی میں استعمال کیے گئے ہیں، جو کہ کسی بھی ایسے قرض دار پر لاگو ہوتے ہیں جو مالی طور پر قرض کی ادائیگی سے قاصر ہو۔

 

اس مفہوم کو اس حقیقت سے بھی تقویت ملتی ہے کہذو عسرة ایک نکرہ (عمومی) اسم ہے جو جملے کی مشروط حالت میں استعمال ہوا ہے۔ اس سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ یہ اصطلاح تمام تنگ دست قرض داروں پر لاگو ہوتی ہے، نہ کہ صرف مخصوص معاملات کے قرض داروں پر جیسا کہ رِبا کے قرض دار۔

 

یہ آیت رِبا کے ختم کئے جانے سے قبل ربا کے معاملات سے متعلق افراد کے بارے میں نازل ہوئی تھی، اور اسلام نے رِبا کو ختم کر دیا اور اصل رقم کی ادائیگی کا حکم دیا جبکہ رِبا کو حرام قرار دے دیا۔ جیسا کہ الکلبینے اپنی روایت میں ذکر کیا ہے، یہ آیت اس وقت نازل ہوئی جب بنو المغیرہ نے بنو عمر سے کہا،نحن اليوم أهل عسرة فأخرونا إلى أن ندرك الثمر”ہم فی الحال مالی مشکلات میں ہیں؛ ہمیں فصل کی کٹائی تک کی مہلت دے دو“۔

 

تاہم، بنو عمر نے انہیں مہلت دینے سے انکار کر دیا۔ اس پر یہ آیت نازل ہوئی۔ یہ واقعہ بنی المغیرہ اور بنو عمر کے مابین رِبا کے معاملات کے حوالے سے متعلق مکمل تفصیل کو بیان کرتا ہے، جس پر گزشتہ آیت کی تفسیر میں بات کی گئی تھی۔ اس طرح، یہ آیت خاص طور پر رِبا کے معاملات میں اصل رقم کی واپسی کے مطالبے کے حوالے سے نازل ہوئی تھی۔

 

تاہم، یہ قاعدہ شریعت کے اس اصول (قاعِدہ) سے استنباط کیا گیا ہے کہ، العِبرةُ بعُمومِ اللَّفظِ أو بخُصوصِ السَّبَبِ بیان کا اعتبار الفاظ کی عمومیت پر ہوتا ہے، نہ کہ سبب نزول کی خصوصیت پر“۔ جیسا کہ پہلے ذکر کیا گیا، ﴿ذُو عُسْرَةٍ﴾ تنگ دستی کی حالت میں مبتلا شخص“ ایک عمومی اصطلاح ہے۔ اس لیے یہ حکم کسی بھی تنگ دست قرض دار کو مہلت دینے کے لیے لاگو ہوتا ہے، چاہے قرض رِبا کی اصل رقم سے متعلق ہو یا کسی اور قسم کے قرض سے متعلق ہو۔

 

جہاں تک ﴿فَنَظِرَةٌ إِلَى مَيْسَرَةٍ﴾ تو آسانی کی حالت ہونے تک مہلت دے دو“ کا تعلق ہے، تو حرفِ عطف "فـ" ربط میں اس مشروط جملے ﴿وَإِنْ كَانَ ذُو عُسْرَةٍ﴾ کے جواب سے متعلق ہے۔ لفظ "نظرة" کا معنی ہے ملتوی کرنا“ یا مہلت کا وقت“، اور یہ ایک اسمی خبر ہے جس کا فاعل ضمنی طور پر مراد ہے، یعنی یہ تم پر لازم ہے کہ مہلت دے دو“۔

 

یہاں مہلت دینا فرض ہے۔ اور یہ اللہ سبحانہ وتعالیٰ کے اس فرمان سے واضح ہوتا ہے جو فوراً اس کے بعد آتا ہے، ﴿وَأَنْ تَصَدَّقُوا خَيْرٌ لَكُمْاور اگر (قرض) بخش دو تو تمہارے لئے زیادہ بہتر ہے۔ اس کا یہ مفہوم ہے کہ ابتدائی حکم، ﴿وَإِنْ كَانَ ذُو عُسْرَةٍ فَنَظِرَةٌ إِلَى مَيْسَرَةٍاور اگر کوئی تنگ دست ہو تو کشادگی ہونے تک مہلت دے دو“ لازمی فرض ہے۔ اس کا استدلال اس بات میں ہے کہ اس کے بعد ﴿تَصَدَّقُواصدقہ دوکا ذکر آیا ہے۔ فقہی اصولوں کے مطابق، جب کسی کام کا حکم دیا جائے اور اسی قسم کے کسی دوسرے کام کو نفل عمل کے طور پر پیش کیا جائے، تو یہ اس بات کی دلیل ہوتی ہے کہ ابتدائی حکم فرض ہے۔ مثال کے طور پر، اگر کوئی شخص کہے یہ صفحہ لکھو، پھر نفلی طور پر ایک اور صفحہ لکھ دو، تو اس عبارت سے یہ مفہوم نکلتا ہے کہ پہلا حکم یہ صفحہ لکھوفرض ہے، جیسا کہ اس کے بعد والے نفل عمل سے نشاندہی ظاہر ہوتی ہے۔ اسلامی فقہہ کے اصولوں میں اس اصول کو شریعت کے فقہی قرائن کے مطالعہ میں واضح کیا گیا ہے۔ ایک تنگ دست قرض دار کو مہلت دینے کے علاوہ صدقہ دینے کا مطلب ہے قرض کا کچھ حصہ یا پورا قرض معاف کر دینا۔ یہ نہیں کہا جا سکتا کہ ﴿وَأَنْ تَصَدَّقُوااور اگر (قرض) بخش دوسے مراد صرف مہلت دے دینا ہی ہے، کیونکہ یہ دونوں علیحدہ علیحدہ ذکر کیے گئے ہیں اور حرف عطف سے جڑے ہوئے ہیں، جو یہ ظاہر کرتا ہے کہ بعد والا عمل پہلے عمل کا اضافی حصہ ہے۔ بالفاظ دیگر، اس کا مطلب ہے کہ مہلت دینے کے علاوہ کچھ اضافی بھی کرنا ہے، جیسا کہ اگر کوئی شخص کہے کہ زکوٰة دو اور صدقہ بھی دو۔ اس عبارت سے یہ مفہوم نکلتا ہے کہ فرض تو زکوة دینا ہے اور اس کے علاوہ صدقہ دے دینا نفل عمل ہے۔

 

جہاں تک ﴿إِنْ كُنتُمْ تَعْلَمُونَاگر تم جانتے ہوکا تعلق ہے، تو جملے میں دی گئی شرط إن  کے جواب کو حذف کیا گیا ہے لیکن اسے سمجھا جا سکتا ہے: اگر تم یہ جان لیتے کہ اللہ سبحانہ و تعالیٰ نے جس قدر اجرِ عظیم اور ثواب ان لوگوں کے لیے تیار کیے ہیں جو کسی تنگ دست قرض دار کی مشکلات کو دور کرتے ہیں اور ان کے قرض کا کچھ حصہ معاف کرتے ہیں، تو تم فوراً ایسا کرنے کی کوشش کرتے۔ یہ مشروط جواب کا مفہوم ہے۔

 

امام احمدؒ نے اپنی مسند میں رِبِیع سے مروی یہ روایت کی ہے، جو کہتے ہیں کہ ابو الیسر نے کہا کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا، «مَنْ أَنْظَرَ مُعْسِرًا أَوْ وَضَعَ عَنْهُ أَظَلَّهُ اللَّهُ تَبَارَكَ وَتَعَالَى فِي ظِلِّهِ»جو شخص کسی تنگ دست قرض دار کو مہلت دیتا ہے یا اس کے قرض کا کچھ حصہ معاف کرتا ہے، تو اللہ عزوجل اسے اپنے (عرش کے) سایہ تلے پناہ دے گا۔ ایک اور روایت میں اس میں یہ الفاظ بھی آئے ہیں، «يَوْمَ لاَ ظِلَّ إِلاَّ ظِلُّهُ» اس دن جب کوئی سایہ نہیں ہوگا سوائے اس کے (عرش کے) سایہ کے۔ امام احمدؒ نے ابن عمر رضی اللہ عنہ سے بھی روایت کیا ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا، «من أراد أن تستجاب دعوته وأن تكشف كربته فليفرج عن معسر»جو شخص چاہے کہ اس کی دعا قبول ہو اور اس کی مشکلات دور ہوں، تو وہ کسی تنگ دست قرض دار کا بوجھ ہلکا کرے۔ امام احمدؒ نے ابن عباس رضی اللہ عنہ سے یہ بھی روایت کیا ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: «من أنظر معسراً أو وضع له وقاه الله من فيح جهنم» جو شخص کسی تنگ دست قرض دار کو مہلت دیتا ہے یا اس کے قرض کا کچھ حصہ معاف کرتا ہے، اللہ تعالیٰ اسے جہنم کی تپش سے محفوظ رکھے گا۔

 

یہ ذکر کرنا ضروری ہے کہ تنگ دست قرض دار، یعنی وہ قرض دار جسے مہلت دی جانی چاہیے، اس کی تعریف کے حوالے سے بعض فقہی آراء پائی جاتی ہیں۔ میری رائے میں سب سے زیادہ قائل کرنے والی رائے یہ ہے کہ تنگدست قرض دار وہ شخص ہوتا ہے جس کے پاس اپنی بنیادی ضروریات جیسے کہ کھانا، لباس اور رہائش پوری کرنے کے علاوہ کوئی زائد دولت نہ ہو۔ یہ تعریف ان الفاظ کے مفہوم پر مبنی ہے، أعسر فلان فلاں شخص تنگدست ہو گیا، جس سے مفہوم یہ نکلتا ہے کہ وہ شخص غریب ہے۔ لہٰذا، کسی تنگدست قرض دار کو غریب شخص کے مترادف سمجھا جا سکتا ہے۔ ایک غریب شخص وہ ہوتا ہے جس کے پاس اپنی ضروری بنیادی ضروریات پوری کرنے کے لیے مال نہ ہو۔ اگر کسی کے پاس اپنی بنیادی ضروریات سے زائد مال ہو تو وہ غریب نہیں کہلاتا، اور یوں نتیجتاً وہ تنگدست بھی نہیں ہوتا۔ لہٰذا، وہ شخص مہلت کا حق صرف اسی صورت میں رکھتا ہے جب تک کہ اس کا مال اس کی ضروری بنیادی ضروریات سے زائد نہ ہو۔

 

تنگ دستکا لفظ اس شخص پر لاگو نہیں ہوتا جو اپنی معمول کی ضروریات سے زائد دولت سے محروم ہو۔ معمول کی ضروریات سے مراد ہے کسی شخص کی روزمرہ زندگی کے معیار سے متعلق اشیاء جیسے کہ ایک گاڑی کا مالک ہونا، ملازم رکھنا، مختلف قسم کے لباس پہننا، اور مختلف قسم کے کھانے پینے کی اشیاء کا استعمال کرنا۔ یہ تمام اشیاء بنیادی ضروریات کے علاوہ کی اشیاء ہیں، جبکہ بنیادی ضروریات میں یہ شامل ہیں، 1- زندہ رہنے کے لئے خوراک کا کافی ہونا، 2- لباس کا ہونا جو تَن کو ڈھانپے اور عفت کی حفاظت کرے۔ 3- رہائش جو تحفظ اور بنیادی رہائشی حالات فراہم کرے۔

