تفسیر سورہ البقرہ آیات 97 تا 100
بسم الله الرحمن الرحيم
مشہور فقیہ اور رہنما، امیر حزب التحریر، شیخ عطا بن خلیل ابو الرَشتہ کی کتاب "التیسیرفی اصول التفسیر" سے اقتباس
(ترجمہ)
قُلْ مَن كَانَ عَدُوًّا لِّجِبْرِيلَ فَإِنَّهُ نَزَّلَهُ عَلَى قَلْبِكَ بِإِذْنِ اللَّهِ مُصَدِّقًا لِّمَا بَيْنَ يَدَيْهِ وَهُدًى وَبُشْرَى لِلْمُؤْمِنِينَ
مَن كَانَ عَدُوًّا لّلَّهِ وَمَلـئِكَتِهِ وَرُسُلِهِ وَجِبْرِيلَ وَمِيكَـلَ فَإِنَّ اللَّهَ عَدُوٌّ لِّلْكَـفِرِينَ
وَلَقَدْ أَنزَلْنَآ إِلَيْكَ ءَايَـتٍ بَيِّنَـتٍ وَمَا يَكْفُرُ بِهَآ إِلاَّ الْفَـسِقُونَ
أَوَكُلَّمَا عَـهَدُواْ عَهْدًا نَّبَذَهُ فَرِيقٌ مِّنْهُم بَلْ أَكْثَرُهُمْ لاَ يُؤْمِنُونَ
"کہہ دیجئے(اے محمدﷺ) کہ جو جبریل سے دشمنی رکھے جس نے اللہ کے حکم سے اس قرآن کو آپ کے قلب پر نازل کیا جو اپنے سے پہلی کتابوں کی تصدیق کرتا ہے اور مؤمنوں کے لیے خوشخبری ہے۔ تو جو شخص اللہ، اس کے فرشتوں، اس کے رسولوں اورجبریل اور میکائیل کا دشمن ہو، تو اللہ بھی ایسے کافروں سے دشمنی رکھتا ہے۔بے شک ہم نے بہت ہی واضح نشانیاں تمہاری طرف بھیجی ہیں،جن کو فاسقوں کے علاوہ کوئی نہیں جھٹلاتا۔ کیا یہ بات نہیں کہ جب بھی انہوں نے کوئی عہد کیا ان میں سے ایک فریق نے عہد شکنی کی بلکہ ان میں سے اکثر ایمان سے خالی ہیں "۔
ان آیات میں اللہ تعالٰی یہ بیان فرماتے ہیں کہ :
1۔ یہود نے اس فرشتے کے بارے میں رسول اللہ ﷺ سے سوال کیا جو آپ ﷺ کے پاس آتا ہے، رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ: جبریل علیہ السلام۔ یہودیوں نے کہا کہ: یہ تو ہمارا دشمن ہے یہ تو انبیاء کے پاس کتاب لے کر نہیں آتا بلکہ یہ عذاب لے کر آتا ہے، اگر تمہارے پاس آنے والا میکائیل ہوتا تو ہم تم پر ایمان لاتے۔ اس پر اللہ نے یہ آیتیں نازل کیں جن میں اپنے رسول ﷺ سے فرمایا کہ جو شخص جبریل کا دشمن ہے اس سے کہو کہ جبریل ہی نے یہ قرآن میرے دل میں اتار دیا ہے ۔ یہ قرآن پہلے نازل کی گئی تمام کتابوں (توراۃ اور انجیل)کی تصدیق کرتا ہے اور یہی مؤمنوں کے لیے ہدایت اور خوشخبری ہے۔لہٰذا تمھارا یہ کہنا غلط ہے کہ جبریل عذاب لے کر آتے ہیں۔
قرآن کو ھُدَی (ہدایت) اس لیے کہا گیا کہ مؤمن اس سے ہدایت لیتا ہے اور اس کی پیروی کرتا ہے اور اس کو قائد بنا کر اس کے اوامر اور نواہی کے مطابق چلتا ہے۔ 'ہادی' ہر چیز کے آگے کے حصے کو کہتے ہیں جس کے پیچھے باقی چلتے ہیں اسی لیے گھوڑوں میں سے آگے والوں کو 'ہوادی' کہا جاتا ہے۔
قرآن کو بُشرَی (خوشخبری) کہا گیا ہے کیونکہ یہ مؤمنوں کو اس جنت کی خوشخبری دیتا ہے جو قیامت کے دن ان کے واسطے تیار کی گئی ہے۔
بَینَ یَدَیہِ سے مراد اس کے سامنے یا آگے اور اس کا مطلب اس سے پہلے نازل کی گئی کتابیں ہیں۔
فَإِنَّهُ نَزَّلَهُ عَلَى قَلْبِكَ یہ شرط کا جواب ہے کہ جو بھی اس کا دشمن ہو ۔۔۔اس سے کہہ دو کہ اسی نے اس قرآن کو اتارا ہے۔۔۔
2 ۔ اس کے بعد اللہ نے یہودیوں کو یہ بتا دیا کہ میکائیل اور جبریل دونوں فرشتے ہیں اور جس نے ان میں سے کسی سے بھی دشمنی رکھی تو اس نے تمام فرشتوں سے دشمنی مول لی۔ جو اللہ ، اس کے رسولوں اور اس کے فرشتوں سے دشمنی مول لے تو اللہ بھی کافروں کو دشمن قرار دیتا ہے۔ اور جو کوئی بھی اللہ اور اس کے رسول اور اس کے فرشتوں کا دشمن ہے تو وہ کافروں میں سے ہے، فَإِنَّ اللَّهَ عَدُوٌّ لِّلْكَـفِرِينَ "یقیناً اللہ بھی کافروں کا دشمن ہے "۔
اللہ نے ملائکہ کے ذکر کے بعد جبریل اور میکائیل کا ذکر کیا جو عام کے ذکر کے بعد خاص کے ذکر کی اقسام میں سے ہے۔
3 ۔ اس کے بعد اللہ سبحانہ وتعالٰی نے اپنے رسول ﷺ پر ایسی واضح اور قطعی آیات نازل فرمائیں جو اس کی سچائی کی روشن دلیل ہیں جن کو سوائے اس شخص کے کوئی نہیں جھٹلا سکتا جو اپنے رب کے حکم سے سرتابی کرے ،اس کے شرع کو نظر انداز کرے اور اس کی حدود کو پامال کرے۔
4 ۔ اللہ سبحانہ وتعالٰی یہودیوں کی عہد شکنی کی عادت کا ذکر کرتے ہیں کہ وہ جب بھی عہد کرتے ہیں اس کو توڑ ڈالتے ہیں۔ اس میں اوکُلمَا کا لفظ استعمال کیا جو ظرف ہے اور شرط اور اس کے جواب کو دہرانے کا فائدہ دیتا ہے،یعنی جب بھی وہ کوئی وعدہ کرتے ہیں لامحالہ بدعہدی کرتے ہیں۔
نَبَذَهُ فَرِيقٌ مِنْهُمْ کامطلب یہ ہے کہ ان میں سے ایک گروہ ضرور عہد شکنی کرتا ہے۔
بَلْ أَكْثَرُهُمْ لَا يُؤْمِنُونَ "بلکہ ان میں سے اکثر ایمان ہی نہیں رکھتے" یہ اس بات کی دلیل ہے کہ عہد توڑنے والا فریق ہی اکثریت ہے اقلیت نہیں جیسا کہ لفظ فریق سے گمان ہو سکتا ہے۔