بسم الله الرحمن الرحيم

التاريخ : 1 من رمــضان المبارك 1446هـ الموافق السبت, 01 آذار/مارس 2025 | رقم الإصدار: 1446 / 01 |
امیر حزب التحریر، جلیل القدر عالم عطا بن خلیل ابو الرشتہ کی جانب سے
ان کے سوشل میڈیا پیجز کے وزیٹرز کے لیے
1446 ہجری / 2025 عیسوی کے بابرکت ماہِ رمضان کے آغاز پر مبارکباد
بہترین امت کے نام جو انسانیت کے لیے اٹھائی گئی ہے... وہ مسلم امت جسے اللہ سبحانہ و تعالیٰ نے اپنی اطاعت کے شرف سے نوازا... دعوت کے معزز حاملین کے نام، جنہیں نہ تو تجارت غافل کرتی ہے اور نہ ہی خرید و فروخت اللہ کی یاد سے دور کرتی ہے... سوشل میڈیا پیجز کے معزز وزیٹرز کے نام جو اس میں موجود خیر کی طرف متوجہ ہیں...
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
تمام تر تعریفیں اللہ تبارک وتعالیٰ کے لئے ہی ہیں، اور درود و سلام ہو اللہ کے رسول ﷺ پر، ان کے اہلِ خانہ پر، صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین پر اور ان کے پیروکاروں پر۔ میں اللہ تعالیٰ سے دعا کرتا ہوں کہ وہ مسلمانوں کے روزے اور نمازوں کو قبول فرمائے اور ہمارے تمام گزشتہ گناہوں کو معاف فرمائے، جیسا کہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا، جس کو امام بخاری اور مسلم نے حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت کیا ہے، کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:
«مَنْ صَامَ رَمَضَانَ، إِيمَاناً وَاحْتِسَاباً، غُفِرَ لَهُ مَا تَقَدَّمَ مِنْ ذَنْبِهِ»
"جس نے ایمان اور ثواب کی نیت سے رمضان کے روزے رکھے، اس کے پچھلے گناہ معاف کر دیے جائیں گے"۔
ایک اور روایت میں، جو حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے، رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:
«مَنْ قَامَ رَمَضَانَ إِيمَاناً وَاحْتِسَاباً، غُفِرَ لَهُ مَا تَقَدَّمَ مِنْ ذَنْبِهِ»
"جس نے ایمان اور ثواب کی نیت سے رمضان میں قیام (صلوٰۃ) کیا، اس کے پچھلے گناہ معاف کر دیے جائیں گے"۔
اے میرے عزیز بھائیو!
اللہ سبحانہ و تعالیٰ نے ہجرت کے دوسرے سال، شعبان کے مہینے میں روزوں کو فرض کیا۔ رمضان وہ مہینہ ہے جس میں اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم نازل فرمایا، جیسا کہ ارشادِ باری تعالیٰ ہے:
﴿ شَهْرُ رَمَضَانَ الَّذِي أُنْزِلَ فِيهِ الْقُرْآنُ هُدًى لِلنَّاسِ وَبَيِّنَاتٍ مِنَ الْهُدَى وَالْفُرْقَانِ﴾