 

جہاں تک مختلف خوراک اور لباس کا تعلق ہے، تو صرف وہی چیزیں ضروری سمجھی جاتی ہیں جو زندگی گزارنے کے لیے ضروری ہوں۔ اگر کسی شخص کے پاس اپنی ضروریات سے زائد مال ہو، جیسے کہ گاڑی کا مالک ہونا، اضافی گھر، زمین کا ٹکڑا، یا کسی بھی قسم کا اضافی مال، تو قرض دہندہ کو حق حاصل ہے کہ وہ قرض کی ادائیگی کا مطالبہ کرے اور ایسی حالت میں مہلت نہ دے۔

 

ایسی صورت حال میں، قرض دہندہ کو یہ حق حاصل ہے کہ وہ قانونی دعویٰ دائر کر کے قرض دار کے اضافی مال سے اپنا دیا گیا قرض وصول کرے۔

 

 

7- یہ آخری آیت اللہ سبحانہ و تعالیٰ کی طرف سے قیامت کے دن کی یاد دہانی ہے، جب ہر شخص اللہ کی طرف لوٹے گا، حساب کتاب ہوگا، اور اسے انصاف کے مطابق جزا ملے گی۔ جس کسی نے بھی اچھا عمل کیا ہو گا، وہ اجر پائے گا، اور جس نے برا عمل کیا ہو گا، اسے سزا ملے گی۔ اللہ سبحانہ و تعالیٰ نے فرمایا، ﴿لَا ظُلْمَ الْيَوْمَ”اس دن کوئی ظلم نہیں ہوگا“ (سورۃ غافر؛ 40:17)۔ اور اللہ سبحانہ و تعالیٰ فرماتے ہیں، ﴿ثُمَّ تُوَفَّى كُلُّ نَفْسٍ مَا كَسَبَتْ وَهُمْ لاَ يُظْلَمُونَ ”پھر ہر نفس کو اس کے کیے کا پورا بدلہ دیا جائے گا، اور ان پر کوئی ظلم نہیں کیا جائے گا“ (البقرۃ؛ 2:281)۔

 

جہاں تک ﴿وَاتَّقُوا يَوْمًا اور اس دن سے ڈرو“ کا تعلق ہے، تو اس کا مطلب ہے کہ اس دنیا میں گناہوں سے دور رہ کر اور اپنے اچھے اعمال میں اضافہ کر کے اس دن کے عذاب سے اپنے آپ کو بچاؤ۔ شاید اسی وجہ سے اس آیت مبارکہ کو سُود سے متعلق آیات کے بعد رکھا گیا ہے، تاکہ سُود کے گناہ کی شدت کو واضح کیا جا سکے، کیونکہ یہ اللہ کے غضب اور جہنم کی آگ کا سبب بنتا ہے۔ جو شخص بھی اللہ کے غضب سے بچنا چاہتا ہو، ﴿اتَّقُوا اللَّهَ وَذَرُوا مَا بَقِيَ مِنْ الرِّبَا تم اللہ سے ڈرو اور جو کچھ بھی سُود باقی رہ گیا ہے، اسے چھوڑ دو۔

 

اور جو شخص قیامت کے دن کے عذاب سے بچنا چاہتا ہے، ﴿وَاتَّقُوا يَوْمًا تُرْجَعُونَ فِيهِ إِلَى اللَّهِاور اس دن سے ڈرو جب تم اللہ کی طرف واپس لوٹائے جاؤ گے۔ وہ دن جو کہ (اپنی شدت سے) بچوں کے بالوں کو بھی سفیدی میں بدل دے گا، اس دن جو شخص بھی اللہ کی رضا کا طلبگار ہو، تو اسے سُود جیسے قبیح جرم کو چھوڑ دینا چاہیے اور اللہ سبحانہ و تعالیٰ اور اس کے رسول ﷺ کے خلاف جنگ میں شامل ہونے سے بچنا چاہیے۔ اس کے بجائے، اسے چاہئے کہ جب وہ اللہ سبحانہ و تعالیٰ سے ملاقات کرے تو اللہ ان سے راضی ہو، تاکہ وہ اس قادرِ مطلق، عادل اور بزرگ و برتر سے اجروثواب حاصل کر سکے۔ یہ آیت مبارکہ قرآنِ مجید کی نازل ہونے والی آخری آیت ہے۔

 

بخاری نے اپنی صحیح میں باب "باب موكل الربا" سُود لینے والے کے بارے میں باب“ میں ذکر کیا ہے، ﴿وَاتَّقُوا يَوْمًا تُرْجَعُونَ فِيهِ إِلَى اللَّهِ ثُمَّ تُوَفَّى كُلُّ نَفْسٍ مَا كَسَبَتْ وَهُمْ لاَ يُظْلَمُونَ اس دن سے ڈرو جب تم سب اللہ کی طرف واپس لوٹائے جاؤ گے، پھر ہر نفس کو اس کے کئے کا پورا بدلہ دیا جائے گا، اور کسی پر کوئی ظلم نہیں کیا جائے گا۔ ابن عباس رضی اللہ عنہ نے کہا،   هذه آخر آية نزلت على النبي”یہ وہ آخری آیت ہے جو رسول اللہ ﷺ پر نازل ہوئی“۔

 

ابن جریرؒ نے ابن عباس رضی اللہ عنہ سے روایت کیا، "آخر آية نزلت في القرآن، ﴿وَاتَّقُوا يَوْمًا تُرْجَعُونَ فِيهِ إِلَى اللَّهِ ثُمَّ تُوَفَّى كُلُّ نَفْسٍ مَا كَسَبَتْ وَهُمْ لاَ يُظْلَمُونَقرآن پاک کی نازل ہونے والی آخری آیت، اور اس دن سے ڈرو جب تم اللہ کی طرف واپس لوٹائے جاؤ گے، پھر ہر نفس کو اس کے کئے کا پورا بدلہ دیا جائے گا اور کسی پر کوئی ظلم نہ ہو گا“۔

 

ابن جریجؒ نے کہا، يقولون إن النبي ﷺ مكث بعدها تسع ليال وبدأ يوم السبت ومات ﷺ يوم الاثنين ”وہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ اس آیت کے نازل ہونے کے بعد ہفتہ (کے دن سے) سے لے کر پیر (کے دن تک) نو راتوں تک زندہ رہے تھے“۔

 

ابن ابی حاتمؒ نے بھی سعید بن جبیرؓ سے روایت کیا، "آخر ما نزل من القرآن كله ﴿وَاتَّقُوا يَوْمًا تُرْجَعُونَ فِيهِ إِلَى اللَّهِ ثُمَّ تُوَفَّى كُلُّ نَفْسٍ مَا كَسَبَتْ وَهُمْ لاَ يُظْلَمُونَ”قرآن کریم کی تمام آیات میں سے آخری نازل ہونے والی آیت یہ ہے: اور اس دن سے ڈرو جب تم اللہ کی طرف واپس لوٹائے جاؤ گے، پھر ہر نفس کو اس کے کئے کا پورا بدلہ دیا جائے گا اور کسی پر کوئی ظلم نہ ہو گا“۔ اس کے بعد انہوں نے کہا کہ رسول اللہ ﷺ اس آیت کے نزول کے بعد نو راتوں تک زندہ رہے تھے اور پھر پیر کے دن ان کا انتقال ہوا۔

 

ابن مردویہ نے سعید بن جبیرؒ سے اور انہوں نے ابن عباس رضی اللہ عنہ سے روایت کیا، "آخر شيء نزل من القرآن ﴿وَاتَّقُوا يَوْمًا تُرْجَعُونَ فِيهِ إِلَى اللَّهِ..." ”قرآن کی آخری نازل ہونے والی آیت یہ ہے،  اور اس دن سے ڈرو جب تم اللہ کی طرف واپس لوٹائے جاؤ گے

 

القرطبی نے ذکر کیا ہے کہ ابو صالح نے ابن عباسؓ سے روایت کیا، آخر ما نزل من القرآن، ﴿وَاتَّقُوا يَوْمًا تُرْجَعُونَ فِيهِ إِلَى اللَّهِ ثُمَّ تُوَفَّى كُلُّ نَفْسٍ مَا كَسَبَتْ وَهُمْ لاَ يُظْلَمُونَ﴾ فقال جبريل للنبي ﷺ ، يا محمد ضعها على رأس ثمانين ومائتين من البقرة ”قرآن کی آخری آیت جو نازل ہوئی تھی، وہ یہ ہے، اور اس دن سے ڈرو جب تم اللہ کی طرف واپس لوٹائے جاؤ گے، پھر ہر نفس کو اس کے کئے کا پورا بدلہ دیا جائے گا اور کسی پر کوئی ظلم نہ ہو گا“۔ پھر جبریل علیہ السلام نے رسول اللہ ﷺ سے کہا، "يا محمد ضعها على رأس ثمانين ومائتين من البقرة" ”اے محمد ﷺ! اس آیت کو سورۃ البقرۃ کی آیت 281 پر رکھیں“۔

 

قرطبیؒ نے ایک اور روایت بھی ذکر کی ہے جس میں رسول اللہ ﷺ نے فرمایا، "اجعلوها بين آية الربا وآية الدين"”اس (آیت کو) سُود کی آیت اور قرض کی آیت کے درمیان میں رکھو“۔ یہ روایت صحیح بخاری کی روایت کے ساتھ متناقض نہیں ہے، جہاں ابن عباس رضی اللہ عنہ نے فرمایا، "آخر ما نزل على رسول الله آية الربا"”آخری آیت جو رسول اللہ ﷺ پر نازل ہوئی وہ سُود کے بارے میں آیت تھی“۔

 

امام احمدؒ نے عمر رضی اللہ عنہ سے روایت کیا ہے، جنہوں نے فرمایا، من آخر ما نزل آية الربا”(قرآن مجید کی) نازل ہونے والی آخری آیات میں سے ایک آیت سُود کے بارے میں تھی“۔

 

ابن ماجہ اور ابن مردویہ نے عمر رضی اللہ عنہ سے روایت کیا ہے، کہ انہوں نے فرمایا، من آخر القرآن نزولاً آية الربا”(قرآن مجید کی) نازل ہونے والی آخری آیات میں سے ایک آیت سُود کے بارے میں تھی“۔

 

ان روایات کے درمیان تعلق اس طرح سے کیا جاتا ہے؛ سُود کے بارے میں آیات نازل ہوئیں، اور پھر اس کے بعد آخری آیت نازل ہوئی، ﴿وَاتَّقُوا يَوْمًا تُرْجَعُونَ فِيهِ إِلَى اللَّهِ... اور اس دن سے ڈرو جب تم اللہ کی طرف واپس لوٹائے جاؤ گے

 

یوں اس طرح ان میں کوئی تضاد نہیں ہے۔ ان روایات کا صحیح مفہوم یہ ہے کہ آخری آیت جو نازل ہوئی وہ یہ تھی، ﴿وَاتَّقُوا يَوْمًا تُرْجَعُونَ فِيهِ إِلَى اللَّهِ... اور اس دن سے ڈرو جب تم اللہ کی طرف واپس لوٹائے جاؤ گے“،  جبکہ قرآن کی نازل ہونے والی آخری آیات میں سُود کے بارے میں آیات شامل تھیں، جیسا کہ امام احمد، ابن ماجہ اور ابن مردویہ کی روایات میں واضح طور پر ذکر کیا گیا ہے۔

 

جہاں تک صحیح بخاری میں جو ذکر کیا گیا ہے کہ، "آخر ما نزل آية الربا"”جو آخری آیت نازل ہوئی وہ سُود کے بارے میں آیت تھی“، اسے دوسری روایات کی روشنی میں اس طرح سمجھا جاتا ہے کہ ”یہ (قرآن مجید کی) نازل ہونے والی آخری آیات میں سے ایک آیت تھی“۔ یہ فہم وحی کے نزول کے مطابق ہے، جہاں سُود کی آیات کے بعد یہ آیت نازل ہوئی، ﴿وَاتَّقُوا يَوْمًا تُرْجَعُونَ فِيهِ إِلَى اللَّهِ...اور اس دن سے ڈرو جب تم اللہ کی طرف واپس لوٹائے جاؤ گے

 

لہٰذا، یہ کہنا درست ہے کہ جو آخری آیات نازل ہوئیں ان میں سُود کی آیت بھی شامل ہے، اور ساتھ ہی یہ آیت بھی ﴿وَاتَّقُوا يَوْمًا تُرْجَعُونَ فِيهِ إِلَى اللَّهِ...اور اس دن سے ڈرو جب تم اللہ کی طرف واپس لوٹائے جاؤ گے

 

نتیجہ یہ کہ، جو آخری آیت نازل ہوئی وہ یہ ہے، ﴿وَاتَّقُوا يَوْمًا تُرْجَعُونَ فِيهِ إِلَى اللَّهِ... اور اس دن سے ڈرو جب تم اللہ کی طرف واپس لوٹائے جاؤ گے یہ آیت، رسول اللہ ﷺ کے حکم کے مطابق قرآن مجید میں سُود کی آیات کے بعد سورۃ البقرہ کی آیت 281 میں اپنی جگہ رکھی گئی۔

 

بسم اللہ الرحمٰن الرحیم

تفسیر سورۃ البقرۃ (275-281)

جلیل القدر عالم دین اور فقیہ شیخ عطاء بن خلیل ابوالرشتہ کی کتاب ”التیسیر فی اصول التفسیر“ سے اقتباس

﴿الَّذِينَ يَأْكُلُونَ الرِّبَا لاَ يَقُومُونَ إِلاَّ كَمَا يَقُومُ الَّذِي يَتَخَبَّطُهُ الشَّيْطَانُ مِنْ الْمَسِّ ذَلِكَ بِأَنَّهُمْ قَالُوا إِنَّمَا الْبَيْعُ مِثْلُ الرِّبَا وَأَحَلَّ اللَّهُ الْبَيْعَ وَحَرَّمَ الرِّبَا فَمَنْ جَاءَهُ مَوْعِظَةٌ مِنْ رَبِّهِ فَانتَهَى فَلَهُ مَا سَلَفَ وَأَمْرُهُ إِلَى اللَّهِ وَمَنْ عَادَ فَأُوْلَئِكَ أَصْحَابُ النَّارِ هُمْ فِيهَا خَالِدُونَ * يَمْحَقُ اللَّهُ الرِّبَا وَيُرْبِي الصَّدَقَاتِ وَاللَّهُ لاَ يُحِبُّ كُلَّ كَفَّارٍ أَثِيمٍ * إِنَّ الَّذِينَ آمَنُوا وَعَمِلُوا الصَّالِحَاتِ وَأَقَامُوا الصَّلاَةَ وَآتَوْا الزَّكَاةَ لَهُمْ أَجْرُهُمْ عِنْدَ رَبِّهِمْ وَلاَ خَوْفٌ عَلَيْهِمْ وَلاَ هُمْ يَحْزَنُونَ * يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا اتَّقُوا اللَّهَ وَذَرُوا مَا بَقِيَ مِنْ الرِّبَا إِنْ كُنتُمْ مُؤْمِنِينَ * فَإِنْ لَمْ تَفْعَلُوا فَأْذَنُوا بِحَرْبٍ مِنْ اللَّهِ وَرَسُولِهِ وَإِنْ تُبْتُمْ فَلَكُمْ رُءُوسُ أَمْوَالِكُمْ لاَ تَظْلِمُونَ وَلاَ تُظْلَمُونَ * وَإِنْ كَانَ ذُو عُسْرَةٍ فَنَظِرَةٌ إِلَى مَيْسَرَةٍ وَأَنْ تَصَدَّقُوا خَيْرٌ لَكُمْ إِنْ كُنتُمْ تَعْلَمُونَ * وَاتَّقُوا يَوْمًا تُرْجَعُونَ فِيهِ إِلَى اللَّهِ ثُمَّ تُوَفَّى كُلُّ نَفْسٍ مَا كَسَبَتْ وَهُمْ لاَ يُظْلَمُونَ

جو لوگ سود کھاتے ہیں( قیامت میں) اُٹھیں تو اس شخص کی طرح اُٹھیں گے جسے شیطان نے چُھوکر بدحواس کر دیا ہو۔ یہ اس لیے ہوگا کہ انہوں نے کہا تھا کہ: ”تجارت بھی تو سود ہی کی طرح ہوتی ہے۔ حالانکہ اللہ نے تجارت کو حلال کیا ہے اور سود کو حرام قرار دیا ہے۔ لہٰذا جس شخص کے پاس اس کے پروردگار کی طرف سے نصیحت آگئی اور وہ ( سودی معاملات سے) باز آگیا تو ماضی میں جو کچھ ہوا وہ اسی کا ہے۔ اور اس ( کی باطنی کیفیت) کا معاملہ اللہ کے حوالے ہے۔ اور جس شخص نے لوٹ کر پھر وہی (سود) کیا تو ایسے لوگ دوزخی ہیں۔ وہ ہمیشہ اسی میں رہیں گے(275)۔ اللہ سود کو مٹاتا ہے اور صدقات کو بڑھاتا ہے۔ اور اللہ ہر اس شخص کو نا پسند کرتا ہے جو نا شکرا گنہگار ہو(276)۔ (ہاں) وہ لوگ جو ایمان لائیں، نیک عمل کریں ، نماز قائم کریں اور زکوٰۃ ادا کریں وہ اپنے رب کے پاس اجر کے مستحق ہوں گے، نہ انہیں کوئی خوف ہوگا، نہ کوئی غم  پہنچے گا (277)۔ اے ایمان والو ! تم اللہ سے ڈرو اور جو کچھ بھی سُود باقی رہ گیا ہے، اسے چھوڑ دو، اگر تم ایمان والے ہو (278)۔ پھر اگر تم نہ چھوڑو گے تو اللہ اور اس کے رسول ﷺ سے جنگ کے لئے خبردار ہو جاؤ، اور اگر تم نے توبہ کر لی تو تمہارا اصل زر تمہارے لئے ہے، نہ تم ظلم کرو اور نہ تم پر  ظلم کیا جائے گا (279)۔ اور اگر کوئی تنگ دست ہو تو کشادگی ہونے تک مہلت دے دو، اور اگر (قرض) بخش دو تو تمہارے لئے زیادہ بہتر ہے، اگر تم جانتے ہو (280)۔ اور اس دن سے ڈرو (جس دن) تم اللہ کی طرف لوٹائے جاؤ گے، پھر ہر شخص کو پورا پورا صلہ دیا جائے گا جو اس نے کمایا اور ان پر ظلم نہ کیا جائے گا(281)۔ (البقرۃ؛ 2: 275-281)

اللہ سبحانہ و تعالیٰ جل شانہ نے جب  ان لوگوں کا اجر و ثواب بیان فرمایا  جو اللہ کی راہ میں حلال اور طیب مال خرچ کرتے ہیں، تو اب اس کے بعد ان آیات کریمہ میں ان لوگوں کے انجام کا بیان ہے جو حرام  طریقے سے خرچ کرتے ہیں اور اللہ اور اس کے رسول ﷺ کی نافرمانی والے کاموں میں لگاتے ہیں۔

ان آیات کریمہ میں اللہ سبحانہ و تعالیٰ نے ربا (سود) کا ذکر فرمایا ہے اوراس کا جُرم عظیم ہونا اور سود خوروں کے بُرے کرتوتوں کوبیان کیا ہے، اس کے ساتھ اس قبیح گناہ اور بڑے منکر پر ان کو ہونے والے دردناک عذاب اور شدید سزا کا بھی ذکر ہے۔وہ اس طرح کہ :

اللہ تعالیٰ نے سُودی کاروبار کرنے والے کی مثال اس شخص سے دی ہے جو مرگی کی بیماری کی وجہ سی خبطی بن گیا ہو، اٹھنے بیٹھنے اور چلنے پھرنے میں وہ عجیب و غریب حرکتیں کرتا ہے، اس کا ہر عمل پاگل پن  اور بدحواسی کا مظہر ہوتا ہے، یہ مثال اس مناسبت سے دی ہے کہ سود خور، سود کو تجارت اور خرید و فروخت کی طرح ہی سمجھتا ہے، جو اس کے دماغی خلل پر دلالت کرتا ہے، کیوں کہ اللہ تعالیٰ نے سود کو حرام قرار دیا ہے اور خرید و فروخت کو حلال کر دیا ہے۔

اس کے بعد اللہ سبحانہ و تعالیٰ، جاہلیت میں لوگ جو سودی معاملات کرتے رہے ، ان کی معافی کا اعلان کرتے ہیں اور اہل ایمان کے لیے بیان فرماتے ہیں کہ سود کی حرمت نازل ہونے کے بعد اب ان پر لازم ہے کہ وہ اس حکم کی پابندی کریں اور اللہ اور اس کے رسولﷺ کی تابعداری اختیار کرلیں، سو د کی حرمت نازل ہونے کے بعد جو شخص سودی معاملات سے باز نہ آئے، اور اللہ تعالیٰ کے حرام کردہ کو حلال سمجھے تو ایسا شخص دردناک عذاب کے قابل ہے ، ایسا شخص جہنم والوں میں شامل ہے جس میں  وہ ہمیشہ رہے گا۔

جہاں تک ﴿الَّذِينَ يَأْكُلُونَ الرِّبَا جو لوگ سود کھاتے ہیں یعنی لیتے ہیں، ان کا ذکر ہے، تو یہاں ذکر سُود کھانے کا ہے مگر اس میں ہر قسم کا سُودی منافع شامل ہے۔  اسی طرح کا صیغہ (يَأْكُلُونَ) قرآن کریم میں مذمت پر دلالت کرنے کے لیے استعمال ہوا ہے۔ جیسے ﴿إِنَّ الَّذِينَ يَأْكُلُونَ أَمْوَالَ الْيَتَامَى ظُلْمًا إِنَّمَا يَأْكُلُونَ فِي بُطُونِهِمْ نَارًا وَسَيَصْلَوْنَ سَعِيرًا بیشک جو لوگ یتیموں کا مال ظلم کے ساتھ کھاتے ہیں، وہ اپنے پیٹوں میں آگ بھر رہے ہیں(النساء؛ 4:10)۔

اور اسی طرح ﴿يَتَمَتَّعُونَ وَيَأْكُلُونَ كَمَا تَأْكُلُ الأَنْعَامُ وَالنَّارُ مَثْوًى لَهُمْ وہ فائدہ اٹھاتے ہیں اور کھاتے ہیں جیسے جانور کھاتے ہیں، اور ان کے لیے آگ ہی آخری ٹھکانہ ہے (محمد؛ 47:12)۔ زیر مطالعہ آیت میں بھی اسی معنی میں آیا ہے۔