"رمضان کا مہینہ وہ ہے جس میں قرآن نازل کیا گیا، جو لوگوں کے لیے ہدایت ہے اور حق و باطل میں فرق کرنے والی روشن دلیل ہے"
( البقرة؛ 2:185)۔
یہ وہی مبارک مہینہ ہے جس میں اللہ تعالیٰ نے امتِ مسلمہ کو فتوحات اور کامیابیوں سے نوازا۔ 17 رمضان 2 ہجری کو غزوۂ بدر ہوا، جس میں مکہ کے مشرکین کو بدترین شکست ہوئی۔ پھر اس مبارک مہینے میں کئی عظیم معرکے سر ہوئے، جیسے 20 رمضان 8 ہجری کو فتح مکہ، 14 رمضان 31 ہجری کو معرکۂ بویب (جو عراق کے شہر کوفہ کے قریب پیش آیا اور جسے فارس کا یرموک کہا جاتا ہے) جہاں المثنیٰ کی قیادت میں مسلمان کامیاب ہوئے، پھر 17 رمضان 223 ہجری کو عموریہ کی فتح، اور 25 رمضان 658 ہجری کو معرکۂ عین جالوت، جس میں مسلمانوں نے تاتاریوں کو شکست دی۔ اس کے علاوہ بھی کئی فتوحات اس بابرکت مہینے میں حاصل ہوئیں…
اور روزہ قرآن کریم کے ساتھ منسلک ہے، جو ایسا نور ہے جس کے قریب باطل نہ تو آگے سے آ سکتا ہے اور نہ پیچھے سے... اور روزہ فتح و نصرت کے ساتھ منسلک ہے... روزہ جہاد کے ساتھ منسلک ہے... روزہ اللہ سبحانہ و تعالیٰ کے شرعی احکام کے نفاذ کے ساتھ منسلک ہے... اور ہر صاحبِ بصیرت جانتا ہے کہ اللہ تعالیٰ کے شرعی احکام ایک دوسرے سے جدا نہیں ہیں، خواہ وہ عبادات ہوں، جہاد ہو، معاملاتِ زندگی ہوں، اخلاق و کردار ہوں یا حدود و تعزیرات... یہ سب ایک ہی منور چراغ سے ماخوذ ہیں۔ جو شخص قرآن کریم کی آیات اور حدیثِ نبویہ کے نصوص پر غور کرتا ہے، وہ اس حقیقت کو واضح اور نمایاں طور پر دیکھتا ہے، کیونکہ ایک مسلمان جب قرآن کی آیات تلاوت کرتا ہے، تو وہ یہ بھی پڑھتا ہے: ﴿وَأَقِيمُوا الصَّلَاةَ﴾ "اور نماز قائم کرو" [سورۃ البقرہ:43]۔
اور وہ یہ بھی پڑھتا ہے:
﴿وَأَنِ احْكُمْ بَيْنَهُمْ بِمَا أَنْزَلَ اللهُ﴾ "اور ان کے درمیان اسی کے مطابق فیصلہ کرو جو اللہ نے نازل کیا ہے" [سورۃ المائدہ:49]۔
اور وہ یہ بھی پڑھتا ہے:
﴿كُتِبَ عَلَيْكُمُ الصِّيَامُ﴾ "تم پر روزہ فرض کیا گیا ہے" [سورۃ البقرہ:183]۔
جیسے وہ یہ بھی پڑھتا ہے:
﴿كُتِبَ عَلَيْكُمُ الْقِتَـالُ﴾ "تم پر قتال فرض کیا گیا ہے" [سورۃ البقرہ:216]۔
اسی طرح وہ احادیث میں حج کے متعلق پڑھتا ہے:
«خُذُوا عَنِّي مَنَاسِكَكُمْ» "مجھ سے اپنے (حج) مناسک سیکھو" (بیہقی نے سنن الکبریٰ میں جابرؓ سے روایت کیا)۔
اور وہ حدود کے بارے میں بھی پڑھتا ہے:
«خُذُوا عَنِّي، خُذُوا عَنِّي، قَدْ جَعَلَ اللهُ لَهُنَّ سَبِيلاً، الْبِكْرُ بِالْبِكْرِ جَلْدُ مِائَةٍ وَنَفْيُ سَنَةٍ، وَالثَّيِّبُ بِالثَّيِّبِ جَلْدُ مِائَةٍ، وَالرَّجْمُ»
"مجھ سے سیکھو، مجھ سے سیکھو۔ اللہ نے ان کے لیے ایک راستہ مقرر کیا ہے (زنا کے بارے میں): کنوارے کے لیے کنواری کے ساتھ (زنا کے بارے میں) —سو کوڑوں کی سزا اور ایک سال کی جلاوطنی۔ شادی شدہ کے لیے شادی شدہ کے ساتھ ( زنا کی صورت میں) —سو کوڑوں کی سزا اور سنگساری (موت واقع ہو جانے تک)" (مسلم نے عبادہ بن صامتؓ سے روایت کیا)۔
اسی طرح وہ مسلمان معاملات (تجارت اور خرید و فروخت) میں یہ پڑھتا ہے:
«البَيِّعَانِ بِالخِيَارِ مَا لَمْ يَتَفَرَّقَا - أو قال حتى يتفرقا»
"بیچنے والا اور خریدنے والا، جب تک وہ جدا نہ ہو جائیں، ان کے پاس اختیار باقی رہتا ہے – یا فرمایا جب تک وہ جدا نہ ہو جائیں" (بخاری نے حکیم بن حزامؓ سے روایت کیا)۔
اور بالکل ایسے ہی وہ مسلمان خلافت کے حوالے سے بیعت کے متعلق بھی پڑھتا ہے:
« وَمَنْ مَاتَ وَلَيْسَ فِي عُنُقِهِ بَيْعَةٌ، مَاتَ مِيتَةً جَاهِلِيَّةً»
"جو اس حال میں مر جائے کہ اس کی گردن میں کسی خلیفہ کی بیعت کا طوق نہ ہو، وہ جاہلیت کی موت مرے گا" (مسلم نے عبداللہ بن عمرؓ سے روایت کیا)۔
یہی وجہ ہے کہ اسلام ایک ناقابل تقسیم مکمل نظام ہے، اور اس کی دعوت بھی ایک ہے، جو ریاست، زندگی اور معاشرے میں نافذ کی جانی چاہیے۔ جو کوئی اللہ کی آیات کو الگ کرتا ہے اور یہ کہتا ہے کہ دین کو زندگی سے الگ ہونا چاہیے، یا دین کو سیاست سے الگ کرنا چاہیے، وہ ایک عظیم گناہ اور سنگین جرم کا مرتکب ہوتا ہے، جو اسے دنیا میں رسوائی اور آخرت میں دردناک عذاب کی طرف لے جائے گا۔
اے مسلمانو!
میں آپ کو یہ سب کچھ ان دنوں میں یاد دلا رہا ہوں جب یہودیوں کی وحشیانہ جارحیت مغربی کنارے پر شدت اختیار کر چکی ہے، اس کے علاوہ غزہ میں بھی، جہاں یہودی وجود غزہ کے لوگوں کی بہادری سے شدید حیران ہے۔ کئی مہینے گزر چکے ہیں اور وحشی یہودی وجود ان کامیابیوں میں سے کوئی بھی حاصل نہ کر سکا جن کا وہ دعویٰ کرتا تھا۔ چنانچہ اس نے اپنے اعصاب کھو دیے اور بجائے اس کے کہ وہ ان مؤمنوں کے اس گروہ سے آمنے سامنے ہو کر لڑتا، جو اپنے محدود ہتھیاروں کے ساتھ مزاحمت کر رہے ہیں، جبکہ وہ وجود خود امریکہ اور مغرب کے اسلحے سے لیس ہے، اس نے عورتوں اور بچوں کا قتل عام شروع کر دیا، تاکہ کوئی ایسی کامیابی حاصل کر سکے جسے وہ اپنی فتح کے طور پر بیان کر سکے!