﴿لاَ يَقُومُونَوہ نہیں کھڑے ہوں گے“،   یعنی قیامت کے دن۔

﴿إِلاَّ كَمَا يَقُومُ الَّذِي يَتَخَبَّطُهُ الشَّيْطَانُ یعنی وہ اپنی قبروں سے اٹھائے جائیں گے، جیسے دنیا میں دیوانہ (مجنون) اُٹھتا ہے، یہ اس دن ان کی ذلت و رسوائی ہوگی۔ یہ اس بات کا قرینہ ہے کہ رِبا سے جو نہی کی گئی ہے وہ نہی  جازم(حتمی) ہے اور ان آیات میں اس کی حرمت پر بار بار زور دیا گیا ہے۔

  ﴿مِنْ الْمَسِّ یعنی جنون ، کہا جاتا ہے: مُسّ الرجل" یعنی وہ شخص ممسوس ہے، یہ تب کہا جاتا ہے جب وہ پاگل ہو جائے۔ اور جیسے کہ کہاوت ہے، خبط العشواء“، جس کا مطلب ہے، اندھے اونٹ کا ٹکریں مارتے ہوئے چلنا۔

﴿الَّذِي يَتَخَبَّطُهُ الشَّيْطَانُ مِنْ الْمَسِّ کی تفسیر  میں کئی روایات آئی  ہیں ۔ان میں زیادہ راجح اور صحیح مفہوم یہ ہے کہ جب انسان جنون کا شکار ہوتا ہے تو شیطان کا اس پر اثر زیادہ ہو جاتا ہے، وسوسوں کے ذریعے، جنونی شخص کی حالت ایسی کر دیتے ہیں جس سے اس کو بہت سارے ایسے وہم اور الجھنیں پیدا ہو جاتی ہیں جس سے وہ ٹھوکر کھا جاتا ہے۔

لیکن یہ کہنا کہ شیطان ہی اسے مرگی کا دورہ پڑواتا ہے یا اسے جنون میں مبتلا کرتا ہے، تو آیت میں یہ بات نہیں ہے، تو آیت سےاس بات کی وضاحت نہیں ہوتی۔ کیوں کہ اللہ تعالیٰ نے یہ نہیں فرمایا کہ (يتخبطه الشيطان بالمس) شیطان اس پر جنون کا اثر ڈالتا ہے، بلکہ آیت میں یہ ذکر ہے کہ ﴿يَتَخَبَّطُهُ الشَّيْطَانُ مِنْ الْمَسِّشیطان اس پرجنون اور پاگل پن کی وجہ سے تخبط (بے ترتیبی) ڈالتا ہے۔ یعنی جنون پہلے سے موجود ہوتا ہے، اور پھر شیطان اس پر اثر انداز ہوتا ہے۔

اسی طرح یہ کہنا کہ آیت ﴿ الَّذِي يَتَخَبَّطُهُ الشَّيْطَانُ مِنْ الْمَسّ میں تخبط کا استعمال عربوں کے انداز گفتگو کے مطابق کنایہ اور مجاز کے طریقوں کی تاویل سے ہے، عرب لوگ مرگی والے کے بارے میں یہ کہتے ہیں کہ اس پر جنات اور آسیب کا اثر ہے اور جن نے اسے پاگل بنا دیا ہے۔ وہ جنون کو جن سے مشتق کرتے ہیں،سو یہ بھی راجح نہیں ہے۔ کسی تعبیر میں مجازکی ضرورت  اس وقت پڑتی ہے جب بیان شدہ حقیقت کا وقوع ناممکن ہو، لیکن یہاں یہ حقیقت نا ممکن نہیں کہ شیطان جنونی شخص کو وسوسوں کے ذریعے بدحواسی میں مبتلا کرے۔ اسی وجہ سے  توعربی میں ایسا کہا جاتاہے کہ(تخبطہ الشیطٰن) شیطان نے اس کوخبطی بنایا ہے۔ تاہم جو لوگ عربوں کے اس اسلوب کا مطلب یہ لیتے ہیں کہ یہ مجاز اور کنایہ کے باب سے ہے تو ممکن ہے کہ اس سے ان کی غرض اس بات کو مسترد کرنا تھاکہ شیطان ہی انسان کو جنون میں مبتلا کرتا ہے، کیوں کہ وہ جانتے ہیں کہ کہ شیطان کا انسان پر جنون کا اثر ڈالنا ممکن نہیں، جیسا کہ سورۃ ابراہیم میں ذکر ہے، ﴿وَمَا كَانَ لِي عَلَيْكُمْ مِنْ سُلْطَانٍاور میرا تم پر کوئی زور نہیں تھا (ابراہیم؛ 14:22)۔ اس لیے اس قسم کی بے  سروپا باتیں کیں۔

لیکن دونوں تفسیرات کمزور ہیں۔ جو ہم نے کہا وہ زیادہ درست ہے ۔ ہم نے اس کی وضاحت بھی کی ہے۔

اور عجیب بات یہ ہے کہ دونوں گروہوں کی تفسیروں میں ایک دوسرے پر اس بات پر تنقید کی جاتی ہے کہ اس نے موضوع میں اس کی رائے کی مخالفت کی ہے، یہاں تک کہ ان میں سے بعض دوسرے کو دین سے خارج کرنے کے قریب ہیں جب کہ آیت دونوں میں سے کسی کی رائے کو قطعی طور پر درست نہیں کہتی۔

اور اسی طرح میں نے اس آیت کی تفسیر میں کوئی صحیح حدیث نہیں دیکھی، سوائے اس کے جو رسول اللہ ﷺ سے اسراء و معراج کے واقعہ میں روایت ہے اور وہ کسی ایک کی رائے کو قطعی طور پر درست نہیں کہتی، «فانطلق بي جبريل فمررت برجال كثير كلّ منهم بطنه مثل البيت الضخم ... إلى أن يقول، فإذا أحس بهم أصحاب تلك البطون قاموا فتميل بهم بطونهم فيصرعون، ثم يقوم أحدهم فيميل به بطنه فيصرع ... إلى أن يقول، قلت، يا جبريل، من هؤلاء؟ قال: هؤلاء الذين يأكلون الربا لا يقومون إلا كما يقوم الذي يتخبطه الشيطان من المس»”جبرائیل مجھے لے کر چلے، اور میں بہت سے آدمیوں کے پاس سے گزرا جن میں سے ہر ایک کا پیٹ ایک بڑے گھر کی طرح تھا... یہاں تک کہ آپؐ نے فرمایا: جب ان پیٹ والوں کو احساس ہوتا تو وہ کھڑے ہوتے اور ان کے پیٹ انہیں جھکا دیتے اور وہ گر جاتے، پھر ان میں سے ایک کھڑا ہوتا تو اس کا پیٹ اسے جھکا دیتا اور وہ گر جاتا... یہاں تک کہ آپؐ نے فرمایا: میں نے کہا: اے جبرائیل، یہ کون لوگ ہیں؟ انہوں نے کہا: یہ وہ لوگ ہیں جو سود کھاتے ہیں، یہ نہیں اٹھیں گے مگر اس طرح جیسے وہ اٹھتا ہے جسے شیطان نے چھو کر بدحواس کر دیا ہو(احمد اور ابن ماجہ)۔ یہ سود خوروں کا بیان ہے جو اپنے پیٹوں کے جھکنے سے گر پڑتے ہیں کیونکہ وہ ان کے لیے بھاری ہیں اور یہ اس کی طرح ہے جسے شیطان نے چھو کر بدحواس کر دیا ہو۔

اور اسی بنیاد پر، نہ تو آیت اور نہ ہی کوئی حدیث اس آیت کی تفسیر میں کسی ایک کی رائے کو قطعی طور پر درست قرار دیتی ہے۔

اور جب معاملہ ایسا ہے، یعنی آیت کی تفسیر میں شریعت کی وضاحت موجود نہیں ہے، تو ہم زبان کی طرف رجوع کریں گے، کیونکہ قرآن عربی زبان میں نازل ہوا ہے، لہذا ہمیں راجح وہ ملتا ہے ﴿مِنْ الْمَسِّ﴾، جو ہم نے کہا یعنی ان کی مثال اس شخص کی مانند ہے جسے شیطان نے چھو کر بدحواس کر دیا ہے یعنی جنون کی وجہ سے، یعنی جنون کسی شخص کے شیطان کی طرف سے بدحواس کیے جانے سے پہلے آتا ہے، پس شخص کسی وجہ سے مجنون ہو جاتا ہے، پھر شیطان اپنے وسوسوں اور خیالات کے ذریعے اسے بدحواس کر دیتا ہے۔

پس شیطان نے کسی شخص کو مرگی کا دورہ نہیں ڈالا یعنی اسے مجنون نہیں بنایا، ورنہ آیت کریمہ ہوتی "الذي يتخبطه الشيطان بالمس" اور حرف "بـ " 'کے ساتھ' کے معنی میں آتا ہے یعنی جنون طاری کرنا، یا اسے جنون میں مبتلا کر دینا۔ لہٰذا کنایہ اور مجاز کا سہارا لے کر شیطان کے کردار کو اس کی حقیقت سےہٹانے کی ضرورت نہیں ہے کیونکہ لغت کے الفاظ ہی موزوں ہیں۔

اور تمام صورتوں میں ہم کہتے ہیں کہ یہی معانی ہی مضبوط ہیں اگرچہ قطعی نہیں ہیں۔ اور اگر کوئی لغت کی تحقیق یا کتاب و سنت سے کوئی قوی ترجیح پیش کر دے، تو اس کی پیروی کی جائے گی۔

اور یہ مثال سُود خوروں کے جرم کی شدت کی ایک واضح اور بھیانک تصویر کشی ہے، اور یہ نتیجہ تمام مفسرین کے نزدیک متفقہ ہے، خواہ وہ اس مثال کو جس طرح بھی سمجھیں۔

اور اللہ ہمارے ان بھائیوں کو معاف کرے جو ہم سے پہلے ایمان لائے، کہ انہوں نے اپنی تفسیروں میں ایک دوسرے کے بارے میں جو کچھ لکھا ہے، اور اللہ ہی مدد کرنے والا ہے۔

جہاں تک، ﴿ذَلِكَ بِأَنَّهُمْ قَالُوا إِنَّمَا الْبَيْعُ مِثْلُ الرِّبَا”یہ اس لیے کہ انہوں نے کہا کہ تجارت بھی تو سود کی طرح ہے“ کا تعلق ہے یعنی وہ بھیانک مثال جو ان کے جرم کی شدت کی وجہ سے ان کے لیے بیان کی گئی ہے، وہ اللہ تعالیٰ کا یہ فرمان ہے، ﴿الَّذِي يَتَخَبَّطُهُ الشَّيْطَانُ مِنْ الْمَسِّ”وہ شخص جسے شیطان نے چُھو کر بدحواس کر دیا ہو“ تو یہ اس وجہ سے ہے کہ انہوں نے سود کو جائز قرار دینے کا جواز نکال لیا اور اسے تجارت کے برابر سمجھ لیا۔ اور اس میں اس رسوائی اور عذاب کی دلیل ہے جو انہیں دنیا اور آخرت میں پہنچے گا۔

جہاں تک، ﴿وَأَحَلَّ اللَّهُ الْبَيْعَ وَحَرَّمَ الرِّبَا”اور اللہ نے تجارت کو حلال کیا اور سود کو حرام کیا ہے“ کا تعلق ہے، یہ جملہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے ان کے جواب میں اور سود اور تجارت کو برابر قرار دینے سے انکار کرنےکے لیے ہے۔

جہاں تک، ﴿فَمَنْ جَاءَهُ مَوْعِظَةٌ مِنْ رَبِّهِ”سو جس شخص کو اپنے رب کی طرف سے نصیحت پہنچے“ تو جس شخص کو یہ آگاہی ہو جائے کہ سود حرام ہے، یعنی جس کو حرمت کا حکم پہنچے۔ اور لفظ ﴿من شرط کے ساتھ ہےاور فعل ﴿جَاءَ میں تانیث کی علامت نہیں ہے کیونکہ موعظة اپنی حالت میں تانیث کے ساتھ ہے لیکن مذکر کے معنی رکھتا ہے بالکل اسی طرح جیسے یہ لفظ وعظ کے معنی میں ہے۔

جہاں تک، ﴿فَانتَهَى”اور وہ باز آجائے“ کا تعلق ہے، یہ ﴿جَاءَهُ”اسے پہنچ جائے“ تو یہ حرف عطف کے ساتھ ہے اور اس کے ساتھ 'فـ' کا ملانا اس بات کی دلیل ہے کہ حرمت پہنچنے پر بغیر تاخیر کے فوری طور پر نصیحت حاصل کی جائے۔

جہاں تک ﴿فَلَهُ مَا سَلَفَ”تو جو کچھ پہلے ہوچکا وہ اسی کا ہے“ کا تعلق ہے، تو حرف فـ “ شرط کے جواب کے طور پر آیا ہے، اور مراد یہ ہے کہ اس سے وہ مال واپس نہیں لیا جائے گا جو اس نے پہلے لےلیا ہے اور جو معاملہ حرمت سے پہلے مکمل ہو چکا ہے، البتہ اس میں سے جو کچھ باقی ہے اس پر ﴿فَلَكُمْ رُءُوسُ أَمْوَالِكُمْ لاَ تَظْلِمُونَ وَلاَ تُظْلَمُونَ”تو تمہارے لیے تمہارے اصل مال ہیں“ کا حکم لاگو ہوگا۔

جہاں تک ﴿وَأَمْرُهُ إِلَى اللَّهِ”اور اس کا معاملہ اللہ کے سپرد ہے“ کا تعلق ہے، یعنی اس شخص کا معاملہ جس نے باز آنا اختیار کیا، تو جو کچھ وہ پہلے کر چکا وہ اس کا ہے، اس کا آئندہ کا معاملہ اللہ کے سپرد ہے، پس اللہ سبحانہ وتعالیٰ بہتر جانتا ہے کہ وہ سود سے باز رہنے میں کس قدر پابند رہا ہے۔

جہاں تک ﴿وَمَنْ عَادَ”اوروہ جو پھر (سُود پر) لوٹ آئے“ یعنی جو شخص اپنے پہلے طریقے پر(سُود پر) لوٹ آئے اور کہے کہ تجارت سود کی طرح ہے، یعنی سود کو جائز سمجھنے کی طرف لوٹ جائے۔

جہاں تک، ﴿فَأُوْلَئِكَ أَصْحَابُ النَّارِ هُمْ فِيهَا خَالِدُونَ”تو یہی لوگ دوزخی ہیں، وہ اس میں ہمیشہ رہیں گے“ کیونکہ سود کو حلال سمجھنے کی طرف لوٹ جانے سے وہ کافر ہو جائے گا اور اسلام سے مرتد ہو جائے گا، اور کافر ہمیشہ آگ میں رہے گا۔

پھر اللہ سبحانہ وتعالیٰ اگلی آیت میں سود خور کے انجام اور صدقہ کرنے والے کے صلہ کو بیان کرتے ہیں، پس اللہ دنیا میں سُود کے مال سے برکت نکال لیں گے، اور سُود خور کے لئے آخرت میں دردناک عذاب تیار ہے۔اور اللہ سبحانہ و تعالیٰ صدقہ میں برکت ڈالیں گے اور اس صدقہ کرنے والے کے لیے آخرت میں عظیم اجر تیار ہے۔ پھر اللہ تعالیٰ نے آیت مبارکہ کو اس بات پر ختم کیا ہے کہ اللہ سبحانہ و تعالیٰ کافر اور گناہگاروں کو ناپسند کرتا ہے اور اس میں ایک تنبیہ اور اشارہ ہے کہ جو لوگ سُود کو حلال کرنے اور اسے تجارت کے برابر سمجھنے کی طرف لوٹتے ہیں وہ کافر اور گناہگار ہیں۔

جہاں تک ﴿يَمْحَقُ اللَّهُ الرِّبَا”اللہ سود کو مٹاتا ہے“ یعنی وہ اس کی برکت کو ختم کر دیتا ہے اگرچہ وہ بہت زیادہ ہی کیوں نہ ہو۔ ابن مسعود نے رسول اللہ ﷺ سے روایت کیا ہے کہ آپ ﷺ نے فرمایا، «إن الربا وإن كثر فعاقبته إلى قل»”سُود اگرچہ بہت زیادہ کیوں نہ ہو، لیکن اس کا انجام نقصان ہے“۔

اور 'المحق' کی اصطلاح کے معنی ہیں، کمی اور زوال ہونا، اور اسی سے 'محاق القمر' ہے، یعنی چاند کا کم ہونا ہے۔

جہاں تک، ﴿وَيُرْبِي الصَّدَقَاتِ”اور وہ صدقات کو بڑھاتا ہے“ کا تعلق ہے، یعنی اللہ صدقے کو دنیا میں برکت سے بڑھاتا ہے اور آخرت میں اس کے ثواب کو دوگنا کرتا ہے۔ مسلم نے روایت کیا ہے: «إن صدقة أحدكم لتقع في يد الله فيربيها له كما يربي أحدكم فُلُوَّه أو فصيله حتى يجيء يوم القيامة وإن اللقمة على قدر أحد»”بیشک تم میں سے جو کوئی (پاکیزہ مال میں سے) صدقہ کرتا ہے تو اللہ اسے دائیں ہاتھ میں لیتا ہے اور اسے پالتا ہے جیسا کہ کوئی اپنے بچھڑے کو پالتا ہے۔ یہاں تک کہ جب وہ قیامت کے دن آئے گا تو وہ صدقہ بڑھ کر پہاڑ کی مانند ہو جاتا ہے“۔

جہاں تک، ﴿وَاللَّهُ لاَ يُحِبُّ كُلَّ كَفَّارٍ أَثِيم ”اور اللہ کسی ناشکرے گناہگار کو پسند نہیں کرتا“ یعنی سود کو جائز سمجھنے والے ہر کافرکو، اور سُود کھانے والے اور اللہ سبحانہ و تعالیٰ اور اس کے رسول ﷺ کی نافرمانی کرنےوالے ہر گناہگار کو ناپسند کرتا ہے۔ اور لفظ ﴿كفّار اور لفظ، ﴿أثيمگنہگار“ میں مبالغہ کا صیغہ سُود کے جرم کی شدت کو ظاہر کرنے کے لیے لایا گیا ہے۔

اور تیسری آیت میں اللہ سبحانہ وتعالیٰ ان لوگوں سے وعدہ کرتا ہے جواسلام پر ایمان لائے اور اس کے شرعی احکام کی پابندی کی کہ ان کے لیے اللہ کے پاس عظیم اجر ہے اور نہ ان پر کوئی خوف ہوگا اور نہ وہ غمگین ہوں گے۔

جہاں تک ﴿إِنَّ الَّذِينَ آمَنُوا”بے شک جو لوگ ایمان لائے“ یعنی وہ اللہ اور اس کے رسول اور اس کی کتابوں اور یوم آخرت اور تقدیر کے اللہ سبحانہ و تعالیٰ کی طرف سے اچھے اور برے ہونے پر ایمان لائے، جیسا کہ پہلے بیان ہو چکا ہے۔

جہاں تک ﴿وَعَمِلُوا الصَّالِحَاتِ”اور نیک کام کیے“ کا تعلق ہے، یعنی انہوں نے شرعی احکام کی پابندی کی اور انہیں اس طرح لاگو کیا جس طرح اللہ سبحانہ و تعالی کی کتاب اور اس کے رسول ﷺ کی سنت میں بیان کیا گیا ہے۔

جہاں تک ﴿وَأَقَامُوا الصَّلاَةَ وَآتَوْا الزَّكَاةَ”اور نماز قائم کی اور زکوٰۃ ادا کی“ کا تعلق ہے، یہ خاص بات کو  اس کی اہمیت کی وجہ سے عام بات کے بعد ذکر کرنے کے اسلوب میں سے ہے، پس نماز اور زکوٰۃ اللہ سبحانہ وتعالیٰ کے اس فرمان  ﴿وَعَمِلُوا الصَّالِحَاتِ”اور نیک کام کیے“ میں داخل ہیں، اور اس کے بعد ان کا ذکر ان کی عظمت پر زور دینے کے لیے کیا گیا ہے۔

4۔ چوتھی آیت میں اللہ سبحانہ وتعالیٰ کی طرف سے مؤمنین سے خطاب ہے کہ وہ اللہ سے ڈریں، یعنی اپنے آپ کو اللہ کے عذاب سے بچائیں اور سُود سے باز آ جائیں۔

پھر اللہ سبحانہ و تعالی آیت کے آخر میں بیان کرتے ہیں کہ جس اسلام پر تم ایمان لاتے ہو وہ تم پر یہ لازم کرتا ہے۔

جہاں تک، ﴿يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا”اے ایمان والو!“ کا تعلق ہے ، تو یہ مؤمنین سے خطاب ہے۔

جہاں تک، ﴿اتَّقُوا اللَّهَ”اللہ سے ڈرو“، کا تعلق ہے، تو  اس کا معانی ہےاپنے آپ کو اللہ کے عذاب سے بچاؤ۔

جہاں تک، ﴿وَذَرُوا مَا بَقِيَ مِنْ الرِّبَا”اور جو سود باقی رہ گیا ہے اسے چھوڑ دو“ یعنی جو سود تم نے ابھی تک وصول نہیں کیا ہے اسے چھوڑ دو، اسے مت لو، بلکہ صرف اپنا اصل سرمایہ لو، اور اس کا مفہوم یہ ہے کہ جو کچھ انہوں نے حرمت سے پہلے وصول کر لیا تھا اس کا ان سے مطالبہ نہیں کیا جائے گا۔

جہاں تک، ﴿إِنْ كُنتُمْ مُؤْمِنِينَ”اگر تم مومن ہو“ عربی میں مخاطب کو اکسانے اور اس سے جو طلب کیا جا رہا ہے اسے نافذ کرنے کی ترغیب دینے کا ایک طریقہ ہے، پس خطاب مومنین سے شروع کیا گیا ہے اور انہیں اس بات کی یاد دہانی کے ساتھ ختم کیا گیا ہے کہ جس اسلام پر وہ ایمان لائے ہیں اس کی وجہ سے ان پر سود کو چھوڑنا واجب ہے، جیسا کہ تم کسی ایسے شخص سے کہو جسے تم اکسانا چاہتے ہو (اگر تم مرد ہو تو ایسا کرو) اور تمہیں معلوم ہے کہ وہ مرد ہے، تو گویا تم اسے اس کی مردانگی یاد دلاتے ہو اور اس سے کہتے ہو کہ مردانگی تم پر لازم کرتی ہے کہ تم ایسا کرو۔