پھر یہودیوں کی جارحیت لبنان اور شام تک بڑھ گئی، جہاں وہ اندھا دھند ظلم کر رہے ہیں اور انہیں کوئی روکنے والا نہیں۔ انہوں نے لبنان پر حملہ کیا اور اس کے کچھ حصوں پر قبضہ کر لیا... اور شام پر حملہ کیا اور اس کے کچھ حصوں پر قبضہ کر لیا، جبکہ مسلم حکمرانوں کے عین سامنے یہ سب کچھ برپا ہوتا رہا۔ بجائے اس کے کہ یہ حکمران مسلمانوں کی افواج کو متحرک کرتے تاکہ وہ دشمن پر ایسی کاری ضرب لگاتے کہ یہودی پیچھے ہٹنے پر مجبور ہو جاتے، ہم دیکھتے ہیں کہ یہ حکمران ان کے ساتھ ایک کے بعد ایک معاہدے کر رہے ہیں، بجائے اس کے کہ وہ اللہ سبحانہ و تعالیٰ، اس کے رسول ﷺ اور مؤمنوں کے سامنے شرم محسوس کریں!
اے مسلمانو!
یہود کے خلاف قتال اور ان کے وجود کا خاتمہ ایک متقی اور مجاہد خلیفہ کی قیادت میں ہونا چاہیے، جو اس جابر بادشاہت اور ایجنٹ حکمرانوں کے دور کے بعد امت کی قیادت سنبھالے۔ رسول اللہ ﷺ کی بشارتیں، ان شاء اللہ، تاخیر کا شکار نہیں ہوں گی، جیسا کہ احمد نے رسول اللہ ﷺ کی حدیث روایت کی:
« ثُمَّ تَكُونُ مُلْكاً جَبْرِيَّةً فَتَكُونُ مَا شَاءَ اللهُ أَنْ تَكُونَ، ثُمَّ يَرْفَعُهَا إِذَا شَاءَ أَنْ يَرْفَعَهَا، ثُمَّ تَكُونُ خِـلَافَةً عَلَى مِنْهَاجِ النُّبُوَّةِ. ثُمَّ سَكَتَ»
"پھر جابرانہ حکمرانی ہوگی، اور وہ اس وقت تک رہے گی جب تک اللہ چاہے گا، پھر جب اللہ چاہے گا تو اسے ختم کر دے گا، پھر خلافت علیٰ منہاج النبوۃ ہوگی۔ پھر آپ ﷺ خاموش ہو گئے" (مسند احمد)۔
اسی طرح یہ اس حدیث کی بھی تصدیق ہے جو مسلم نے روایت کی :
«لَتُقَاتِلُنَّ الْيَهُودَ فَلَتَقْتُلُنَّهُمْ»
"تم ضرور یہود سے قتال کرو گے اور یقیناً انہیں قتل کرو گے... " (صحیح مسلم)۔
آخر میں، جس طرح ہمیں روزے کا اہتمام کرنا چاہیے تاکہ اللہ سبحانہ و تعالیٰ ہم سے راضی ہو جائے اور ہمارے پچھلے گناہوں کو معاف کر دے، اسی طرح ہمیں اسلامی زندگی کی بحالی کے لیے خلافت راشدہ کے قیام کے لیے کام کرنے کا بھی اہتمام کرنا چاہیے، تاکہ ہم دنیا میں ان لوگوں میں شامل ہو سکیں جو اللہ کے احکام کو نافذ کر کے کامیاب ہوئے، رسول اللہ ﷺ کے رایہ (علم) عُقاب کے سائے میں، جو لَا اِلٰهَ اِلَّا اللّٰهُ مُحَمَّدٌ رَسُولُ اللّٰهِ کا علم ہے۔ اور ہم آخرت میں بھی کامیاب ہونے والوں میں شامل ہو جائیں، اللہ کے اذن سے، اس کے سایے میں جس دن اس کے سائے کے سوا کوئی سایہ نہ ہوگا۔ تاکہ ہم دونوں جہانوں میں کامیابی حاصل کریں، اور یہی سب سے بڑی کامیابی ہے۔
والسّلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
یکم رمضان المبارک 144آ پ کا بھائی
بمطابق 1 مارچ 2025ء عطاء بن خلیل ابو الرشتہ
# امیر_حزب_التحریر