پھر اس کے بعد رب العالمین کی طرف سے ایک وضاحت اور پیغام ہے کہ تم دو چیزوں میں سے ایک کا انتخاب کرو:

الف۔یہ کہ تم اللہ کے حکم کی پابندی کرو اور سود سے توبہ کرو اور اس کی طرف نہ لوٹو، تو تمہارے لیے تمہارا اصل سرمایہ ہوگا سود کے بغیر، اور اس طرح تم نہ کسی پر ظلم کرو گے اور نہ تم پر ظلم کیا جائے گا، پس نہ تم اپنے قرض خواہوں پر زیادتی کرو گے سود لے کر اور نہ تم پر ان کی طرف سے زیادتی کی جائے گی کہ وہ تمہارا اصل سرمایہ واپس نہ کریں یا تم سے تاخیر کریں۔

ب۔یا پھر تم یقین کر لو اور جان لو کہ سود لینے سے تم اللہ سبحانہ وتعالیٰ اور اس کے رسول ﷺ کے ساتھ حالت جنگ میں ہو گے۔ اور یہ سود خوروں کے لئے ایک زبردست دھمکی ہے اور سود کے جرم کی سختی کا ایک واضح بیان ہے، اور کون ہے جو اللہ اور اس کے رسول سے جنگ کرنے کی طاقت رکھتا ہے؟

روایت ہے کہ جب یہ آیت نازل ہوئی تو قبائل ثقیف نے کہا: ]لا يد لنا بحرب الله تعالى ورسوله[”ہم میں اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول سے جنگ کرنے کی طاقت نہیں ہے“۔ اور انہوں نے بنی مغیرہ سے اپنے سود کا مطالبہ کیا تھا جیسا کہ ابن ابی حاتم نے مقاتل سے روایت کیا ہے کہ انہوں نے کہا: یہ آیت بنی عمرو بن عمیر بن عوف ثقفی اور اس کے بھائیوں کے بارے میں نازل ہوئی جن کا بنو مخزوم کے بنی مغیرہ پر سُود تھا، وہ جاہلیت میں بنی مغیرہ کو قرض دیتے تھے اور اسلام کے بعد ثقیف نے اپنا وہ سُود طلب کیا جو ان کا بنی مغیرہ پر تھا اور وہ بہت بڑا مال تھا۔ تو بنو مغیرہ نے یہ کہتے ہوئے انکار کیا : والله لا نعطي الربا في الإسلام وقد وضعه الله تعالى ورسوله عن المسلمين”اللہ کی قسم ہم اسلام میں سود نہیں دیں گے، اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول ﷺ نے اسے مسلمانوں سے ختم کر دیا ہے“۔ تو معاذ بن جبل کو ان کے معاملے کی خبر ہوئی اور کہا جاتا ہے کہ عتاب بن اسید نے - وہ فتح مکہ کے بعد رسول اللہ ﷺ کی طرف سے والی تھے-  رسول اللہ ﷺ کو اس بارے میں لکھا تو اللہ تعالیٰ نے یہ آیت نازل فرمائی: ﴿يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا اتَّقُوا اللَّهَ وَذَرُوا مَا بَقِيَ مِنْ الرِّبَا”اے ایمان والو! اللہ سے ڈرو اور جو سود باقی رہ گیا ہے اسے چھوڑ دو“،   تو رسول اللہ ﷺ نے اس بارے میں انہیں لکھا،  أن أعرض عليهم هذه الآية فإن فعلوا فلهم رؤوس أموالهم وإن أبوا فآذنهم بحرب من الله ورسوله”انہیں یہ آیت پیش کرو، پس اگر وہ مان جائیں تو ان کے لیے ان کا اصل سرمایہ ہے، اور اگر وہ انکار کریں تو انہیں اللہ اور اس کے رسول کی طرف سے جنگ کی اطلاع دے دو“۔

اور ابو یعلیٰ نے ابن عباس رضی اللہ عنہ سے روایت کیا ہے کہ جب یہ آیت نازل ہوئی تو ثقیف نے وہ بات کہی جو ہم نے پہلے ذکر کی: لا يد لنا بحرب الله تعالى ورسوله”ہم میں اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول ﷺ سے جنگ کرنے کی سکت نہیں ہے“۔

پھر االلہ سبحانہ و تعالیٰ نے گزشتہ آیت میں ربا کی قطعی ممانعت کو واضح کر دیا، اور یہ بیان کیا کہ سود پر کام کرنے والوں کو صرف ان کی اصل رقم واپس کی جائے گی تاکہ نہ تو کسی پر ظلم ہو اور نہ ہی کوئی ظلم کرے۔ اس کے بعد اللہ سبحانہ و تعالیٰ نے ایک خاص صورتحال کا ذکر کیا، اور وہ یہ کہ ممکن ہے کہ قرض دار مالی طور پر تنگ دست ہو، اور وہ قرض دہندہ سے لی گئی اصل رقم واپس کرنے سے قاصر ہو۔

یہ مسئلہ اس آیت مبارکہ میں بیان کیا گیا ہے، جس میں تنگ دست قرض دار کو اس کی مالی حالت بہتر ہونے تک کی مہلت دینے کا تقاضا کیا گیا ہے، تاکہ وہ قرض واپس کر سکے۔ نیز یہ کہ، اللہ سبحانہ و تعالیٰ قرض دہندگان کو صرف مہلت دے دینے سے بھی آگے بڑھ کر مزید نرمی دکھانے کی ترغیب دیتے ہیں، اور فرماتے ہیں کہ وہ قرض کے کچھ حصہ کو یا پورے قرض کو معاف کر دیں۔ ایسا عمل نہ صرف اس دنیا میں بلکہ آخرت میں بھی خیر کو یقینی بنائے گا کیونکہ اس سے وہ اجرِ عظیم اور ثواب کا مستحق ہو گا۔

جاہلیت کے دور میں، اگر کوئی قرض دار اپنا قرض ادا نہ کر پاتا تو اسے قرض کی ادائیگی کے عوض غلام بنا کر بیچ دیا جاتا تھا۔ تاہم، اللہ سبحانہ و تعالیٰ کی رحمت اور اسلام کے اس عظیم دین کے انصاف کی بدولت، تنگ دست قرض دار کو مہلت دی گئی، تاکہ ان کی مالی حالت بہتر ہو سکے اور وہ اپنا قرض ادا کر سکیں۔ اور نہ صرف یہ بلکہ اس کے علاوہ، قرض دہندگان کو بھی نہ صرف مہلت دینے کی ترغیب دی گئی، بلکہ قرض کا کچھ حصہ یا پورا قرض معاف کر دینے پر اجر کا ذکر کیا گیا۔ بے شک تمام تعریفیں اللہ کے لئے ہی ہیں جو تمام جہانوں کا پروردگار ہے۔

جہاں تک﴿وَإِنْ كَانَ ذُو عُسْرَةٍ فَنَظِرَةٌ إِلَى مَيْسَرَةٍاور اگر کوئی تنگ دست ہو تو کشادگی ہونے تک مہلت دے دو“ کی بات ہے، یہاں﴿كان فعل کی مکمل (ماضی) شکل ہے، جس کا معنی ہے ”اگر موجود ہو“۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ اگر کوئی قرض دار تنگ دست ہو تو اسے مہلت دی جانی چاہئے جب تک کہ وہ ایسی مالی حالت تک نہ پہنچ جائے جہاں وہ قرض ادا کرنے کے قابل ہو سکے۔

جہاں تک﴿عُسْرَةٍ ”مشکل“ کا تعلق ہے، یہ مالی مشکلات کی حالت کو ظاہر کرتا ہے جو مال کی کمی کی وجہ سے پیدا ہوتی ہے، جیسا کہ"جيش العسرة" (تنگ دستی کا لشکر) میں بیان کیا گیا ہے۔
اور﴿مَيْسَرَةٍ”آسانی“ کا مطلب ہے دولت یا مالی استطاعت، جو اس حالت کو ظاہر کرتا ہے جہاں قرض واپس کرنے کے لیے ضروری وسائل موجود ہوں۔

چونکہ﴿كانایک مکمل فعل کی صورت ہے، اس لیے مہلت دینے کا حکم صرف رِبا کے معاملات سے متعلق قرض داروں تک ہی محدود نہیں ہے، بلکہ یہ ان تمام قرض داروں پر بھی لاگو ہوتا ہے جو مالی طور پر قرض کی ادائیگی سے قاصر ہوں اور قرض ادا کرنے کے قابل نہ ہوں۔ اگر یہ آیت صرف رِبا سے متعلق افراد کے بارے میں ہوتی، تو اس میںوَإِنْ كَانَ ذا عسرةکے الفاظ استعمال ہوتے، جس میں'ذا' کی ضمیر ہوتی جو رِبا کی رقم کی ادائیگی کا مطالبہ کرنے والے قرض دار کی طرف اشارہ کرتی۔ تاہم، آیت میں الفاظ﴿وَإِنْ كَانَ ذُو عُسْرَةٍاور اگر کوئی تنگ دست ہو،عمومی معنی میں استعمال کیے گئے ہیں، جو کہ کسی بھی ایسے قرض دار پر لاگو ہوتے ہیں جو مالی طور پر قرض کی ادائیگی سے قاصر ہو۔

اس مفہوم کو اس حقیقت سے بھی تقویت ملتی ہے کہذو عسرة ایک نکرہ (عمومی) اسم ہے جو جملے کی مشروط حالت میں استعمال ہوا ہے۔ اس سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ یہ اصطلاح تمام تنگ دست قرض داروں پر لاگو ہوتی ہے، نہ کہ صرف مخصوص معاملات کے قرض داروں پر جیسا کہ رِبا کے قرض دار۔

یہ آیت رِبا کے ختم کئے جانے سے قبل ربا کے معاملات سے متعلق افراد کے بارے میں نازل ہوئی تھی، اور اسلام نے رِبا کو ختم کر دیا اور اصل رقم کی ادائیگی کا حکم دیا جبکہ رِبا کو حرام قرار دے دیا۔ جیسا کہ الکلبینے اپنی روایت میں ذکر کیا ہے، یہ آیت اس وقت نازل ہوئی جب بنو المغیرہ نے بنو عمر سے کہا،نحن اليوم أهل عسرة فأخرونا إلى أن ندرك الثمر”ہم فی الحال مالی مشکلات میں ہیں؛ ہمیں فصل کی کٹائی تک کی مہلت دے دو“۔

تاہم، بنو عمر نے انہیں مہلت دینے سے انکار کر دیا۔ اس پر یہ آیت نازل ہوئی۔ یہ واقعہ بنی المغیرہ اور بنو عمر کے مابین رِبا کے معاملات کے حوالے سے متعلق مکمل تفصیل کو بیان کرتا ہے، جس پر گزشتہ آیت کی تفسیر میں بات کی گئی تھی۔ اس طرح، یہ آیت خاص طور پر رِبا کے معاملات میں اصل رقم کی واپسی کے مطالبے کے حوالے سے نازل ہوئی تھی۔

تاہم، یہ قاعدہ شریعت کے اس اصول (قاعِدہ) سے استنباط کیا گیا ہے کہ، العِبرةُ بعُمومِ اللَّفظِ أو بخُصوصِ السَّبَبِ بیان کا اعتبار الفاظ کی عمومیت پر ہوتا ہے، نہ کہ سبب نزول کی خصوصیت پر“۔ جیسا کہ پہلے ذکر کیا گیا، ﴿ذُو عُسْرَةٍ﴾ تنگ دستی کی حالت میں مبتلا شخص“ ایک عمومی اصطلاح ہے۔ اس لیے یہ حکم کسی بھی تنگ دست قرض دار کو مہلت دینے کے لیے لاگو ہوتا ہے، چاہے قرض رِبا کی اصل رقم سے متعلق ہو یا کسی اور قسم کے قرض سے متعلق ہو۔

جہاں تک ﴿فَنَظِرَةٌ إِلَى مَيْسَرَةٍ﴾ تو آسانی کی حالت ہونے تک مہلت دے دو“ کا تعلق ہے، تو حرفِ عطف "فـ" ربط میں اس مشروط جملے ﴿وَإِنْ كَانَ ذُو عُسْرَةٍ﴾ کے جواب سے متعلق ہے۔ لفظ "نظرة" کا معنی ہے ملتوی کرنا“ یا مہلت کا وقت“، اور یہ ایک اسمی خبر ہے جس کا فاعل ضمنی طور پر مراد ہے، یعنی یہ تم پر لازم ہے کہ مہلت دے دو“۔

یہاں مہلت دینا فرض ہے۔ اور یہ اللہ سبحانہ وتعالیٰ کے اس فرمان سے واضح ہوتا ہے جو فوراً اس کے بعد آتا ہے، ﴿وَأَنْ تَصَدَّقُوا خَيْرٌ لَكُمْاور اگر (قرض) بخش دو تو تمہارے لئے زیادہ بہتر ہے۔ اس کا یہ مفہوم ہے کہ ابتدائی حکم، ﴿وَإِنْ كَانَ ذُو عُسْرَةٍ فَنَظِرَةٌ إِلَى مَيْسَرَةٍاور اگر کوئی تنگ دست ہو تو کشادگی ہونے تک مہلت دے دو“ لازمی فرض ہے۔ اس کا استدلال اس بات میں ہے کہ اس کے بعد ﴿تَصَدَّقُواصدقہ دوکا ذکر آیا ہے۔ فقہی اصولوں کے مطابق، جب کسی کام کا حکم دیا جائے اور اسی قسم کے کسی دوسرے کام کو نفل عمل کے طور پر پیش کیا جائے، تو یہ اس بات کی دلیل ہوتی ہے کہ ابتدائی حکم فرض ہے۔ مثال کے طور پر، اگر کوئی شخص کہے یہ صفحہ لکھو، پھر نفلی طور پر ایک اور صفحہ لکھ دو، تو اس عبارت سے یہ مفہوم نکلتا ہے کہ پہلا حکم یہ صفحہ لکھوفرض ہے، جیسا کہ اس کے بعد والے نفل عمل سے نشاندہی ظاہر ہوتی ہے۔ اسلامی فقہہ کے اصولوں میں اس اصول کو شریعت کے فقہی قرائن کے مطالعہ میں واضح کیا گیا ہے۔ ایک تنگ دست قرض دار کو مہلت دینے کے علاوہ صدقہ دینے کا مطلب ہے قرض کا کچھ حصہ یا پورا قرض معاف کر دینا۔ یہ نہیں کہا جا سکتا کہ ﴿وَأَنْ تَصَدَّقُوااور اگر (قرض) بخش دوسے مراد صرف مہلت دے دینا ہی ہے، کیونکہ یہ دونوں علیحدہ علیحدہ ذکر کیے گئے ہیں اور حرف عطف سے جڑے ہوئے ہیں، جو یہ ظاہر کرتا ہے کہ بعد والا عمل پہلے عمل کا اضافی حصہ ہے۔ بالفاظ دیگر، اس کا مطلب ہے کہ مہلت دینے کے علاوہ کچھ اضافی بھی کرنا ہے، جیسا کہ اگر کوئی شخص کہے کہ زکوٰة دو اور صدقہ بھی دو۔ اس عبارت سے یہ مفہوم نکلتا ہے کہ فرض تو زکوة دینا ہے اور اس کے علاوہ صدقہ دے دینا نفل عمل ہے۔

جہاں تک ﴿إِنْ كُنتُمْ تَعْلَمُونَاگر تم جانتے ہوکا تعلق ہے، تو جملے میں دی گئی شرط إن  کے جواب کو حذف کیا گیا ہے لیکن اسے سمجھا جا سکتا ہے: اگر تم یہ جان لیتے کہ اللہ سبحانہ و تعالیٰ نے جس قدر اجرِ عظیم اور ثواب ان لوگوں کے لیے تیار کیے ہیں جو کسی تنگ دست قرض دار کی مشکلات کو دور کرتے ہیں اور ان کے قرض کا کچھ حصہ معاف کرتے ہیں، تو تم فوراً ایسا کرنے کی کوشش کرتے۔ یہ مشروط جواب کا مفہوم ہے۔

امام احمدؒ نے اپنی مسند میں رِبِیع سے مروی یہ روایت کی ہے، جو کہتے ہیں کہ ابو الیسر نے کہا کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا، «مَنْ أَنْظَرَ مُعْسِرًا أَوْ وَضَعَ عَنْهُ أَظَلَّهُ اللَّهُ تَبَارَكَ وَتَعَالَى فِي ظِلِّهِ»جو شخص کسی تنگ دست قرض دار کو مہلت دیتا ہے یا اس کے قرض کا کچھ حصہ معاف کرتا ہے، تو اللہ عزوجل اسے اپنے (عرش کے) سایہ تلے پناہ دے گا۔ ایک اور روایت میں اس میں یہ الفاظ بھی آئے ہیں، «يَوْمَ لاَ ظِلَّ إِلاَّ ظِلُّهُ» اس دن جب کوئی سایہ نہیں ہوگا سوائے اس کے (عرش کے) سایہ کے۔ امام احمدؒ نے ابن عمر رضی اللہ عنہ سے بھی روایت کیا ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا، «من أراد أن تستجاب دعوته وأن تكشف كربته فليفرج عن معسر»جو شخص چاہے کہ اس کی دعا قبول ہو اور اس کی مشکلات دور ہوں، تو وہ کسی تنگ دست قرض دار کا بوجھ ہلکا کرے۔ امام احمدؒ نے ابن عباس رضی اللہ عنہ سے یہ بھی روایت کیا ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: «من أنظر معسراً أو وضع له وقاه الله من فيح جهنم» جو شخص کسی تنگ دست قرض دار کو مہلت دیتا ہے یا اس کے قرض کا کچھ حصہ معاف کرتا ہے، اللہ تعالیٰ اسے جہنم کی تپش سے محفوظ رکھے گا۔

یہ ذکر کرنا ضروری ہے کہ تنگ دست قرض دار، یعنی وہ قرض دار جسے مہلت دی جانی چاہیے، اس کی تعریف کے حوالے سے بعض فقہی آراء پائی جاتی ہیں۔ میری رائے میں سب سے زیادہ قائل کرنے والی رائے یہ ہے کہ تنگدست قرض دار وہ شخص ہوتا ہے جس کے پاس اپنی بنیادی ضروریات جیسے کہ کھانا، لباس اور رہائش پوری کرنے کے علاوہ کوئی زائد دولت نہ ہو۔ یہ تعریف ان الفاظ کے مفہوم پر مبنی ہے، أعسر فلان فلاں شخص تنگدست ہو گیا، جس سے مفہوم یہ نکلتا ہے کہ وہ شخص غریب ہے۔ لہٰذا، کسی تنگدست قرض دار کو غریب شخص کے مترادف سمجھا جا سکتا ہے۔ ایک غریب شخص وہ ہوتا ہے جس کے پاس اپنی ضروری بنیادی ضروریات پوری کرنے کے لیے مال نہ ہو۔ اگر کسی کے پاس اپنی بنیادی ضروریات سے زائد مال ہو تو وہ غریب نہیں کہلاتا، اور یوں نتیجتاً وہ تنگدست بھی نہیں ہوتا۔ لہٰذا، وہ شخص مہلت کا حق صرف اسی صورت میں رکھتا ہے جب تک کہ اس کا مال اس کی ضروری بنیادی ضروریات سے زائد نہ ہو۔

تنگ دستکا لفظ اس شخص پر لاگو نہیں ہوتا جو اپنی معمول کی ضروریات سے زائد دولت سے محروم ہو۔ معمول کی ضروریات سے مراد ہے کسی شخص کی روزمرہ زندگی کے معیار سے متعلق اشیاء جیسے کہ ایک گاڑی کا مالک ہونا، ملازم رکھنا، مختلف قسم کے لباس پہننا، اور مختلف قسم کے کھانے پینے کی اشیاء کا استعمال کرنا۔ یہ تمام اشیاء بنیادی ضروریات کے علاوہ کی اشیاء ہیں، جبکہ بنیادی ضروریات میں یہ شامل ہیں، 1- زندہ رہنے کے لئے خوراک کا کافی ہونا، 2- لباس کا ہونا جو تَن کو ڈھانپے اور عفت کی حفاظت کرے۔ 3- رہائش جو تحفظ اور بنیادی رہائشی حالات فراہم کرے۔

جہاں تک مختلف خوراک اور لباس کا تعلق ہے، تو صرف وہی چیزیں ضروری سمجھی جاتی ہیں جو زندگی گزارنے کے لیے ضروری ہوں۔ اگر کسی شخص کے پاس اپنی ضروریات سے زائد مال ہو، جیسے کہ گاڑی کا مالک ہونا، اضافی گھر، زمین کا ٹکڑا، یا کسی بھی قسم کا اضافی مال، تو قرض دہندہ کو حق حاصل ہے کہ وہ قرض کی ادائیگی کا مطالبہ کرے اور ایسی حالت میں مہلت نہ دے۔

ایسی صورت حال میں، قرض دہندہ کو یہ حق حاصل ہے کہ وہ قانونی دعویٰ دائر کر کے قرض دار کے اضافی مال سے اپنا دیا گیا قرض وصول کرے۔

7- یہ آخری آیت اللہ سبحانہ و تعالیٰ کی طرف سے قیامت کے دن کی یاد دہانی ہے، جب ہر شخص اللہ کی طرف لوٹے گا، حساب کتاب ہوگا، اور اسے انصاف کے مطابق جزا ملے گی۔ جس کسی نے بھی اچھا عمل کیا ہو گا، وہ اجر پائے گا، اور جس نے برا عمل کیا ہو گا، اسے سزا ملے گی۔ اللہ سبحانہ و تعالیٰ نے فرمایا، ﴿لَا ظُلْمَ الْيَوْمَ”اس دن کوئی ظلم نہیں ہوگا“ (سورۃ غافر؛ 40:17)۔ اور اللہ سبحانہ و تعالیٰ فرماتے ہیں، ﴿ثُمَّ تُوَفَّى كُلُّ نَفْسٍ مَا كَسَبَتْ وَهُمْ لاَ يُظْلَمُونَ ”پھر ہر نفس کو اس کے کیے کا پورا بدلہ دیا جائے گا، اور ان پر کوئی ظلم نہیں کیا جائے گا“ (البقرۃ؛ 2:281)۔

جہاں تک ﴿وَاتَّقُوا يَوْمًا اور اس دن سے ڈرو“ کا تعلق ہے، تو اس کا مطلب ہے کہ اس دنیا میں گناہوں سے دور رہ کر اور اپنے اچھے اعمال میں اضافہ کر کے اس دن کے عذاب سے اپنے آپ کو بچاؤ۔ شاید اسی وجہ سے اس آیت مبارکہ کو سُود سے متعلق آیات کے بعد رکھا گیا ہے، تاکہ سُود کے گناہ کی شدت کو واضح کیا جا سکے، کیونکہ یہ اللہ کے غضب اور جہنم کی آگ کا سبب بنتا ہے۔ جو شخص بھی اللہ کے غضب سے بچنا چاہتا ہو، ﴿اتَّقُوا اللَّهَ وَذَرُوا مَا بَقِيَ مِنْ الرِّبَا تم اللہ سے ڈرو اور جو کچھ بھی سُود باقی رہ گیا ہے، اسے چھوڑ دو۔

اور جو شخص قیامت کے دن کے عذاب سے بچنا چاہتا ہے، ﴿وَاتَّقُوا يَوْمًا تُرْجَعُونَ فِيهِ إِلَى اللَّهِاور اس دن سے ڈرو جب تم اللہ کی طرف واپس لوٹائے جاؤ گے۔ وہ دن جو کہ (اپنی شدت سے) بچوں کے بالوں کو بھی سفیدی میں بدل دے گا، اس دن جو شخص بھی اللہ کی رضا کا طلبگار ہو، تو اسے سُود جیسے قبیح جرم کو چھوڑ دینا چاہیے اور اللہ سبحانہ و تعالیٰ اور اس کے رسول ﷺ کے خلاف جنگ میں شامل ہونے سے بچنا چاہیے۔ اس کے بجائے، اسے چاہئے کہ جب وہ اللہ سبحانہ و تعالیٰ سے ملاقات کرے تو اللہ ان سے راضی ہو، تاکہ وہ اس قادرِ مطلق، عادل اور بزرگ و برتر سے اجروثواب حاصل کر سکے۔ یہ آیت مبارکہ قرآنِ مجید کی نازل ہونے والی آخری آیت ہے۔

بخاری نے اپنی صحیح میں باب "باب موكل الربا" سُود لینے والے کے بارے میں باب“ میں ذکر کیا ہے، ﴿وَاتَّقُوا يَوْمًا تُرْجَعُونَ فِيهِ إِلَى اللَّهِ ثُمَّ تُوَفَّى كُلُّ نَفْسٍ مَا كَسَبَتْ وَهُمْ لاَ يُظْلَمُونَ اس دن سے ڈرو جب تم سب اللہ کی طرف واپس لوٹائے جاؤ گے، پھر ہر نفس کو اس کے کئے کا پورا بدلہ دیا جائے گا، اور کسی پر کوئی ظلم نہیں کیا جائے گا۔ ابن عباس رضی اللہ عنہ نے کہا،   هذه آخر آية نزلت على النبي”یہ وہ آخری آیت ہے جو رسول اللہ ﷺ پر نازل ہوئی“۔

ابن جریرؒ نے ابن عباس رضی اللہ عنہ سے روایت کیا، "آخر آية نزلت في القرآن، ﴿وَاتَّقُوا يَوْمًا تُرْجَعُونَ فِيهِ إِلَى اللَّهِ ثُمَّ تُوَفَّى كُلُّ نَفْسٍ مَا كَسَبَتْ وَهُمْ لاَ يُظْلَمُونَقرآن پاک کی نازل ہونے والی آخری آیت، اور اس دن سے ڈرو جب تم اللہ کی طرف واپس لوٹائے جاؤ گے، پھر ہر نفس کو اس کے کئے کا پورا بدلہ دیا جائے گا اور کسی پر کوئی ظلم نہ ہو گا“۔

ابن جریجؒ نے کہا، يقولون إن النبي ﷺ مكث بعدها تسع ليال وبدأ يوم السبت ومات ﷺ يوم الاثنين ”وہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ اس آیت کے نازل ہونے کے بعد ہفتہ (کے دن سے) سے لے کر پیر (کے دن تک) نو راتوں تک زندہ رہے تھے“۔

ابن ابی حاتمؒ نے بھی سعید بن جبیرؓ سے روایت کیا، "آخر ما نزل من القرآن كله ﴿وَاتَّقُوا يَوْمًا تُرْجَعُونَ فِيهِ إِلَى اللَّهِ ثُمَّ تُوَفَّى كُلُّ نَفْسٍ مَا كَسَبَتْ وَهُمْ لاَ يُظْلَمُونَ”قرآن کریم کی تمام آیات میں سے آخری نازل ہونے والی آیت یہ ہے: اور اس دن سے ڈرو جب تم اللہ کی طرف واپس لوٹائے جاؤ گے، پھر ہر نفس کو اس کے کئے کا پورا بدلہ دیا جائے گا اور کسی پر کوئی ظلم نہ ہو گا“۔ اس کے بعد انہوں نے کہا کہ رسول اللہ ﷺ اس آیت کے نزول کے بعد نو راتوں تک زندہ رہے تھے اور پھر پیر کے دن ان کا انتقال ہوا۔

ابن مردویہ نے سعید بن جبیرؒ سے اور انہوں نے ابن عباس رضی اللہ عنہ سے روایت کیا، "آخر شيء نزل من القرآن ﴿وَاتَّقُوا يَوْمًا تُرْجَعُونَ فِيهِ إِلَى اللَّهِ..." ”قرآن کی آخری نازل ہونے والی آیت یہ ہے،  اور اس دن سے ڈرو جب تم اللہ کی طرف واپس لوٹائے جاؤ گے

القرطبی نے ذکر کیا ہے کہ ابو صالح نے ابن عباسؓ سے روایت کیا، آخر ما نزل من القرآن، ﴿وَاتَّقُوا يَوْمًا تُرْجَعُونَ فِيهِ إِلَى اللَّهِ ثُمَّ تُوَفَّى كُلُّ نَفْسٍ مَا كَسَبَتْ وَهُمْ لاَ يُظْلَمُونَ﴾ فقال جبريل للنبي ﷺ ، يا محمد ضعها على رأس ثمانين ومائتين من البقرة ”قرآن کی آخری آیت جو نازل ہوئی تھی، وہ یہ ہے، اور اس دن سے ڈرو جب تم اللہ کی طرف واپس لوٹائے جاؤ گے، پھر ہر نفس کو اس کے کئے کا پورا بدلہ دیا جائے گا اور کسی پر کوئی ظلم نہ ہو گا“۔ پھر جبریل علیہ السلام نے رسول اللہ ﷺ سے کہا، "يا محمد ضعها على رأس ثمانين ومائتين من البقرة" ”اے محمد ﷺ! اس آیت کو سورۃ البقرۃ کی آیت 281 پر رکھیں“۔

قرطبیؒ نے ایک اور روایت بھی ذکر کی ہے جس میں رسول اللہ ﷺ نے فرمایا، "اجعلوها بين آية الربا وآية الدين"”اس (آیت کو) سُود کی آیت اور قرض کی آیت کے درمیان میں رکھو“۔ یہ روایت صحیح بخاری کی روایت کے ساتھ متناقض نہیں ہے، جہاں ابن عباس رضی اللہ عنہ نے فرمایا، "آخر ما نزل على رسول الله آية الربا"”آخری آیت جو رسول اللہ ﷺ پر نازل ہوئی وہ سُود کے بارے میں آیت تھی“۔

امام احمدؒ نے عمر رضی اللہ عنہ سے روایت کیا ہے، جنہوں نے فرمایا، من آخر ما نزل آية الربا”(قرآن مجید کی) نازل ہونے والی آخری آیات میں سے ایک آیت سُود کے بارے میں تھی“۔

ابن ماجہ اور ابن مردویہ نے عمر رضی اللہ عنہ سے روایت کیا ہے، کہ انہوں نے فرمایا، من آخر القرآن نزولاً آية الربا”(قرآن مجید کی) نازل ہونے والی آخری آیات میں سے ایک آیت سُود کے بارے میں تھی“۔

ان روایات کے درمیان تعلق اس طرح سے کیا جاتا ہے؛ سُود کے بارے میں آیات نازل ہوئیں، اور پھر اس کے بعد آخری آیت نازل ہوئی، ﴿وَاتَّقُوا يَوْمًا تُرْجَعُونَ فِيهِ إِلَى اللَّهِ... اور اس دن سے ڈرو جب تم اللہ کی طرف واپس لوٹائے جاؤ گے

یوں اس طرح ان میں کوئی تضاد نہیں ہے۔ ان روایات کا صحیح مفہوم یہ ہے کہ آخری آیت جو نازل ہوئی وہ یہ تھی، ﴿وَاتَّقُوا يَوْمًا تُرْجَعُونَ فِيهِ إِلَى اللَّهِ... اور اس دن سے ڈرو جب تم اللہ کی طرف واپس لوٹائے جاؤ گے“،  جبکہ قرآن کی نازل ہونے والی آخری آیات میں سُود کے بارے میں آیات شامل تھیں، جیسا کہ امام احمد، ابن ماجہ اور ابن مردویہ کی روایات میں واضح طور پر ذکر کیا گیا ہے۔

جہاں تک صحیح بخاری میں جو ذکر کیا گیا ہے کہ، "آخر ما نزل آية الربا"”جو آخری آیت نازل ہوئی وہ سُود کے بارے میں آیت تھی“، اسے دوسری روایات کی روشنی میں اس طرح سمجھا جاتا ہے کہ ”یہ (قرآن مجید کی) نازل ہونے والی آخری آیات میں سے ایک آیت تھی“۔ یہ فہم وحی کے نزول کے مطابق ہے، جہاں سُود کی آیات کے بعد یہ آیت نازل ہوئی، ﴿وَاتَّقُوا يَوْمًا تُرْجَعُونَ فِيهِ إِلَى اللَّهِ...اور اس دن سے ڈرو جب تم اللہ کی طرف واپس لوٹائے جاؤ گے

لہٰذا، یہ کہنا درست ہے کہ جو آخری آیات نازل ہوئیں ان میں سُود کی آیت بھی شامل ہے، اور ساتھ ہی یہ آیت بھی ﴿وَاتَّقُوا يَوْمًا تُرْجَعُونَ فِيهِ إِلَى اللَّهِ...اور اس دن سے ڈرو جب تم اللہ کی طرف واپس لوٹائے جاؤ گے

نتیجہ یہ کہ، جو آخری آیت نازل ہوئی وہ یہ ہے، ﴿وَاتَّقُوا يَوْمًا تُرْجَعُونَ فِيهِ إِلَى اللَّهِ... اور اس دن سے ڈرو جب تم اللہ کی طرف واپس لوٹائے جاؤ گے یہ آیت، رسول اللہ ﷺ کے حکم کے مطابق قرآن مجید میں سُود کی آیات کے بعد سورۃ البقرہ کی آیت 281 میں اپنی جگہ رکھی گئی۔

Last modified onبدھ, 22 جنوری 2025 21:17

Leave a comment

Make sure you enter the (*) required information where indicated. HTML code is not allowed.

اوپر کی طرف جائیں

دیگر ویب سائٹس

مغرب

سائٹ سیکشنز

مسلم ممالک

مسلم ممالک